• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یزید بن معاویہ

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
پانچویں صدی ہجری سے لے کر آٹھویں صدی تک امت مسلمہ امام حاکم کو رافضی کہتی تھی اس دوران ان پر سے تشیع کا الزام کس نے رد کیا؟
یہ سراسر جھوٹ ہے ۔۔۔ایک عالم کی بات کو پوری امت کا قول کہنا ، بڑی جرات ہے ۔۔۔جو صرف منکرین حدیث کا شیوہ ہے
لکھنوی مقلدین شاید ایک آدمی کو ’’ امت مسلمہ ‘‘ کہتے ہونگے ؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اس کا ترجمہ آپ خود کیوں نہیں کرتے - آپ پر ایک عبارت کا ترجمہ پہلے بھی ادھار ہے- میں بہت پرانا واقف ہوں آپ سے -
التباس پیدا نہ کریں
دیکھئے عربی عبارت آپ نے پیش کی ہے ، اور اس عربی عبارت کو دلیل بنایا ہے ،اسلئے آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس کا ترجمہ ساتھ لکھیں ،
کیا لکھنوی مقلدین کے ہاں کوئی ایک بھی عربی دان نہیں ؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
میں بہت پرانا واقف ہوں آپ سے -
التباس پیدا نہ کریں
آپ میرے واقف ہیں یہ تو خوشی کی بات ہے ۔
اور رہا سوال التباس کا تو ۔۔۔۔۔جب آپ اپنی عبارت کا ترجمہ پیش کریں گے التباس دور ہوجائے گا ۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
آپ میرے واقف ہیں یہ تو خوشی کی بات ہے ۔
اور رہا سوال التباس کا تو ۔۔۔۔۔جب آپ اپنی عبارت کا ترجمہ پیش کریں گے التباس دور ہوجائے گا ۔
اسی واقفیت کی بنا پر مجھے محدث فورم پر بین کی دھمکی دی گئی - اب بھی مجھے امیج اپلوڈ لڑنے کی اجازت نہیں - ظاہر ہے جب ہم اپنے بابوب
یہ سراسر جھوٹ ہے ۔۔۔ایک عالم کی بات کو پوری امت کا قول کہنا ، بڑی جرات ہے ۔۔۔جو صرف منکرین حدیث کا شیوہ ہے
لکھنوی مقلدین شاید ایک آدمی کو ’’ امت مسلمہ ‘‘ کہتے ہونگے ؟

امام حاکم کو تغیر ہوا اس کو کافی دن موصوف کہاں کہاں ہے کرتے رہے
بعض مذاق اڑاتے رہے کہ ایک محدث کو ذہنی مریض بنا دیا

افسوس ان کے جھل پر

پھر زبیر علی زئی رحم الله کا حوالہ دیا تو اس پر لا حول پڑھ دیا

اہل حدیث نے زبیر علی رحم الله کی اس تحریر پر اس کی زندگی میں لا حول کیوں نہیں پڑھا جو اس کے مرنے کے بعد اب اس کی تحریر پر پڑھ رہے ہیں
اس کو ہی التباس کہتے ہیں

کیوں امام حاکم کے سلسلے میں زبیر علی زئی رحم الله کی یاوہ گوئی بند نہ کی گئی
جو یہ لکھ گیا
تحریر: حافظ زبیر علی زئی

حافظ ثناء اللہ ضیاء صاحب کا یہ بیان انتہائی عجیب و غریب ہے۔ المستدرک کے اوہام اہلِ علم پر مخفی نہیں ہیں، بعض جگہ مطبعی اَخطاء(غلطیاں ) ہیں اور بعض مقامات پر خود امام حاکم کو اوہام ہوئے ہیں۔
مثلاً دیکھئے المستدرک(۱؍۱۴۶ح ۵۱۹)
اور التلخیص الحبیر (۱؍۷۲ح ۷۰)

حافظ ابن حجر العسقلانی لکھتے ہیں: ‘‘ وذکر بعضھم أنہ حصل لہ تغیر و غفلۃ فی آخر عمرہ’’

