• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

" 300 منافق" ؟؟؟

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وربرکاتہ!
پہلے ہی عرض کرچکا ہوں کہ بریکٹ لگا کر کام نہیں چلے گا غور کریں
میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ کم از کم اپنے اعتراض کو ياد رکھا کریں: آپ کا اعتراض تھا:
() بریکیٹ لگا کر کام نہیں چلے گا روایت میں بات چل رہی ہے امی عائشہ کے تعلق سے تو اب اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امی عائشہ کے والد اور بھائی کو بلا کر وصیت کرنا چاہتے ہیں تو یہ وصیت امی عائشہ کے بارے ہی ہوگی نہ کہ خلافت کے بارے میں ،
اس کے جواب میں آپ کے اس "ہو گی" کے تخیل کا بطلان ثابت کیا گیا!!
میاں جی آپ کا یہ تخیل کہٍ "ہو گی"، سوائے تخیل کہ کچھ نہیں کیونکہ اسی حدیث کے الفاظ آپ کے تخيل کا رد کرتے ہیں!! ميں ان الفاظ کو بھی ملون کر دیتا ہوں!!
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ سَمِعْتُ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَارَأْسَاهْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاكِ لَوْ كَانَ وَأَنَا حَيٌّ فَأَسْتَغْفِرُ لَكِ وَأَدْعُو لَكِ فَقَالَتْ عَائِشَةُ وَا ثُكْلِيَاهْ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَظُنُّكَ تُحِبُّ مَوْتِي وَلَوْ كَانَ ذَاكَ لَظَلَلْتَ آخِرَ يَوْمِكَ مُعَرِّسًا بِبَعْضِ أَزْوَاجِكَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَلْ أَنَا وَارَأْسَاهْ لَقَدْ هَمَمْتُ أَوْ أَرَدْتُ أَنْ أُرْسِلَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ وَابْنِهِ فَأَعْهَدَ أَنْ يَقُولَ الْقَائِلُونَ أَوْ يَتَمَنَّى الْمُتَمَنُّونَ ثُمَّ قُلْتُ يَأْبَى اللَّهُ وَيَدْفَعُ الْمُؤْمِنُونَ أَوْ يَدْفَعُ اللَّهُ وَيَأْبَى الْمُؤْمِنُونَ
صحيح البخاري» كِتَابُ الأَحْكَامِ بَابُ الِاسْتِخْلاَفِ
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى أَبُو زَكَرِيَّاءَ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ القَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ: وَا رَأْسَاهْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ذَاكِ لَوْ كَانَ وَأَنَا حَيٌّ فَأَسْتَغْفِرَ لَكِ وَأَدْعُوَ لَكِ» فَقَالَتْ عَائِشَةُ: وَا ثُكْلِيَاهْ، وَاللَّهِ إِنِّي لَأَظُنُّكَ تُحِبُّ مَوْتِي، وَلَوْ كَانَ ذَاكَ، لَظَلِلْتَ آخِرَ يَوْمِكَ مُعَرِّسًا بِبَعْضِ أَزْوَاجِكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَلْ أَنَا وَا رَأْسَاهْ، لَقَدْ هَمَمْتُ - أَوْ أَرَدْتُ - أَنْ أُرْسِلَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ وَابْنِهِ وَأَعْهَدَ: أَنْ يَقُولَ القَائِلُونَ - أَوْ يَتَمَنَّى المُتَمَنُّونَ - ثُمَّ قُلْتُ: يَأْبَى اللَّهُ وَيَدْفَعُ المُؤْمِنُونَ، أَوْ يَدْفَعُ اللَّهُ وَيَأْبَى المُؤْمِنُونَ
صحيح البخاري» كِتَابُ المَرْضَى» بَابُ قَوْلِ المَرِيضِ: إِنِّي وَجِعٌ، أَوْ وَا رَأْسَاهْ، أَوِ اشْتَدَّ بِي الوَجَعُ
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
منافق عبداللہ بن ابی کے گروہ کو امام بخاری کی روایت نے مومن بنا دیا
[ARBوَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا][/ARB]
سورة الحجرات , 9

اور اگر مومنوں میں سے کوئی دو فریق آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو۔

اس آیت کی تفسیر میں امام بخاری نے ایک روایت بیان کی ہے
امام بخاری کہتے ہیں کہ

قيلَ للنبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم : لو أتَيتَ عبدَ اللَّهِ بنَ أُبيٍّ، فانطلق إليهِ النبي صلَّى اللهُ عليه وسلَّم ورَكِب حِمارًا، فانطَلَق المُسلِمونَ يَمشونَ معهُ وهي أرضٌ سَبِخَةٌ، فلما أتاهُ النبي صلَّى اللهُ عليه وسلَّم قال : إليكَ عَنِّي، واللَّهِ لقدْ آذاني نَتْنُ حِمارِك، فقال رجلٌ من الأنصارِ منهُم: واللَّه لَحِمارُ رسول الله صلَّى اللهُ عليه وسلَّم أطْيَبُ ريحًا منكَ، فغَضِبَ لعبدِ اللَّهِ رجلٌ من قَومِهِ، فَشَتَمَهُ، فغَضِبَ لكُلِّ واحِدٍ منهُما أصْحابُهُ، فكان بينَهُما ضَرْبٌ بِالجَريدِ والأيْدي والنِّعالِ، فبلَغَنا أنَّها أُنْزِلَت : {وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ المُؤْمِنِينَاقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا} .
الراوي : أنس بن مالك | المحدث :البخاري | المصدر : صحيح البخاري

الصفحة أو الرقم: 2691 | خلاصة حكم المحدث : [صحيح]
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
صحابۃ کلھم عدول کا فلسفہ یہ بعد کی ایجاد ہے کیونکہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں اسی روایات بیان ہوئی ہیں جن پتہ چلتا ہے کہ خود صحابہ اس فلسفے کے منکر تھے جیسا کہ صحیح بخاری میں بیان ہوا کہ کسی نے معاویہ بن ابی سفیان سے کہا کہ عبداللہ بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،عنقریب بنی قحطان سے ایک حکمراں اٹھے گا۔ یہ حدیث سن کر معاویہ بن ابی سفیان غصہ ہو گئے، پھر خطبہ دینے اٹھے اور اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کے مطابق حمد و ثنا کے بعد فرمایا: لوگو! مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض لوگ ایسی احادیث بیان کرتے ہیں جو نہ تو قرآن مجید میں موجود ہیں اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں، دیکھو! تم میں سب سے جاہل یہی لوگ ہیں، ان سے اور ان کے خیالات سے بچتے رہو جن خیالات نے ان کو گمراہ کر دیا ہے۔
یعنی مطلب یہ ہوا کہ صحابہ کلھم عدول کے فلسفے صاف انکار انکار ہی نہیں بلکہ صحابی رسول کو جاہل اور گمراہ کرنے والا کہہ دیا
صحیح بخاری،حدیث نمبر : 3500
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ : كَانَ مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ يُحَدِّثُ أَنَّهُ بَلَغَ مُعَاوِيَةَ وَهُوَ عِنْدَهُ فِي وَفْدٍ مِنْ قُرَيْشٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ يُحَدِّثُ أَنَّهُ سَيَكُونُ مَلِكٌ مِنْ قَحْطَانَ فَغَضِبَ مُعَاوِيَةُ ، فَقَامَ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ ، قَالَ : أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّ رِجَالًا مِنْكُمْ يَتَحَدَّثُونَ أَحَادِيثَ لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَا تُؤْثَرُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُولَئِكَ جُهَّالُكُمْ فَإِيَّاكُمْ وَالْأَمَانِيَّ الَّتِي تُضِلُّ أَهْلَهَا ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : إِنَّ هَذَا الْأَمْرَ فِي قُرَيْشٍ لَا يُعَادِيهِمْ أَحَدٌ إِلَّا كَبَّهُ اللَّهُ عَلَى وَجْهِهِ مَا أَقَامُوا الدِّينَ " .
حضرت محمد بن جبیر سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ قریش کے ایک وفد میں تھے کہ انہیں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ ایک بات پہنچی کہ عنقریب بنو قحطان سے ایک حکمران اٹھے گا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ یہ سن کر بہت ناراض ہوئے، پھر خطبہ دینے کے لئے اٹھے۔ اللہ تعالیٰ کے شایان شان حمد و ثنا کے بعد فرمایا: لوگو! مجھے اس بات کا علم ہوا ہے کہ تم میں سے کچھ حضرات ایسی باتیں کرتے ہیں جو اللہ کی کتاب میں نہیں ہیں اور نہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے منقول ہیں۔ دیکھو! تم میں سب سے جاہل یہی لوگ ہیں، لہٰذا ان سے اور ان کے خیالات سے بچتے رہو۔ اس قسم کے خیالات نے انہیں گمراہ کردیا ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا ہے: "خلافت قریش میں رہے گی جب تک وہ دین کو قائم رکھیں گے اور ان سے جو بھی دشمنی کرے گا اللہ تعالیٰ است اوندھے منہ گرائے گا۔"
صحيح البخاري» كِتَاب الْمَنَاقِبِ» بَاب مَنَاقِبِ قُرَيْشٍ
ملون الفاظ اس بات کی صراحت کرتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے صحابی رسول عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ الفاظ ادا نہیں کئے بلکہ وہاں لوگوں کے متعلق!
لہٰذا یہ روایت آپ کے دعویٰ پر دلیل نہیں بن سکتی!! یوں تو اس روایت میں اور بھی ایسی باتیں ہیں، لیکن بطلان دلیل و دعوی کو صرف ایک ہی کافی ہے!!


