• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہیپی برتھ ڈے (HAPPY BIRTH DAY)

حیدرآبادی

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2012
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
500
پوائنٹ
120
شیخ جہاں تک میری عقل کام کرتی ہے وہ میں شیئر کر دیتا ہو کیونکہ میں ایک عدنہ سا طالب علم ہو
جب آپ خود مانتے ہیں کہ آپ ایک ادنیٰ سے طالب علم ہیں اور کسی موضوع پر آپ کی عقل محدود دائرے میں کام کرتی ہے تو پیارے بھائی! ازراہ کرم آپ ہر تھریڈ کو اپنے "مخصوص مطالعہ" سے آلودہ نہ کریں۔ بہتر ہے اسی عنوان کے تحت آپ کوئی علیحدہ تھریڈ بنا کر وہاں اپنا مطالعہ شئر کر لیا کریں۔
بصورت دیگر ہوتا یہ ہے کہ جو لوگ سنجیدگی سے صاحب تھریڈ کے اٹھائے گئے موضوع پر مکالمہ کرنا چاہتے ہیں وہ اس قسم کی فتویٰ بازی کو دیکھ کر بدمزہ ہو کر تھریڈ وزٹ کرنا ہی بند کر دیتے ہیں۔
یہ بات تو ہم میں سے ہر ایک کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہر تھریڈ ہر کسی کے لئے نہیں ہوتا!!
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
ایک بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جب بھی کوئی اہل علم سماجی معاشرتی موضوع پر کچھ "مکالمہ" کرنا چاہتا ہے تو کچھ احباب کیوں کر علماء کے فتاویٰ کاپی پیسٹ کرنا شروع کر دیتے ہیں؟
ہم تو جناب اسے ادبی بدتہذیبی باور کرتے ہیں۔
یہ ایسے ہی ہے جیسے بڑے بزرگ اپنے گھرانے کے کسی لڑکے کی شادی کے معاملات پر سنجیدہ گفتگو کر رہے ہوں اور کوئی بچہ اٹھ کر کہہ دے کہ فلاں فلاں شادی خانہ زیادہ کشادہ اور مشہور ہے۔
میرے بھائی حق بات کوئی بھی کرے اس کی قدر کرنی چاھیے اور غلط بات کوئی بھی کریں چاہے وہ کوئی بھی ہو اس کی اس بات کا رد کریں میری باتوں میں کہا بے ادبی نظر آ رہی ہے
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
جب آپ خود مانتے ہیں کہ آپ ایک ادنیٰ سے طالب علم ہیں اور کسی موضوع پر آپ کی عقل محدود دائرے میں کام کرتی ہے تو پیارے بھائی! ازراہ کرم آپ ہر تھریڈ کو اپنے "مخصوص مطالعہ" سے آلودہ نہ کریں۔ بہتر ہے اسی عنوان کے تحت آپ کوئی علیحدہ تھریڈ بنا کر وہاں اپنا مطالعہ شئر کر لیا کریں۔
بصورت دیگر ہوتا یہ ہے کہ جو لوگ سنجیدگی سے صاحب تھریڈ کے اٹھائے گئے موضوع پر مکالمہ کرنا چاہتے ہیں وہ اس قسم کی فتویٰ بازی کو دیکھ کر بدمزہ ہو کر تھریڈ وزٹ کرنا ہی بند کر دیتے ہیں۔
یہ بات تو ہم میں سے ہر ایک کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہر تھریڈ ہر کسی کے لئے نہیں ہوتا!!

تو بھائی آپ جیسے اہل علم ہی کچھ اس بارے میں بتا دے تا کہ ھم سب کے علم میں اضافہ ہو جائے
 

حیدرآبادی

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2012
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
500
پوائنٹ
120
میرے بھائی حق بات کوئی بھی کرے اس کی قدر کرنی چاھیے اور غلط بات کوئی بھی کریں چاہے وہ کوئی بھی ہو اس کی اس بات کا رد کریں میری باتوں میں کہا بے ادبی نظر آ رہی ہے
اگر یہ حق اور ناحق کا ہی معاملہ ہے تو یہ سیکشن "مکالمہ" کس لئے قائم کیا گیا ہے؟
ہمارے عہد کے نوجوانوں کا مسئلہ یہی ہے کہ چار اردو کتابیں اور دس ادھر ادھر کے فتاویٰ پڑھ کر حق اور ناحق کے نعرے لگانا شروع کر دیتے ہیں ۔۔۔ گویا جو اہل علم برسوں علم دین کے حصول میں جوتیاں گھستے اور اپنا قیمتی وقت لگاتے ہیں وہ گویا حق کو اس قدر محنت کے بعد بھی پہچان نہیں پائے ۔۔۔ سبحان اللہ ۔۔۔
 
