تلامذہ
امام نسائی سے علماء اور رواۃکی ایک بڑی تعداد نے علم حاصل کیا،اور آپ سے احادیث روایت کیں، جن کے بارے میں حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ یہ بے شمار لوگ ہیں(تہذیب التہذیب ) امام نسائی علم ودین کی امامت کی شہرت کے ساتھ معمر شیخ الحدیث تھے، اس لیے آپ کے علوم وفنون سے استفادہ کے ساتھ ساتھ طلبہ آپ کے پاس اس واسطے بھی بکثرت آتے تھے تاکہ اُن کی سند عالی ہوجائے، اس لیے کہ قتیبہ بن سعید اور اُن کے طبقہ سے امام نسائی نے احادیث روایت کی تھیں اور تیسری صدی کے خاتمے اور چوتھی صدی کی ابتداء میں اس سندعالی کا کوئی راوی آپ کے علاوہ نہ پایا جاتاتھا، اس لیے رواۃ نے آپ سے بڑھ چڑھ کر احادیث روایت کیں ، مشاہیر رواۃ تلامذہ کا تذکرہ درج ذیل ہے۔
سنن نسائی کے رواۃ
امام نسائی کے تلامذہ میں سے جن لوگوں نے آپ سے سنن کی روایت کی ہے، حافظ ابن حجر نے ان میں سے دس رواۃ کا تذکرہ کیاہے ،جو حسب ذیل ہیں:
۱- عبدالکریم بن احمدبن شعیب النسائی (ت:۳۴۴ھ): عبداللہ بن محمد بن اسد جہنی ، ایوب بن حسین قاضی ثغر اور خصیب بن عبداللہ نے عبدالکریم سے سنن روایت کی ، ابن خیرکہتے ہیں: ابومحمد بن اسد کے پاس کتاب الطب (دوجزء میں) تھی جس کی روایت میں وہ ابوموسیٰ عبدالکریم بن احمد بن شعیب نسائی سے منفرد تھے۔ ( فہرست ابن خیر ۱۱۳، تہذیب التہذیب ۱/۳۷) ابن خیر فہرست میں لکھتے ہیں کہ ابوعلی غسانی کہتے ہیں:کتاب المجتبیٰ کی روایت نسائی سے سے ان کے لڑکے عبدالکریم اور ولید بن القاسم الصوفی نے کی ہے(فہرست ابن خیر ۱۱۶، ۱۱۷)
۲- ابوبکر احمد بن محمد بن اسحاق ابن السنی الدینوری (ت:۳۶۴ھ): حافظ ابن حجر نے ان کو سنن صغری کے رواۃ میں لکھاہے ، لیکن ابن خیرنے اپنی فہرست میں ان کا تذکرہ سنن کے رواۃ میں نہیں کیاہے، المجتبی یعنی نسائی کی سنن صغریٰ کے یہ راوی ہیں، (سیر أعلام النبلاء ۱۶/۲۵۵)موجودہ سنن صغریٰ کے متداول نسخے ابن السنی ہی کی سندسے ہیں، واضح رہے کہ تحقیق سے یہ ثابت ہے کہ سنن صغریٰ (المجتبیٰ ) کے مؤلف امام نسائی ہی ہیں، ابن السنی صرف اس کے راوی ہیں،بعض لوگوں نے سنن صغریٰ میں ابن السنی کی بعض زیادات اور افادات سے یہ استدلال کیا ہے کہ یہ ابن السنی کی تالیف ہے، جب کہ اہل علم کے یہاں یہ بات معروف ومشہور ہے کہ رواۃ اپنے شیوخ کی کتابوں میں اضافے کرتے رہے ہیں، مثال کے طور پر مسند احمد، اور فضائل صحابہ میں عبداللہ بن احمد اور قطیعی کی زیادات ہیں،اور سنن ابن ماجہ میں راوی کتاب ابو الحسن القطان کی زیادات ہیں۔ایک قوی دلیل سنن صغریٰ کی نسائی کی تالیف ہونے کی یہ ہے کہ نسائی نے سنن کبریٰ سے انتخاب کے ساتھ ساتھ سنن صغریٰ میں بہت ساری ایسی احادیث ذکرکی ہیں، جو کبریٰ میں نہیں پائی جاتیں ۔
