• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہر نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے !!!

شمولیت
اگست 23، 2012
پیغامات
188
ری ایکشن اسکور
143
پوائنٹ
70
نصراللہ خالد صاحب بہتر ہوتا آپ کے لئے اگر آپ خاموشی اختیار کرلیتے مگر آپ شاید میری بات کو سمجھے ہی نہیں ۔ چلو آپ اگر بضد ہی ہیں تو پہلے واجب کی تعریف تو بتائیے یعنی واجب کی تعریف کیاہے اور اسکے تارک کا کیا حکم ہے؟دونوں باتیں صرف صحیح ،صریح و غیر معارض حدیث سے ہی پیش کیجئے کسی بھی امتی کا قول قابل قبول نہیں ہوگا۔ آپ واجب کی تعریف کیجئے پھر دیکھیں گے کہ آپ امام کے پیچھے قراءت کو واجب کیسے مانتے ہیں ۔
نوٹ: واجب کی تعریف پیش کئے بغیر امید نہ رکھئے گا کہ میں آپ کی کسی اور بات کا جواب دوں گا
شکریہ
ہاہاہا چور کی داڑھی میں تنکا پہلے ہی کہہ دیا کہ جواب نہیں دوں گا۔
اچھااگر میں واجب کی تعریف محدثین والی پیش کردوں تو ہضم کر لیں گے یا کوئی گیس والا سیرپ بھی ساتھ لکھ دوں۔۔؟
پہلے اتنی ہی بات کا جواب دیجئے گا تاکہ میں پیش کرسکوں۔
پہلے تعریف پر ہی بات کرلیتے ہیں۔آپ کا یہ شوق بھی پوراکئے دیتے ہیں۔
 
شمولیت
اگست 23، 2012
پیغامات
188
ری ایکشن اسکور
143
پوائنٹ
70
لگے ہاتھوں ایڈوانس میں اس بات کا جواب بھی حاضر خدمت ہے بلکہ اک بار پھر حدیث پیش خدمت ھے صحیح اور صریح ،دیکھئے
عن عطاء بن یسار انہ اخبرہ انہ ساءل زید بن ثابت عن القراء مع الامام فقال لا قراءۃ مع الامام فی شیئی۔
مسلم جلد اول ، نسائی جلد اول 111
حضرت عطاء بن یسار رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ انہوں نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے امام کے ساتھ قراءت کرنے کے بارے میں پوچھا، تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ امام کے ساتھ کسی نماز میں کوئی قراءت نہیں کی جاسکتی۔
اس میں صحابی رسول اللہ ﷺ کا فیصلہ موجود ہے ۔ اس حدیث کو مد نظر رکھئے گا ۔
اس میں تمام قسم کی نمازوں میں مقتدی کا حکم موجود ہے قراءت خلف الامام کے بارے میں
اس پوسٹ کا جواب دینے سے پہلے جواب دینا ہے آپ نے پوسٹ نمبر 47 ،میں پوچھے گئے سوال کا ۔
شکریہ
ہائے مفلسی اللہ کسی کو مقلد بھی نہ بنائے۔۔پائی جان اس حدیث کا جواب اور صراحت دونوں ہی میں گزشتہ پوسٹوں میں کر چکا ہوں پر آپ پوری پوسٹ پڑھتے نہیں ہیں لگتا تو یہ ہی ہے۔یہ صحیح مسلم کے حوالے سے جب آپ نے پیش کی تھی تب ہی جواب دے دیا تھا مولانا صاحب۔
صحابی رسول کے فیصلے پر ہمیں تو کوئی اختلاف نہیں ہے پر آپ شائید حدیث نبوی سے کافی ناراض و نالاں محسوس ہوتے ہیں۔ابتسامہ۔
ٹھنڈے ہو کے جواب دیا کرو پائی جان۔
 
