• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہم اضافیت اور کائنات

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
ہم نے آئن سٹائن کے اس پہلے مفروضے پر بات کی جسے اس نے میکلسن اور مورلے کے تجربے سے اخذ کیا اور کہا کہ روشنی کی رفتار ہمیشہ ایک ہی رہتی ہے.

دوسرا مفروضہ جو آئن سٹائن کا نصب العین رہا وہ یہ ہے کہ: کائنات کی ہر حرکت نسبتی ہے.. اس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کی کوئی بھی مخلوق کوئی بھی مطلق حرکت یا مطلق رفتار نہیں ناپ سکتی.. یعنی یہ رفتار کائنات کی دیگر تمام چیزوں کے مقابلے میں قابلِ تبدیلی نہ ہو یعنی ساکن یا ثابت ہو.. کائنات میں صرف روشنی کی رفتار کو ہی ثبات ہے.. ہم نے بتایا کہ کائنات میں ہر چیز ایک دوسرے کی نسبت زمان ومکان میں حرکت کر رہی ہے.
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
در حقیقت اضافیت کی "بو" آئن سٹائن کے آنے سے پہلے ہی سائنسدانوں کے درمیان پھیلنے لگی تھی، ایک طویل عرصہ پہلے نیوٹن اور گلیلیو نے حرکت کو موضوع بنایا، جو ریاضیاتی مساواتوں اور قوانین کی شکل میں آئیں اور آسمانی اجرام کی میکانیت اور ان کی ایک دوسرے کی نسبت حرکت کو مربوط کر گئیں، یہ مساواتیں زمین یا سورج یا دیگر ستاروں کی نسبت خلائی جہازوں کی حرکت کا حساب لگانے کے لیے اب بھی کارگر ہیں.. لیکن اگر انسان ایسے خلائی جہاز بنانے میں کامیاب ہوگیا جو روشنی کی رفتار کے آس پاس سفر کر سکیں تو اس وقت اسے اضافیت کی مساواتوں کا سہارا لینا پڑے گا کیونکہ دیگر مساواتیں اس ضمن میں کارگر نہیں ہوں گی.

در حقیقت ہماری زمین پر زمان ومکان اور حرکت کی اضافیت ہمیں قطعی کسی قسم کے مسائل کا شکار نہیں کرتی.. جب ہم کہتے کہ گاڑی پچاس میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہی ہے، جہاز ہزار میل، اور راکٹ سترہ ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر رہا ہے تو اس میں ہمارا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ تمام رفتاریں اس زمین سے منسوب ہیں اور اسی سے وابستہ ہیں.. اس کے علاوہ کچھ نہیں.

آپ ٹرین یا گاڑی کی رفتار کا اندازہ ان ثابت یا ساکن چیزوں سے لگاتے ہیں جن سے آپ گزرتے ہیں یا جو آپ سے گزرتی ہیں، جیسے بجلی کے کھمبے، درخت، پیٹرول پمپ اور بذاتِ خود زمین.. ان سے گزرنا ہی آپ کو حرکت کا احساس دیتا ہے، مگر جہاز میں معاملہ کچھ مختلف ہے.. جب ہوائی جہاز بہت اونچائی پر چلا جاتا ہے تو جہاز کے مسافروں کو ایسا لگتا ہے جیسے یہ حرکت کر ہی نہیں رہا بلکہ زمین ہی اس کے نیچے آہستہ سے حرکت کر رہی ہے.
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اس کا مطلب ہے اونچائی پر ہوا میں حرکت کا احساس اس احساس سے مختلف ہے جو زمین پر محسوس ہوتا ہے، کیونکہ ہوا میں کھمبے اور درخت نہیں ہیں اور نا ہی کوئی ایسی ثابت یا ساکن چیز ہے جو آپ کے پاس سے گزر کر آپ کو جہاز کی رفتار کا احساس دلائے.. آپ کو صرف بادل اور زمین انتہائی آہستگی سے حرکت کرتے نظر آتے ہیں.. زمین ہی ایک واحد چیز ہے جس سے آپ اپنی رفتار کو منسوب کر سکتے ہیں ایک ایسے احساس سے جو آپ کو زمین سے دور جانے پر کبھی کبھی دھوکہ دے دیتا ہے.

جس اضافیت کی ہم بات کر رہے ہیں وہ ان معاملات پر بحث نہیں کرتی جنہیں ہم اپنی زمین پر جانتے ہیں، بلکہ آئن سٹائن اپنی مساواتوں کے ذریعے کائنات کی مجموعی حرکت پر گھری نظر ڈالنے کی کوشش کرتے ہوئے اس کے رازوں تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے، وہ زمان ومکان، حرکت، مادہ، توانائی اور تجاذب کو ایک ایسے ریاضیاتی جال میں پرونا چاہتا ہے کہ شاید وہ کہیں کائنات کی حقیقت تک پہنچ سکے جو ایک واحد یونٹ ہے.
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
آپ زمین پر اپنے تمام تر احساسات کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں، لیکن وسیع تر خلاء میں زمان ومکان، حرکت وغیرہ کے تمام تر احساسات غائب ہوجاتے ہیں.

