نصر اللہ خالد
رکن
- شمولیت
- اگست 23، 2012
- پیغامات
- 188
- ری ایکشن اسکور
- 143
- پوائنٹ
- 70
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ قَالَ: حَدَّثَنَا الْبُخَارِيُّ قَالَ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةً جَهَرَ فِيهَا فَقَرَأَ خَلْفَهُ رَجُلٌ فَقَالَ: «لَا يَقْرَأَنَّ أَحَدُكُمْ وَالْإِمَامُ يَقْرَأُ إِلَّا بِأُمِّ الْقُرْآنِ»
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔رسول اللہ ﷺ ایک جہری نماز پڑھا رہے تھے،تو آپ کے پیچھے کوئی آدمی قراءت کر رہا تھا،(نماز مکمل ہونے کے بعد) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"تم میں سے کوئی بھی کچھ نہ پڑھے اس حال میں کہ امام قراءت کر رہا ہو سوائے سورۃ فاتحہ کے۔" قراءت خلف الامام از امام بخاری(34)
یہ روایت متعدد اسناد کے ساتھ بہت سی کتب میں مذکور ہے۔
امام بخاری پر حکم خیال سےلگایئے گا نہیں تو روٹی بند ہوجائے گی کیوں کہ تکمیل بخاری کا اشتہار تو آپ کا ہم سے بھی زیادہ بڑا ہوتا ہے۔ یہ میرے گھر کے ساتھ ہی جامعہ خیرالمدارس ہے اگر کہتے ہیں تو ان سےلے کر یہاں اپ لوڈ کر دیتا ہوں۔(کانا آئیکون)
آپ نے حدیث پیش کی زید رضی اللہ عنہ کی صحیح مسلم کے حوالے سے ہمیں اس سے کوئی اختلاف نہیں کیوں کہ یہ اوپر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان موجود ہے کہ کچھ نہ پڑھو سوائے فاتحہ کے لازمی بات ہے کہ زید رضی اللہ عنہ کا بھی یہ ہی مقصد تھا،جیسا کے امام نووی رحمہ اللہ نے اس کا ذکر کیا ہے،حدیث رسول کے مقابلے میں زید رضی اللہ عنہ مفرد ہیں جب کہ امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنے کی روایات کثرت کے ساتھ مذکور ہیں۔
یہ مقلدین بڑے عجیب ہیں اگر تو صحابی کی بات اپنے موافق آ جائے تو بس باقی سب لوگ صحابہ کے گستاخ ہو جاتے ہین،اگر اپنے خلاف آ جائے تو سیاسی فیصلہ کہہ کر دم دبا لیتے ہیں۔
مثال کے طور پر: عمر رضی اللہ عنہ سے بیس رکعت تروایح کی روایت سندا ضعیف ہے اور ان کے علماء بھی اس کا اقرار کر چکے ہیں،جب کے موطا امام مالک میں گیارہ رکعت کی صحیح سند کے ساتھ عمر رضی اللہ عنہ سے حدیث ثابت ہے اس کو نہیں مانتے۔بڑے مؤدب ہیں بائی صحابہ کرام کے۔
اب ایک چٹکلا اور لیں: عمر رضی اللہ عنہ نے تین طلاقوں کو تین شمار کر دیا لیکن آخری دور میں اپنےاس فعل سے رجوع کر لیا،پہلی بات کو مانتے ہیں اور دوسری کو کہتے ہیں سیاسی فیصلہ ہے جی۔۔ہاہاہاہاہا۔۔ضرورت سے زیادہ ادب نہیں ہو گیا۔۔؟ پانی بھیجوں یا پاس پڑاہوا ہے۔۔۔؟
ایک اور سنیں: ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کو یہ غیر فقہی کہتے ہیں، اللہ کی قسم اگر صحابہ کرام فقہی نہیں تھے تو دنیا میں کسی ماں نے فقہی پیدا ہی نہیں کیا۔۔۔ ان کے ادب کی یہ چند مثالیں دیں ہیں۔اگر مزید کی خواہش ہو نہ تو بتا دینا مٹھو میں وہ بھی پیش کر دوں گا۔
بھائی نے بیہقی شریف سے ایک حدیث نقل کی اس پر بھی غور کرلیں۔
وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَدَّادٍ , عَنْ أَبِي الْوَلِيدِ , عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , أَنَّ رَجُلًا قَرَأَ خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ رَجُلٌ فَنَهَاهُ , فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ: أَتَنْهَانِي أَنْ أَقْرَأَ خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ , فَتَذَاكَرَا ذَلِكَ حَتَّى سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ صَلَّى خَلْفَ الْإِمَامِ فَإِنَّ قِرَاءَتَهُ لَهُ قِرَاءَةٌ». أَبُو الْوَلِيدِ هَذَا مَجْهُولٌ , وَلَمْ يَذْكُرْ فِي هَذَا الْإِسْنَادِ جَابِرًا غَيْرُ أَبِي حَنِيفَةَ ۔
