السلام علیکم۔السلام علیکم
ہمیں اللہ سبحان تعالی نے اس عقل سے نوازہ ھے کہ قرآن مجید کو کھولے بغیر نن مسلم کو اللہ سبحان تعالی کی کتاب ثابت کر دیں۔
والسلام
بھائی صاحب اس عقل کا اظہار تحریر میں لے آیئں۔
اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
السلام علیکم۔السلام علیکم
ہمیں اللہ سبحان تعالی نے اس عقل سے نوازہ ھے کہ قرآن مجید کو کھولے بغیر نن مسلم کو اللہ سبحان تعالی کی کتاب ثابت کر دیں۔
والسلام
ذکر کے معنی نصیحت ہوتے ہیں آپ نے بریکٹ میں کتاب لکھاہے جوغلظ ہے-اس آیت سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ نصیحت کی حفاظت اللہ کے ذمہ ہے -پورے قران یا احکام و مسائیل کی حفاظت کا وعدہ ان آیتوں میں کہاں ہے-دلیل حاضر ھے۔
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ﴿١٥-٩﴾
بےشک یہ (کتاب) نصیحت ہمیں نے اُتاری ہے اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں۔
عبدالعلام صاحب۔ذکر کے معنی نصیحت ہوتے ہیں آپ نے بریکٹ میں کتاب لکھاہے جوغلظ ہے-اس آیت سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ نصیحت کی حفاظت اللہ کے ذمہ ہے -پورے قران یا احکام و مسائیل کی حفاظت کا وعدہ ان آیتوں میں کہاں ہے-
محترم مسلم بھائی،عبدالعلام صاحب۔
مجھے یہ قوی امیّد تھی کہ آپ یہ اعتراض ضرور کریں گے۔ لہٰذا اس کا جواب حاضر ھے، کہ ذکر کیا چیز ھے اور اللہ نے اپنی کتاب میں
اس کی تعریف کیا بیان فرمائی ھے۔
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِالذِّكْرِ لَمَّا جَاءَهُمْ ۖ وَإِنَّهُ لَكِتَابٌ عَزِيزٌ ﴿٤١-٤١﴾
جن لوگوں نے نصیحت کو نہ مانا جب وہ ان کے پاس آئی۔ اور یہ تو ایک عالی رتبہ کتاب ہے
کہیئے ، اللہ تعالٰی تو فرما رہا ھے کہ ذکر ( لَكِتَابٌ عَزِيزٌ) زبردست کتاب ھے۔ کیا آپ اس سے کفر کریں گے؟
مجھے نہیں یاد کہ میرے کسی سوال کی وجہ سے موضوع بدل گیا ھے۔ اگر ایسا ھے تو معذرت خواہ ہوں۔اس دھاگے کا اصل موضوع کچھ اور تھا۔ جو بعد میں آپ کے ایک سوال کی بدولت بدل کر کچھ سے کچھ ہو گیا۔
خیر، سب سے پہلے تو آپ یہ نوٹ کر لیجئے کہ قرآن کے کلام اللہ ہونے، سچی اور محفوظ کتاب ہونے، اس کی ایک ایک آیت پر ایمان لانے، قلبی تصدیق کی حد تک آپ کا ہمارا کوئی اختلاف نہیں۔ جو سوالات آپ سے کئے جاتے ہیں، ان کا مقصد آپ کے نظریہ کی غلطی واضح کرنا ہوتا ہے، نا کہ کتاب اللہ پر اعتراض کرنا۔ (نعوذباللہ)۔ لہٰذا ، ایمان نہیں لاتے اور کفر کرتے ہیں وغیرہ، جیسے جملوں کے استعمال سے پرہیز کیا کریں
اپنی کئی پوسٹس میں، میں نے لکھا تھا کہ "اللہ کی کتاب کی حفاظت، اللہ کے ذمّہ ھے، وہاں بھی قران کی جگہ کتاب کا لفظ ہی استعمالاس مختصر تمہید کے بعد اب یہ بتائیے کہ قرآن کی حفاظت پر آپ نے جو آیت پیش کی ہے۔ اس میں لفظ ہے ’ذکر‘۔ اللہ نے ذکر کی حفاظت کا وعدہ کیا ہے۔ اب اوپر جو آپ نے دوسری آیت پیش کی ہے کیا اس میں قرآن کا کہیں ذکر ہے؟ اس میں بھی کتاب عزیز کا ذکر ہے۔
اوپر آیت سے یہ بات ثابت ھے کہ کتاب اور قران ایک ہی بات ھے۔لہٰذا سوال اب بھی قائم ہے کہ قرآن کی حفاظت کا وعدہ خداوندی قرآن میں کہاں موجود ہے؟ اسی صریح انداز میں یہ وعدہ دکھائیے جیسے کہ آپ ہم سے موسیٰ علیہ السلام کو تورات دئے جانے کا اور تورات کے آسمان سے نازل کئے جانے پر صراحت کا مطالبہ کرتے ہیں۔
اب درج زیل آیات بہت غور اور فکر سے پڑہیں۔ آپ کے سارے سوالات کت جواب مل جائیں گے۔ انشاء اللہ۔اور مہربانی کر کے اپنا نظریہ وضاحت کے ساتھ بتا دیجئے کہ آپ کے نزدیک قرآن کے محفوظ کتاب ہونے سے کیا مراد ہے؟ صرف الفاظ کی حفاظت ، یا اس کے معانی بھی حفاظت کے وعدہ الٰہی میں شامل ہیں؟ اور الفاظ کی حفاظت میں بھی کیا قرآن کا ایک ایک نقطہ، شوشہ، زیر ، زبر ، پیش، سورتوں کے نام، موجودہ سورتوں کی ترتیب ، یہ سب بھی حفاظت کے وعدہ میں شامل ہیں یا نہیں؟
اپنے الفاظ میں مختصرا" عرض کرتا ہوں۔محترم، بات واضح نہیں ہو پائی۔ آپ اپنے الفاظ میں فقط اتنا بتا دیجئے کہ آپ کو ان قرآنی آیات سے حفاظت قرآن کے متعلق کیا سمجھ آتا ہے؟ کیا اللہ تعالیٰ نے فقط الفاظ قرآن کی حفاظت کا وعدہ کیا ہے یا معانی کی بھی حفاظت اللہ کے ذمہ ہے۔ قرآنی آیات تو ہمارے بھی سامنے کھلی ہیں، لیکن اکثر اوقات آپ ان سے کچھ اور مراد لے رہے ہوتے ہیں اور ہم کچھ اور۔ لہٰذا آپ اپنا نظریہ اپنے الفاظ میں واضح کر دیجئے۔
السلام علیکم۔
بھائی صاحب اس عقل کا اظہار تحریر میں لے آیئں۔
اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