• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

" 300 منافق" ؟؟؟

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحمدل ہیں،
اس آیت مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سچے ساتھیوں کی دو صفات بیان کی گئی ہیں
1۔ رسول اللہ کے سچے ساتھی کافروں پر سخت ہیں
2۔ رسول اللہ کے سچے ساتھی آپس میں رحمدل ہیں

کافروں پر سخت والی صفت کو سامنے رکھتے ہوئے حضرت ابوبکر اور عمر کی سیرت پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کفار سے ہونے والے ہر غزوہ میں یہ دونوں حضرات شریک ہوئے لیکن حیرت انگزیز طور پر جنگ کے دوران کسی ایک کافر کی موت ان کے ہاتھوں ہوئی اہل سنت کے محدیثین نے ایسی کوئی روایت نقل نہیں کی نہ کبھی ان دونوں حضرات نے کسی سے کہا کہ فلاں کافر میرے ہاتھوں جہنم وصل ہوا
ان سب باتوں کو مد نظر رکھ کر کوئی بھی (جو کہ صحابہ پرست نہ ہو)یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ یہ حضرات کافروں پر سخت نہیں تھے
اور دوسری صفت بیان کی گئی کہ آپس میں رحم دل ہیں لیکن جب میں تاریخ اسلام کا مطالعہ کرتا ہوں تو مجھے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت عمر کے کوڑے سے مسلمان کانپا کرتے تھے بلکہ بعض مسلمان عورتوں کا دوران نماز حضرت عمر کے ڈر سے پیشاب خطاء ہوجایا کرتا تھا مصنف ابی شیبہ نے تو ایک روایت نقل کی ہے جس میں حضرت عمر ابو بکر کی خلافت بچانے کے لئے بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتون جنت حضرت فاطمہ کے خانہ اقدس کو آگ لگانے کی دھمکی دیتے ہوئے نظر آتے ہیں
لیکن معلوم نہیں کیوں صحابہ پرستوں کو اپنی ہی کتابوں میں درج یہ سب باتیں نظر نہیں آتی اللہ ہم سب کو ھدایت عطاء فرمائے آمین
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اتنی مشہور احادیث کے حوالے کا مطالبہ اتنے " بڑے " " اہل حدیث " کے منہ سے اچھا نہیں لگتا
معاف کیجئے گا مجھے تو ایسا محسوس ہوا کہ آپ نے بخاری اور مسلم نہیں پڑھی ہوئی پھر بھی یہ دعویٰ کہ ہم اہل حدیث ہیں چه معني دارد
میں اکثر لوگوں سے کہتا ہوں آپ کم از کم بخاری اور مسلم کا مطالعہ تو اچھی طرح فرما کر اس میں بیان کئے گئے معنی و مطالب کو خوب ذہین نشین فرمالیں تاکہ آپ کو ان چھوٹی چھوٹی باتوں کے لئے مجھ جیسے کم علم سے نہ پوچھنا پڑے یہ مشورہ آپ کے لئے بھی ہے
میاں صاحب! اہل حدیث ہونے کے لئے حافظ الحدیث کی شرط کس نے لگائی ہے!!
معلوم ہوتا ہے آپ محسوس کر گئے ہیں!! آپ کو کیا محسوس ہوتا ہے کیا نہیں! یہ میرا مسئلہ نہیں!! یہ امر قارئین پر چھوڑ دیجئے! کہ تخیلات پر مبنی مؤقف کس کا ہے اور دلائل پر مبنی مؤقف کس کا ہے!!
لیجئے دنوں روایات کے حوالے حاضر ہیں
صحیح بخاری،حدیث نمبر : 3500
صحیح مسلم۔ جلد:۱/پہلا پارہ/ حدیث نمبر:۱۴۶/ حدیث متواتر مرفوع؎
شکریہ!

