قال الدارقطني له صحبة ولم يكن له استقامة بعد النبي صلى الله عليه وسلم
ترجمہ: امام دارقطنی فرماتے ہیں کہ اگرچہ انہوں نےصحبت اٹھائی ہے مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد استقامۃ پر نہیں رہے۔
اس کا صاف مطلب یہ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ایک سیدنا الامام معاویہ ؓ ہی نہیں ، دیگر اصحاب گرامی بھی اس مجہول شخص کے ہدف طعن ہیں ،
اور اگر جرح و تعدیل کے کسی مصدر سے صحابہ کرام ؓ پر نقد و جرح ہوسکتی ہے اور ان کی عدالت کے خلاف مضمون نگاری کا دروازہ کھلا ہے
تو لیجئے صاحب پہلے اوپر سے شروع کرتے ہیں ، پھر درجہ بدرجہ نیچے آئیں گے ،
اور پاکستان کے مخفی رافضیوں کی نقاب کشائی تک یہ سلسلہ ۔۔ ان شاء اللہ ۔۔ جاری رہے گا،
یہ بات تمام قارئین کو واضح رہے کہ میری پوسٹ کے جواب میں صرف ( 786 )نامی ناقد صحابہ کو لکھنے کی اجازت ہے ،
واللہ الموفق و المستعان؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیدنا الامام عثمان بن عفان ذوالنورین
کی شہادت تاریخ اسلامی کی سب سے المناک شہادت ہے ،
اس خلیفہ راشد ،داماد رسول ﷺ کو بغیر کسی قصور و خطا کے مدینہ منورہ میں کئی روز محاصرے کی
اذیت سے دوچار کرکے بے دردی سے مظلومانہ شہید کردیا گیا ،
محاصرے کرنے والے باغی مختلف علاقوں سے منگوائے تھے ، تاکہ ثابت کیا جاسکے کہ پورا عالم اسلام خلیفہ راشد سے منحرف ہے ،انہی شرپسندوں میں کوفی لوگ بھی تھے ، جن کا سرغنہ مالک بن حارث اشتر نخعی بھی تھا ، امت اسلامیہ میں سب سے مظلومانہ قتل ، قتلِ عثمان سے کچھ دیر قبل سیدنا عثمان نے اسی اشتر نخعی کو مذاکرات کیلئے طلب فرمایا تھا :
امام ابن سعد نے شہادت عثمان کے ضمن میں ایک تفصیلی روایت بسندہ نقل فرمائی ہے ، جس سے ایک اقتباس کہ :
’’ قال: " بعثني عثمان فدعوت له الأشتر فجاء، قال ابن عون: أظنه قال: فطرحت لأمير المؤمنين وسادة، وله وسادة، قال: " يا أشتر، ما يريد الناس مني؟ قال: ثلاث، ليس لك من إحداهن بد، قال: ما هن؟ قال: يخيرونك بين أن تخلع لهم أمرهم فتقول: هذا أمركم فاختاروا له من شئتم، وبين أن تقص من نفسك , فإن أبيت هاتين فإن القوم قاتلوك , قال: أما من إحداهن بد؟ قال: لا , ما من إحداهن بد، قال: أما أن أخلع لهم أمرهم فما كنت لأخلع سربالا سربلنيه الله، قال: وقال غيره: والله لأن أقدم فتضرب عنقي أحب إلي من أن أخلع أمة محمد بعضها على بعض، قالوا: هذا أشبه بكلام عثمان , " وأما أن أقص من نفسي، فوالله لقد علمت أن صاحبي بين يدي قد كانا يعاقبان وما يقوم بد في القصاص , وأما أن تقتلوني، فوالله لئن قتلتموني لا تتحابون بعدي أبدا، ولا تصلون بعدي جميعا أبدا، ولا تقاتلون بعدي عدوا جميعا أبدا , ثم قام فانطلق، فمكثنا، فقلنا: لعل الناس , فجاء رويجل كأنه ذئب فاطلع من باب ثم رجع , فجاء محمد بن أبي بكر في ثلاثة عشر رجلا حتى انتهى إلى عثمان فأخذ بلحيته، فقال بها حتى سمع وقع أضراسه،،
(الطبقات الکبری ج ۳)
سیدنا الامام عثمان بن عفان کا ایک خادم نقل کرتا ہے کہ جناب عثمان ؓ نے مجھے اشتر نخعی کو بلانے بھیجا ، میں اشتر نخعی کو بلا لایا ، تو ایک تکیہ سیدنا عثمان کیلئے اور ایک اشتر کیلئے لگایا گیا ،
سیدنا الامام عثمان نے اس سے پوچھا کہ یہ باغی مجھ سے کیا چاہتے ہیں ،
مالک اشتر نے کہا کہ : تین باتیں ، جن میں سے آپ کو کوئی ایک مانے بغیر چارہ نہیں ،
سیدنا عثمان نے پوچھا : وہ تین باتیں کیا ہیں ؟
اس نے کہا : ایک تو یہ کہ آپ ان کے حق میں خلافت سے دست بردار ہوجائیں ، اور کہہ دیں تمہیں اختیار ہے جسے چاہو اپنا امیر مقرر کرلو ؛
اور (دوسری بات یہ کہ ) آپ انہیں اپنے سے قصاص لینے دیں ،
اور (تیسری یہ کہ ) اگر آپ کو یہ دونوں باتیں قبول نہ ہوں تو وہ آپ سے جنگ کریں گے ،
آپ نے فرمایا : کیا ان میں سے کسی ایک کے بغیر چارہ نہیں ؟
اس نے کہا نہیں ،
آپ نے فرمایا : یہ تو ممکن نہیں کہ میں خلافت سے دست بردار ہوجاؤں ،
