آپ میرے واقف ہیں یہ تو خوشی کی بات ہے ۔
اور رہا سوال التباس کا تو ۔۔۔۔۔جب آپ اپنی عبارت کا ترجمہ پیش کریں گے التباس دور ہوجائے گا ۔
اسی واقفیت کی بنا پر مجھے محدث فورم پر بین کی دھمکی دی گئی - اب بھی مجھے امیج اپلوڈ لڑنے کی اجازت نہیں - ظاہر ہے جب ہم اپنے بابوب
یہ سراسر جھوٹ ہے ۔۔۔ایک عالم کی بات کو پوری امت کا قول کہنا ، بڑی جرات ہے ۔۔۔جو صرف منکرین حدیث کا شیوہ ہے
لکھنوی مقلدین شاید ایک آدمی کو ’’ امت مسلمہ ‘‘ کہتے ہونگے ؟
امام حاکم کو تغیر ہوا اس کو کافی دن موصوف کہاں کہاں ہے کرتے رہے
بعض مذاق اڑاتے رہے کہ ایک محدث کو ذہنی مریض بنا دیا
افسوس ان کے جھل پر
پھر زبیر علی زئی رحم الله کا حوالہ دیا تو اس پر لا حول پڑھ دیا
اہل حدیث نے زبیر علی رحم الله کی اس تحریر پر اس کی زندگی میں لا حول کیوں نہیں پڑھا جو اس کے مرنے کے بعد اب اس کی تحریر پر پڑھ رہے ہیں
اس کو ہی التباس کہتے ہیں
کیوں امام حاکم کے سلسلے میں زبیر علی زئی رحم الله کی یاوہ گوئی بند نہ کی گئی
جو یہ لکھ گیا
تحریر: حافظ زبیر علی زئی
حافظ ثناء اللہ ضیاء صاحب کا یہ بیان انتہائی عجیب و غریب ہے۔ المستدرک کے اوہام اہلِ علم پر مخفی نہیں ہیں، بعض جگہ مطبعی اَخطاء(غلطیاں ) ہیں اور بعض مقامات پر خود امام حاکم کو اوہام ہوئے ہیں۔ مثلاً دیکھئے المستدرک(۱؍۱۴۶ح ۵۱۹)
اور التلخیص الحبیر (۱؍۷۲ح ۷۰)
حافظ ابن حجر العسقلانی لکھتے ہیں
: ‘‘ وذکر بعضھم أنہ حصل لہ تغیر و غفلۃ فی آخر عمرہ’’
اور بعض نے یہ ذکر کیا ہے کہ انہیں (حاکم کو ) آخری عمر میں تغیر اور غفلت لاحق ہو گئی تھی۔۔۔ (لسان المیزان ۵؍۲۳۳)
اس وقت غیر مقلدین نے اپنے گلے میں زبیر علی زئی رحم الله کا طوق ڈالا کہ ان کو ذکر بعضھم نظر نہ آیا اور کسی نے اس کا رد نہ کیا بلکہ آپ کے سلف ابن حجر اور ان کے شاگرد سخاوی بھی ذکر بعضھم کرتے رہے
امام حاکم پر شیعیت کا الزام رد کرنے کے لئے ان پر تغیر کے قول کو ابن حجر نے لسان المیزان میں لکھا ان کے بعد سخاوی نے لکھا آج کے دور میں زبیر علی رحم الله نے لکھا لیکن اب ہم کہیں تو غلط! افسوس ہے اس دوغلی پالیسی پر
امام حاکم کو اگر ایک عالم نے رافضی کہا تو تین صدیوں میں اس کا کسی نے رد کیوں نہیں کیا؟ یہ سوال ہے جس کا اپ کے پاس جواب نہیں آٹھویں صدی میں جا کر امام الذہبی نے اس کا رد ہی کیوں کیا امام حاکم کے قریب کے لوگ ان کو رافضی مستدرک کی رفض سے بھر پور روایات پر کہہ رہے تھے
باقی یہ کہنا کہ محدث نے سند دی ہے اس پر جرح نہیں کی جا سکتی تو اس بات کا ہی تو افسوس ہے امام حاکم اگر صرف سند دیتے اور کچھ نہ کہتے تو آج ہم یا ان کے دور کے لوگ ان کو رافضی بھی نہ کہتے انھوں نے نہ صرف سند دی روایات کو شیخین کی شرط پر صحیح کہا اور جگہ جگہ امام بخاری و مسلم پر طنز کیا کہ اس کی سند صحیح ہے لیکن انہوں نے اس کی تخریج نہیں کی