کیا اس فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مانتے ہوئے امی عائشہ نے اپنے والد اور بھائی کو بلاوا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کتاب لکھوالی تھی یا نہیں اگر لکھوالی تھی تو اس کی دلیل عنایت کی جائے اگر نہیں تو کیا امی عائشہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان نہیں مانا ؟؟؟
مندرجہ ذیل حدیث میں اس اشکال کا ازالہ ہے:
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ سَمِعْتُ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَارَأْسَاهْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاكِ لَوْ كَانَ وَأَنَا حَيٌّ فَأَسْتَغْفِرُ لَكِ وَأَدْعُو لَكِ فَقَالَتْ عَائِشَةُ وَا ثُكْلِيَاهْ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَظُنُّكَ تُحِبُّ مَوْتِي وَلَوْ كَانَ ذَاكَ لَظَلَلْتَ آخِرَ يَوْمِكَ مُعَرِّسًا بِبَعْضِ أَزْوَاجِكَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَلْ أَنَا وَارَأْسَاهْ لَقَدْ هَمَمْتُ أَوْ أَرَدْتُ أَنْ أُرْسِلَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ وَابْنِهِ فَأَعْهَدَ أَنْ يَقُولَ الْقَائِلُونَ أَوْ يَتَمَنَّى الْمُتَمَنُّونَ ثُمَّ قُلْتُ يَأْبَى اللَّهُ وَيَدْفَعُ الْمُؤْمِنُونَ أَوْ يَدْفَعُ اللَّهُ وَيَأْبَى الْمُؤْمِنُونَ

ہم سے یحییٰ بن یحییٰ نے بیان کیا‘ کہا ہم کو سلیمان بن بلال نے خبر دی ‘ انہیں یحییٰ بن سعید نے ‘ کہامیں نے قاسم بن محمد سے سنا کہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے کہا ( اپنے سردرد پر ) ہائے سر پھٹا جاتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ اگر تم مر جاؤ اور میں زندہ رہا تو میں تمہارے لیے مغفرت کروںگا اور تمہارے لیے دعا کروں گا ۔ عائشہ رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا افسوس میرا خیال ہے کہ آپ میری موت چاہتے ہیں اور اگر ایسا ہو گیا تو آپ دن کے آخری وقت ضرور کسی دوسری عورت سے شادی کرلیں گے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو نہیں بلکہ میں اپنا سر دکھنے کا اظہار کرتا ہوں ۔ میرا ارادہ ہوا تھا کہ ابو بکر اور انکے بیٹے کو بلا بھیجوں اور انہیں ( ابو بکر کو ) خلیفہ بنا دوں تا کہ اس پر کسی دعویٰ کرنے والے یا اسکی خواہش رکھنے والے کے لئے کوئی گنجائش نہ رہے لیکن پھر میں نے سوچا کہ اللہ خود ( کسی دوسرے کو خلیفہ)نہیں ہونے دے گا اور مسلمان بھی اسے دفع کریں گے ۔ یا ( آپ نے اس طرح فرمایا کہ ) اللہ دفع کرے گا اور مسلمان کسی اور کو خلیفہ نہ ہونے دیں گے ۔
صحيح البخاري» كِتَابُ الأَحْكَامِ بَابُ الِاسْتِخْلاَفِ

