• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہم اضافیت اور کائنات

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
آئن سٹائن کی شروعات

دوسروں نے جہاں اپنا کام ختم کیا آئن سٹائن نے وہیں سے ابتدا کی، اس نے میکلسن اور مورلے کی دریافت کو بنیاد بناکر بتایا کہ کائنات میں صرف روشنی کی رفتار ہی مطلق ہے.. یعنی کائنات میں ہر مشاہدہ کرنے والے کے لیے یہ ہمیشہ 186 ہزار میل فی سینکڈ سے ہی چلتی ہے، اور نا ہی یہ اپنے مصدر کی رفتار سے متاثر ہوتی ہے.. گویا یہی وہ کائناتی ساکن ہے جسے کبھی بدلا نہیں جاسکتا.

یہاں کوئی کہہ سکتا ہے کہ روشنی کی رفتار پانی یا شیشے میں سے گزرتے وقت سست پڑ جاتی ہے، تو پھر آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اس کی رفتار مطلق ہے؟

یہ درست ہے.. لیکن روشنی کی ایک عجیب صفت یا خوبی یہ بھی ہے کہ یہ اگر کسی چیز میں سے گزرتے وقت سست پڑ بھی جائے تو اس سے نکلتے ہی یہ اپنی اصل رفتار بحال کر لیتی ہے.. ہمارا مطلب یہ ہے کہ روشنی کی رفتار فضاء یا خلاء میں ہمیشہ مطلق رہتی ہے.. اور کائناتی فضاء اتنی بڑی ہے کہ جس کا تصور ہی محال ہے.
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
لیکن فہیم کے پیٹ میں ابھی بھی کافی تکلیف ہے، وہ کہتا ہے: آپ اور آپ جیسے بے وقوف ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ روشنی کی رفتار مطلق ہے، مگر میں - اپنے تجربے اور معلومات کی بنیاد پر - کہتا ہوں کہ روشنی 186 ہزار میل فی سینکڈ کی رفتار سے زیادہ یا کم پر سفر کر سکتی ہے..

فہیم ایک مثال دیتے ہوئے کہتا ہے: فرض کرتے ہیں کہ ایک ایٹمی راکٹ (جیسے اورین) پچاس ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے خلاء میں سفر کر رہا ہے، اور کائنات کے کسی مقام پر کوئی مشاہدہ کرنے والا اس کی یہ رفتار ناپتا ہے.. پھر ہم فرض کرتے ہیں کہ اس راکٹ کے اندر خلاباز نے راکٹ کے اڑنے کی سمت ایک ٹارچ جلائی ہے.. اس صورت میں روشنی راکٹ سے نکلتے ہوئے 186 ہزار میل فی سینکڈ کی رفتار سے سفر کرے گی، لیکن مشاہدہ کرنے والے کو کچھ اور نظر آئے گا.. چونکہ روشنی ایک ایسے راکٹ سے نکل رہی ہے جو پچاس ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کر رہا ہے چنانچہ مشاہدہ کار دو رفتاریں ریکارڈ کرے گا.. روشنی کی رفتار اور راکٹ کی رفتار.. اسے لگے گا کہ روشنی اس کی اور راکٹ کی رفتار سے سفر کر رہی ہے، یعنی وہ روشنی کی جو رفتار ریکارڈ کرے گا وہ کچھ یوں ہوگی:

186000 + 50000 = 236000 میل فی سیکنڈ.. تو اس پر آپ کیا فرمائیں گے؟

اور پھر اس پر آپ کیا کہیں گے کہ روشنی کی رفتار 186000 میل فی سیکنڈ سے کم بھی ہوسکتی ہے؟ فہیم ایک اور دلیل دیتا ہے: اگر روشنی راکٹ کے پیچھے سے چھوڑی جائے یعنی راکٹ کے سفر کی سمت کے برعکس.. اس صورت میں خلاء میں موجود مشاہدہ کار روشنی کی رفتار یوں ریکارڈ کرے گا:

186000 - 50000 = 136000 میل فی سیکنڈ.. یعنی ہمیں لازماً راکٹ کے آگے بڑھنے کی رفتار کو اس کے پیچھے سے نکلنے والی روشنی کی رفتار سے منفی کرنا ہوگا.
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
اگرچہ فہیم نے جو کچھ پیش کیا ہے وہ کافی معقول اور منطقی ہے، تاہم فہیم کو ہمارا جواب یہ ہے کہ فضاء میں روشنی کی رفتار ہر مشاہدہ کار کے لیے ایک ہی رہے گی، یعنی یہ 186000 میل فی سیکنڈ سے نا تو بڑھی گی اور نا ہی کم ہوگی چاہے اس کے مصدر کی رفتار اور روشنی کی سمت کچھ بھی ہو.

