الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں
۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔
ایک اہلحدیث نے کہا؛
اب آپ اگر سمجھدار ہیں تو سمجھ جانا چاہیئے کہ جو اہل ہوگا رائے کا اسی کا فہم معتبر ہوگا نا کہ اہلحدیث کا۔
ہاں اگر کوئی اہلحدیث (جیسے احمد بن حنبل رحمہ اللہ) اہل الرائے بھی ہے تو الگ بات ہے۔
ہاں اہلحدیث قابل احترام ہے کہ اس نے وہ حدیث (بفرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم) فقہاء تک...
عصبیت پر جان دینا
کیا کوئی ایسی حدیث ذخیرہ احادیث میں موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہو کہ؛
جس نے عصبیت پر جان دی وہ ہم میں سے نہیں
اگر کوئی ایسی حدیث ہے تو وہ لکھ دی جائے۔ شکریہ
نماز میں تیسری رکعت کو اٹھتے وقت کی رفع الیدین کا کوئی اہلسنت قائل نہیں رہا۔
نماز میں بائیں پوری ذراع پر دائیں پوری ذراع رکھنا کسی حدیث سے ثابت نہیں لہٰذا خلاف سنت ہؤا۔
لہٰذا سبیل المؤمنین کی مخالفت اور سنت کی مخالفت سے بچیں۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ؛
{وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا } [النساء: 115]
اب جو شخص دنیائے اسلام کے تمام اہلسنت کے خلاف راہ پر گامزن ہو اس کو ڈرنا چاہیئے...
احادیث سے روگردانی کے لئے کتنے جتن کیئے جارہے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو (جو انفردی نماز پڑھ رہے تھے) رفع الیدین سے منع کیا۔
کبھی کہتے ہو اس میں رکوع کا ذکر نہیں، کبھی کہتے ہو کہ فلاں نماز کو اس سے کیوں استثناء فلاں کو کیوں؟
تأویلات کون کر رہا ہے؟
کبھی اصول کرخی کا رونا...
تعصب اور غصہ کی حالت میں بات سمجھ نہیں آیا کرتی۔
اس کا ثبوت خود تمہاری ہی تحریر سے؛
میں نے جو روعایت لکھی اس کو بغور دیکھ لیں؛
صحيح مسلم:
جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا...
کونسا قاعدہ میرا خود ساختہ ہے؟
کونسی بات میں نے لاعلمی والی کی؟
میں تو قرآن کی اس آیت کو لے کر چل رہا ہوں؛
{وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا} [النساء: 115]...
محدثین نے تو کمال دیابنت سے کام لیتے ہوئے مجروح راوی کی نشاندہی کر دی۔
اس مجروح راوی کے ضعف کا اثر کس حدیث میں ہے کس مین نہیں یہ فقہاء بتاتے ہیں اور انہی کی وضاحت معتبر ہوتی ہے۔
کچھ احادیث سے انکار کے لئے دور ازکار تأویلات کرتے ہو کچھ کو ضعیف کہہ کر ٹھکراتے ہو۔
جیسے درج ذیل حدیث کو رد کرنے کے لئے آپ لوگ؛
صحيح مسلم :
جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا...
کیا رکوع و سجود میں تسبیحات پڑھنا واجب ہیں؟
فرض واجب سنت مستحب وغیرہ کی اصطلاحات کس بنا پر استعمال کی جاتی ہیں؟
کیا ان سب کے احکام ایک جیسے ہیں یا مختلف؟
قرآن و حدیث سے واضح فرما دیجئے۔