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى أَبُو زَكَرِيَّاءَ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ القَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ: وَا رَأْسَاهْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ذَاكِ لَوْ كَانَ وَأَنَا حَيٌّ فَأَسْتَغْفِرَ لَكِ وَأَدْعُوَ لَكِ» فَقَالَتْ عَائِشَةُ: وَا ثُكْلِيَاهْ، وَاللَّهِ إِنِّي لَأَظُنُّكَ تُحِبُّ مَوْتِي، وَلَوْ كَانَ ذَاكَ، لَظَلِلْتَ آخِرَ يَوْمِكَ مُعَرِّسًا بِبَعْضِ أَزْوَاجِكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَلْ أَنَا وَا رَأْسَاهْ، لَقَدْ هَمَمْتُ - أَوْ أَرَدْتُ - أَنْ أُرْسِلَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ وَابْنِهِ وَأَعْهَدَ: أَنْ يَقُولَ القَائِلُونَ - أَوْ يَتَمَنَّى المُتَمَنُّونَ - ثُمَّ قُلْتُ: يَأْبَى اللَّهُ وَيَدْفَعُ المُؤْمِنُونَ، أَوْ يَدْفَعُ اللَّهُ وَيَأْبَى المُؤْمِنُونَ
ہم سے یحییٰ بن یحییٰ ابو زکریا نے بیان کیا ، کہا ہم کو سلیمان بن بلال نے خبردی ، ان سے یحییٰ بن سعید نے ، کہ میں نے قاسم بن محمد سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ ( سر کے شدید درد کی وجہ سے ) عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہاہائے رے سر ! اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر ایسا میری زندگی میں ہو گیا ( یعنی تمہارا انتقال ہو گیا ) تو میں تمہارے لیے استغفار اور دعا کروں گا ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا افسوس ، اللہ کی قسم ! میرا خیال ہے کہ آپ میرا مرجانا ہی پسند کرتے ہیں اور اگر ایسا ہو گیا تو آپ تو اسی دن رات اپنی کسی بیوی کے یہاں گزاریں گے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلکہ میں خود درد سر میں مبتلاہوں ۔ میرا ارادہ ہو تا تھاکہ ابو بکر رضی اللہ عنہ اور ان کے بیٹے کو بلا بھیجوں اور انہیں ( خلافت کی ) وصیت کردوں ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے بعد کہنے والے کچھ اور کہیں ( کہ خلافت ہمارا حق ہے ) یا آرزو کرنے والے کسی اور بات کی آرزو کریں ( کہ ہم خلیفہ ہو جائیں ) پھر میں نے اپنے جی میں کہا ( اس کی ضرورت ہی کیا ہے ) خود اللہ تعالیٰ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے سو اورکسی کو خلیفہ نہ ہونے دے گا نہ مسلمان اور کسی کی خلافت ہی قبول کریں گے ۔
صحيح البخاري» كِتَابُ المَرْضَى» بَابُ قَوْلِ المَرِيضِ: إِنِّي وَجِعٌ، أَوْ وَا رَأْسَاهْ، أَوِ اشْتَدَّ بِي الوَجَعُ

کیا یہ حدیث امی عائشہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال سے پہلے بیان کی یا بعد میں ؟
عروة بن الزبير اور القاسم بن محمد التيمي کو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ مذکورہ احادیث وفات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہی بیان کی ہیں!!

جب ایک معمولی باغ کی ملکیت کے لئے رسول اللہ صلی اللہ وعلیہ وآلہ وسلم کی دختر خاتون جنت کی گواہی نہ مانی گئی تو پھر پورے جزیرہ عرب کی ملکیت کے لئے ابو بکر کی بیٹی کی گواہی کیوں مقبول ؟؟؟
اپنے اس دعوی پر دلیل پیش کریں!! اور یاد رکھئے گا دلیل آپ کے مدعا کے مطابق ہونی چاہئے!!

