• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

" 300 منافق" ؟؟؟

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
Qari Hanif Dar
وہ سوال جس کا کوئی جواب نہیں !

ھم بچپن سے پڑھتے آ رھے ھیں ، پھر تیس سال سے لوگوں کو خطبوں میں سنا بھی رھے ھیں کہ غزوہ احد میں عبداللہ ابن ابئ اپنے 300 منافق ساتھیوں کے ساتھ نبئ کریم ﷺ کے لشکر سے الگ ھو کر واپس آ گیا یوں نبئ کریم ﷺ کے ساتھ ھزار میں سے 700 مسلمان رہ گئے ،،،،،،،،،،، مگر تعجب کی بات یہ ھے کہ ھمیں سوائے عبداللہ ابن ابئ کے اور کسی منافق کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ، کیوں ؟ کوئی دس بیس نام ھی سہی ،،،،،،،،

سورہ توبہ قرآن کی نازل ھونے والی آخری سورت ھے ، اور سفر تبوک اصل میں منافقین اور مومنین کو الگ کرنے کی آخری کسوٹی تھی ، سورہ توبہ میں ھی آخری تفصیلی فیصلے کیئے جا رھے تھے !

1- مشرکین کے لئے سوائے ایمان یا قتل ھونے کے اور کوئی تیسرا رستہ نہیں ھے !!

2- اھل کتاب اگر ایمان نہیں لاتے تو جزیہ ادا کر کے زندہ رہ سکتے ھیں !!

3- منافقین کو ننگا کرنا ھے تا کہ آئندہ امت ان کی سازشوں سے کسی بڑے حادثے سے دوچار نہ ھو جائے ،،،

سورہ توبہ میں سب سے زیادہ منافقوں کو ھی زیرِ بحث لایا گیا ھے ، اور ان کی شرارتوں اور پروپیگنڈے کو باقاعدہ کوٹ کر کے ان کی ذھنیت کو طشت از بام کیا گیا ھے ،، یہانتک کہا گیا کہ " مَردوا علی النفاق ،لا تعلمھم نحن نعلمھم ،، اے نبی ﷺ یہ لوگ نفاق میں اتنے ماھر ھیں کہ آپ جیسا صاحب بصیرت بھی ان کے نفاق سے واقف نہیں ھو سکتا ھم ان کو جانتے ھیں ،،،،،،

مگر تعجب کی بات یہ ھے کہ مخلص مومنوں کے جہاد پر چلے جانے کے باوجود ان منافقین کے کھلے عام مدینے کی گلیوں میں پھرنے کے قصوں کے باوجود ان میں سے کسی کا نام لکھنے کی زحمت کسی نے گوارہ نہیں کی ،،

بلکہ نبئ کریمﷺ کو اپنے اوپر حملہ آور ھونے والے منافقین کے نام بتا دیئے گئے تو آپ نے وہ نام حذیفہ ابن یمانؓ کو بتا کر منع کر دیا کہ کسی کو نہ بتانا ،،،،