ایس طرح صحیح مسلم میں بیان ہوا کہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات میں حضرت ابو ھریرہ نے ایک حدیث حضرت عمر سے بیان کی جس پر حضرت عمر نے حضرت ابو ھریرہ کی پٹائی کردی
یعنی اس بھی یہی معلوم ہوا کہ صحابہ کلھم عدول کا فلسفہ صحابہ نہیں مانتے تھے اور یہ بعد کی ایجاد ہے اس لئے بدعت ہے اور نجدیوں کے نزدیک ہر بدعت گمراہی ہے
صحیح مسلم۔ جلد:۱/پہلا پارہ/ حدیث نمبر:۱۴۶/ حدیث متواتر مرفوع؎
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ الْحَنَفِيُّ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِي أَبُو كَثِيرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ ، قَالَ : كُنَّا قُعُودًا حَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، مَعَنَا أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ فِي نَفَرٍ ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَيْنِ أَظْهُرِنَا ، فَأَبْطَأَ عَلَيْنَا ، وَخَشِينَا أَنْ يُقْتَطَعَ دُونَنَا ، وَفَزِعْنَا فَقُمْنَا ، فَكُنْتُ أَوَّلَ مَنْ فَزِعَ ، فَخَرَجْتُ أَبْتَغِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، حَتَّى أَتَيْتُ حَائِطًا لِلأَنْصَار لِبَنِي النَّجَّارِ ، فَدُرْتُ بِهِ ، هَلْ أَجِدُ لَهُ بَابًا ؟ فَلَمْ أَجِدْ ، فَإِذَا رَبِيعٌ ، يَدْخُلُ فِي جَوْفِ حَائِطٍ مِنْ بِئْرٍ خَارِجَةَ ، وَالرَّبِيعُ الْجَدْوَلُ ، فَاحْتَفَزْتُ كَمَا يَحْتَفِزُ الثَّعْلَبُ ، فَدَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : أَبُو هُرَيْرَةَ ؟ فَقُلْتُ : نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، قَالَ : مَا شَأْنُكَ ؟ قُلْتُ : كُنْتَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا ، فَقُمْتَ فَأَبْطَأْتَ عَلَيْنَا ، فَخَشِينَا أَنْ تُقْتَطَعَ دُونَنَا ، فَفَزِعْنَا ، فَكُنْتُ أَوَّلَ مِنْ فَزِعَ ، فَأَتَيْتُ هَذَا الْحَائِطَ فَاحْتَفَزْتُ كَمَا يَحْتَفِزُ الثَّعْلَبُ ، وَهَؤُلَاءِ النَّاسُ وَرَائِي ، فَقَالَ : يَا أَبَا هُرَيْرَةَ ، وَأَعْطَانِي نَعْلَيْهِ ، قَالَ : اذْهَبْ بِنَعْلَيَّ هَاتَيْنِ ، فَمَنْ لَقِيتَ مِنْ وَرَاءِ هَذَا الْحَائِطِ ، يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ ، فَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ ، فَكَانَ أَوَّلَ مَنْ لَقِيتُ عُمَرُ ، فَقَالَ : مَا هَاتَانِ النَّعْلَانِ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ ؟ فَقُلْتُ : هَاتَانِ نَعْلَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، بَعَثَنِي بِهِمَا مَنْ لَقِيتُ ، يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ بَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ ، فَضَرَبَ عُمَرُ بِيَدِهِ بَيْنَ ثَدْيَيَّ ، فَخَرَرْتُ لِاسْتِي ، فَقَالَ : ارْجِعْ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ ، فَرَجَعْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَأَجْهَشْتُ بُكَاءً ، وَرَكِبَنِي عُمَرُ ، فَإِذَا هُوَ عَلَى أَثَرِي ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَا لَكَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ ؟ قُلْتُ : لَقِيتُ عُمَرَ فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي بَعَثْتَنِي بِهِ ، فَضَرَبَ بَيْنَ ثَدْيَيَّ ضَرْبَةً خَرَرْتُ لِاسْتِي ، قَالَ : ارْجِعْ ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ : يَا عُمَرُ ، مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا فَعَلْتَ ؟ قَال : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي ، أَبَعَثْتَ أَبَا هُرَيْرَةَ بِنَعْلَيْكَ ، " مَنْ لَقِيَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ بَشَّرَهُ بِالْجَنَّةِ " ، قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : فَلَا تَفْعَلْ ، فَإِنِّي أَخْشَى أَنْ يَتَّكِلَ النَّاسُ عَلَيْهَا فَخَلِّهِمْ يَعْمَلُون ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : فَخَلِّهِمْ .
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے گرد بیٹھے تھے اور ہمارے ساتھ اور آدمیوں میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ اتنے میں رسول اللہ ﷺ اٹھے (اور باہر تشریف لے گئے) پھر آپ نے ہمارے پاس آنے میں دیر لگائی تو ہم کو ڈر ہوا کہ کہیں دشمن آپ کو اکیلا پا کر مار نہ ڈالیں۔ ہم گھبرا گئے اور اٹھ کھڑے ہوئے۔ سب سے پہلے میں گھبرایا تو میں آپ کو ڈھونڈنے کیلئے نکلا اور بنی نجار کے باغ کے پاس پہنچا۔ (بنی نجار انصار کے قبیلوں میں سے ایک قبیلہ تھا) اس کے چاروں طرف دروازہ کو دیکھتا ہوا پھرا کہ دروازہ پاؤں تو اندر جاؤں (کیونکہ گمان ہوا کہ شاید رسول اللہ ﷺ اس کے اندر تشریف لے گئے ہوں) دروازہ ملا ہی نہیں۔ دیکھا کہ باہر کنوئیں میں سے ایک نالی باغ کے اندر جاتی ہے، میں لومڑی کی طرح سمٹ کر اس نالی کے اندر گھسا اور رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچا۔ آپﷺ نے فرمایا ابوہریرہ ؟ میں نے عرض کیا جی یارسول اللہﷺ! آپ ﷺ نے فرمایا کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا کہ یارسو ل اللہ ﷺ! آپ ہم لوگوں میں تشریف رکھتے تھے۔ پھر آپ ﷺ باہر چلے آئے اور واپس آنے میں دیر لگائی تو ہمیں ڈر ہوا کہ کہیں دشمن آپ کو اکیلا پا کر مار نہ ڈالیں ، ہم گھبرا گئے اور سب سے پہلے میں گھبرا کر اٹھا اور اس باغ کے پاس آیا (دروازہ نہ ملا) تو اس طرح سمٹ کر گھس آیا جیسے لومڑی اپنے بدن کو سمیٹ کر گھس جاتی ہے اور سب لوگ میرے پیچھے آئے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے ابو ہریرہ! اور مجھے اپنے جوتے (نشانی کیلئے )دئیے (تاکہ لوگ میری بات کو سچ سمجھیں) اور فرمایا کہ میری یہ دونوں جوتیاں لے جا اور جو کوئی تجھے اس باغ کے پیچھے ملے اور وہ اس بات کی گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور اس بات پر دل سے یقین رکھتا ہو تو اس کو جنت کی خوشخبری دو۔ (سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں جوتیاں لے کر چلا) تو سب سے پہلے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ملا۔ انہوں نے پوچھا کہ اے ابو ہریرہ یہ جوتیاں کیسی ہیں؟ میں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کی جوتیاں ہیں۔ آپ ﷺ نے یہ دے کر مجھے بھیجا ہے کہ میں جس سے ملوں اور وہ لا الٰہ الا اللہ کی گواہی دیتا ہو، دل سے یقین کر کے، تو اس کو جنت کی خوشخبری دوں۔ یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک ہاتھ میری چھاتی کے بیچ میں مارا تو میں سرین کے بل گرا۔ پھر کہا کہ اے ابوہریرہ! لوٹ جا۔ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس لوٹ کر چلا گیا اور رونے والا ہی تھا کہ میرے ساتھ پیچھے سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی آ پہنچے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اے ابوہریرہ! تجھے کیا ہوا؟ میں نے کہا کہ میں عمر رضی اللہ عنہ سے ملا اور جو پیغام آپ ﷺ نے مجھے دیکر بھیجا تھا پہنچایا تو انہوں نے میری چھاتی کے بیچ میں ایسا مارا کہ میں سرین کے بل گر پڑا اور کہا کہ لوٹ جا۔ رسول اللہ ﷺنے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تو نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے عرض کیا کہ یارسو ل اللہﷺ! آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔ ابو ہریرہ کو آپ نے اپنی جوتیاں دیکربھیجا تھا کہ جو شخص ملے اور وہ گواہی دیتا ہو لا الٰہ الا اللہ کی دل سے یقین رکھ کر تو اسے جنت کی خوشخبری دو؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہاں۔ سیدنا عمر ﷺرضی اللہ عنہ نے کہا کہ ایسا نہ کیجئے کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ لوگ اس پر تکیہ کر بیٹھیں گے، ان کو عمل کرنے دیجئے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اچھا ان کو عمل کرنے دو۔
صحيح مسلم»كِتَاب الإِيمَانِ» مَنْ لَقِيَ اللَّهِ بَالإِيمَانِ وَهُوَ غَيْرُ شَاكٍّ فِيهِ دَخَلَ الْجَنَّةَ وَحَرُمَ عَلَى النَّار
ملون الفاظ اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ لوگ اس حدیث کو سن کر عمل میں کوتاہی کریں، لہٰٖذا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو واپس بھیج دیا، اور خود بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور نبی صلی اللہ علیہ کو مشورہ دیا۔ اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی رائے کی توثیق کردی!! اس میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی عدالت کا انکار نہیں۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن خطاب کے مشورہ کو ائندہ کے لئے اپنایا بھی!! صحیح مسلم کے اسی باب میں حدیث ہے:
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ سَلَّامُ بْنُ سُلَيْمٍ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ، قَالَ : كُنْتُ رِدْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حِمَارٍ يُقَالُ لَهُ : عُفَيْرٌ ، قَالَ : فَقَالَ : يَا مُعَاذُ ، تَدْرِي مَا حَقُّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ ، وَمَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ ؟ قَالَ : قُلْتُ : اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ ، قَالَ : " فَإِنَّ حَقَّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ ، أَنْ يَعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ، وَحَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ، أَنْ لَا يُعَذِّبَ مَنْ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا " ، قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، أَفَلَا أُبَشِّرُ النَّاسَ ؟ قَالَ : لَا تُبَشِّرْهُمْ فَيَتَّكِلُوا .
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں ( ایک سفر میں ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ایک گدھے پر سوار تھاجس کا نام عفیر تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے معاذ! کیا آپ جانتے ہیں کہ اللہ کے اپنے بندوں پر کیا حقوق ہیں؟ اور بندوں کے اللہ پر کیا حق ہیں؟ میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ کا بندوں پر حق یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ بنائیں، اور بندوں کا اللہ پر حق یہ ہے کہ جو اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں بناتے انہیں عذاب نہ ديں۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! کیا میں اس بات کی لوگوں کو اطلاع نہ دے دوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگوں کو مت بتاؤ وہ بھروسہ کر کے بیٹھ جائیں گے۔
صحيح مسلم» كِتَاب الإِيمَانِ» مَنْ لَقِيَ اللَّهِ بَالإِيمَانِ وَهُوَ غَيْرُ شَاكٍّ فِيهِ دَخَلَ الْجَنَّةَ وَحَرُمَ عَلَى النَّار
یہ حدیث بخاری میں بھی ان الفاظ کے ساتھ موجود ہے:
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبِي ، قَالَ : سَمِعْتُ أَنَسًا ، قَالَ : ذُكِرَ لِي أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ لِمُعَاذِ : " مَنْ لَقِيَ اللَّهَ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ ، قَالَ : أَلَا أُبَشِّرُ النَّاسَ ، قَالَ : لَا إِنِّي أَخَافُ أَنْ يَتَّكِلُوا " .
ہم سے مسدّد نے بیان کیا، ان سے معتمر نے بیان کیا، انھوں نے اپنے باپ سے سنا، انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے بیان کیا گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز معاذ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ جو شخص اللہ سے اس کیفیت کے ساتھ ملاقات کرے کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو، وہ ( یقینا ) جنت میں داخل ہو گا، معاذ بولے، یا رسول اللہ! کیا میں اس بات کی لوگوں کو بشارت نہ سنا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، مجھے خوف ہے کہ لوگ اس پر بھروسا کر بیٹھیں گے۔
صحيح البخاري» كِتَاب الْعِلْمِ» بَاب مَنْ خَصَّ بِالْعِلْمِ قَوْمًا دُونَ قَوْمٍ كَرَاهِيَةَ أَنْ لَا يَفْهَمُوا