شمولیت
جون 01، 2014
پیغامات
297
ری ایکشن اسکور
49
پوائنٹ
41
بھائی محمد علی جواد صاحب: آپ نے لکھا ہے کہ " بلکہ وہ صرف نبی کریم کے ظاہری فرمان سے اس بات کا اندازہ کر لیتے تھے کہ فلاں عمل واجب ہے یا فرض ہے یا سنّت ہے یا مستحب ہے-"
محترم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی وہ روایات نقل کر دیں جن میں یہ بات مو جود ہو کہ حدیث رسول سننے کے بعد صحابہ کرام نے فرمایا ہو ا یہ کام "فرض" ہے یہ "واجب" یہ "سنت" اور یہ "مستحب" ہے؟؟؟
 
شمولیت
جون 01، 2014
پیغامات
297
ری ایکشن اسکور
49
پوائنٹ
41
بھائی محمد علی جواد صاحب : آپ نے لکھا ہے کہ
کاش قرآن کی اس آیت کا مطلب آپ کی سمجھ میں آجاتا تو تقلید کی گمراہی سے بچ جاتے-

وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمًّا وَعُمْيَانًا سوره الفرقان ٧٣
اور (الله کے نیک بندے) تو وہ ہیں کہ جب انہیں ان کے رب کی آیات سے سمجھایا جاتا ہے تو ان پر بہرے اندھے ہو کر نہیں گرتے- (یعنی تحقیق کرتے ہیں تقلید نہیں)-
جناب نے اس آیت کے بارے جو لکھا ہے یہ تفسیر با الرائے ہے ،اس سے بچئے اور اس آیت کی تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ وتابعین سے پیش کریں کہ اُنہوں نے فرمایا ہو کہ یہ آیت تقلید کی گمراہی سے بچاتی ہے ،یا اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ جب نیک بندوں کو آیات سے سمجھایا جاتا ہے تو وہ تحقیق کرتے ہیں تقلید نہیں کرتے؟
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ امام کے پیچھے قراءت نہ کی جائے۔
عن عطاء بن یسار انہ اخبرہ انہ ساءل زید بن ثابت عن القراء مع الامام فقال لا قراءۃ مع الامام فی شیئی۔
مسلم جلد اول ، نسائی جلد اول 111
اس میں کوئی اختلاف ہے ہی نہیں ۔ قراءت سے ممانعت ہے ۔ لفظ قراءت عام ہے اور فاتحہ خاص ہے یہاں پر ۔ اس کو خاص کرنے والے ہم کون ہوتے ہیں ، بلکہ یہ خود ہی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص کیا ہے ۔
اگر حدیث اس طرح ہوتی کہ " قراءت کے بغیر نماز نہیں ہوتی " تو مذکورہ بالا حدیث کو دیکھ کر یہ تطبیق دی جاسکتی ہے کہ قراءت لازمی ہے لیکن مقتدی اس سے مستثناء ہے ۔
لیکن جب حدیث میں یہ چیز واضح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی " اوردوسری روایت
سیدنا عبادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔
صبح کے وقت ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے اور آپ قرأت کر رہے تھے۔ آپ پر قرأت تقیل ہو گئی ، نماز سے فارغ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ شاید تم امام کے پیچھے پڑھتے ہو۔ ہم نے عرض کیا جلدی جلدی پڑھتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا۔ صرف سورۃ
فاتحہ پڑھا کر وکیونکہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی ۔ ابو داؤد مع عون ١۱/ ۳۰۴٠ دار قطنی ۱١/۳۱۸ ٣١٨ حاکم ۱١/۲۳۸ ٢٣٨ بیہقی ۲٢/۱۶۴٤ مسند احمد ٥۵/۳۱۶٦ابن خزیمہ ۳٣/۳۰۴٠٤ ۔ "