شمولیت
ستمبر 13، 2014
پیغامات
393
ری ایکشن اسکور
277
پوائنٹ
71
ابو الحسن بھائی نے کہا
ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ یہ انگریز اقوام سے تشبہ ہے کیونکہ یہ رسم ان سے آئی ہے۔ اگر کوئی رسم مسلمان معاشروں میں اس قدر عام ہو جائے کہ ان کا عرف بن جائے تو پھر تشبہ کا اعتراض باقی نہیں رہنا چاہیے کیونکہ اب تو یہ خود مسلمان معاشروں کا رواج ہے​
یہ تو بہت عجیب بات ہے شریعت کہتی ہے تشابہ نہیں کرنی ابتداء سے ہی روک رہی ہے اور آپ کہتے ہیں کہ تشابہ بکثرت ہو جائے تو اسے تشابہ نہیں کہنا چاھیئے
اس وقت شدت کے ساتھ اس کا رد کرنا چاھیئے کل کو ویلنٹائن ڈے بھی اسی طرح منایا جائے کہ دیکھو عام ہو گیا ہے تو کیا اسے بھی جائز کہ دیں گے ایسے ہی مدرز ڈے فادرز ڈے اور اور اور
بھائی من حسن اسلام المرء ترکہ ما لا یعنیہ
و اللہ اعلم ہمیں تو کبھی ایسی خوشی کا احساس نہیں ہوا کہ آج ھمارا یوم پیدائش ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ انسان کا نظریہ سوچ بدل جائے تو اسے خوشی کا آحساس ہونے لگے مثلا الحمدللہ کے دنیا کی آسائشوں کے نہ چھننے کی خوشی ہوتی ہے نہ ملنے کی لیکن اگر یہی مطمع نظر دنیا بن جائے تو معاملہ الٹ ہو جائے گا
اگر کسی کو یہ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے سوموار کو روزہ رکھا اور کہا کہ ذلک الیوم الذی ولدت فیہ تو آگے یہ بھی ہے و فیہ انزل علی
اور کہاں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور کہاں میں اور آُ اور کوئی اور آخر کو صحا بہ کو یہ عمل کیوں نہ دکھا؟؟؟
دوسری بات پہلے دن گھر والے مٹھائی بانٹتے ہیں تب جائز اور بعد میں نا جائز کیوں ؟؟؟
بھائی یہ وہی بات ہے جو میلاد پر کہی جاتی ہے ایک ہے خوشی ہونا ایک ہے دھکے کی منانا جب بچہ ابتداء پیدا ہوتا ہے تو اس کی بری بات بھی ایک عرصہ تک اچھی لگتی ہے یہ خوشی ہے اور اس عمر میں تو ذرا سی اس کی نصیحت بھی کاٹ جاتی ہے یہ خوشی منانا ہے
علی کل حال انسان کو اپنی آخرت کی فکر زیادہ کرنی چاھیئے ویسے بھی قاعدہ یہی ہے اذا دار الامر بین البدعۃ و المستحب وجب ترکہ
کجا یہ کہ وہ مستحب بھی نا ہو باقی عید کے بعد گلے ملنا یہ رواج ہے اور رواج جب تک شریعت کے خلاف نہ ہو کوئی حرج نہیں ہاں اگر کوئی سنت سمجھتا ہے تو پھر اس پر اعتراض ممکن ہے
ان تجد عیبا فسد الخللا جل من لا عیب فیہ و علا
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
اگر یہ حق اور ناحق کا ہی معاملہ ہے تو یہ سیکشن "مکالمہ" کس لئے قائم کیا گیا ہے؟
ہمارے عہد کے نوجوانوں کا مسئلہ یہی ہے کہ چار اردو کتابیں اور دس ادھر ادھر کے فتاویٰ پڑھ کر حق اور ناحق کے نعرے لگانا شروع کر دیتے ہیں ۔۔۔ گویا جو اہل علم برسوں علم دین کے حصول میں جوتیاں گھستے اور اپنا قیمتی وقت لگاتے ہیں وہ گویا حق کو اس قدر محنت کے بعد بھی پہچان نہیں پائے ۔۔۔ سبحان اللہ ۔۔۔
میرے بھائی الحمدللہ میرے اندر علماء کی قدر ہے لہذا اگر واقعی میری پوسٹ موضوع سے ہٹ کر ہے تو انتیظامیہ اس کو ڈلیٹ کر دے - اس موضوع پر میری یہ آخری پوسٹ ہے
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
@ابوالحسن علوی بھائی کی بات کو "صالحین کے پیار میں قبروں پر عرس" اور "ویلنٹائن ڈے" سے ملانا کچھ غیر مناسب معلوم ہوتا ہے، ان کی بات ان دونوں رواج سے مختلف ہے، لیکن پھر میرے دل میں ایک بات آئی کہ اگر مسلمان آپس کی محبت بڑھانے کے لیئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جنم دن (میلاد النبی) منائیں تو اسکو ہم کس منہ سے بدعت کہیں گے۔ ثواب کی اور ایک دینی فریضے کی نیت سے ہٹ کر اگر جنم دن منایا جئے اور دعا کی جائے اور مٹھائی بانٹی جایے تو کیسا؟ میرے خیال میں خوشی کے جس اظہار کی ضرورت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے محسوس نہ کی، اور ہر سال جنم دن کو منا سکنے کی اہلیت و سمجھ رکھتے ہوئے بھی نہ منایا، نہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا، نا فاطمہ رضی اللہ عنہا کا، تو ہمیں بھی اس سے اجتناب ہی کرنا چاہیئے۔ میرے خیال میں اس میں ذیادہ بہتری ہے۔ واللہ اعلم۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
میں نے یہ موضوع در اصل فیس بک پر شیئر کیا تھا اور وہاں بھی دونوں طرح کے کمنٹس ملے۔ لیکن ایک بات جو میں نے یہ موضوع شیئر کرنے کے بعد بھائیوں کے جوابات میں شدت سے محسوس کی، تو وہ ڈر کی نفسیات ہے۔ ہمارا ایک بڑا مذہبی طبقہ ڈر کی نفسیات کا شکار ہے۔ مجھ سمیت وہ شرعی موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے اپنے دماغ کے کسی کونے کھدرے میں یہ خوف رکھتے ہیں کہ اگر اس کام کی اجازت دین سے نکل آئی تو یہ ہو جائے گا، وہ ہو جائے، لوگ یہ بھی کرنا شروع کر دیں، وہ بھی کر لیں گے وغیرہ وغیرہ۔

