• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہر نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
مندرجہ بالا "فیصلہ" کس کا ہے ؟ "خود کا" ؟ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ؟
مزکورہ "فیصلہ" اگر خود کا ہے اور یقینا "خود" کا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بلکل بھی نہیں تو اس "خود" کئیے گئے "فیصلہ" کو مان کر آپ نام نہاد اہل حدیث مقلد بنے کہ نہیں "خود" "فیصلہ" کرنے والی شخصیت کے ؟
مگر کیا کیا جاسکتا ہے آپ نام نہاد اہل حدیث حضرات "خود" "فیصلہ" کرتے ہو اور فرماتے ہو کہ یہ نبی کا فیصلہ ہے "خود" حکم بناتے ہو اور کہتے ہو یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ھے ۔
چلو میں آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم دکھاتا ہو دیکھو۔

اب مانو اہل حدیث صاحب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ۔اور اگلا حکم ایک صحابی رضی اللہ عنہ کا دیکھو ۔

اوہ معاف کیجئے گا جناب میں بھول گیا تھا آپ نام نہاد اہل حدیث افراد کا نعرہ ، قول صحابی حجت نیست ، چلو اب دیکھتے ہیں آپ کس کا حکم مانتے ہو
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ؟
یا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی رضی اللہ عنہ کا ؟


شکریہ

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ جَابِرٍ عَنِ الشَّعْبِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ جَاءَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي مَرَرْتُ بِأَخٍ لِي مِنْ بَنِي قُرَيْظَةَ فَكَتَبَ لِي جَوَامِعَ مِنْ التَّوْرَاةِ أَلَا أَعْرِضُهَا عَلَيْكَ قَالَ فَتَغَيَّرَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ ثَابِتٍ فَقُلْتُ لَهُ أَلَا تَرَى مَا بِوَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ عُمَرُ رَضِينَا بِاللَّهِ تَعَالَى رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَسُولًا قَالَ فَسُرِّيَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْ أَصْبَحَ فِيكُمْ مُوسَى ثُمَّ اتَّبَعْتُمُوهُ وَتَرَكْتُمُونِي لَضَلَلْتُمْ إِنَّكُمْ حَظِّي مِنْ الْأُمَمِ وَأَنَا حَظُّكُمْ مِنْ النَّبِيِّينَ


مسند احمد:جلد ہشتم:حدیث نمبر 220 ، مسند احمد جلد 4 صفحہ 265
حضرت عبداللہ بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک کتاب لے کر آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! بنوقریظہ میں میرا اپنے ایک بھائی پر گذر ہوا اس نے تورات کی جامع باتیں لکھ کر مجھے دی ہیں کیا وہ میں آپ کے سامنے پیش کروں ؟ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور کا رنگ بدل گیا میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کو نہیں دیکھ رہے ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کر عرض کیا ہم اللہ کو رب مان کر، اسلام کو دین مان کر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول مان کر راضی ہیں تو نبی کریم کی وہ کیفیت ختم ہوگئی پھر فرمایااس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے اگر موسیٰ بھی زندہ ہوتے- اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی پیروی کرنے لگتے تو تم گمراہ ہوجاتے امتوں سے تم میرا حصہ ہو انبیاء میں سے میں تمہارا حصہ ہوں ۔
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ جَابِرٍ عَنِ الشَّعْبِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ جَاءَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي مَرَرْتُ بِأَخٍ لِي مِنْ بَنِي قُرَيْظَةَ فَكَتَبَ لِي جَوَامِعَ مِنْ التَّوْرَاةِ أَلَا أَعْرِضُهَا عَلَيْكَ قَالَ فَتَغَيَّرَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ ثَابِتٍ فَقُلْتُ لَهُ أَلَا تَرَى مَا بِوَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ عُمَرُ رَضِينَا بِاللَّهِ تَعَالَى رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَسُولًا قَالَ فَسُرِّيَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْ أَصْبَحَ فِيكُمْ مُوسَى ثُمَّ اتَّبَعْتُمُوهُ وَتَرَكْتُمُونِي لَضَلَلْتُمْ إِنَّكُمْ حَظِّي مِنْ الْأُمَمِ وَأَنَا حَظُّكُمْ مِنْ النَّبِيِّينَ