آپ کے پیش کردہ حوالہ میں تو الصحابة كلهم عدول پر کوئی نقص ثابت نہیں ہوتا!!!

آئندہ کے لئے التماس ہے کہ آپ کسی حدیث کا مفہوم بیان کرنے کی بجائے حدیث کے الفاظ بحوالہ نقل کریا کریں!! کیونکہ آپ کا فہم بہت ناقص ثابت ہوا ہے!!
 
Last edited:

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ : كَانَ مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ يُحَدِّثُ أَنَّهُ بَلَغَ مُعَاوِيَةَ وَهُوَ عِنْدَهُ فِي وَفْدٍ مِنْ قُرَيْشٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ يُحَدِّثُ أَنَّهُ سَيَكُونُ مَلِكٌ مِنْ قَحْطَانَ فَغَضِبَ مُعَاوِيَةُ ، فَقَامَ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ ، قَالَ : أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّ رِجَالًا مِنْكُمْ يَتَحَدَّثُونَ أَحَادِيثَ لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَا تُؤْثَرُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُولَئِكَ جُهَّالُكُمْ فَإِيَّاكُمْ وَالْأَمَانِيَّ الَّتِي تُضِلُّ أَهْلَهَا ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : إِنَّ هَذَا الْأَمْرَ فِي قُرَيْشٍ لَا يُعَادِيهِمْ أَحَدٌ إِلَّا كَبَّهُ اللَّهُ عَلَى وَجْهِهِ مَا أَقَامُوا الدِّينَ " .
حضرت محمد بن جبیر سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ قریش کے ایک وفد میں تھے کہ انہیں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ ایک بات پہنچی کہ عنقریب بنو قحطان سے ایک حکمران اٹھے گا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ یہ سن کر بہت ناراض ہوئے، پھر خطبہ دینے کے لئے اٹھے۔ اللہ تعالیٰ کے شایان شان حمد و ثنا کے بعد فرمایا: لوگو! مجھے اس بات کا علم ہوا ہے کہ تم میں سے کچھ حضرات ایسی باتیں کرتے ہیں جو اللہ کی کتاب میں نہیں ہیں اور نہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے منقول ہیں۔ دیکھو! تم میں سب سے جاہل یہی لوگ ہیں، لہٰذا ان سے اور ان کے خیالات سے بچتے رہو۔ اس قسم کے خیالات نے انہیں گمراہ کردیا ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا ہے: "خلافت قریش میں رہے گی جب تک وہ دین کو قائم رکھیں گے اور ان سے جو بھی دشمنی کرے گا اللہ تعالیٰ است اوندھے منہ گرائے گا۔"
صحيح البخاري» كِتَاب الْمَنَاقِبِ» بَاب مَنَاقِبِ قُرَيْشٍ
ملون الفاظ اس بات کی صراحت کرتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے صحابی رسول عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ الفاظ ادا نہیں کئے بلکہ وہاں لوگوں کے متعلق!
لہٰذا یہ روایت آپ کے دعویٰ پر دلیل نہیں بن سکتی!! یوں تو اس روایت میں اور بھی ایسی باتیں ہیں، لیکن بطلان دلیل و دعوی کو صرف ایک ہی کافی ہے!!
ویسے ایک بات تو بتائیں اس خطبہ کا اصل محرک عبداللہ بن عمرو کی بیان کی گئی حدیث نہیں ؟ جیسے سن کر فَغَضِبَ مُعَاوِيَةُ
ویسے تو دیگر روایت میں معاویہ بن ابو سفیان کے دربار سے حق گوئی کی بنا پر عبداللہ بن عمرو "مجنوں "یا پاگل کا خطاب بھی پاچکے ہیں
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ الْحَنَفِيُّ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِي أَبُو كَثِيرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ ، قَالَ : كُنَّا قُعُودًا حَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، مَعَنَا أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ فِي نَفَرٍ ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَيْنِ أَظْهُرِنَا ، فَأَبْطَأَ عَلَيْنَا ، وَخَشِينَا أَنْ يُقْتَطَعَ دُونَنَا ، وَفَزِعْنَا فَقُمْنَا ، فَكُنْتُ أَوَّلَ مَنْ فَزِعَ ، فَخَرَجْتُ أَبْتَغِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، حَتَّى أَتَيْتُ حَائِطًا لِلأَنْصَار لِبَنِي النَّجَّارِ ، فَدُرْتُ بِهِ ، هَلْ أَجِدُ لَهُ بَابًا ؟ فَلَمْ أَجِدْ ، فَإِذَا رَبِيعٌ ، يَدْخُلُ فِي جَوْفِ حَائِطٍ مِنْ بِئْرٍ خَارِجَةَ ، وَالرَّبِيعُ الْجَدْوَلُ ، فَاحْتَفَزْتُ كَمَا يَحْتَفِزُ الثَّعْلَبُ ، فَدَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : أَبُو هُرَيْرَةَ ؟ فَقُلْتُ : نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، قَالَ : مَا شَأْنُكَ ؟ قُلْتُ : كُنْتَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا ، فَقُمْتَ فَأَبْطَأْتَ عَلَيْنَا ، فَخَشِينَا أَنْ تُقْتَطَعَ دُونَنَا ، فَفَزِعْنَا ، فَكُنْتُ أَوَّلَ مِنْ فَزِعَ ، فَأَتَيْتُ هَذَا الْحَائِطَ فَاحْتَفَزْتُ كَمَا يَحْتَفِزُ الثَّعْلَبُ ، وَهَؤُلَاءِ النَّاسُ وَرَائِي ، فَقَالَ : يَا أَبَا هُرَيْرَةَ ، وَأَعْطَانِي نَعْلَيْهِ ، قَالَ : اذْهَبْ بِنَعْلَيَّ هَاتَيْنِ ، فَمَنْ لَقِيتَ مِنْ وَرَاءِ هَذَا الْحَائِطِ ، يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ ، فَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ ، فَكَانَ أَوَّلَ مَنْ لَقِيتُ عُمَرُ ، فَقَالَ : مَا هَاتَانِ النَّعْلَانِ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ ؟ فَقُلْتُ : هَاتَانِ نَعْلَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، بَعَثَنِي بِهِمَا مَنْ لَقِيتُ ، يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ بَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ ، فَضَرَبَ عُمَرُ بِيَدِهِ بَيْنَ ثَدْيَيَّ ، فَخَرَرْتُ لِاسْتِي ، فَقَالَ : ارْجِعْ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ ، فَرَجَعْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَأَجْهَشْتُ بُكَاءً ، وَرَكِبَنِي عُمَرُ ، فَإِذَا هُوَ عَلَى أَثَرِي ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَا لَكَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ ؟ قُلْتُ : لَقِيتُ عُمَرَ فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي بَعَثْتَنِي بِهِ ، فَضَرَبَ بَيْنَ ثَدْيَيَّ ضَرْبَةً خَرَرْتُ لِاسْتِي ، قَالَ : ارْجِعْ ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ : يَا عُمَرُ ، مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا فَعَلْتَ ؟ قَال : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي ، أَبَعَثْتَ أَبَا هُرَيْرَةَ بِنَعْلَيْكَ ، " مَنْ لَقِيَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ بَشَّرَهُ بِالْجَنَّةِ " ، قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : فَلَا تَفْعَلْ ، فَإِنِّي أَخْشَى أَنْ يَتَّكِلَ النَّاسُ عَلَيْهَا فَخَلِّهِمْ يَعْمَلُون ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : فَخَلِّهِمْ .