چنانچہ وہ سارے منافقین رضی اللہ تعالی عنھم ھو کر ھماری تاریخ کا حصہ بن گئے ،، کیونکہ ھمارے اکابر نے " الصحابۃُ کلھم عدول " کا امرت دھارا ایجاد کر کے خود صحابہؓ میں سے منافقین کی چھان پھٹک پر پابندی لگا دی ،، عبداللہ ابن ابئ جو وار بھی نبی ﷺ کے گھرانے پر کر رھا تھا ، ان منافقین کے بل بوتے پر کر رھا تھا ، ان کی تعداد اتنی تھی کہ ان میں سے کسی ایک کے خلاف بھی ایکشن پر مدینے میں خون کی ندیاں بہہ جاتیں اور مکی مھاجر اور مدنی منافقین آپس میں ھی لڑ کر مر جاتے ،، اللہ پاک نے نام لے کر منافقین کے خلاف جہاد کا حکم دیا ، یا ایہاالنبی جاھد الکفار والمنافقین واغلظ علیھم و مأواھم جھنم و بئس المصیر ( التحریم ) علامہ علی شیر حیدری صاحب کا خطاب تھا میری مسجد میں ،، انہوں نے یہ آیت پڑھ کر کہا کہ منافقین کے خلاف جہاد تلوار سے نہیں تھا بلکہ ان کو ننگا کرنا جہاد تھا ، خطاب کے بعد میں نے عرض کیا کہ حضرت یہ کیسا ننگا کرنا تھا کہ ان میں سے سوائے عبداللہ ابن ابئ کے کسی اور کا نام تک معلوم نہیں ؟ خود نبئ کریم ﷺ سے منسوب ھے کہ آپ نے صاحب سر النبی حذیفہ ابن یمانؓ کو پردہ ڈالنے کا حکم دیا ،، اب وہ لوگ اسلامی تاریخ کا حصہ ھیں اور سارے اوس و خزرج انصار ھیں اور سب ھی رضی اللہ عنھم ھیں ،، جبکہ حدیث میں ھی ھے کہ آپ ایک ایک کا نام لے کر فرما رھے تھے کہ اے فلاں ابن فلاں اٹھ اور مسجد سے نکل ،تو منافق ھے ، پھر بھی تعجب ھے کہ نمازیوں نے ان میں سے کوئی نام بتانے کی زحمت نہیں کی ، اس حدیث کو کوٹ کرنے والوں نے بھی ان پہ پردہ ڈال دیا ،،جبکہ مسلمانوں کی ھر جگہ کے بالوں کی تفصیل بھی لکھ ماری ،، کس کو کب کوڑے مارے گئے ،کس کو کب او کیوں رجم کیا گیا ،، یہانتک کہ نبئ کی خواھرِ نسبتی تک کا نام کوڑوں کی سزا مین ذکر کر دیا ،، نہیں کیا تو کسی منافق کا نام ھی افشاء نہیں کیا ،، کیا نبئ کریم ﷺ اس بات کا ادراک نہیں رکھتے تھے کہ یہ کالی بھیڑیں اگر رضی اللہ عنھم کے زمرے میں داخل ھو کر معتبر ھو گئیں تو آئندہ اسلام کے چشمہ مصفا کو کس طرح آلودہ کریں گی ؟ یا نبئ کریم ﷺ کو اعتماد تھا کہ امت کبھی انہیں معتبر نہیں سمجھے گی بلکہ " يا أيها الذين آمنوا إن جاءكم فاسق بنبأ فتبينوا أن تصيبوا قوما بجهالة فتصبحوا على ما فعلتم نادمين( الحجرات- 6 ) کے ربانی حکم کے بعد ضرور ان کی چھان پھٹک کر لے گی کیونکہ اس آیت میں یہی حکم دیا گیا ھے کہ اگر فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو چھانٹ پھٹک کر لیا کرو ، اس آیت میں ایک صحابی کو ھی فاسق کہا گیا ھے جس نے اپنے مخالف مسلمان قبیلے پر جھوٹ بول کر نبئ کریم ﷺ کو لشکر کشی پر آمادہ کر لیا تھا ،،

پھر ھمارے اکابر نے وہ حکم کس طرح منسوخ کر دیا کہ صحابہ کی چھان پھٹک نہیں ھو سکتی تا آنکہ ان میں سے منافقین کو الگ کیا جائے ؟ وہ سارے منافقین سمیت عدول ھیں ؟ مکی صحابہؓ میں سے تو کوئی منافق نہیں تھا کیونکہ مکے میں نہ تو مسلمان انتظامی طور پر اس حیثیت میں تھے کہ کوئی ان سے ڈر کر نفاق کرے ، اور نہ مالی طور پر اس پوزیشن میں تھے کہ کوئی مفادات کی خاطر جعلی مسلمان بنے ، وھاں تو جو صبح مسلمان ھوتا تھا وہ دوپہر کو گرم زمین پر لٹا دیا جاتا تھا ،، مدینے میں صحابہؓ اسلام سے پہلے مختلف المذاھب تھے ،ان میں سے کچھ یہودی تھے تو کچھ عیسائی تھے ، یمنی اکثر یہودی تھے ،، منافقینِ مدینہ اصل میں یہود ھی کا ففتھ کالم تھے، اسلامی میڈیا پر یہود کی گرفت دیکھ لیں کہ آج ھم ان منافقین کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ،، اور ھمارے اکابر اپنی جرح و تعدیل تابعین سے شروع کرتے ھیں ،، جبکہ سورہ توبہ کی آیت 100 میں سابقون الاولون مہاجرین اور انصار کا ذکر کرنے کے بعد اور ان کے لئے اپنی رضا کا اظہار کرنے کے بعد اللہ پاک نے اگلی ھی آیت نمبر 101 میں کلیئر کر دیا ھے کہ سارے اھل مدینہ مخلص مومن نہیں ھیں بلکہ ان میں ماھر منافق شامل ھیں ،،

