• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلامی آداب زندگی (سبیل المؤمنین)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
رشتہ داروں کے حقوق


1- حسنِ سلوک کرنا

رشتہ داروں سے حسن سلوک کا مطلب یہ ہے کہ جب وہ بیمار ہوں تو ان کی بیمار پرسی کی جائے۔ اگر ان پر کوئی مصیبت آجائے تو ان کی ہمدردی کرے۔ ان کے چھوٹوں پر شفقت کرے اور بڑوں کی عزت کرے۔ ان کے ادب و احترم کو ملحوظ رکھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
إِنَّ اللَّـهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ ۔۔ ﴿٩٠﴾ سورہ النحل
’’بے شک اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ نے رحم سے فرمایا کہ جو تجھے ملائے گا اللہ اسے ملائے گا اور جو تجھے توڑے گا اللہ اسے توڑے گا۔
(بخاری: کتاب الادب باب من وصل وصلہ اللّٰہ ومسلم: کتاب البر والصلۃ باب صلۃ الرحم وتحریم قطیعتھا)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ:
(۱)۔۔۔ مہمان کی عزت کرے
(۲)۔۔۔ رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرے
(۳)۔۔۔ بھلائی کی بات کرے یا پھر خاموش رہے ۔‘‘
(بخاری: کتاب الادب باب من کان یومن باللّٰہ، ومسلم: کتاب الایمان باب الحث علی اکرام الجار والضیف)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص اپنی روزی میں فراخی اور عمر میں اضافہ چاہتا ہے تو وہ صلہ رحمی کرے۔‘‘
(بخاری: کتاب الادب باب من بسط لہ فی الرزق، ومسلم: کتاب البر والصلۃ باب صلۃ الرحم وتحریم قطیعتھا)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’قطع رحمی (رشتہ داروں کے ساتھ بد سلوکی) کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔‘‘
(بخاری: کتاب الادب باب اثم القاطع، ومسلم: کتاب البر والصلۃ باب صلۃ الرحم وتحریم قطیعتھا)

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"صلہ رحمی سے زیادہ جلد ثواب دلانے والا جس میں اللہ کی اطاعت کی جائے کوئی عمل نہیں اور سرکشی اور قطع رحمی سے زیادہ جلد سزا دلانے والا کوئی عمل نہیں اور جھوٹی قسم گھروں کو ویران کر کے چھوڑتی ہے۔ (السلسلۃ الصحیحۃ للالبانی ۸۷۹.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
2- بدسلوکی کے بدلے حسنِ سلوک کرنا

ایک صحابی نے عرض کی
’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میرے کچھ رشتہ دار ایسے ہیں کہ میں ان سے تعلق جوڑتا ہوں اور وہ مجھ سے تعلق توڑتے ہیں۔ میں ان سے حسنِ سلوک کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں۔ میں ان سے تحمل اور بردباری سے پیش آتا ہوں اور وہ میرے ساتھ نادانی سے پیش آتے ہیں۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اگر ایسا ہی ہے جیسا کہ تو نے کہا ہے تو تم گویا ان کے منہ میں گرم راکھ ڈال رہے ہو۔ ان کے مقابلے میں تمہارے ساتھ ہمیشہ اللہ کی طرف سے ایک مددگار رہے گا جب تک تمہارا رویہ ایسا رہے گا۔‘‘
(مسلم: کتاب البر والصلۃ باب صلۃ الرحم وتحریم قطیعتھا)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’وہ شخص صلہ رحمی کرنے والا نہیں ہے جو (کسی رشتہ دار کے ساتھ) احسان کے بدلے میں احسان کرتا ہے بلکہ اصل صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے جب اس سے قطع رحمی (بدسلوکی) کی جائے تو وہ صلہ رحمی (اچھا سلوک) کرے۔‘‘
(بخاری: کتاب الادب باب لیس الواصل بالمکافی)

