abdullah786
رکن
- شمولیت
- نومبر 24، 2015
- پیغامات
- 428
- ری ایکشن اسکور
- 25
- پوائنٹ
- 46
فتاوی ابن تیمیہ جلد4 ص489 فصل یزید بن معاویہ
محترم -جناب
میرا کمپؤٹر خراب ہو گیا تھا اس لئے جواب نہ دےپایا
بس ختم ہو گئی ساری اہل حدیث
جناب،
میرا کمپوٹر سسٹم خراب ہو گیا تھا اس لئے جواب نہ دے سکا۔
بس ختم ہو گئی ساری اہل حدیثیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے سامنے ابن عمر رضی اللہ کا قول پیش کر رہے ہیں کہ انہوں نے یزید کی بیعت راضی خوشی کی تھی ابن عمر رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت فتنہ کے خوف سے کی تھی تو یزید کی بات چھوڑ دو صرف حدیث نہیں اس کی شرح بھی پڑھا کریں۔
یہ غزوہ خندق کا بیان ہے
عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ وَنَسْوَاتُهَا تَنْطُفُ قُلْتُ قَدْ كَانَ(7/402)مِنْ أَمْرِ النَّاسِ مَا تَرَيْنَ فَلَمْ يُجْعَلْ لِي مِنْ الأَمْرِ شَيْءٌ فَقَالَتْ الْحَقْ فَإِنَّهُمْ يَنْتَظِرُونَكَ وَأَخْشَى أَنْ يَكُونَ فِي احْتِبَاسِكَ عَنْهُمْ فُرْقَةٌ فَلَمْ تَدَعْهُ حَتَّى ذَهَبَ فَلَمَّا تَفَرَّقَ النَّاسُ خَطَبَ مُعَاوِيَةُ قَالَ مَنْ كَانَ يُرِيدُ أَنْ يَتَكَلَّمَ فِي هَذَا الأَمْرِ فَلْيُطْلِعْ لَنَا قَرْنَهُ فَلَنَحْنُ أَحَقُّ بِهِ مِنْهُ وَمِنْ أَبِيهِ قَالَ حَبِيبُ بْنُ مَسْلَمَةَ فَهَلاَ أَجَبْتَهُ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ فَحَلَلْتُ حُبْوَتِي وَهَمَمْتُ أَنْ أَقُولَ أَحَقُّ بِهَذَا الأَمْرِ مِنْكَ مَنْ قَاتَلَكَ وَأَبَاكَ عَلَى الإِسْلاَمِ فَخَشِيتُ أَنْ أَقُولَ كَلِمَةً تُفَرِّقُ بَيْنَ الْجَمْعِ وَتَسْفِكُ الدَّمَ وَيُحْمَلُ عَنِّي غَيْرُ ذَلِكَ فَذَكَرْتُ مَا أَعَدَّ اللَّهُ فِي الْجِنَانِ قَالَ حَبِيبٌ حُفِظْتَ وَعُصِمْتَ قَالَ مَحْمُودٌ عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ "وَنَوْسَاتُهَا"(کتاب المغازی باب غزوہ خندق رقم4108)
اس کی شرح میں حافظ ابن حجر فرماتے ہیں
اس میں جس الامر کا ذکر ہے وہ خلافت ہے چنانچہ رقمطراز ہیں۔
قوله: "أن يتكلم في هذا الأمر" أي الخلافة.
