• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہم نماز میں رفع الیدین کیوں کرتے ہیں !!!

شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
اہم بات یہ ہے کہ بعض الناس پر لازم کہ وہ اپنی رفع الیدین (جو تمام اہلسنت طبقات کے خلاف وہ کرتے ہیں)کو بمطاق سنت ثابت کریں ۔
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
صحابہ رضی اللہ عنہم نے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل اور فرمان عالی کے مقابلے میں ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ جیسے بلند پایہ صحابہ کی باتوں کو رد کیا ہے جیسے کہ صحیح بخاری میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ قول موجود ہے:
ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما کا کونسا فعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف تھا؟
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
میں تمہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتا ہوں اور تم ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی بات کرتے ہو، مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں تم پر آسمان سے پتھروں کی بارش نہ آئے۔
کیا ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر نا تھے؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!


وَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: عَنْ يَحْيَى بْنِ آدَمَ قَالَ: نَظَرْتُ فِي كِتَابِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِدْرِيسَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ لَيْسَ فِيهِ: ثُمَّ لَمْ يَعُدْ.
فَهَذَا أَصَحُّ لِأَنَّ الْكِتَابَ أَحْفَظُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لِأَنَّ الرَّجُلَ رُبَّمَا حَدَّثَ بِشَيْءٍ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى الْكِتَابِ فَيَكُونُ كَمَا فِي الْكِتَابِ.

سفیان (الثوری) سے عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمٰن بن الأسود عن علقمہ (کی سند) سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: ابن مسعود نے فرمایا: کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھ کر نہ بتاؤں؟ پھر انہوں نے نماز پڑھی تو ایک دفعہ کے علاوہ رفع الیدین نہیں کیا۔
اور احمد بن حنبل نے یحییٰ بن آدم سے بیان کیا کہ: میں نے عبد اللہ بن ادریس کی عاصم بن کلیب سے کتاب میں دیکھا ہے۔ اس میں پھر دوبارہ نہیں کیا، کے الفاظ نہیں ہیں۔ اور (عبد اللہ بن ادریس کی) یہ روایت زیادہ صحیح ہے کیونکہ علماء کے نزدیک کتاب زیادہ محفوظ ہوتی ہے، کیونکہ آدمی بعض أوقات کوئی بات کرتا ہے پھر جب (اپنی کتاب) کی طرف رجوع کرتا ہے تو (صحیح) وہی ہوتا ہے جو کتاب میں ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 57 قرة العينين برفع اليدين في الصلاة مع ترجمه اردو جزء رفع اليدين - أبو عبد الله محمد بن إسماعيل البخاري، (المتوفى: 256هـ) – مكتبه اسلامیه

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 28 قرة العينين برفع اليدين في الصلاة - أبو عبد الله محمد بن إسماعيل البخاري، (المتوفى: 256هـ) - دار الأرقم للنشر والتوزيع، الكويت

714 - حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ قَالَ أَمْلَاهُ عَلَيَّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ مِنْ كِتَابِهِ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ قَالَ حَدَّثَنَا عَلْقَمَةُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ رَكَعَ وَطَبَّقَ يَدَيْهِ وَجَعَلَهُمَا بَيْنَ رُكْبَتَيْهِ فَبَلَغَ سَعْدًا فَقَالَ صَدَقَ أَخِي قَدْ كُنَّا نَفْعَلُ ذَلِكَ ثُمَّ أَمَرَنَا بِهَذَا وَأَخَذَ بِرُكْبَتَيْهِ حَدثنِي عَاصِم بن كُلَيْب هَكَذَا قَالَ أبي هَذَا لفظ غير لفظ وَكِيع، وَكِيع يثبج الحَدِيث لِأَنَّهُ كَانَ يحمل نَفسه فِي حفظ الحَدِيث
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 369 – 371جلد 01 العلل ومعرفة الرجال - أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل (المتوفى: 241هـ) - دار الخاني، الرياض