۳-ابوعلی الحسن بن الخضر الاسیوطی (ت:۳۶۱ھ): ابوالحسن علی بن محمد بن خلف القابسی اور ابوالقاسم عبدالرحمن بن محمد بن علی ادفوی نے ان سے سنن کی روایت کی (فہرست ابن خیر ۱۱۲)
۴- حسن بن رشیق ابومحمد العسکری (ت:۳۷۰ھ): احمد بن عبدالواحدبن الفضل ابوالبرکات الفراء اور ابوالقاسم حسن بن محمد انباری نے ان سے سنن کی روایت کی ۔
۵-ابوالقاسم حمزہ بن محمد بن علی کنانی مصری الحافظ صاحب مجلس البطاقہ (ت: ۳۵۷ھ): ان سے سات رواۃ نے سنن کی روایت کی ، ابن خیر کہتے ہیں: ابومحمد عبداللہ بن محمد بن اسد جہنی کی حمزہ سے روایت والے نسخے میں چند اسمائے کتب ایسے ہیں جو ابومحمداصیلی کی روایت میں نہیں ہیں،ان میں سے مناقب الصحابۃ (۴/جزء ) ، کتاب النعوت (۱/جزء) کتاب البیعۃ (۱/جزء) کتاب ثواب القرآن (۱/جزء) کتاب التعبیر (۱/جزء) کتاب التفسیر (۵/جزء) ہیں، اوران کتابوں کی قاضی حمزہ سے روایت ابوعبداللہ محمد بن احمد بن یحیی بن مفرج اور ابوالقاسم احمد بن محمد بن یوسف المعافری نے کی ہے ، اور یہ دونوں رواۃ محمد بن اسد کے ساتھی ہیں،محمد بن قاسم نے بھی ان کتابوں کی روایت نہیں کی ہے، اور نہ ہی ابوبکر بن الاحمر نے ، ہاں ابن قاسم کے پاس کتاب الاستعاذۃ اور فضائل علی بن ابی طالب ان سے مستثنیٰ ہیں،ابن خیر مزید کہتے ہیں: اس تصنیف کے علاوہ مجھے ابومحمد بن یربوع کے خط سے کتاب الإ یمان وکتاب الصلح ملی ہے، کتاب الإیمان بروایت ابوعلی حسین بن محمد الغسانی عن ابی عمر ابن عبدالبر عن أبی القاسم أحمد بن فتح التاجر عن حمزۃ بن محمد کنانی ہے، اور ابوعلی الغسانی بھی اسے اس سند سے روایت کرتے ہیں: ابومروان عبدالملک بن زیادۃ اللہ التمیمی عن أبی إسحاق إبراہیم بن سعید بن عبداللہ الحبال عن أبی الفرج محمد بن عمر الصدفی عن حمزۃ الکنانی فی رجب ۳۵۴ھ) قال:
حدثنا أبوعبدالرحمن النسائي قرائة بلفظه (فہرست ابن خیر ۱۱۵)،حافظ مزی تحفۃ الأشراف میں ایک سے زیادہ بارکہتے ہیں کہ کتاب المواعظ کی روایت صرف ابوالقاسم حمزہ کنانی نے کی ہے۔
۶- ابن حیویہ : ابوالحسن محمد بن عبدالکریم بن زکریابن حیویہ نیساپوری مصری(ت:۳۶۶ھ): ابوالحسن قابسی فقیہ ، ابوالحسن علی بن منیر الخلال اور ابوالحسن علی بن ربیعہ البزار نے ان سے سنن کی روایت کی (فہرست ابن خیر ۱۱۵) حافظ مزی نے تحفۃ الأشراف میں ابن حیویہ کی روایت پر اعتماد کیاہے۔
۷- محمد بن معاویہ بن الاحمر الاندلسی القرطبی (ت:۳۵۸ھ): (سنن کبری )کے سماع کے بعد ا سے لے کر آپ اندلس گئے، اور لوگوں نے یہ کتاب آپ سے سنی ، اس وقت سنن کبریٰ کا مطبوعہ نسخہ ابن الاحمر اور ابن سیار کی روایت سے ہے۔ ابن الاحمرسے سنن کی روایت درج ذیل رواۃ نے کی ہے: ۱-ابوالولید یونس بن عبداللہ بن مغیث القاضی ، ۲-سعید بن محمد ابوعثمان القلاس ،۳- محمد بن مروان بن زہر ابوبکر الإیادی ،۴- عبداللہ بن ربیع بن بنوس ابو محمد (فہرست ابن خیر۱۱۰)۔