تو اس میں معاویہ رضی اللہ عنہ نے جس میں اپنے اپ کو عمررضی اللہ عنہ یا علی رضی اللہ عنہ سے ذیادہ حقدار بتایا ہے وہ خلافت کا معاملہ تھا جس کو شیخ سنابلی صاحب نے قصاص عثمان بتایا جو بالکل اس کے سیاق وسباق سے ہٹ کر ہے تو یہاں معاملہ خلافت کا تھا اوراس کے بعد ابن حجر رحمہ اللہ نےابن عمررضی اللہ عنہ نے جو بیعت کی ہے اس کے بارے میں لکھا ہے پڑھ لیں۔
وكان رأي معاوية في الخلافة تقديم الفاضل في القوة والرأي والمعرفة على الفاضل في السبق إلى الإسلام والدين والعبادة، فلهذا أطلق أنه أحق، ورأى ابن عمر بخلاف ذلك، وأنه لا يبايع المفضول إلا إذا خشي الفتنة، ولهذا بايع بعد ذلك معاوية ثم ابنه يزيد ونهى بنيه عن نقض بيعته كما سيأتي في الفتن، وبايع بعد ذلك لعبد الملك بن مروان۔
اس میں صاف لکھا ہے معاویہ رضی اللہ عنہ نے خلافت کو قوت اور طاقت پر قائم کر دیا جو ان سے پہلے اسلام دین اور تقوی اور پرہزگاری دیکھ کر کی جاتی تھی
اور اس لئے ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فتنہ کے ڈر سے معاویہ رضی اللہ عنہ اور اس کے بعد یزید اور اس کے بعد عبدالملک بن مروان کی بیعت کی تھی
تو جو یہ کہتا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے رضی خوشی بیعت کی تھی وہ یہ روایت اور اس کی تشریح پڑھ لے اوراسی طرح ابو بکر جصاص نے احکام القران میں بھی یہی لکھا ہے اور اسی طرح امام شاطبی نے بھی الاعتصام میں یہی لکھا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی بیعت کراھت کے ساتھ تھی
تو امت کے اتنے بڑے اکابریں یہ سب غلط اور اپ صحیح اگر ابن عمررضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت سے شروع سے راضی ہوتے تو یہ روایت کسی بھی کتب حدیث میں نہ ہوتی کیونکہ وہ راضی ہوتے تو یہ جملے ادا نہ کرتے اور نہ محدثین کو یہ روایت ملتی۔اور رہی بات کہ انہوں نے بیعت کیوں نہیں توڑی تو اس کا جواب بھی اس روایت میں ہے کہ وہ مسلمانوں میں فتنہ اور آپس میں خون ریزی نہیں چاہتے تھے اس لیے جب انہوں نے یزید کی بھی بیعت کی تو یہی کہا کہ اگر یہ ہمارے لئے شر ہو گا تو ہم صبر کریں گے تو انہوں نے جنت پر قناعت کرلی تھی جیسا ان ہی کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے مگر بیعت کرنے پر وہ راضی نہیں تھے صرف فتنہ نہ پڑے اس وجہ سے بیعت نہیں کی۔
جہاں تک اہل عراق کے حسین رضی اللہ عنہ کو شھید کرنے کی بات ہے تو بالکل صحیح بات ہے کہ انہوں نے شہید کیا ہے مگر انہوں نے جو حکومت کے ساتھ شامل تھے یہ ان کی سیاہ کارنامہ ہے اس کی دلیل بھی موجود ہے مگر جب آپ طلب کریں گے تب پیش کروں گا اور سنابلی صاحب کی کتاب" یزید بن معاویہ پر اعتراضات کا جواب" میں سے ہی پیش کروں گا وتوفیق باللہ
اور اخری بات اپ نے جن کے بھی نام لیئے ہیں حسین رضی اللہ عنہ سمیت اہل سنت ان میں سے کسی کا بھی ماتم نہیں کرتے مگر یہ سب وہ لوگ ہیں جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں نظام خلافت کی محنت کو بچانے کے لئے اپنے جانوں کے نظرانہ پیش کیے ہیں اور مجھے ان سب سے محبت ہے۔ اللہ سب کو ہدایت دے اور اہل بیعت کی سچی محبت عطا کرے جو اصل اہلسنت کا منھج ہے۔
محترم،محترم -
