محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
۳۸۔ عورت کو امن و استقرار مہیا کرنا:
اگر شوہر کی راتیں باہر نہیں گذرتی ہوں گی اور وہ اچانک فون آجائے پر نیچی آواز میں بات نہیں کرتا ہوگا یا بغیر بتائے ادھر ادھر سفر نہیں کرے گا یا چھوٹی چھوٹی سی باتوں پر چیخنے یا چلائے گا نہیں یا طلاق کی دھمکی یا دوسری شادی کی دھمکی یا واپس گھر بھیجنے کو دھمکی نہیں دے گا تو ایسے شخص کی بیوی یقینا چین اور سکون کی نیند سوئے گی۔
گھر میں امن اور سکون اس وقت ہوتا ہے جب میاں بیوی اپنا ہر کام مل بانٹ کر کرتے ہیں اور ان کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے جس کے لئے وہ محنت کر رہے ہوتے ہیں۔
نفسیاتی طور پر پر سکون رہنے اور رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ میاں بیوی میں سے کوئی بھی گرھ کے راز گھر سے باہر ایک دوسرے کے گھروں میں نہ بتائے کہ جب بھی کوئی غیر معمولی سی بات ہوئی یا کوئی غلط فہمی پیدا ہوگئی تو میاں بیوی کے گھروالوں کو بتائے یا بیوی میاں کے گھر والوں کو بتائے۔ ایسی بیوی پاگل پن کا شکار ہوسکتی ہے کیونکہ اسے خوف ہوتا ہے کہ اب ہر کوئی اس کو برا بھلا کہے گا۔
۳۹۔ بیوی پر بد دعا کرنے سے گریز کرنا اور اس کے لئے دعا کرنا:
پچھلے صفحات میں ہم نے دعا سے متعلق مشترکہ امور پر گفتگو کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ میاں بیوی کے مسائل حل کرنے میں دعا سب سے اہم ترین سبب ہے۔ لیکن یہاں پر ایسے شوہر بھی ہیں، اللہ انھیں ہدایت دے، جنھیں اگر اپنی بیوی کی کوئی بات پسند نہیں آتی یا جب کوئی غیر مناسب حرکت دیکھ لیتے ہیں یا آپس میں کوئی غلط فہمی پیدا ہوجاتی ہے تو اس کو پھر ایک ہی صورت نظر آتی ہے اور وہ بیوی پر بدعا کرنا اور اسے کو سنا چنانچہ آپ اسے کہتے سنیں گے: اللہ تمہیں سمجھے! یا اللہ کرے تم اندھی ہوجائو! یا تم پر فالج کا حملہ ہوجائے وغیرہ وغیرہ قسم کی بد دعائیں اور جب اسے سمجھایا جاتا ہے تو وہ یہ بہانہ بتاتا ہے کہ میں اس وقت غصے میں تھا اور یہ کہ میرا یہ مقصد نہیں تھا۔ ایسے شوہر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھول جاتے ہیں، اپنے آپ پر بھلائی کے سوائے اور کوئی دعا مت کرو کیونکہ فرشتے تمہاری دعائوں پر آمین کہتے ہیں (۱) (مسلم)
ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اپنے آپ پر بدعا مت کرو۔ اور نہ ہی اپنی اولاد، نوکر چاکر اور ما ل و دولت پر بد دعا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری دعا کی گھڑی اللہ کی اس گھڑی کے موافق آجائے جس میں اس سے جو مانگا جاتا ہے وہ عطا فرماتا ہے۔ (۲) (حدیث صحیح ہے۔ صحیح الجامع، الصغیر و زیادۃ (۷۲۶۷)
ایسی دعائیں کرنے والے شوہر یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اس کی دعا قبول کر لی تو سب سے بڑا بدبخت وہ خود ثابت ہوگا۔ کیونکہ بیوی کے علاج کے لئے وہ سفر کا خرچ اور محنت خود کرے گا تاکہ اس کا اچھے سے اچھا علاج کرایا جائے۔ اس لئے اس سے بہتر یہ ہے کہ شوہر بیوی کے لئے صحت و عافیت کی دعا کرے۔ اس کے لئے اجر و ثواب ہدایت اورایمان کی پختگی کی دعا کرے۔ اس ضمن میں مناسب ہوگا کہ بدعا کا ایک سچا قصہ میں یہاں ذکر کروں۔