ایک آدمی نے نبیﷺ کے پیچھے ظہر اور عصر میں قراءت کی تو ایک آدمی نے اشارے سے اسے منع کیا۔ نماز کے بعد اس نے کہا: کیا تم مجھے نبیﷺ کے پیچھے پڑھنے سے منع کرتے ہو؟ مذاکرہ ہونے لگا تو نبیﷺ نے سن لیا۔ آپﷺ نے فرمایا: جو امام کے پیچھے ہو تو امام کی قراءت ہی مقتدی کےلیے کافی ہے۔
اس روایت میں ابو الولید مجہول ہے اور سند میں جابر کا ذکر صرف ابو حنیفہ نے کیا۔۔سنن دار قطنی(1236)
یہ روایت مجھے بیہقی میں کہیں نہیں ملی البتہ جابربن عبداللہ سے یہ روایت اسی سند کے ساتھ آتی ہے جو کہ ہے ہی ضعیف بلکہ ضعیف جدا۔،
یہ مذاق نہیں ہے کہ اپنی بات کو ثابت کرنے کی غرض سے اتنی کثیر صحیح روایات کا انکار کیا جا رہا ہے وہ بھی ایک ضعیف جدا روایت کے ساتھ۔
کوئی تو خدا کا خوف کریں جناب بہت زیادہ نہیں بس تھوڑا سا ہی کر لیں۔
اور ایک صحیح روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ترک فاتحہ پر دے دیں ابھی ایک منٹ سے پہلے بات ختم کر دیں گے مان لیں گے فوراً حکم کو۔
نوٹ: اوپر کی تمام روایات اصلی عربی طبع سے لی گئی ہیں۔ اور یہ ساری باتیں میں نے سہج صاحب کےلئے نہیں جمع کیں بلکہ ان لوگوں کے لئے جمع کی ہیں جو فضول اشکالات کی وجہ سے پریشان ہوتے ہیں۔تاکہ وہ ان روایات کو دیکھ کر حق سچ کو جان سکیں۔سہج صاحب اتنی احادیث دیکھ کر دانت نہیں پیسنے یہ آپ کےلئے نہیں ہیں آپ کےلئے تو حدیث کے علاوہ کی باتیں ہیں کیوں کہ حدیث کا جواب تو آپ دے نہیں سکتے،باقی باتیں چھوڑ نہیں سکتے اسلئے باقی باتوں کے ساتھ غصہ اتاریئے گا حدیث کو معاف کر دیجئے گا۔
اللہ ہدایت دیں۔ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔رسول اللہ ﷺ ایک جہری نماز پڑھا رہے تھے،تو آپ کے پیچھے کوئی آدمی قراءت کر رہا تھا،(نماز مکمل ہونے کے بعد) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"تم میں سے کوئی بھی کچھ نہ پڑھے اس حال میں کہ امام قراءت کر رہا ہو سوائے سورۃ فاتحہ کے۔" قراءت خلف الامام از امام بخاری(34)
یہ روایت متعدد اسناد کے ساتھ بہت سی کتب میں مذکور ہے۔
امام بخاری پر حکم خیال سےلگایئے گا نہیں تو روٹی بند ہوجائے گی کیوں کہ تکمیل بخاری کا اشتہار تو آپ کا ہم سے بھی زیادہ بڑا ہوتا ہے۔ یہ میرے گھر کے ساتھ ہی جامعہ خیرالمدارس ہے اگر کہتے ہیں تو ان سےلے کر یہاں اپ لوڈ کر دیتا ہوں۔(کانا آئیکون)
آپ نے حدیث پیش کی زید رضی اللہ عنہ کی صحیح مسلم کے حوالے سے ہمیں اس سے کوئی اختلاف نہیں کیوں کہ یہ اوپر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان موجود ہے کہ کچھ نہ پڑھو سوائے فاتحہ کے لازمی بات ہے کہ زید رضی اللہ عنہ کا بھی یہ ہی مقصد تھا،جیسا کے امام نووی رحمہ اللہ نے اس کا ذکر کیا ہے،حدیث رسول کے مقابلے میں زید رضی اللہ عنہ مفرد ہیں جب کہ امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنے کی روایات کثرت کے ساتھ مذکور ہیں۔
یہ مقلدین بڑے عجیب ہیں اگر تو صحابی کی بات اپنے موافق آ جائے تو بس باقی سب لوگ صحابہ کے گستاخ ہو جاتے ہین،اگر اپنے خلاف آ جائے تو سیاسی فیصلہ کہہ کر دم دبا لیتے ہیں۔
