• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آپ کے مسائل اور ان کا حل

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتا، شریعت کی نظر میں
س: میرے باپ نے گھرکی رکھوالی کے لئے ایک کتا رکھا ہوا ہے۔ مجھے کئی ساتھیوں نے کہا کہ اس کو ماردو۔ سوال آپ سے یہ ہے کہ کیا کتے کا گھر میں رہنا جائز ہے یا نا جائز؟ اور کیا اگر میں اسے مار دوں تو مجھ پر کوئی گناہ تو نہ ہوگا؟

ج: اگرچہ غیر مسلم اقوام میں کتے کو بہت اہمیت حاصل ہے حتیٰ کہ وہ گھر کے ایک فرد کی حیثیت اختیار کر گیا ہے اور ان کے ہاں یہ محاورہ بن گیا ہے کہ اگر تمہیں مجھ سے محبت ہے تو میرے کتے سے بھی محبت کرنا ہو گی۔ یہاں تک کہ اب یہ محبت بڑھ کر غلط مراحل میں داخل ہو چکی ہے۔ اسلام میں کتاب ایک نا پسندیدہ جانور ہے اسے گھر میں رکھنے سے رحمت کے فرشتے گھر میں داخل نہیں ہوتے:
''ابو طلحہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا(رحمت کے)فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا ہو یا تصویریں ہوں۔''(بخاری و مسلم ، مشکوٰةباب التصاویر)
ایک دفعہ وعدہ کے باوجو دجبریل علیہ السلام گھر میں نہیں آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت غمگین ہوئے بعد میں معلوم ہوا کہ حسن رضی اللہ عنہ یا حسین رضی اللہ عنہ جو ابھی بچے تھے گھر میں کتے کا پلا لے آئے تھے۔
۱) اگر کتا کسی برتن میں منہ ڈال دے تو اس کا پانی گرا دینے اور اسے ساتھ دفعہ دھونے کا حکم ہے:
''ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کسی شخص کے برتن میں کتاب منہ ڈال جائے تو اسے پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اسے ساتھ مرتبہ دھوئے جن میں سے پہلی مرتبہ مٹی کے ساتھ ہو۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے اور اس کے ایک لفظ میں ہے کہ اسے گرادو۔ '' (بلوغ المرام، باب المیاہ ، کتاب الطھارة)
۲) خالص سیاہ رنگ کا کتا نمازی کے آگے سے گزر جائے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے اگر اس کے سامنے سترہ نہ ہو اور اس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ : ''سیاہ کتا شیطان ہے ۔'' (صحیح مسلم باب مایستر المصلی)
۳) خالص سیاہ کتے کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے:
''عبداللہ بن مغفل راوی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہ بات نہ ہوتی کہ کتے امتوں میں سے ایک امت ہیں تو میں تمام کتے مار ڈالنے کا حکم دے دیتا تو تم ان میں سے خالص سیاہ کو مارد و۔'' (ابو دائود، ترمذی ، مشکوة باب ذکر الکتاب)
۴) اسی طرح دو نقطوں والے سیاہ کتے کو بھی مارنے کا حکم دیا:
''جابر رضی الہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کتے مار ڈالنے کا حکم دیا یہاں تک کہ بادیہ سے کوئی عورت اپنا کتا لے کر آتی تو ہم اسے مار ڈالتے ۔ پھر رسول اللہ نے انہیں قتل کرنے سے منع فرما دیا اور فرمایا تم دو نقطوں والے کالے سیاہ کتے کو مارو کیونکہ وہ شیطان ہے (دو نقطوں سے مراد ہے جس کی آنکھوں کے اوپر دو نقطے ہوں )۔'' (رواہ مسلم)