اور بعض نے یہ ذکر کیا ہے کہ انہیں (حاکم کو ) آخری عمر میں تغیر اور غفلت لاحق ہو گئی تھی۔۔۔ (لسان المیزان ۵؍۲۳۳)

اس وقت غیر مقلدین نے اپنے گلے میں زبیر علی زئی رحم الله کا طوق ڈالا کہ ان کو ذکر بعضھم نظر نہ آیا اور کسی نے اس کا رد نہ کیا بلکہ آپ کے سلف ابن حجر اور ان کے شاگرد سخاوی بھی ذکر بعضھم کرتے رہے

امام حاکم پر شیعیت کا الزام رد کرنے کے لئے ان پر تغیر کے قول کو ابن حجر نے لسان المیزان میں لکھا ان کے بعد سخاوی نے لکھا آج کے دور میں زبیر علی رحم الله نے لکھا لیکن اب ہم کہیں تو غلط! افسوس ہے اس دوغلی پالیسی پر

امام حاکم کو اگر ایک عالم نے رافضی کہا تو تین صدیوں میں اس کا کسی نے رد کیوں نہیں کیا؟ یہ سوال ہے جس کا اپ کے پاس جواب نہیں آٹھویں صدی میں جا کر امام الذہبی نے اس کا رد ہی کیوں کیا امام حاکم کے قریب کے لوگ ان کو رافضی مستدرک کی رفض سے بھر پور روایات پر کہہ رہے تھے

باقی یہ کہنا کہ محدث نے سند دی ہے اس پر جرح نہیں کی جا سکتی تو اس بات کا ہی تو افسوس ہے امام حاکم اگر صرف سند دیتے اور کچھ نہ کہتے تو آج ہم یا ان کے دور کے لوگ ان کو رافضی بھی نہ کہتے انھوں نے نہ صرف سند دی روایات کو شیخین کی شرط پر صحیح کہا اور جگہ جگہ امام بخاری و مسلم پر طنز کیا کہ اس کی سند صحیح ہے لیکن انہوں نے اس کی تخریج نہیں کی

نہ صرف یہ انہوں نے رفض سے بھر پور روایات کے دفاع کا حق ادا کر دیا

امام حاکم مستدرک میں حدیث لکھتے ہیں

حَدَّثَنِي أَبُو عَلِيٍّ الْحَافِظُ، أَنْبَأَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَيُّوبَ الصَّفَّارُ وَحُمَيْدُ بْنُ يُونُسَ بْنِ يَعْقُوبَ الزَّيَّاتُ قَالَا: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عِيَاضِ بْنِ أَبِي طَيْبَةَ، ثنا أَبِي، ثنا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلَالٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كُنْتُ أَخْدُمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُدِّمَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرْخٌ مَشْوِيٌّ، فَقَالَ: «اللَّهُمُ ائْتِنِي بِأَحَبِّ خَلْقِكَ إِلَيْكَ يَأْكُلُ مَعِي مِنْ هَذَا الطَّيْرِ» قَالَ: فَقُلْتُ: اللَّهُمُ اجْعَلْهُ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ فَجَاءَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقُلْتُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حَاجَةٍ، ثُمَّ جَاءَ، فَقُلْتُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حَاجَةٍ ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «افْتَحْ» فَدَخَلَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا حَبَسَكَ عَلَيَّ» فَقَالَ: إِنَّ هَذِهِ آخِرَ ثَلَاثِ كَرَّاتٍ يَرُدَّنِي أَنَسٌ يَزْعُمُ إِنَّكَ عَلَى حَاجَةٍ، فَقَالَ: «مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا صَنَعْتَ؟» فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، سَمِعْتُ دُعَاءَكَ، فَأَحْبَبْتُ أَنْ يَكُونَ رَجُلًا مِنْ قَوْمِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ: «إِنَّ الرَّجُلَ قَدْ يُحِبُّ قَوْمَهُ»


