• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یزید بن معاویہ

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
لقد ذکر العلما ان الحاکم فیہ تشیع فقال الخطیب : کان یمیل الی التشیع (تاریخ بغداد 5:474) والکن البعض بالغ فی ذلک قال محمد ابن طاہر المقدسی: سالت ابا اسماعیل عبداللہ الانصاری عن الحاکم ابی عبداللہ فقال: امام فی الحدیث رافضی خبیث (میزان الاعتدال 3: 608) وقد رد الذہبی ھذا الحکم بقولہ: اللہ یحب الانصاف ماالرجل رافضی بل شیعی فقط، وقال ابن طاہر کان شدید التعصب للشیعہ فی الباطن و کان یظہر التسنن فی التقدیم والخلافۃ و کان منحرفا عن معاویۃ و آلہ متظاہرا بذلک و لا یعتذر منہ ورد علیہ الذہبی بقولہ: اما انحرافہ عن خصوم علی فظاہر و اما امر الشیخین فمعظم لھما بکل حال فھو شیعی لا رافضی (تذکرۃ الحفاظ 3:1045)وقال ایضا ھو شیعی مشہور بذلک من غیر تعرض للشیخین (میزان الاعتدال 3:608)و قال موضع آخر: کان من بحور العلم علی تشیع قلیل فیہ ( سیر اعلام النبلا 17:165) و مما یدل علی انحرافہ عن معاویۃ ما اوردہ ابن الجوزی : ان ابا عبدالرحمن السلمی دخل علی الحاکم و ھو فی دارہ محبوس لا یمکن من الخروج الی المسجد من جھۃ اصحاب ابی عبداللہ بن کرام و قد کسروا منبرہ فقال لہ ابو عبدالرحمن : لو خرجت و املیت فی فضائل ھذا الرجل یعنی معاویہ لاسترحت من ھذھ المحنۃ فقال : لا یجئی من قلبی ثلاثا (المنتظم فی تاریخ الامم والملوک 15:110)وقد علل الخطیب البغدادی رمیہ بالتشیع انہ صحح حدیث الطیر (اللہم ائتنی باحب خلقک الیک یاکل معی فی ھذا الطائر الخ) و حدیث من کنت مولاہ فعلی مولاہ ، حدیث معروف
اما من جھۃ اقوال العلماء فیہ فقد وثقہ الخطیب البغدادی (تاریخ بغداد 5:473)وقال الذہبی امام صدوق (میزان الاعتدال 3:608)وقال ابن الحجر : والحکم اجل قدرا و اعظم خطرا و اکبر ذکرا من ان یذکر فی الضعفاء (لسان المیزان 5:233)
وقد نقل ابن حجر اعتذار البعض عنہ بانہ صنف المستدرک فی آخر کتابہ عمرہ و انہ حصل لہ تغیر و غفلۃ فی آخر عمرہ و دلل علی ذلک انہ ذکر جماعۃ فی کتابہ الضعفاء وقطع بترک الروایۃ عنھم و منع الاحتجاج بھم ثم اخرج احادیث بعضھم فی مستدرکہ و صححھا (لسان المیزان 5:233)


یہ میرے تاریخ کے استاد ڈاکٹر عبدالعزیز محمد نور ولی کے مذکرہ کے چند کلمات ہیں جو تحریر کر دیے
اس میں اگر کوئی غلطی ہو تو شیخ اسحاق سلفی حفظہ اللہ تصحیح کر سکتے ہیں
 