بخاری کی واضح حدیث کو چھوڑ کر آپ ابن حجر کی توجیہات کو مان رہے ہیں - بخاری کی حدیث کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ وَإِنِّى لاَ أَعْلَمُ غَدْرًا أَعْظَمَ انہوں نے یزید بن معاویہ رحم الله میں کوئی بڑا نقص نہیں دیکھا (یعنی نہ شراب نوشی نہ محرمات سے نکاح ، نہ بدکاری ، نہ ظلم و ستم وغیرہ) تب ہی انہوں نے اہل مدینہ کو تنبیہ کی کہ اگر ان (یزید بن معاویہ) کی بیعت توڑی گئی تو ان کا شمار دھوکہ بازوں میں ہوگا- تو پھر ان کے والد امیر معاویہ بن ابی سفیان رضی الله عنہ کے خلاف اس قسم کی گلفشانی کرنا کہاں کی عقلمندی ہے کہ وہ ظالم و فاسق تھے اور صحابہ کرام رضوان الله اجمعین (جو کبھی اہل روم اور اہل فارس جیسے بڑے بڑے دشمنوں سے نہیں ڈرے ) ایک امیر معاویہ رضی الله عنہ سے ڈر کر بیٹھ گئے -
رہی ابن ہجر کی توجیہات تو ابن حجر عسقلانی "عید میلاد" کی بدعت کے بھی قائل تھے کیا آپ اس کو بھی تسلیم کریں گے ؟؟- کسی کی غلط بات کو تسلیم کرنا اہل حدیث کا شیوا نہیں ہے -
لنک یھاں ملاحظه کریں -
http://khadim-e-ahlesunnat.blogspot.in/2013/01/blog-post_6355.html
آپ مان رہے ہیں کہ اہل عراق کے حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کی بات ہے تو بالکل صحیح بات ہے کہ انہوں نے شہید کیا- اور اس کی تاریخی ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے پہلے حضرت حسین راضی الله عنہ کو (اہل بیت کی جھوٹی محبّت ) کی آڑ میں استمال کرنے کی مذموم کوشش کی -اہل عراق شرو ع ہی سے اہل شام و اہل عرب کے مخالف تھے - انہوں نے حسین رضی الله عنہ کو خطوط لکھ کر یزید بن معاویہ رحم الله کی خلافت کے خلاف بغاوت پر اکسایا - لیکن کوفہ کے قریب پہنچنے پر حسین رضی الله عنہ کو اندازہ ہو گیا کہ اہل عراق نے حکومت وقت سے غداری کی سازش کی ہے اور مجھے بھی اس فتنے میں گھسیٹ رہے ہیں اس لئے انہوں اس پلان کا حصّہ بننے سے نے صاف انکار کردیا اور کہا کہ مجھے یزید بن معاویہ کے پاس جانے دو تا کہ میں ان کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے سکوں-(صحیح روایت کے مطابق)- اپنا بھنڈا پھوٹنے کے ڈر سے اہل عراق نے کوفہ کے گورنر ابن زیاد کو شکایت لگا دی کہ حسین رضی الله عنہ بغاوت کے غرض سے یہاں آئیں ہیں لحظہ ان کے خلاف ایکشن لیا جائے - ابن زیاد ان اہل کوفہ کی باتوں میں آگیا اور پھر وہی کچھ ہوا جس کا ماتم ہر سال رافضی اور ان کے ہمنوا اہل سنّت جوش سے مناتے ہیں-
جب آنکھوں پر رافضیت کی پٹی بندھی ہو تو اس قسم کی خرافات ہی قلم سے نکلتی ہیں جو آپ کے قلم سے نکل رہی ہیں- بات ابن زیاد کی ہو تو یزید بن معاویہ پر لعن تعن شرو ع کر دی جاتی ہے - اگر بات یزید بن معاویہ رحم الله کی ہو تو بیچ میں ان کے والد بزرگوار حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کی شخصیت پر کیچڑ اچھالنے کی روایت ڈال دی جاتی ہے - اور پھر اپنے بارے میں بڑے زعم سے کہا جاتا ہے کہ ہم "اہل سنّت " ہیں - اور ہم تو صرف آئمہ کرام کے اقوال نقل کررہے ہیں اس میں ہمارا کیا قصور ؟؟- چاہے آئمہ نے ان روایات کے متعلق جن میں ان کی پاکیزہ (اصحاب کرام) کی شخصیت پر بلا جواز تنقید کی گئی ہے اسے بلا دلیل ہی اپنی کتب میں درج کردیا ہو- اور کیا یہ بھی ممکن نہیں کہ کتنے ہی آئمہ نے اپنے ان جھوٹی روایات سے متعلق اپنے اقوال سے رجوع کرلیا ہو ؟؟ - کیا ہم قرآن کو حق تسلیم نہ کریں جو صحابہ کرام رضوان الله اجمین کی شخصیت کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتا ہے کہ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ - لیکن بیڑا غرق ہو اس رافضیت کا کہ نشانہ بھی اس ہستی کو بنایا جا رہا ہے جو "کاتب وحی رسول " تھے- ظاہر ہے جب کاتب وحی کی شخصیت ظالم و فاسق ثابت ہو گئی تو قرآن کو مشکوک ٹہرانا کیا مشکل رہا- اور جب قران مشکوک ہو گیا تو اس سے علی رضی الله عنہ کی "خلافت بل فصل" کا عقیدہ کشید کرنا کون سا مشکل کام رہا-محترم،