انس کہتے ہیں میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خدمت کرتا تھا پس ان کے پاس ایک بھنا ہوا پرندہ لایا گیا آپ نے دعا کی کہ اے الله اپنی خلقت میں سے سب سے محبوب بندے کو یہاں بھیج جو اس کو میرے ساتھ کھائے …. پس علی آ گئے


——-

یہاں تک کہ الذھبی کو تذکرہ الحفاظ میں کہنا پڑا

قال الحسن بن أحمد السمرقندي الحافظ, سمعت أبا عبد الرحمن الشاذياخي الحاكم يقول: كنا في مجلس السيد أبي الحسن, فسئل أبو عبد الله الحاكم عن حديث الطير فقال: لا يصح، ولو صح لما كان أحد أفضل من علي -رضي الله عنه- بعد النبي, صلى الله عليه وآله وسلم.
قلت: ثم تغير رأي الحاكم وأخرج حديث الطير في مستدركه؛ ولا ريب أن في المستدرك أحاديث كثيرة ليست على شرط الصحة, بل فيه أحاديث موضوعة شان المستدرك بإخراجها فيه. وأما حديث الطير فله طرق كثيرة جدًّا قد أفردتها بمصنف ومجموعها هو يوجب أن يكون الحديث له أصل. وأما حديث: “من كنت مولاه … ” فله طرق جيدة وقد أفردت ذلك أيضًا.


الشاذياخي کہتے ہیں ہم سید ابی الحسن کی مجلس میں تھے پس امام حاکم سے حدیث طیر کے سسلے میں سوال کیا انہوں نے کہا صحیح نہیں ہے اور اگر صحیح ہو تو نبی صلی الله علیہ وسلم کے بعد علی سے بڑھ کر کوئی افضل نہ ہو گا


الذھبی کہتے ہیں میں کہتا ہوں اس کے بعد امام حاکم کی رائے میں تغیر آیا

اور انہوں نے مستدرک میں حدیث طیر کو لکھا اور اس میں شک نہیں کہ مستدرک میں کتنی ہی حدیثیں ہیں جو صحت کی شرط پر نہیں بلکہ اس میں موضوع ہیں جن سے مستدرک کی شان کم ہوئی اور جہاں تک حدیث طیر کا تعلق ہے تو اس کے طرق بہت ہیں …. اور اس کا اصل نہیں

امام حاکم نے حدیث طیر کو مستدرک میں لکھا اس کی تصحیح کی اور اس طرح علی کو نبی صلی الله علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل قرار دیا

اسی قسم کی ان کی تصحیح پر ان کے قریب کے دور کے لوگوں نے ان کو رافضی کہا

لہذا امام حاکم کا رفض اس نوعیت کا نہ تھا کہ وہ علی کو ابو بکر تا عمر سے کم سمجھتے تھے وہ تو ان کو ان دونوں سے پڑھ کر قرار دیتے تھے

ذھبی نے اس پر سے رفض کو رد کیا ہے لیکن اس کا کوئی جواب نہیں دیا کہ مستدرک میں یہ مو ضوع روایات کیسے آ گئی ہیں

وأما أمر الشيخين فمعظم لهما بكل حال فهو شيعي لا رافضي، وليته لم يصنف المستدرك فإنه غض من فضائله بسوء تصرفه.


اور جہاں تک شیخین کی تعظیم کا تعلق ہے تو امام حاکم کے نزدیک معظم ہے اور وہ شیعی تھے رافضی نہیں اور کاش انھوں نے مستدرک نہ لکھی ہوتی


لیکن امام حاکم اگر ذھبی کی حرکت دیکھتے کہ ان کی صحیح کہی ہوئی روایات کو وہ مو ضوع کہہ رہے ہیں تو ان کا کیا حال ہوتا تقینا الذھبی ان کی جرح سے بچ نہ پاتے

امام حاکم حدیث طیر مستدرک میں لکھنے کے بعد علی کو تمام اصحاب رسول سے افضل کرتے ہیں اور لکھتے ہیں

هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ ” وَقَدْ رَوَاهُ عَنْ أَنَسٍ جَمَاعَةٌ مِنْ أَصْحَابِهِ زِيَادَةً عَلَى ثَلَاثِينَ نَفْسًا، ثُمَّ صَحَّتِ الرِّوَايَةُ عَنْ عَلِيٍّ وَأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ وَسَفِينَةَ، وَفِي حَدِيثِ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ عَنْ أَنَسٍ زِيَادَةُ أَلْفَاظٍ


یہ حدیث شیخین کی شرط پر صحیح ہے لیکن ان دونوں نے اس کی تخریج نہیں کی اور اس روایت کو انس رضی الله عنہ سے ایک جماعت نے روایت کیا تو تیس سے اوپر ہیں


اس روایت کو امام حاکم سے پہلے محدثین رد کر چکے ہیں لیکن امام حاکم ان کی رائے کو کوئی اہمیت نہیں دیتے بلکہ اپنی چلاتے ہیں

اپ کے بقول

امام حاکم کسی قسم کے تغیر کا شکار نہ تھے رافضی بھی نہیں تھے اور رفض سے پھر پور روایات کو صحیح کہتے تھے تو اب کھل کر غیر مقلدین اپنی رافضیت کا اقرار کیوں نہیں کر لیتے کب تک اپنے باطنی عقائد کو چھپائیں گے
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
حیرت ہے صحابہ پر تنقید کرنے والے۔۔ جہلمی مرزا ۔۔نے بھی ’’ اہل سنت ‘‘ کا چولا پہن لیا !
اور اسی فورم پر مرزا کے نام پر ایک تھریڈ میں اس کی ویڈیو کسی بھائی لگائی تھی جس میں ۔۔مرزا ۔۔کسی رافضی کے قصیدے گا رہا تھا ؛
سو فیصد صحیح کہا آپ نے بھائی - یہ بلکل اہل سنت کا چولا پہنا ہوا ہے ----
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
حافظ ثناء اللہ ضیاء صاحب کا یہ بیان انتہائی عجیب و غریب ہے۔ المستدرک کے اوہام اہلِ علم پر مخفی نہیں ہیں، بعض جگہ مطبعی اَخطاء(غلطیاں ) ہیں اور بعض مقامات پر خود امام حاکم کو اوہام ہوئے ہیں۔ مثلاً دیکھئے المستدرک(۱؍۱۴۶ح ۵۱۹)
اور التلخیص الحبیر (۱؍۷۲ح ۷۰)
حافظ ثناء اللہ ضیاء صاحب کون ہیں ۔۔اور زیر بحث موضوع سے ان کا کیا تعلق ؟
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
حافظ ثناء اللہ ضیاء صاحب کون ہیں ۔۔اور زیر بحث موضوع سے ان کا کیا تعلق ؟
یہ کوئی غیر مقلد عالم ہوں گے توحید.کوم پر زبیر علی رحم الله کی پوری تحریر ہے ان کے خلاف ظاہر ہے ان کو پتا ہو گا کون ہے-
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
آپ مہربانی کر کے مرزا صاحب سے یہ سہولت پوچھ لیں ایک بھائی نے یہ سوالات فیس بک پر پوچھے ہیں -

