اس میں کوئی اختلاف ہے ہی نہیں ۔ قراءت سے ممانعت ہے ۔ لفظ قراءت عام ہے اور فاتحہ خاص ہے یہاں پر ۔ اس کو خاص کرنے والے ہم کون ہوتے ہیں ، بلکہ یہ خود ہی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص کیا ہے ۔
اگر حدیث اس طرح ہوتی کہ " قراءت کے بغیر نماز نہیں ہوتی " تو مذکورہ بالا حدیث کو دیکھ کر یہ تطبیق دی جاسکتی ہے کہ قراءت لازمی ہے لیکن مقتدی اس سے مستثناء ہے ۔
لیکن جب حدیث میں یہ چیز واضح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی " اوردوسری روایت
سیدنا عبادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔
صبح کے وقت ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے اور آپ قرأت کر رہے تھے۔ آپ پر قرأت تقیل ہو گئی ، نماز سے فارغ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ شاید تم امام کے پیچھے پڑھتے ہو۔ ہم نے عرض کیا جلدی جلدی پڑھتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا۔ صرف سورۃ فاتحہ پڑھا کر وکیونکہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی ۔ ابو داؤد مع عون ١۱/ ۳۰۴٠ دار قطنی ۱١/۳۱۸ ٣١٨ حاکم ۱١/۲۳۸ ٢٣٨ بیہقی ۲٢/۱۶۴٤ مسند احمد ٥۵/۳۱۶٦ابن خزیمہ ۳٣/۳۰۴٠٤ ۔ "
تو اس سے یہی ثابت ہوا کہ مقتدی کے لیے فاتحہ ہی لازمی ہے مگر اس کے علاوہ زائد قراءت نہیں ۔
پہلی بات
مون لائٹ آفریدی صاحب اس دھاگے کا موضوع بنایا گیا ہے
ہر نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے !!!
اور کوئی بھی یہ بتانے کو تیار نہیں کہ یہ فرمان عالی شان کس کا ہے ؟ یعنی واجب کہنے والی شخصیت کون ہیں ؟
اور اور اور اگلی بات یہ کہ جناب کا دیدار کئی دن بعد ہورہا ہے اسلئے یاد دہانی کروانا ضروری ہے کہ آپ سے اک گزارش کی تھی آپ کی طرف سے ایک ڈھکوسلہ پیش کرنے کے بعد ۔ کچھ یاد آیا ؟ نہیں ؟ چلیں میں یاد کرواتا ہوں ۔۔دیکھئے
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے کہ فاتحہ فرض ہے ۔
اس ڈھکوسلہ کے بعد جب آپ سے پوچھا
تو جناب اس وقت کے بعد آج دیدار کروایا ہے ۔اب جب دیدار کرواہی چکے ہیں تو مہربانی فرمائیے وہ دلیل صریح پیش کردیجئے جس میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے
امام کے پیچھے قراءت کو
فرض قرار دیا ہے ۔
اور اب پیش خدمت ہے اور بھی اگلی بات
جس دھاگے کا لنک آپ کے سامنے پیش کیا گیا ہے اس کا عنوان بنایا گیا تھا
امام اور مقتدی کے لیے قرات کا واجب ہونا، حضر اور سفر ہر حالت میں، سری اور جہری سب نمازوں میں
اور اس دھاگے کا عنوان بنایا گیا ہے
ہر نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے !!!
اب جو ڈھکوسلہ آپ کی طرف سے آنے والا ہے وہ یہ ہے کہ
فرض اور واجب ایک ہی حکم میں ہیں
اگر یہی بات کہنے ہو تو پھر وہ دلیل صریح غیر معارض ضرور پیش فرمائیے گا جس میں اس حکم کی صراحت موجود ہو۔اور دلیل آپ کی کیا ہیں ؟ یہ بتانے کی ضرورت نہیں آپ کو معلوم ہی ھوگا چلو یہ بھی یاد کروادیتا ہوں ۔
1:قرآن
2:حدیث
اور اگر یہ والا ڈھکوسلہ نہیں دینا ہو یعنی فرض واجب اک ہی حکم میں ہیں، تو پھر مان لو کہ آپ نام نہاد اہل حدیث ہونے کے ساتھ ساتھ نام نہاد غیر مقلد بھی ہیں کیونکہ فرض کہنے اور واجب کہنے میں بھی امتیوں کی تقلید کرتے ہو۔ اسکے بغیر کوئی چارہ بھی تو نہیں ۔
دوسری بات
آپ کا فرمانا ہے کہ قراءت اور فاتحہ الگ الگ حیثیت رکھتی ہیں ۔ یعنی یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ قراءت سے منع کیا گیا ہے اور فاتحہ پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ٹھیک؟
صاف الفاظ میں یہ ڈھکوسلہ دیا ہے کہ فاتحہ قرآن نہیں ہے؎۔
اب آپ کو صریح حدیث دکھاتا ہوں ۔ دیکھئے
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا صلیتم فاقیمو صفو فکم ثم لیسومکم احدکم فاذا کبر فکبر واذا قرء فانصیتوا واذا قرء غیر المغضوب علیہم ولا الضالین فقولوا آمین یحبکم اللہ۔
صحیح مسلم ، التشہد فی الصلاۃ
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ھے کہ جب تم نماز پڑھنے لگو تو صفوں کو سیدھا کرلیا کرو ، پھر تم میں سے کوئی ایک امامت کرائے، جب امام تکبیر کئے تو تم بھی تکبیر کہو ، جب وہ قرآن پڑھنے لگے تو تم خاموش ہوجاؤ اور جب وہ
غیر المغضوب علیہم ولا الضالین کہہ لے تو تم آمین کہو۔ اسطرح کرنے سے اللہ تم سے محبت رکھے گا۔
نوٹ:معلوم ہوا
الحمد سے لے کر
ولاالضالین تک
صراحتا خاموش رہنے کا حکم رسول للللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےآیا ہے ۔
اب بتائیے صریح دلیل ہے کہ نہیں ؟آیت
غیر المغضوب علیہم ولا الضالین فاتحہ میں ہی ہے یا بقیہ قرآن میں کسی اور جگہ ہے؟ اگر تو آپ اس آیت کو قرآن کی سورت فاتحہ میں ہی مانتے ہو تو پھر یہ بھی ماننا ہی پڑے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی سورۃ کے شروع کرنے پر خاموش ہوجانے کا حکم دیا ہے اور امام جب کہے
غیر المغضوب علیہم ولا الضالین پر تو مقتدی صرف
آمین کہے گا ۔اور یہی حکم ہے اللہ تعالٰی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ۔جسے آپ نام نہاد اہل حدیث مانتے ہی نہیں ۔ ۔۔۔۔
شکریہ