نہ صرف یہ انہوں نے رفض سے بھر پور روایات کے دفاع کا حق ادا کر دیا
امام حاکم مستدرک میں حدیث لکھتے ہیں
حَدَّثَنِي أَبُو عَلِيٍّ الْحَافِظُ، أَنْبَأَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَيُّوبَ الصَّفَّارُ وَحُمَيْدُ بْنُ يُونُسَ بْنِ يَعْقُوبَ الزَّيَّاتُ قَالَا: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عِيَاضِ بْنِ أَبِي طَيْبَةَ، ثنا أَبِي، ثنا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلَالٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كُنْتُ أَخْدُمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُدِّمَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرْخٌ مَشْوِيٌّ، فَقَالَ: «اللَّهُمُ ائْتِنِي بِأَحَبِّ خَلْقِكَ إِلَيْكَ يَأْكُلُ مَعِي مِنْ هَذَا الطَّيْرِ» قَالَ: فَقُلْتُ: اللَّهُمُ اجْعَلْهُ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ فَجَاءَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقُلْتُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حَاجَةٍ، ثُمَّ جَاءَ، فَقُلْتُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حَاجَةٍ ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «افْتَحْ» فَدَخَلَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا حَبَسَكَ عَلَيَّ» فَقَالَ: إِنَّ هَذِهِ آخِرَ ثَلَاثِ كَرَّاتٍ يَرُدَّنِي أَنَسٌ يَزْعُمُ إِنَّكَ عَلَى حَاجَةٍ، فَقَالَ: «مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا صَنَعْتَ؟» فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، سَمِعْتُ دُعَاءَكَ، فَأَحْبَبْتُ أَنْ يَكُونَ رَجُلًا مِنْ قَوْمِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ: «إِنَّ الرَّجُلَ قَدْ يُحِبُّ قَوْمَهُ»
انس کہتے ہیں میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خدمت کرتا تھا پس ان کے پاس ایک بھنا ہوا پرندہ لایا گیا آپ نے دعا کی کہ اے الله اپنی خلقت میں سے سب سے محبوب بندے کو یہاں بھیج جو اس کو میرے ساتھ کھائے …. پس علی آ گئے
——-
یہاں تک کہ الذھبی کو تذکرہ الحفاظ میں کہنا پڑا
قال الحسن بن أحمد السمرقندي الحافظ, سمعت أبا عبد الرحمن الشاذياخي الحاكم يقول: كنا في مجلس السيد أبي الحسن, فسئل أبو عبد الله الحاكم عن حديث الطير فقال: لا يصح، ولو صح لما كان أحد أفضل من علي -رضي الله عنه- بعد النبي, صلى الله عليه وآله وسلم.
قلت: ثم تغير رأي الحاكم وأخرج حديث الطير في مستدركه؛ ولا ريب أن في المستدرك أحاديث كثيرة ليست على شرط الصحة, بل فيه أحاديث موضوعة شان المستدرك بإخراجها فيه. وأما حديث الطير فله طرق كثيرة جدًّا قد أفردتها بمصنف ومجموعها هو يوجب أن يكون الحديث له أصل. وأما حديث: “من كنت مولاه … ” فله طرق جيدة وقد أفردت ذلك أيضًا.
