مدون
۲۔ مدون صورت میں: اس مرحلہ میں یہی چیدہ موتی باہم پروئے گئے۔لڑی سے جب لڑی ملتی گئی تو اصول حدیث بنتے گئے اوراس موضوع پر کتب آنا شروع ہوگئیں۔ ہر اصول صرف صحیح حدیث کو قبول کرنے اور ضعیف وموضوع حدیث کو رد کرنے کا بنا مثلاً: ثقہ راوی اگر ثقات کی مخالفت کرے تو ثقہ کی روایت ضعیف قرار دے کر ثقات کی روایت کو ترجیح دی جائے یا ایک حدیث میںرسول اکرم ﷺ کا حکم ہو اور دوسری حدیث میں عمل کا ذکر ہو تو اصول یہ بنایا کہ ہم حکم کے پابند ہیں اس لئے حکم کو لیا جائے گا اور عمل آپﷺ کے لئے خاص گردانا جائے گا۔
٭…یاد رہے ہر مصطلح کسی بھی حدیث کی ایک طویل تحقیق و تفتیش کا لب لباب یا اس پر مختصر تبصرہ ہے۔مثلاً محدث کا کسی حدیث کو سادہ لفظ میں صحیح ، ضعیف یا موضوع کہہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ محدث نے اس متن حدیث کو سمجھنے کے لئے اس حدیث کے دیگر تمام متون مختلف کتب سے تلاش کئے۔ سند میں راویوں کے نام ، ان کی کنیتیں،انساب اور القاب تک کو پہچانا، شاگرد و استاد کی ملاقات ، ان کی ثقاہت وعدالت یا ضعف وارسال ، نیز اخذ واداء کے الفاظ اور فرق وغیرہ اور اسانید کے رواۃ کا باہم مقابلہ کیا ۔ان کے الفاظ و معنی کے ضبط کو دیکھا ۔ کتب بھی دیکھیں، مشایخ سے سنا اور راوی کو دیکھا بھی۔پھر آخرمیں یوں کہہ دیا: یہ حدیث صحیح ہے یا یہ حدیث ضعیف و موضوع ہے وغیرہ۔ چنانچہ یہ ایک قاعدہ اور ضابطہ قرار پایا کہ جب کوئی علم حدیث کا ماہر عالم کسی حدیث کو صحیح کہہ دے تو یہ ایک مصطلح ٹھہرے گی اوراپنی تمام تر شروط کے ساتھ قابل قبول ہوگی۔
٭…کسی ضعیف حدیث کو صحیح اور صحیح کو ضعیف قرار دینے کے اصول صرف درایتی نہیں بلکہ روایتی بھی ہیں۔ روایت میں درایت کا استعمال تو ہے مگر درایت میں روایت کو کوئی جگہ نہ دینا اصول حدیث نہیں۔
٭…یہی وہ قواعد ہیں جن کے اطلاق اور تطبیق (Implementation) سے کسی بھی حدیث کی صحت و ضعف کا پتہ چل جاتا ہے۔ ان پر بے شمار کتب بھی لکھی گئیں۔جن کا تاریخی تذکرہ امام ابن حجرؒ(م:۸۵۲ھ) نے کیا ہے۔
٭…باضابطہ اولین کتاب سب سے پہلے قاضی ابومحمدالحسن بن عبد الرحمن بن خلاد رامہرمزی (م۔۳۶۰ھ) نے لکھی۔جس کا نام المحدث الفاصل بین الراوی والواعی رکھا۔ابتدائی کتاب ہونے کے باوجود پھر بھی اس میں بے شمار علمی فائدے ہیں۔کتاب فن روایت اور اس کے آداب کو متنوع صورت میں اجاگر کرتی ہے۔اپنی کتاب میں درایت حدیث سے متعلق بہت سامواد بھی جمع کیا جو تیسری صدی ہجری کے ائمہ حدیث کے نقدی تبصروں اور الفاظ پر ہی مبنی تھا۔بہت سے مباحث کی ۔۔بقول حافظ ابن حجر۔۔پھر بھی اس میں کمی رہی۔
٭…حافظ ابوعبد اللہ بن مندہ(م: ۳۹۵ھ) رحمہ اللہ نے بھی قرائت وسماع ، مناولہ اور اجازت حدیث پر ائمہ حدیث کی شروط ایک جزء میں جمع کیں جس کا ذکر حافظ سبط ابن العجمی نے اپنی کتاب
التبیینُ لأسماءِ المُدَلِّسین میں کیا ہے۔
٭…امام ناقد ابن حبان البستی (م: ۳۵۴ھ)نے اپنی حدیثی کتاب