فہیم یقین دلاتا ہے کہ اتنی لمبی تو قصے کہانیوں میں بھی نہیں چھوڑی جاتی..!! پھر کہتا ہے: تو کیا اس کا مطلب ہے کہ ہم نے آنکھوں سے جو کچھ دیکھا اور اپنی آلات سے جو کچھ ریکارڈ کیا وہ غلط ہے، حالانکہ تمام تر علمی اور زمینی تجربات اور مشاہدات اس کی تائید کرتے ہیں؟

فہیم اپنا نقطۂ نظر واضح کرنے کے لیے ایک اور مثال دیتے ہوئے کہتا ہے: فرض کریں ایک ٹرین پچاس میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر رہی ہے، اس میں ایک مجرم بھی ہے جس کے پاس ایک گن ہے جس سے وہ بوگی کے آخر میں بیٹھے ایک شخص پر فائرنگ کرتا ہے، گولیاں دو سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اس کی گن سے نکلتی ہیں اور اس آدمی کے سینے میں پیوست ہوکر اسے ہلاک کردیتی ہیں.. تو کیا پیچھے جاتی گولیوں کی رفتار آگے بڑھتی ٹرین کی رفتار سے متاثر ہوں گی؟

اصل میں یہاں فہیم کے سوال کا کوئی مطلب نہیں ہے، اسے زیادہ واضح ہونا چاہیے.. گولیوں کی رفتار کس کی نسبت سے؟ .. کیا ٹرین میں بیٹھے لوگوں کی نسبت سے یا باہر زمین پر کھڑے کسی شخص کی نسبت سے جو یہ واقعہ ریکارڈ کر رہا ہے؟

ٹرین کے سوار اور گولی چلانے والا بھی، سب ہی ٹرین میں گولیوں کی رفتار دو سو میل فی گھنٹہ ہی ریکارڈ کریں گے، اب چاہے گولیاں ٹرین کے چلنے کی سمت چلائی جائیں یا اس کے برعکس گولیوں کی رفتار ایک ہی رہے گی.. کیونکہ ٹرین کے جس میں ماحول میں لوگ زندگی گزار رہے ہیں، بالکل اس ماحول کی طرح ہے جس ماحول میں لوگ زمین پر زندگی گزارتے ہیں.. مطلب یہ ہے کہ اگر ٹرین خطِ مستقیم میں ایک خاص رفتار میں بغیر ہلے اور پٹری پر آواز کیے بغیر چلتی چلی جائے تو اس صورت میں ٹرین کے مسافروں کو اس کی حرکت محسوس ہی نہیں ہوگی، ما سوائے اگر وہ زمین کو یا زمین پر کسی ساکن چیز کو دیکھیں تب انہیں وہ ان کی نسبت حرکت کرتی ہوئی نظر آئے گی.. آپ اس ٹرین میں کرکٹ بھی کھیل سکتے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح آپ زمین پر کھیلتے ہیں، مکھی بھی ٹرین کے ماحول میں بالکل اسی طرح اڑتی پھرے گی جس طرح وہ زمین کے ماحول میں اڑتی پھرتی ہے، اور اگر آپ اوپر کی طرف اچھل کر کچھ لمحوں کے لیے ٹرین کے فرش سے دور رہ سکیں تو ٹرین کا فرش آپ کے نیچے سے نہیں کھسکے گا.. آپ کو اس ٹرین میں ہر چیز بالکل سادہ اور منطقی نظر آئے گی کیونکہ ہر چیز نے ٹرین کی رفتار پکڑ لی ہوگی.. بالکل اسی طرح جس طرح ہم اپنے مدار میں تیزی سے سفر کرتی زمین کی رفتار پکڑ لیتے ہیں اور ہمیں اس کی حرکت محسوس ہی نہیں ہوتی، لیکن ٹرین سے باہر کھڑے کسی شخص کے لیے معاملہ مختلف ہے جو یہ واقعہ ریکارڈ کر رہا ہے.. کیونکہ ایک ٹرین ہے جو زمین کی یا اس کی نسبت پچاس میل فی گھنٹہ کی رفتار سے حرکت کر رہی ہے، اور ٹرین میں، ٹرین کے سفر کی سمت کے برعکس دو سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلائی گئی مجرم کی گولی بھی ہے.. جسے جب ٹرین سے باہر زمین پر کھڑا شخص دیکھے گا تو اسے لگے گا کہ جیسے گولی نے اپنی کچھ رفتار کھو دی ہے، اور اگر وہ گولی کی رفتار ریکارڈ کر سکا تو وہ گولی کی رفتار 150 میل فی گھنٹہ ریکارڈ کرے گا، جبکہ اگر ٹرین میں گولی آگے کی طرف یعنی ٹرین کے سفر کی سمت چلائی جاتی تو زمین پر کھڑا شخص اس کی رفتار 250 میل فی گھنٹہ ریکارڈ کرتا، کیونکہ دونوں یعنی گولی اور ٹرین زمین کی نسبت آگے کی طرف دو سو میل گولی اور پچاس میل ٹرین کے لیے فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر رہی ہیں.. زمین پر کھڑے شخص کو یہ دونوں رفتاریں شامل کرنی ہوں گی.
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
یہاں فہیم جیت کی خوشی سے ہاتھ ملتے ہوئے کہتا ہے: آپ کی سمجھ نہیں آتی! .. آپ نے ٹرین اور گولی کی جو صورتحال بیان کی ہے وہ اس حالت سے مختلف نہیں ہے جو میں نے راکٹ اور اس سے نکلتی روشنی کے حوالے سے بیان کی تھی، اور اس مشاہدہ کار کی جو خلاء میں اس واقعے کو ریکارڈ کرتا ہے.. میں نے ایک ہی سمت میں راکٹ کی رفتار کو روشنی کی رفتار میں شامل کردیا، بالکل جس طرح آپ نے زمین پر کھڑے شخص کی نسبت ایک ہی سمت میں گولی کی رفتار کو ٹرین کی رفتار میں شامل کردیا.. تو پھر اس بے معنی فلسفے کا کیا مطلب ہے؟