--------------------------

آپ کے کچھ لیکچرزديکھنے کا اتفاق ہوا۔ براۓ مہربانی ایک تشویش دور فرمائیں :
محدثین اور علماۓ اسما و رجال کے نزدیک صحابی پر جراح ناجائزہے۔ سلسلہ سند اگر صحابی تک پہنچ جاۓ تو صحابی کی عدالت نہیں پرکھی جاتی بلکہ حدیث کو من و عن تسلیم کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف باقی تمام راوی حضرات پر نہ صرف یہ کہ سخت قسم کی جراح موجود ہے بلکہ عدالت کا ایسا معیار اختیار کیا گیا ہے کہ ایک جھوٹ ثابت ہونے پر راوی کو کاذب قرار دے کر مردود اور ضعیف قرار دے دیا گیا۔ اگر معاویہ، مغیرہ اور عمر بن العاص پر اہلسنت کا مذہب چھوڑ کر آپکی جراح اور آپکا فہم تسلیم کر لیا جاۓ تو یہ لوگ تو اول درجے کے کذاب، خائن، لالچی اور ظالم ثابت ہوتے ہیں۔ کجا یہ کہ سقہ ہوں۔ جو لوگ رشوت دے کر اپنے حق اور فضائل میں حدیثیں گھڑوا سکتے ہوں ، تلوار کے زور پر صحابہ سے بعیت لیتے ہوں۔ ان سے بڑھ کر نا قابل اعتبار اور ضعیف الروایت اور کون ہو سکتا ہے؟
کیا ان ٣ صحابہ سے مروی احادیث کو چھوڑ دینا جائز ہے؟ جبکہ انکی ناقابل اعتباری روز روشن کی طرح عیاں ہے۔
براہ کرم مولانا اسحاق کی عجیب و غریب دلیل کہ "ان لوگوں نے ہرگندا کام کیا لیکن حدیث پر جھوٹ نہیں بولا" پیش نہ کیجیے گا۔ اس دلیل کے تحت دنیا کا کوئی کذاب راوی پھر ضعیف نہ رہے گا کیونکہ انصاف یہی ہے کہ یہ کلیہ سب کیليے یکساں ہو۔
اگر وقت ہو تو ایک اور بات بھی واضح کیجیے کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ خلافت معاویہ کے بیس سالہ دور میں بزور طاقت یا لالچ دے کر ابوہریرہ رضی اللہ عنہُ سے روایات کے ذریعے سے مولا علی علیہ سلام کی خلافت برحق بعد ازفوراََ وفاتِ رسولﷺ کی جگہ خُُلفاِ ثلاثہ کی ناجائز خلافت کوثابت کروایا گیا ہو؟ جیسا کہ اہل تشیع کا دعویٰ ہے۔ ﴿ابوہریرہ وصالِ نبیﷺ سے محض ڈھائی سال پہلے اسلام لائے اور یمن سے مدینہ آئے﴾۔
میں عرصہ بارہ برس پہلے اہلِ قران کی فکر چھوڑ کر حدیث کو معیار حُجت ماننے والوں میں شامل ہوا ہوں لیکن آپ کی اس نئی سوچ اور چند صحابہ پر جراح اور کلام نے ایکبار پھرمعاملہ مشکوک کر دیا ہے کہ آیا کہ حدیث واقعی سُنتِ رسول ﷺ ہے یا کہ اُموی اور عباسی بادشاہوں کی من پسند تصانیف؟
محمد علی بھائی جواب آپ پر قرض ہوا۔

-----------------------------------------

مرزا صاحب نے اس کو یہ والا لنک بھیج دیا ہے -
لیکن اس لیکچر میں ان باتوں کا کوئی جواب نہیں ہے ----

وہ بھائی دوبارہ پوچھ رہا ہے -

jo mein nay pocha hai uska koi zikr nahin iss mein. dobara poch leta hon. ''Agar sahabi ka fasiq, fajir, zalim, ghasib, khaain, kazib etc etc hona sabit ho jaye to uss say hadith kaisey ley saktey hain ? aur kya guarntee hay keh sirf yehi 3 sahabi Muaviyah, Mughera, Amr bin Al'aas ghalat thay baqi theek thay" ?

اب یہ سوالات مرزا صاحب اور ان کے لیکچر سننے والوں پر قرض ہیں --
کچھ نام نہاد اہل حدیثوں کے رافضی علماء ان کو اس مقام تک لے آئے ہیں کہ اب وہ کھلے بندوں مادر پدر آزاد صحابہ کرام پر اپنے مکروہ خیالات چسپاں کر رہے ہیں اور آستیں کے ان سانپوں کو دودھ پلانے والے یہ علماء دجال کی مجلس شوری کے ضرور ممبر بننے والے ہیں