۵) اللہ تعالیٰ کی آیات کا علم حاصل ہونے کے بعدخواہشات نفس کی پیروی کی وجہ سے ان سے نکل جانے والے کی مثال کتے کے ساتھ دی گئی ہے (دیکھئے اعراف :۱۷۵،۱۷۶)
بدترین انسان یعنی برے عالم کی مثال کتے کے ساتھ دینے سے اس کی خست (ذلت) واضح ہے۔
۶) اپن ہبہ کو واپس لینے والے کی مثال کتے کے ساتھ دی گئی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''بری مثال ہمارے لئے نہیں ہے جو شخص اپنا ہبہ واپس لیتا ہے ، وہ کتے کی طرح ہے جو اپنی قے دوبارہ چاٹ لیتا ہے۔'' (صحیح بخاری کتاب الھبۃ)
اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ اپنے آپ کو کتا قرار دیتے ہیں خواہ وہ شیخ جیلانی کے کتے بنیں یا مدینہ کے کتے (سگ مدینہ) یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کتے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس جانور کے ساتھ نفرت کو ملحوظ نہیں رکھا۔ اس چیز کے ساتھ خود کو تشبہیہ دینا کیسے درست ہو سکتا ہے جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سخت نفرت رکھتے ہوں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتا رکھنے کی تین صورتیں
گھر میں فرشتوں کے داخل نہ ہونے ، منہ ڈالنے کی وجہ سے برتنوں کے ناپاک ہو جانے اور دوسرے اسباب کی بنا پر گھر میں کتا رکھنا جائز نہیں۔ مگر کتے میں کچھ فائدے بھی ہیں مثلاً سدھائے جانے کی قابلیت ، مانوس ہو جانا، پہرہ داری وغیرہ ۔ اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین قسم کا کتا رکھنے کی اجازت دی ہے۔ شکار کے لئے ، کھیتی کے لئے یا مویشیوں کے لئے۔ ان کے علاوہ اگر کوئی شخص کتا رکھے گا تو روزانہ اس کے اجر سے ایک قیراط کی کمی ہو جائے گی (قیراط اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی مقرر پیمانہ ہے جنازہ میں شامل ہونے کے ثواب والی حدیث میں مذکور قیراط کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک قیراط احد پہاڑ کے برابر ہے)۔
''ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مویشیوں کے لئے یا شکاری کتے یا کھیتی کے علاوہ کسی نے کوئی کتا رکھا تو اس کے اجر سے روزانہ ایک قیراط کم ہو جائے گا۔'' (بخاری و مسلم)
اس سے معلوم ہو اکہ صرف گھر کی حفاظت کے لئے کتا رکھنا جائز نہیں۔ بعض لوگ قیاس کر کے اسے جائز قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں مگر اس صورت میں تین کتوں کو مستثنیٰ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں رہتا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتے کو قتل کرنے کا حکم
جن کتوں کو رکھنے کی اجازت دی گئی ہے انہیں مارنا جائز نہیں۔ رہے عام کتے جو ان تین کاموں میں سے کوئی کام بھی سرانجام نہیں دیتے، ان میں سے خالص سیاہ رنگ کے کتے اور سیاہ رنگ کے اس کتے کو جس کی آنکھوں کے اوپر دو نقطے ہوں، مارڈالنے کا حکم ہے۔ جیسا کہ شروع میں احادیث ذکر ہو چکی ہیں ۔ اس رنگ کے کتے خواہ شکاری ہوں یا کھیتی کے یا مویشیوں کے شیطان ہونے کی وجہ سے مار دینے چاہئیں۔ اسی طرح کاٹنے والے کتے کو بھی مار ڈالنے کا حکم ہے۔ صحیح بخاری اور مسلم میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''یعنی پانچ چیزیں فاسق ہیں انہیں حرم اور غیر حرم میں قتل کیا جائے سانپ اور سیاہ و سفید کو ا، چوہیا ، کاٹنے والا کتا اور چیل ۔'' (مشکوة ، کتاب المناسک)
