امام بخاری رحم الله کی روایت سے ثابت ہے کہ عبدللہ ابن عمر رضی الله تعالیٰ عنہ کو یزید بن معاویہ رحم الله میں کوئی عذر نظر نہیں آیا - جس کی بنا پر انہوں نے نہ صرف خود یزید بن معاویہ کی بخوشی بیعت کی بلکہ اہل مدینہ کو بھی صاف کہا کہ اگر انہوں نے یزید کی بیعت توڑی تو ان کا شمار باغی اور دغا بازوں میں شمار ہو گا-
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ قَالَ لَمَّا خَلَعَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ جَمَعَ ابْنُ عُمَرَ حَشَمَهُ وَوَلَدَهُ فَقَالَ إِنِّى سَمِعْتُ النَّبِىَّ – صلى الله عليه وسلم – يَقُولُ «يُنْصَبُ لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ». وَإِنَّا قَدْ بَايَعْنَا هَذَا الرَّجُلَ عَلَى بَيْعِ الله وَرَسُولِهِ، وَإِنِّى لاَ أَعْلَمُ غَدْرًا أَعْظَمَ مِنْ أَنْ يُبَايَعَ رَجُلٌ عَلَى بَيْعِ الله وَرَسُولِهِ، ثُمَّ يُنْصَبُ (صحیح بخاری)
نافع کہتے ہیں کہ جب مدینہ والوں نے يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ کی بیعت توڑی تو عبدللہ ابن عمر رضی الله تعالیٰ عنہ نے اپنے خاندان والوں کو جمع کیا اور کہا کہ میں نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ہر دغا باز کے لئے قیامت کے دن اک جھنڈا گا ڑھا جائے گا – اور بے شک میں نے اس آدمی (یزید بن معاویہ) کی بیعت کی ہے الله اور اس کے رسول (کی اتبا ع پر) اور میں کوئی ایسا بڑا عذر نہیں جانتا کہ کسی کی الله اور رسول کے لئے بیعت کی جائے اور پھر توڑی جائے-
مزید یہ کہ :
بقول امام بخاری رحم الله، عبدللہ ابن عمر رضی الله تعالیٰ عنہ یزید بن معاویہ رحم الله کو حسین رضی الله تعالیٰ عنہ کی شہادت کا ذمہ دار نہیں سمجھتے تھے- بلکہ اہل کوفہ (اہل عراق) کو ہی اصل میں ان کی شہادت کا ذمہ دار سمجھتے تھے بخاری بَابُ مَنَاقِبِ الحَسَنِ وَالحُسَيْنِ رَضِيَ الله عَنْهُمَا میں روایت کرتے ہیں کہ:
عَنِ المُحْرِمِ؟ قَالَ: شُعْبَةُ أَحْسِبُهُ يَقْتُلُ الذُّبَابَ، فَقَالَ: أَهْلُ العِرَاقِ يَسْأَلُونَ عَنِ الذُّبَابِ، وَقَدْ قَتَلُوا ابْنَ ابْنَةِ رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
ابن ابی نُعْمٍ کہتے ہیں میں نے عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ کو سنا جب ان سے محرم کے بارے میں سوال ہوا کہ اگر محرم (احرام ) کی حالت میں مکھی قتل ہو جائے تو کیا کریں پس انہوں نے کہا أَهْلُ العِرَاقِ مکھی کے بارے میں سوال کرتے ہیں اور انہوں نے رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کے نواسے کا قتل کیا
ویسے بھی رافضی اور نام نہاد اہل سنّت یزید بن معاویہ سے صرف اس بنا پر نفرت کرتے ہیں کہ ان پر حسین رضی الله عنہ کے قتل کا الزام ہے (جو کہ حقیقت میں باطل ہے) ورنہ خارجی و سبائییوں سے بڑھ کر بھی کوئی فاسق و فاجر پیدا ہوا ہے؟؟- مزید یہ کہ کیا حضرت عمر رضی الله عنہ ، حضرت عثمان رضی الله عنہ ، حضرت مسلم بن عقیل رضی الله عنہ ، حضرت عبد الله بن زبیر رضی الله عنہ کو بے گناہ اور بے درد