فہیم نے جو کچھ کہا ہے وہ قطعی درست اور منطقی ہے.. اس کے اندازے نپے تلے اور جانے پہچانے ہیں جنہیں ہم ہمیشہ زمین پر حرکات اور رفتاروں کو ناپنے میں استعمال کرتے ہیں.. بلکہ چاند کے سفر پر جاتے ایک راکٹ کے لیے بھی ہم یہی طریقہ استعمال کرتے ہیں.. اس کے با وجود کائنات میں کہیں سے بھی دیکھنے والے کے لیے روشنی کی رفتار پھر بھی ایک ہی رہے گی.. ہمیں اپنے زمینی حساب کتاب کو اپنی مرضی سے کائنات کے معاملات پر لاگو نہیں کرنا چاہیے، اگر ہم ایسا کریں گے تو کائنات کے بہت سے پیچیدہ رازوں سے کبھی پردہ نہیں اٹھا پائیں گے.
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
تو کیا ہم جس تضاد میں پڑ گئے ہیں اس کی کوئی تشریح ہے؟

در حقیقت کوئی تضاد ہے ہی نہیں.. حالانکہ تمام شواہد اس تضاد کی طرف ہی اشارہ کرتے ہیں.. دراصل ہم نے وقت (زمان) کے "سمٹاؤ" کو مدِ نظر نہیں رکھا.. اگر کائناتی مشاہدہ کار تیزی سے سفر کرتے ہوئے راکٹ کا وقت ریکارڈ کرتا تو اسے پتہ چلتا کہ راکٹ کا وقت اس کے وقت کی نسبت سے سست ہے، یہ ان بنیادی باتوں میں سے ایک ہے جس پر نظریہ اضافیت کھڑا ہے، یہ اس تضاد کا عقدہ حل کرتا ہے جس کے جال میں ہم روشنی کی رفتار کے حوالے سے انجانے میں پھنس گئے، اس پر ہم بر وقت بات کریں گے.
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
روشنی کی رفتار کا مستقل یا مطلق ہونا ان دو بنیادی مفروضوں میں سے ایک ہے جس پر نظریہ اضافیت کھڑا ہے، اس کے آنے سے پہلے جو نتائج تھے وہ وہی ہیں جو نظریہ اضافیت کے بارے میں جاننے سے پہلے فہیم کے ہیں.