وَسُئِلَ عَنْ حَدِيثِ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: أَلَا أُرِيكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَفَعَ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ تَكْبِيرَةٍ، ثُمَّ لَمْ يَعُدْ.
فَقَالَ: يَرْوِيهِ عَاصِمُ بن كليب، عن عبد الرحمن بن الأسود، عَنْ عَلْقَمَةَ.
حَدَّثَ بِهِ الثَّوْرِيُّ عَنْهُ.
وَرَوَاهُ أَبُو بَكْرٍ النَّهْشَلِيُّ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عن عبد الرحمن بن الأسود، عن أبيه، وعلقمة، عن عبد الله.
وكذلك رواه ابن إدريس، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ.
وَإِسْنَادُهُ صَحِيحٌ، وَفِيهِ لَفْظَةٌ لَيْسَتْ بِمَحْفُوظَةٍ، ذَكَرَهَا أَبُو حُذَيْفَةَ فِي حَدِيثِهِ، عَنِ الثَّوْرِيِّ، وَهِيَ قَوْلُهُ: "ثُمَّ لَمْ يَعُدْ".
وَكَذَلِكَ قَالَ الْحِمَّانِيُّ، عَنْ وَكِيعٍ.
وَأَمَّا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَابْنُ نُمَيْرٍ، فَرَوَوْهُ عَنْ وَكِيعٍ، وَلَمْ يَقُولُوا فِيهِ: "ثُمَّ لَمْ يَعُدْ".
وَكَذَلِكَ رَوَاهُ مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ أَيْضًا، عَنِ الثَّوْرِيِّ، مِثْلَ مَا قَالَ الْجَمَاعَةُ، عَنْ وَكِيعٍ.
وَلَيْسَ قَوْلُ مَنْ قَالَ: "ثُمَّ لَمْ يَعُدْ" مَحْفُوظًا.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 171 - 173 جلد 05 العلل الواردة في الأحاديث النبوية - أبو الحسن علي بن عمر بن أحمد الدارقطني (المتوفى: 385هـ) - دار طيبة، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 382 - 383 جلد 02 العلل الواردة في الأحاديث النبوية - أبو الحسن علي بن عمر بن أحمد الدارقطني (المتوفى: 385هـ) – مؤسسة الريان، بيروت

یہ محدثین میں سے تین کے حوالاجات ہیں، جنہوں نے الیاس گھمن کی بزعم خویش رفع الیدین عند الرکوع نہ کرنے کی دلیل نمبر 02 کی حدیث کو شاذ وضعیف اور ثابت نہ ہونے کی صراحت کی ہے!

اہل الرائے اور فقہ اہل الرائے کے مقلدین، کہ جن کی فقہ منکرین حدیث کی ماں ہے، وہ ضعیف حدیث کے ردکرنے کو، ''انکار حدیث''، اور صحیح احادیث کو خبر واحد کے نام پر رد کرنے کو ''فقہات'' باور کروایں تو کوئی عجب نہیں، ان سے اور کیا توقع کی جاسکتی ہے!

ایک صاحب غالباً روافض نوازی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے مقابلہ میں ابو بکر صدیق اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے قول کو پیش کرنے پر دانستہ مخالفت کے لازم ہونے کو کشید کر رہے ہیں، اور اس سے یہ باور کروانا چاہتے ہیں، کہ ابو بکر صدیق اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ دانستہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے تھے، کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر محض معصوم عن الخطاء ہی ہو سکتا ہے!
بہر حال، یہ سب شیطان کے وسوسہ ہیں، جو شیطان اپنے چیلوں کو وحی کرتا ہے!


 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
بعض الناس نے ایک حدیث (جسے گھمن صاحب نے ترک رفع الیدین کی دلیل نمبر دو میں درج کیا ہے) کو ضعیف قرار دے کر اس حدیث کو ناقابل قبول یعنی جھوٹی قرار دینے کی مذموم کوشش کی ہے۔
منکرین حدیث میں شامل ہونے کی اچھی کاوش ـــ :)
حدیث یہ ہے؛
سنن النسائي : [حكم الألباني: صحيح]
أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «فَقَامَ فَرَفَعَ يَدَيْهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ ثُمَّ لَمْ يُعِدْ»

بعض الناس کا کہنا ہے کہ اس میں ایک راوی سفیان ہے جو کہ مدلس ہے اور یہاں عن سے روایت کر رہا ہے لہٰذا یہ روایت قابل قبول نہیں۔
کیا سفیان کی وہ تمام روایات جو عن سے مروی ہوں وہ ناقابل قبول ہوں گی؟
یا صرف عاصم بن کلیب والی ہی؟
امام سفیان الثوری مدلس تھے