اپ مجھے فرما رہے ہیں کہ میں نے بخاری کی حدیث چھوڑ دی جبکہ یہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہے جبکہ محترم اوپر حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے پر یہ روایت پیش کر چکے ہیں میں نے حدیث پیش کی تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ امارۃ السفھاء سے قبل موت مانگنا جائز ہے اور ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ اسی سے قبل موت مانگتے تھے اور اللہ نے ان کی دعا قبول کی یزید اول(سفھاء)سے قبل دنیا سے رخصت ہو گئے مگر اپ نے اس کی جگہ بخاری کی یہ روایت پیش کی اب اس روایت پر اپ نے لکھا کہ میں ابن حجر کی توجہات مان رہا ہوں جبکہ اس روایت میں صاف موجود ہے کہ میں معاویہ رضی اللہ عنہ کو جواب دیتا کہ خلافت کے وہ حقدار ہیں جو اپ سے جنگ کر کے اپ کو اسلام پر لائے مگر میں جنت کی نعمتوں کی وجہ سے خاموش ہو گیا اگر ابن عمر رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو خلافت کا حقدار مانتے تو یہ بات ہی نہ فرماتے اور اس پر ابن حجر نے یہ فرمایا ہے کہ کیوں ابن عمر رضی اللہ عنہ یہ فرما رہے ہیں اس لیے کہ انہوں نے بیعت مکرھین کی ہے اس پر راضی نہیں تھے اگر راضی ہوتے تو یہ بات ہی نہ فرماتے اور اسی طرح یزید کی بیعت بھی ایسے ہی کی ہے اور یہ صرف ابن حجر کا شاذ قول نہیں ہے اس پر امت کے بڑے بڑے اکابرین کے اقوال ہیں اور اسی قسم کی روایات کی بنیاد پر ہیں معاویہ رضی اللہ عنہ اور یزید کی بیعت جبری تھی اور مصنف ابن ابی شیبہ اور بخاری کی روایات اس پر گواہ ہیں تو اپ کو چند نام بتا دیتا ہوں۔
(1) حافظ ابن حجر
(2) امام شاطبی
(3) قاضی ابو بکر جصاص
(4) شاہ ولی اللہ
(5) امام ذہبی
(6) ملا علی قاری
ان سب کا ماننا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ یا یزید کی بیعت جبری تھی چاہے جس نے بھی کی راضی خوشی کسی نے نہیں کی ہے۔
اب اپ نے دوسری بات یہ فرمائی کہ سبائیوں نے بلا کر حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا اللہ اپ پر رحم کرے سب سے پہلے بلانے والے سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ ہیں اور اکابرین میں سے کئی ہے جنہوں نے یہ بات نقل کی ہے تو صحابی کی عظمت ماننے والوں صحابی کو سبائی فتنہ گر کہہ رہے ہو
دوسری بات انہی سبائیوں نے ابن زیاد کو بھڑکا کر اس سے شہید کروا دیا تو اپ کے سنابلی صاحب تو اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ سبائیوں نے خود ہی شہید کیا ابن زیاد تو بڑی محبت رکھتا تھا اس نے شہید نہیں کیا ہے تو کس کی مانی جاے اپ کی یا شیخ صاحب کی
میرے پاس حسین رضی اللہ عنہ کی خود کی گواہی موجود ہے کہ ان کو حکمران مروانا چاہتے تھے اور اس کی دلیل وہ روایت ہے جس میں ابن عباس رضی اللہ عنہ نے حسین رضی اللہ عنہ کو روکنے کی کوشش کی کہ آپ وہاں نہ جائیں اس پر حسین رضی اللہ عنہ کا جواب یہ تھا۔
میں کعبہ کی حرمت پامال نہیں کرنا چاہتا حتی کہ مجھے وہاں شہید کیا جائے۔
اس روایت کے یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ اگر وہ مکہ میں بھی رک جاتے تو ان کو وہاں بھی شہید کر دیا جاتا تو مکہ میں کون شہید کرتاسبائی تو کوفہ یا عراق میں تھے یہ حکومت ہی کے لوگ تھے اور اس کا ثبوت ایک تو یہ الفاظ ہے اور دوسرا ایک اور روایت ہے جو سنابلی صاحب نے اپنی اسی کتاب میں نقل کی ہے مگر وہ بعد میں بتاؤ گا پہلے اسی روایت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کو مکہ میں ہی شہید کر دیا جاتا اگر وہ وہاں رک جاتے اس لیے ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان کو جانے دیا۔