Last edited by a moderator:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
لقد ذکر العلما ان الحاکم فیہ تشیع فقال الخطیب : کان یمیل الی التشیع (تاریخ بغداد 5:474) والکن البعض بالغ فی ذلک قال محمد ابن طاہر المقدسی: سالت ابا اسماعیل عبداللہ الانصاری عن الحاکم ابی عبداللہ فقال: امام فی الحدیث رافضی خبیث (میزان الاعتدال 3: 608) وقد رد الذہبی ھذا الحکم بقولہ: اللہ یحب الانصاف ماالرجل رافضی بل شیعی فقط، وقال ابن طاہر کان شدید التعصب للشیعہ فی الباطن و کان یظہر التسنن فی التقدیم والخلافۃ و کان منحرفا عن معاویۃ و آلہ متظاہرا بذلک و لا یعتذر منہ ورد علیہ الذہبی بقولہ: اما انحرافہ عن خصوم علی فظاہر و اما امر الشیخین فمعظم لھما بکل حال فھو شیعی لا رافضی (تذکرۃ الحفاظ 3:1045)وقال ایضا ھو شیعی مشہور بذلک من غیر تعرض للشیخین (میزان الاعتدال 3:608)و قال موضع آخر: کان من بحور العلم علی تشیع قلیل فیہ ( سیر اعلام النبلا 17:165) و مما یدل علی انحرافہ عن معاویۃ ما اوردہ ابن الجوزی : ان ابا عبدالرحمن السلمی دخل علی الحاکم و ھو فی دارہ محبوس لا یمکن من الخروج الی المسجد من جھۃ اصحاب ابی عبداللہ بن کرام و قد کسروا منبرہ فقال لہ ابو عبدالرحمن : لو خرجت و املیت فی فضائل ھذا الرجل یعنی معاویہ لاسترحت من ھذھ المحنۃ فقال : لا یجئی من قلبی ثلاثا (المنتظم فی تاریخ الامم والملوک 15:110)وقد علل الخطیب البغدادی رمیہ بالتشیع انہ صحح حدیث الطیر (اللہم ائتنی باحب خلقک الیک یاکل معی فی ھذا الطائر الخ) و حدیث من کنت مولاہ فعلی مولاہ ، حدیث معروف
اما من جھۃ اقوال العلماء فیہ فقد وثقہ الخطیب البغدادی (تاریخ بغداد 5:473)وقال الذہبی امام صدوق (میزان الاعتدال 3:608)وقال ابن الحجر : والحکم اجل قدرا و اعظم خطرا و اکبر ذکرا من ان یذکر فی الضعفاء (لسان المیزان 5:233)
وقد نقل ابن حجر اعتذار البعض عنہ بانہ صنف المستدرک فی آخر کتابہ عمرہ و انہ حصل لہ تغیر و غفلۃ فی آخر عمرہ و دلل علی ذلک انہ ذکر جماعۃ فی کتابہ الضعفاء وقطع بترک الروایۃ عنھم و منع الاحتجاج بھم ثم اخرج احادیث بعضھم فی مستدرکہ و صححھا (لسان المیزان 5:233)

یہ میرے تاریخ کے استاد ڈاکٹر عبدالعزیز محمد نور ولی کے مذکرہ کے چند کلمات ہیں جو تحریر کر دیے
اس میں اگر کوئی غلطی ہو تو شیخ اسحاق سلفی حفظہ اللہ تصحیح کر سکتے ہیں
جہاں تک میری یاداشت ہے امام حاکم کے تشیع پر شیخ مکرم زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے ایک تحریر مرتب فرمائی تھی ،
بسیار کوشش کے باوجود نہ مل سکی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
و نبه الشيخ سعد حفظه الله إلى أمر مهم في المسألة حيث قال :
".... بل هو أحسن حالاً من كثير من أهل السنة ممن نسب إلى التشيع القليل من أهل السنة , فإن أؤلئك كانوا يقدمون علي على عثمان رضي الله عنهما , وإما الحاكم قدم عثمان على علي _ رضي الله عن الجميع _ , فذكر فضائل أبي بكر ثم عمر ثم عثمان ثم علي _ رضوان الله عليهم أجمعين _ . "
مناهج المحدثين ‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ابو اسماعیل الھروی کےقول ’’ رافضی خبیث ‘‘ کے متعلق ایک تعلیق بھی ملاحظہ فرمائیں :
قال المعلمي في (التنكيل )::
وأما قول بعضهم «إمام في الحديث رافضي خبيث» فقد أجاب عنهما الذهبي في (الميزان) قال: «إن الله يحب الإنصاف ما الرجل برافضي، بل شيعي فقط» . وتذكرني هذه الكلمة ما حكوه أن الصاحب ابن عباد كتب إلى قاضي قم:
أيها القاضي بقم ... قد عزلناك فقم
فقال القاضي: ما عزلتني إلا هذه السجعة.
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اور علم حدیث سے باخبر ہر طالب علم جانتا ہے کہ مصطلح الحدیث میں ’’ تشیع ‘‘ سے مراد موجودہ تشیع نہیں ، بلکہ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں :
فالتشيع في عرف المتقدمين هو اعتقاد تفضيل علي على عثمان, وأن عليا كان مصيبا في حروبه وأن مخالفه مخطئ مع تقديم الشيخين وتفضيلهما ‘‘
( تهذيب التهذيب ص۹۴ )
یعنی عرف متقدمین میں جناب علی ؓ کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر فضیلت دینے ،اور علی رضی اللہ عنہ کو جنگوں میں برحق سمجھنے،اور ان کے مخالفین کو مخطیء سمجھنے کو تشیع کہا جاتا تھا ،جبکہ ایسا متشیع سیدنا عمر اور سیدنا ابو بکر کی افضلیت و تقدیم کا قائل ہوتا تھا ،
بہت خوب ۔
خود حافظ ذہبی علیہ الرحمہ سے اس کی وضاحت منقول ہے ، میزان(ج1ص6ط البجاوی ) میں فرماتے ہیں :

