اصل فتنہ سیدنا الامام عثمان کے خلاف بغاوت اور انکی شہادت سے شروع ہوا تھا ،
سبائیت جو روافض کی جڑ ہے ، اسی نے صحابہ دشمنی ، خلافت اسلامیہ سے بغاوت کا گند پھیلایا ،
اور جن کی حکومت کیلئے ابن سباء اینڈ کمپنی نے ظلم کے یہ سب انداز اپنائے ، ان کی حکومت و خلافت بھی اختلاف کی نظر ہوگئی ،
آپ نے لکھا :
تعجب ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کو سیدنا الامام معاویہ رضی اللہ عنہ پر گرفت کا شوق ہے ، اورآپ ایک کتاب سے خود ایک سند نہیں دیکھ سکتے۔
ہمارے ملک میں دشمنان صحابہ بالعموم جاہل لوگ ہیں ،
میں نے ’’ بسندہ ‘‘ لکھا وہ بھی آپ کو سمجھ نہیں آیا ۔ اور آپ نے اسے ’’ بسند ‘‘ بنا دیا ۔
آپ کو سمجھ تو نہیں آنی ۔۔ بہرحال۔۔۔ اس روایت کی اسناد پیش ہے ،
أخبرنا إسماعيل بن إبراهيم، عن ابن عون، عن الحسن قال: أنبأني وثاب، وكان فيمن أدركه عتق أمير المؤمنين عمر , وكان بين يدي عثمان ورأيت بحلقه أثر طعنتين كأنهما كيتان طعنهما يومئذ يوم الدار دار عثمان قال:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور آپ نے بڑی جرات سے غلط بیانی کرتے ہوئے لکھا کہ :
کوئی اہل حدیث کسی بھی صحابی کی ادنی سی توہین نہیں کرسکتا ، چہ جائیکہ سیدنا الامام معاویہ اور دیگر نامور صحابہ کے خلاف مہم چلائے ۔
لہذا یہ دھوکہ دہی کہ آپ ’’ اہل حدیث ‘‘ ہیں نہیں چل سکتی ۔
آپ جو فکر پھیلانے کے چکر میں ہیں وہ جہلم کے ایک ’’ مرزا ‘‘ گمراہ کی چلائی ہوئی گمراہی ہے ،
اس سے پہلے ’’ مولوی جھال والا ‘‘ صحابہ کے خلاف جھاگ بہا بہا کر جہان فانی سے رخصت ہوچکا ۔
اس لئے گذارش ہے کہ :
یہ دھوکہ دہی کامیاب نہیں ہوسکتی ۔۔۔ اس لئے اپنے ’ گروپ ‘‘ کا نام حسب حال تجویز فرماکر شکریہ کا موقع دیں،
مثلاً جیسے (محبان ابن سباء ) یا (لشکر ابن السوداء ) یا (آل اشتر نخعی ) وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم،
سب سے پہلے تو میں تحریر تقریب التھذیب کے حوالے سے نقل کر دوں کہ انہوں نے کوئی اپنی نفس سے یہ نہیں کہہ دیا کہ ہم نے کہا تو یہ ضعیف ہم نے کہا تو یہ ثقہ انہوں نے محدثین مقدمین کے اقوال سے ہی ثابت کیا ہے اس لئے اس کی اسکین لگا رہا ہوں پڑھ لیں انہون نے امام ترمذی اور ابن عدی رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ کنانہ ضعیف ہے۔
اور ابن حجر کے حوالے سے جو نقل کیا کہ میں نے جھوٹ بولا ہے کہ ابن حجر کے قول سے اس کو ضعیف ثابت کرنے کی کوشش کی ہے تو محترم اپ کے قول سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ابن حجر نے اس کو ثقہ کہا ہے ابن حجر مقبول صرف اس راوی کو کہتے ہیں جس کو وہ متابعت میں صحیح مانتے ہیں یہ جس روای کی روایت کی متابعت موجود ہو اس میں اس راوی کی روایت قبول ہوتی ہے اور اس کا اصول میں لکھ چکا تھا۔