۸- محمد بن قاسم بن محمد بن سیار القرطبی الاندلسی ، ابوعبداللہ (ت:۳۲۷ھ): ابومحمد عبداللہ بن محمد بن علی الباجی ،اور ابوبکرعباس بن اصبغ الحجازی نے ان سے سنن کی روایت کی ، ابن خیر کہتے ہیں: محمد بن قاسم اورابوبکر بن الاحمرکا سماع ایک ہی تھا، محمد بن قاسم کے نسخے میں ''فضائل علی وخصا ئصہ'' اور ''کتاب الاستعاذۃ'' تھیں، یہ دونوں کتابیں ابن الأحمر کے نسخے میں نہیں تھیں(فہرست ابن خیر۱۱۱،۱۱۲، تہذیب الکمال ۱/۳۷)
۹- علی بن ابی جعفر احمد بن محمد بن سلامہ ابوالحسن الطحاوی (ت: ۳۵۱ھ) (تہذیب التہذیب ۱/۳۷)
۱۰- ابوبکر احمد بن محمد بن المہندس(ت:۳۸۵ھ): یہ سب نسائی سے سنن کی روایت کرنے والے حضرات ہیں (تہذیب التہذیب ۱/۳۷)، ابن المہندس سے ابوعبداللہ محمد بن عبداللہ بن عابد المعافری نے سنن کی روایت کی(فہرست ابن خیر۱۱۵)
سنن نسائی کے ان دس رواۃ کاتذکرہ حافظ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں کیاہے،لیکن ابوبکر احمد بن محمد بن المہندس کے بارے میں حافظ ذہبی کہتے ہیں: ان کے بارے میں جس نے یہ کہاہے کہ انہوں نے نسائی سے سناہے، اس سے غلطی ہوئی ہے(سیر أعلام النبلاء ۴۶۲)۔
۱۱- ابوالقاسم مسعود بن علی بن مروان بن الفضل البجّانی: (سفر حج کے دوران مصرمیں نسائی سے اخذ کیا، اور سنن کی روایت کی (تاریخ ابن الفرضی ،رقم الترجمہ ۲۱۴۶، اللباب فی الانساب لابن الاثیر ،مادہ : البجانی ، والمشتبہ للذہبی ص:۵۱، وتوضیح المشبہ لابن ناصرالدین الدمشقی ۱/۳۷۰، ۳۷۱، و حاشیہ تہذیب الکمال ۱/۳۳۳) ۔
۱۲- ابوہریرۃ بن ابی العصام : احمد بن عبداللہ بن الحسن بن علی العدوی : عبداللہ بن محمد بن اسد جہنی نے ان سے سنن کی روایت کی ، (فہرست ابن خیر ۱۱۴)
۱۳- ابن ابی التمام :احمد بن محمد بن عثمان بن عبدالوہاب بن عرفہ بن ابی التمام ،امام جامع مسجد مصر: ابومحمد أصیلی اور حافظ ابوالقاسم خلف بن القاسم نے ان سے سنن کی روایت کی ،ابن خیر کہتے ہیں: سنن نسائی کی ''کتاب الصلح'' کی روایت ابوعلی الغسانی ابو شاکر عبدالواحد بن محمدبن موہب الأصیلی سے کرتے ہیں، اور ابوعلی اسے بسند ابن عبدالبر عن ابی القاسم خلف بن القاسم روایت کرتے ہیں، پھر أصیلی اور ابوالقاسم دونوں ابوالحسن ابن عرفۃ عن النسائی اسے روایت کرتے ہیں(فہرست ابن خیر ۱۱۳)، واضح رہے کہ سنن صغریٰ اور کبریٰ دونوں میں ''کتاب الصلح'' موجود نہیں ہے،حافظ مزی اور حافظ ابن حجر نے بھی اس کی طرف کہیں اشارہ نہیں کیاہے۔