تو حسین رضی اللہ عنہ خود بتا رہے ہیں کہ ان کو کس نے شہید کیا ہے اور اس روایت کی سند بھی صحیح ہے کما قال فی کتب شیخ سنابلی۔
اللہ سب کو ہدایت دے۔
محترم ،جب آنکھوں پر رافضیت کی پٹی بندھی ہو تو اس قسم کی خرافات ہی قلم سے نکلتی ہیں جو آپ کے قلم سے نکل رہی ہیں- بات ابن زیاد کی ہو تو یزید بن معاویہ پر لعن تعن شرو ع کر دی جاتی ہے - اگر بات یزید بن معاویہ رحم الله کی ہو تو بیچ میں ان کے والد بزرگوار حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کی شخصیت پر کیچڑ اچھالنے کی روایت ڈال دی جاتی ہے - اور پھر اپنے بارے میں بڑے زعم سے کہا جاتا ہے کہ ہم "اہل سنّت " ہیں - اور ہم تو صرف آئمہ کرام کے اقوال نقل کررہے ہیں اس میں ہمارا کیا قصور ؟؟- چاہے آئمہ نے ان روایات کے متعلق جن میں ان کی پاکیزہ (اصحاب کرام) کی شخصیت پر بلا جواز تنقید کی گئی ہے اسے بلا دلیل ہی اپنی کتب میں درج کردیا ہو- اور کیا یہ بھی ممکن نہیں کہ کتنے ہی آئمہ نے اپنے ان جھوٹی روایات سے متعلق اپنے اقوال سے رجوع کرلیا ہو ؟؟ - کیا ہم قرآن کو حق تسلیم نہ کریں جو صحابہ کرام رضوان الله اجمین کی شخصیت کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتا ہے کہ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ - لیکن بیڑا غرق ہو اس رافضیت کا کہ نشانہ بھی اس ہستی کو بنایا جا رہا ہے جو "کاتب وحی رسول " تھے- ظاہر ہے جب کاتب وحی کی شخصیت ظالم و فاسق ثابت ہو گئی تو قرآن کو مشکوک ٹہرانا کیا مشکل رہا- اور جب قران مشکوک ہو گیا تو اس سے علی رضی الله عنہ کی "خلافت بل فصل" کا عقیدہ کشید کرنا کون سا مشکل کام رہا-
سلیمان بن صرد رضی الله عنہ کی روایات سے متعلق معلومات اس تھریڈ میں موجود ہے - ان سے متعلق ساری روایت کذب پر مبنی ہے -
http://farooqia.com/ur/lib/1434/05/p36.php
کتبِ تاریخ کی ان تمام روایات کو جو سلیمان بن صرد رضی الله عنہ کے حوالے سے ہیں، کسی بھی طرح منِ وعنَ تسلیم نہیں کیا جاسکتا ہے، لہذا جب اس طرح کی روایات کی حقیقت جاننے کے لیے کتبِ تاریخ اور پھر کتبِ رجال کی مراجعت کی تویہ بات واضح ہوگئی کہ ان میں سے اکثر روایات ابو مخنف لوط بن یحییٰ کی گھڑی ہوئی ہیں، لوط بن یحییٰ ابو مخنف کے بارے میں متفقہ راے یہی ہے کہ یہ ایک بدبودار، شیعہ ،امامی، مورخ ہے، جو بالاتفاق تمام ائمہ حدیث ورجال کے نزدیک ناقابلِ اعتبار اور جھو ٹا شخص ہے-
وما علینہ الابلاغ -
محترم ،
سب سے پہلے تو اپ سے ایک سوال کا جواب مطلوب ہے۔
(1) آپ ہر بار یہ فرماتے ہیں کہ "
چاہے آئمہ نے ان روایات کے متعلق جن میں ان کی پاکیزہ (اصحاب کرام) کی شخصیت پر بلا جواز تنقید کی گئی ہے اسے بلا دلیل ہی اپنی کتب میں درج کردیا ہو"
تو سب سے پہلے تو میں اپ سے کہتا ہوں کہ اپ جو یہ فرما رہے ہیں اس کا جواب عنایت کریں کہ میری پیش کی ہوئی کوئی ایک بھی روایت جس کو جمہور نے ضعیف کہا ہو یا جمہور نے اس کے کسی راوی کو ضعیف کہا ہے میں نے اب تک تاریخ کی کتب سے اپ کو ایک روایت بھی پیش نہیں کی ہے اور اپ کتب حدیث میں موجود روایات اور احادیث کو اپنی خواہش نفس پر ضعیف فرمائے جا رہے ہیں پہلے تو یہ معاملہ صاف کریں اور میری پیش کردہ کتب احادیث سے کسی ایک روایت کو جمہور محدثین کے اصول پرضیعف ثابت کریں وگرنہ اپنے اس بے بنیاد راگ کو آلاپنا بند کر دیں۔