تو پھر پورے جزیرہ عرب کی ملکیت کے لئے ابو بکر کی بیٹی کی گواہی کیوں مقبول ؟؟؟
گواہی بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی مقبول ہے اور زوجہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی!!
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
مندرجہ ذیل حدیث میں اس اشکال کا ازالہ ہے:
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ سَمِعْتُ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَارَأْسَاهْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاكِ لَوْ كَانَ وَأَنَا حَيٌّ فَأَسْتَغْفِرُ لَكِ وَأَدْعُو لَكِ فَقَالَتْ عَائِشَةُ وَا ثُكْلِيَاهْ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَظُنُّكَ تُحِبُّ مَوْتِي وَلَوْ كَانَ ذَاكَ لَظَلَلْتَ آخِرَ يَوْمِكَ مُعَرِّسًا بِبَعْضِ أَزْوَاجِكَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَلْ أَنَا وَارَأْسَاهْ لَقَدْ هَمَمْتُ أَوْ أَرَدْتُ أَنْ أُرْسِلَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ وَابْنِهِ فَأَعْهَدَ أَنْ يَقُولَ الْقَائِلُونَ أَوْ يَتَمَنَّى الْمُتَمَنُّونَ ثُمَّ قُلْتُ يَأْبَى اللَّهُ وَيَدْفَعُ الْمُؤْمِنُونَ أَوْ يَدْفَعُ اللَّهُ وَيَأْبَى الْمُؤْمِنُونَ