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے گرد بیٹھے تھے اور ہمارے ساتھ اور آدمیوں میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ اتنے میں رسول اللہ ﷺ اٹھے (اور باہر تشریف لے گئے) پھر آپ نے ہمارے پاس آنے میں دیر لگائی تو ہم کو ڈر ہوا کہ کہیں دشمن آپ کو اکیلا پا کر مار نہ ڈالیں۔ ہم گھبرا گئے اور اٹھ کھڑے ہوئے۔ سب سے پہلے میں گھبرایا تو میں آپ کو ڈھونڈنے کیلئے نکلا اور بنی نجار کے باغ کے پاس پہنچا۔ (بنی نجار انصار کے قبیلوں میں سے ایک قبیلہ تھا) اس کے چاروں طرف دروازہ کو دیکھتا ہوا پھرا کہ دروازہ پاؤں تو اندر جاؤں (کیونکہ گمان ہوا کہ شاید رسول اللہ ﷺ اس کے اندر تشریف لے گئے ہوں) دروازہ ملا ہی نہیں۔ دیکھا کہ باہر کنوئیں میں سے ایک نالی باغ کے اندر جاتی ہے، میں لومڑی کی طرح سمٹ کر اس نالی کے اندر گھسا اور رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچا۔ آپﷺ نے فرمایا ابوہریرہ ؟ میں نے عرض کیا جی یارسول اللہﷺ! آپ ﷺ نے فرمایا کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا کہ یارسو ل اللہ ﷺ! آپ ہم لوگوں میں تشریف رکھتے تھے۔ پھر آپ ﷺ باہر چلے آئے اور واپس آنے میں دیر لگائی تو ہمیں ڈر ہوا کہ کہیں دشمن آپ کو اکیلا پا کر مار نہ ڈالیں ، ہم گھبرا گئے اور سب سے پہلے میں گھبرا کر اٹھا اور اس باغ کے پاس آیا (دروازہ نہ ملا) تو اس طرح سمٹ کر گھس آیا جیسے لومڑی اپنے بدن کو سمیٹ کر گھس جاتی ہے اور سب لوگ میرے پیچھے آئے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے ابو ہریرہ! اور مجھے اپنے جوتے (نشانی کیلئے )دئیے (تاکہ لوگ میری بات کو سچ سمجھیں) اور فرمایا کہ میری یہ دونوں جوتیاں لے جا اور جو کوئی تجھے اس باغ کے پیچھے ملے اور وہ اس بات کی گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور اس بات پر دل سے یقین رکھتا ہو تو اس کو جنت کی خوشخبری دو۔ (سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں جوتیاں لے کر چلا) تو سب سے پہلے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ملا۔ انہوں نے پوچھا کہ اے ابو ہریرہ یہ جوتیاں کیسی ہیں؟ میں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کی جوتیاں ہیں۔ آپ ﷺ نے یہ دے کر مجھے بھیجا ہے کہ میں جس سے ملوں اور وہ لا الٰہ الا اللہ کی گواہی دیتا ہو، دل سے یقین کر کے، تو اس کو جنت کی خوشخبری دوں۔ یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک ہاتھ میری چھاتی کے بیچ میں مارا تو میں سرین کے بل گرا۔ پھر کہا کہ اے ابوہریرہ! لوٹ جا۔ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس لوٹ کر چلا گیا اور رونے والا ہی تھا کہ میرے ساتھ پیچھے سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی آ پہنچے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اے ابوہریرہ! تجھے کیا ہوا؟ میں نے کہا کہ میں عمر رضی اللہ عنہ سے ملا اور جو پیغام آپ ﷺ نے مجھے دیکر بھیجا تھا پہنچایا تو انہوں نے میری چھاتی کے بیچ میں ایسا مارا کہ میں سرین کے بل گر پڑا اور کہا کہ لوٹ جا۔ رسول اللہ ﷺنے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تو نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے عرض کیا کہ یارسو ل اللہﷺ! آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔ ابو ہریرہ کو آپ نے اپنی جوتیاں دیکربھیجا تھا کہ جو شخص ملے اور وہ گواہی دیتا ہو لا الٰہ الا اللہ کی دل سے یقین رکھ کر تو اسے جنت کی خوشخبری دو؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہاں۔ سیدنا عمر ﷺرضی اللہ عنہ نے کہا کہ ایسا نہ کیجئے کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ لوگ اس پر تکیہ کر بیٹھیں گے، ان کو عمل کرنے دیجئے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اچھا ان کو عمل کرنے دو۔
صحيح مسلم»كِتَاب الإِيمَانِ» مَنْ لَقِيَ اللَّهِ بَالإِيمَانِ وَهُوَ غَيْرُ شَاكٍّ فِيهِ دَخَلَ الْجَنَّةَ وَحَرُمَ عَلَى النَّار
ملون الفاظ اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ لوگ اس حدیث کو سن کر عمل میں کوتاہی کریں، لہٰٖذا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو واپس بھیج دیا، اور خود بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور نبی صلی اللہ علیہ کو مشورہ دیا۔ اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی رائے کی توثیق کردی!! اس میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی عدالت کا انکار نہیں۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن خطاب کے مشورہ کو ائندہ کے لئے اپنایا بھی!! صحیح مسلم کے اسی باب میں حدیث ہے:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عمر بن خطاب کے مشورہ کو آئندہ کے لئے اپنایا لیکن کیا حضرت ابو ھریرہ اور حضرت معاذ نے اس مشورے کو اپنایا ؟ نہیں اپنا اس کی وجہ یہ کہ ہم تک یہ احادیث ان دونوں حضرات کے بیان کرنے کی بناء پر پہنچی ہیں تو اس ثابت ہوا کہ ان دونوں حضرات نے اس مشورے پر عمل نہیں کیا
دوسری بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عمر بن خطاب کے مشورہ کو آئندہ کے لئے اپنایااس کی کوئی اور وجہ ہے صحیح بخاری کی حدیث ملاحظہ کرتے ہیں