وممن حولكم من الأعراب منافقون ومن أهل المدينة مردوا على النفاق لا تعلمهم نحن نعلمهم سنعذبهم مرتين ثم يردون إلى عذاب عظيم ( توبہ -101 )
https://www.facebook.com/QariHanif/posts/10153450938536155
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
کچھ منافق صحابہ اور تھے جن کا ذکر جنگ تبوک کے ضمن میں کیا جاتا صفی الرحمٰن مبارکپوری نے اپنی کتاب " الرحیق المختوم " میں جنگ تبوک سے واپسی حال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
اسلامی لشکر تبوک سے مظفر و منصور واپس آیا ۔ کوئی ٹکر نہ ہوئی ۔ اللہ جنگ کے معاملے میں مومنین کے لیے کافی ہوا ۔ البتہ راستے میں ایک جگہ ایک گھاٹی کے پاس بارہ منافقین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی کوشش کی ۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس گھاٹی سے گزر رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف حضرت عمار رضی اللہ عنہ تھے جو اونٹنی کی نکیل تھامے ہوئے تھے اور حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ تھے جو اونٹنی ہانک رہے تھے ۔ باقی صحابہ کرام دور وادی کے نشیب سے گزر ہے تھے اس لیے منافقین نے اس موقع کو اپنے ناپاک مقصد کے لیے غنیمت سمجھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف قدم بڑھایا ۔ ادھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ساتھی حسب معمول راستہ طے کررہے تھے کہ پیچھے سے ان منافقین کے قدموں کی چاپیں سنائی دیں ۔ یہ سب چہروں پہ ڈھاٹا باندھے ہوئے تھے اور اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تقریباً چڑھ ہی آئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو ان کی جانب بھیجا ۔ انہوں نے ان کی سواریوں کے چہروں پر اپنی ایک ڈھال سے ضرب لگانی شروع کی ، جس سے اللہ نے انہیں مرعوب کردیا اور وہ تیزی سے بھاگ کر لوگوں میں جا ملے ۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے نام بتائے اور ان کے ارادے سے باخبر کیا اسی لیے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ’’ رازدان ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ اسی واقعہ سے متعلق اللہ کا یہ ارشاد نازل ہوا کہ ’’ وَھَمُّوْا بِمَا لَم یَنَالُوْا (9: 74) انہوں نے اس کام کا قصد کیا جسے وہ نہ پا سکے ‘‘۔

سورۃ توبہ کی آیت 74 میں کچھ لوگوں کا نام لیے بغیر اللہ انہیں منافقین کہہ رہا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے جنگ تبوک سے واپسی میں چاہا کہ رسولِ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کر دیں۔ نعوذباللہ
لیکن اس سے ظاہر نہیں ہو رہا ہے کہ وہ کونسے اصحاب تھے ویسے تو اہل سنت کے کسی عالم نے یہ بیان نہیں کیا کہ یہ 12 منافق کون تھے لیکن ابن حزم اندلسی جو اہلسنت کے پایہ کے عالم گزرے ہیں اپنی مایا ناز کتاب "المحلی" میں راز دار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت حذیفہ بن یمان سے ایک روایت نقل کی ہے جس میں ان بارہ لوگوں میں کچھ کے نام ذکرکئے ہیں جو عقبہ کی گھاٹی میں نعوذباللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کرنے کی کوشش میں تھے
ابن حزم کہتے ہیں کہ
أما حديث حذيفة فساقط: لأنه من طريق الوليد بن جميع - وهو هالك - ولا نراه يعلم من وضع الحديث فإنه قد روى أخباراً فيها أن أبا بكر، وعمر وعثمان، وطلحة، وسعد بن أبي وقاص - رضي الله عنهم - أرادوا قتل النبي صلى الله عليه وآله وسلم وإلقاءه من العقبة في تبوك - وهذا هو الكذب الموضوع الذي يطعن الله تعالى واضعه - فسقط التعلق به - والحمد لله رب العالمين.

البتہ ابن حزم کا نقل کرتے ہوئے ایک اعتراض یہ ہے کہ سلسلہ سند میں وليد بن عبد الله بن جميع ہے اس کی روایت پر اعتراض کیا ہے لہذا کہتے ہیں کہ روایت موضوع اور کذب ہے لیکن علماء اہلسنت نے وليد بن عبد الله بن جميع کو ابن حزم کے دعوے کے بر خلاف ثقہ بتایا ہے اوراس کی توثیق کی ہے
اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ زبیرعلی زئی جو کہ نام نہاد اہل حدیثوں کے محدث العصر ہے وہ عبد الله بن جميع کے بارے لکھتے ہیں کہ
وليد بن عبداللہ بن جميع 'صدوق، حسن الحديث' ہے 2 يہ صحيح مسلم وغيرہ كا راوى اور جمہور محدثين كے نزديك ثقہ و صدوق ہے لہٰذا اس پر جرح مردود ہے۔

حوالہ : محدث میگزین ،شمارہ 289 ،جون 2005 ،جمادی الاول 1426

یہ بات بلکل صحیح ہے کہ ولید بن جمیع صحیح مسلم کا راوی ہے امام مسلم نے اس سے دو احادیث صحیح مسلم میں لی ہے
1۔ صحيح مسلم » كتاب صفات المنافقين وأحكامهم الصفحة أو الرقم: 2779
2۔ صحيح مسلم » كتاب الجهاد والسير » باب الوفاء بالعهد الصفحة أو الرقم: 1787