اگر فہیم زمین کی نسبت سے پچاس ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرنے والے کسی خلائی جہاز میں بیٹھ کر زمین سے دور نکل جائے تو کچھ ہی دنوں میں اپنے آپ کو ایک وسیع تر خلاء میں پائے گا جو زمین سے لاکھوں میل دور ہوگا، اس کے گرد ایسی کوئی چیز نہیں ہوگی جو اسے حرکت کا احساس دلائے چنانچہ اسے ایسا لگے گہ جیسے وہ قطعی حرکت نہیں کر رہا.. اب وہ چاہے کتنا ہی "فہیم" کیوں نہ بن جائے، وہ اوپر نیچے کے احساس کے معنی کھو دے گا (کس کی نسبت سے؟).. نا ہی اسے دائیں بائیں کا پتہ چلے گا اور نا ہی زمان ومکان کا.. کیونکہ خلاء کی کوئی حد نہیں ہے اور نا ہی سمتیں اور نا ہی زمان جیسا کہ ہماری زمین پر ہوتا ہے.. مثلاً زمین پر وقت کے احساس کی وجہ زمین کا اپنے محور کے گرد چکر ہے جس سے دن اور رات، گھنٹے اور مہینے بنتے ہیں وغیرہ..، اگر یہ حرکت نہ ہوتی تو ہماری زندگی میں زمان کے کوئی معنی نہ ہوتے.
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
فہیم اپنے ارد گرد نظر دوڑاتا ہے تو اسے تا حدِ نظر ستارے روشنی کے سے دھبوں کی طرح نظر آتے ہیں.. وہ اللہ سے آسانی کی دعا کرتا ہے کہ اچانک اسے شبانہ کا خلائی جہاز آہستہ آہستہ اس کے نزدیک آتا ہوا نظر آتا ہے، وہ سوچتا ہے: کیا میں رکا ہوا ہوں اور وہ دوڑ رہی ہے؟ .. شاید، یا کیا وہ اس سے زیادہ تیز رفتاری سے سفر کر رہی ہے؟ .. ہوسکتا ہے، یا کیا وہ رکی ہوئی ہے اور میں پیچھے کی طرف جا رہا ہوں.. کون جانتا ہے؟.

دراصل خلاء میں سب کچھ جائز ہے، خاص طور سے جبکہ کوئی ایسی "ساکن" چیز ان کے آس پاس نہیں ہے جو خلاء میں ان کی رفتار اور سمت متعین کر سکے.. وہ صرف اتنا جان سکتے ہیں کہ ان میں سے ایک دوسرے کی نسبت حرکت کر رہا ہے.. مگر ان میں سے کون رکا ہوا ہے اور کون حرکت کر رہا ہے یہ وہ جاننے سے قاصر رہیں گے، حالانکہ دونوں حرکت میں ہیں.. کیونکہ کائناتی فضاء میں حرکت کا کوئی مطلب نہیں ہے جیسا کہ ہماری زمین پر ہے.. ما سوائے اگر اسے آپ کسی دوسری چیز سے منسوب کریں.
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
دور کیوں جائیے کہ اس تجربے سے ہم اپنی زمین پر ہی گزرتے ہیں؟

کسی نہر کے اوپر بنے پل پر کھڑے ہوجائیے جس کے نیچے سے پانی کسی مخصوص رفتار میں بہہ رہا ہو، اور اسے غور سے دیکھنا شروع کیجیے، تھوڑی دیر میں آپ کو محسوس ہوگا کہ جیسے پانی رک گیا ہے اور پل حرکت کر رہا ہے.. لیکن آپ یہ خیال اپنے دماغ سے جھٹک دیں گے کیونکہ آپ کو پہلے ہی پتہ ہے کہ پل حرکت نہیں کر سکتا اور نہر کا بہتا پانی رک نہیں سکتا.