من ليس له من الحديث إلا القليل، ولم يثبت فيه ما يترك حديثه من أجله، وإليه الاشارة بلفظ " مقبول " حيث يتابع، وإلا فلين الحديث.(تقریب التھذیب مقدمہ)
اور اس کو البانی صاحب نے ایک راوی کی بحث میں اسی طرح بیان کیا ہے کہ"
قلت : وعلته عندي حكيمة هذه فإنها ليست بالمشهورة ، ولم يوثقها غير ابن حبان ( 4 / 195 ) وقد نبهنا مرارا على ما في توثيقه من التساهل ، ولهذا لم يعتمده الحافظ فلم يوثقها وإنما قال في " التقريب " : مقبولة ، يعني عند المتابعة(الضعیفہ تحت رقم 211)
تو اگر اس کنانہ کی روایت کی متابعت ہوگی تو ابن حجر کے اصول پر یہ روایت صحیح ہوگئی مگر میں پہلے ہی عرض کر چکا کہ اس راوی کو جمہور نے ضعیف کہا ہے چند مثال دیتا ہوں۔
ابو داود کی شرح عون المعبود میں ایک روایت کی بحث میں ابن عبدالبر کے حوالے سے یہ نقل کیا ہے کہ''
هذا حديث بن مَسْعُود الْجَنَازَة مَتْبُوعَة لَيْسَ مَعَهَا مَنْ يَقْدُمهَا وأنه ضعيف وذكر بن عَبْد الْبَرّ مِنْ حَدِيث أَبِي هُرَيْرَة يَرْفَعهُ اِمْشُوا خَلْف الْجَنَازَة وَفِيهِ كِنَانَة مَوْلَى صَفِيَّة لَا يُحْتَجّ بِهِ"(
عون المعبود شرح سنن أبي داود كِتَاب الصيد باب الْمَشْيِ أَمَامَ الْجِنَازَة جلد 8 ص 233)
تو ابن عبدالبر کے نذدیک اس سے حجت نہیں لی گئی ہے
امام ذہبی کے حوالےسے بھی میں نے نقل کیا تھا کہ انہوں نے اس کی توثیق کو معتبر نہیں مانا ہے چنانچہ الکاشف میں اس کو وثق کہا ہے
[ 4678 ] كنانة بن نعيم العدوي عن أبي برزة وغيره وعنه ثابت وعبد العزيز بن صهيب وثق(الکاشف)
اس حوالے سے یہ اصول ہے کہ ان کے مطابق اس راوی کی توثیق غیر معتبر ہے۔
الذهبي في " الكاشف " إلى أن التوثيق المذكور غير موثوق به، فقال : " وثق "(الضعیفہ تحت رقم 1232)
تو امام ذہبی کے نذدیک بھی یہ راوی معتبر نہیں ہے۔
اور امام ترمذی نے بھی اس کے حوالےسے نقل کیا ہے جس کو تحریر تقریب کے مولفین نے نقل کیا ہے اصل آپ اس تھذیب التھذیب میں دیکھ سکتے ہیں۔
تو اس کو جمہور نے غیر معتبر قرار دیا ہے اور ابن حجر کےاصول پر بھی یہ روایت اس وقت تک صحیح نہیں ہو سکتی جب تک اس کی متابعت نہ ہو۔
دوسری بات اپ نے جو سند پیش کی ہے
أخبرنا إسماعيل بن إبراهيم، عن ابن عون، عن الحسن قال: أنبأني وثاب
اس میں وثاب مجھول راوی ہے اس کی کسی نے بھی توثیق نہیں کی ہے امام بخاری نے اپنی تاریخ اور امام ابی حاتم رحمہ اللہ نے اس کا ترجمہ تو نقل کیا ہے مگر توثیق نہیں کی ہے چنانچہ امام بخاری کی تاریخ سے نقل کر رہا ہوں
2661- وثاب، مَولَى عُثمان بْن عَفّان، القُرَشِيُّ، الأُمَوِيُّ.
سَمِعَ عُثمان بْن عَفّان.
رَوَى عَنه: الحَسَن بْن أَبي الحَسَن.
يُعَدُّ فِي أهل المَدِينة.