پس یہ سب قرینہ اس بات پرشاھد ہیں کہ یہ وليد بن جميع قابل اعتماد شخص ہے اور روایت صحیح کہلائےگی اور جن لوگوں کے نام اس روایت میں بیان کئے گئے ہیں ان کو قبول کرنے پر کوئی الزام نہیں لگا سکتا
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
Qari Hanif Dar
وہ سوال جس کا کوئی جواب نہیں !
جواب صحت سوال پر موقوف ہوتا ہے

Qari Hanif Dar
ھم بچپن سے پڑھتے آ رھے ھیں ، پھر تیس سال سے لوگوں کو خطبوں میں سنا بھی رھے ھیں کہ غزوہ احد میں عبداللہ ابن ابئ اپنے 300 منافق ساتھیوں کے ساتھ نبئ کریم ﷺ کے لشکر سے الگ ھو کر واپس آ گیا یوں نبئ کریم ﷺ کے ساتھ ھزار میں سے 700 مسلمان رہ گئے ،،،،،،،،،،، مگر تعجب کی بات یہ ھے کہ ھمیں سوائے عبداللہ ابن ابئ کے اور کسی منافق کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ، کیوں ؟ کوئی دس بیس نام ھی سہی ،،،،،،،،
کل کو ئی منچلا یہ سوال کردے کہ ہم بچپن سے پڑھتے چلے آرہے ہیں پھر تیس سال سے لوگوں کو خطبوں میں سنا بھی رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر قوم میں انبیاء و رسول بھیجے، مگر تعجب ہے کہ بنی اسرائیل اور ایک دو قوموں کو علاوہ دوسروں قوموں میں کسی نبی کے بارے میں کچھ بھی نہیں معلوم، کیوں؟ کوئی چینی، بھارتی، جاپانی، انگریزی، برازیلین، پنجابی، سندھی، پشتون، فارسی، وغیرہ وغیرہ، کچھ دس بیس قوموں کے انبیاء کا نام ہی بتا دے!! ما هو جوابكم فهو جوابنا!!!
Qari Hanif Dar
سورہ توبہ قرآن کی نازل ھونے والی آخری سورت ھے ، اور سفر تبوک اصل میں منافقین اور مومنین کو الگ کرنے کی آخری کسوٹی تھی ، سورہ توبہ میں ھی آخری تفصیلی فیصلے کیئے جا رھے تھے !
1- مشرکین کے لئے سوائے ایمان یا قتل ھونے کے اور کوئی تیسرا رستہ نہیں ھے !!
2- اھل کتاب اگر ایمان نہیں لاتے تو جزیہ ادا کر کے زندہ رہ سکتے ھیں !!
3- منافقین کو ننگا کرنا ھے تا کہ آئندہ امت ان کی سازشوں سے کسی بڑے حادثے سے دوچار نہ ھو جائے ،،،
سورہ توبہ میں سب سے زیادہ منافقوں کو ھی زیرِ بحث لایا گیا ھے ، اور ان کی شرارتوں اور پروپیگنڈے کو باقاعدہ کوٹ کر کے ان کی ذھنیت کو طشت از بام کیا گیا ھے ،، یہانتک کہا گیا کہ " مَردوا علی النفاق ،لا تعلمھم نحن نعلمھم ،، اے نبی ﷺ یہ لوگ نفاق میں اتنے ماھر ھیں کہ آپ جیسا صاحب بصیرت بھی ان کے نفاق سے واقف نہیں ھو سکتا ھم ان کو جانتے ھیں ،،،،،،
مگر تعجب کی بات یہ ھے کہ مخلص مومنوں کے جہاد پر چلے جانے کے باوجود ان منافقین کے کھلے عام مدینے کی گلیوں میں پھرنے کے قصوں کے باوجود ان میں سے کسی کا نام لکھنے کی زحمت کسی نے گوارہ نہیں کی ،،
اب کوئی منچلا یہ اعتراض کر دے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام قوموں کے انبياء جو اللہ کے علم سے کسی طور خارج نہیں ہیں ، ان کے نام بتلانے کی زحمت گوارا نہ کی، تو اس کے متعلق یہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ لا حول ولا قوة إلا باللہ العلي العظيم!