میں (خلافت کے ) اس کرتے کو اتارنے والا نہیں ، جو مجھے اللہ نے پہنایا ہے ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر مالک اشتر اٹھ کر چلا گیا ،
ہم دیکھنے لگے کہ کیا (رد عمل ہوتا ہے ) شاید وہ لوگ مان جائیں ؛
اتنے میں ایک شخص جو بھیڑئے کی مانند تھا آیا ،
وہ دروازے سے جھانک کے پلٹ گیا ،
پھر محمد بن ابی بکر تیرہ آدمیوں کے ساتھ آیا ، وہ اندر سیدھا سیدنا عثمان کے پاس پہنچا ،اور آپ کی داڑھی مبارک پکڑ لی اور اسے کھینچا ،اس کے داڑھیں گرنے کی آواز آئی ،
((اس سے آگے کی صورتحال نہ میں لکھ سکتا ہوں ، نہ ایمان والے پڑھ سکتے ہیں))‘‘ ( طبقات ابن سعد )
اس روایت سے پتا چلتا ہے کہ مالک بن حارث الاشتر کا شرپسندوں میں اہم مقام تھا، جس کی بناء آخری وقت اسی سے گفتگو کی گئی ،اس نے شہادت عثمانؓ کے بعدسیاسی اور جنگی میدان میں بہت اہم رول ادا کیا ،
اس کے متعلق درج ذیل حقیقت پیش ہے ،
جن دنوں ظالم باغیوں نے ان کے گھر کا محاصرہ کیا ہوا تھا ، اس دوران ام المومنین سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا اپنے گھر سے سیدنا الامام عثمان ؓ کیلئے کھانا پینا بھیجنے کی کوشش کرتی رہتیں تھیں ،
ایک روز وہ خود سیدنا عثمان کی خبرگیری و مدد کیلئے نکلیں ،امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ تاریخ کبیر میں روایت کرتے ہیں کہ :
وقَالَ أَحْمَد بْن يُونُس: حدَّثنا زُهَير، قال: حدَّثنا كِنانةَ، مَولَى صَفيَّة، قَالَ: كنتُ أقود بصَفيَّة لِتَرُدَّ عَنْ عُثمان، فلقيها الأَشتر، فضرب وجه بغلتها، حتى قَالَت: ردوني، ولا يفضحني هذا الكلب
(التاریخ الکبیر للبخاری )
یعنی سیدہ صفیہ ؓ کے غلام سیدنا کنانہؒ فرماتے ہیں کہ : امام عثمان ؓ کے دفاع میں
سیدہ صفیہ ؓ ایک خچر پر سوار ہوکر نکلیں ، میں انکے خچر کو ہانک رہا تھا ، راستہ میں مالک بن حارث اشتر ملا ،
اس نے سیدہ کو روکا اور خچر کے منہ پر مارنے لگا ، اس پر سیدہ صفیہ نے فرمایا : مجھے واپس لے چلو تاکہ یہ کْتا مجھے رسوا نہ کرے ‘‘(امام ابن حجر عسقلانی نے اس روایت کو حسن کہا ہے )
یہی روایت امام ابن حجر نے ( الاصابہ ) میں ان الفاظ سے نقل کی ہے :
وأخرج ابن سعد أيضا بسند حسن عن كنانة مولى صفية، قال: قدمت بصفية بغلة لتردّ عن عثمان، فلقينا الأشتر فضرب وجه البغلة، فقالت: ردّوني لا يفضحني ( الإصابة في تمييز الصحابة جلد ۸ ص۲۱۲ )
بعد میں ان لوگوں نے سیدنا عثمانؓ کو بڑی بے دردی سے قتل کردیا ،
اب منظر بدلتا ہے ، یہی مالک بن حارث اشتر جناب علی کی بیعت کیلئے سرگرم ہوتا ہے ،
اور یہی سب سے پہلا شخص ہے جس نے جناب علیؓ کے ہاتھ پر بیعت کی ،
طبری اپنی سند سے بیعت علی کی ابتدائی صورت حال تفصیل سے نقل کرتے ہیں کہ :
وحدثني عمر بن شبة، قال: حدثنا أبو الحسن المدائني، قال: أخبرنا مسلمة بن محارب، عن داود بن أبي هند، عن الشعبي، قال: لما قتل عثمان رضي الله عنه أتى الناس عليا وهو في سوق المدينة، وقالوا له: ابسط يدك نبايعك، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فعادوا إلى علي، فأخذ الأشتر بيده فقبضها علي، فقال:
أبعد ثلاثة! أما والله لئن تركتها لتقصرن عنيتك عليها حينا، فبايعته العامة وأهل الكوفة يقولون: إن أول من بايعه الأشتر ‘‘
(تاریخ طبری باب خلافة أمير المؤمنين علي بن أبي طالب )
اب ہمیں اس پر تبصرہ کی ضرورت نہیں کہ :
سیدنا الامام عثمان ؓ جو نبی مکرم کی دو صاحبزادیوں کے شوہر تھے ، اور صحابہ کرام کے متفقہ خلیفہ راشد تھے اور زبان نبوت سے جنت کے مستحق ہونے کا اعزاز رکھتے تھے ،ان کی خلافت کا باغی اور قاتلین کا سردار
اشتر نخعی جناب علیؓ کی بیعت کیلئے کوشاں ہے اور سب سے پہلے ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا شرف پاتا ہے
تو بنو امیہ اور سیدنا الامام معاویہؓ کو اس خلافت کی بیعت نہ کرنے پر مطعون کرنا کہاں کا انصاف اور کہاں کی دانشمندی ہے ، ؟؟؟؟