abdullah786
رکن
- شمولیت
- نومبر 24، 2015
- پیغامات
- 428
- ری ایکشن اسکور
- 25
- پوائنٹ
- 46
@اسحاق سلفی
محترم چھپے رافضیوں کی نقاب کشائی سے دل بھر گیا یا اپ کہیں مصروف ہیں؟
محترم چھپے رافضیوں کی نقاب کشائی سے دل بھر گیا یا اپ کہیں مصروف ہیں؟
محترم :محترم،
بات دلائل سے ہو تو اچھی لگتی ہے وگرنہ جذباتی تقاریر کا علمی حلقہ میں کوئی وزن نہیں ہوتا ہے۔جہاں تک اپ کی بات ہے کہ صرف مجھے خلافت کا درد ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نہیں تھا یہ اپ کی بھول ہے حسین رضی اللہ عنہ کا اٹھنا اسی قبیل سے تھا ابن زبیر رضی اللہ عنہ اسی مقصد سے اٹھے تھے اہل مدینہ نے یزید کی بیعت توڑی وہ بھی اس وجہ سے تھی اور مروان کے خلاف جماجم کے مقام پر 4 ہزار قاری اٹھ کھڑا ہوا اور عباسیوں کے خلاف حسن بن علی کی تحریک یہ سب حسین رضی اللہ عنہ کے اس اقدام کی برکات تھی جو انہوں نے کربلا میں کیا تھا یہ سب واقعات موجود ہے یا نہیں اور پھر یاد دلا دوں یہ میں تاریخ سے نہیں کتب احادیث کی شروحات تفاسیر آئمہ کے حوالے سے بیان کر رہا ہوں یہ سب واقعات ہوئے کس لئے خلافت کو دوبارہ قائم کرنے کے لئے ہوئے اور مجھ سے ذیادہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور تابعین رحمہ اللہ کو اس کا دکھ تھا اسی لئے انہوں نے اس کے لئے جہاد بھی کیا ہے۔
دوسری بات اپ جو فرما رہے ہیں کہ میں ملک عضوض ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہوں محترم میں اس تھریڈ(30 سال خلافت)پر بھی آئمہ کے اقوال پیش کر رہا تھا اور یہاں ایک بار پھر یاد دلا دیتا ہوں صرف ابن کثیر رحمہ اللہ کا ایک قول نقل کر دیتا ہوں باقی تو اپ اس تھریڈ پر پڑھ ہی چکے ہیں۔
قُلْتُ: وَالسُّنَّةُ أَنْ يُقَالَ لِمُعَاوِيَةَ مَلِكٌ، وَلَا يُقَالُ لَهُ خليفة لحديث «سفينة الْخِلَافَةُ بَعْدِي ثَلَاثُونَ سَنَةً ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَضُوضًا»
ابن کثیر فرماتے ہیں "سنت یہ ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو بادشاہ کہا جائے اور ان کو خلیفہ نہ کہا جائے کیونکہ حدیث سفینہ ہے کہ خلافت میرے بعد تیس سال ہے اس کے بعد ملک عضوضا ہے۔
یہ میرا قول ہے اس میں معاویہ رضی اللہ عنہ کو بادشاہ کہنا سنت قرار دیا ہے یہ میں نے لکھا اور ان کو خلیفہ نہ کہا جائے یہ میں نے لکھا ہے یہ ابن کثیر کا قول ہے اور انہوں نے کوئی اپنی توجہی نہیں پیش کی ہے حدیث سے دلیل دی ہےاور حدیث پیش کی اور اس ملک عضوض لکھا ہے حالانکہ سفینہ والی حدیث میں ملک عضوض کا لفظ نہیں ہے انہوں نے دوسری روایت کو بھی اس میں جمع کیا ہے آئمہ کے ان اقوال سے کیوں آنکھیں بند کرتے ہو مجھے ہدف طعن اور مورد الزام ٹھراتے ہوں ابن کثیر کو کیا کہو گے اور ایسے بے شمار اقوال ہیں جو آئمہ اکابرین نے نقل کیے ہیں تو یہ قول میری طرف منسوب کرنا انصاف کا تقاضہ نہیں ہے یہ ابن کثیر کا قول ہے کہ اپ جو دھڑلے سے معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت کو خلافت فرما رہے ہیں تو اپ ابن کثیر کے بقول سنت توڑ رہے ہیں