علم حدیث کے جید علماء نے امام سفیان الثوری کا مدلس ہونا بیان کیا ہے اور تسلیم کیا ؛
حافظ صلاح الدين أبو سعيد خليل الدمشقي العلائي (694 - 761 هـ = 1295 - 1359 م) نے درج ذیل الفاظ میں امام سفیان ثوری کا مدلس ہونا بیان کیا ہے:
’’والثالث: من یدلس عن اقوام مجهولین لا یدری من هم کسفیان الثوری………‘‘
اور تیسرے وہ جو مجہول نامعلوم لوگوں سے تدلیس کرتے تھے، جیسے سفیان ثوری…… (جامع التحصیل فی الاحکام المراسیل ص۹۹)

علامہ ابو زکریا یحیی بن شرف النووی (المتوفى: 676هـ) نے سفیان ثوری کے بارے میں کہا:
’’منها ان سفیان رحمه الله تعالیٰ من المدلسین وقال فی الروایة الاولی عن علقمة والمدلس لا یحتج بعنعنته بالاتفاق الا ان ثبت سماعه من طریق آخر……‘‘
اور ان میں سے یہ فائدہ بھی ہے کہ سفیان (ثوری) رحمہ اللہ مدلسین میں سے تھے اور انھوں نے پہلی روایت میں عن علقمۃ کہا اور مدلس کی عن والی روایت بالاتفاق حجت نہیں ہوتی الا یہ کہ دوسری سند میں سماع کی تصریح ثابت ہو جائے۔ (شرح صحیح مسلم درسی نسخہ ج۱ ص۱۳۶ تحت ۲۷۷، دوسرا نسخہ ج۳ ص۱۷۸، باب جواز الصلوات کلھا بوضوء واحد)

معلوم ہوا کہ علامہ نوویؒ حافظ ابن حجرؒ کی طبقاتی تقسیم کو تسلیم نہیں کرتے تھے بلکہ سفیان ثور ی کو طبقۂ ثالثہ کا مدلس سمجھتے تھے جن کی عن والی روایت ضعیف ہوتی ہے الا یہ کہ سماع کی تصریح یا معتبر متابعت ثابت ہو۔

۱۲)علامہ عینی حنفی بدر الدين محمود بن أحمد الحنفى العينى (المتوفى: 855هـ) نے کہا:
وسُفْيَان من المدلسين، والمدلس لَا يحْتَج بعنعنته إِلَّا أَن يثبت سَمَاعه من طَرِيق آخر. (عمدۃ القاری ، (بابُ الوُضُوءِ مِنْ غَيْرِ حَدَثٍ)
اور سفیان (ثوری) مدلسین مں سے تھے اور مدلس کی عن والی روایت حجت نہیں ہوتی الا یہ کہ اس کی تصریح سماع دوسری سند سے ثابت ہوجائے۔ (عمدۃ القاری ۱۱۲/۳، نور العینین طبع جدید ص۱۳۶، ماہنامہ الحدیث حضرو: ۶۶ ص۲۷)

مصطلح الحدیث کے مشہور امام حافظ عثمان بن عبد الرحمن، أبوعمرو، تقي الدين المعروف بابن الصلاح (المتوفى: 643هـ) نے سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ، اعمش، قتادہ اور ہشیم بن بشیر کو مدلسین میں ذکر کیا پھر یہ فیصلہ کیا کہ مدلس کی غیر مصرح بالسماع روایت قابل قبول نہیں ہے۔
دیکھئے مقدمۃ ابن الصلاح (علوم الحدیث ص۹۹ مع القیید والایضاح للعراقی، نوع: ۱۲)

۱۹)حافظ ابن کثیر نے ابن الصلاح کے قائعدۂ مذکورہ کو برقرار رکھا اور عبارت مذکورہ کو اختصار کے ساتھ نقل کیا۔
( دیکھئے اختصار علوم الحدیث (مع تعلیق الالبانی ج۱ ص۱۷۴)

موجودہ دور کے مشہور عالم اور ذہبیٔ عصر علامہ شیخ عبدالرحمن بن یحییٰ المعلمی الیمانی المکی رحمہ اللہ نے ترک رفع یدین والی روایت (عن عاصم بن کلیب عن عبدالرحمن بن الاسود عن علقمۃ عن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ) کو معلول قرار دیتے ہوئے پہلی علت یہ بیان کی کہ :
الأولى: أن سفيان يدلس ولم أر في شيء من طرق هذا الحديث عنه تصريحه بالسماع.
سفیان (ثوری) تدلیس کرتے تھے اور کسی سند میں ان کے سماع کی تصریح نہیں ہے۔ (دیکھئے التنکیل بما فی تانیب الکوثری من الاباطیل (ج۲ ص۲۰)