دوسری عجیب بات جو نظریہ اضافیت ہمیں بتاتا ہے وہ یہ ہے کہ کائنات میں کوئی بھی شئے ایسی نہیں ہے جو روشنی کی رفتار سے زیادہ تیزی سے سفر کر سکے، اور نا ہی کوئی مخلوق یا مادی شئے کوئی ایسی خاص حالت ریکارڈ کر سکتی جس کے نتیجے میں اس نے روشنی سے زیادہ رفتار میں سفر کیا ہو.
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
یہاں فہیم کو پھر تھوڑی سی تکلیف ہوتی ہے، وہ کہتا ہے: ٹھیک ہے.. اگر سائنسدان ایک ایسا خلائی جہاز بنانے میں کامیاب ہوجائیں جو کئی مرحلوں پر مشتمل ہو اور ہر مرحلے میں اپنی رفتار بڑھاتا چلا جائے.. مثلاً پہلے مرحلے میں خلائی جہاز اپنے آگے کے مرحلوں کو دس میل فی سیکنڈ سے دھکیلتا ہے، پھر دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے جو اپنے آگے کے مرحلوں کو سو میل فی سیکنڈ کی رفتار سے دھکیلتا ہے، پھر تیسرا مرحلہ شروع ہو جو مثلاً ہزار میل فی سیکنڈ سے خلائی جہاز کو آگے بڑھائے اور اسی طرح رفتہ رفتہ ہم روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ کی رفتار حاصل کر لیں.. کیا اس میں کوئی قباحت ہے؟

بظاہر فہیم کا نقطہ نظر نظریاتی طور پر کافی معقول لگتا ہے، لیکن در حقیقت یہ عملی طور پر نا قابلِ عمل ہے بلکہ نظریاتی طور پر بھی.. کیونکہ خود فہیم یا پتھر یا خلائی جہاز یا ریت کا کوئی ذرہ یا کوئی بھی مادی شئے روشنی کی رفتار تک نہیں پہنچ سکتی کیونکہ کچھ بہت عجیب چیزیں وقوع پذیر ہونا شروع ہوجائیں گی جن پر بر وقت بات ہوگی.

مگر فہیم اپنی فہامت اور بلاغت سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں، وہ ہمیں ایک اور مثال دیتا ہے جسے ہم سب ہی اپنی زمینی زندگی میں آزماتے رہتے ہیں..
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
فہیم کہتا ہے: آپ جو عجیب وغریب باتیں ہمارے دماغ میں ٹھونسنا چاہتے ہیں وہ میں اس چھوٹی سی مثال سے رد کردوں گا.. فرض کریں کہ زید ایک ٹرین میں سوار ہے جو زمین یا زمین پر کھڑے کسی شخص کی نسبت اسی میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر رہی ہے.. دوسری متضاد سمت سے عبید بھی ایک ٹرین میں آرہا ہے جو زمین کی نسبت ایک سو بیس میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر رہی ہے، تو سوال یہ ہے کہ عبید کی نسبت سے زید کی رفتار کیا ہے؟ .. متضاد سمت میں سفر کرنے والی دونوں ٹرینوں کی نسبت سے ہر کوئی دوسرے کی رفتار 200 میل فی گھنٹہ ریکارڈ کرے گا.. کیونکہ پہلا دوسرے کی نسبت 80 اور 120 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر رہا ہے چنانچہ ہمیں دونوں رفتاریں جمع کرنی ہوں گی..

تو آپ اس پر ہم سے متفق ہیں کیونکہ یہ ہم نے سکول میں پڑھا ہے.. تھوڑے سے استثناء کے ساتھ..

فی الوقت یہ چھوٹے موٹے استثناء ایک طرف رکھتے ہیں.. اور دونوں ٹرینوں کی حالت دو خلائی جہازوں پر لاگو کرتے ہیں، پہلا 80000 میل فی سیکنڈ سے سفر کر رہا ہے اور دوسرا اس کی طرف 120000 میل فی سیکنڈ کی رفتار سے آرہا ہے، اس صورت میں ہر خلائی جہاز کی ایک دوسرے کی نسبت رفتار 200000 میل فی سیکنڈ ہوگی، اس طرح نسبتی رفتار روشنی کی رفتار سے کوئی 14000 میل زیادہ ہوگی.. اور آپ کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ ہم نے کوئی عجیب کام نہیں کیا ہے بلکہ ہائی سکولوں میں پڑھایا جانے والا ایک سیدھا سا ریاضیاتی مسئلہ لاگو کیا ہے.. اس پر آپ کیا فرمائیں گے؟