عام کتے جو نقصان نہ کرتے ہوں ، انہیں مارنا جائز نہیں چونکہ صحیح مسلم مین حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا۔ یہاں تک کہ بادیہ سے کوئی عورت اپنے کتے کے ساتھ آتی تو صحابہ رضی اللہ عنہم اسے مار ڈالتے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قتل کرنے سے منع کر دیا اور فرمایا کہ کالے سیاہ دو نقطوں والے کتے کو قتل کرو کیونکہ وہ شیطان ہے۔
آپ کے والد صاحب نے گھر میں کتا رکھا ہوا ہے اگر شکار یا کھیتی یا مویشیوں کے لئے رکھا گیا ہے تو اس کے رکھنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ وہ خالص سیاہ رنگ یا دو نقطوں والا سیاہ کتا نہ ہو۔ اگر اس رنگ کا ہو تو اسے مار دینا واجب ہے۔ اگر وہ شکاری کتا یا کھیتی یا مویشیوں کا کتا نہیں تو اسے گھر سے نکال دیں۔ ہاں اگر وہ لوگوں کو یا ان کے جانوروں کو کاٹنا شروع کر دے تو اسے مار دینا جائز ہے کیونکہ اس صورت میں وہ کلب عقور ہے یعنی کاٹنے اور زخمی کرنے والا کتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سگ مدینہ
س: کیا اپنے آپ کو سگ مدینہ یعنی ''مدینے کا کتا''کہنا یا لکھنا جائز ہے؟ قرآن و سنت کی رو سے وضاحت فرمائیں؟

ج: اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق بڑے بہترین انداز میں فرمائی اور اس کو اپنی مخلوقات پر شرف و بزرگی عطا کی۔ عقل و شعور کے ذریعے جانوروں سے ممتاز کیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''یقینا ہم نے بنی آدم کو عزت عطا اور خشکی اور تری میں ان کو سواری دی اور ہم نے ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا۔ اور انہیں بہت سی مخلوقات پر فضیلت و برتری عنایت کی۔''(اسراء : ۷۰)
جس خالق نے انسان کو احسن تقویم میں تخلیق کیا اور اسے اپنی دیگر مخلوقات پر برتری و منزلت اور اعلیٰ مقام عطا کیا، اگر انسان اس کا صحیح شکر گزار بند ہ بن کر رہتا ہے تو وہ کبھی بھی یہ پسند نہیں کرتا کہ اس انسان کی مثال کتے سے دی جائے کیونکہ کتا نجس و پلید ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کتے کی مثال مکذوبین کی پیش کی ہے یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلاتے اور استہزاء کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی مثال کتے سے دی ہے اور اسے بری مثال کہا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''(اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ) ان پر اس آدمی کا قصہ تلاوت کیجئے جس کو ہم نے اپنی آیات دیں ۔ وہ ان میں سے نکل گیا (کافر ہو گیا، اللہ سے پھر گیا ) سو شیطان اس کے پیچھے لگا۔ وہ گمراہوں سے ہو گیا اور اگر ہم چاہتے تو ان آیتوں کی وجہ سے اس کا رتبہ بلند کرتے لیکن اس نے زمین پر گرنا چاہا اور اپنی خواہش پر چلا تو اس کی مثال کتے کی طرح ہے۔ اگر تو اس پر حملہ کرے تب بھی زبان لٹکائے یا اگر (اپنے حال پر اس کو چھوڑ دے ) تب بھی زبان لٹکائے۔ یہ ان لوگوں کی مثال ہے جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا۔ پس آپ ان پر یہ قصے بیان کر دیں تا کہ وہ غور و فکر کریں جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور اپنی جانوں پر ظلم کرتے رہے ، ان کی مثلا بری ہے۔''(اعراف : ۱۷۵ تا ۱۷۷)