أبان بن تغلب الكوفي شيعي جلد، لكنه صدوق، فلنا صدقه وعليه بدعته.
وقد وثقه أحمد بن حنبل، وابن معين، وأبو حاتم، وأورده ابن عدي، وقال: كان غاليا في التشيع.
وقال السعدي: زائغ مجاهر.
فلقائل أن يقول: كيف ساغ توثيق مبتدع وحد الثقة العدالة والإتقان؟ فكيف يكون عدلا من هو صاحب بدعة؟ وجوابه أن البدعة على ضربين: فبدعة صغرى كغلو التشيع، أو كالتشيع بلا غلو ولا تحرف، فهذا كثير في التابعين وتابعيهم مع الدين والورع والصدق.
فلو رد حديث هؤلاء لذهب جملة من الآثار النبوية، وهذه مفسدة بينة.
ثم بدعة كبرى، كالرفض الكامل والغلو فيه، والحط على أبي بكر وعمر رضي الله عنهما، والدعاء إلى ذلك، فهذا النوع لا يحتج بهم ولا كرامة.
وأيضاً فما أستحضر الآن في هذا الضرب رجلا صادقا ولا مأمونا، بل الكذب شعارهم، والتقية والنفاق دثارهم، فكيف يقبل نقل من هذا حاله! حاشا وكلا.
فالشيعي الغالي في زمان السلف وعرفهم هو من تكلم في عثمان والزبير وطلحة ومعاوية وطائفة ممن حارب عليا رضي الله عنه، وتعرض لسبهم.
والغالي في زماننا وعرفنا هو الذي يكفر هؤلاء السادة، ويتبرأ من الشيخين أيضاً، فهذا ضال معثر ‘
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
جب لا علمی کے ساتھ خیانت بھی ہو تو یہی نتیجہ سامنے آتا ہے جو اس پوسٹ میں نظر آرہا ہے ۔

پہلے لسان المیزان کا حوالہ دے کر دماغی خرابی کا الزام لگایا ،اور بالکل غیر متعلق عبارت چسپاں کردی ۔
اب خیر سے ’’سیر الاعلام النبلاء ‘‘ کا حوالہ انتہائی فنکاری کے ساتھ رفض کی تہمت لگانے کیلئے استعمال کرلیا ۔
اور کتاب کا نام بھی غلط لکھا ہے ۔۔۔اور قائل القول بھی غلط بتایا ۔۔
اور دو باتیں چھپالیں :ایک یہ کہ حاکم حدیث میں ثقہ ہے ،
اور دوسر یہ کہ : ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : ان پر رافضی ہونے کا الزام سرے سے غلط ہے ؛

خیر اس کتاب کی محولہ پوری عبارت درج ذیل ہے :
أنبأني أحمد بن سلامة، عن محمد بن إسماعيل الطرسوسي، عن ابن طاهر: أنه سأل أبا إسماعيل عبد الله بن محمد الهروي، عن أبي عبد الله الحاكم، فقال: ثقة في الحديث، رافضي خبيث.
قلت: كلا ليس هو رافضيا، بل يتشيع ‘‘

ترجمہ :: ابن طاہر نے ابو اسماعیل الھروی سے امام ابو عبد اللہ الحاکم کے متعلق پوچھا ،تو انہوں نے کہا ۔۔حدیث میں ثقہ ہے ،اور خبیث رافضی ہے،
امام الذہبی فرماتے ہیں :ہرگز ہرگز رافضی نہیں ،بلکہ ان میں تشیع پایا جاتا ہے ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور علم حدیث سے باخبر ہر طالب علم جانتا ہے کہ مصطلح الحدیث میں ’’ تشیع ‘‘ سے مراد موجودہ تشیع نہیں ، بلکہ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں :
فالتشيع في عرف المتقدمين هو اعتقاد تفضيل علي على عثمان, وأن عليا كان مصيبا في حروبه وأن مخالفه مخطئ مع تقديم الشيخين وتفضيلهما ‘‘
( تهذيب التهذيب ص۹۴ )
یعنی عرف متقدمین میں جناب علی ؓ کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر فضیلت دینے ،اور علی رضی اللہ عنہ کو جنگوں میں برحق سمجھنے،اور ان کے مخالفین کو مخطیء سمجھنے کو تشیع کہا جاتا تھا ،جبکہ ایسا متشیع سیدنا عمر اور سیدنا ابو بکر کی افضلیت و تقدیم کا قائل ہوتا تھا ،