ہم سے یحییٰ بن یحییٰ نے بیان کیا‘ کہا ہم کو سلیمان بن بلال نے خبر دی ‘ انہیں یحییٰ بن سعید نے ‘ کہامیں نے قاسم بن محمد سے سنا کہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے کہا ( اپنے سردرد پر ) ہائے سر پھٹا جاتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ اگر تم مر جاؤ اور میں زندہ رہا تو میں تمہارے لیے مغفرت کروںگا اور تمہارے لیے دعا کروں گا ۔ عائشہ رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا افسوس میرا خیال ہے کہ آپ میری موت چاہتے ہیں اور اگر ایسا ہو گیا تو آپ دن کے آخری وقت ضرور کسی دوسری عورت سے شادی کرلیں گے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو نہیں بلکہ میں اپنا سر دکھنے کا اظہار کرتا ہوں ۔ میرا ارادہ ہوا تھا کہ ابو بکر اور انکے بیٹے کو بلا بھیجوں اور انہیں ( ابو بکر کو ) خلیفہ بنا دوں تا کہ اس پر کسی دعویٰ کرنے والے یا اسکی خواہش رکھنے والے کے لئے کوئی گنجائش نہ رہے لیکن پھر میں نے سوچا کہ اللہ خود ( کسی دوسرے کو خلیفہ)نہیں ہونے دے گا اور مسلمان بھی اسے دفع کریں گے ۔ یا ( آپ نے اس طرح فرمایا کہ ) اللہ دفع کرے گا اور مسلمان کسی اور کو خلیفہ نہ ہونے دیں گے ۔
‌صحيح البخاري» كِتَابُ الأَحْكَامِ بَابُ الِاسْتِخْلاَفِ
جی ہاں میں یہ روایت جنید جمشید سے سن چکا ہو بڑے مزے لے لے کر جنید جمشید نے یہ روایت بیان کی تھی اور اس کو سننے والے بھی قہقہے لگا رہے تھے
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى أَبُو زَكَرِيَّاءَ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ القَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ: وَا رَأْسَاهْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ذَاكِ لَوْ كَانَ وَأَنَا حَيٌّ فَأَسْتَغْفِرَ لَكِ وَأَدْعُوَ لَكِ» فَقَالَتْ عَائِشَةُ: وَا ثُكْلِيَاهْ، وَاللَّهِ إِنِّي لَأَظُنُّكَ تُحِبُّ مَوْتِي، وَلَوْ كَانَ ذَاكَ، لَظَلِلْتَ آخِرَ يَوْمِكَ مُعَرِّسًا بِبَعْضِ أَزْوَاجِكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَلْ أَنَا وَا رَأْسَاهْ، لَقَدْ هَمَمْتُ - أَوْ أَرَدْتُ - أَنْ أُرْسِلَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ وَابْنِهِ وَأَعْهَدَ: أَنْ يَقُولَ القَائِلُونَ - أَوْ يَتَمَنَّى المُتَمَنُّونَ - ثُمَّ قُلْتُ: يَأْبَى اللَّهُ وَيَدْفَعُ المُؤْمِنُونَ، أَوْ يَدْفَعُ اللَّهُ وَيَأْبَى المُؤْمِنُونَ
ہم سے یحییٰ بن یحییٰ ابو زکریا نے بیان کیا ، کہا ہم کو سلیمان بن بلال نے خبردی ، ان سے یحییٰ بن سعید نے ، کہ میں نے قاسم بن محمد سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ ( سر کے شدید درد کی وجہ سے ) عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہاہائے رے سر ! اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر ایسا میری زندگی میں ہو گیا ( یعنی تمہارا انتقال ہو گیا ) تو میں تمہارے لیے استغفار اور دعا کروں گا ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا افسوس ، اللہ کی قسم ! میرا خیال ہے کہ آپ میرا مرجانا ہی پسند کرتے ہیں اور اگر ایسا ہو گیا تو آپ تو اسی دن رات اپنی کسی بیوی کے یہاں گزاریں گے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلکہ میں خود درد سر میں مبتلاہوں ۔ میرا ارادہ ہو تا تھاکہ ابو بکر رضی اللہ عنہ اور ان کے بیٹے کو بلا بھیجوں اور انہیں ( خلافت کی ) وصیت کردوں ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے بعد کہنے والے کچھ اور کہیں ( کہ خلافت ہمارا حق ہے ) یا آرزو کرنے والے کسی اور بات کی آرزو کریں ( کہ ہم خلیفہ ہو جائیں ) پھر میں نے اپنے جی میں کہا ( اس کی ضرورت ہی کیا ہے ) خود اللہ تعالیٰ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے سو اورکسی کو خلیفہ نہ ہونے دے گا نہ مسلمان اور کسی کی خلافت ہی قبول کریں گے ۔
صحيح البخاري» كِتَابُ المَرْضَى» بَابُ قَوْلِ المَرِيضِ: إِنِّي وَجِعٌ، أَوْ وَا رَأْسَاهْ، أَوِ اشْتَدَّ بِي الوَجَعُ
() بریکیٹ لگا کر کام نہیں چلے گا روایت میں بات چل رہی ہے امی عائشہ کے تعلق سے تو اب اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امی عائشہ کے والد اور بھائی کو بلا کر وصیت کرنا چاہتے ہیں تو یہ وصیت امی عائشہ کے بارے ہی ہوگی نہ کہ خلافت کے بارے میں ،خلافت کے بارے میں وصیت لکھنے کے لئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےلکھنے کا سامان مانگا تھا لیکن حضرت عمر نے ًمخالفت کی اور کہا ہمارے پاس اللہ کی کتاب ہے یہی ہمارے لئے کافی ہے
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
میاں صاحب! اہل حدیث ہونے کے لئے حافظ الحدیث کی شرط کس نے لگائی ہے!!
معلوم ہوتا ہے آپ محسوس کر گئے ہیں!! آپ کو کیا محسوس ہوتا ہے کیا نہیں! یہ میرا مسئلہ نہیں!! یہ امر قارئین پر چھوڑ دیجئے! کہ تخیلات پر مبنی مؤقف کس کا ہے اور دلائل پر مبنی مؤقف کس کا ہے!!
حافظ حدیث ہونا اور بات ہے احادیث کے معنی و مطالب ذہین میں ہونا اور اور یہاں میں نے معنی و مطالب کے ذہین میں رکھنے کی بات کی ہے نہ کہ حافظ حدیث ہونے کی غور کریں
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
لَقَدْ هَمَمْتُ أَوْ أَرَدْتُ أَنْ أُرْسِلَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ وَابْنِهِ فَأَعْهَدَ أَنْ يَقُولَ الْقَائِلُونَ أَوْ يَتَمَنَّى الْمُتَمَنُّونَ ثُمَّ قُلْتُ يَأْبَى اللَّهُ وَيَدْفَعُ الْمُؤْمِنُونَ أَوْ يَدْفَعُ اللَّهُ وَيَأْبَى الْمُؤْمِنُونَ
ایک اور نکتہ ہے اس روایت میں کہ اگر یہ وصیت امی عائشہ کے بارے نہ ہوتی اور آپ کے مفروضے کے مطابق خلافت کے لئے ہوتی تو ابو بکر اور ان کے بیٹے کو بلانے کا مقصد یہ ہوتا کہ ابوبکر کےبعد ان بیٹے خلیفہ ہونگے نہ کہ حضرت عمر
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جی ہاں میں یہ روایت جنید جمشید سے سن چکا ہو بڑے مزے لے لے کر جنید جمشید نے یہ روایت بیان کی تھی اور اس کو سننے والے بھی قہقہے لگا رہے تھے