الشاذياخي کہتے ہیں ہم سید ابی الحسن کی مجلس میں تھے پس امام حاکم سے حدیث طیر کے سسلے میں سوال کیا انہوں نے کہا صحیح نہیں ہے اور اگر صحیح ہو تو نبی صلی الله علیہ وسلم کے بعد علی سے بڑھ کر کوئی افضل نہ ہو گا
الذھبی کہتے ہیں میں کہتا ہوں اس کے بعد امام حاکم کی رائے میں تغیر آیا
اور انہوں نے مستدرک میں حدیث طیر کو لکھا اور اس میں شک نہیں کہ مستدرک میں کتنی ہی حدیثیں ہیں جو صحت کی شرط پر نہیں بلکہ اس میں موضوع ہیں جن سے مستدرک کی شان کم ہوئی اور جہاں تک حدیث طیر کا تعلق ہے تو اس کے طرق بہت ہیں …. اور اس کا اصل نہیں
امام حاکم نے حدیث طیر کو مستدرک میں لکھا اس کی تصحیح کی اور اس طرح علی کو نبی صلی الله علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل قرار دیا
اسی قسم کی ان کی تصحیح پر ان کے قریب کے دور کے لوگوں نے ان کو رافضی کہا
لہذا امام حاکم کا رفض اس نوعیت کا نہ تھا کہ وہ علی کو ابو بکر تا عمر سے کم سمجھتے تھے وہ تو ان کو ان دونوں سے پڑھ کر قرار دیتے تھے
ذھبی نے اس پر سے رفض کو رد کیا ہے لیکن اس کا کوئی جواب نہیں دیا کہ مستدرک میں یہ مو ضوع روایات کیسے آ گئی ہیں
وأما أمر الشيخين فمعظم لهما بكل حال فهو شيعي لا رافضي، وليته لم يصنف المستدرك فإنه غض من فضائله بسوء تصرفه.
اور جہاں تک شیخین کی تعظیم کا تعلق ہے تو امام حاکم کے نزدیک معظم ہے اور وہ شیعی تھے رافضی نہیں اور کاش انھوں نے مستدرک نہ لکھی ہوتی
لیکن امام حاکم اگر ذھبی کی حرکت دیکھتے کہ ان کی صحیح کہی ہوئی روایات کو وہ مو ضوع کہہ رہے ہیں تو ان کا کیا حال ہوتا تقینا الذھبی ان کی جرح سے بچ نہ پاتے
امام حاکم حدیث طیر مستدرک میں لکھنے کے بعد علی کو تمام اصحاب رسول سے افضل کرتے ہیں اور لکھتے ہیں
هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ ” وَقَدْ رَوَاهُ عَنْ أَنَسٍ جَمَاعَةٌ مِنْ أَصْحَابِهِ زِيَادَةً عَلَى ثَلَاثِينَ نَفْسًا، ثُمَّ صَحَّتِ الرِّوَايَةُ عَنْ عَلِيٍّ وَأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ وَسَفِينَةَ، وَفِي حَدِيثِ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ عَنْ أَنَسٍ زِيَادَةُ أَلْفَاظٍ
یہ حدیث شیخین کی شرط پر صحیح ہے لیکن ان دونوں نے اس کی تخریج نہیں کی اور اس روایت کو انس رضی الله عنہ سے ایک جماعت نے روایت کیا تو تیس سے اوپر ہیں
اس روایت کو امام حاکم سے پہلے محدثین رد کر چکے ہیں لیکن امام حاکم ان کی رائے کو کوئی اہمیت نہیں دیتے بلکہ اپنی چلاتے ہیں
اپ کے بقول
امام حاکم کسی قسم کے تغیر کا شکار نہ تھے رافضی بھی نہیں تھے اور رفض سے پھر پور روایات کو صحیح کہتے تھے تو اب کھل کر غیر مقلدین اپنی رافضیت کا اقرار کیوں نہیں کر لیتے کب تک اپنے باطنی عقائد کو چھپائیں گے