۱۴- ابوعلی حسن بن بدر بن ابی ہلال : ابوالحسن علی بن محمد بن خلف قابسی نے ان سے سنن روایت کی ہے(فہرست ابن خیر ۱۱۲)
۱۵- ابواحمد حسین بن جعفر بن محمد الزیات : خلف بن قاسم بن سہل الدباغ الحافظ نے ان سے سنن کی روایت کی (فہرست ابن خیر ۱۱۴)
۱۶- ابومحمد عبداللہ بن حسن المصری (تحفۃ الأشراف ۱۱۱۳۱)
۱۷- ابوالطیب محمد بن فضل بن عباس (تحفۃ الأشراف ۵۳۱۸)
۱۸- ابوالحسن علی بن الحسن الجرجانی (تاریخ جرجان ۳۱۷)
۱۹- ولید بن القاسم الصوفی: ابن خیر فہرست میں لکھتے ہیں کہ ابوعلی غسانی کہتے ہیں:کتاب المجتبیٰ کی روایت نسائی سے سے ان کے لڑکے عبدالکریم اور ولید بن القاسم الصوفی نے کی ہے(فہرست ابن خیر ۱۱۶، ۱۱۷)
مزید بعض مشاہیر تلامذہ درج ذیل ہیں:
۲۰- ابوالقاسم سلیمان بن احمدطبرانی
۲۱- ابوعوانہ یعقوب بن اسحاق الاسفرایینی
۲۲- ابوبشر الدولابی
۲۳- ابوجعفر محمد بن عمرو العقیلی
۲۴- احمد بن محمد بن سلامہ ابوجعفر الطحاوی
۲۵- ابراہیم بن محمد بن صالح
۲۶- ابوعلی حسین بن محمد نیسا پوری
۲۷- ابواحمد عبداللہ بن عدی الجرجانی
۲۸- ابوسعید عبدالرحمن بن احمد بن یونس بن عبدالاعلی الصدفی صاحب تاریخ مصر
۲۹-محمد بن سعد السعدی الباوردی
۳۰- ابوعبداللہ محمد بن یعقوب بن یوسف الشیبانی الحافظ المعروف بالاخرم
۳۱- منصور بن اسماعیل المصری الفقیہ
۳۲- ابوبکر محمد بن احمد بن الحداد الفقیہ
مؤخر الذکر ابوبکر بن الحداد ایسے شخص ہیں جنہوں نے امام نسائی کے علاوہ کسی اور سے روایت نہیں کی، امام دارقطنی فرما تے ہیں:
كان ابن الحداد كثير الحديث ولم يحدث عن غير النسائي وقال: جعلته حجة بيني وبين الله تعالى (ابن الحداد کثیر الحدیث تھے، نسائی کے علاوہ کسی اور سے روایت نہیں کی ، کہتے ہیں کہ میں نے نسائی کواپنے اور اللہ کے درمیان حجت بنایاہے) (طبقات الشافعیہ ۲/۱۱۳، تذکرۃ الحفاظ۲/۷۰۰، البدایۃ ۱۱/۱۲۳) ۔
حفظ واتقان
اللہ تعالیٰ نے امام نسائی کو غیر معمولی قوت حفظ سے نوازاتھا ، یہاں تک کہ ذہبی نے انہیں امام مسلم سے بڑا حافظ حدیث کہا۔
ابن یونس مصری کہتے ہیں:
كان النسائي إماما في الحديث ثقة ثبتا حافظا (البدایہ ۱۲۳) (نسائی امام حدیث ، ثقہ ، عادل اور حافظ تھے۔
سبکی کہتے ہیں:
سألت شيخنا أبا عبدالله الذهبي الحافظ وسألته أيهما أحفظ مسلم بن الحجاج صاحب الصحيح أو النسائي فقال: النسائي (طبقات الشافعیہ ۲/۸۴) (میں نے اپنے استاذ حافظ ذہبی سے پوچھا کہ صاحب صحیح مسلم بن الحجاج اورنسائی میں سے کون زیادہ حدیث کاحافظ ہے، توانہوں نے جواب میں کہا: نسائی)۔
حافظ سیوطی کہتے ہیں:
الحافظ أحد الحفاظ المتقنين(حسن المحاضرۃ ۱/۱۴۷ ) (نسائی ایک پختہ حافظ حدیث ہیں) ۔