مسند احمد:جلد ہشتم:حدیث نمبر 220 ، مسند احمد جلد 4 صفحہ 265
حضرت عبداللہ بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک کتاب لے کر آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! بنوقریظہ میں میرا اپنے ایک بھائی پر گذر ہوا اس نے تورات کی جامع باتیں لکھ کر مجھے دی ہیں کیا وہ میں آپ کے سامنے پیش کروں ؟ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور کا رنگ بدل گیا میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کو نہیں دیکھ رہے ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کر عرض کیا ہم اللہ کو رب مان کر، اسلام کو دین مان کر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول مان کر راضی ہیں تو نبی کریم کی وہ کیفیت ختم ہوگئی پھر فرمایااس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے اگر موسیٰ بھی زندہ ہوتے- اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی پیروی کرنے لگتے تو تم گمراہ ہوجاتے امتوں سے تم میرا حصہ ہو انبیاء میں سے میں تمہارا حصہ ہوں ۔
ماشاء اللہ
لگتا ہے موصوف صرف اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہی مانتے ہیں ،تو پھر آپ ہی بتادیجئے کہ یہ "فیصلہ" کس کا ہے؟

::: ہر نماز کی ہر رکعات میں سورہ فاتحہ پڑھنا امام اور مقتدی دونوں پر واجب ہے :::


اگر کسی امتی کا فیصلہ کہیں تو پھر ایسا "فیصلہ" کرنے والا کون ہوا ؟
مشرک؟
یا
بدعتی؟
برائے مہربانی ٹودی پوائنٹ بتائیے گا
شکریہ
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
ماشاء اللہ
لگتا ہے موصوف صرف اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہی مانتے ہیں ،تو پھر آپ ہی بتادیجئے کہ یہ "فیصلہ" کس کا ہے؟





اگر کسی امتی کا فیصلہ کہیں تو پھر ایسا "فیصلہ" کرنے والا کون ہوا ؟
مشرک؟
یا
بدعتی؟
برائے مہربانی ٹودی پوائنٹ بتائیے گا
شکریہ
اگر آپ میں عقل ہوتی تو اس طرح کا سوال نہیں کرتے

الحمد للہ :
نماز ميں سورۃ فاتحہ كى قرآت نماز كے اركان ميں سے ايك ركن ہے، چاہے نمازى امام ہو يا مقتدى، يا منفرد؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس نے فاتحہ الكتاب نہ پڑھى اس كى كوئى نماز نہيں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 714 ).
سورۃ فاتحہ پڑھنى واجب ہے، اس كى دليل رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا عمومى فرمان ہے:
" جو شخص فاتحۃ الكتاب نہيں پڑھتا اس كى نماز ہى نہيں "
اور جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے غلط طريقہ سے نماز ادا كرنے والے صحابى كو نماز سكھائى تو اسے سورۃ فاتحہ پڑھنے كا حكم ديا تھا.
اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح ثابت ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم ہر ركعت ميں سورۃ فاتحہ كى قرآت فرمايا كرتے تھے.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى " فتح البارى " ميں كہتے ہيں:
" مقتدى كے ليے جھرى نمازوں ميں بغير كسى قيد كے سورۃ فاتحہ پڑھنے كى اجازت ثابت ہے، يہ ان احاديث ميں ہے جو امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے جزء القرآۃ ميں اور ترمذى، ابن حبان وغيرہ نے درج ذيل حديث روايت كى ہے:
عن مكحول عن محمود بن الربيع عن عبادۃ:
مكحول محود بن ربيع سے بيان كرتے ہيں وہ عبادہ رضى اللہ تعالى عنہ سے كہ:
فجر كى نماز ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر قرآت بوجھل ہو گئى اور جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمايا:
لگتا ہے آپ اپنے امام كے پيچھے پڑھتے ہو ؟
تو ہم نے جواب ديا: جى ہاں.
چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:
سورۃ فاتحہ كے علاوہ ايسا نہ كيا كرو، كيونكہ جو اسے ( سورۃ فاتحہ ) نہيں پڑھتا اس كى نماز ہى نہيں ہوتى " اھـ
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
اگر آپ میں عقل ہوتی تو اس طرح کا سوال نہیں کرتے