اس ڈر کی نفسیات کو اگر میں ایک دنیاوی مثال سے سمجھانا چاہوں تو وہ یہ ہے کہ اگر سڑک پر نکلیں گے تو ایکسیڈنٹ ہو جائے گا۔ بھائی، یہ تو پھر ہے۔ ایکسیڈنٹ تو سڑک پر ہی ہوتا ہے، گھر بیٹھے نہیں ہو گا۔ لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ کاروبار دنیا چھوڑ دیں، گھر سے باہر نکلنا چھوڑ دیں۔ بعض لوگ کوئی ایکسیڈنٹ وغیرہ دیکھ کر گاڑی چلانا چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ وہ اسی قسم کے خوف کا شکار ہو جاتے ہیں۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ سڑک کتنی گاڑیوں کے ایکسیڈنٹ ہوتے ہیں؟ ہزار میں سے ایک کا؟ یا کوئی بھی نسبت وتناسب ہو؟ تو دنیا میں زندگی گزاریں، لگے کہ آپ زندگی گزار رہیں ہیں نہ کہ اس طرح کہ زندگی آپ کو گزار رہی ہو۔

دنیاداروں کی طرف سے دیندار طبقے پر عموما جو ایک اعتراض آتا ہے، وہ یہ بھی ہوتا ہے کہ جیسے کوئی زندگی یا حیات نام کی شیء ہی نہیں ہے۔ پس ہر طرف پژمردگی سی چھائی ہے، زندگی میں کوئی حرکت یا انجوائے منٹ نہیں ہے۔ یہ بھی نہ کرو، وہ بھی نہ کرو۔ لائف کہاں ہے؟ ٹھیک ہے شادی بیاہ کے موقع پر فضول خرچی نہ ہو، ڈانس پارٹی نہ ہو، مخلوط معاشرت سے اجتناب کرنا چاہیے لیکن کیا یہ دین کا تقاضا ہے کہ شادی والا گھر بس دل میں تو چاہے جتنی مرضی خوشی محسوس کر لے لیکن اس کے اظہار کے لیے اسے صرف اتنی ہی اجازت ہے کہ کم از کم اس کے گھر میں ماتم ہونے کا شبہہ نہ ہو۔