تو اس سے یہی ثابت ہوا کہ مقتدی کے لیے فاتحہ ہی لازمی ہے مگر اس کے علاوہ زائد قراءت نہیں ۔
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
اس میں کوئی اختلاف ہے ہی نہیں ۔ قراءت سے ممانعت ہے ۔ لفظ قراءت عام ہے اور فاتحہ خاص ہے یہاں پر ۔ اس کو خاص کرنے والے ہم کون ہوتے ہیں ، بلکہ یہ خود ہی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص کیا ہے ۔
اگر حدیث اس طرح ہوتی کہ " قراءت کے بغیر نماز نہیں ہوتی " تو مذکورہ بالا حدیث کو دیکھ کر یہ تطبیق دی جاسکتی ہے کہ قراءت لازمی ہے لیکن مقتدی اس سے مستثناء ہے ۔
لیکن جب حدیث میں یہ چیز واضح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی " اوردوسری روایت
سیدنا عبادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔
صبح کے وقت ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے اور آپ قرأت کر رہے تھے۔ آپ پر قرأت تقیل ہو گئی ، نماز سے فارغ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ شاید تم امام کے پیچھے پڑھتے ہو۔ ہم نے عرض کیا جلدی جلدی پڑھتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا۔ صرف سورۃ
فاتحہ پڑھا کر وکیونکہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی ۔ ابو داؤد مع عون ١۱/ ۳۰۴٠ دار قطنی ۱١/۳۱۸ ٣١٨ حاکم ۱١/۲۳۸ ٢٣٨ بیہقی ۲٢/۱۶۴٤ مسند احمد ٥۵/۳۱۶٦ابن خزیمہ ۳٣/۳۰۴٠٤ ۔ "

تو اس سے یہی ثابت ہوا کہ مقتدی کے لیے فاتحہ ہی لازمی ہے مگر اس کے علاوہ زائد قراءت نہیں ۔
پہلی بات
مون لائٹ آفریدی صاحب اس دھاگے کا موضوع بنایا گیا ہے
ہر نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے !!!

اور کوئی بھی یہ بتانے کو تیار نہیں کہ یہ فرمان عالی شان کس کا ہے ؟ یعنی واجب کہنے والی شخصیت کون ہیں ؟
اور اور اور اگلی بات یہ کہ جناب کا دیدار کئی دن بعد ہورہا ہے اسلئے یاد دہانی کروانا ضروری ہے کہ آپ سے اک گزارش کی تھی آپ کی طرف سے ایک ڈھکوسلہ پیش کرنے کے بعد ۔ کچھ یاد آیا ؟ نہیں ؟ چلیں میں یاد کرواتا ہوں ۔۔دیکھئے
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے کہ فاتحہ فرض ہے ۔
اس ڈھکوسلہ کے بعد جب آپ سے پوچھا
حدیث پیش کیجئے
تو جناب اس وقت کے بعد آج دیدار کروایا ہے ۔اب جب دیدار کرواہی چکے ہیں تو مہربانی فرمائیے وہ دلیل صریح پیش کردیجئے جس میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے امام کے پیچھے قراءت کو فرض قرار دیا ہے ۔
اور اب پیش خدمت ہے اور بھی اگلی بات
جس دھاگے کا لنک آپ کے سامنے پیش کیا گیا ہے اس کا عنوان بنایا گیا تھا
امام اور مقتدی کے لیے قرات کا واجب ہونا، حضر اور سفر ہر حالت میں، سری اور جہری سب نمازوں میں