جنگ بنو مصطلق سے واپسی کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے قریب ایک مقام پر قیام کیا۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا قضائے حاجت کے لیے روانہ ہوئیں اور اسلامی لشکر سے کافی دور چلی گئیں۔ وہاں ہار ٹوٹ کر گر گیا جس کی تلاش میں انہیں کافی دیر لگ گئی۔ اسی اثناء میں اسلامی فوج اس منزل سے روانہ ہو گئی۔ ان دنوں عورتیں ہلکی پھلکی ہوتی تھیں۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا کا ہودج اونٹ پر رکھتے ہوئے لوگ سمجھے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا اس میں موجود ہیں۔ جب آپ اپنی منزل پر آئیں تو وہاں کوئی بھی نہ تھا۔ وہ وہیں بیٹھ گئیں۔ پھر انہیں نیند آگئی اور وہ سو گئیں۔
صفوان بن معطل سلمی رضی اللہ عنہ اسلامی لشکر کے پیچھے رہا کرتے تھے۔ صبح کے وقت جب انہوں نے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا تو انا للّٰہ وانا الیہ راجعون پڑھا۔ اپنے اونٹ سے اترے۔ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اس پر سوار ہو گئیں۔ صفوان رضی اللہ عنہ اونٹ کی لگام پکڑ کر پیدل چلتے ہوئے دوپہر کے وقت سخت گرمی میں اسلامی لشکر سے جا ملے۔ عبد اللہ بن ابی اور منافقین کے ایک گروہ کو موقع ملا اور انہوں نے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائی۔
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ایک رشتہ دار مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ بھی تہمت لگانے والوں میں شامل تھے۔ حالانکہ ان کی مفلسی اور رشتہ دار ی کی وجہ سے ان کا خرچ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے ذمّے لے رکھا تھا۔
ایک ماہ بعد اللہ تعالیٰ نے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی برأت میں آیات نازل فرمائیں تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مسطح رضی اللہ عنہ سے ناراض ہو گئے۔ اور کہا: اللہ کی قسم میں مسطح کو اب کچھ نہ دوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنكُمْ وَالسَّعَةِ أَن يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ۖ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا ۗ أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ اللَّـهُ لَكُمْ ۗ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٢٢﴾ سورہ النور
’’جو لوگ تم میں صاحب فضل و وسعت ہیں اور اس بات کی قسم نہ کھائیں کہ رشتہ داروں، محتاجوں اور ہجرت کرنے والوں کو کچھ نہیں دیں گے۔ ان کو چاہیے کہ معاف کریں اور درگزر کریں۔ کیا تم اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ اللہ تم کو بخش دے اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔‘‘
اس آیت کے نازل ہونے پر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ کی قسم مجھے اپنی بخشش بہت پسند ہے میں یہ نفقہ بند نہیں کرونگا۔ الغرض انہوں نے مسطح رضی اللہ عنہ کا وظیفہ جاری کر دیا۔
(بخاری: کتاب المغازی باب حدیث الافک)

ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ میں رشتہ داروں سے جڑا رہوں اگرچہ وہ مجھ سے رخ پھیریں۔
(السلسلۃ الصحیحۃ للالبانی۶۶۱۲۔ مسند احمد ۷۴۴۰۲.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
3- صدقہ میں رشتہ داروں کو ترجیح دینا

نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو عورتیں اپنے خاوندوں پر اور اپنی گودوں میں زیرِ پرورش یتیموں پر صدقہ کرتی ہیں ان کے لیے دگنا اجر ہے۔ ایک رشتہ داری کا اجر اور دوسرا صدقے کا اجر۔
(ٍبخاری: کتاب الزکوۃ باب الزکوۃ علی الزوج والایتام فی الحجر، ومسلم: کتاب الزکاۃ باب فضل النفقۃ علی الاقربین)

سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ عنہ انصارِ مدینہ میں کھجور کے باغات کے اعتبار سے سب سے زیادہ دولت مند تھے۔ انہوں نے اپنا پسندیدہ باغ بیرحاء اللہ کی راہ میں صدقہ کرتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے جہاں مناسب سمجھیں اپنے استعمال میں لائیں۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’یہ تو بڑا نفع بخش مال ہے۔ اسے اپنے قرابت داروں میں تقسیم کر دو۔‘‘
چنانچہ انہوں نے اسے اپنے رشتہ داروں اور چچا زاد بھائیوں میں تقسیم کر دیا۔
(بخاری: کتاب الزکوۃ باب الزکوۃ علی الاقارب، ومسلم: کتاب الزکوۃ باب فضل النفقۃ والصدقۃ علی الاقربین)