أنَّ النبيّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ دخل على أعرابيٍّ يعوده، قال : وكان النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ إذا دخل على مريضٍ يعودُه قال له : ( لا بأسَ، طهورٌ إن شاءَ اللهِ ) . قال : قلتُ : طهورٌ ؟ كلا، بل هي حمى تفورُ، أو تثورُ، على شيخٍ كبيرٍ، تزيرهُ القبورَ . فقال النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ : ( فنعم إذًا ) .
الراوي : عبدالله بن عباس | المحدث : البخاري | المصدر : صحيح البخاري

الصفحة أو الرقم: 5656 | خلاصة حكم المحدث : [صحيح]

جس طرح اس اعرابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان لا بأسَ، طهورٌ إن شاءَ اللهِکو نہیں مانتے ہوئے اپنی منطق چلائی کہ طهورٌ ؟ كلا، بل هي حمى تفورُ، أو تثورُ، على شيخٍ كبيرٍ، تزيرهُ القبورَ تو اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس اعرابی کی منطق کو اس کے سر ہی ڈال دیا اور فرمایا فنعم إذًا

ٹھیک اسی طرح جس طرح حضرت عمر نے رسول اللہ کی بشارت قبول کرنے کی بجائے ابو ھریرہ کی پٹائی کی اور اپنی منطق چلائی کہ فَلَا تَفْعَلْ ، فَإِنِّي أَخْشَى أَنْ يَتَّكِلَ النَّاسُ عَلَيْهَا فَخَلِّهِمْ يَعْمَلُون تو اس کے جواب میں ان کی منطق کو ان کے سر پر ڈالتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا فَخَلِّهِمْ .
آئندہ کے لئے التماس ہے کہ آپ کسی حدیث کا مفہوم بیان کرنے کی بجائے حدیث کے الفاظ بحوالہ نقل کریا کریں!! کیونکہ آپ کا فہم بہت ناقص ثابت ہوا ہے!!
امید ہے اب آپ کی یہ شکایت دور ہوگئی ہوگی
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ویسے ایک بات تو بتائیں اس خطبہ کا اصل محرک عبداللہ بن عمرو کی بیان کی گئی حدیث نہیں ؟ جیسے سن کر فَغَضِبَ مُعَاوِيَةُ
ویسے تو دیگر روایت میں معاویہ بن ابو سفیان کے دربار سے حق گوئی کی بنا پر عبداللہ بن عمرو "مجنوں "یا پاگل کا خطاب بھی پاچکے ہیں
سیدنا معاویہ رضی اللہ کو یہ علم نہیں تھا کہ یہ حدیث واقعتاً عبد اللہ بن عمر و بن العاص نے روایت کی ہے،سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو یہ بتلایا گیا تھا کہ لوگ بیان کرتے ہیں؛ اور یہ بیان سیدنا معاویہ رضی اللہ کے اسی روایت میں بیان کردہ حدیث کے بظاہر مخالف تھی، کیونکہ اس بیان سے تخصیص و تقید لازم آتا ہے! اور حدیث میں تخصیص و تقید سوائے وحی کے جائز نہیں!! یہ بات وجہ بنی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ غصہ ہونے کی!!

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عمر بن خطاب کے مشورہ کو آئندہ کے لئے اپنایا لیکن کیا حضرت ابو ھریرہ اور حضرت معاذ نے اس مشورے کو اپنایا ؟ نہیں اپنا اس کی وجہ یہ کہ ہم تک یہ احادیث ان دونوں حضرات کے بیان کرنے کی بناء پر پہنچی ہیں تو اس ثابت ہوا کہ ان دونوں حضرات نے اس مشورے پر عمل نہیں کیا
دوسری بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عمر بن خطاب کے مشورہ کو آئندہ کے لئے اپنایااس کی کوئی اور وجہ ہے صحیح بخاری کی حدیث ملاحظہ کرتے ہیں

أنَّ النبيّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ دخل على أعرابيٍّ يعوده، قال : وكان النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ إذا دخل على مريضٍ يعودُه قال له : ( لا بأسَ، طهورٌ إن شاءَ اللهِ ) . قال : قلتُ : طهورٌ ؟ كلا، بل هي حمى تفورُ، أو تثورُ، على شيخٍ كبيرٍ، تزيرهُ القبورَ . فقال النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ : ( فنعم إذًا ) .
الراوي : عبدالله بن عباس | المحدث : البخاري | المصدر : صحيح البخاري

الصفحة أو الرقم: 5656 | خلاصة حكم المحدث : [صحيح]

جس طرح اس اعرابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان لا بأسَ، طهورٌ إن شاءَ اللهِکو نہیں مانتے ہوئے اپنی منطق چلائی کہ طهورٌ ؟ كلا، بل هي حمى تفورُ، أو تثورُ، على شيخٍ كبيرٍ، تزيرهُ القبورَ تو اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس اعرابی کی منطق کو اس کے سر ہی ڈال دیا اور فرمایا فنعم إذًا

ٹھیک اسی طرح جس طرح حضرت عمر نے رسول اللہ کی بشارت قبول کرنے کی بجائے ابو ھریرہ کی پٹائی کی اور اپنی منطق چلائی کہ فَلَا تَفْعَلْ ، فَإِنِّي أَخْشَى أَنْ يَتَّكِلَ النَّاسُ عَلَيْهَا فَخَلِّهِمْ يَعْمَلُون تو اس کے جواب میں ان کی منطق کو ان کے سر پر ڈالتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا فَخَلِّهِمْ .

امید ہے اب آپ کی یہ شکایت دور ہوگئی ہوگی
آپ سے ایک التماس اور ہے کہ میرے مراسلہ کا جواب دینے سے قبل ذرا غور سے پڑھ لیا کریں:
کیونکہ آپ کے اس استدلال کےبطلان کی دلیل پچھلے مراسلہ میں ہی ہے؛ اسی میں معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی روایت بھی بیان کی گئی ہے! اس سے آپ کو پیش کیا گیا مدعا باطل ثابت ہوتا ہے!
کیونکہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! کیا میں اس بات کی لوگوں کو اطلاع نہ دے دوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگوں کو مت بتاؤ وہ بھروسہ کر کے بیٹھ جائیں گے۔
معاذ بولے، یا رسول اللہ! کیا میں اس بات کی لوگوں کو بشارت نہ سنا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، مجھے خوف ہے کہ لوگ اس پر بھروسا کر بیٹھیں گے۔
دیگر یہ کہ اسی حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث بیان نہ کرنے کی ایک علت بیان کی ہے :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، مجھے خوف ہے کہ لوگ اس پر بھروسا کر بیٹھیں گے
لہٰذا اس تنبیہ کے ساتھ حدیث روایت کرنے میں حرج نہیں!! فتدبر!!
 