یہ سب کیوں ہوا اور ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا ایک راسخ العقیدہ مسلمان کے لئے پریشانی کا سوال ہے اس کی وجہ ان کا وہ سفلی عمل ہے جس نے حدیث رسول کو پامال کر دیا ہے ان کا قدیم و جدید علماء سب بغض معاویہ میں ملوث رہے اور ان کی تنقیص کرنے کو عبادت کہتے رہے امام احمد ہوں یا ابن جوزی ہوں یا امام حاکم هوں یا ابن تیمیہ و ابن قیم ہوں

زمانے کی کروٹ کے ساتھ دین کے ان پیشہ وروں نے جو اب کوے کی طرح چال بدلی تو نہ یہ مسئلہ ان میں پیدا ہو چکا ہے ان کا ایک گروہ سلف کے نقش پر بغض معاویہ کا شکار ہے ان کو غاصب کہتا ہے اور اس جہلم کے رافضی نام نہاد اہل حدیث مولانا اسحاق کی طرح منبر پر کھڑا ہو کر معاویہ پر سب و شتم کرتا ہے
دوسرا گروہ حقائق کو مسخ کر رہا ہے

حواب کے کتے بھونکیں گے ہماری تحریر پر یہ کیسے سیخ پا ہوئے جبکہ اماموں کے امام یحییٰ بن سعید القطان اس کو رد کر چکے ہیں لیکن ان کو البانی رحم الله کی تصحیح پسند آئی لہذا اب کتے بھونکیں گے اور ان کے محراب اس سے گونجیں گے

خلافت تیس سال رہے گی والی روایت کو ابن قیسرانی رد کر چکے لیکن ان کو امام احمد رحم الله کی تصحیح پسند آئی لہذا اب معاویہ راضی الله بادشاہ ہیں ان پر کھلم کھلا جرح ہو گی اور الله معاویہ راضی الله کا پیٹ نہ بھرے سے ان کے محراب گونجیں گے

شیعہ راویوں کو کچھ نہ کہا جائے متقدمین میں جو علی کو عثمان سے افضل سمجہے اس کو رافضی کہا جاتا تھا یہ ان کا قول ہے سو اب عبد الله ابن سبا بھی رافضی نہ رہا اس کا فلسفہ ان علماء کو اسی گھاٹ پر لا کر مارے گا جہاں پانی بھی نہ ملے گا اب ان کے محراب اسی بحث سے گونجیں گے

اس سے بچنے کا طریقه ہمارے اسلاف بتا چکے ہیں کہ جب تم دیکھو کہ کوئی صحابہ پر تنقید کر رہا ہے تو سمجھ لو کہ زندیق ہے

لیکن انہوں نے شیعہ راویوں کو بچانے کے چکر میں نہ صرف عقیدہ خراب کیا بلکہ تاریخ کو بھی مسخ کر چکے ہیں
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
مرزا صاحب سے یہ بھی پوچھنا ہے کہ

حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے یزید کی سربراہی میں بھی جہاد کیا۔ 2۔ کیا یزید کافر تھا یا مسلمان۔ 3۔ جب ہم نماز میں یا نماز کے علاوہ دعا مانگتے ہیں اللهم اغفر للمؤمنين والمؤمنات والمسلمين والمسلمات الاحياء منهم والاموات تو کیا اس کا فائدہ یزید کو بھی ملتا ہے۔ 4۔ اگر وہ مسلمان نہیں تھا تو بعض صحابہ نے اس کی بیعت کیوں کی اور اس کی سربراہی جہاد کیوں کیا۔ 5۔ اگر ہم اسے مسلمان مانتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے گناہوں کی سزا پانے کے بعد جنت میں جائے گا۔ 6۔ اگر ہم اسے کافر نہیں کہتے اور مسلمان سمجھتے ہیں تو کیا کسی مسلمان کو گالی دینا اور لعن تعن کرنا جائز ہے۔ 7۔ کیا یزید آج کل کے ان لوگوں سے برا تھا جو اپنے آپ کو مسلمان تو کہتے ہیں اور ساتھ ساتھ جید صحابہ (ابو بکر و عمر و عثمان) رضوان اللہ علیھم کو گالی دیتے ہیں اور عائشہ رضی اللہ عنھا پر الزام تراشی کرتے ہیں۔ 8۔ جنت و دوزخ میں ڈالنے کا اختیار اللہ کو ہے یا وہ ہماری خواہش کو مدِ نظر لوگوں کوجنت و دوزخ میں ڈالے گا۔ 9۔ کوئی انسان اچھے یا برے اعمال کرتا ہے تو کیا اس کی جزا یا سزا ہمیں ملے گی۔ مہربانی فرما کر راہنمائی فرمائیں۔ شکریہ۔