تحریر: حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ

حافظ ثناء اللہ ضیاء صاحب کا یہ بیان انتہائی عجیب و غریب ہے۔ المستدرک کے اوہام اہلِ علم پر مخفی نہیں ہیں، بعض جگہ مطبعی اَخطاء(غلطیاں ) ہیں اور بعض مقامات پر خود امام حاکم کو اوہام ہوئے ہیں۔ مثلاً دیکھئے المستدرک(۱؍۱۴۶ح ۵۱۹)
اور التلخیص الحبیر (۱؍۷۲ح ۷۰)

حافظ ابن حجر العسقلانی لکھتے ہیں: ‘‘ وذکر بعضھم أنہ حصل لہ تغیر و غفلۃ فی آخر عمرہ’’

اور بعض نے یہ ذکر کیا ہے کہ انہیں (حاکم کو ) آخری عمر میں تغیر اور غفلت لاحق ہو گئی تھی۔۔۔ (لسان المیزان ۵؍۲۳۳)
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
اس عبارت کا ترجمہ کرکے واضح کیا جائے کہ اس میں حاکم پر کیا جرح کی گئی ہے ؟
اس کا ترجمہ آپ خود کیوں نہیں کرتے - آپ پر ایک عبارت کا ترجمہ پہلے بھی ادھار ہے- میں بہت پرانا واقف ہوں آپ سے -
التباس پیدا نہ کریں

عَبْدَ اللهِ بنَ مُحَمَّدٍ الهَرَوِيَّ نے تو رافضی کہا کہ نہیں الذھبی تو آٹھویں صدی میں جا کر اس کا رد کر رہے ہیں

اگر وہ رفضی نہیں تھے تو اس کا مطلب ہے کہ جن روایات کو امام حاکم صحیح قرار دے گئے ان سب کو تسلیم کیا جائے نہ کہ ان کو موضوع کہا جائے لیکن یہ کام ابن جوزی اور الذھبی دونوں نے کیا

امام حاکم کا دفاع بھی کرتے رہے اور ان کی صحیح قرار دی گئی روایات کو ضعیف اور مو ضوع بھی کہتے رہے
جن روایات کو مو ضو ع کہا گیا ان میں رفض نہیں تو اور کیا ہے

کیا کبھی مسترک بھی دیکھی ہے یا عوام کو دھوکہ دتیے رہیں گے آج کھول کے دیکھیں اس میں کن کن روایات کو وہ درست اور صحیح اور شیخین کی شرط پر کہہ چکے ہیں اور ان میں کیا رافضیت کے حق میں روایت نہیں


لیکن بعد میں انے والوں نے امام حاکم کی اصل کتاب میں ان کی صحیح قرار دی گئی روایات کو ضعیف کہا
امام حاکم نے تو ان رفض والی روایات کو صحیح کہا تھا

یہ ہے اصل بات کہ وہ خود ان روایات کو پسند کرتے تھے لیکن بعد میں آٹھویں صدی میں الذھبی نے ان کی تصحیح کو رد کیا اس کو الذھبی کی تحقیق کہا جا سکتا ہے لیکن اس سے امام حاکم کے موقف کو چھپایا نہیں جا سکتا کہ ان میں میلان شیعیت تھا اور وہ علی کی عثمان پر فضیلت سے بڑھ کر تھا یہ بھی آپ مستدرک میں دیکھ سکتے ہیں

الذھبی نے مستدرک کی ایک دو روایات کو نہیں ٦٧ روایات کو مو ضوع کہا ہے ضعیف تو اس سے بھی زیادہ ہیں
کیا پورے ہوش میں صاحب مستدرک جو ضعیف رویوں پر کتاب بھی مرتب کر چکے تھے ان ٦٧ روایات کو کیسے لکھ گئے؟ اس کا کیا جواب ہے کیا یہ وہم ہے نہیں وہم تو ایک دو راویوں پر ہو سکتا ہے ٦٧ روایات پر نہیں