التقاسیمُ والأنْواعُ کا جو مقدمہ لکھا وہ اصول حدیث کا شاہکار ہے۔ دوسری کتاب المجروحین اور تیسری کتاب الثقات کے مقدمے بھی اصول حدیث اور مصطلحات کے مباحث سے مملو ہیں۔بالخصوص پہلی دو کتب کے مقدمے تو علوم حدیث کی تاریخ اور اس کے اہم مباحث اور قواعد کا تفصیلی ذکر کرتے ہیں۔اسی صدی کے شروع میں امام ابوسلیمان حمد بن محمد بن ابراہیم الخطابی(م: ۳۸۸۔ھ) نے اپنی کتاب
مَعَالِمُ السُّنَنِ کا مختصر مقدمہ لکھا جس میں انہوں نے حدیث کی تقسیم صحیح حسن اور ضعیف میں کرڈالی۔یہ اولین کوشش تھی جوروایات حدیث کی تقسیم کی کی گئی۔امام ابو الحسن علی بن محمد بن خلف القابسی(م: ۴۰۳ھ) نے مختصَرُ
موطأ عَنْ مالِكٍ کتاب جو
الْمُلَخَّصُ لکھی جس کے مقدمے میں اتصال ، انقطاع، الفاظ اداء اور حدیث مرفوع ودیگر انواع پر بحث کی۔
٭…امام حاکم ابوعبد اللہ نیسابوری(م:۴۰۵ھ) نے
معرِفَةُ علمِ الحدیثِ لکھی جوابن خلاد رامہرمزی کی کتاب کا تکملہ تھی۔ جس میں مصطلح الحدیث کے علاوہ اس کتاب کے بعض الفاظ کی شرح اور مثالیں بطور وضاحت دی گئیں۔امام حاکمؒ نے اس میں جن ابحاث کو سمیٹا ان میں اسناد عالی ونازل، موقوف ومرسل، اور منقطع، معنعن، معضل اور صحیح وسقیم ودیگر انواع کی تقسیم تھی۔جن کی تعداد باون تک پہنچ گئی۔یہ وضاحت بھی اس میں موجود ہے کہ یہ تمام مصطلحات اور اصول حدیث تیسری صدی ہجری کے ائمہ حدیث کا ہی منہج ہے۔ بہرحال یہ کتاب غیر مرتب اور مزید تحقیق طلب تھی۔ا بونعیم اصفہانی(م: ۴۳۰ھ) نے بھی زیادہ تر امام حاکمؒ کے طریقہ کار کو اپنا کر مستخرَج علی معرفۃِ علومِ الحدیث تصنیف کی اس لئے کہ مستخرج کتاب کا مزاج ہی یہی ہوا کرتا ہے۔یہ کتاب بھی تشنہ رہی اور بعد والوں کے لئے بہت کچھ کرنے کو باقی رہ گیا۔
٭…پانچویں صدی ہجری میں حافظ مشرق امام ابوبکر خطیب بغدادیؒ(م۔۴۶۳ھ) نے علوم حدیث پر بہت لکھا ،ان ابحاث کو سمیٹا، مرتب کیا، کہیں تفصیل دی تو کہیں تقسیم بھی کی۔انہی کے بارے میں ابوبکرؒبن نقطہ الحنبلی نے التقیید میں لکھا:
کُلُّ مَنْ أَنْصَفَ عَلِمَ أنَّ الْمُحدثینَ بَعْدَ الْخطیبِ عِیالٌ علَی کُتُبِہِ۔ جو بھی منصف ہے وہ بخوبی جان لے گا کہ محدثین کرام ، خطیب بغدادی کے بعد ان کی کتب کے محتاج ہیں۔(التقیید)
یعنی سبھی ان کی کتب سے علم حدیث کی غذا لیتے اور مستفید ہوتے ہیں۔امام ابن حجرؒ نے انہیں یوں خراج تحسین پیش کیا ہے:
قَلَّ فَنٌّ مِنْ فُنُونِ الْحدیثِ إِلَّا وَقَدْ صَنَّفَ فِیہ ِکتَابًامفردًا۔ فنون حدیث میں شاید ہی کوئی فن ایسا ہو جس پر انہوں نے مستقل کتاب نہ لکھی ہو۔
ان کتب میں سب سے عمدہ اور مفید کتاب
الکِفایةُ فِی عِلْمِ الرِّوایَةِ ہے جو علوم حدیث اور اس کی روایت کے اصول وقوانین پر مشتمل ہے ۔ اس کتاب کا منہج مؤلف نے مقدمہ میں یوں واضح کیا ہے:
فِی ھٰذَا الکِتابِ: مَا بِطَالِبِ الْحَدیثِ حَاجَةٌ إلی مَعْرِفتِہِ، وبِالْمُتَفَقِّہِ فَاقَةٌ إلٰی حِفْظِہِ، وَدِرَاسَتِہِ مِنْ بَیَانِ أُصولِ عِلْمِ الْحَدیثِ وَشَرائِطِہِ، وَأَشْرَحُ مِنْ مَذَاھِب سَلَفِ الرواةِ وَ النَّقَلَةِ فِی ذَلِکَ مَا یَکْثُرُ نَفْعُہُ وتَعُمُّ فائدتُہ۔ اس کتاب میں وہ کچھ ہے جس کی معرفت ایک طالب حدیث کے لئے ضروری ہے ۔اور فقیہ بننے کے خواہشمند بھی اس کے حفظ اور مطالعے کے ضرورت مند ہیں کہ اصول علم حدیث اور ان کی شرائط کی وضاحت ہو۔ اس سلسلے میں،میں نے پہلے رواۃ اور حدیث کے ناقلین کے مذاہب کو بھی واضح کیا ہے جن کا ان شاء اللہ بہت نفع اور عام فائدہ بھی ہوگا۔
امام خطیب ؒبغدادی کی علوم حدیث پردوسری اہم کتاب،
الجَامِعُ لِآدابِ الشَّیْخِ وَالسَّامِعِ ہے۔جس میں شیخ اور شاگرد یا سامع کے حدیث سننے اور بیان کرنے کے آداب کو انتہائی عقیدت مندی سے بیان کیا ہے اور اسلاف کی مثالیں دے کر حدیث ، اس کی مجالس کا ادب واحترام نیز مشایخ حدیث کی شخصیت ، دروس حدیث کی تیاری اور سامعین کی حاضری ، سننے ولکھنے کے آداب وغیرہ کے مباحث شامل ہیں۔
٭…ابو العباس احمد بن فرح اللخمی إشبیلی دراز قد، بارعب اورو جیہ شخصیت کے مالک عالم حدیث تھے۔ انہوں نے علم حدیث پر ایک بڑا ملیح غزلیہ قصیدہ لکھا جسے امام دمیاطی اور الیونینی نے سنا ۔یہ شائع ہوچکا ہے جس کے کل بیس اشعار تھے۔ اس کا ایک شعر امام ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی تاریخ(۲ ۵؍۳۸۴) میں لکھا ہے:
غَرَامِیْ صَحِیْحٌ وَالرَّجَا فِیْكِ مُعْضَلُ وَحُزْنِیْ وَدَمْعِیْ مُرْسَلٌ وَمُسَلْسَلُ
میری محبت بالکل صحیح ہے اور تیرے بارے میں امید ٹوٹی پھوٹی (معضل) ہے میرا غم اور میرے آنسوبہہ (مرسل) رہے ہیں اور مسلسل بہہ رہے ہیں
٭… اسی صدی کے حافظ حدیث امام ابویعلی الخلیل بن عبد اللہ بن احمد الخلیلی(م: ۴۴۶ھ) نے ایک انتہائی عمدہ کتاب اصول حدیث پر لکھی جس کا نام
الإرشاد فی معرفۃ ِعلماءِ الحدیث رکھا۔ اس کی نفاست: تقدیم،مصطلحات حدیث ، ان کی شرح اور مثالوں میں عیاں ہوتی ہے۔ہر قسم کی ملاوٹ سے پاک محدثین کے پنگھٹ کا صاف وشفاف علم ، اقوال زریں سمیت انہوں نے پیش کیا ہے۔امام بیہقیؒ(م: ۴۵۸ھ) نے بھی
المَدْخَلُ إِلَی السُّنَنِ الْکُبْرٰی کتاب لکھی۔ جس کا دوسرا حصہ طبع ہوا ہے مگر پہلا جزء ابھی تک طبع نہیں ہوسکاجس میں علوم الحدیث اور اس کی مصطلحات پر مکمل بحث ہے۔ محقق محترم ڈاکٹر ضیاء الرحمن اعظمی نے اس جزء کی نقول اور اقتباسات کو مختلف کتب سے تلاش بسیار کے بعد شائع کیا ہے ۔ امام ابن کثیر ؒ نے مقدمہ ابن الصلاحؒ کے بعد امام بیہقیؒ کی اس کتاب کو علم حدیث کا مرجع ثانی قرار دیا ہے۔ المَدْخَلُ میں چوتھی صدی ہجری کے علماء حدیث کے اصول روایت اور اس کے قواعد سے متعلق اقوال بہ اسناد منقول ہیں۔
٭…حافظ مغرب امام ابوعمر یوسف ابن عبد البر اندلسی(م: ۴۶۳ھ) نے موطأ کی شرح