امام بخاری رحم الله کی روایت سے ثابت ہے کہ عبدللہ ابن عمر رضی الله تعالیٰ عنہ کو یزید بن معاویہ رحم الله میں کوئی عذر نظر نہیں آیا - جس کی بنا پر انہوں نے نہ صرف خود یزید بن معاویہ کی بخوشی بیعت کی بلکہ اہل مدینہ کو بھی صاف کہا کہ اگر انہوں نے یزید کی بیعت توڑی تو ان کا شمار باغی اور دغا بازوں میں شمار ہو گا-
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ قَالَ لَمَّا خَلَعَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ جَمَعَ ابْنُ عُمَرَ حَشَمَهُ وَوَلَدَهُ فَقَالَ إِنِّى سَمِعْتُ النَّبِىَّ – صلى الله عليه وسلم – يَقُولُ «يُنْصَبُ لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ». وَإِنَّا قَدْ بَايَعْنَا هَذَا الرَّجُلَ عَلَى بَيْعِ الله وَرَسُولِهِ، وَإِنِّى لاَ أَعْلَمُ غَدْرًا أَعْظَمَ مِنْ أَنْ يُبَايَعَ رَجُلٌ عَلَى بَيْعِ الله وَرَسُولِهِ، ثُمَّ يُنْصَبُ (صحیح بخاری)
نافع کہتے ہیں کہ جب مدینہ والوں نے يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ کی بیعت توڑی تو عبدللہ ابن عمر رضی الله تعالیٰ عنہ نے اپنے خاندان والوں کو جمع کیا اور کہا کہ میں نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ہر دغا باز کے لئے قیامت کے دن اک جھنڈا گا ڑھا جائے گا – اور بے شک میں نے اس آدمی (یزید بن معاویہ) کی بیعت کی ہے الله اور اس کے رسول (کی اتبا ع پر) اور میں کوئی ایسا بڑا عذر نہیں جانتا کہ کسی کی الله اور رسول کے لئے بیعت کی جائے اور پھر توڑی جائے-
مزید یہ کہ :
بقول امام بخاری رحم الله، عبدللہ ابن عمر رضی الله تعالیٰ عنہ یزید بن معاویہ رحم الله کو حسین رضی الله تعالیٰ عنہ کی شہادت کا ذمہ دار نہیں سمجھتے تھے- بلکہ اہل کوفہ (اہل عراق) کو ہی اصل میں ان کی شہادت کا ذمہ دار سمجھتے تھے بخاری بَابُ مَنَاقِبِ الحَسَنِ وَالحُسَيْنِ رَضِيَ الله عَنْهُمَا میں روایت کرتے ہیں کہ:
عَنِ المُحْرِمِ؟ قَالَ: شُعْبَةُ أَحْسِبُهُ يَقْتُلُ الذُّبَابَ، فَقَالَ: أَهْلُ العِرَاقِ يَسْأَلُونَ عَنِ الذُّبَابِ، وَقَدْ قَتَلُوا ابْنَ ابْنَةِ رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
ابن ابی نُعْمٍ کہتے ہیں میں نے عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ کو سنا جب ان سے محرم کے بارے میں سوال ہوا کہ اگر محرم (احرام ) کی حالت میں مکھی قتل ہو جائے تو کیا کریں پس انہوں نے کہا أَهْلُ العِرَاقِ مکھی کے بارے میں سوال کرتے ہیں اور انہوں نے رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کے نواسے کا قتل کیا