جب قبر میں پائوں لٹکائے بوڑھے باپ نے پولیس انسپکٹر کے سامنے اپنے بیٹے پر بد دعا کی تو اس کے خواب و خیال میں بھی یہ حقیقت موجود نہیں تھی کہ اب اس کے بیٹے کی زندگی چند لمحوں کی مہمان ہے پھر اس بیٹا اہل آخرت سے جاملے گا۔ باپ اور بیٹے کے درمیان اختلاف بہت شدت اختیار کر گیا تھا اور نوبت زبانی بات چیت اور گالم گلوچ سے ہوتے ہوئے ہاتھا پائی تک پہنچ چکی تھی۔ اس کے بیٹے سے موقع پا کر باپ کی گاڑئی چرائی اور اس میں بیٹھ کر فرار ہوگیا۔
باپ یہ دیکھ کر زمین پر گر گیا اور پھر ہانپتے کانپتے پولیس اسٹیشن پہنچا تاکہ اپنے بیٹے کے خلاف رپورٹ درج کراسکے۔ پھر انسپکٹر کے سامنے ہی اس نے اپنے بیٹے پر بد دعا کی اور الل سے، اس کی حرکتوں کے سبب اسے دنیا سے اٹھا لینے کا سوال کیا اور اسے عاق بھی کیا۔ باپ کے نکلنے کے بعد حائل کی طرف جانے والی پر روڈ پر جب انسپکٹر ایک ایکسیڈنٹ کا سننے کے بعد پہنچا تو اسے ایک نوجوان کی لاش دیکھ کر سخت تعجب ہوا۔ اسے پہچاننے میں کچھ وقت لگ گیا لیکن کوششوں کے بعد یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی یہ لاش اسی رپورٹ درج کرانے والے باپ کی ہے جس کی دعا اللہ نے بددعا کی دعا کی قبولیت کا وقت ہونے کے سبب قبول کر لی تھی۔ (۱) (سعودی أخبار۔ المدینہ عدد ۱۴۶۰۰) سال ۴۸، بروز اتوار ۳/۸/۱۴۲۷ھ)
اگر شوہر کی راتیں باہر نہیں گذرتی ہوں گی اور وہ اچانک فون آجائے پر نیچی آواز میں بات نہیں کرتا ہوگا یا بغیر بتائے ادھر ادھر سفر نہیں کرے گا یا چھوٹی چھوٹی سی باتوں پر چیخنے یا چلائے گا نہیں یا طلاق کی دھمکی یا دوسری شادی کی دھمکی یا واپس گھر بھیجنے کو دھمکی نہیں دے گا تو ایسے شخص کی بیوی یقینا چین اور سکون کی نیند سوئے گی۔
گھر میں امن اور سکون اس وقت ہوتا ہے جب میاں بیوی اپنا ہر کام مل بانٹ کر کرتے ہیں اور ان کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے جس کے لئے وہ محنت کر رہے ہوتے ہیں۔
نفسیاتی طور پر پر سکون رہنے اور رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ میاں بیوی میں سے کوئی بھی گرھ کے راز گھر سے باہر ایک دوسرے کے گھروں میں نہ بتائے کہ جب بھی کوئی غیر معمولی سی بات ہوئی یا کوئی غلط فہمی پیدا ہوگئی تو میاں بیوی کے گھروالوں کو بتائے یا بیوی میاں کے گھر والوں کو بتائے۔ ایسی بیوی پاگل پن کا شکار ہوسکتی ہے کیونکہ اسے خوف ہوتا ہے کہ اب ہر کوئی اس کو برا بھلا کہے گا۔
۳۹۔ بیوی پر بد دعا کرنے سے گریز کرنا اور اس کے لئے دعا کرنا:
پچھلے صفحات میں ہم نے دعا سے متعلق مشترکہ امور پر گفتگو کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ میاں بیوی کے مسائل حل کرنے میں دعا سب سے اہم ترین سبب ہے۔ لیکن یہاں پر ایسے شوہر بھی ہیں، اللہ انھیں ہدایت دے، جنھیں اگر اپنی بیوی کی کوئی بات پسند نہیں آتی یا جب کوئی غیر مناسب حرکت دیکھ لیتے ہیں یا آپس میں کوئی غلط فہمی پیدا ہوجاتی ہے تو اس کو پھر ایک ہی صورت نظر آتی ہے اور وہ بیوی پر بدعا کرنا اور اسے کو سنا چنانچہ آپ اسے کہتے سنیں گے: اللہ تمہیں سمجھے! یا اللہ کرے تم اندھی ہوجائو! یا تم پر فالج کا حملہ ہوجائے وغیرہ وغیرہ قسم کی بد دعائیں اور جب اسے سمجھایا جاتا ہے تو وہ یہ بہانہ بتاتا ہے کہ میں اس وقت غصے میں تھا اور یہ کہ میرا یہ مقصد نہیں تھا۔ ایسے شوہر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھول جاتے ہیں، اپنے آپ پر بھلائی کے سوائے اور کوئی دعا مت کرو کیونکہ فرشتے تمہاری دعائوں پر آمین کہتے ہیں (۱) (مسلم)
ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اپنے آپ پر بدعا مت کرو۔ اور نہ ہی اپنی اولاد، نوکر چاکر اور ما ل و دولت پر بد دعا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری دعا کی گھڑی اللہ کی اس گھڑی کے موافق آجائے جس میں اس سے جو مانگا جاتا ہے وہ عطا فرماتا ہے۔ (۲) (حدیث صحیح ہے۔ صحیح الجامع، الصغیر و زیادۃ (۷۲۶۷)
ایسی دعائیں کرنے والے شوہر یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اس کی دعا قبول کر لی تو سب سے بڑا بدبخت وہ خود ثابت ہوگا۔ کیونکہ بیوی کے علاج کے لئے وہ سفر کا خرچ اور محنت خود کرے گا تاکہ اس کا اچھے سے اچھا علاج کرایا جائے۔ اس لئے اس سے بہتر یہ ہے کہ شوہر بیوی کے لئے صحت و عافیت کی دعا کرے۔ اس کے لئے اجر و ثواب ہدایت اورایمان کی پختگی کی دعا کرے۔ اس ضمن میں مناسب ہوگا کہ بدعا کا ایک سچا قصہ میں یہاں ذکر کروں۔
جب قبر میں پائوں لٹکائے بوڑھے باپ نے پولیس انسپکٹر کے سامنے اپنے بیٹے پر بد دعا کی تو اس کے خواب و خیال میں بھی یہ حقیقت موجود نہیں تھی کہ اب اس کے بیٹے کی زندگی چند لمحوں کی مہمان ہے پھر اس بیٹا اہل آخرت سے جاملے گا۔ باپ اور بیٹے کے درمیان اختلاف بہت شدت اختیار کر گیا تھا اور نوبت زبانی بات چیت اور گالم گلوچ سے ہوتے ہوئے ہاتھا پائی تک پہنچ چکی تھی۔ اس کے بیٹے سے موقع پا کر باپ کی گاڑئی چرائی اور اس میں بیٹھ کر فرار ہوگیا۔
باپ یہ دیکھ کر زمین پر گر گیا اور پھر ہانپتے کانپتے پولیس اسٹیشن پہنچا تاکہ اپنے بیٹے کے خلاف رپورٹ درج کراسکے۔ پھر انسپکٹر کے سامنے ہی اس نے اپنے بیٹے پر بد دعا کی اور الل سے، اس کی حرکتوں کے سبب اسے دنیا سے اٹھا لینے کا سوال کیا اور اسے عاق بھی کیا۔ باپ کے نکلنے کے بعد حائل کی طرف جانے والی پر روڈ پر جب انسپکٹر ایک ایکسیڈنٹ کا سننے کے بعد پہنچا تو اسے ایک نوجوان کی لاش دیکھ کر سخت تعجب ہوا۔ اسے پہچاننے میں کچھ وقت لگ گیا لیکن کوششوں کے بعد یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی یہ لاش اسی رپورٹ درج کرانے والے باپ کی ہے جس کی دعا اللہ نے بددعا کی دعا کی قبولیت کا وقت ہونے کے سبب قبول کر لی تھی۔ (۱) (سعودی أخبار۔ المدینہ عدد ۱۴۶۰۰) سال ۴۸، بروز اتوار ۳/۸/۱۴۲۷ھ)