ام المومنین میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا نے ایک لونڈی آزاد کی اور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی اجازت نہیں لی۔ پھر آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم وہ اپنے ماموؤں کو دے دیتیں تو تمہارے لیے زیادہ اجر کا باعث ہوتا۔
(بخاری: کتاب الھبۃ باب بمن یبدأ بالھبۃ، ومسلم: کتاب الزکوۃ باب فضل النفقۃ والصدقۃ علی الاقربین)

جریر بن عبداللہ سے روایت ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی بھی رشتہ دار اپنے کسی رشتے دار کے پاس آتا ہے اور اللہ تعالی نے اسے جو عطا کیا ہے اس میں سے فضل (زائد از ضرورت) کا سوال کرتا ہے اور وہ بخیلی سے پیش آتا ہے تو قیامت کے دن اس کے لیئے جہنم سے ایک سانپ نکالا جائے گا جسے شجاع کہا جاتا ہے۔ وہ پھنکار رہا ہو گا۔ اسے اس کی گردن میں طوق بنا کر ڈال دیا جائے گا۔
(السلسلۃ الصحیحۃ للالبانی ۸۴۵۲.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
4- مشرک رشتہ داروں سے حسنِ سلوک کرنا

نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’بنی فلاں کی اولاد میرے دوست نہیں ہیں۔ میرے دوست اللہ اور نیک مومن ہیں۔ البتہ ان سے میری رشتہ داری ہے جسے میں ضرور ملحوظ رکھتا ہوں۔‘‘
(بخاری: کتاب الادب باب یبل الرحم ببلالھما، ومسلم: کتاب الایمان باب موالاۃ المومنین ومقاطعۃ غیرھم)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
5- مومن کافر کا وارث نہیں

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ معظمہ فتح کیا تو کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیاکہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مکان میں قیام فرمائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا عقیل نے کوئی مکان چھوڑا ہے۔ عقیل اور طالب کافر ہونے کی وجہ سے ابو طالب کے وارث ہوئے۔ سیدنا علی اور سیدنا جعفر رضی اللہ عنہما مسلم ہونے کی وجہ سے ابو طالب کے وارث نہیں ہوئے کیونکہ نہ مومن کافر کا وارث ہوتا ہے اور نہ کافر مومن کا۔
(بخاری: کتاب الحج باب توریث دور مکہ وبیعھا وشراءھا)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
پڑوسیوں کے حقوق

1- حسنِ سلوک کرنا:

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَالْجَارِ الْجُنُبِ ۔۔ ﴿٣٦﴾ سورہ النساء
’’ماں باپ، قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں، رشتہ دار ہمسایوں اور اجنبی ہمسایوں کے ساتھ احسان کرو۔‘‘

نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جبرائیل علیہ السلام مجھے ہمسایہ کے حقوق کے متعلق اس قدر تاکید کرتے رہے کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ اسے وارث بنا دیا جائے گا۔‘‘
(بخاری: کتاب الادب با ب الوصیۃ بالجار، ومسلم: کتاب البر والصلۃ باب الوصیۃ بالجار والاحسان الیہ)

عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا:
جسے نرمی دے دی گئی اسے دنیا و آخرت کی بھلائی دے دی گئی ،صلہ رحمی، اچھا اخلاق اور اچھا پڑوسی بننا گھروں کو آباد کرتا ہے اور عمروں میں اضافہ کرتا ہے۔
(السلسلۃ الصحیحۃ للالبانی ۹۱۵.)

