السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اتنی مشہور احادیث کے حوالے کا مطالبہ اتنے " بڑے " " اہل حدیث " کے منہ سے اچھا نہیں لگتا
معاف کیجئے گا مجھے تو ایسا محسوس ہوا کہ آپ نے بخاری اور مسلم نہیں پڑھی ہوئی پھر بھی یہ دعویٰ کہ ہم اہل حدیث ہیں چه معني دارد
میں اکثر لوگوں سے کہتا ہوں آپ کم از کم بخاری اور مسلم کا مطالعہ تو اچھی طرح فرما کر اس میں بیان کئے گئے معنی و مطالب کو خوب ذہین نشین فرمالیں تاکہ آپ کو ان چھوٹی چھوٹی باتوں کے لئے مجھ جیسے کم علم سے نہ پوچھنا پڑے یہ مشورہ آپ کے لئے بھی ہے
میاں صاحب! اہل حدیث ہونے کے لئے حافظ الحدیث کی شرط کس نے لگائی ہے!!
معلوم ہوتا ہے آپ محسوس کر گئے ہیں!! آپ کو کیا محسوس ہوتا ہے کیا نہیں! یہ میرا مسئلہ نہیں!! یہ امر قارئین پر چھوڑ دیجئے! کہ تخیلات پر مبنی مؤقف کس کا ہے اور دلائل پر مبنی مؤقف کس کا ہے!!
لیجئے دنوں روایات کے حوالے حاضر ہیں
صحیح بخاری،حدیث نمبر : 3500
صحیح مسلم۔ جلد:۱/پہلا پارہ/ حدیث نمبر:۱۴۶/ حدیث متواتر مرفوع؎
شکریہ!
کیا اس فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مانتے ہوئے امی عائشہ نے اپنے والد اور بھائی کو بلاوا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کتاب لکھوالی تھی یا نہیں اگر لکھوالی تھی تو اس کی دلیل عنایت کی جائے اگر نہیں تو کیا امی عائشہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان نہیں مانا ؟؟؟
مندرجہ ذیل حدیث میں اس اشکال کا ازالہ ہے:
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ سَمِعْتُ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَارَأْسَاهْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاكِ لَوْ كَانَ وَأَنَا حَيٌّ فَأَسْتَغْفِرُ لَكِ وَأَدْعُو لَكِ فَقَالَتْ عَائِشَةُ وَا ثُكْلِيَاهْ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَظُنُّكَ تُحِبُّ مَوْتِي وَلَوْ كَانَ ذَاكَ لَظَلَلْتَ آخِرَ يَوْمِكَ مُعَرِّسًا بِبَعْضِ أَزْوَاجِكَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَلْ أَنَا وَارَأْسَاهْ لَقَدْ هَمَمْتُ أَوْ أَرَدْتُ أَنْ أُرْسِلَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ وَابْنِهِ فَأَعْهَدَ أَنْ يَقُولَ الْقَائِلُونَ أَوْ يَتَمَنَّى الْمُتَمَنُّونَ ثُمَّ قُلْتُ يَأْبَى اللَّهُ وَيَدْفَعُ الْمُؤْمِنُونَ أَوْ يَدْفَعُ اللَّهُ وَيَأْبَى الْمُؤْمِنُونَ
ہم سے یحییٰ بن یحییٰ نے بیان کیا‘ کہا ہم کو سلیمان بن بلال نے خبر دی ‘ انہیں یحییٰ بن سعید نے ‘ کہامیں نے قاسم بن محمد سے سنا کہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے کہا ( اپنے سردرد پر ) ہائے سر پھٹا جاتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ اگر تم مر جاؤ اور میں زندہ رہا تو میں تمہارے لیے مغفرت کروںگا اور تمہارے لیے دعا کروں گا ۔ عائشہ رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا افسوس میرا خیال ہے کہ آپ میری موت چاہتے ہیں اور اگر ایسا ہو گیا تو آپ دن کے آخری وقت ضرور کسی دوسری عورت سے شادی کرلیں گے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو نہیں بلکہ میں اپنا سر دکھنے کا اظہار کرتا ہوں ۔ میرا ارادہ ہوا تھا کہ ابو بکر اور انکے بیٹے کو بلا بھیجوں اور انہیں ( ابو بکر کو ) خلیفہ بنا دوں تا کہ اس پر کسی دعویٰ کرنے والے یا اسکی خواہش رکھنے والے کے لئے کوئی گنجائش نہ رہے لیکن پھر میں نے سوچا کہ اللہ خود ( کسی دوسرے کو خلیفہ)نہیں ہونے دے گا اور مسلمان بھی اسے دفع کریں گے ۔ یا ( آپ نے اس طرح فرمایا کہ ) اللہ دفع کرے گا اور مسلمان کسی اور کو خلیفہ نہ ہونے دیں گے ۔