اور اس دھاگے کا عنوان بنایا گیا ہے
ہر نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے !!!
اب جو ڈھکوسلہ آپ کی طرف سے آنے والا ہے وہ یہ ہے کہ فرض اور واجب ایک ہی حکم میں ہیں
اگر یہی بات کہنے ہو تو پھر وہ دلیل صریح غیر معارض ضرور پیش فرمائیے گا جس میں اس حکم کی صراحت موجود ہو۔اور دلیل آپ کی کیا ہیں ؟ یہ بتانے کی ضرورت نہیں آپ کو معلوم ہی ھوگا چلو یہ بھی یاد کروادیتا ہوں ۔
1:قرآن
2:حدیث
اور اگر یہ والا ڈھکوسلہ نہیں دینا ہو یعنی فرض واجب اک ہی حکم میں ہیں، تو پھر مان لو کہ آپ نام نہاد اہل حدیث ہونے کے ساتھ ساتھ نام نہاد غیر مقلد بھی ہیں کیونکہ فرض کہنے اور واجب کہنے میں بھی امتیوں کی تقلید کرتے ہو۔ اسکے بغیر کوئی چارہ بھی تو نہیں ۔
دوسری بات
آپ کا فرمانا ہے کہ قراءت اور فاتحہ الگ الگ حیثیت رکھتی ہیں ۔ یعنی یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ قراءت سے منع کیا گیا ہے اور فاتحہ پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ٹھیک؟ صاف الفاظ میں یہ ڈھکوسلہ دیا ہے کہ فاتحہ قرآن نہیں ہے؎۔
اب آپ کو صریح حدیث دکھاتا ہوں ۔ دیکھئے
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا صلیتم فاقیمو صفو فکم ثم لیسومکم احدکم فاذا کبر فکبر واذا قرء فانصیتوا واذا قرء غیر المغضوب علیہم ولا الضالین فقولوا آمین یحبکم اللہ۔
صحیح مسلم ، التشہد فی الصلاۃ
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ھے کہ جب تم نماز پڑھنے لگو تو صفوں کو سیدھا کرلیا کرو ، پھر تم میں سے کوئی ایک امامت کرائے، جب امام تکبیر کئے تو تم بھی تکبیر کہو ، جب وہ قرآن پڑھنے لگے تو تم خاموش ہوجاؤ اور جب وہ غیر المغضوب علیہم ولا الضالین کہہ لے تو تم آمین کہو۔ اسطرح کرنے سے اللہ تم سے محبت رکھے گا۔
نوٹ:معلوم ہوا الحمد سے لے کر ولاالضالین تک صراحتا خاموش رہنے کا حکم رسول للللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےآیا ہے ۔
اب بتائیے صریح دلیل ہے کہ نہیں ؟آیت غیر المغضوب علیہم ولا الضالین فاتحہ میں ہی ہے یا بقیہ قرآن میں کسی اور جگہ ہے؟ اگر تو آپ اس آیت کو قرآن کی سورت فاتحہ میں ہی مانتے ہو تو پھر یہ بھی ماننا ہی پڑے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی سورۃ کے شروع کرنے پر خاموش ہوجانے کا حکم دیا ہے اور امام جب کہے
غیر المغضوب علیہم ولا الضالین پر تو مقتدی صرف آمین کہے گا ۔اور یہی حکم ہے اللہ تعالٰی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ۔جسے آپ نام نہاد اہل حدیث مانتے ہی نہیں ۔ ۔۔۔۔



شکریہ
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
لگے ہاتھوں ایڈوانس میں اس بات کا جواب بھی حاضر خدمت ہے بلکہ اک بار پھر حدیث پیش خدمت ھے صحیح اور صریح ،دیکھئے
عن عطاء بن یسار انہ اخبرہ انہ ساءل زید بن ثابت عن القراء مع الامام فقال لا قراءۃ مع الامام فی شیئی۔
مسلم جلد اول ، نسائی جلد اول 111
حضرت عطاء بن یسار رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ انہوں نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے امام کے ساتھ قراءت کرنے کے بارے میں پوچھا، تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ امام کے ساتھ کسی نماز میں کوئی قراءت نہیں کی جاسکتی۔
اس میں صحابی رسول اللہ ﷺ کا فیصلہ موجود ہے ۔ اس حدیث کو مد نظر رکھئے گا ۔
اس میں تمام قسم کی نمازوں میں مقتدی کا حکم موجود ہے قراءت خلف الامام کے بارے میں
اس پوسٹ کا جواب دینے سے پہلے جواب دینا ہے آپ نے پوسٹ نمبر 47 ،میں پوچھے گئے سوال کا ۔
شکریہ

کیا احناف کے نزدیک صحابی رسول صلی الله وسلم کا فیصلہ قابل قبول ہے

کیا وجہ ہے کہ اوپر آپ نے جو قول پیش کیا ہے اور اس کو دلیل بنایا ہے - لیکن کیا وجہ ہے کہ یہ بھی صحابی رسول حضرت ابو ہریرہ راضی الله کا قول ہے- لیکن احناف کو قبول نہیں - کیا حناف اس قول کے منکر ہیں -


imam kay peechay.jpg




آپ ایک صحابی کے قول کو دلیل بنا رہے ہیں اور آپ کے تقی عثمانی صاحب کچھ اور کہ رہے ہیں اور حضرت ابو ہریرہ راضی الله کے قول کے بارے میں کیا کہ رہے ہیں