الحمد للہ :
نماز ميں سورۃ فاتحہ كى قرآت نماز كے اركان ميں سے ايك ركن ہے، چاہے نمازى امام ہو يا مقتدى، يا منفرد؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس نے فاتحہ الكتاب نہ پڑھى اس كى كوئى نماز نہيں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 714 ).
سورۃ فاتحہ پڑھنى واجب ہے، اس كى دليل رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا عمومى فرمان ہے:
" جو شخص فاتحۃ الكتاب نہيں پڑھتا اس كى نماز ہى نہيں "
اور جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے غلط طريقہ سے نماز ادا كرنے والے صحابى كو نماز سكھائى تو اسے سورۃ فاتحہ پڑھنے كا حكم ديا تھا.
اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح ثابت ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم ہر ركعت ميں سورۃ فاتحہ كى قرآت فرمايا كرتے تھے.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى " فتح البارى " ميں كہتے ہيں:
" مقتدى كے ليے جھرى نمازوں ميں بغير كسى قيد كے سورۃ فاتحہ پڑھنے كى اجازت ثابت ہے، يہ ان احاديث ميں ہے جو امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے جزء القرآۃ ميں اور ترمذى، ابن حبان وغيرہ نے درج ذيل حديث روايت كى ہے:
عن مكحول عن محمود بن الربيع عن عبادۃ:
مكحول محود بن ربيع سے بيان كرتے ہيں وہ عبادہ رضى اللہ تعالى عنہ سے كہ:
فجر كى نماز ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر قرآت بوجھل ہو گئى اور جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمايا:
لگتا ہے آپ اپنے امام كے پيچھے پڑھتے ہو ؟
تو ہم نے جواب ديا: جى ہاں.
چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:
سورۃ فاتحہ كے علاوہ ايسا نہ كيا كرو، كيونكہ جو اسے ( سورۃ فاتحہ ) نہيں پڑھتا اس كى نماز ہى نہيں ہوتى " اھـ
بھائی عقل مند صاحب
"واجب " کس نے کہا یہ تو آپ نے بتایا ہی نہیں ؟
اپنی عقل کی لاج رکھ لیجئے ۔ اب سسپنس ختم بھی کیجئے
جلدی سے بتائیے کہ "واجب" کہنے والا کون ہے ؟ اور جو لوگ "فرض" کہتے ہیں وہ آپ کی عقلمند نظر میں کیا مقام رکھتے ہیں ؟

چلیں شاباش اب جلدی سے اپنی عقل شریف کا استعمال کیجئے اور نشان لگائیے حدیث کے ان الفاظ پر جن میں ہو
"::: ہر نماز کی ہر رکعات میں سورہ فاتحہ پڑھنا امام اور مقتدی دونوں پر واجب ہے :::"

شکریہ
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
320
پوائنٹ
127
یقینا ہر نماز اور نماز کی ہر رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے حدیث ہے ۔ لاصلوۃ لمن لم یقرا بفاتحۃ الکتاب۔ جس نے سورہ فاتحہ نہیں پڑھی اسکی نمازہی نہیں ہے۔ اس میں امام ۔منفرد مقتدی مرد و عورت سب شامل ہیں اورجو اسکو نہیں مانتاوہ تاویل کرکے اور عقلی گھوڑا دوڑاکرحدیث کا انکار کرتا ہے وہ اتباع کو چھوڑکر تقلید کے مہلک دلدل میں پھنساہواہے اللہ ایسے لوگوں کو ہدایت دے ۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
بھائی عقل مند صاحب
"واجب " کس نے کہا یہ تو آپ نے بتایا ہی نہیں ؟
اپنی عقل کی لاج رکھ لیجئے ۔ اب سسپنس ختم بھی کیجئے
جلدی سے بتائیے کہ "واجب" کہنے والا کون ہے ؟ اور جو لوگ "فرض" کہتے ہیں وہ آپ کی عقلمند نظر میں کیا مقام رکھتے ہیں ؟