اچھا پڑوسی وہی ہو گا جو بیمار پڑوسی کی بیمار پرسی کرے۔ ان کی مصیبت میں انہیں تسلی دے۔ مالی امداد کر کے ان کی ضرورت پوری کرے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ اپنے ہمسایہ سے بہتر سلوک کرے۔‘‘
(بخاری: کتاب الادب باب من کان یومن بااللّٰہ)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب تم شوربے والا سالن پکاؤ تو اس میں پانی زیادہ کر لیا کرو اور پڑوسی کا خیال رکھو۔‘‘
(مسلم: کتاب الایمان باب الحث علی اکرام الجار والضیف)

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا:
’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے دو پڑوسی ہیں۔ ان میں سے کون میرے تحفے کا زیادہ مستحق ہے؟‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس کا دروازہ تیرے زیادہ قریب ہو۔‘‘
(بخاری: کتاب الشفعۃ باب ای الجوار اقرب)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
2- شر سے محفوظ رکھنا

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ کی قسم! وہ شخص مومن نہیں۔ اللہ کی قسم! وہ شخص مومن نہیں۔ اللہ کی قسم! وہ شخص مومن نہیں۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا:
’’کون یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم؟‘‘
فرمایا:
’’جس کا ہمسایہ اس کی شرارتوں سے محفوظ نہیں۔‘‘
(بخاری: کتاب الادب باب اثم من لم یامن جارہ بوائقہ، ومسلم: کتاب الایمان باب تحریم ایذاء الجار)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوگا جس کی شرارتوں سے اس کا ہمسایہ امن میں نہ ہو۔‘‘
مسلم‘کتاب الایمان باب تحریم ایذاء الجارح)

انس بن مالک سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اگر تمہیں یہ بات پسند ہے کہ اللہ اور اسکا رسول تم سے محبت کرے تو پھر تین عادات کی حفاظت کرو: سچی بات کہنا، امانت ادا کرنا اور بہترین پڑوسی بننا کیونکہ پڑوسی کو تکلیف دینا نیکیوں کو اس طرح مٹا دیتا ہے جس طرح سورج برف کو پگھلا دیتا ہے۔
(السلسلۃ الصحیحۃ للالبانی ۸۹۹۲.)

پڑوسیوں کو تکلیف دینے کی بہت سی صورتیں ہیں۔ ان کے عیب تلاش کرنا، ان کے گھر کے آگے کوڑا کرکٹ ڈالنا، بلند آواز سے گانے لگا کر ان کا سکون برباد کرنا۔ ایک مسلمان کو ہر اس عمل سے پر ہیز کرنا چاہئے جس سے پڑوسیوں کو تکلیف ہو۔ البتہ حکمت کے ساتھ پڑوسیوں کو اللہ کی توحید اور دین اسلام کی طرف دعوت دیتے رہنا چاہئے چاہے پڑوسی تکلیف محسوس کیوں نہ کریں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
3- ہمسایہ کی مدد کرنا

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ تم میں سے کوئی اپنے ہمسایہ کو اپنی دیوار پر شہتیر رکھنے سے نہ روکے۔‘‘
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’کیا وجہ ہے کہ (اس فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے باوجود) تم اس حکم کو قبول نہیں کرتے؟ اللہ کی قسم! میں اس حدیث کو تمہارے سامنے بیان کرتا رہوں گا۔‘‘
(بخاری: کتاب المظالم باب لایمنع جارجارہ ان یغرز، ومسلم: کتاب البیوع باب غرز الخشب فی جدار الجار)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
4- قیامت کے دن حقوق العباد کا فیصلہ

نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تمہیں قیامت کے دن حق والوں کا حق ضرور ادا کرنا ہو گا حتّٰی کہ سینگ والی بکری سے بغیر سینگوں والی بکری کو بدلہ دلوایا جائے گا۔‘‘
(مسلم: کتاب البر باب تحریم الظلم)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جس آدمی پر بھی اپنے دوسرے مسلمان بھائی کا اس کی عزت و آبرو سے متعلق یا کسی اور چیز سے متعلق کوئی حق ہو تو اسے چاہیے کہ آج ہی دنیا میں اس کا ازالہ کر کے اس حق سے عہدہ برا ہو جائے قبل اس کے کہ وہ دن آئے جس دن کسی کے پاس دینار و درہم نہیں ہوں گے۔ اگر اس کے پاس عمل صالح ہوا تو اس کے ظلم کے برابر اس سے ان اعمال کا اجر لے لیا جائے گا۔ اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوئیں تو صاحب حق کی برائیوں (کی سزا) اس پر لاد دی جائیں گی۔"
(بخاری: کتاب المظالم باب من کانت لہ مظلمۃ)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"کیا تم جانتے ہو مفلس کون ہے۔ مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکوٰۃ کے ساتھ آئے گا لیکن وہ اس حال میں آئے گا کہ کسی کو اس نے گالی دی ہو گی، کسی پر بہتان تراشا ہو گی کسی کو مارا پیٹا ہو گا۔ پس ان (تمام مظلومین) کو اس کی نیکیوں (کا اجر) دے دیا جائے گا۔ پس اگر اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں اور اس کے ذمے دوسروں کے حقوق باقی ہوئے تو ان کے گناہ (کی سزا) لے کر اس پر ڈال دی جائے گی۔ پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔"
(مسلم: کتاب البر باب تحریم الظلم)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
مسلمانوں کے آپس کے حقوق

