• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

۲... واسطوں پر بھروسا۔ نواقض اسلام۔ ڈاکٹر شفیق الرحمن

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
آپ کو ایک ہی بات بتائی ہے اس کی طرف آپ کا التفات ہی نہیں۔
غلو کرنا چھوڑ دیجیے واسطے اور وسیلے سمجھ آجائیں گے۔
اسی غلو کی وجہ سے آپ نے مندرجہ ذیل پوسٹ لکھ دی۔

اس حدیث سے ایک اور بھی بات معلوم ہوئی کہ حضرت عمر حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو اپنے سے بھی ذیادہ نیک اور افضل مانتے تھے ایسی لئے انھوں نے خود سے دعا کرنے کی بجائے اپنے سے افضل اللہ کے نیک بندے کے وسیلے سے اللہ سے دعا کی
آپ کے دل کا بغض و عناد برائے امیر المؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ تو اس بات سے ظاہر ہو رہا ہے:
اس حدیث سے ایک اور بھی بات معلوم ہوئی کہ حضرت عمر حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کا نام آیا تو آپ نے رضی اللہ عنہ لکھ دیا ہے
ان سے پہلے امیر المؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا نام آیاتو آپ نے رضی اللہ عنہ نہیں لکھا۔

اور یہ بھی یاد رکھیں کہ یہ آپ کا مسلسل وطیرہ ہے۔ اس سے پہلے بھی میں نے یہ بات نوٹ کی تھی لیکن آپ کو لکھی نہیں تھی۔ ضرورت پڑے تو بتا دینا وہ حوالہ جات بھی ان شاء اللہ لکھ دوں گا۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
آپ کو ایک ہی بات بتائی ہے اس کی طرف آپ کا التفات ہی نہیں۔

اسی غلو کی وجہ سے آپ نے مندرجہ ذیل پوسٹ لکھ دی۔



آپ کے دل کا بغض و عناد برائے امیر المؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ تو اس بات سے ظاہر ہو رہا ہے:

سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کا نام آیا تو آپ نے رضی اللہ عنہ لکھ دیا ہے
ان سے پہلے امیر المؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا نام آیاتو آپ نے رضی اللہ عنہ نہیں لکھا۔