چلیں شاباش اب جلدی سے اپنی عقل شریف کا استعمال کیجئے اور نشان لگائیے حدیث کے ان الفاظ پر جن میں ہو
"::: ہر نماز کی ہر رکعات میں سورہ فاتحہ پڑھنا امام اور مقتدی دونوں پر واجب ہے :::"

شکریہ

اس حدیث میں کس نے حکم دیا ہے

ہر نماز کی ہر رکعات میں سورہ فاتحہ پڑھنا امام اور مقتدی دونوں پر واجب ہے

فجر كى نماز ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر قرآت بوجھل ہو گئى اور جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمايا:
لگتا ہے آپ اپنے امام كے پيچھے پڑھتے ہو ؟
تو ہم نے جواب ديا: جى ہاں.
چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:
سورۃ فاتحہ كے علاوہ ايسا نہ كيا كرو، كيونكہ جو اسے ( سورۃ فاتحہ ) نہيں پڑھتا اس كى نماز ہى نہيں ہوتى " اھـ
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
یقینا ہر نماز اور نماز کی ہر رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے
ماشاء اللہ ، اک اور اہل حدیث صاحب کی تحقیق کہ "ضروری" ہے ۔تو موجودہ دھاگے میں واجب کہنے والے پر کون سا حکم لگے گا ؟ یہ سوال پہلے بھی پوچھ چکا ہوں پچھلے مراسلے میں ۔

حدیث ہے ۔ لاصلوۃ لمن لم یقرا بفاتحۃ الکتاب۔ جس نے سورہ فاتحہ نہیں پڑھی اسکی نمازہی نہیں ہے۔ اس میں امام ۔منفرد مقتدی مرد و عورت سب شامل ہیں۔
اس حدیث کے بارے میں اماترمذی رحمہ اللہ کا فرمان مبارک ہے
قال الامام الترمذی واما احمد بن حنبل فقال معنی قول النبی ﷺ لاصلوٰۃ لمن یقراء بفاتحۃ الکتاب اذا کان وحدہ۔
ترمذی جلد اول صفحہ 71
امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضور پاک ﷺ کے فرمان کہ اس کی نماز جائز نہیں جو سورۃ فاتحہ کے ساتھ قراءت نہ کرے ،کے متعلق حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ یہ اس وقت ہے جب کہ کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا ہو ۔

اورجو اسکو نہیں مانتاوہ تاویل کرکے اور عقلی گھوڑا دوڑاکرحدیث کا انکار کرتا ہے وہ اتباع کو چھوڑکر تقلید کے مہلک دلدل میں پھنساہواہے اللہ ایسے لوگوں کو ہدایت دے ۔
اور جو نام نہاد اہلحدیث بنے ہوئے ہیں اور "واجب" کہتے تو ہیں مگر اپنے "فیصلے" سے ۔ نہ اللہ کا حکم دکھاسکتے ہیں اس بارے میں اور ناہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ۔"فرض " بھی اپنے قیاس سے کہتے ہیں اور "واجب" بھی اپنے قیاس سے۔اور اس قیاس کو مان کر آپ بنے اہل حدیث ؟ اک بار پھر ماشاء اللہ(ابتسامہ)
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
اس حدیث میں کس نے حکم دیا ہے