Qari Hanif Dar
بلکہ نبئ کریمﷺ کو اپنے اوپر حملہ آور ھونے والے منافقین کے نام بتا دیئے گئے تو آپ نے وہ نام حذیفہ ابن یمانؓ کو بتا کر منع کر دیا کہ کسی کو نہ بتانا ،،،،
چنانچہ وہ سارے منافقین رضی اللہ تعالی عنھم ھو کر ھماری تاریخ کا حصہ بن گئے ،، کیونکہ ھمارے اکابر نے " الصحابۃُ کلھم عدول " کا امرت دھارا ایجاد کر کے خود صحابہؓ میں سے منافقین کی چھان پھٹک پر پابندی لگا دی ،، عبداللہ ابن ابئ جو وار بھی نبی ﷺ کے گھرانے پر کر رھا تھا ، ان منافقین کے بل بوتے پر کر رھا تھا ، ان کی تعداد اتنی تھی کہ ان میں سے کسی ایک کے خلاف بھی ایکشن پر مدینے میں خون کی ندیاں بہہ جاتیں اور مکی مھاجر اور مدنی منافقین آپس میں ھی لڑ کر مر جاتے ،، اللہ پاک نے نام لے کر منافقین کے خلاف جہاد کا حکم دیا ، یا ایہاالنبی جاھد الکفار والمنافقین واغلظ علیھم و مأواھم جھنم و بئس المصیر ( التحریم ) علامہ علی شیر حیدری صاحب کا خطاب تھا میری مسجد میں ،، انہوں نے یہ آیت پڑھ کر کہا کہ منافقین کے خلاف جہاد تلوار سے نہیں تھا بلکہ ان کو ننگا کرنا جہاد تھا ، خطاب کے بعد میں نے عرض کیا کہ حضرت یہ کیسا ننگا کرنا تھا کہ ان میں سے سوائے عبداللہ ابن ابئ کے کسی اور کا نام تک معلوم نہیں ؟ خود نبئ کریم ﷺ سے منسوب ھے کہ آپ نے صاحب سر النبی حذیفہ ابن یمانؓ کو پردہ ڈالنے کا حکم دیا ،، اب وہ لوگ اسلامی تاریخ کا حصہ ھیں اور سارے اوس و خزرج انصار ھیں اور سب ھی رضی اللہ عنھم ھیں ،، جبکہ حدیث میں ھی ھے کہ آپ ایک ایک کا نام لے کر فرما رھے تھے کہ اے فلاں ابن فلاں اٹھ اور مسجد سے نکل ،تو منافق ھے ، پھر بھی تعجب ھے کہ نمازیوں نے ان میں سے کوئی نام بتانے کی زحمت نہیں کی ، اس حدیث کو کوٹ کرنے والوں نے بھی ان پہ پردہ ڈال دیا ،،جبکہ مسلمانوں کی ھر جگہ کے بالوں کی تفصیل بھی لکھ ماری ،، کس کو کب کوڑے مارے گئے ،کس کو کب او کیوں رجم کیا گیا ،، یہانتک کہ نبئ کی خواھرِ نسبتی تک کا نام کوڑوں کی سزا مین ذکر کر دیا ،، نہیں کیا تو کسی منافق کا نام ھی افشاء نہیں کیا ،، کیا نبئ کریم ﷺ اس بات کا ادراک نہیں رکھتے تھے کہ یہ کالی بھیڑیں اگر رضی اللہ عنھم کے زمرے میں داخل ھو کر معتبر ھو گئیں تو آئندہ اسلام کے چشمہ مصفا کو کس طرح آلودہ کریں گی ؟ یا نبئ کریم ﷺ کو اعتماد تھا کہ امت کبھی انہیں معتبر نہیں سمجھے گی بلکہ " يا أيها الذين آمنوا إن جاءكم فاسق بنبأ فتبينوا أن تصيبوا قوما بجهالة فتصبحوا على ما فعلتم نادمين( الحجرات- 6 ) کے ربانی حکم کے بعد ضرور ان کی چھان پھٹک کر لے گی کیونکہ اس آیت میں یہی حکم دیا گیا ھے کہ اگر فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو چھانٹ پھٹک کر لیا کرو ،
یہ صرف ایک تخیل وہ بھی شیطانی تخیل کے اور کچھ نہیں ہے کہ کوئی منافق اہل السنت والجماعت کے نزدیک رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں شمار ہے! کوئی اس کا مدعی ہے تو وہ ثابت کرے!! بلکل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اعتماد تھا کہ امت کبھی ان منافقین کو معتبر نہیں سمجھے گی، اور ان سے نہ کوئی حدیث روایت کی جائے گی، نہ ان کا نام اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں شمار ہو گا!! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم پر اعتماد کا ایک ثبوت آپ کو پیش کرتا ہوں:
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ كَيْسَانَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ ادْعِي لِي أَبَا بَكْرٍ أَبَاكِ وَأَخَاكِ حَتَّى أَكْتُبَ كِتَابًا فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يَتَمَنَّى مُتَمَنٍّ وَيَقُولُ قَائِلٌ أَنَا أَوْلَى وَيَأْبَى اللَّهُ وَالْمُؤْمِنُونَ إِلَّاأَبَا بَكْرٍ
صحيح مسلم» كتاب فضائل الصحابة» باب من فضائل أبي بكر الصديق رضي الله عنه

ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیماری میں فرمایا کہ تو اپنے باپ ابوبکر کو اور اپنے بھائی کو بلا تاکہ میں ایک کتاب لکھ دوں، میں ڈرتا ہوں کہ کوئی (خلافت کی) آرزو کرنے والا آرزو نہ کرے اور کوئی کہنے والا یہ نہ کہے کہ میں (خلافت کا)زیادہ حقدار ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ انکار کرتا ہے اور مسلمان بھی انکار کرتے ہیں ابوبکر کے سوا کسی اور (کی خلافت) سے۔
دیکھ لیا یہ تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے صحابہ پر اعتماد!! فتدبر!!