Last edited:

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
معاف کیجئے گا میں یہ بھول گیا تھا کہ ہم یہاں صحابہ کلھم عدول پر بات کررہے ہیں لہذا اب یاد آنے پر اس کے پر بات کرلتیے ہیں
صحیح مسلم کی حدیث میں بیان ہوا کہ حضرت ابوھریرہ سے حدیث سن کر فَضَرَبَ عُمَرُ بِيَدِهِ بَيْنَ ثَدْيَيَّ ، فَخَرَرْتُ لِاسْتِي پھر کہا کہ اے ابوہریرہ! لوٹ جا۔ اور جب ابوھریرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچے حضرت عمر بھی وہیں آگئے اور حضرت عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھنے لگے کہ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي ، أَبَعَثْتَ أَبَا هُرَيْرَةَ بِنَعْلَيْكَ ، " مَنْ لَقِيَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ بَشَّرَهُ بِالْجَنَّةِ "یارسو ل اللہﷺ! آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔ ابو ہریرہ کو آپ نے اپنی جوتیاں دیکربھیجا تھا کہ جو شخص ملے اور وہ گواہی دیتا ہو لا الٰہ الا اللہ کی دل سے یقین رکھ کر تو اسے جنت کی خوشخبری دو؟رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہاں
اب حضرت عمر کا اس حدیث کی تصدیق کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت عمر "صحابہ کلھم عدول "کے فلسفے کے منکر تھے اگر نہ ہوتے اورابوھریرہ کو عدول مانتے ہوتے تو بجائے اس حدیث کے تصدیق کے وہ آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہی عرض کرتے کہ فَلَا تَفْعَلْ ، فَإِنِّي أَخْشَى أَنْ يَتَّكِلَ النَّاسُ عَلَيْهَا فَخَلِّهِمْ يَعْمَلُونمگر ایسا ہوا نہیں بلکہ پہلے انھوں نے ابوھریرہ کی بیان کی گئی حدیث کی تصدیق کی پھر یہ کہا " ایسا نہ کیجئے کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ لوگ اس پر تکیہ کر بیٹھیں گے، ان کو عمل کرنے دیجئے۔"
صحیح بخاری کی حدیث
كَانَ مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ يُحَدِّثُ أَنَّهُ بَلَغَ مُعَاوِيَةَ وَهُوَ عِنْدَهُ فِي وَفْدٍ مِنْ قُرَيْشٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ يُحَدِّثُ أَنَّهُ سَيَكُونُ مَلِكٌ مِنْ قَحْطَانَ فَغَضِبَ مُعَاوِيَةُ محمد بن جبیر سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ معاویہ قریش کے ایک وفد میں تھے کہ انہیں بتایا گیا کہ عبد اللہ بن عمرو بن عاص حدیث بیان کرتے ہیں کہ عنقریب بنو قحطان سے ایک حکمران اٹھے گا۔
اس پر فَغَضِبَ مُعَاوِيَةُ
اب حدیث سن کر غصہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ صحابہ کلھم عدول کے فلسفے کے معاویہ بھی قائل نہ تھے جبکہ یہی حدیث ابوھریرہ سے مروی بھی ہے اور ایسے بخاری سمت کئی محدثین نے اپنی کتب میں بیان کیا ہے مثلا
امام بخاری کہتے ہیں کہ

عنِ النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم قال : ( لا تقومُ الساعةُ، حتى يَخرُجَ رجلٌ من قَحطانَ، يَسوقُ الناسَ بعَصاه ) .
الراوي : أبو هريرة | المحدث : البخاري | المصدر : صحيح البخاري

الصفحة أو الرقم: 3517 | خلاصة حكم المحدث : [صحيح]
لا تقومُ الساعةُ حتى يخرجَ رجلٌ من قحطانَ يسوقُ الناسَ بعصاهُ
الراوي : أبو هريرة | المحدث : مسلم | المصدر : صحيح مسلم

الصفحة أو الرقم: 2910 | خلاصة حكم المحدث : صحيح

یعنی یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ حضرت عبداللہ بن عمرو نے حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بیان کی لیکن اس پر معاویہ کا غضبناک ہونا اس بات کی دلیل ہے وہ صحابی رسول کو عدول نہیں مانتے تھے یعنی صحابہ کلھم عدول کے فلسفے کا انکار
ایک دلچسپ بات معاویہ کے غضبناک ہونے والی روایت میں اور بھی ہے کہ معاویہ نے عبداللہ بن عمرو کی بیان کی گئی حدیث کے جواب جو بات کہی کہ خلافت قریش میں رہے گی جب تک وہ دین کو قائم رکھیں گے اس بات کا پتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ( سنی کتب کے مطابق ) دن رات رہنے والے حضرت ابو بکر بھی نہیں کیونکہ سقیفہ بنی ساعدہ میں خلافت کا حق قریش کے لئے ثابت کرنے کے لئے یہ بات کہتے تو لوگ فورا مان جاتے لیکن وہان تو انھوں نے خلافت پر قریش کے حق کے لئے دلیل ہی دوسری دی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث نہیں تھی حضرت ابو بکر نےسقیفہ بنی ساعدہ میں انصار سے اپنے خطاب میں یہ دلیل دی تھی جو انصار نے نہیں مانی
اردو ترجمہ داؤد راز
حضرت ابو بکر نے کہا
"انصاری بھائیو تم نے جو اپنی فضیلت اور بزرگی بیان کی ہے وہ سب درست ہے اور تم بیشک اس کے لیے سزا وار ہو مگر خلافت قریش کے سوا اور کسی خاندان والوں کے لیے نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ قریش ازروئے نسب اور ازروئے خاندان تمام عرب قوموں میں بڑھ چڑھ کر ہیں"
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 6830
یعنی کہا جارہا ہے کیونکہ قریش نسب اور خاندان میں سب سے اعلیٰ ہیں اس لئے خلافت پر قریش کا حق ہے اگر خلافت کا حق خاندان اور نسب کی برتری کی بنیاد پر ہونا ہے تو یہ لوگ یہ کیوں بھول بیٹھے کہ خاندان بنو ہاشم تمام قریش میں سب سے بڑھ چڑھ کر ہے
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
معاف کیجئے گا میں یہ بھول گیا تھا کہ ہم یہاں صحابہ کلھم عدول پر بات کررہے ہیں لہذا اب یاد آنے پر اس کے پر بات کرلتیے ہیں
ضرور ! میں تو اسی نکتہ پر بات کر رہا ہوں!!
صحیح مسلم کی حدیث میں بیان ہوا کہ حضرت ابوھریرہ سے حدیث سن کر فَضَرَبَ عُمَرُ بِيَدِهِ بَيْنَ ثَدْيَيَّ ، فَخَرَرْتُ لِاسْتِي پھر کہا کہ اے ابوہریرہ! لوٹ جا۔ اور جب ابوھریرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچے حضرت عمر بھی وہیں آگئے اور حضرت عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھنے لگے کہ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي ، أَبَعَثْتَ أَبَا هُرَيْرَةَ بِنَعْلَيْكَ ، " مَنْ لَقِيَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ بَشَّرَهُ بِالْجَنَّةِ "یارسو ل اللہﷺ! آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔ ابو ہریرہ کو آپ نے اپنی جوتیاں دیکربھیجا تھا کہ جو شخص ملے اور وہ گواہی دیتا ہو لا الٰہ الا اللہ کی دل سے یقین رکھ کر تو اسے جنت کی خوشخبری دو؟رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہاں
اب حضرت عمر کا اس حدیث کی تصدیق کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت عمر "صحابہ کلھم عدول "کے فلسفے کے منکر تھے اگر نہ ہوتے اورابوھریرہ کو عدول مانتے ہوتے تو بجائے اس حدیث کے تصدیق کے وہ آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہی عرض کرتے کہ فَلَا تَفْعَلْ ، فَإِنِّي أَخْشَى أَنْ يَتَّكِلَ النَّاسُ عَلَيْهَا فَخَلِّهِمْ يَعْمَلُونمگر ایسا ہوا نہیں بلکہ پہلے انھوں نے ابوھریرہ کی بیان کی گئی حدیث کی تصدیق کی پھر یہ کہا " ایسا نہ کیجئے کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ لوگ اس پر تکیہ کر بیٹھیں گے، ان کو عمل کرنے دیجئے۔"
جناب من! سوال کرنا ہمیشہ لا علمی ، بے اعتباری اور بے یقینی کو ثابت نہیں کرتی!!
اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام سے سوال کرتا ہے، اسے کیا کہو گے!!
وَمَا تِلْكَ بِيَمِينِكَ يَا مُوسَىٰ ﴿سورة طه١٧﴾ قَالَ هِيَ عَصَايَ أَتَوَكَّأُ عَلَيْهَا وَأَهُشُّ بِهَا عَلَىٰ غَنَمِي وَلِيَ فِيهَا مَآرِ‌بُ أُخْرَ‌ىٰ ﴿سورة طه١٨﴾
اے موسیٰ! تیرے اس دائیں ہاتھ میں کیا ہے؟ (سورۃ طہ 17) جواب دیا کہ یہ میری لاٹھی ہے، جس پر میں ٹیک لگاتا ہوں اور جس سے میں اپنی بکریوں کے لئے پتے جھاڑ لیا کرتا ہوں اور بھی اس میں مجھے بہت سے فائدے ہیں (سورۃ طہ 18)
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا نبی صلی اللہ علیہ کے سوال دیتے ہوئے تمہید باندھنا تھا اور پھر انہوں نے اپنا مشورہ بھی بیان کیا!!
صحیح بخاری کی حدیث
كَانَ مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ يُحَدِّثُ أَنَّهُ بَلَغَ مُعَاوِيَةَ وَهُوَ عِنْدَهُ فِي وَفْدٍ مِنْ قُرَيْشٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ يُحَدِّثُ أَنَّهُ سَيَكُونُ مَلِكٌ مِنْ قَحْطَانَ فَغَضِبَ مُعَاوِيَةُ محمد بن جبیر سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ معاویہ قریش کے ایک وفد میں تھے کہ انہیں بتایا گیا کہ عبد اللہ بن عمرو بن عاص حدیث بیان کرتے ہیں کہ عنقریب بنو قحطان سے ایک حکمران اٹھے گا۔
اس پر فَغَضِبَ مُعَاوِيَةُ
اب حدیث سن کر غصہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ صحابہ کلھم عدول کے فلسفے کے معاویہ بھی قائل نہ تھے جبکہ یہی حدیث ابوھریرہ سے مروی بھی ہے اور ایسے بخاری سمت کئی محدثین نے اپنی کتب میں بیان کیا ہے مثلا
امام بخاری کہتے ہیں کہ

