بازوق صاحب۔ السلام علیکم۔
آپ کے جواب سے ظاہر ہو رہا ہے کہ آپ اس بات کا اقرار کررہے ہیں کہ مختلف مکتبہ فکر کے پاس جمع شدہ احادیث بھی (استغفراللہ) اللہ کا کلام ہے اگر چند شرائط کی تکمیل ہو جائے۔
دیکھیں پہلا فرق تو یہیں ظاہر ہو گیا، وہ یہ کہ لوگوں کی جمع شدہ احادیث کا کلام اللہ ہونا آپ کے نزدیک چند شرائط سے مشروط ہے۔ کیا اللہ کی کتاب کا کلام اللہ ہونا بھی آپ کے لئے چند شرائط سے مشروط ہوگا؟؟ غور کرنے کے لئے یہ ایک بڑا فرق ہے۔
اب آپ کے سوال کی طرف آتے ہیں۔ آپ کا سوال ہے
جن "لوگوں" سے سن کر نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تلاوت شدہ آیات جمع کی گئیں اور اسے قرآن کا نام دیا گیا تو جب وہی لوگ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کوئی بات بیان کریں تو اسے حدیث کہہ کر قبول کرنے میں ہچکچاہٹ کیوں ہے؟
اپ کے سوال کا تجزیہ کرتے ہیں۔ سوال میں آپ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی بات آگے بیان ہونے کو حدیث کہ رہے ہیں۔ جبکہ پہلے آپ لکھ چکے ہیں کہ چند شرائط کے پورا ہونے کے بعد یہ اللہ کا کلام ہے۔ تو آپ کا سوال یوں بنےگا۔
جن "لوگوں" سے سن کر نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تلاوت شدہ آیات جمع کی گئیں اور اسے قرآن کا نام دیا گیا تو جب وہی لوگ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کوئی بات بیان کریں تو اسے اللہ کا کلام کہہ کر قبول کرنے میں ہچکچاہٹ کیوں ہے؟
اس کو آپ اس طرح سمجھیں جیسے کہ آپ کو اللہ کی کتاب آپ کے آباء و اجداد سے ملی۔ آپ یہ اللہ کی کتاب اپنی بعد والی نسل کے لئے چھوڑ جائیں گے۔ یعنی انسان صرف اللہ کی کتاب کو منتقل کر رہا ہے۔ اللہ کی کتاب کی حفاظت ،اس کا لاریب ہونا، اس کا باطل سے پاک ہونا ،ہر طرح کی ملاوٹ سے پاک ہونا ان سب باتوں کی زمہ داری اور اتھارٹی اللہ واحد کی ہے۔ کسی بھی انسان کی نہیں۔ جبکہ لوگوں کی جمع کردہ احادیث کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ وہ اللہ کا کلام تو بہت دور کی بات ہے وہ تورسول کے الفاظ تک نہیں ہیں۔ یاد رکھیں دنیا کی کوئ کتاب بشمول احادیث کی تمام کتب یہ دعوی نہیں کرتیں کہ وہ اللہ کا کلام ہیں۔یہ ظلم عظیم تو آپ کر رہے ہیں۔
لوگوں کی جمع شدہ احادیث پر نظر ڈالیں تو یہاں راویوں کا ایک سلسلہ ہے، جو بات لو رسول کی جانب منسوب کرتا ہے۔ یہاں حدیث کی اتھارٹی روایت کرنے والوں کی ہے۔ جو کہ تمام انسان تھے۔ پھر مذید دیکھیں احادیث کو جمع کر کہ کتابی شکل دینے والے حضرات نے بھی لاکھوں احادیث اپنے علم، فہم ، صوابدید اور اپنے بنائے ہوئے اصولوں کی وجہ سے ضائع کردیں اور اپنی کتب میں ان کو شامل نہیں کیا۔ اگر یہ احادیث بھی اللہ کا کلام ہوتیں تو ان حضرات میں ایک حدیث بھی ضائع کرنے کی طاقت نہ ہوتی۔ یہ حضرات نہ تو نبی تھے نہ ہی رسول اور نہ ہی ان پر اللہ کی وحی نازل ہوتی تھی کہ ان کا کام ہمارے لئے حجت ہو۔
ہمیں اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ کوئی انسان ہمیں بتائے کہ یہ قرآن ہے۔ اللہ خود اپنی اتھررٹی پر اپنی کتاب میں بتا رہا ہے کہ قرآن کس نے نازل کیا ہے اور اس کا رسول بھی بتا رہا ہے۔
"طس۔ وہ آیت ٖقرآن کی اور واضح کتاب کی ہیں۔ (النمل۔1)
"یس۔ پر از حکمت قرآن کی قسم۔ (یس۔1،2)
"کہ بے شک ہم نے اسے ایک قرآن عربی بنا دیا تاکہ تم سمجھ سکو۔ (الزخرف۔3)
"ق۔ قرآن مجید کی قسم "(ق۔1)
"بلکہ وہ تو بزرگی والا قرآن ہے" (البروج۔21)
"الر۔ وہ آیات کتاب اور ایک واضح قرآن کی ہیں" (الحجر۔1)
"اور کہہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا اور بیشک باطل تو مٹنے والا ہی ہے۔ (الاسراء۔81)