Qari Hanif Dar
اس آیت میں ایک صحابی کو ھی فاسق کہا گیا ھے جس نے اپنے مخالف مسلمان قبیلے پر جھوٹ بول کر نبئ کریم ﷺ کو لشکر کشی پر آمادہ کر لیا تھا ،،
نہیں اس آیت میں صحابی کو فاسق نہیں کہا گیا!!
آپ نے علی شیر حیدر کا حوالہ اوپر بیان کیا تھا، تو میں آپ کو دیوبندی تفاسیر سے ہی وہ واضح کر دوں کہ اس آیت میں کسی صحابی کو فاسق قرار نہیں دیا!!
سورۃ الحجرات کے حوالے سے بیان کردہ ایک شبہ کا ازالہ!!

Qari Hanif Dar
پھر ھمارے اکابر نے وہ حکم کس طرح منسوخ کر دیا کہ صحابہ کی چھان پھٹک نہیں ھو سکتی تا آنکہ ان میں سے منافقین کو الگ کیا جائے ؟ وہ سارے منافقین سمیت عدول ھیں ؟
بھائی جان!اب اس کام کی حاجت ہی نہین رہی، یہ کام صحابہ رضی اللہ عنہ کر چکے ہیں، انہوں نے منافقین کو اپنی صفوں سے الگ کر دیا ہے، اسی وجہ سے ان سے کوئی حدیث روایت کی گئی اور نہ ان کا نام صحابہ میں شمار ہوا!! صحابہ رضی اللہ عنہم کو جو حکم قرآن نے دیا ان پر انہوں نے عمل کر دکھایا ہے!!

Qari Hanif Dar
مکی صحابہؓ میں سے تو کوئی منافق نہیں تھا کیونکہ مکے میں نہ تو مسلمان انتظامی طور پر اس حیثیت میں تھے کہ کوئی ان سے ڈر کر نفاق کرے ، اور نہ مالی طور پر اس پوزیشن میں تھے کہ کوئی مفادات کی خاطر جعلی مسلمان بنے ، وھاں تو جو صبح مسلمان ھوتا تھا وہ دوپہر کو گرم زمین پر لٹا دیا جاتا تھا ،، مدینے میں صحابہؓ اسلام سے پہلے مختلف المذاھب تھے ،ان میں سے کچھ یہودی تھے تو کچھ عیسائی تھے ، یمنی اکثر یہودی تھے ،، منافقینِ مدینہ اصل میں یہود ھی کا ففتھ کالم تھے، اسلامی میڈیا پر یہود کی گرفت دیکھ لیں کہ آج ھم ان منافقین کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ،، اور ھمارے اکابر اپنی جرح و تعدیل تابعین سے شروع کرتے ھیں ،، جبکہ سورہ توبہ کی آیت 100 میں سابقون الاولون مہاجرین اور انصار کا ذکر کرنے کے بعد اور ان کے لئے اپنی رضا کا اظہار کرنے کے بعد اللہ پاک نے اگلی ھی آیت نمبر 101 میں کلیئر کر دیا ھے کہ سارے اھل مدینہ مخلص مومن نہیں ھیں بلکہ ان میں ماھر منافق شامل ھیں ،،
وممن حولكم من الأعراب منافقون ومن أهل المدينة مردوا على النفاق لا تعلمهم نحن نعلمهم سنعذبهم مرتين ثم يردون إلى عذاب عظيم ( توبہ -101 )
ایک بار پھر عرض ہے کہ یہ کام صحابہ کر چکے ہیں، اب آپ کو اس پریشانی میں پڑنے کی کوئی حاجت نہیں۔ بلکل اور جن صحابہ کے نام اور روایات درج ہیں ان میں کوئی منافقین نہیں، کیونکہ رویات صرف صحابہ رضی اللہ عنہم سے ہی کی گئی ہیں، اور منافقین سے کوئی روایت نہیں لی گئی!!
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
سورۃ توبہ کی آیت 74 میں کچھ لوگوں کا نام لیے بغیر اللہ انہیں منافقین کہہ رہا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے جنگ تبوک سے واپسی میں چاہا کہ رسولِ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کر دیں۔ نعوذباللہ
لیکن اس سے ظاہر نہیں ہو رہا ہے کہ وہ کونسے اصحاب تھے ویسے تو اہل سنت کے کسی عالم نے یہ بیان نہیں کیا کہ یہ 12 منافق کون تھے لیکن ابن حزم اندلسی جو اہلسنت کے پایہ کے عالم گزرے ہیں اپنی مایا ناز کتاب "المحلی" میں راز دار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت حذیفہ بن یمان سے ایک روایت نقل کی ہے جس میں ان بارہ لوگوں میں کچھ کے نام ذکرکئے ہیں جو عقبہ کی گھاٹی میں نعوذباللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کرنے کی کوشش میں تھے
ابن حزم کہتے ہیں کہ
أما حديث حذيفة فساقط: لأنه من طريق الوليد بن جميع - وهو هالك - ولا نراه يعلم من وضع الحديث فإنه قد روى أخباراً فيها أن أبا بكر، وعمر وعثمان، وطلحة، وسعد بن أبي وقاص - رضي الله عنهم - أرادوا قتل النبي صلى الله عليه وآله وسلم وإلقاءه من العقبة في تبوك - وهذا هو الكذب الموضوع الذي يطعن الله تعالى واضعه - فسقط التعلق به - والحمد لله رب العالمين.