() بریکیٹ لگا کر کام نہیں چلے گا روایت میں بات چل رہی ہے امی عائشہ کے تعلق سے تو اب اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امی عائشہ کے والد اور بھائی کو بلا کر وصیت کرنا چاہتے ہیں تو یہ وصیت امی عائشہ کے بارے ہی ہوگی نہ کہ خلافت کے بارے میں ،خلافت کے بارے میں وصیت لکھنے کے لئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےلکھنے کا سامان مانگا تھا لیکن حضرت عمر نے ًمخالفت کی اور کہا ہمارے پاس اللہ کی کتاب ہے یہی ہمارے لئے کافی ہے
آپ اپنے ہی کلام کو تو سمجھا کریں اور یاد رکھا کریں! آپ کا اعتراض تھا کہ :
کیا اس فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مانتے ہوئے امی عائشہ نے اپنے والد اور بھائی کو بلاوا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کتاب لکھوالی تھی یا نہیں اگر لکھوالی تھی تو اس کی دلیل عنایت کی جائے اگر نہیں تو کیا امی عائشہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان نہیں مانا ؟؟؟
اور آپ کے اس اعتراض کو رد کرنے کے لئے یہ حدیث پیش کی گئی! یہاں تک کہ الفاظ کو ملون بھی کر دیا گیا کہ آپ کی نگاہ سے اوجھل نہ رہیں!!

میاں جی آپ کا یہ تخیل کہٍ "ہو گی"، سوائے تخیل کہ کچھ نہیں کیونکہ اسی حدیث کے الفاظ آپ کے تخيل کا رد کرتے ہیں!! ميں ان الفاظ کو بھی ملون کر دیتا ہوں!!
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ سَمِعْتُ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَارَأْسَاهْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاكِ لَوْ كَانَ وَأَنَا حَيٌّ فَأَسْتَغْفِرُ لَكِ وَأَدْعُو لَكِ فَقَالَتْ عَائِشَةُ وَا ثُكْلِيَاهْ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَظُنُّكَ تُحِبُّ مَوْتِي وَلَوْ كَانَ ذَاكَ لَظَلَلْتَ آخِرَ يَوْمِكَ مُعَرِّسًا بِبَعْضِ أَزْوَاجِكَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَلْ أَنَا وَارَأْسَاهْ لَقَدْ هَمَمْتُ أَوْ أَرَدْتُ أَنْ أُرْسِلَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ وَابْنِهِ فَأَعْهَدَ أَنْ يَقُولَ الْقَائِلُونَ أَوْ يَتَمَنَّى الْمُتَمَنُّونَ ثُمَّ قُلْتُ يَأْبَى اللَّهُ وَيَدْفَعُ الْمُؤْمِنُونَ أَوْ يَدْفَعُ اللَّهُ وَيَأْبَى الْمُؤْمِنُونَ
صحيح البخاري» كِتَابُ الأَحْكَامِ بَابُ الِاسْتِخْلاَفِ
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى أَبُو زَكَرِيَّاءَ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ القَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ: وَا رَأْسَاهْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ذَاكِ لَوْ كَانَ وَأَنَا حَيٌّ فَأَسْتَغْفِرَ لَكِ وَأَدْعُوَ لَكِ» فَقَالَتْ عَائِشَةُ: وَا ثُكْلِيَاهْ، وَاللَّهِ إِنِّي لَأَظُنُّكَ تُحِبُّ مَوْتِي، وَلَوْ كَانَ ذَاكَ، لَظَلِلْتَ آخِرَ يَوْمِكَ مُعَرِّسًا بِبَعْضِ أَزْوَاجِكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَلْ أَنَا وَا رَأْسَاهْ، لَقَدْ هَمَمْتُ - أَوْ أَرَدْتُ - أَنْ أُرْسِلَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ وَابْنِهِ وَأَعْهَدَ: أَنْ يَقُولَ القَائِلُونَ - أَوْ يَتَمَنَّى المُتَمَنُّونَ - ثُمَّ قُلْتُ: يَأْبَى اللَّهُ وَيَدْفَعُ المُؤْمِنُونَ، أَوْ يَدْفَعُ اللَّهُ وَيَأْبَى المُؤْمِنُونَ
صحيح البخاري» كِتَابُ المَرْضَى» بَابُ قَوْلِ المَرِيضِ: إِنِّي وَجِعٌ، أَوْ وَا رَأْسَاهْ، أَوِ اشْتَدَّ بِي الوَجَعُ
 