حضرت ھریرہ - ١.jpg
حضرت ھریرہ - ٢.jpg



اب آپ صرف اتنا بتا دیں کہ یہاں سہج کی بات صحیح ہے یا تقی عثمانی صاحب کی

سہج کو ایک صحابی کا قول قبول اور تقی عثمانی صاحب کو ایک صحابی کا قول نا قابل قبول

فیصلہ آپ کا اپنا



 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا صلیتم فاقیمو صفو فکم ثم لیسومکم احدکم فاذا کبر فکبر واذا قرء فانصیتوا واذا قرء غیر المغضوب علیہم ولا الضالین فقولوا آمین یحبکم اللہ۔
صحیح مسلم ، التشہد فی الصلاۃ
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ھے کہ جب تم نماز پڑھنے لگو تو صفوں کو سیدھا کرلیا کرو ، پھر تم میں سے کوئی ایک امامت کرائے، جب امام تکبیر کئے تو تم بھی تکبیر کہو ، جب وہ قرآن پڑھنے لگے تو تم خاموش ہوجاؤ اور جب وہ غیر المغضوب علیہم ولا الضالین کہہ لے تو تم آمین کہو۔ اسطرح کرنے سے اللہ تم سے محبت رکھے گا۔
بالکل صحیح فرمایا آپ نے ۔ یعنی کہ خاموش رہنا ۔ یہاں پرکسی کو مغالطہ دینے کی کیا ضرورت ہے ، جب فاتحہ کا ذکر ہے ہی نہیں۔ اور یہ اصول ہے کہ عدم ذکرسے عدم شے لازم نہیں ہے ۔ اور فاتحہ خلف الامام پڑھتے وقت خاموشی ضروری ہے ۔ یہ نہیں کہ جس طرح عوام کالانعام نیت زبان سے اور جہر کے ساتھ پڑھتے ہیں جس سے دوسروں کو مشکل پیش آتی ہے ۔
 
شمولیت
جون 01، 2014
پیغامات
297
ری ایکشن اسکور
49
پوائنٹ
41
بالکل صحیح فرمایا آپ نے ۔ یعنی کہ خاموش رہنا ۔ یہاں پرکسی کو مغالطہ دینے کی کیا ضرورت ہے ، جب فاتحہ کا ذکر ہے ہی نہیں۔ اور یہ اصول ہے کہ عدم ذکرسے عدم شے لازم نہیں ہے ۔ اور فاتحہ خلف الامام پڑھتے وقت خاموشی ضروری ہے ۔ یہ نہیں کہ جس طرح عوام کالانعام نیت زبان سے اور جہر کے ساتھ پڑھتے ہیں جس سے دوسروں کو مشکل پیش آتی ہے ۔
جناب افریدی صاحب : خدا کا خوف کریں ایک واضع حدیث میں تاویلیں نہ کریں ۔ ایہ حدیث پڑھیں وہ بھی سمجھ میں آجائے گی
عن انس قال کان رسول اﷲﷺ و ابوبکر و عمر و عثمان یفتتحون القرأۃ بالحمد ﷲ رب العالمین
یعنی: حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲﷺ ابوبکر صدیق، عمر فاروق اور عثمان غنی رضی اﷲ عنہم اپنی قرأت کا آغاز الحمد رب العالمین سے کرتے تھے۔
وقال ابو عیسٰی ہذا حدیث حسن صحیح ۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
یہ حدیث مبارکہ صاف صاف بتا رہی ہے کہ نماز میں "قرات" کا آغاز رسول اللہﷺ ابوبکر صدیق، عمر فاروق اور عثمان غنی رضی اﷲ عنہم "فاتحہ" سے کرتے تھے۔یہ بات مدِ نظر رکھیں اور اب یہ حدیث مبارکہ پڑھیں:
انما جعل الامام ليوتم به فاذا کبر فکبروا و اذا قرا فانصتوا.
پہلی حدیث مبارکہ نے بتایا کہ قرات فاتحہ سے شروع ہوتی ہے ،اور دوسری حدیث مبارکہ میں حکم ہے کہ جب امام قرات(یعنی فاتحہ) شروع کرے تو خاموش رہو ۔
مسئلہ تو صاف ہوگیا کہ مقتدی فاتحہ نہیں پڑھے گا
جناب لگے ہیں اس میں تاویلیں کرنے
 
Top