البتہ ابن حزم کا نقل کرتے ہوئے ایک اعتراض یہ ہے کہ سلسلہ سند میں وليد بن عبد الله بن جميع ہے اس کی روایت پر اعتراض کیا ہے لہذا کہتے ہیں کہ روایت موضوع اور کذب ہے لیکن علماء اہلسنت نے وليد بن عبد الله بن جميع کو ابن حزم کے دعوے کے بر خلاف ثقہ بتایا ہے اوراس کی توثیق کی ہے
ابن حزم رحمہ اللہ نے تو سند کے ایک راوی پر جرح کر کے اس حدیث کو مردود و باطل قرار دے دیا، اس سے یہ کب لازم آتا ہے کہ اس راوی کےثقہ ثابت ہونے سے دیگر تمام رواۃ بھی ثقہ ثابت ہو جاتے ہیں، اور سند کی باقی تمام شروط بھی پوری ہو جاتی ہیں، جیسے اتصال سند وغیرہ!!
اس سے صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ ابن حزم نے اس روایت پر جو جرح پیش کی ہے وہ مقبول نہیں!! روایت مقبول ثابت نہیں ہوتی!! فتدبر!!
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

ابن حزم رحمہ اللہ نے تو سند کے ایک راوی پر جرح کر کے اس حدیث کو مردود و باطل قرار دے دیا، اس سے یہ کب لازم آتا ہے کہ اس راوی کےثقہ ثابت ہونے سے دیگر تمام رواۃ بھی ثقہ ثابت ہو جاتے ہیں، اور سند کی باقی تمام شروط بھی پوری ہو جاتی ہیں، جیسے اتصال سند وغیرہ!!
اس سے صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ ابن حزم نے اس روایت پر جو جرح پیش کی ہے وہ مقبول نہیں!! روایت مقبول ثابت نہیں ہوتی!! فتدبر!!
ویسے ابن حزم نے اور کوئی وجہ اس روایت کے باطل ہونے کی بتائی نہیں صڑف اس کے ایک راوی پر ہی جرح کی ہے جس کی وجہ سے اس راویت کو موضوع اور کذاب کہا ہے جبکہ زبیر علی زئی کے بقول اس راوی پر جرح مردود ہے اس لئے یہ راویت صحیح ہوجاتی ہے
ویسے ابن حزم والی اس روایت کو اس لئے پیش کیا گیا کہ صاحب مضمون نے یہ شکایت کی تھی سوائے عبداللہ بن ابی کے کسی اور منافق کا نام کسی نے نہیں بتایا اس روایت میں کم از کم پانچ کے نام تو آئے ہیں اس سے صاحب مضمون کی یہ شکایت دور ہوجائے گی ان شا اللہ
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
چنانچہ وہ سارے منافقین رضی اللہ تعالی عنھم ھو کر ھماری تاریخ کا حصہ بن گئے ،، کیونکہ ھمارے اکابر نے " الصحابۃُ کلھم عدول " کا امرت دھارا ایجاد کر کے خود صحابہؓ میں سے منافقین کی چھان پھٹک پر پابندی لگا دی
صحابۃ کلھم عدول کا فلسفہ یہ بعد کی ایجاد ہے کیونکہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں اسی روایات بیان ہوئی ہیں جن پتہ چلتا ہے کہ خود صحابہ اس فلسفے کے منکر تھے جیسا کہ صحیح بخاری میں بیان ہوا کہ کسی نے معاویہ بن ابی سفیان سے کہا کہ عبداللہ بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،عنقریب بنی قحطان سے ایک حکمراں اٹھے گا۔ یہ حدیث سن کر معاویہ بن ابی سفیان غصہ ہو گئے، پھر خطبہ دینے اٹھے اور اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کے مطابق حمد و ثنا کے بعد فرمایا: لوگو! مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض لوگ ایسی احادیث بیان کرتے ہیں جو نہ تو قرآن مجید میں موجود ہیں اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں، دیکھو! تم میں سب سے جاہل یہی لوگ ہیں، ان سے اور ان کے خیالات سے بچتے رہو جن خیالات نے ان کو گمراہ کر دیا ہے۔
یعنی مطلب یہ ہوا کہ صحابہ کلھم عدول کے فلسفے صاف انکار انکار ہی نہیں بلکہ صحابی رسول کو جاہل اور گمراہ کرنے والا کہہ دیا
ایس طرح صحیح مسلم میں بیان ہوا کہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات میں حضرت ابو ھریرہ نے ایک حدیث حضرت عمر سے بیان کی جس پر حضرت عمر نے حضرت ابو ھریرہ کی پٹائی کردی