عنِ النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم قال : ( لا تقومُ الساعةُ، حتى يَخرُجَ رجلٌ من قَحطانَ، يَسوقُ الناسَ بعَصاه ) .
الراوي : أبو هريرة | المحدث : البخاري | المصدر : صحيح البخاري
الصفحة أو الرقم: 3517 | خلاصة حكم المحدث : [صحيح]
لا تقومُ الساعةُ حتى يخرجَ رجلٌ من قحطانَ يسوقُ الناسَ بعصاهُ
الراوي : أبو هريرة | المحدث : مسلم | المصدر : صحيح مسلم
الصفحة أو الرقم: 2910 | خلاصة حكم المحدث : صحيح

یعنی یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ حضرت عبداللہ بن عمرو نے حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بیان کی لیکن اس پر معاویہ کا غضبناک ہونا اس بات کی دلیل ہے وہ صحابی رسول کو عدول نہیں مانتے تھے یعنی صحابہ کلھم عدول کے فلسفے کا انکار
یہ حدیث بلکل صحيح ہے!! لیکن سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہا نے یہ حدیث عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے نہیں سنی تھی!! یہی بات آپ کو بتلائی گئی تھی، ایک بار پھر پیش کر دیتا ہوں:
سیدنا معاویہ رضی اللہ کو یہ علم نہیں تھا کہ یہ حدیث واقعتاً عبد اللہ بن عمر و بن العاص نے روایت کی ہے،سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو یہ بتلایا گیا تھا کہ لوگ بیان کرتے ہیں؛ اور یہ بیان سیدنا معاویہ رضی اللہ کے اسی روایت میں بیان کردہ حدیث کے بظاہر مخالف تھی، کیونکہ اس بیان سے تخصیص و تقید لازم آتا ہے! اور حدیث میں تخصیص و تقید سوائے وحی کے جائز نہیں!! یہ بات وجہ بنی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ غصہ ہونے کی!!
ایک دلچسپ بات معاویہ کے غضبناک ہونے والی روایت میں اور بھی ہے کہ معاویہ نے عبداللہ بن عمرو کی بیان کی گئی حدیث کے جواب جو بات کہی کہ خلافت قریش میں رہے گی جب تک وہ دین کو قائم رکھیں گے اس بات کا پتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ( سنی کتب کے مطابق ) دن رات رہنے والے حضرت ابو بکر بھی نہیں کیونکہ سقیفہ بنی ساعدہ میں خلافت کا حق قریش کے لئے ثابت کرنے کے لئے یہ بات کہتے تو لوگ فورا مان جاتے لیکن وہان تو انھوں نے خلافت پر قریش کے حق کے لئے دلیل ہی دوسری دی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث نہیں تھی حضرت ابو بکر نےسقیفہ بنی ساعدہ میں انصار سے اپنے خطاب میں یہ دلیل دی تھی جو انصار نے نہیں مانی
اردو ترجمہ داؤد راز
حضرت ابو بکر نے کہا
"انصاری بھائیو تم نے جو اپنی فضیلت اور بزرگی بیان کی ہے وہ سب درست ہے اور تم بیشک اس کے لیے سزا وار ہو مگر خلافت قریش کے سوا اور کسی خاندان والوں کے لیے نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ قریش ازروئے نسب اور ازروئے خاندان تمام عرب قوموں میں بڑھ چڑھ کر ہیں"
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 6830
یعنی کہا جارہا ہے کیونکہ قریش نسب اور خاندان میں سب سے اعلیٰ ہیں اس لئے خلافت پر قریش کا حق ہے اگر خلافت کا حق خاندان اور نسب کی برتری کی بنیاد پر ہونا ہے تو یہ لوگ یہ کیوں بھول بیٹھے کہ خاندان بنو ہاشم تمام قریش میں سب سے بڑھ چڑھ کر ہے
آپ ایک اہم نکتہ کو نظر انداز کر رہے ہیں، اور وہ یہ ہے کہ عدم ذکر سے عدم وجود لازم نہیں آتا!!
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اس دین اسلام اور شریعت محمدی صلی اللہ علیہ کا تمام کا تمام اور مکمل علم کسی کو نہیں!! موسیٰ علیہ السلام اور خضر علیہ السلام کے واقعہ کا مطالعہ مفید رہے گا!!
ویسے بھی یہ موضوع سے خارج بحث ہے!!
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,476
پوائنٹ
964
قاری حنیف ڈار صاحب کا طریقہ واردات یہی ہے کہ پرانی باتیں دوبارہ پھر دہراتے رہتے ہیں ، وہی تحریر جو اوپر یوسف ثانی صاحب نے پیش کی ، آج پھر ڈار صاحب نے اپنی وال پر دہرائی تو محترم ابو بکر قدوسی صاحب نے اس کے جواب میں درج ذیل تحریر رقم فرمائی ہے ، بطور ریکارڈ محفوظ رکھنے کے لیے وہ تحریر یہاں نقل کی جارہی ہے :