صحيح البخاري» كِتَابُ الأَحْكَامِ بَابُ الِاسْتِخْلاَفِ
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى أَبُو زَكَرِيَّاءَ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ القَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ: وَا رَأْسَاهْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ذَاكِ لَوْ كَانَ وَأَنَا حَيٌّ فَأَسْتَغْفِرَ لَكِ وَأَدْعُوَ لَكِ» فَقَالَتْ عَائِشَةُ: وَا ثُكْلِيَاهْ، وَاللَّهِ إِنِّي لَأَظُنُّكَ تُحِبُّ مَوْتِي، وَلَوْ كَانَ ذَاكَ، لَظَلِلْتَ آخِرَ يَوْمِكَ مُعَرِّسًا بِبَعْضِ أَزْوَاجِكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَلْ أَنَا وَا رَأْسَاهْ، لَقَدْ هَمَمْتُ - أَوْ أَرَدْتُ - أَنْ أُرْسِلَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ وَابْنِهِ وَأَعْهَدَ: أَنْ يَقُولَ القَائِلُونَ - أَوْ يَتَمَنَّى المُتَمَنُّونَ - ثُمَّ قُلْتُ: يَأْبَى اللَّهُ وَيَدْفَعُ المُؤْمِنُونَ، أَوْ يَدْفَعُ اللَّهُ وَيَأْبَى المُؤْمِنُونَ
ہم سے یحییٰ بن یحییٰ ابو زکریا نے بیان کیا ، کہا ہم کو سلیمان بن بلال نے خبردی ، ان سے یحییٰ بن سعید نے ، کہ میں نے قاسم بن محمد سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ ( سر کے شدید درد کی وجہ سے ) عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہاہائے رے سر ! اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر ایسا میری زندگی میں ہو گیا ( یعنی تمہارا انتقال ہو گیا ) تو میں تمہارے لیے استغفار اور دعا کروں گا ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا افسوس ، اللہ کی قسم ! میرا خیال ہے کہ آپ میرا مرجانا ہی پسند کرتے ہیں اور اگر ایسا ہو گیا تو آپ تو اسی دن رات اپنی کسی بیوی کے یہاں گزاریں گے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلکہ میں خود درد سر میں مبتلاہوں ۔ میرا ارادہ ہو تا تھاکہ ابو بکر رضی اللہ عنہ اور ان کے بیٹے کو بلا بھیجوں اور انہیں ( خلافت کی ) وصیت کردوں ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے بعد کہنے والے کچھ اور کہیں ( کہ خلافت ہمارا حق ہے ) یا آرزو کرنے والے کسی اور بات کی آرزو کریں ( کہ ہم خلیفہ ہو جائیں ) پھر میں نے اپنے جی میں کہا ( اس کی ضرورت ہی کیا ہے ) خود اللہ تعالیٰ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے سو اورکسی کو خلیفہ نہ ہونے دے گا نہ مسلمان اور کسی کی خلافت ہی قبول کریں گے ۔
صحيح البخاري» كِتَابُ المَرْضَى» بَابُ قَوْلِ المَرِيضِ: إِنِّي وَجِعٌ، أَوْ وَا رَأْسَاهْ، أَوِ اشْتَدَّ بِي الوَجَعُ
کیا یہ حدیث امی عائشہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال سے پہلے بیان کی یا بعد میں ؟
عروة بن الزبير اور
القاسم بن محمد التيمي کو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ مذکورہ احادیث وفات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہی بیان کی ہیں!!
جب ایک معمولی باغ کی ملکیت کے لئے رسول اللہ صلی اللہ وعلیہ وآلہ وسلم کی دختر خاتون جنت کی گواہی نہ مانی گئی تو پھر پورے جزیرہ عرب کی ملکیت کے لئے ابو بکر کی بیٹی کی گواہی کیوں مقبول ؟؟؟
اپنے اس دعوی پر دلیل پیش کریں!! اور یاد رکھئے گا دلیل آپ کے مدعا کے مطابق ہونی چاہئے!!
تو پھر پورے جزیرہ عرب کی ملکیت کے لئے ابو بکر کی بیٹی کی گواہی کیوں مقبول ؟؟؟
گواہی بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی مقبول ہے اور زوجہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی!!