اپ کی دوسری بات کہ سب نے رضا مندی سے بیعت کی تھی محترم کسی ایک آئمہ کا بھی قول پیش کر دو یہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت رضامندی سے کی گئی تھی عام الجماعت والے سال معاویہ رضی اللہ عنہ نے بسر بن ارطاۃ کو مدینہ بھیجا اور وہاں اہل مدینہ کی بیعت بھی جبری لی گئی تھی مصنف ابن ابی شیبہ میں یہ روایات موجود ہے۔ اور انہی روایات کو دیکھ کر آئمہ نے یہی نقل کیا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت رضا مندی کی نہیں تھی۔ اور یہ لکھنے والے کو معمولی لوگ نہیں ہے اکابرین امت ہیں۔
امام شاطبی
حافظ ابن حجر
امام ذہبی
ابو بکر جصاص
شاہ ولی اللہ
اگر ان کے اقوال چاہیں تو پیش کر دوں گا مگر میں جانتا ہوں یہ سب پڑھنے کے بعد بھی اپ مجھ پر ہی رافضیت کا الزام لگائے گے جبکہ اس میں میری اپنی کوئی بات نہیں میں صرف ناقل ہوں اور جن کے یہ اقوال ہے وہ اہل سنت ہی رہے گے ہاں میں اس سے خارج ہو جاؤں گا۔
اپ کی تیسری بات کہ حسین رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت میں جہاد کرتے رہے نماز پڑھتے رہے امام ابن تیمیہ کی منھاج السنہ کا اب ترجمہ بھی ہو گیا ہے وہی پڑھ لو انہوں نے یہی لکھا ہے کہ آئمہ جور جو نیک کام کریں ان میں ان کا ساتھ دیا جائے گا برائی میں ان سے دور رہا جائے نماز بھی ان کے پیچھے پڑھی جائیں گی اور حج اور جہاد بھی کیا جائے گا نیکی کا کوئی بھی کام نہیں روکے گا اس سے یہ مطلب نہیں لیا جا سکتا کہ وہ ان سے راضی تھے اگر راضی ہوتے تو اہل مدینہ ابن زبیر اور حسین رضی اللہ عنہ حکومت کے خلاف جہاد کیوں کرتے وہ نماز پڑھنا مجبوری کا ہے جیسا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے حکمران نماز مار دے گے تو تم وقت پر پڑھ لینا اور پھر ان کے پیچھے بھی پڑھ لینا محدثین نے ابواب قائم کئے ہیں آئمہ جور(ظالم حکمرانوں) کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے(سنن نسائی کتاب الصلاۃ) کیونکہ یہ مسئلہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد پیش آ گیا تھا وگرنہ پہلے امت کے چنےخلیفہ ہی نماز پڑھاتے تھے وہ نمازیں مجبوری کی تھی کہ جائے نماز یعنی امامت پر غاصب تھے اس لئے جب تک ان کو ہٹا نہیں دیا جاتا نماز پڑھنا پڑھتی تھی۔
آخری بات آپ نے لکھا کے معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں کیوں نہیں کھڑے ہوئے اس کی وجہ حسن رضی اللہ عنہ کی وہ صلح تھی جو کی تھی اس کی وجہ سے حسین رضی اللہ عنہ خاموش تھے اور معاہدہ توڑنا نہیں چاہیئےاور اس معاہدہ کی یہ شرائط تھی۔
(1) قرآن سنت کو قائم کریں گے۔
(2) اپنے بعد کسی کو نامزد نہیں کریں گے۔
(3)اگر میں (حسن رضی اللہ عنہ) زندہ رہا تو میں دوبارہ خلیفہ بنو گا( انساب الاشرف للبلاذری باب صلح حسن و معاویہ رضی اللہ عنہم)
اور جب معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس صلح نامے کی مخالفت کرکے یزید کو خلیفہ نامزد کیا تو حسین رضی اللہ عنہ کا کھڑا ہونا لازمی تھا اس لئے وہ کھڑے ہوئے کہ یہ تو مسلمانوں کو ان کے طریقہ سے ہی ہٹایا جا رہا ہے کہ شوری ختم کردی ہے اور باپ کے بعد بیٹا حکومت سنبھالنے لگے گا۔