علامہ یمانی رحمہ اللہ کی اس بات کا جواب آج تک کوئی نہیں دے سکا۔ نہ کسی نے اس حدیث میں سفیان ثوری کے سماع کی تصریح ثابت کی اور نہ معتبر متابعت پیش کی ہے۔ یہ لوگ جتنا بھی زور لگالیں ترک رفع یدین والی روایت عن سے ہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تنبیہ:

۲۲)موجودہ دور کے ایک مشہور عالم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن بازرحمہ اللہ نے سفیان ثوری رحمہ اللہ کو مدلس قرار دیا اورغیر صحیحین مں ان کی معنعن روایت کو معلول قرار دیا۔
دیکھئے کتاب: احکام و مسائل (تصنیف حافظ عبدالمنان نور پوری ج۱ ص۲۴۵)

ان دلائل و عبارات کے بعد آلِ تقلید (آلِ دیوبندی و آلِ بریلوی) کے بعض حوالے پیش خدمت ہیں:

سرفراز خان صفدر دیوبندی کڑمنگی نے ایک روایت پر سفیان ثوری کی تدلیس کی وجہ سے جرح کی ہے۔ دیکھئے خزائن السنن (۷۷/۲)

محمد شریف کوٹلوی بریلوی نے سفیان ثوری کی ایک روایت پر جرح کرتے ہوئے کہا: ’’اور سفیان کی روایت میں تدلیس کا شبہ ہے۔‘‘ (فقہ الفقیہ ص۱۳۴)

مسٹر امین اوکاڑوی دیوبندی نے ایک روایت پر سفیان ثوریکی تدلیس کی وجہ سے جرح کی۔ دیکھئے مجموعہ رسائل (طبع قدیم ۳۳۱/۳) اور تجلیاتِ صفدر (۴۷۰/۵)

محمد عباس رضوی بریلوی نے لکھا ہے: ’’یعنی سفیان مدلس ہے اور یہ روایت انہوں نے عاصم بن کلیب سے عن کے ساتھ کی ہے اور اصول محدثین کے تحت مدلس کا عنعنہ غیرمقبول ہے جیسا کہ آگے انشاء اللہ بیان ہوگا۔‘‘ (مناظرے ہی مناظرے ص۲۴۹)

معلوم ہوا کہ رضوی وغیرہ کے نزدیک سفیان ثوری طبقۂ ثالثہ کے مدلس تھے۔

۲۷) شیر محمد مماتی دیوبندی نے سفیان ثوری کی ایک روایت کے بارے میں لکھا:
’’اور یہاں بھی سفیان ثوری مدلس عنعنہ سے روایت کرتا ہے۔‘‘ (آئینہ تسکین الصدور ص۹۲)
سرفراز صفدر پر رد کرتے ہوئے شیر محمد مذکور نے کہا:
’’مولانا صاحب خود ہی اراہِ کرم انصاف فرمائیں کہ جب زہری ایسے مدلس کی معنعن رایت صحیح تک نہیں ہوسکتی تو سفیان بن سعید ثوری ایسے مدلس کی روایت کیونکر صحیح ہوسکتی ہے جب کہ سفیان ثوری بھی یہاں عنعنہ سے روایت کر رہے ہیں۔‘‘ (آئینہ تسکین الصدور ص۹۰)
معلوم ہوا کہ شیر محمد مماتی کے نزدیک سفیان ثوری اور امام زہری دونوں طبقۂ ثالثہ کے مدلس تھے۔

۲۸) نیموی تقلیدی نے سفیان ثوری کی بیان کردہ آمین والی حدیث پر یہ جرح کی کہ ثوری بعض اوقات تدلیس کرتے تھے اور انھوں نے اسے عن سے بیان کیا ہے۔ (دیکھئے آثار السنن کا حاشیہ (ص۱۹۴ تحت ح۳۸۴)