مثال کے طور پر: عمر رضی اللہ عنہ سے بیس رکعت تروایح کی روایت سندا ضعیف ہے اور ان کے علماء بھی اس کا اقرار کر چکے ہیں،جب کے موطا امام مالک میں گیارہ رکعت کی صحیح سند کے ساتھ عمر رضی اللہ عنہ سے حدیث ثابت ہے اس کو نہیں مانتے۔بڑے مؤدب ہیں بائی صحابہ کرام کے۔
اب ایک چٹکلا اور لیں: عمر رضی اللہ عنہ نے تین طلاقوں کو تین شمار کر دیا لیکن آخری دور میں اپنےاس فعل سے رجوع کر لیا،پہلی بات کو مانتے ہیں اور دوسری کو کہتے ہیں سیاسی فیصلہ ہے جی۔۔ہاہاہاہاہا۔۔ضرورت سے زیادہ ادب نہیں ہو گیا۔۔؟ پانی بھیجوں یا پاس پڑاہوا ہے۔۔۔؟
ایک اور سنیں: ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کو یہ غیر فقہی کہتے ہیں، اللہ کی قسم اگر صحابہ کرام فقہی نہیں تھے تو دنیا میں کسی ماں نے فقہی پیدا ہی نہیں کیا۔۔۔ ان کے ادب کی یہ چند مثالیں دیں ہیں۔اگر مزید کی خواہش ہو نہ تو بتا دینا مٹھو میں وہ بھی پیش کر دوں گا۔
بھائی نے بیہقی شریف سے ایک حدیث نقل کی اس پر بھی غور کرلیں۔
وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَدَّادٍ , عَنْ أَبِي الْوَلِيدِ , عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , أَنَّ رَجُلًا قَرَأَ خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ رَجُلٌ فَنَهَاهُ , فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ: أَتَنْهَانِي أَنْ أَقْرَأَ خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ , فَتَذَاكَرَا ذَلِكَ حَتَّى سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ صَلَّى خَلْفَ الْإِمَامِ فَإِنَّ قِرَاءَتَهُ لَهُ قِرَاءَةٌ». أَبُو الْوَلِيدِ هَذَا مَجْهُولٌ , وَلَمْ يَذْكُرْ فِي هَذَا الْإِسْنَادِ جَابِرًا غَيْرُ أَبِي حَنِيفَةَ ۔
ایک آدمی نے نبیﷺ کے پیچھے ظہر اور عصر میں قراءت کی تو ایک آدمی نے اشارے سے اسے منع کیا۔ نماز کے بعد اس نے کہا: کیا تم مجھے نبیﷺ کے پیچھے پڑھنے سے منع کرتے ہو؟ مذاکرہ ہونے لگا تو نبیﷺ نے سن لیا۔ آپﷺ نے فرمایا: جو امام کے پیچھے ہو تو امام کی قراءت ہی مقتدی کےلیے کافی ہے۔
اس روایت میں ابو الولید مجہول ہے اور سند میں جابر کا ذکر صرف ابو حنیفہ نے کیا۔۔سنن دار قطنی(1236)
یہ روایت مجھے بیہقی میں کہیں نہیں ملی البتہ جابربن عبداللہ سے یہ روایت اسی سند کے ساتھ آتی ہے جو کہ ہے ہی ضعیف بلکہ ضعیف جدا۔،
یہ مذاق نہیں ہے کہ اپنی بات کو ثابت کرنے کی غرض سے اتنی کثیر صحیح روایات کا انکار کیا جا رہا ہے وہ بھی ایک ضعیف جدا روایت کے ساتھ۔
کوئی تو خدا کا خوف کریں جناب بہت زیادہ نہیں بس تھوڑا سا ہی کر لیں۔
اور ایک صحیح روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ترک فاتحہ پر دے دیں ابھی ایک منٹ سے پہلے بات ختم کر دیں گے مان لیں گے فوراً حکم کو۔
نوٹ: اوپر کی تمام روایات اصلی عربی طبع سے لی گئی ہیں۔ اور یہ ساری باتیں میں نے سہج صاحب کےلئے نہیں جمع کیں بلکہ ان لوگوں کے لئے جمع کی ہیں جو فضول اشکالات کی وجہ سے پریشان ہوتے ہیں۔تاکہ وہ ان روایات کو دیکھ کر حق سچ کو جان سکیں۔سہج صاحب اتنی احادیث دیکھ کر دانت نہیں پیسنے یہ آپ کےلئے نہیں ہیں آپ کےلئے تو حدیث کے علاوہ کی باتیں ہیں کیوں کہ حدیث کا جواب تو آپ دے نہیں سکتے،باقی باتیں چھوڑ نہیں سکتے اسلئے باقی باتوں کے ساتھ غصہ اتاریئے گا حدیث کو معاف کر دیجئے گا۔