ویسے بھی رافضی اور نام نہاد اہل سنّت یزید بن معاویہ سے صرف اس بنا پر نفرت کرتے ہیں کہ ان پر حسین رضی الله عنہ کے قتل کا الزام ہے (جو کہ حقیقت میں باطل ہے) ورنہ خارجی و سبائییوں سے بڑھ کر بھی کوئی فاسق و فاجر پیدا ہوا ہے؟؟- مزید یہ کہ کیا حضرت عمر رضی الله عنہ ، حضرت عثمان رضی الله عنہ ، حضرت مسلم بن عقیل رضی الله عنہ ، حضرت عبد الله بن زبیر رضی الله عنہ کو بے گناہ اور بے دردی سے شہید نہیں کیا گیا ؟؟ تو ان کی شہادت پر کوئی ماتم کناں کیوں نہیں ؟؟ کیا اسلام صرف حسین کی شہادت کے بعد زندہ ہوتا ہے ؟؟ باقی اصحاب رضی الله عنہ کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں- کیا ان کی قربانیوں کی کوئی وقعت نہیں ہے ؟؟
الله ہم سب کو اہل بیت کی جھوٹی محبّت سے محفوظ رکھے (آمین)-
جناب
میرا کمپؤٹر خراب ہو گیا تھا اس لئے جواب نہ دےپایا
بس ختم ہو گئی ساری اہل حدیث
امام بخاری رحم الله کی روایت سے ثابت ہے کہ عبدللہ ابن عمر رضی الله تعالیٰ عنہ کو یزید بن معاویہ رحم الله میں کوئی عذر نظر نہیں آیا - جس کی بنا پر انہوں نے نہ صرف خود یزید بن معاویہ کی بخوشی بیعت کی بلکہ اہل مدینہ کو بھی صاف کہا کہ اگر انہوں نے یزید کی بیعت توڑی تو ان کا شمار باغی اور دغا بازوں میں شمار ہو گا-
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ قَالَ لَمَّا خَلَعَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ جَمَعَ ابْنُ عُمَرَ حَشَمَهُ وَوَلَدَهُ فَقَالَ إِنِّى سَمِعْتُ النَّبِىَّ – صلى الله عليه وسلم – يَقُولُ «يُنْصَبُ لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ». وَإِنَّا قَدْ بَايَعْنَا هَذَا الرَّجُلَ عَلَى بَيْعِ الله وَرَسُولِهِ، وَإِنِّى لاَ أَعْلَمُ غَدْرًا أَعْظَمَ مِنْ أَنْ يُبَايَعَ رَجُلٌ عَلَى بَيْعِ الله وَرَسُولِهِ، ثُمَّ يُنْصَبُ (صحیح بخاری)
نافع کہتے ہیں کہ جب مدینہ والوں نے يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ کی بیعت توڑی تو عبدللہ ابن عمر رضی الله تعالیٰ عنہ نے اپنے خاندان والوں کو جمع کیا اور کہا کہ میں نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ہر دغا باز کے لئے قیامت کے دن اک جھنڈا گا ڑھا جائے گا – اور بے شک میں نے اس آدمی (یزید بن معاویہ) کی بیعت کی ہے الله اور اس کے رسول (کی اتبا ع پر) اور میں کوئی ایسا بڑا عذر نہیں جانتا کہ کسی کی الله اور رسول کے لئے بیعت کی جائے اور پھر توڑی جائے-
مزید یہ کہ :
بقول امام بخاری رحم الله، عبدللہ ابن عمر رضی الله تعالیٰ عنہ یزید بن معاویہ رحم الله کو حسین رضی الله تعالیٰ عنہ کی شہادت کا ذمہ دار نہیں سمجھتے تھے- بلکہ اہل کوفہ (اہل عراق) کو ہی اصل میں ان کی شہادت کا ذمہ دار سمجھتے تھے بخاری بَابُ مَنَاقِبِ الحَسَنِ وَالحُسَيْنِ رَضِيَ الله عَنْهُمَا میں روایت کرتے ہیں کہ:
عَنِ المُحْرِمِ؟ قَالَ: شُعْبَةُ أَحْسِبُهُ يَقْتُلُ الذُّبَابَ، فَقَالَ: أَهْلُ العِرَاقِ يَسْأَلُونَ عَنِ الذُّبَابِ، وَقَدْ قَتَلُوا ابْنَ ابْنَةِ رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