التَّمْھِیْدُ لِمَا فِی الْمُوَطَّأِ مِنَ الْمَعَانِی وَالْمَسَانِیدِ کا ایک انتہائی نفیس مقدمہ لکھا جو علم حدیث اور مصطلحات حدیثیہ کی ابحاث میں بہت ہی جامع وشامل اور انتہائی مفید ہے ۔ حافظ ابنؒ الصلاح اپنی کتاب
مَعْرِفَةُ أنواعِ عِلْمِ الْحَدِیثِ میں اس سے بھی مستفید ہوئے ہیں۔
٭… امام علی ؒبن احمد بن سعید اندلسی (م: ۴۵۶ھ)، جو ابن حزم الظاہری کے نام سے شہرت رکھتے ہیں کی کتاب الإحْکامُ فِی أُصولِ الأحْکامِ میں علوم حدیث کے قواعدو مصطلحات بھی ہیں مگر یہ انہی کی اختراع ہیں نہ کہ محدثین کرام کے۔
٭… قاضی عیاض بن موسیٰ یحصبیؒ(م۔۵۴۴ھ) کے نصیب میں
الإلْمَاعُ إِلَی مَعْرِفَةِ أصولِ الرِّوایةِ وَتَقْیِیْدِ السَّمَاعِ جیسی مختصر مگر مفید کتاب تھی جس میں اصول روایت، طرق تحمل حدیث، ان کی حجیت نیز الفاظ اداء حدیث اور اس کے آداب جیسے اہم مباحث ہیں۔اس کتاب میں مصطلحات حدیثیہ پرکوئی خاص گفتگو نہیں ۔مقدمہ صحیح مسلم کی شرح
إِکْمَالُ الْمُعْلِمِ بِفَوَاِئدِ مُسْلِمٍ میں علوم حدیث کے بعض اہم مباحث کا تذکرہ ہے۔ چونکہ قاضی عیاض ؒ ایک اصولی اورفقیہ بھی تھے اس لئے ان کی اس شرح میں فقہاء، اصولیین اور متکلمین کے اقوال کی بھرمار ہے جس کا غلبہ متاخر محدثین پر بھی نظر آتا ہے۔
٭…ابوحفص میانجی یا میانشی جو عمر بن عبد المجید بن عمر القرشی نزیل مکہ (م:۵۸۰ھ) تھے انہوں نے بھی
مَالَا یَسَعُ الْمُحَدِّثَ جَھْلُہُ نامی کتاب لکھی ۔یہ ایک مختصر اور مفید کتابچہ ہے جس کا غالب حصہ امام حاکمؒ کی کتاب معرفۃ علوم الحدیث اور امام خطیبؒ بغدادی کی کتاب الکفایۃ سے منقول ہے۔
٭…امام ابو السعادات مبارک بن محمد (م: ۶۰۶ھ) ابن الاثیر کی کتاب جَامِعُ الأصولِ کے مقدمہ کا باب ثالث علم حدیث اوراس سے متعلقات کا شاہکار ہے ۔ فصیح عبارت، بہتر اسلوب ولطافت میں یہ اپنی مثال آپ ہے۔باب کے آغاز میں ہی انہوں نے اعتراف کیا کہ میری یہ محنت امام ترمذیؒ ، امام حاکمؒ، اور خطیب بغدادیؒ کی کتب کی مرہون منت ہے۔
٭… ابوبکر محمد بن موسیٰ الحازمی(م: ۵۸۵ھ) کی
شُروطُ الأئِمَّۃِ الْخَمْسَۃِ،ابو الفضل محمد بن طاہر المقدسی(م: ۶۰۷ھ) کی
شرُوطُ الأئِمَّۃِ السِّتَّۃِ، ابوطاہر احمد بن محمد السلفی (م:۵۷۶ھ)کی
الوَجِیزُ فِی ذِکرِ الْمَجازِ وَالْمُجِیزِ، (تحقیق وتخریج ڈاکٹر فرحت ہاشمی) وغیرہ بھی قابل ذکر ہیں۔اس فن میں بے شمار کتب ہیں مگر آخر میں دو اہم کتب کا تعارف ضرور ی ہے جن سے علم حدیث کو نئی جہت ملی ۔ان میں پہلی کتاب کے مصنف :
٭…
علومُ الحدیث یا
مُقَدِّمَۃُ ابنِ الصلاحِ یہ ابوعمرو عثمان بن الصلاح عبد الرحمن شہرزوری (م:۶۴۱ھ) کی تصنیف ہے ۔ دمشق کے مدرسہ اشرفیہ میں تدریس حدیث کے دوران انہوں نے اس فن کا گہرا مطالعہ کیا۔ بالخصوص امام خطیب بغدادی کی کتب سے مستفید ہوئے۔ اسے سمیٹا ،نئی ترتیب دی اورپھر تھوڑا تھوڑا کرکے املاء کرایا ۔اور پینسٹھ انواع علوم حدیث بیان کیں۔مگر کتاب ویسی مرتب نہ ہوسکی جیسا اس کا حق تھا ۔ اس کتاب کے بعد علم حدیث کا فن اپنی جولانیوں سمیت تھم گیا۔