آپ کے درست حساب کتاب کے با وجود دونوں خلائی جہازوں کی ایک دوسرے کی نسبت رفتار 200 ہزار میل فی سیکنڈ نہیں ہوگی جیسا کہ ہم سب سمجھ رہے ہیں، بلکہ 155 ہزار میل فی سیکنڈ ہوگی اور یہ روشنی کی رفتار سے کم ہے!
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
اس پر فہیم ایک بار پھر کسمسا کر رہ جاتا ہے اور اسے نا ممکن قرار دیتا ہے کہ یہ ہمارے زمینی تجربے کے خلاف ہے، مگر جس تضاد میں ہم پڑے ہیں اس کی ایک وجہ تو زمان کا سست پڑنا ہے، اور دوسری وجہ اضافیت کی ایک مساوات ہے جو لازماً ہر رفتار کو روشنی کی رفتار سے منسوب کرتی ہے.

اگر آپ نے بڑی رفتاروں والا کلیہ لاگو کیا ہوتا جسے ہم روشنی کی رفتار سے منسوب کرتے ہیں تو آپ کو پتہ چلتا کہ عبید کی ٹرین کی نسبت سے زید کی ٹرین کی رفتار سو فیصد دو سو میل نہیں ہوگی، مساوات کہتی ہے کہ یہ نسبتی رفتار دو سو میل سے انچ کے دس لاکھویں حصے کے ایک حصے کے برابر کم ہے!

یہاں فہیم طنز کرتے ہوئے کہتا ہے: کیا یہ خردمندوں کی باتیں ہیں؟ .. اتنے کم فرق کو ہم کیسے ناپ سکتے ہیں؟

ہم فہیم کے اندازوں میں اس کے ساتھ ہیں، کیونکہ ہر زمینی رفتار چاہے وہ چاند یا مریخ پر جانے والے کسی خلائی جہاز کی ہی کیوں نہ ہو روشنی کی رفتار کے مقابلے میں کچھ نہیں.. زمین کی کششِ ثقل یا تجاذب سے بھاگنے کے لیے کسی خلائی جہاز کو کوئی سات میل فی سیکنڈ کی رفتار سے اڑنا ہوگا، اس کا موازنہ روشنی کر رفتار سے کریں جو 186 ہزار میل فی سیکنڈ ہے.. چونکہ ہم زمین پر بہت ہی سست رفتاریں استعمال کرتے ہیں اس لیے ہم کوئی غیر طبعی چیز نوٹ نہیں کرتے.. لیکن اگر یہی حساب کتاب ہم نے کائناتی تیز تر رفتاروں پر لاگو کیا تو ہم بہت سارے تضادات میں پڑ جائیں گے، ہم نے دیکھا کہ کس طرف فہیم بڑی آسانی سے اس غلطی کا شکار ہوگیا، اسے چاہیے تھا کہ وہ تیز رفتاروں سے متعلق اضافیت کی مساوات استعمال کرتا، یا اگر ہم فرض کرتے ہیں کہ ایک خلائی جہاز روشنی کی نوے فیصد 90% رفتار سے سفر کر رہا ہے، اور اس خلائی جہاز نے اپنے آگے کے حصے سے یا منہ سے ایک اور خلائی جہاز نکالا ہے جو کہ وہ بھی روشنی کی نوے فیصد 90% رفتار سے سفر کر رہا ہے.. اس وقت ہم شاید کہیں کہ: خلاء میں کسی مشاہدہ کار کی نسبت خلائی جہاز کی رفتار روشنی کی رفتار سے لازماً 1.8 مرتبہ زیادہ ہے.. اور یہ حساب کافی منطقی اور معقول ہے.. مگر سائنسدان کہتے ہیں کہ: اس خلائی جہاز کی رفتار روشنی کی رفتار کے 90% سے زیادہ کبھی نہیں بڑھے گی ناکہ روشنی کی 180% رفتار جیسا کہ ہم سمجھ رہے ہیں.
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
اگرچہ ہم جو کچھ جانتے ہیں اور نظریہ اضافیت جو کچھ کہتا ہے دونوں میں تضاد واضح ہے، تاہم اس تضاد کے راز سے ہم آگے چل کر پردہ اٹھائیں گے.. اب ہم وہ دوسرا مفروضہ پیش کریں گے جس پر آئن سٹائن نے نظریہ اضافیت کی بنیاد رکھی.


* * *​
 
Top