وسیلہ کے شرک کے حق میں روایت بھی روایت ہےآدم علیہالسلام پر وسیلہ کے شرک کی تمہت لگا دی اس کو مستدرک میں بزعم خود صحیحین کے مطابق بھی سمجھا
لہذا شخصیت پرستی چھوڑ کر غیر جانب دار ہو کر چیزوں کو سمجھیں

اس پر لوگ بات نہیں کرتے کہ امام حاکم بد عقیدگی میں یہ لکھ گئے یا کسی حالت تغیر میں
پانچویں صدی ہجری سے لے کر آٹھویں صدی تک امت مسلمہ امام حاکم کو رافضی کہتی تھی اس دوران ان پر سے تشیع کا الزام کس نے رد کیا؟
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
اس عبارت کا ترجمہ کرکے واضح کیا جائے کہ اس میں حاکم پر کیا جرح کی گئی ہے ؟
یہاں بھی ترجمہ آپ پر ادھار ہے

عجیب اوٹ پٹانگ ترجمہ ہے۔۔پتا نہیں کس جاہل نے یہ ’’ گل کھلائے ‘‘ ہیں ۔اور انہیں کاپی پیسٹ کردیا گیا ہے۔
خیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ستبدي لك الأيام ما كنت جاهلاً
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
حافظ ابن حجر العسقلانی لکھتے ہیں: ‘‘ وذکر بعضھم أنہ حصل لہ تغیر و غفلۃ فی آخر عمرہ’’

اور بعض نے یہ ذکر کیا ہے کہ انہیں (حاکم کو ) آخری عمر میں تغیر اور غفلت لاحق ہو گئی تھی۔۔۔ (لسان المیزان ۵؍۲۳۳)
اب آئی اصل بات سامنے ۔۔۔اور وہ یہ کہ :
کہ پتا نہیں کس نے کہا کہ امام حاکم کو تغیر و غفلت لاحق ہوگئی تھی ؟
یعنی ایساکہنے والا کوئی مجہول آدمی ہے ۔۔اور کسی مجہول کے کہنے سے ایک عالم ’’ دماغی مریض بن گیا ؟ لا حول ولا قوۃ الا باللہ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اگر وہ رفضی نہیں تھے تو اس کا مطلب ہے کہ جن روایات کو امام حاکم صحیح قرار دے گئے ان سب کو تسلیم کیا جائے نہ کہ ان کو موضوع کہا جائے لیکن یہ کام ابن جوزی اور الذھبی دونوں نے کیا

امام حاکم کا دفاع بھی کرتے رہے اور ان کی صحیح قرار دی گئی روایات کو ضعیف اور مو ضوع بھی کہتے رہے
جن روایات کو مو ضو ع کہا گیا ان میں رفض نہیں تو اور کیا ہے
جس بات کا علم نہ ہو ۔۔اس پر علم والوں کا گریبان نہیں کھینچا کرتے ۔۔۔
محدث جب کوئی روایت بالاسناد نقل کرے تو روایت پر نقد و جرح ہوسکتی ہے لیکن اس محدث پر نہیں ، کیونکہ سند بیان کرکے اس اپنا حق ادا کردیا،
پوری امانت و دیانت سے ہر طرح کے راوی کا نام بتلا دیا
اور دور تدوین کا کوئی ایسا محدث نہیں جس کی بیان کردہ تمام روایات کی اسانید متروک و ضعفاء سے مبرا ہوں ۔
اور اسانید کا مقصد ہی یہ ہے کہ روایات سننے والا صحیح اور غلط کا فیصلہ کرلے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
کیا کبھی مسترک بھی دیکھی ہے یا عوام کو دھوکہ دتیے رہیں گے آج کھول کے دیکھیں اس میں کن کن روایات کو وہ درست اور صحیح اور شیخین کی شرط پر کہہ چکے ہیں اور ان میں کیا رافضیت کے حق میں روایت نہیں
الحمد للہ ۔۔۔نہ صرف المستدرک دیکھی ہے ۔۔بلکہ اللہ کے فضل سالہا سال سے اس کی بے شمار راوایات کی جانچ پرکھ بھی کرنے کا موقع ملا۔
اور اس استدراک پر دیگر اہل علم کے تحقیقی کام کی اطلاع بھی ہے ۔

اور عوام کو دھوکہ ہم نہیں ۔۔بلکہ محدثین کے خلاف بدگمانیاں پھیلانے والے دے رہے ہیں ۔۔
جو احادیث رسول ﷺ کو مشکوک بنا کر لکھنو کے جہال کے رستے پر عوام کو لے جانا چاہتے ہیں ؛
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top