میرب فاطمہ

مشہور رکن
شمولیت
جون 06، 2012
پیغامات
195
ری ایکشن اسکور
218
پوائنٹ
107
قاری حنیف ڈار بارے مجھے کچھ معلومات ملی تھیں کہ ان کے کسی رشتے دار نے بتایا تھا کہ یہ شخص دہریت کی طرف مائل ہے۔ واللہ اعلم ۔۔۔۔۔فیس بک پر میں نے قاری صاحب کو فالو کر رکھا ہے مگر صرف ان کا اسٹیٹس پڑھنے کے لئے۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
حافظ حدیث ہونا اور بات ہے احادیث کے معنی و مطالب ذہین میں ہونا اور اور یہاں میں نے معنی و مطالب کے ذہین میں رکھنے کی بات کی ہے نہ کہ حافظ حدیث ہونے کی غور کریں
آپ سے احادیث کے معنی و مطالب دریافت نہیں کئے گئے تھے آپ سے مذکورہ کتب سے حوالہ دریافت کیا گیا تھا!!
ایک اور نکتہ ہے اس روایت میں کہ اگر یہ وصیت امی عائشہ کے بارے نہ ہوتی اور آپ کے مفروضے کے مطابق خلافت کے لئے ہوتی تو ابو بکر اور ان کے بیٹے کو بلانے کا مقصد یہ ہوتا کہ ابوبکر کےبعد ان بیٹے خلیفہ ہونگے نہ کہ حضرت عمر
اس اشکال کا ازلہ اوپر کیا جا چکا!!
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
آپ سے احادیث کے معنی و مطالب دریافت نہیں کئے گئے تھے آپ سے مذکورہ کتب سے حوالہ دریافت کیا گیا تھا!!
اب آپ کی پائے کی کتب حدیث کے معنی و مطالب آپ کے ذہین میں نہ ہو تو اس میں قصور تو کسی دوسرے کا کہا ں ہے حوالے عرض کرچکا ہوں شاید نظر نہیں آئے
اس اشکال کا ازلہ اوپر کیا جا چکا!!
ویسے یہ تو ایک ضمنی سی بات تھی جبکہ اس دھاگے کا عنوان تو کچھ اور ہے
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اب آپ کی پائے کی کتب حدیث کے معنی و مطالب آپ کے ذہین میں نہ ہو تو اس میں قصور تو کسی دوسرے کا کہا ں ہے حوالے عرض کرچکا ہوں شاید نظر نہیں آئے
اس کا جواب بھی آتا ہے!!
 
Top