لہذا میں تو یہی کہتا ہوں جو سلف کہا کرتے تھے کہ جوتوں تک میں تشابہ سے بچنا چاھیئے اور ابن تیمیہ رحمہ اللہ یہی بیان کرتے ہیں کہ شریعت کا مقصود ہی یہ ہے کہ کفار کی ہر کام میں مخالفت کرو
بالا قول پڑھ کر مجھے یہ روایت بےساختہ یاد آ گئی :)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ایک عراقی نے پوچھا کہ حالت احرام میں مکھی کا جائز ہے؟ انہوں نے خفا ہوکر جواب دیا:
"اے اہل عراق تمہیں مکھی کی جان کا اتنا خیال ہے حالانکہ تم رسول اللہ ﷺ کے نواسے کو قتل کرچکے ہو۔"
کتنی عجیب بات ہے کہ محض چند عمومی باتوں/چیزوں کے پیچھے ہم تشبہ تلاش کر رہے ہیں جبکہ دین کے بنیادی امور جن پر تقویٰ و للہیت کا دارومدار ہے وہ سب آج ہماری ترجیحات میں شامل نہیں ۔۔۔ آج ہم میں سے کون ہے جو جھوٹ نہ بولنے کا دعویٰ کرتا ہوں ، جس نے کبھی بدعہدی نہ کی ہو ، امانت میں خیانت نہ کی ہو ، کبھی بداخلاقی کا مظاہرہ اس بنیادی اصول کی روشنی میں نہ کیا ہو (مامن شیٔ اتقل فی المیزان منحسن الخلق / ان من احبّکم الیَّ احسنکم اخلاقاً)
پہلے ہم اپنے تقویٰ کے معیار کو سلف کے معیار تک تو لے جائیں کہ جس معیار تک پہنچ کر آدمی خود بخود بول اٹھے کہ ۔۔۔
آج ہی کے دن (10/دسمبر) 1948 کو اقوام متحدہ نے عالمی یوم حقوق انسانی کی بنیاد رکھتے ہوئے فلاح انسانی کا جو امن چارٹر بنایا تھا وہ تو 1400 سال پہلے ہادئ مکرم نے دنیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے بتا دیا تھا کہ حقوق انسانی اور اس دینِ اسلام کی فطرت کے درمیان مکمل یکجہتی، یکسانیت اورہم آہنگی ہے۔
ورنہ تو دو چار اپنی پسند کی چیزیں ادھر ادھر سے لے لینا کہ فلاں فلاں سلف کی یہ عادت یہ حکمت تھی ۔۔۔۔ یہ دین نہیں میرے بھائی ۔۔۔ نفس پرستی ہے!