۲۹)محمد تقی عثمانی دیوبندی نے سفیان ثوری پر شعبہ کی روایت کو ترجیح دیتے ہوئے کہا: ’’سفیان ثوریؒ اپنی جلالت قدر کے باوجود کبھی کبھی تدلیس بھی کرتے ہیں۔‘‘ (درس ترمذی ج۱ ص۵۲۱)

۳۰) حسین احمد مدنی ٹانڈوی دیوبندی کانگریسی نے آمین والی روایت کے بارے میں کہا: ’’اور سفیان تدلیس کرتا ہے۔‘‘ الخ (تقریر ترمذی اردو ص۳۹۱ ترتیب: محمد عبدالقادر قاسمی دیوبندی)
_____________________
 
Last edited:
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
سنن النسائي : [حكم الألباني: صحيح]
أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «فَقَامَ فَرَفَعَ يَدَيْهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ ثُمَّ لَمْ يُعِدْ»
وَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: عَنْ يَحْيَى بْنِ آدَمَ قَالَ: نَظَرْتُ فِي كِتَابِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِدْرِيسَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ لَيْسَ فِيهِ: ثُمَّ لَمْ يَعُدْ.
فَهَذَا أَصَحُّ لِأَنَّ الْكِتَابَ أَحْفَظُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لِأَنَّ الرَّجُلَ رُبَّمَا حَدَّثَ بِشَيْءٍ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى الْكِتَابِ فَيَكُونُ كَمَا فِي الْكِتَابِ.
ثم لم یعد کے بغیر بھی یہ حدیث اپنے مفہوم میں مکمل ہے۔
ثم لم یعد کے الفاظ بعض الناس کے لئے ہوسکتے ہیں جن کی سمجھ باریکیوں کو سمجھنے سے قاصر ہو۔
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
علم حدیث کے جید علماء نے امام سفیان الثوری کا مدلس ہونا بیان کیا ہے اور تسلیم کیا ؛
معلوم ہوا کہ علامہ نوویؒ حافظ ابن حجرؒ کی طبقاتی تقسیم کو تسلیم نہیں کرتے تھے بلکہ سفیان ثور ی کو طبقۂ ثالثہ کا مدلس سمجھتے تھے جن کی عن والی روایت ضعیف ہوتی ہے الا یہ کہ سماع کی تصریح یا معتبر متابعت ثابت ہو۔
سوائے مدلس ہونے کے اور کوئی جرح سفیان الثوری پر ہے؟
مدلس کی عن والی روایت کیوں ضعیف ہوتی ہے اس پر دلیل درکار ہے؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
علم الحدیث سے قاصر اور نگاہوں میں تقلیدی موتیا کے حامل کو یہ سمجھ کیسے آئے کہ مذکورہ شاذ ضعیف روایت کی محفوظ صحیح روایت یہ ہے:
حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ قَالَ أَمْلَاهُ عَلَيَّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ مِنْ كِتَابِهِ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ قَالَ حَدَّثَنَا عَلْقَمَةُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ رَكَعَ وَطَبَّقَ يَدَيْهِ وَجَعَلَهُمَا بَيْنَ رُكْبَتَيْهِ فَبَلَغَ سَعْدًا فَقَالَ صَدَقَ أَخِي قَدْ كُنَّا نَفْعَلُ ذَلِكَ ثُمَّ أَمَرَنَا بِهَذَا وَأَخَذَ بِرُكْبَتَيْهِ حَدثنِي عَاصِم بن كُلَيْب هَكَذَا قَالَ أبي هَذَا لفظ غير لفظ وَكِيع، وَكِيع يثبج الحَدِيث لِأَنَّهُ كَانَ يحمل نَفسه فِي حفظ الحَدِيث
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 369 – 371جلد 01 العلل ومعرفة الرجال - أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل (المتوفى: 241هـ) - دار الخاني، الرياض
 
Last edited:
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
بعض الناس علم الحدیث کے ٹھیکیدار بنتے ہیں جیسے اہلقرآن فہم قرآن کے ٹھیکیدار۔
ٹھیکیداروں سے معذرت اور اہل عقل اور اہل علم سے درخواست ہے کہ سمجھا دیں کہ درج ذیل حدیث میں اگر ثم لم یعد کے الفاظ نا بھی ہوں تو معنیٰ میں کچھ فرق پڑھتا ہے؟