احساس کا یہ دھوکہ آپ اکثر ٹرین میں بیٹھے ہوئے بھی محسوس کرتے ہیں، آپ کی ٹرین کسی سٹیشن پر رکی ہوئی ہے، آپ کی ٹرین کے ساتھ ایک دوسری ٹرین کھڑی ہے، اگر وہ دوسری ٹرین سفر کا آغاز کرتے ہوئے آہستہ سے چلنا شروع کرے اور آپ اسے دیکھیں تو آپ کو لگے گا کہ جیسے آپ کی ٹرین حرکت کر رہی ہے اور دوسری ٹرین کھڑی ہے، اب حرکت میں کون ہے اس کا فیصلہ آپ تب تک نہیں کر سکتے جب تک آپ کسی ساکن چیز کو نہ دیکھ لیں جیسے پلیٹ فارم یا عمارتیں، ہمیں یقین ہے کہ جب بھی آپ کو ایسی کسی صورتحال کا سامنا ہوتا ہے تو آپ ایسا ہی کرتے ہیں.
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
خلاء میں فہیم اور شبانہ کا بھی یہی حال ہے.. ان کے قریب کوئی بھی ساکن چیز نہیں ہے (جیسا کہ سٹیشن میں ہے) جس سے وہ فیصلہ کر سکیں کہ ان میں سے رکا ہوا کون ہے اور حرکت میں کون ہے.. جب ہم کہتے ہیں کہ "رکا ہوا کون ہے" تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ان میں سے کوئی ایک بالکل بھی حرکت نہیں کر رہا، کوئی چیز ساکن نہیں ہوتی، ہر چیز حرکت میں ہوتی ہے چاہے ہمارے احساسات کو ایسا لگے کہ وہ ساکن ہے اور حرکت نہیں کر رہی، چنانچہ ہمیں ظاہر کو دیکھ کر کسی چیز پر فیصلہ نہیں کرنا چاہیے.

اس کے علاوہ یہ بھی ہے کہ خلاء میں حرکت اس وقت تک ظاہر نہیں ہوگی جب تک شبانہ کی رفتار فہیم کی رفتار سے مختلف نہیں ہوگی، اگر ان کی رفتار برابر ہوئی تو دونوں کو لگے گا کہ ان میں سے کوئی بھی حرکت نہیں کر رہا.. جب تک دور سے کوئی سیارہ ان کو قریب ہوتا ہوا نظر نہ آجائے اور وہ آہستہ آہستہ اس کے قریب ہوتے چلے جائیں، تب بھی انہیں یہ پتہ نہیں چلے گا کہ سیارہ ان کی طرف بڑھتا چلا آرہا ہے یا وہ اس کی طرف بڑھ رہے ہیں کیونکہ سب کچھ جائز ہے.
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
ستارے آسمان پر اپنے اپنے مقام پر آپ کو ساکن نظر آتے ہیں بلکہ ہر رات اسی مقام پر ہی نظر آتے ہیں.. لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ستارے حرکت نہیں کرتے.. بلکہ وہ اور ہم ایک دوسرے کی نسبت ایک منظم حرکت میں رہتے ہیں اس لیے ہمیں لگتا ہے کہ ہر چیز اپنی جگہ پر ہے.

اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہم کسی بھی طریقے سے مطلق حرکت کو نہیں ناپ سکتے ہیں اور نا ہی اسے ثابت کر سکتے ہیں، جب تک کہ اسے کسی ایسی ساکن چیز سے منسوب نہ کردیں جو قطعی حرکت نہ کرتی ہو.. اور چونکہ کائنات میں کوئی چیز ساکن نہیں ہے اور ہر کوئی ایک دوسرے کی نسبت حرکت میں ہے.. چنانچہ یہ کہنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ ہر حرکت نسبتی ہے.
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
امید ہے کہ اب آپ کو ایتھر کا نظریہ اور سائنسدانوں کی اسے دریافت کرنے کی ناکام کوششوں کی وجہ سمجھ آگئی ہوگی، ممکنہ طور پر کائنات میں وہی ایک اکلوتی ساکن چیز ہوتی جسے بنیاد بناکر یا اس سے منسوب کر کے زمین کی سکون کی نسبت مطلق حرکت ناپی جاسکتی، مگر سائنسدانوں کی تمام تر کوششیں ناکامی سے دوچار ہوئیں کیونکہ وہ شاید موجود ہی نہیں ہے.

انیسویں صدی کے بعض سائنسدانوں کے ذہن میں "قدرت کی سازش" کا خیال پنپنے لگا جو انہیں مطلق حرکت، مطلق معرفت، مطلق حقیقت یا کوئی بھی مطلق چیز دریافت کرنے سے روک رہی ہے!
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
دراصل جسے سائنسدان قدرت کی سازش سمجھ رہے تھے وہ قدرت کی مہربانی ہی تھی جسے سمجھنے کے لیے کسی مساوات کی ضرورت نہیں تھی، بلکہ سوچ کو ایک نئی جہت دینے کی ضرورت تھی، ان کی مثال ایک ایسے شخص سے دی جاسکتی ہے جو ایک ایسا آلہ بنانا چاہتا ہے جو اپنی حرکت کی طاقت سے پیدا کردہ توانائی سے تا قیامت چلتا رہے، اور جب وہ اس میں ناکام ہوجاتا ہے تو کہتا ہے کہ قدرت اس کے خلاف سازش کر کے اسے ایسا آلہ ایجاد کرنے سے روک رہی ہے، لیکن وہ بھول جاتا ہے کہ یہاں پر قدرت کے قوانین میں سے ایک قانون لاگو ہوتا ہے، توانائی کا قانون.. کیونکہ توانائی کی مدد کے بغیر حرکت پیدا نہیں کی جاسکتی چنانچہ یہاں سازش کا کوئی وجود نہیں.
 
Top