اس میں اس کی کوئی توثیق نہیں ہے اور جرح التعدیل امام حاتم نے بھی صرف اس کا ترجمہ نقل کیا ہے۔
چنانچہ اس قسم کے رواۃ کے لئے یہ اصول ہے کہ یہ مجھولیں میں شمار ہوتے ہیں
چنانچہ اس بات کو البانی صاحب نے الضعیفہ میں ایک راوی کے بارے میں بیان کرتے ہوئے یہی نقل کیا ہے کہ
وقد أورده ابن أبي حاتم في " الجرح والتعديل " ( 3/1/114 ) ولم يحك فيه توثيقا، فهو في حكم المستورين
الضعیفہ تحت رقم1120)
تو وثاب میری معلومات کی حد تک مجھول ہے ما سوائے کہ اپ اس کی توثیق ثابت کر دیں اس لیے اپ کی یہ روایت وثاب کی وجہ سے ضعیف ہے۔
اپ نے دوسری روایت نقل کی تھی
اس میں ایک راوی عبداللہ بن یونس ہے اس کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے یہ بھی مجھول ہے چنانچہ اس کی بھی توثیق نقل نہیں ہوئی ہے۔
961- عبد الله بن يونس بن محمد بن عبيد الله بن عباد بن رماد المرادي
أندلسي يروى عن بقى بن مخلد، وكان من المكثرين عنه، مات بالأندلس سنة ثلاثين وثلاثمائة، روى عنه عبد بن نصر وخالد بن سعد وغير واحد اخبر أبو محمد علي بن أحمد قال: أخبرنا الكناني، أخبرنا أحمد بن خليل أخبرنا خالد بن سعد أخبرنا عبد الله بن يونس المرادي من كتابه، أخبرنا بقى بن مخلد قال: أخبرنا سحنون والحارث بن مسكين عن ابن القاسم عن مالك: أنه كان يكثر أن يقول: {إن نظن إلا ظناً وما نحن بمستيقنين} [الجاثية: 32] .
(بغية الملتمس في تاريخ رجال أهل الأندلس ترجمہ 961)
ان دونوں رواۃ کی توثیق پیش کرنا اپ کے ذمہ ہے۔
آخر میں علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کا اصل واقعہ جو صحیح سند سے محقق طبری نے نقل کیا ہے
[FONT=Traditional Arabic, serif][/FONT]
حَدَّثَنِي جَعْفَرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمُحَمَّدِيُّ، قال: حدثنا عمرو بن حماد وعلى ابن حُسَيْنٍ، قَالا: حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ الْفَزَارِيِّ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ الأَشْجَعِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بن الْحَنَفِيَّةِ، قَالَ:
كُنْتُ مَعَ أَبِي حِينَ قُتِلَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَامَ فَدَخَلَ مَنْزِلَهُ، فأتاه اصحاب رسول الله ص، فقالوا: إن هذا الرجل قد قتل، ولا بُدَّ لِلنَّاسِ مِنْ إِمَامٍ، وَلا نَجِدُ الْيَوْمَ أَحَدًا أَحَقَّ بِهَذَا الأَمْرِ مِنْكَ، لا أَقْدَمَ سابقه، ولا اقرب من رسول الله ص [فَقَالَ: لا تَفْعَلُوا، فَإِنِّي أَكُونُ وَزِيرًا خَيْرٌ من ان أَكُونُ أَمِيرًا، فَقَالُوا: لا، وَاللَّهِ مَا نَحْنُ بِفَاعِلِينَ حَتَّى نُبَايِعَكَ، قَالَ: فَفِي الْمَسْجِدِ، فَإِنَّ بَيْعَتِي لا تَكُونُ خَفِيًّا، وَلا تَكُونُ إِلا عَنْ رِضَا الْمُسْلِمِينَ] قَالَ سَالِمُ بْنُ أَبِي الْجَعْدِ: فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ: فَلَقَدْ كَرِهْتُ أَنْ يَأْتِيَ الْمَسْجِدَ مَخَافَةَ أَنْ يَشْغَبَ عَلَيْهِ، وَأَبَى هُوَ إِلا الْمَسْجِدَ، فَلَمَّا دَخَلَ دَخَلَ الْمُهَاجِرُونَ وَالأَنْصَارِ فَبَايَعُوهُ، ثُمَّ بَايَعَهُ النَّاسُ.(تاریخ طبری)
اور اپ نے جو یہ کہا کہ بنو امیہ کے بارے میں یہ مودودی اور دیگر نے یہ مشہور کیا ہے کہ انہوں نے خلافت کو ملوکیت میں بدل دیا تو یہ بنی امیہ کا ملوکیت میں تبدیل کرنا فرمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے
الْخِلَافَةُ بَعْدِي ثَلَاثُونَ سَنَةً ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا
سنن ابو داؤد
تو خلافت کو 30 سال بعد ملوکیت میں بدل دیا گیا یہ مودودی کا کارنامہ نہیں ہے یہ حدیث ہے اور میں اپ سے اتنی امید رکھتا ہوں کہ کم از کم آپ تو صحیح حدیث کو نہیں جھٹلائیں گے۔ باقی آئندہ اللہ سب کو ہدایت دے۔