ہر مسلمان کے دوسرے مسلمان پر بہت سے حقوق ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان حقوق کو ہر مسلمان پر واجب کئے ہیں۔

1- اللہ کے لیے محبت کرنا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا میری عظمت و جلالت کے لیے باہم محبت کرنے والے کہاں ہیں۔ آج میں ان کو اپنے سائے میں جگہ دوں گا جبکہ میرے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں ہے ۔"
(مسلم: کتاب البر والصلۃ باب فضل الحب فی اللّٰہ)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(قیامت کے دن) "اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ میری جلالت و عظمت کی خاطر باہم محبت کرنے والے کہاں ہیں۔ ان کے لیے نور کے منبر ہیں (جس پر وہ بیٹھیں گے) ان پر انبیاء اور شہداء بھی رشک کریں گے ۔"
(ترمذی: ابواب الزھد باب ماجاء فی الحب فی اللّٰہ، ابن حبان نے صحیح، امام ترمذی نے حسن صحیح کہا ہے)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"لوگ سونے چاندی کے کانوں کی طرح کانیں ہیں۔ ان میں زمانہ جاہلیت کے بہتر لوگ اسلام میں بھی بہتر ہوں گے جب انہیں دین کی سمجھ آجائے۔ روحیں مختلف قسم کے لشکر ہیں۔ پس ان روحوں میں سے جن کی عالم ارواح میں ایک دوسرے سے جان پہچان ہو گئی وہ (دنیا میں بھی) آپس میں مانوس ہیں اور جو وہاں ایک دوسرے سے انجان رہیں وہ (دنیا میں بھی) ایک دوسرے سے الگ ہیں۔"
(بخاری: کتاب الانبیاء باب الارواح جنود مجندۃ، ومسلم: کتاب البر والصلۃ باب الارواح جنود مجندۃ)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’آپس میں محبت، ایک دوسرے پر رحم اور مہربانی میں سب مومن ایک جیسے ہیں۔ اگر جسم کے ایک حصہ میں تکلیف ہو تو اس کی وجہ سے سارا جسم بیداری اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔‘‘
(بخاری: کتاب الادب باب رحمۃ الناس فضل تعاون المومنین، ومسلم: کتاب البر والصلۃ باب تراحم المومنین وتعاطفھم )

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ایک مومن دوسرے مومن کے لیے اس عمارت کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو مضبوط کرتا ہے۔‘‘
(بخاری: کتاب الادب باب فضل تعاون المومنین، ومسلم :کتاب البر والصلۃ باب تراحم المومنین وتعاطفھم)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم اس وقت تک جنت میں نہیں جاؤ گے جب تک ایمان نہیں لاؤ گے۔ اور تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک تم ایک دوسرے سے اللہ کے لیے محبت نہیں کرو گے۔ کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ جب تم اسے اختیار کرو تو باہم محبت کرنے لگ جاؤ اور وہ یہ ہے کہ تم آپس میں سلام کو پھیلاؤ۔‘‘
(مسلم: کتاب الایمان باب بیان انہ لایدخل الجنۃ الا المومنون)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جب آدمی اپنے بھائی سے محبت کرے تو اسے چاہیے کہ اسے بتا دے کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے۔"
(ابو داؤد: کتاب الادب باب اخبار الرجل لمحبتہ ایاہ ۔ح۔۴۲۱۵۔ ترمذی: ابواب الزھد باب ماجاء فی اعلام الحب ۔ح۔۹۳۲۔ امام ترمذی نے حسن اور ابنِ حبان نے صحیح کہا ہے)
 
Top