(1) اپ نے اس حوالے سے آئمہ کی بھی بات کی ہے کہ انہوں نے بلا دلیل اس کو اپنی کتب میں درج کیا ہے تو پھر وہی عرض کرتا ہوں کہ کتب تاریخ کے حوالے سے تو یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ انہوں نے بغیر تحقیق کذاب اور حدیث وضع کرنے والوں کی روایات درج کی ہے مگر کتب احادیث میں جیسے بخاری، مسلم، اور دیگر کتب حدیث میں بڑی جانچ پڑتال کے بعد روایات درج کی گئی ہیں اور اس پر بھی ضعیف اور صحیح اور حسن کو الگ بھی کر دیا گیا ہے اس کے باوجود آپ اس قسم کا الزام لگا رہے ہیں تو میں نے جو بھی روایات پیش کی ہیں کتب احادیث سے ہی پیش کی ہیں اور صحیح سند کے ساتھ ہے جن پر آئمہ نے اعتماد کیا ہے اور اس کی بنیاد پر اپنی رائے پیش کی ہے تو اپ اگر آئمہ کی تنقید کو بلا دلیل مان رہے ہیں تو اپ کے پاس بھی اس کو ثابت کرنے کے لئے کوئی دلیل ہونی چاہیے۔
(2) اپ نے یہ فرمایا کہ" یہ بھی ممکن نہیں کہ کتنے ہی آئمہ نے اپنے ان جھوٹی روایات سے متعلق اپنے اقوال سے رجوع کرلیا ہو ؟؟
خود مجھے فرما رہے تھے کہ ابن حجر کی توجہات مان رہے ہیں اور خود اپنی خام خیالی میں یہ مان رہے ہیں کہ ان آئمہ نے ان سے "رجوع کر لیا ہوگا"
ان آئمہ کا رجوع ذرا دلیل سے پیش کریں انہوں نے اپنی کس کتاب میں رجوع کیا ہے کب سے محترم خود کتب احادیث کی روایات کو ضعیف فرمائے جا رہے اور اس کی کوئی دلیل بھی پیش نہیں کی اور سونے پر سہاگہ کہ اب آئمہ سے رجوع بھی کروا لیا۔
(3) قرآن نے جو یہ فرمایا کہ"أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ " یہ عموم کی بات ہے مگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین جو جنگیں ہوئی یہ خاص دلیل رکھتی ہے اگر اپ کی یہ بات مان لی جائے تو پھر کتب احادیث جو جنگ جمل، صفین کا ذکر ہے اس حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشنگویاں موجود ہیں جیسا بخاری میں موجود ہے کہ "عمار رضی اللہ عنہ تجھے ایک باغی گروہ قتل کرے گا" اور حسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ فرمایا کہ" میرا یہ بیٹا سید ہے اور یہ مسلمانوں کے دو بڑے گروہ میں صلح کروائے گا" یہ سب تاریخ کی کتب میں نہیں "اصح بعد کتاب اللہ" بخاری میں موجود ہے اب ان فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو بخاری سے نکال دیں کیونکہ یہ قرآن کے حکم سے ٹکراتی ہیں تو منکرین حدیث کو کیوں برا کہتے ہیں وہ بھی اسی قسم کی باتیں کرتے ہیں کہ یہ قرآن کے خلاف ہے یہ حدیث رد ہو گئی۔ تو اگر احادیث کو مانتے ہو تو یہ باتیں بھی ماننی پڑے گی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان جنگیں ہوئی اور ان کی پیشنگوئی کائنات کے امام نے خود کی ہیں ورنہ پرویزی ہو جاؤ اور سب کا انکار کردو۔
(4) اپ نے یہ فرمایا کہ"
لیکن بیڑا غرق ہو اس رافضیت کا کہ نشانہ بھی اس ہستی کو بنایا جا رہا ہے جو "کاتب وحی رسول " تھے- ظاہر ہے جب کاتب وحی کی شخصیت ظالم و فاسق ثابت ہو گئی تو قرآن کو مشکوک ٹہرانا کیا مشکل رہا-
قرآن ہمیں تواتر سے ملا ہے کتب حدیث میں موجود متواتر روایت کسی ایک راوی کے حافظہ میں تغیر کی وجہ سے یا کسی راوی کے ضعیف ہونے کی وجہ سے مشکوک نہیں ہو جاتی ہےکیونکہ اس کو اتنے کثیر جماعت نے روایت کیا ہوتا ہے کہ ان سب کا جھوٹ پر جمع ہونا محال ہوتا ہے یہ صرف حدیث کا معاملہ ہے تو اللہ کا کلام اپ کی اس بکار کی قیاس آرائی سےمشکوک ہو جائے گا کاتب وحی صرف ایک معاویہ رضی اللہ عنہ نہیں تھے صحابہ کرام کی پوری جماعت تھی اگر قرآن کسی ایک کاتب وحی کی وجہ سے مشکوک ہوتا تو پھر نعوذ باللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ہی ہو جاتا جب عبداللہ بن سرح کاتب وحی مرتد ہو گئے تھے اور پھر دوبارہ فتح مکہ پر معافی دیئے گئے سنن نسائی ، ابو داود وغیرہ میں یہ سارا واقعہ موجود ہے ۔ اور معاویہ رضی اللہ عنہ خود فتح پر ایمان لائے تھے تو کیا اس سے قبل قرآن لکھا ہی نہیں جا رہا تھا اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے کاتب وحی بننے کا واقعہ پڑھیں تو پتا چلتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو سفیان کی درخواست پر ان کو کاتب رکھا تھا وگرنہ ان سے پہلے کاتب وحی بھی بہت تھے اور قرآن بھی لکھا جا رہا تھا۔
(5)بات ابن زیاد کی ہو تو یزید بن معاویہ پر لعن تعن شرو ع کر دی جاتی ہے - اگر بات یزید بن معاویہ رحم الله کی ہو تو بیچ میں ان کے والد بزرگوار حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کی شخصیت پر کیچڑ اچھالنے کی روایت ڈال دی جاتی ہے - اور پھر اپنے بارے میں بڑے زعم سے کہا جاتا ہے کہ ہم "اہل سنّت " ہیں
زعم مجھے نہیں مجھے یقین ہے کہ میں اہل سنت ہوں زعم آپ لوگوں کو ہو گیا ہے کہ اپ اہل سنت ہو ابھی تک میری کسی بھی پوسٹ کا کوئی صحیح جواب نہیں دے سکے نہ آئمہ کے ان اقوال کی کوئی وضاحت کر سکے اور نہ میرے مطالبے پر آئمہ کے کے کوئی اقوال پیش کیے کہ جو یزید اور ابن زیاد اوران حجاج وغیرہ کو نیک صالح مانتے ہوں جو روایات سنابلی صاحب نے اس حوالے سے نقل کی ہے وہ انہی آئمہ کی کتب میں موجود ہیں اور سنابلی صاحب نے وہی سے اس کو نقل کیا ہے مگر آئمہ نے اس کے باوجود ان کو نیک نہیں کہا بلکہ ان کی فاسق و فاجر ہی مانا ہے کیونکہ انہوں نے ان روایات پر اعتماد ہی نہیں کیا جو سنابلی صاحب نے پیش کی ہیں وگرنہ امام ابن تیمیہ، امام ذہبی، حافظ ابن حجر وغیرہ یزید کو نیک نہیں کہتے یہ روایات انہوں نے نہیں پڑھی تھیں جن کی بنیاد پر آج اپ لوگ یزید اور ان جیسوں کو نیک فرماتے ہیں آئمہ نے ان روایات پر اعتبار ہی نہیں کیا ہے انہوں نے کتب احادیث کا دفتر کھنگالا ہے اور اس کے بعد یہ تمام باتیں بیان کی ہیں۔ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ ملک عضوض والی حدیث سے ہی یزید کی حکومت کو ملوکیت کہا ہے۔
دوسری بات میں نے صحیح مسلم سے روایات پیش کی اور امام نووی کا قول پیش کیا کہ بنو امیہ کے دور میں نماز لیٹ ہوتی تھی امام نووی کو کوئی ان سے دشمنی تھی اور مروان کے حوالے سے بخاری سے نقل کیا کہ صرف علی رضی اللہ عنہ پر لعن طعن کرنے کے لئے خطبہ عید پہلے کیا جاتا تھا علی رضی اللہ عنہ صحابی نہیں ہیں کہ ان پر لعن طعن کرنے والوں کو رحمہ اللہ لکھتے ہو اور اس طرح کھلے عام سنت توڑی جاتی تھی مگر یزید کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور یہ قبیح فعل عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے ختم کروایا کیسے کیا بنو امیہ اور بنو مروان ختم ہوگئے تھے عمر بن عبدالعزیز خود بنو مروان سے تھے مگر ان کو عمر ثانی کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے یہ یزید نے کیوں نہ کروا لیا کیوں اس کے دور میں سنت پامال ہوتی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشنگوئی فرمائی تھی کہ امارۃ السفھاء میری سنت پر نہیں ہوگی" عمر بن عبدالعزیز کے دور میں کیوں نماز لیٹ نہیں ہوتی تھی یزید کے دور میں لیٹ ہوتی اور عمر بن عبدالعزیز کے بعد پھر کیوں دوبارہ نماز لیٹ شروع ہو گئی کیونکہ یہ حکمران کے ہاتھ میں ہوتا ہے اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کے حکمران تمہاری نمازیں مار دیں گے تو یہ یزید کا کارنامہ ہے ورنہ اگر یہ عوام کی بات ہوتی تو عمر بن عبدالعزیز کے دور میں بھی یہی ہوتا رہتا کہ عوام نماز لیٹ پڑھنے آتے ہوتے اور اپ کہتے ہو ابن زیاد کی بات ہو تو یزید کو پیش کر دیتا ہوں لو یزید کا ہی پڑھ لو۔