ہر نماز کی ہر رکعات میں سورہ فاتحہ پڑھنا امام اور مقتدی دونوں پر واجب ہے

فجر كى نماز ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر قرآت بوجھل ہو گئى اور جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمايا:
لگتا ہے آپ اپنے امام كے پيچھے پڑھتے ہو ؟
تو ہم نے جواب ديا: جى ہاں.
چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:
سورۃ فاتحہ كے علاوہ ايسا نہ كيا كرو، كيونكہ جو اسے ( سورۃ فاتحہ ) نہيں پڑھتا اس كى نماز ہى نہيں ہوتى " اھـ
واجب کہنے والا کون ہے ؟ اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ؟
سوال یہ تھا عامر یونس صاحب ۔ اس کا جواب دیجئے
شکریہ
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
واجب کہنے والا کون ہے ؟ اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ؟
سوال یہ تھا عامر یونس صاحب ۔ اس کا جواب دیجئے
شکریہ
آپ کا جواب اس امیج میں ہے غور سے دیکھیں تو نظر آ جائے گا


10590455_820717117961386_5361878358001975675_n.jpg
 
شمولیت
اگست 23، 2012
پیغامات
188
ری ایکشن اسکور
143
پوائنٹ
70
مندرجہ بالا "فیصلہ" کس کا ہے ؟ "خود کا" ؟ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ؟
مزکورہ "فیصلہ" اگر خود کا ہے اور یقینا "خود" کا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بلکل بھی نہیں تو اس "خود" کئیے گئے "فیصلہ" کو مان کر آپ نام نہاد اہل حدیث مقلد بنے کہ نہیں "خود" "فیصلہ" کرنے والی شخصیت کے ؟
مگر کیا کیا جاسکتا ہے آپ نام نہاد اہل حدیث حضرات "خود" "فیصلہ" کرتے ہو اور فرماتے ہو کہ یہ نبی کا فیصلہ ہے "خود" حکم بناتے ہو اور کہتے ہو یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ھے ۔
چلو میں آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم دکھاتا ہو دیکھو۔

اب مانو اہل حدیث صاحب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ۔اور اگلا حکم ایک صحابی رضی اللہ عنہ کا دیکھو ۔

اوہ معاف کیجئے گا جناب میں بھول گیا تھا آپ نام نہاد اہل حدیث افراد کا نعرہ ، قول صحابی حجت نیست ، چلو اب دیکھتے ہیں آپ کس کا حکم مانتے ہو
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ؟
یا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی رضی اللہ عنہ کا ؟
بڑی بات ہے جی کیا کوئی حکم واجب کےلئے لفظ واجب کا ہونا ضروری ہے۔۔؟
اور امام اور مقتدی کےلئے سورۃ فاتحہ واجب ہے۔(واضح رہے کہ یہ واجب کی اصطلاح محدثین استعمال کی جارہی ہےیعنی فرضیت اور واجب ایک ہی حکم میں ہیں۔ مقلدین کی اصطلاح فرض و واجب نہیں لحاظ کسی ڈرامے سے گریز کریں شکریہ)
ہاں جی فرضیت فاتحہ امام اور مقتدی دونوں پر فرض و واجب ہے ملاحظہ کریں۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ

عبادہ بن صامت (رضی اللہ عنہ) روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو سورت فاتحہ نہ پڑھے۔صحیح بخاری ح 756۔

یہاں پر لفظ شخص مطلقا بولا گیا ہے جو ہر طرح کے شخص پر دلالت کرتاہے۔ وہ امام ہو یا مقتدی،کیا مقلدین کےخیال سے امام کوئی شخص نہیں ہوتا۔۔؟ اگر تو نہیں ہوتا پھر تو یہ اعتراض بجا ہے۔اسلئے سوال اپنا یہ فضول سوال دہرانے سے پہلے امام کو کوئی اور مخلوق ثابت فرما دیں پھر جواب بھی عنائیت کر دیا جائے گا۔ اللہ کے فضل سے۔
اب ذیل میں چند اور احادیث ملاحظہ کریں۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عَطَائٌ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ فِي کُلِّ صَلَاةٍ يُقْرَأُ فَمَا أَسْمَعَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْمَعْنَاکُمْ وَمَا أَخْفَی عَنَّا أَخْفَيْنَا عَنْکُمْ وَإِنْ لَمْ تَزِدْ عَلَی أُمِّ الْقُرْآنِ أَجْزَأَتْ وَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ

ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ تمام نمازوں میں قرآن پڑھا جاتا ہے جن (نمازوں) میں رسول اللہ ﷺ نے بلند آواز سے پڑھ کر ہمیں سنایا ان میں ہم بھی بلند آواز سے پڑھ کر تم کو سناتے ہیں اور جن میں آہستہ آواز سے پڑھ کر ہم سے چھپایا ان میں ہم بھی آہستہ آواز سے پڑھ کر تم سے چھپاتے ہیں اور اگر سورت فاتحہ سے زیادہ نہ پڑھو تو کافی ہے اور اگر زیادہ پڑھ لو تو بہتر ہے۔ (بخاری762)
اگر سورۃ فاتحہ کی کوئی اہمیت ہی نہ ہوتی تو جناب عالی پھر صحابی رسول یہ کیوں کہتے کہ اگر اس سے زیادہ پڑھ لو تو بہتر نہ پڑھو تو کوئی ہرج نہیں یعنی سورۃ فاتحہ کو ہر حال میں باقی رکھاہے۔۔ آپ صحابہ کی بات بہت مانتے ہیں۔(اپنے خیال سے) اب یہاں پر صحابی پر کیا فتویٰ درج کریں گے بچارے صحابہ کو غیر فقہی کہنے میں تو آپ ڈرتے نہیں ہیں۔نعوذ باللہ من ذالک۔۔
سورۃ فاتحہ ہر رکعت میں فرض ہے۔ایک اور حدیث ملاحظہ فرمائیں۔ اور شرم کا گرم پیالا منہ کو لگائیں۔


حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا يزيد بن هارون، أخبرنا همام، وأبان بن يزيد، عن يحيى بن أبي كثير، عن عبد الله بن أبي قتادة، عن أبيه: «أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يقرأ في الركعتين الأوليين من الظهر والعصر، بفاتحة الكتاب وسورة ويسمعنا الآية أحيانا، ويقرأ في الركعتين الأخريين بفاتحة الكتاب»
قتادہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،ظہر اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ اور کوئی اور سورۃپڑھتے تھے،اور کوئی آیت ہمیں بھی سنا دیا کرتے ہیں(یعنی تھوڑا سا جہرا جیسا کہ اوپر کی حدیث میں درج ہے)اور دوسری دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ(اکیلی) پڑھتے تھے۔۔صحیح مسلم۔451
اچھا بھائی جان ابھی بھی ہر رکعت میں فرض ہوئی ہے یا نہیں کہ کوئی فقہی تلاش کرنا پڑے گا۔۔؟ ہیں جی سرکار اگر اتنا غصہ ہے فاتحہ پر تو ان احادیث کو پہلے کہیں چھپا لیں پھر واویلا کر لیجئے گا۔
اب سورۃ فاتحہ کو فرض کا درج کیوں دیا گیا ہے یہ بھی ملاحظہ کرلیں مصیبت یہ ہے کہ آپ لوگ بس تعصب کے ساتھ غصہ کرتے ہیں حدیث پڑھتے نہیں ہیں۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي الْعَلَائُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْقُوبَ أَنَّ أَبَا السَّائِبِ مَوْلَی بَنِي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ هِشَامِ بْنِ زُهْرَةَ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ صَلَّی صَلَاةً فَلَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ بِمِثْلِ حَدِيثِ سُفْيَانَ وَفِي حَدِيثِهِمَا قَالَ اللَّهُ تَعَالَی قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ فَنِصْفُهَا لِي وَنِصْفُهَا لِعَبْدِي
ابوہریرہ ؓ روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے نماز ادا کی اور اس میں ام القرآن یعنی سورت فاتحہ نہ پڑھی باقی حدیث سفیان ہی کی طرح ہے اور ان کی حدیث میں ہے کہ اللہ عزوجل فرماتے ہیں کہ میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کیا ہے اس کا نصف میرے لئے اور نصف میرے بندے کے لئے ہے۔ (ٍصحیح مسلم395)
اب سفیان کی حدیث بھی دیکھ لیں تاکہ اشکال ختم ہو جائے۔