اور یہ بھی یاد رکھیں کہ یہ آپ کا مسلسل وطیرہ ہے۔ اس سے پہلے بھی میں نے یہ بات نوٹ کی تھی لیکن آپ کو لکھی نہیں تھی۔ ضرورت پڑے تو بتا دینا وہ حوالہ جات بھی ان شاء اللہ لکھ دوں گا۔
ان ضمنی باتوں کو چھوڑ کر اگر موضوع کی مناسبت سے کچھ کہنا چاہتے ہیں تو میں اس کے لئے ہم تن گوش ہوں جہاں تک غلو کرنے کی بات ہے تو پہلے ہی عرض کرچکا کہ جو امور دین میں ناجائز نہیں ان کو ناجائز کہنا بھی غلو کے زمرے میں آتا ہے اور یہ تھریڈ ایسی غلو کی ایک مثال ہے
اور دوسری بات کہ خلیفہ دوئم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا کو اپنے سے افضل اور نیک مانتے تھے ان کے وسیلہ سے دعا کرتے تھے لیکن ان کی پرستش کرنے والوں نے غلو سے کام لیتے ہوئے ان کا درجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا سے بھی بڑھا دیا یہ بھی غلو کی ایک قسم ہے
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
یہ ترجمہ داؤد راز کا کیا گیا ترجمہ ہے اور اس ترجمہ میں صاف طور سے لکھا ہے کہ حضرت عمر حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے دعا کرتے تھے اب الفاظ کوئی بھی ہوں اس سے کیا فرق پڑتا ہے کیونکہ آپ زندہ نیک بندے کے وسیلے سے دعا کرنے سے متفق نہیں نہ کہ فلاں الفاظ یا فلاں الفاظ سے
فرق پڑتا ہے ، ضرور پڑتا ہے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ الفاظ کیسے بھی ہوں، افسوس کا مقام تو یہی ہے کہ آپ الفاظوں میں الجھا کر عوام الناس کی آنکھوں میں اِس طرح دھول جھونکتے ہیں، اسی لئے میں نے بیان کیا تھا کہ:
لیکن کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ یہاں وسیلہ ڈالنے سے مراد اُن کی ذات کا وسیلہ ہے یا اُن سے دعا کروانے کا وسیلہ ہے
جس کا آپ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ صرف اسی بات کا جواب دے لیں ساری بات سامنے آ جائے گی۔ ان شاءاللہ
میں نے یہ بھی کہا:
پوری بات یہاں کوڈ کریں
لیکن آپ نے توجہ نہیں کی، اگر آپ صحیح بخاری سے ہی استفادہ کر رہے ہیں تو اس روایت کی جو شرح حافظ ابن حجر عسقلانی نے "فتح الباری" میں لکھی وہ بھی بیان کریں، نیز یہ بھی بتائیں کہ اس حدیث سے فلاں کے صدقے یا فلاں کے طفیل مانگنے کا جواز کس کس نے پیش کیا، نیز یہ بھی بتائیں کہ اس واقعے کے بعد کتنے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے لوگوں کے وسیلوں سے دعا کرنا شروع کر دی، نیز یہ بھی بتائیں کہ کیا اس روایت کے بعد اہل بیت بھی اس بات کے قائل تھے کہ فلاں کے طفیل یا صدقے دعا کروانا جائز ہے؟؟؟؟
ہمارا جواب ہے کہ نہیں، صحابہ کرام و اہل بیت رضی اللہ عنھم اجمعین صرف اللہ سے مانگا کرتے تھے اور اللہ کو ہی پکارا کرتے تھے۔
اس حدیث سے ایک اور بھی بات معلوم ہوئی کہ حضرت عمر حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو اپنے سے بھی ذیادہ نیک اور افضل مانتے تھے ایسی لئے انھوں نے خود سے دعا کرنے کی بجائے اپنے سے افضل اللہ کے نیک بندے کے وسیلے سے اللہ سے دعا کی
جب ہم میں سے کوئی ایک چھوٹی سی بات بھی ایسی لکھ دے جو موضوع کے متعلق نہ ہو تو آپ جھٹ سے "غیر متعلق"ریٹ کر دیتے ہیں، لیکن آپ بتائیں کیا یہ بات موضوع کے متعلق ہے؟؟؟
اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے وہ کئی مرتبہ ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھم کی تعریف ثابت کر چکے ہیں تو آپ کیوں نہیں مانتے، اقرار کریں ۔ اور دوسری بات کہ کس کا درجہ کس سے زیادہ ہے یہ اللہ بہتر جانتا ہے، ہمارا یہ ماننا ہے کہ تمام صحابہ کرام واہل بیت رضی اللہ عنھم اجمعین جنتی ہیں۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
ان ضمنی باتوں کو چھوڑ کر اگر موضوع کی مناسبت سے کچھ کہنا چاہتے ہیں تو میں اس کے لئے ہم تن گوش ہوں جہاں تک غلو کرنے کی بات ہے تو پہلے ہی عرض کرچکا کہ جو امور دین میں ناجائز نہیں ان کو ناجائز کہنا بھی غلو کے زمرے میں آتا ہے اور یہ تھریڈ ایسی غلو کی ایک مثال ہے
اور دوسری بات کہ خلیفہ دوئم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا کو اپنے سے افضل اور نیک مانتے تھے ان کے وسیلہ سے دعا کرتے تھے لیکن ان کی پرستش کرنے والوں نے غلو سے کام لیتے ہوئے ان کا درجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا سے بھی بڑھا دیا یہ بھی غلو کی ایک قسم ہے
انا لله وانا اليه رجعون
ہمارا تو کوئی غیر اللہ کا پجاری نہیں ، الحمدللہ۔۔۔ سب ایک اللہ کی عبادت کرنے والے ہیں اور اُسی ایک اللہ سے ہی مدد مانگتے ہیں۔
لیکن ذرا اپنے مذہب میں جھانک لیں، کوئی پٹھی پر سجدہ کرتا نظر آئے گا تو کوئی گھوڑے کو ہاتھ لگا کر اپنے جسم پر پھیرتا نظر آئے گا، کوئی حسین رضی اللہ عنہ کو رب کہتا نظر آئے گا تو کوئی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خدا کہتا نظر آئے گا۔ کوئی گھوڑے کے نیچے سے گزرتا دکھائی دے گا (گھوڑے کی بھی ہمت کی داد دینی پڑے گی یہ اُس کے نیچے سے گزرتے ہیں اور وہ چپ چاپ کھڑا رہتا ہے) تو کوئی قبروں ، آستانوں، تعزیوں کے سامنے جھکا نظر آئے گا۔۔۔ اپنا دامن اگرشرک کی غلاظت میں لتھڑا ہے تواس کے چھینٹے دوسروں پر مت پھینکیں بلکہ اپنی اصلاح کریں۔اللہ آپ کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
بقول آپ کے ‘‘یہ تھریڈ ایسی غلو کی ایک مثال ہے’’
یہ تھریڈ تو مثال نہیں البتہ آپ کی اس پوسٹ پر آپ کا یہی فتوی لوٹ آتا ہے مثلاً آپ نے لکھا:
اور دوسری بات کہ خلیفہ دوئم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا کو اپنے سے افضل اور نیک مانتے تھے ان کے وسیلہ سے دعا کرتے تھے لیکن ان کی پرستش کرنے والوں نے غلو سے کام لیتے ہوئے ان کا درجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا سے بھی بڑھا دیا یہ بھی غلو کی ایک قسم ہے
حالانکہ اس پورے تھریڈ میں کسی کو افضل و برتر قرار نہیں دیا گیا۔