شیعوں کے بقول علی من جانب الله امام تھے لہذا ان کے مخالف جہنمی ہوئے
انہی کی ڈفلی یہ رافضی فی اہل السنہ بجا رہے ہیں اور عوام کو گمراہ کر رہے ہیں جیسے کہ یزید کوئی مجسمم شیطان ہو
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
امام حاکم کو تغیر ہوا اس کو کافی دن موصوف کہاں کہاں ہے کرتے رہے
بعض مذاق اڑاتے رہے کہ ایک محدث کو ذہنی مریض بنا دیا

افسوس ان کے جھل پر
پھر زبیر علی زئی رحم الله کا حوالہ دیا تو اس پر لا حول پڑھ دیا
اہل حدیث نے زبیر علی رحم الله کی اس تحریر پر اس کی زندگی میں لا حول کیوں نہیں پڑھا جو اس کے مرنے کے بعد اب اس کی تحریر پر پڑھ رہے ہیں
اس کو ہی التباس کہتے ہیں
افسوس ، صد افسوس جس آدمی کو اردو میں اپنی بات سمجھانا بھی نہیں آتی ، وہ محدثین کے اوہام منکشف کرنے چلا ہے ، اور دوسروں کو جہل کا طعنہ دیتا ہے،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری بات یہ کہ اوہام کا معنی شاید ابھی معلوم نہیں !
اور نہ ہی ’’ اوہام ، تغیر ، غفلۃ ‘‘ کا باہمی فرق پتا ہے ،
اس درجہ لاعلمی کے باوجود محدثین پر طعن و تشنیع کا شوق دامن گیر ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اورہاں ابھی تک یہ حقیقت سامنے نہیں آئی کہ ’’ذکر بعضھم ‘‘ کا قائل کون ہے ؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام حاکم کو اگر ایک عالم نے رافضی کہا تو تین صدیوں میں اس کا کسی نے رد کیوں نہیں کیا؟ یہ سوال ہے جس کا اپ کے پاس جواب نہیں آٹھویں صدی میں جا کر امام الذہبی نے اس کا رد ہی کیوں کیا امام حاکم کے قریب کے لوگ ان کو رافضی مستدرک کی رفض سے بھر پور روایات پر کہہ رہے تھے
آپ نے پہلے یہ بڑ ہانکی کہ ’’ امت مسلمہ ‘‘ حاکم کو رافضی کہتی ہے ۔۔اعاذنا اللہ من شر الافک
یہ آپ ہی کا جھوٹ شریف ہے دیکھئے :
پانچویں صدی ہجری سے لے کر آٹھویں صدی تک امت مسلمہ امام حاکم کو رافضی کہتی تھی
پھر آپ نے پینترا بدلا ۔۔اور امت کی جگہ ۔۔ایک عالم لکھ دیا ۔۔۔۔۔

جہاں تک یہ بات کہ
تین صدیوں میں اس کا کسی نے رد کیوں نہیں کیا؟
یہ آپ کی جہالت و بے خبری ہے ۔
امام حاکم کے دور سے لے کر آج تک محدثین انکی توثیق کرتے آئے ہیں ، تراجم و طبقات کی کتابوں میں ان کی شان بیان کرنے والوں کے اقوال دیکھے جا سکتے ہیں
کسی اندھے کو نظر نہ آئے ۔۔یا کسی عربی سے جاہل کو اس کا علم نہ ہو تو اس میں محدثین کا کیا قصور ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top