یعنی اس بھی یہی معلوم ہوا کہ صحابہ کلھم عدول کا فلسفہ صحابہ نہیں مانتے تھے اور یہ بعد کی ایجاد ہے اس لئے بدعت ہے اور نجدیوں کے نزدیک ہر بدعت گمراہی ہے
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
ویسے ابن حزم نے اور کوئی وجہ اس روایت کے باطل ہونے کی بتائی نہیں صڑف اس کے ایک راوی پر ہی جرح کی ہے جس کی وجہ سے اس راویت کو موضوع اور کذاب کہا ہے جبکہ زبیر علی زئی کے بقول اس راوی پر جرح مردود ہے اس لئے یہ راویت صحیح ہوجاتی ہے
یہی بات تو آپ کو سمجھائی ہے کہ ایسا نہیں ہوتا!!
ابن حزم رحمہ اللہ نے تو سند کے ایک راوی پر جرح کر کے اس حدیث کو مردود و باطل قرار دے دیا، اس سے یہ کب لازم آتا ہے کہ اس راوی کےثقہ ثابت ہونے سے دیگر تمام رواۃ بھی ثقہ ثابت ہو جاتے ہیں، اور سند کی باقی تمام شروط بھی پوری ہو جاتی ہیں، جیسے اتصال سند وغیرہ!!
اس سے صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ ابن حزم نے اس روایت پر جو جرح پیش کی ہے وہ مقبول نہیں!! روایت مقبول ثابت نہیں ہوتی!! فتدبر!!
ویسے ابن حزم والی اس روایت کو اس لئے پیش کیا گیا کہ صاحب مضمون نے یہ شکایت کی تھی سوائے عبداللہ بن ابی کے کسی اور منافق کا نام کسی نے نہیں بتایا اس روایت میں کم از کم پانچ کے نام تو آئے ہیں اس سے صاحب مضمون کی یہ شکایت دور ہوجائے گی ان شا اللہ
جھوٹی روایات سے اہل سنت کے ہاں تو کچھ ثابت نہیں ہوتا!!
شعیہ روافضہ کی نظر میں یہ پانچ صحابی ہی نہیں بلکہ تین صحابہ ،مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ ، ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ اور سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے علاوہ سب کے سب بشمول علی بن ابی طالب ، حسن و حسین رضی اللہ عنہ سب مرتد ہو گئے تھے!!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
صحابۃ کلھم عدول کا فلسفہ یہ بعد کی ایجاد ہے کیونکہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں اسی روایات بیان ہوئی ہیں جن پتہ چلتا ہے کہ خود صحابہ اس فلسفے کے منکر تھے جیسا کہ صحیح بخاری میں بیان ہوا کہ کسی نے معاویہ بن ابی سفیان سے کہا کہ عبداللہ بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،عنقریب بنی قحطان سے ایک حکمراں اٹھے گا۔ یہ حدیث سن کر معاویہ بن ابی سفیان غصہ ہو گئے، پھر خطبہ دینے اٹھے اور اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کے مطابق حمد و ثنا کے بعد فرمایا: لوگو! مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض لوگ ایسی احادیث بیان کرتے ہیں جو نہ تو قرآن مجید میں موجود ہیں اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں، دیکھو! تم میں سب سے جاہل یہی لوگ ہیں، ان سے اور ان کے خیالات سے بچتے رہو جن خیالات نے ان کو گمراہ کر دیا ہے۔
یعنی مطلب یہ ہوا کہ صحابہ کلھم عدول کے فلسفے صاف انکار انکار ہی نہیں بلکہ صحابی رسول کو جاہل اور گمراہ کرنے والا کہہ دیا
ایس طرح صحیح مسلم میں بیان ہوا کہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات میں حضرت ابو ھریرہ نے ایک حدیث حضرت عمر سے بیان کی جس پر حضرت عمر نے حضرت ابو ھریرہ کی پٹائی کردی
یعنی اس بھی یہی معلوم ہوا کہ صحابہ کلھم عدول کا فلسفہ صحابہ نہیں مانتے تھے اور یہ بعد کی ایجاد ہے اس لئے بدعت ہے اور نجدیوں کے نزدیک ہر بدعت گمراہی ہے
بخاری و مسلم کا حوالہ؟
 
Top