- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,751
- پوائنٹ
- 1,207
4- حسنِ سلوک کرنا
معاملات میں نرمی، چہرہ کی شگفتگی، بات میں ادب و احترام ہی وہ اچھی معاشرت ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا۔
وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ ۔۔۔﴿١٩﴾ سورہ النساء
’’اور عورتوں سے معروف طریقہ سے نباہ کرو۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیوی کے حقوق بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’جب تم کھانا کھاؤ تو اسے بھی کھلاؤ۔ جب تم لباس پہنو تو اسے بھی پہناؤ۔ اس کے منہ پر نہ مارو۔ اسے برا بھلا نہ کہو اور اس سے گفتگو ترک کرو تو صرف گھر کی حد تک۔ ( ابو داؤد: کتاب النکاح، باب فی حق المرأۃ علی زوجھا ۔ح۔۲۴۱۲۔ امام نووی نے حسن کہا ہے)
عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب آدمی اپنی بیوی کو پانی پلائے تو اسے اجر دیا جاتا ہے‘‘۔ عرباض کہتے ہیں میں کھڑا ہوا اور اپنی بیوی کو پانی پلایا، جو حدیث میں نے سنی تھی اسے بھی سنائی۔‘‘ (السلسلۃ الصحیحۃ للالبانی :۶۳۸۲.)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’عورتوں سے بہتر سلوک کرو کیونکہ وہ پسلی سے پیدا کی گئی ہیں۔ وہ کسی طرح تمہارے لیے سیدھی نہ ہوں گی اور پسلی کا سب سے زیادہ ٹیڑھا حصہ وہ ہے جو بلند ہے۔ اگر تم اسے سیدھا کرنے لگو گے تو اسے توڑ ڈالو گے۔ اور اگر چھوڑ دو گے تو ٹیڑھی ہی رہے گی۔ لہٰذا عورتوں سے اچھا سلوک کرو۔‘‘ (مسلم: کتاب الرضاع باب الوصیۃ بالنساء)
ایک روایت میں ہے:
’’عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور کسی طرح تمہارے لیے سیدھی نہ ہو گی۔ لہٰذا اگر تم اس ٹیڑھ کی حالت میں اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہو تو اٹھالو ۔ اور اگر تم اسے سیدھا کرنے لگو گے تو اسے توڑ دو گے اور اس کا توڑنا طلاق ہے۔‘‘ (بخاری: کتاب النکاح باب المداراۃ مع النساء، مسلم: کتاب الرضاع باب الوصیۃ بالنساء)
بہت سے شوہر اپنی بیویوں کو درجہ کمال پر دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق یہ ناممکن ہے۔ اسی لیے ایسے میاں بیوی کی زندگی تنگ رہتی ہے۔ وہ اپنی بیویوں سے فائدہ اٹھانے کے قابل نہیں رہتے۔ لہٰذا آدمی کو چاہیے کہ اپنی بیوی سے حسنِ سلوک کرے۔ جو کچھ بیوی سے میسر آئے وہ لے لے کیونکہ اس کی طبیعت میں ٹیڑھ ہونا لازمی ہے۔
معاملات میں نرمی، چہرہ کی شگفتگی، بات میں ادب و احترام ہی وہ اچھی معاشرت ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا۔
وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ ۔۔۔﴿١٩﴾ سورہ النساء
’’اور عورتوں سے معروف طریقہ سے نباہ کرو۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیوی کے حقوق بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’جب تم کھانا کھاؤ تو اسے بھی کھلاؤ۔ جب تم لباس پہنو تو اسے بھی پہناؤ۔ اس کے منہ پر نہ مارو۔ اسے برا بھلا نہ کہو اور اس سے گفتگو ترک کرو تو صرف گھر کی حد تک۔ ( ابو داؤد: کتاب النکاح، باب فی حق المرأۃ علی زوجھا ۔ح۔۲۴۱۲۔ امام نووی نے حسن کہا ہے)
عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب آدمی اپنی بیوی کو پانی پلائے تو اسے اجر دیا جاتا ہے‘‘۔ عرباض کہتے ہیں میں کھڑا ہوا اور اپنی بیوی کو پانی پلایا، جو حدیث میں نے سنی تھی اسے بھی سنائی۔‘‘ (السلسلۃ الصحیحۃ للالبانی :۶۳۸۲.)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’عورتوں سے بہتر سلوک کرو کیونکہ وہ پسلی سے پیدا کی گئی ہیں۔ وہ کسی طرح تمہارے لیے سیدھی نہ ہوں گی اور پسلی کا سب سے زیادہ ٹیڑھا حصہ وہ ہے جو بلند ہے۔ اگر تم اسے سیدھا کرنے لگو گے تو اسے توڑ ڈالو گے۔ اور اگر چھوڑ دو گے تو ٹیڑھی ہی رہے گی۔ لہٰذا عورتوں سے اچھا سلوک کرو۔‘‘ (مسلم: کتاب الرضاع باب الوصیۃ بالنساء)
ایک روایت میں ہے:
’’عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور کسی طرح تمہارے لیے سیدھی نہ ہو گی۔ لہٰذا اگر تم اس ٹیڑھ کی حالت میں اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہو تو اٹھالو ۔ اور اگر تم اسے سیدھا کرنے لگو گے تو اسے توڑ دو گے اور اس کا توڑنا طلاق ہے۔‘‘ (بخاری: کتاب النکاح باب المداراۃ مع النساء، مسلم: کتاب الرضاع باب الوصیۃ بالنساء)
بہت سے شوہر اپنی بیویوں کو درجہ کمال پر دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق یہ ناممکن ہے۔ اسی لیے ایسے میاں بیوی کی زندگی تنگ رہتی ہے۔ وہ اپنی بیویوں سے فائدہ اٹھانے کے قابل نہیں رہتے۔ لہٰذا آدمی کو چاہیے کہ اپنی بیوی سے حسنِ سلوک کرے۔ جو کچھ بیوی سے میسر آئے وہ لے لے کیونکہ اس کی طبیعت میں ٹیڑھ ہونا لازمی ہے۔