دوسری بات یہ کہ
دھوکہ دہی میں آپ سے زیادہ ماہر اور کون ہو سکتا ہے؟
مثلاً
بہتر یہ ہے کہ آپ بھی اس بات سے متفق ہوجائے کیونکہ آپ کے لئے حضرت عمر کی سنت کی پیروی کرنا لازم ہے
حالانکہ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ ہم اللہ تعالی کے حکم سے صرف اور صرف رسول اللہ ﷺ کی سنت کی پیروی کرنا لازم سمجھتے ہیں۔

تیسری بات یہ کہ جس طرح تم خود غیراللہ کی پرستش کے داعی ہو۔ اسی طرح دوسرے لوگوں کو بھی سمجھتے ہو۔ اور اب ہمارے اوپر غیراللہ کی پرستش کا الزام تھوپتے ہو۔ اللہ کا خوف تم میں اگر ہے تو توبہ کر لو اگر اسی حال میں تمہیں موت آگئی تو میں تمہارے خلاف تمہاری ہی عبارت اللہ کی بارگا میں پیش کروں گا کہ مالک یوم الدین: اس نے یہ لکھا تھا:
quote="بہرام, post: 112685, member: 473"]اور دوسری بات کہ خلیفہ دوئم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا کو اپنے سے افضل اور نیک مانتے تھے ان کے وسیلہ سے دعا کرتے تھے لیکن ان کی پرستش کرنے والوں نے غلو سے کام لیتے ہوئے ان کا درجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا سے بھی بڑھا دیایہ بھی غلو کی ایک قسم ہے[/quote]
الحمد للہ! ہمارا مشن صرف اور صرف
ایاک نعبد و ایاک نستعین ہے
ہم صرف اللہ ہی کی عبادت کرتے ہیں
اور صرف اللہ ہی سے مدد مانگتے ہیں
اللہ کے علاوہ کسی بھی غیر موجود سے مدد مانگنا شرک سمجھتے ہیں۔

اب بھی آپ کے لئے یہی کہیں گے:
غلو کرنا چھوڑ دیجیے واسطے اور وسیلے سمجھ آجائیں گے۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
فرق پڑتا ہے ، ضرور پڑتا ہے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ الفاظ کیسے بھی ہوں، افسوس کا مقام تو یہی ہے کہ آپ الفاظوں میں الجھا کر عوام الناس کی آنکھوں میں اِس طرح دھول جھونکتے ہیں، اسی لئے میں نے بیان کیا تھا کہ:

جس کا آپ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ صرف اسی بات کا جواب دے لیں ساری بات سامنے آ جائے گی۔ ان شاءاللہ
میں نے یہ بھی کہا:

لیکن آپ نے توجہ نہیں کی، اگر آپ صحیح بخاری سے ہی استفادہ کر رہے ہیں تو اس روایت کی جو شرح حافظ ابن حجر عسقلانی نے "فتح الباری" میں لکھی وہ بھی بیان کریں، نیز یہ بھی بتائیں کہ اس حدیث سے فلاں کے صدقے یا فلاں کے طفیل مانگنے کا جواز کس کس نے پیش کیا، نیز یہ بھی بتائیں کہ اس واقعے کے بعد کتنے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے لوگوں کے وسیلوں سے دعا کرنا شروع کر دی، نیز یہ بھی بتائیں کہ کیا اس روایت کے بعد اہل بیت بھی اس بات کے قائل تھے کہ فلاں کے طفیل یا صدقے دعا کروانا جائز ہے؟؟؟؟
ہمارا جواب ہے کہ نہیں، صحابہ کرام و اہل بیت رضی اللہ عنھم اجمعین صرف اللہ سے مانگا کرتے تھے اور اللہ کو ہی پکارا کرتے تھے۔
لیجئے پہلے میں صحیح بخاری کی پوری روایت کو کوڈ کردیتا ہوں پھر اس پر اپنی رائے کا اظہار کرونگا
أنَّ عمرَ بنَ الخطابِ رضيَ اللهُ عنهُ : كانَ إذَا قَحَطُوا استسْقَى بالعباسِ بنِ عبدِ المطلبِ . فقالَ : اللهمَّ إنَّا كنَّا نَتَوَسَّلُ إليكَ بنبيِّنَا فَتَسْقِيَنَا ، وإنا نَتَوَسَّلُ إليكَ بعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا ، قالَ فَيُسْقَونَ .
الراوي: أنس بن مالك المحدث:البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 1010
خلاصة حكم المحدث: [صحيح]

ترجمہ از داؤد راز
جب کبھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں قحط پڑتا تو عمر رضی اللہ عنہ حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے دعا کرتے اور فرماتے کہ اے اللہ! پہلے ہم تیرے پاس اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ لایا کرتے تھے۔ تو تو پانی برساتا تھا۔ اب ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کو وسیلہ بناتے ہیں تو تو ہم پر پانی برسا۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ چنانچہ بارش خوب ہی برسی۔
اب اس روایت میں صاف طور سے بیان ہوا کہ خلیفہ دوئم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ سے بارش کے لئے دعا کررہیں ہیں یہاں دعا اللہ ہی سے کی جارہی ہے جو کہ آپ کے اس عقیدے کی نفی نہیں کہ
صحابہ کرام و اہل بیت رضی اللہ عنھم اجمعین صرف اللہ سے مانگا کرتے تھے اور اللہ کو ہی پکارا کرتے تھے۔
لیکن اس دعا کو مقبول کرنے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا کا وسیلہ دیا جارہا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ تو شہ رگ سے بھی قریب ہے وہ دعاؤں کا قبول کرنے والاہے پھر اگر خلیفہ دوئم بغیر وسیلے کے خود ہی دعا کرتے تو کیا اللہ تعالیٰ ان کی دعا کو قبول نہیں کرتا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا کا وسیلہ دینے کے ضرورت کیا تھی یہی وہ نکتہ ہے جو میں آپ کو سمجھنا چاہتا ہوں کہ اگر اللہ تعالٰی سے بغیر وسیلے سے بھی دعا کی جائے تو بھی اللہ ایسے قبول کرتا ہے لیکن خلیفہ دوئم کا عقیدہ اس روایت سے یہ ظاہر ہوا کہ جن لوگوں کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب ہو اگر ان کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ سے دعا کی جائے تو اس دعا کے مقبول ہونے کی امید دو چند ہوجاتی ہے

جب ہم میں سے کوئی ایک چھوٹی سی بات بھی ایسی لکھ دے جو موضوع کے متعلق نہ ہو تو آپ جھٹ سے "غیر متعلق"ریٹ کر دیتے ہیں، لیکن آپ بتائیں کیا یہ بات موضوع کے متعلق ہے؟؟؟
اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے وہ کئی مرتبہ ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھم کی تعریف ثابت کر چکے ہیں تو آپ کیوں نہیں مانتے، اقرار کریں ۔ اور دوسری بات کہ کس کا درجہ کس سے زیادہ ہے یہ اللہ بہتر جانتا ہے، ہمارا یہ ماننا ہے کہ تمام صحابہ کرام واہل بیت رضی اللہ عنھم اجمعین جنتی ہیں۔
آپ وسیلے کے ٹاپک میں غلو کے موضوع کو لے آئے تو ایسے میں غیر متعلق ریٹ نہ کروں تو پھر کیا کروں اور جب آپ کو غلو کی اقسام بتائی جاتی ہیں پھر آپ ہی کہتے ہیں کیا اس کا موضوع سے کوئی تعلق ہے ؟؟؟؟