سنن النسائي : [حكم الألباني: صحيح]
أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «فَقَامَ فَرَفَعَ يَدَيْهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ ثُمَّ لَمْ يُعِدْ»

اگر حدیث ملون الفاظ تک بھی ہو تب بھی اس کا وہی معنیٰ بنتا ہے۔
سبق نمبر ایک:
ثم لم یعد کے الفاظ تو بعض الناس کو حدیث کا فہم دینے کے لئے ہیں۔
دوسرا سبق پہلا سبق ذہن نشیں ہوجانے کے بعد ـــ :)
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اٹکل پچو کی پیروی نے مقلدین اہل الرائے کی مت ہی مار دی ہے، کہ انہیں
«فَقَامَ فَرَفَعَ يَدَيْهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ»
اور
«فَقَامَ فَرَفَعَ يَدَيْهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ ثُمَّ لَمْ يُعِدْ»
کا فرق ہی سمجھ نہیں آریا!

«فَقَامَ فَرَفَعَ يَدَيْهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ»
مرة کا معنی ہوتا ہے، مرتبہ، بار
اول کا معنی ہوتا ہے، پہلی یا پہلا
اول مرة کا معنی ہوا ''پہلی مرتبہ''
اور جب ''پہلی مرتبہ'' کہا گیا ہے، تو کلام کو سمھنے والے، سمجھتے ہیں کہ صرف ''ایک ہی مرتبہ'' نہیں ہے! بلکہ ایک سے زائد مرتہ کا تصور ہے!
کیونکہ پہلے کاتصور اسی صورت ہے، کہ جب اس کے بعد دوسرا ہو، تیسرے کا تصور اس صورت بھی ہوتا ہے، جب اس سے پہلے دوسرا ہو!
لہذا یہاں بیان کا مقصد یہ ہے کہ ''پہلی مرتبہ'' کب ہے، یعنی ''پہلی بار'' رفع الیدین کا مقام اور وقت کیا ہے!
اور اس کے بعد دوسری تیسری ''مرتبہ'' کی نفی یہاں نہیں!

اور یہی بات محفوظ صحیح روایت میں ہے؛
حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ قَالَ أَمْلَاهُ عَلَيَّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ مِنْ كِتَابِهِ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ قَالَ حَدَّثَنَا عَلْقَمَةُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ رَكَعَ وَطَبَّقَ يَدَيْهِ وَجَعَلَهُمَا بَيْنَ رُكْبَتَيْهِ فَبَلَغَ سَعْدًا فَقَالَ صَدَقَ أَخِي قَدْ كُنَّا نَفْعَلُ ذَلِكَ ثُمَّ أَمَرَنَا بِهَذَا وَأَخَذَ بِرُكْبَتَيْهِ حَدثنِي عَاصِم بن كُلَيْب هَكَذَا قَالَ أبي هَذَا لفظ غير لفظ وَكِيع، وَكِيع يثبج الحَدِيث لِأَنَّهُ كَانَ يحمل نَفسه فِي حفظ الحَدِيث
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 369 – 371جلد 01 العلل ومعرفة الرجال - أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل (المتوفى: 241هـ) - دار الخاني، الرياض

«فَقَامَ فَرَفَعَ يَدَيْهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ ثُمَّ لَمْ يُعِدْ»
اس میں دوسری تیسری مرتبہ یعنی پہلی مرتبہ کے بعد کی نفی ہے!
اور کلام سمھنے والے، سمجھتے کہ یہاں بیان میں معروف سے فرق کا اظہار بھی ہے، کہ پہلی مرتبہ تو ہاتھ اٹھائے، اور پھر اس کے بعد جتنی مرتبہ ہیں، نہیں اٹھائے!
کہ معروف تو پہلی مرتبہ ہی ہاتھ اٹھانا نہیں، بلکہ دوسری تیسری مرتبہ بھی ہے! جس کی اس شاذ وضعیف روایت میں نفی ہے!

اور فرق ہونے کی بناء پر ہی روایت کو شاذ وضعیف قرار دیا ہے!
لیکن علم و ہنر سے عاری، عقل خرد کے دشمن یہ گمان کیئے بیٹھے ہین، کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو حدیث کی عربی سمجھ نہیں آئی!

اب کوئی علم الکلام میں جھک مارتے ہوئے، مخلوق کے افعال کو خالق پر قیاس نہ کر لے!
 
Last edited:
Top