ابن ابی نُعْمٍ کہتے ہیں میں نے عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ کو سنا جب ان سے محرم کے بارے میں سوال ہوا کہ اگر محرم (احرام ) کی حالت میں مکھی قتل ہو جائے تو کیا کریں پس انہوں نے کہا أَهْلُ العِرَاقِ مکھی کے بارے میں سوال کرتے ہیں اور انہوں نے رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کے نواسے کا قتل کیا
ویسے بھی رافضی اور نام نہاد اہل سنّت یزید بن معاویہ سے صرف اس بنا پر نفرت کرتے ہیں کہ ان پر حسین رضی الله عنہ کے قتل کا الزام ہے (جو کہ حقیقت میں باطل ہے) ورنہ خارجی و سبائییوں سے بڑھ کر بھی کوئی فاسق و فاجر پیدا ہوا ہے؟؟- مزید یہ کہ کیا حضرت عمر رضی الله عنہ ، حضرت عثمان رضی الله عنہ ، حضرت مسلم بن عقیل رضی الله عنہ ، حضرت عبد الله بن زبیر رضی الله عنہ کو بے گناہ اور بے دردی سے شہید نہیں کیا گیا ؟؟ تو ان کی شہادت پر کوئی ماتم کناں کیوں نہیں ؟؟ کیا اسلام صرف حسین کی شہادت کے بعد زندہ ہوتا ہے ؟؟ باقی اصحاب رضی الله عنہ کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں- کیا ان کی قربانیوں کی کوئی وقعت نہیں ہے ؟؟
الله ہم سب کو اہل بیت کی جھوٹی محبّت سے محفوظ رکھے (آمین)-
جناب،
میرا کمپوٹر سسٹم خراب ہو گیا تھا اس لئے جواب نہ دے سکا۔
بس ختم ہو گئی ساری اہل حدیثیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے سامنے ابن عمر رضی اللہ کا قول پیش کر رہے ہیں کہ انہوں نے یزید کی بیعت راضی خوشی کی تھی ابن عمر رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت فتنہ کے خوف سے کی تھی تو یزید کی بات چھوڑ دو صرف حدیث نہیں اس کی شرح بھی پڑھا کریں۔
یہ غزوہ خندق کا بیان ہے
عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ وَنَسْوَاتُهَا تَنْطُفُ قُلْتُ قَدْ كَانَ
(7/402)
مِنْ أَمْرِ النَّاسِ مَا تَرَيْنَ فَلَمْ يُجْعَلْ لِي مِنْ الأَمْرِ شَيْءٌ فَقَالَتْ الْحَقْ فَإِنَّهُمْ يَنْتَظِرُونَكَ وَأَخْشَى أَنْ يَكُونَ فِي احْتِبَاسِكَ عَنْهُمْ فُرْقَةٌ فَلَمْ تَدَعْهُ حَتَّى ذَهَبَ فَلَمَّا تَفَرَّقَ النَّاسُ خَطَبَ مُعَاوِيَةُ قَالَ مَنْ كَانَ يُرِيدُ أَنْ يَتَكَلَّمَ فِي هَذَا الأَمْرِ فَلْيُطْلِعْ لَنَا قَرْنَهُ فَلَنَحْنُ أَحَقُّ بِهِ مِنْهُ وَمِنْ أَبِيهِ قَالَ حَبِيبُ بْنُ مَسْلَمَةَ فَهَلاَ أَجَبْتَهُ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ فَحَلَلْتُ حُبْوَتِي وَهَمَمْتُ أَنْ أَقُولَ أَحَقُّ بِهَذَا الأَمْرِ مِنْكَ مَنْ قَاتَلَكَ وَأَبَاكَ عَلَى الإِسْلاَمِ فَخَشِيتُ أَنْ أَقُولَ كَلِمَةً تُفَرِّقُ بَيْنَ الْجَمْعِ وَتَسْفِكُ الدَّمَ وَيُحْمَلُ عَنِّي غَيْرُ ذَلِكَ فَذَكَرْتُ مَا أَعَدَّ اللَّهُ فِي الْجِنَانِ قَالَ حَبِيبٌ حُفِظْتَ وَعُصِمْتَ قَالَ مَحْمُودٌ عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ "وَنَوْسَاتُهَا"(کتاب المغازی باب غزوہ خندق رقم4108)
اس کی شرح میں حافظ ابن حجر فرماتے ہیں
اس میں جس الامر کا ذکر ہے وہ خلافت ہے چنانچہ رقمطراز ہیں۔
قوله: "أن يتكلم في هذا الأمر" أي الخلافة.