اگر آپ کا یہ عقیدہ نہیں کہ ابوبکر و عمر بلترتیب انبیاء علیہ السلام کے بعد افضل ہیں تو پھر میں آپ سے معافی چاہتا ہوں کہ ایک ایسے عقیدے کی نسبت میں نے آپ کی جانب کردی جو آپ کا نہیں امید ہے آپ میری معذرت قبول فرمائیں گے شکریہ
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
حالانکہ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ ہم اللہ تعالی کے حکم سے صرف اور صرف رسول اللہ ﷺ کی سنت کی پیروی کرنا لازم سمجھتے ہیں۔
عقیدہ اور امور دین کے بارے میں اہل سنت والجماعت کے اصول و ضوابط
«عَلَيْکُمْ بِسُنَّتِی، وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِيْنَ الْمَهْدِيِّينَ تَمَسَّکُوْا بِهَا وَعَضُّوْا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ،
''تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو، اسے مضبوطی سے تھام لو اور دانتوں کے ذریعہ سختی سے پکڑ لو"

http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/926/192/اب جبکہ آپ کو اپنے عقیدہ اور امور دین کے بارے میں اصول و ضوابط ہی نہیں معلوم تو آپ پھر دوسروں کے عقیدہ کے بارے سنی سنائی باتوں پر کیوں یقین کرلیتے ہیں اس لئے میری گذارش ہے کہ آپ پہلے اپنے عقیدہ اور امور دین کے بارے میں اصول و ضوابط کے بارے علم حاصل کریں
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
عقیدہ اور امور دین کے بارے میں اہل سنت والجماعت کے اصول و ضوابط
«عَلَيْکُمْ بِسُنَّتِی، وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِيْنَ الْمَهْدِيِّينَ تَمَسَّکُوْا بِهَا وَعَضُّوْا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ،
''تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو، اسے مضبوطی سے تھام لو اور دانتوں کے ذریعہ سختی سے پکڑ لو"

http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/926/192/اب جبکہ آپ کو اپنے عقیدہ اور امور دین کے بارے میں اصول و ضوابط ہی نہیں معلوم تو آپ پھر دوسروں کے عقیدہ کے بارے سنی سنائی باتوں پر کیوں یقین کرلیتے ہیں اس لئے میری گذارش ہے کہ آپ پہلے اپنے عقیدہ اور امور دین کے بارے میں اصول و ضوابط کے بارے علم حاصل کریں

موضوع سے غیر متعلق
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
لیجئے پہلے میں صحیح بخاری کی پوری روایت کو کوڈ کردیتا ہوں پھر اس پر اپنی رائے کا اظہار کرونگا
أنَّ عمرَ بنَ الخطابِ رضيَ اللهُ عنهُ : كانَ إذَا قَحَطُوا استسْقَى بالعباسِ بنِ عبدِ المطلبِ . فقالَ : اللهمَّ إنَّا كنَّا نَتَوَسَّلُ إليكَ بنبيِّنَا فَتَسْقِيَنَا ، وإنا نَتَوَسَّلُ إليكَ بعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا ، قالَ فَيُسْقَونَ .

