ناصبی کوئی منظم فرقہ نہیں رہا بلکہ یہ محض ایک رجحان تھا جو بعض لوگوں میں جاری رہا۔ جب بنو عباس نے بنو امیہ کے اقتدار کا خاتمہ کیا تو ان کے حامیوں کو بھی قتل کیا۔ اس میں ناصبی فرقہ بھی مٹ کر رہ گیا۔ بعد کی صدیوں میں ان میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے تاہم یہ منظم نہیں ہو سکے۔ ابن کثیر نے اپنے زمانے (آٹھویں صدی ہجری) کے بعض لوگوں کا ذکر کیا ہے جو سانحہ کربلا کی یاد میں دس محرم کو جشن منایا کرتے تھے۔ بہرحال امت میں ان لوگوں کو کبھی قبول عام حاصل نہیں ہوا- اس وجہ سے یہ گروہ کبھی کھل کر سامنے نہیں آ سکا ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ بعض لوگوں کا انفرادی رجحان تھا۔ (واللہ عالم)-
اہل تشیع کے نزدیک ''ناصبیت'' کی تعریف کچھ مختلف ہے۔ان کے نزدیک تمام اہل سنت ناصبی ہیں۔ ہر وہ شخص جو حضرت عثمان اور معاویہ رضی اللہ عنہما سے عقیدت رکھتا ہو، ان کے نزدیک ناصبی میں شمار ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ اہل تشیع کے معتدل لوگوں کا موقف اس سلسلے میں مختلف ہو تاہم ان کے متشدد لوگوں کا موقف یہی معلوم ہوتا ہے۔
یزید بن ہارون سے کہا گیا: ''آپ حضرت عثمان کے فضائل تو بیان کرتے ہیں لیکن حضرت علی کے فضائل کیوں بیان نہیں کرتے؟'' انہوں نے جواب دیا: ''حضرت عثمان کے ساتھی تو حضرت علی کے بارے میں کوئی منفی بات نہیں کرتے لیکن جو لوگ خود کو اصحاب علی کہتے ہیں، وہ حضرت عثمان کے خلاف زبان درازی کرتے ہیں۔