منافقین کی وہ فوج اچانک کدھر غائب ھو گئ ؟

.
واہ واہ کا شوق انسان کو وہاں تک لے جاتا ہے کہ اس کو اپنا کہا ،اور لکھا بھی بھول جاتا ہے ...اس بے چارے کو اتنا بھی معلوم نہیں ہوتا کہ اس کے "افکار رزیلہ" کی زد میں اس کے اپنے افکار ہی آتے ہیں...ہوا کچھ یوں کہ کم عمری کی شادی پر "ممدوح" کی غیر متوازن باتوں کا بہت سے احباب نے جواب دیا..جو "ممدوح" کی انانیت برداشت نہ کر پائی ....سو وہ دن اور آج کا دن سنا ہے محترم محدثین کے پیچھے لٹھ لے کر پڑے ہووے ہیں...ہم تو اپنا لکھا بھی شائد بھول چکے تھے کہ اس نام کے کوئی صاحب ہیں..لیکن آج پھر کسی طرف سے توجہ ملی کی موصوف اکیلے ہی شتر بے مہار کی طرح "ویلی سڑک " پر سرپٹ بھاگے جا رہے ہیں...اور موصوف پر تازہ "نزول" یہ ہوا ہے کہ منافقین کہاں گئے؟....
لمبی پوسٹ ہے...اور تضادات کا شاہکار....خود کو اتنا بھی پتہ نہیں کہ ان کی طویل تحریر مضکحہ خیز حد تک قران کا مذاق اڑا رہی ہے.. ہمارے لاہور میں لکھا ہوتا ہے ویگنوں کے پیچھے
"عقل نہ ہووے تے موجاں ای موجاں"
مسلسل حدیث پر اعتراض کہ منافق "اتنے اتنے" تھے تو محدثین نے ان کے نام کیوں نہیں لکھے؟
اور خود ہی ان کی طاقت میں مبالغہ کرتے ہوے کہتے ہیں
.=============
"عبداللہ ابن ابئ جو وار بھی نبی ﷺ کے گھرانے پر کر رھا تھا ، ان منافقین کے بل بوتے پر کر رھا تھا ، ان کی تعداد اتنی تھی کہ ان میں سے کسی ایک کے خلاف بھی ایکشن پر مدینے میں خون کی ندیاں بہہ جاتیں اور مکی مھاجر اور مدنی منافقین آپس میں ھی لڑ کر مر جاتے "
.============
کوئی ان سے پوچھے کہ اس بات کی کیا دلیل ہے کہ ان کی تعداد اتنی تھی؟....صاف گھڑا ہوا جھوٹ ہے.....اور جھوٹ بولنے ولے کو پتہ ہوتا ہے کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں .. مگر فیس بک کی واہ واہ نے ......نبی کریم سے جب کہا گیا کہ عبدللہ بن ابی کی گردن مار دیجیے تو کیا آپ نے انکار کر دیا.....موصوف جھوٹ سے جو بھی بنا لیں کسی کتاب سے ثابت نہیں کر سکتے کہ نبی نے منافقین کی کثرت تعداد (جی ہاں کثرت تعداد)
سے ڈر کے ایسا نہ کیا...نبی کریم نے صاف لفظوں میں کہا کہ
"میں ایسا نہیں کر سکتا کہ لوگ کہیں گے کہ محمد اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہے...." دیکھئے کیسی دانش مندی کی بات ہے...کہ چونکہ ظاہر میں وہ کلمہ پڑھتا تھا..نماز ادا کرتا تھا سو مسلمانوں میں ہی اس کا شمار ہوتا اس کے قتل سے تمام عرب میں یہ بات پھیل سکتی تھی جس سے اسلام کے پھیلاؤ کو خطرہ ہوتا اور لوگ قبول حق سے رک جاتے.....
حدیث پر اور محدثین پر اعتراض کرتے ہیں کہ مناقین کی "فوج " کے نام نہیں لکھے...ان کے نام چھپا کے صحابہ میں داخل کر دیا...جو جرح وتعدیل تابعین کی گئی وہ صحابہ کی کیوں نہیں کی؟...ان میں سے منافقین کو کیوں نہیں نکالا؟.......
"ممدوح" صاحب ہم یہی اعتراض اگر قران پر کیا جائے تو آپ کے پلے کیا رہ جائے؟
اگر کوئی کہے کہ تبت ابی لھب کہا جا سکتا تھا...تو منافقین تو کفار سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں ان کو ننگا کیوں نہیں کیا.....؟ احد کا واقعہ تو بہت پہلے پیش آیا جس کے بارے میں آپ کی "مبینہ" دانش کہتی ہے...
.=============
ھم بچپن سے پڑھتے آ رھے ھیں ، پھر تیس سال سے لوگوں کو خطبوں میں سنا بھی رھے ھیں کہ غزوہ احد میں عبداللہ ابن ابئ اپنے 300 منافق ساتھیوں کے ساتھ نبئ کریم ﷺ کے لشکر سے الگ ھو کر واپس آ گیا یوں نبئ کریم ﷺ کے ساتھ ھزار میں سے 700 مسلمان رہ گئے ،،،،،،،،،،، مگر تعجب کی بات یہ ھے کہ ھمیں سوائے عبداللہ ابن ابئ کے اور کسی منافق کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ، کیوں ؟ کوئی دس بیس نام ھی سہی ،،،،،،،، وہ جو نبئ کریم ﷺ کی حیات میں ھمیشہ آپ ﷺ کے لئے دردِ سر بنے رھے وہ آپ کے وصال کے ساتھ ھی اچانک کہاں چلے گئے ؟
=============
سوال یہ ہے محترم کہ بیت رضوان کا واقعہ تو ، 6 ہجری میں جا کر کے ، احد کے بعد پیش آیا...جب ١٤٠٠(ایک ہزار چار سو) مسلمانوں نے نبی کے ہاتھ پر موت کی بیعت کی اور الله نے اس پر خوش ہو کر " رضی الله " کی خوشخبری دی جس کا آپ کو بخار چڑھا ہوا ہے...چھوڑئیے چھوڑئیے حدیث کو اس کی بات نہ کیجئے ہم سوال کرتے ہیں کہ کیا ان سے کوئی منافق تھا یا نہیں...آپ کے بقول ان کی تعداد اتنی تھی کہ
'خون کی ندیاں" بہہ جاتیں ...
تو کوئی ایک تو ہو گا ان میں "منافق" ..بتائے حضور الله کو کیا امر مانع تھا کہ ابی لھب کے تو ہاتھ توڑ دیے اور منافقین کا نام تک نہ لیا....اور الٹا سب کو جی ہاں سب کو راضی ہونے کی خوشخبری دی جا رہی ہے.....زیادہ لکھنے کہ شوق..الگ لکھنے کا شوق...الٹا لکھنے کا مزہ کبھی کبھی گلے بھی پڑ جاتا ہے....محترم آپ کی آج کی تمام پوسٹ قران کے خلاف کھلا مقدمہ ہے....ان صاحب کی مزید "درفنطانیاں " ملاحظہ کیجئے لکھتے ہیں
===========
بئ کریمﷺ کو اپنے اوپر حملہ آور ھونے والے منافقین کے نام اللہ پاک کی طرف سے بتا دیئے گئے تو آپ نے وہ نام حذیفہ ابن یمانؓ کو بتا کر منع کر دیا کہ کسی کو نہ بتانا ،،،، جب کسی کو بتانا مقصود ھی نہیں تھا تو پھر خود حضرت حذیفہ ابن یمانؓ کو ھی بتانا کیوں ضروری ٹھہرا ؟
چنانچہ وہ سارے منافقین رضی اللہ تعالی عنھم ھو کر ھماری تاریخ کا حصہ بن گئے ،، کیونکہ ھمارے اکابر نے " الصحابۃُ کلھم عدول " کا اصول ایجاد کر کے خود صحابہؓ میں سے خزرج اور اوس کے منافقین کی چھان پھٹک پر پابندی لگا دی ،،
==========
محترم کیا اللہ کو اس بات کا معلوم نہیں تھا کہ اگر ان کے نام آشکار نہیں کیے جائیں گے تو یہ رضی الله ہو کر اسلام کی تاریخ کا حصہ بن جائیں گئی...
بہت سادہ سا جملہ بول کے آپ جاتے کہاں ہیں ؟ ہم آپ سے کچھ امکانات کے بارے میں سوال کرتے ہیں ..کیا کہا جا سکتا ہے کہ ان میں کچھ کاتب وحی بھی بن گئے ہوں؟
ممکن ہے نام قران میں ہوں انہوں نے مٹا دیے ہوں؟.... دیکھئے امکان تو ہیں نا...؟
ارے ارے نہ نہ...ایسا نہ کہیں کہ الله نے قران کی حفاظت کا ذمہ اٹھا رکھا ہے......آج اپ نے قران پر ایسا " کاری" وار کیا ہے کہ اس پر بھی سوال اٹھ سکتا ہے..کہ جناب آپ کے
بقول "چنانچہ وہ سارے منافقین رضی اللہ تعالی عنھم ھو کر ھماری تاریخ کا حصہ بن گئے "
اور کیا ایسے " منافقین" ایسی ایک آیت اپنے"اضافوں" پر مہر تصدیق لگانے کے واسطے شامل نہ کر سکتے تھے.؟......
...محترم آپ نے محض مقبولیت کے شوق میں اور صرف واہ واہ کے چکر میں اسلام کی بنیادوں تک کو کھودنے کا عمل شروع کیا ہوا ہے. ... اور آپ بھی جانتے ہیں آپ یہ سب بیچ بازار میں اور چوک میں کھڑے ہو کر، کر رہے ہیں....گمان تو کیا جا سکتا ہے...کہ منافقین اگر آپ کے بقول رضی اللہ عنہ میں شامل ہو سکتے ہیں، تو آپ بھی کسی کی ڈیوٹی پر ہوں.
..............
ابو بکر قدوسی
....احباب املا کی غلطیاں نظرانداز کیجئے گا..کہ جلدی میں تھا....
 
Top