الراوي: أنس بن مالك المحدث:البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 1010​
خلاصة حكم المحدث: [صحيح]​
ترجمہ از داؤد راز​
جب کبھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں قحط پڑتا تو عمر رضی اللہ عنہ حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے دعا کرتے اور فرماتے کہ اے اللہ! پہلے ہم تیرے پاس اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ لایا کرتے تھے۔ تو تو پانی برساتا تھا۔ اب ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کو وسیلہ بناتے ہیں تو تو ہم پر پانی برسا۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ چنانچہ بارش خوب ہی برسی۔​
اب اس روایت میں صاف طور سے بیان ہوا کہ خلیفہ دوئم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ سے بارش کے لئے دعا کررہیں ہیں یہاں دعا اللہ ہی سے کی جارہی ہے جو کہ آپ کے اس عقیدے کی نفی نہیں کہ​
لیکن اس دعا کو مقبول کرنے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا کا وسیلہ دیا جارہا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ تو شہ رگ سے بھی قریب ہے وہ دعاؤں کا قبول کرنے والاہے پھر اگر خلیفہ دوئم بغیر وسیلے کے خود ہی دعا کرتے تو کیا اللہ تعالیٰ ان کی دعا کو قبول نہیں کرتا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا کا وسیلہ دینے کے ضرورت کیا تھی یہی وہ نکتہ ہے جو میں آپ کو سمجھنا چاہتا ہوں کہ اگر اللہ تعالٰی سے بغیر وسیلے سے بھی دعا کی جائے تو بھی اللہ ایسے قبول کرتا ہے لیکن خلیفہ دوئم کا عقیدہ اس روایت سے یہ ظاہر ہوا کہ جن لوگوں کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب ہو اگر ان کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ سے دعا کی جائے تو اس دعا کے مقبول ہونے کی امید دو چند ہوجاتی ہے​
جناب جو نکتہ میں آپ کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں آپ اس سے مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں۔ غور کیجئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اِن الفاظوں پر​
اے اللہ! پہلے ہم تیرے پاس اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ لایا کرتے تھے۔ تو تو پانی برساتا تھا
کیا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کا معاملہ ہے یا زندگی کا؟ آپ نے یہ بیان نہیں کیا کہ یہاں وسیلے سے مراد کیا ہے؟
یہاں وسیلے سے مراد اِن سے دعا کروانا ہے، ناکہ صدقے یا طفیل مانگنا۔ اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے دعا کروائی یا اُن کے طفیل یا اُن کے صدقے مانگا؟ بتائیے
دراصل روایت ایک ہی ہے ، اُس سے ہمارا فہم حاصل کرنا مختلف ہے، آپ جو فہم حاصل کر رہے ہیں نا تو آپ کے پاس اُس کی کوئی دلیل ہے اور نہ ہی وہ پختہ ہے، نا ہی صحابہ کرام و اہل بیت رضی اللہ عنھم کا یہ فہم تھا نہ ہی سلف صالحین کا۔ کیونکہ اس فہم سے شرک لازم آتا ہے، اور وہ شرک سے بیزار تھے۔
اور جو فہم میں حاصل کر رہا ہوں کہ یہاں "وسیلے" سے مراد "دعا کروانا ہے" وہی درست ہے۔ ابھی میرے اس فہم کے خلاف آپ کوئی دلیل دینے سے قاصر ہیں۔ الحمدللہ
آپ وسیلے کے ٹاپک میں غلو کے موضوع کو لے آئے تو ایسے میں غیر متعلق ریٹ نہ کروں تو پھر کیا کروں اور جب آپ کو غلو کی اقسام بتائی جاتی ہیں پھر آپ ہی کہتے ہیں کیا اس کا موضوع سے کوئی تعلق ہے ؟؟؟؟​
مجھے آپ کےپوسٹ کو "غیر متعلق" ریٹ کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، میں صرف آپ کو بتا رہا تھا کہ جب معاملہ ہمارا ہو تو آپ جھٹ سے غیر متعلق کر دیتے ہیں اور موضوع پر رہنے کی بات کرتے ہیں لیکن متعلقہ موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے جب آپ کوئی نیا ٹاپک شروع کر دیتے ہیں تو اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ آپ موضوع سے ہٹ رہے ہیں۔​
اگر آپ کا یہ عقیدہ نہیں کہ ابوبکر و عمر بلترتیب انبیاء علیہ السلام کے بعد افضل ہیں تو پھر میں آپ سے معافی چاہتا ہوں کہ ایک ایسے عقیدے کی نسبت میں نے آپ کی جانب کردی جو آپ کا نہیں امید ہے آپ میری معذرت قبول فرمائیں گے شکریہ​
خلافت کی ترتیب عقائد میں شمار ہوتی ہے یا نہیں؟ یہ تو میں نہیں جانتا۔۔ ہاں البتہ ہم اہل سنت والجماعت اہلحدیث کے نزدیک خلافت بالترتیب خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ،خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ،خلیفہ سوم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور خلیفہ چہارم حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں۔​
اچھی طرح جان لیں کہ ہم اس ترتیب سے خلافت کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن چونکہ ہمارا یہاں یہ موضوع نہیں لہذا اوپر جو بات وسیلے کے حوالے سے میں نے پوچھی تھی، اس کا مدلل جواب دیں۔​
 
Top