امام بخاری نے حدیث نقل کی ہے کہ"
- باب مَا يُكْرَهُ مِنْ ثَنَاءِ السُّلْطَانِ وَإِذَا خَرَجَ قَالَ غَيْرَ ذَلِكَ
7178 - حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ أُنَاسٌ لِابْنِ عُمَرَ إِنَّا نَدْخُلُ عَلَى سُلْطَانِنَا فَنَقُولُ لَهُمْ خِلاَفَ مَا نَتَكَلَّمُ إِذَا خَرَجْنَا مِنْ عِنْدِهِمْ قَالَ كُنَّا نَعُدُّهَا نِفَاقًا(صحیح بخاری رقم 7178)
ترجمہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس کچھ لوگ آئے اور کہا کہ جب ہم سطان(حکمرانوں) کے پاس جاتے ہیں تو جو وہ کہتے ہیں ہم ان کے موافق بات کرتے ہیں اور جب ہم ان کے پاس سے نکل جاتے ہیں تو ان کے خلاف کہتے ہیں اس پر ابن عمر نے فرمایا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اس کو نفاق سے تعبیر کرتے تھے۔
اور وہ حکمران کون تھے اس کو ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث کی شرح میں نقل کیا ہے اس میں اپ کے چہتے یزید کا نام ہے اور اس کی سند بھی صحیح ہے پڑ لوِ
طريق أبي الشعثاء قال دخل قوم على ابن عمر فوقعوا في يزيد بن معاوية فقال: "أتقولون هذا في وجوههم؟ قالوا بل نمدحهم ونثني عليهم (فتح الباری تحت رقم 7178)
ترجمہ: ابن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس کچھ لوگ آئے اور یزید کے بارے میں بیان کیا آپ نے پوچھا کیا تم اس کے سامنے بھی یہ کہتے ہو انہوں نے کہا بلکہ ہم اس کی تعریف ہیں کرتے ہیں۔
اسی طرح ایک اور روایت نقل کی ہے
أتيت ابن عمر فقلت إنا نجلس إلى أئمتنا هؤلاء فيتكلمون في شيء نعلم أن الحق غيره فنصدقهم، فقال: كنا نعد هذا نفاقا، فلا أدري كيف هو عندكم ۔
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ ہم آئمہ(حکمرانوں یہاں جمع کا صغیہ میں بیان ہوا ہے اس میں اس وقت کے تمام حکمرانوں کا ذکر آ جاتا ہے) کے پاس ہوتے ہیں تو وہ جو کہتے ہیں ہم جانتے ہیں کہ یہ حق نہیں ہے مگر پھر بھی ہم اس کی تصدیق کرتے ہیں ابن عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا پہلے ہم اس کو نفاق کہتے تھے اب تمہارے لیے یہ کیا ہے میں نہیں جانتا۔
یہ ہے ملک عضوض جس کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا خلیفہ کے سامنے حق اور سچ کہہ دیا جاتا تھا مگر اس ملوکیت میں سچ کہنا جرم ہے یہ وہ خوف تھا جس کی وجہ سے بیعت بھی کی گئی جیسا ابن حجر نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے لکھا تھا کہ انہوں نے فتنہ کے خوف سے بیعت کر لی تھی جیسا اوپر بیان کر آیا ہوں تو یہ ہیں اپ کے نیک لوگ جو حق سنا بھی پسند نہیں کرتے تھے خلافت کو رحمت ایسے نہیں کہا گیا ہے۔ ان کی حمایت چھوڑ اور اس خلافت کے لئے کوشش کرو جو برباد ہو گئ۔
آخر میں سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ کے حوالے سے صرف اتنا کہنا ہے کہ محقق تاریخ طبری نے تحریک توابون کے شہداء میں سلیمان بن صرد کا ذکر کیا ہے اور صحیح تاریخ طبری میں ایک روایت صحیح سند سے پیش کی ہے( صحیح تاریخ طبری جلد 4 واقعہ 66 ھجری) تو ان صحابی رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ ملتا ہے کہ انہوں نے حسین رضی اللہ عنہ کے خون کا بدلہ لینے کی تحریک چلائی تھی۔اللہ سب کو ہدایت دے
آمین - بہت شکریہ محمّد طارق عبدللہ بھائی اس عزت افزائی کا-یہی تربیت ہم نے پائی هے ۔ جزاک اللہ خیرا محمد علی جواد بهائی ۔ اللہ آپ کے علم و عمل میں برکت دے ۔