تو اس میں معاویہ رضی اللہ عنہ نے جس میں اپنے اپ کو عمررضی اللہ عنہ یا علی رضی اللہ عنہ سے ذیادہ حقدار بتایا ہے وہ خلافت کا معاملہ تھا جس کو شیخ سنابلی صاحب نے قصاص عثمان بتایا جو بالکل اس کے سیاق وسباق سے ہٹ کر ہے تو یہاں معاملہ خلافت کا تھا اوراس کے بعد ابن حجر رحمہ اللہ نےابن عمررضی اللہ عنہ نے جو بیعت کی ہے اس کے بارے میں لکھا ہے پڑھ لیں۔
وكان رأي معاوية في الخلافة تقديم الفاضل في القوة والرأي والمعرفة على الفاضل في السبق إلى الإسلام والدين والعبادة، فلهذا أطلق أنه أحق، ورأى ابن عمر بخلاف ذلك، وأنه لا يبايع المفضول إلا إذا خشي الفتنة، ولهذا بايع بعد ذلك معاوية ثم ابنه يزيد ونهى بنيه عن نقض بيعته كما سيأتي في الفتن، وبايع بعد ذلك لعبد الملك بن مروان۔
اس میں صاف لکھا ہے معاویہ رضی اللہ عنہ نے خلافت کو قوت اور طاقت پر قائم کر دیا جو ان سے پہلے اسلام دین اور تقوی اور پرہزگاری دیکھ کر کی جاتی تھی
اور اس لئے ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فتنہ کے ڈر سے معاویہ رضی اللہ عنہ اور اس کے بعد یزید اور اس کے بعد عبدالملک بن مروان کی بیعت کی تھی
تو جو یہ کہتا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے رضی خوشی بیعت کی تھی وہ یہ روایت اور اس کی تشریح پڑھ لے اوراسی طرح ابو بکر جصاص نے احکام القران میں بھی یہی لکھا ہے اور اسی طرح امام شاطبی نے بھی الاعتصام میں یہی لکھا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی بیعت کراھت کے ساتھ تھی
تو امت کے اتنے بڑے اکابریں یہ سب غلط اور اپ صحیح اگر ابن عمررضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت سے شروع سے راضی ہوتے تو یہ روایت کسی بھی کتب حدیث میں نہ ہوتی کیونکہ وہ راضی ہوتے تو یہ جملے ادا نہ کرتے اور نہ محدثین کو یہ روایت ملتی۔اور رہی بات کہ انہوں نے بیعت کیوں نہیں توڑی تو اس کا جواب بھی اس روایت میں ہے کہ وہ مسلمانوں میں فتنہ اور آپس میں خون ریزی نہیں چاہتے تھے اس لیے جب انہوں نے یزید کی بھی بیعت کی تو یہی کہا کہ اگر یہ ہمارے لئے شر ہو گا تو ہم صبر کریں گے تو انہوں نے جنت پر قناعت کرلی تھی جیسا ان ہی کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے مگر بیعت کرنے پر وہ راضی نہیں تھے صرف فتنہ نہ پڑے اس وجہ سے بیعت نہیں کی۔
جہاں تک اہل عراق کے حسین رضی اللہ عنہ کو شھید کرنے کی بات ہے تو بالکل صحیح بات ہے کہ انہوں نے شہید کیا ہے مگر انہوں نے جو حکومت کے ساتھ شامل تھے یہ ان کی سیاہ کارنامہ ہے اس کی دلیل بھی موجود ہے مگر جب آپ طلب کریں گے تب پیش کروں گا اور سنابلی صاحب کی کتاب" یزید بن معاویہ پر اعتراضات کا جواب" میں سے ہی پیش کروں گا وتوفیق باللہ
اور اخری بات اپ نے جن کے بھی نام لیئے ہیں حسین رضی اللہ عنہ سمیت اہل سنت ان میں سے کسی کا بھی ماتم نہیں کرتے مگر یہ سب وہ لوگ ہیں جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں نظام خلافت کی محنت کو بچانے کے لئے اپنے جانوں کے نظرانہ پیش کیے ہیں اور مجھے ان سب سے محبت ہے۔ اللہ سب کو ہدایت دے اور اہل بیعت کی سچی محبت عطا کرے جو اصل اہلسنت کا منھج ہے۔