(395) وحدثناه إسحاق بن إبراهيم الحنظلي، أخبرنا سفيان بن عيينة، عن العلاء، عن أبيه، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من صلى صلاة لم يقرأ فيها بأم القرآن فهي خداج» ثلاثا غير تمام. فقيل لأبي هريرة: إنا نكون وراء الإمام؟ فقال: «اقرأ بها في نفسك»؛ فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " قال الله تعالى: قسمت الصلاة بيني وبين عبدي نصفين، ولعبدي ما سأل، فإذا قال العبد: {الحمد لله رب العالمين}، قال الله تعالى: حمدني عبدي، وإذا قال: {الرحمن الرحيم} ، قال الله تعالى: أثنى علي عبدي، وإذا قال: {مالك يوم الدين}، قال: مجدني عبدي - وقال مرة فوض إلي عبدي - فإذا قال: {إياك نعبد وإياك نستعين} قال: هذا بيني وبين عبدي، ولعبدي ما سأل، فإذا قال: {اهدنا الصراط المستقيم صراط الذين أنعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين} قال: هذا لعبدي ولعبدي ما سأل " قال: سفيان، حدثني به العلاء بن عبد الرحمن بن يعقوب، دخلت عليه وهو مريض في بيته. فسألته أنا عنه

، ابوہریرہ ؓ روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس نے نماز ادا کی اور اس میں ام القرآن نہ پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے آپ ﷺ نے تین مرتبہ یہی فرمایا اور ناتمام ہے، حضرت ابوہریرہ ؓ سے کہا گیا ہے ہم بعض اوقات امام کے پیچھے ہوتے ہیں تو آپ نے فرمایا فاتحہ کو دل میں پڑھو کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے کہ اللہ عز وجل فرماتے ہیں کہ نماز یعنی سورت فاتحہ میرے اور میرے بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کر دی گئی ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو وہ مانگے جب بندہ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میرے بندے نے میری حمد بیان کی اور جب وہ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری تعریف بیان کی اور جب وہ مَالِکِ يَوْمِ الدِّينِ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی اور ایک بار فرماتا ہے میرے بندے نے اپنے سب کام میرے سپرد کر دئیے اور جب وہ إِيَّاکَ نَعْبُدُ وَإِيَّاکَ نَسْتَعِينُ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے کہ یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور بندے کے لئے وہ ہے جو اس نے مانگا ہے جب وہ (اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ) کہتا ہے تو اللہ عزوجل فرماتا ہے یہ میرے بندے کے لئے ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو اس نے مانگا۔سفیان کہتے ہیں کہ یہ حدیث مجھے میرے سوال کرنے پر علاء بن عبد الرحمن بن یعقوب نے بیان کی اور میں ان کے پاس تھا۔
صحیح مسلم(395)
یہ دونوں روایات ایک ہی حدیث کے نمبر پر آپ کو مکتبہ میں مل جائیں گی ان شاء اللہ۔
شائید اس حدیث سے واضح ہو گیا ہو کہ سورۃ فاتحہ کو اتنا درجہ کیوں دیاگیا ہے۔پتا نہیں سمجھ سے باہر بات ہے کہ احادیث ہر چیز کو روز ورشن کی طرح عیاں کئے ہوئے ہیں پھربھی لوگ مخالفت در مخالفت ہی کیوں کرتے ہیں شائید روٹی حقے کی وجہ لگتی ہے۔
اوپر کی حدیث میں بڑے جلی الفاظ میں لکھا ہے کہ اسکی نماز غیر تمام ہےجو سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتا کہنے والے پھر بھی کہہ جاتے ہیں بتاؤ واجب کہاں سے ہو گئی، واہ بائی واہ،، یہ تو یہ ہی بات ہے کہ کوئی شخص کہے نماز کےلئے وضو شرط ہے اور کوئی اٹھ کے سوال کرے بتاؤ واجب ہےکہ نہیں۔ابتسامہ۔
اچھا جی ابھی کہیں جاییئے گا نہ ابھی کچھ باقی ہے۔
 
Top