اب بھی میں جانتا ہوں اپ نے مجھ پر ھی رافضیت کا الزام لگانا ہے نہ اپ نے ابن کثیر کو کچھ کہنا ہے اور نا دیگرآئمہ کو مگر مجھ غریب پر سارا غباراترے گا جو صرف ناقل اقوال ہے۔اللہ ہدایت دے
بھائی آپ نے تو معاملہ بڑا سہل بنا دیا. میں سوچ رہا ہوں کہ معاملہ اگر اتنا ہی واضح اور صاف ہے تو اس سارے وقوعے نے بڑے بڑے صحابہ اکرام کو اس قدر آزمائش میں کیوں ڈال رکها تها.؟ حق و باطل کی اس جنگ میں انہوں نے حق کا ساته کیوں نہیں دیا. صرف چند نفوس کو کوفیوں کے رحم و کرم پر کیوں چهوڑ دیا. کیا یہ کوفی صحابہ سے زیادہ تفقہ فی الدین رکهتے تهے اور زیادہ ایمان والے اور حق کا ساته دینے میں جری تهے. ان صحابہ سے زیادہ جنهوں نے باطل کا سر کچلتے وقت کبهی باطل کی کثرت سے مرعوب نہیں ہوئے اور نہ اپنی قلت سے خائف.یزید اور حسین رضی اللہ عنہ کی کوئی بات نہیں خلافت اور ملوکیت کی جنگ تھی ایک دین بچانے کے لئے کھڑے تھے اور دوسرا(یزید) اپنی دنیاوی حکومت کے لالچ میں تھا اس لئے پلٹو اس خلافت کی طرف جو دین کی اصل ہے جس میں اللہ کی زمین پر اللہ کا حکم چلتا ہے
پہلی بات تو یہ ہے کہ ان کا طریقہ کار اہل سنت والجماعت والا نہیں ہے. دوسری بات یہ ہے کہبس ختم ہو گئی ساری اہل حدیثیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے سامنے ابن عمر رضی اللہ کا قول پیش کر رہے ہیں
اس روایت کے کس جملے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ مکہ میں ہی شہید کیے جاتے. اور شہید کرنے والے حکومت ہی کے لوگ ہوسکتے تهے دوسرا کوئی نہیں.میرے پاس حسین رضی اللہ عنہ کی خود کی گواہی موجود ہے کہ ان کو حکمران مروانا چاہتے تھے اور اس کی دلیل وہ روایت ہے جس میں ابن عباس رضی اللہ عنہ نے حسین رضی اللہ عنہ کو روکنے کی کوشش کی کہ آپ وہاں نہ جائیں اس پر حسین رضی اللہ عنہ کا جواب یہ تھا۔
میں کعبہ کی حرمت پامال نہیں کرنا چاہتا حتی کہ مجھے وہاں شہید کیا جائے
محترم،ع
پہلی بات تو یہ ہے کہ ان کا طریقہ کار اہل سنت والجماعت والا نہیں ہے. دوسری بات یہ ہے کہ
اسی لیے یہ متن سے وہ باتیں بهی نکال لیتے ہیں جو متن میں نہیں ہوتیں. غالباً یہ ہر متن کو معنی کی گذر گاہ سمجهتے ہیں اور اسی کے مطابق ہر متن کی تشریح قاری اساس نقطہ نظر سے کرتے ہیں.
محترم،بھائی آپ نے تو معاملہ بڑا سہل بنا دیا. میں سوچ رہا ہوں کہ معاملہ اگر اتنا ہی واضح اور صاف ہے تو اس سارے وقوعے نے بڑے بڑے صحابہ اکرام کو اس قدر آزمائش میں کیوں ڈال رکها تها.؟ حق و باطل کی اس جنگ میں انہوں نے حق کا ساته کیوں نہیں دیا. صرف چند نفوس کو کوفیوں کے رحم و کرم پر کیوں چهوڑ دیا. کیا یہ کوفی صحابہ سے زیادہ تفقہ فی الدین رکهتے تهے اور زیادہ ایمان والے اور حق کا ساته دینے میں جری تهے. ان صحابہ سے زیادہ جنهوں نے باطل کا سر کچلتے وقت کبهی باطل کی کثرت سے مرعوب نہیں ہوئے اور نہ اپنی قلت سے خائف.
علاوہ ازیں آپ کے نام کے ساتھ جو 786 ہے وہ اس شبہ میں ڈالتا ہے کہ آپ اہل سنت سے ہیں یا نہیں.