اسی طرح دین میں آپ اگر ایک چیز کی گنجائش پر بحث کریں گے تو ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ اسے غلط رخ پر لے جائیں تو غلط رخ پر لے جانے اس غلطی کے ذمہ دار ہیں لیکن اس کا ہر گز مطلب یہ نہیں ہے کہ جس کی اجازت نکلتی ہے، اس پر بھی قدغن لگا دو۔ بلکہ ہمارے مولانا حضرات میں تو باقاعدہ ایک ایسا طبقہ موجود ہے جو خود تو دین کی رخصتوں سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن عوام کو اس لیے نہیں بتلاتے ہیں کہ عوام میں چونکہ اتنی سوجھ بوجھ نہیں ہے لہذا وہ اس رخصت کو معلوم نہیں کیا سے کیا بنا دیں گے۔ اور تو اور چھوڑیں ہم نے تو اسکول کے بچوں کی حوصلہ افزائی کے لیے بجائے جانے والی تالیوں کو بدعت قرار دے دیا؟ کیا یہ زندگی ہے؟

کیا ہم شریعت کا ایسا تصور تو نہیں پیش کر رہے جو زنجیروں اور ہتھکڑیوں میں بندھ جانے کا نام ہو۔ تو ایسے تصور سے عام لوگ دین سے خائف ہی ہوں گے، کونسا دین کے نزدیک آئیں گے؟ یہ باتیں اسی کو سمجھ آ سکتی ہیں، جس نے معاشرے میں نکل کر عام لوگوں میں دعوت کا کام کیا ہو، یا کر رہا ہو۔ باقی رہے مدارس کے علماء، یا دار الافتاء کے مفتی حضرات تو وہ ایسی ذہنی کیفیت اور خاص ماحول میں رہتے ہیں کہ اس ماحول یعنی مدرسہ اور ان کے متعلقین کی حد تک ان کے فتاوی وآراء قابل احترام ہوتے ہیں، باقی عوام الناس، تو ان کے لیے یہ فتاوی اور آراء ایک مذاق سے کم حیثیت نہیں رکھتے۔

سنن ترمذی کی ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ ایک غزوہ سے واپسی پر ایک کالی کلوٹی لونڈی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آ کر کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں نے یہ نذر مانی تھی کہ اگر اللہ نے آپ کو فتح دی تو آپ کے سامنے کھڑے ہو کر گیت بھی گاوں گی اور دف بھی بجاوں گی۔ آپ نے کہا: اگر نذر مانی ہے تو کر لو۔ اس نے ایسا کر لیا۔ کیا کوئی فقیہ اپنے شاگردوں سے بھری مجلس میں کسی لونڈی کو اپنے سر پر کھڑے ہو کر دف بجانے اور گیت گانے کی اجازت دے سکتے تھے، اور وہ بھی مسجد نبوی میں؟ سچ ہے، ایک فقیہ اور نبی کے ظرف میں بہت فرق ہے؟ ہمارے علماء کو نبوی ظرف پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

ہو سکتا ہے کچھ لوگ اب یہ بھی کہیں کہ زبیر صاحب، ابھی دف اور گیت سے شروع ہوئے ہیں، میوزک تک پہنچیں گے۔ اس پر میں وہی تبصرہ کروں گا جو اس پوسٹ کا عنوان ہے کہ ہم ڈر کی نفسیات کا شکار ہیں۔ باقی میں میوزک کو جائز نہیں سمجھتا لیکن یہ ضرور کہتا ہوں کہ ہمیں اس ڈر کی نفسیات سے نکل کر دین اسلام کی وسعتوں میں ان کے متبعن کے لیے جو گنجائشیں موجود ہیں، وہ انہیں دینی چاہییں۔ اور یہ ان کا دینی حق ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں ہم ڈر کی نفسیات کی بنا پر لوگوں کا دینی حق انہیں نہ دے رہے ہوں اور اس وجہ سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے دین کی طرف آنے میں رکاوٹ بن رہے ہوں؟ واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ بھی مکالمہ کی غرض سے ہے۔ ہر قسم کے کمنٹس کو ویلکم کیا جاتا ہے کیونکہ مقصود اصلاح ہے، نہ کہ اپنی بات منوانا۔
 

حیدرآبادی

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2012
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
500
پوائنٹ
120
کہیں ایسا تو نہیں ہم ڈر کی نفسیات کی بنا پر لوگوں کا دینی حق انہیں نہ دے رہے ہوں اور اس وجہ سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے دین کی طرف آنے میں رکاوٹ بن رہے ہوں؟
اس کا تو مجھے نہیں پتا۔ مگر یہ ضرور پتا ہے کہ اس قسم کی سختیوں کے سبب اچھے خاصے باشعور لوگ یا تو الحاد کی جانب مرغوبیت اختیار کر لیتے ہیں یا پھر دین کی چھوٹی بڑی حقیقی پابندیوں کا بھی مذاق اڑا دینے سے نہیں ہچکچاتے۔ ردعمل کی اس نفسیات میں گو کہ کچھ قصور ایسے افراد کا بھی ضرور ہے
 
Top