مذکورہ بالا آیات سے معلوم ہوا کہ کتے کی مثال ان لوگوں کی ہے جو اللہ کی آیات کو جھٹلانے والے مکذبین ہیں۔ اس کی آیات کی تصدیق کرنے والے صحیح مسلمانوں کی یہ مثال نہیں ہو سکتی۔ دوسری بات یہ عیاں ہوئی کہ کتے کی مثال بہت بری ہے۔ اس لئے کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے آپ کو کتا یا کتے کی مثل قرار دیتے ہوئے سگ مدینہ کہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
''ہمارے لئے بری مثال نہیں ہے وہ آدمی جو اپنے ہبہ میں رجوع کرا ہے (یعنی کسی چیز کو ہمیشہ کے لئے دے دیتا ہے پھر اس سے واپس لے لیتا ہے) اس کتے کی مثال ہے جو اپنی قے کی طرف رجوع کرتا ہے (یعنی قے کرنے کے بعد اس کو چاٹتا اور کھاتا ہے)۔''(بخاری۱۴۴/۳(۲۶۶۳)، احمد۲۱۷/۱، ترمذی۵۹۶/۳، نسائی مع حاشیہ سندھی ۱۱۷/۲)

حدیثِ مبارکہ سے بھی معلوم ہوا کہ کتے کی مثال بہت بری مثال ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق یہ کسی مسلمان کی مثال نہیں ہو سکتی۔ اس لئے کہ مسلمان کو جائز نہیں کہ وہ اپنے آپ کو ''سگ'' یعنی کتا کہے کینوکہ کتا اتنا نجس و پلید ہے کہ جس برتن میں منہ ڈال دے، اسے شریعت مطہرہ کی رو سے سات مرتبہ دھونا پڑتا ہے کیونکہ ختم الرسل سید الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
''جب کتا برتن میں منہ ڈال دے تو اسے سات مرتبہ دھونا چاہیے۔'' (بخاری مع فتح الباری۱۴۹/۱۔۲۴۰، مسلم مع نووی۳/۱۸۲، مسند ابی عوانہ۲۰۷/۱، نسائی۵۲/۱۔۵۳، ابنِ ماجہ۱۴۹/۱، حمیدی۴۲۸/۲، ابنِ خزیمہ۵۱/۱، احمد۲۴۵/۲، شرح السنہ۷۳/۲، دار قطنی۱/۶۳۔۶۴)

اسی طرح ایک اور حدیث میں آتا ہے:
''ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ جبرئیل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کا وعدہ کیا لیکن جبرئیل علیہ السلام نہ آئے ۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پھینک دیا اور فرمایا اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی نہیں کرتا نہ اس کے قاصد وعدہ خلافی کرتے ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِدھر اُدھر دیکھا تو ایک پلا یعنی کتے کا بچہ چارپائی کے نیچے دکھائی دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اے عائشہ یہ پلا اس جگہ کب آیا؟ انہوں نے کہا اللہ کی قسم مجھے علم نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا وہ باہر نکالا گیا۔ اس وقت جبرئیل علیہ السلام آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا اور میں تمہارے انتظار میں بیٹھا تھا لیکن تم نہیں آئے تو جبرئیل علیہ السلام نے کہا:
''یہ کتا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں تھا، اس نے مجھے روک رکھا تھا جس گھر میں کتا اور تصویر ہو ، ہم وہاں داخل نہیں ہوتے۔''(مسلم۱۹۹/۲، ترمذی، ابو دائود۷۴/۴، مسند احمد ۸۰/۱،۸۳/۳)

مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ کتا اتنا پلید و نجس جانور ہے جہاں یہ ہو وہاں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے اور جس برتن میں کتا منہ ڈال دے وہ برتن ساتھ مرتبہ دھونا پڑتا ہے۔ لہٰذا انسان کو اتنے نجس و پلید جانور کے مثال نہیں بننا چاہیے اور نہ ہی اپنے آپ کو مدینے کا کتا کہنا چاہئے۔ یہ احکامات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ سمیت ہر جگہ کے کگوں سے متعلق ہیں۔
جو لوگ اپنے آپ کو سگ مدینہ کہتے ہیں ، وہ سمجھتے ہیں کہ یہ نسبت انتہائی تذلل و عاجزی پر مبنی ہے حالانکہ یہ شیطانی فریب اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ اگر یہ نسبت تذلل و عجز و انکساری والی ہوتی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین عظام اور تبع تابعین رحمۃ اللہ علیہم اس سے محروم نہ ہوتے۔ خیر القرون کے لوگوں میں اس طرح کی نسبت کا اشارہ تک نہیں ملتا کہ کسی نے اپنے آپ کو مدینے کا کتا کہا ہو۔ یہ نسبت موجودہ دور کے متصوفین اور قبوری لوگوں میں ہی پائی جاتی ہے اور جو اپنے آپ کو سگ مدینہ کہتے ہیں ، ان کا دماغ اس قدر مفلوج و مائوف ہو چکا ہے کہ وہ کتوں کو بھی ولی اور صاحب کرامت بزرگ سمجھنے لگ گئے ہیں ۔ جیسا کہ مولوی اشرف علی تھانوی اپنی کتاب امامد المشتاق ص۱۵۸ میں اور حاجی امداد اللہ اپنی کتاب شمائم امدادیہ ص۷۶حصہ دوئم پر لکھتے ہیں:
''جنید بغدادی بیٹھے تھے ایک کتاسامنے سے گزرا ، آپ کی نگاہ اس پر پڑ گئی، اس قدر صاحب کما ہو گیا کہ شہر کے کتے اس کے پیچھے دوڑے ۔ وہ ایک جگہ بیٹھ گیا۔ سب کتوں نے اس کے گرد بیٹھ کر مراقبہ کیا۔''
اسی طرح مولوی منظور احمد شاہ اپنی کتاب مدینة الرسول ص۴۰۸ پر ''مدینہ الرسول کے سگانِ محترم اور چند یادیں''کے عنوان کے تحت جماعت علی شاہ کا واقعہ لکھتا ہے کہ:
''آپ اپنے احباب میں مدینۃ الرسول کی کسی گلی میں کھڑے تھے کہ سامنے سے ایک زخمی کتا چیختا ہوا گزرا۔ اس کتے کو کسی نے پتھر مارا تھا۔ سید صاحب اس منظر کو دیکھ کر بے خود ہو گئے۔ اس بے خودی میں سگ طیبہ کو کلاوے میں لے لیا۔ اپنی دستار سے اس کا خون صاف کیا، پھر ہاتھ جوڑ کر روتے ہوئے کہا، اے سگ طیبہ ، خدارا بارگاہ رسالت میں میری شکایت نہ کر دینا پھر دیر تک سگ طیبہ کو کلاوے میں لے کر روتے رہے۔''
اسی طرح صفحہ۴۰۹ پر لکھتا ہے:
''۱۹۶۸ء کی بات ہے ۔ پیر سید حیدر علی شاہ نے مجھے مدینة الرسول میں یہ واقعہ سنایا۔ ایک حاضری پر سید نا نے فرمایا، آج مدینة الرسول کے درویشوں کی دعوت ہے، دیگیں پکوا دی گئیں ، بازار سے نئے برتن منگوا لئے گئے۔ عرض کی گئی حضور درویشوں کی آمد کا سلسلہ کب شروع ہو گا؟ فرمایا یہ درویش آئیں گے نہیں تمہیں ان کے حضور جا کر نذرانہ خود پیش کرنا ہو گا۔ فرمایا، یہ روٹیاں ، یہ گوشت مدینہ منورہ کے سگانِ محترم کو پیش کیا جائے۔ چنانچہ تلاش کر کے حکم کی تعمیل کی گئی۔''
اسی طرح ص۴۰۹،۴۱۰ پر ''سگ طیبہ کی نوازش'' کے عنوان کے تحت رقمطراز ہے۔

''ایک حاضری میں مدینہ منورہ سے واپسی کی سار رات سگانِ مدینہ کی زیارت میں صرف کر دی۔ شوق کا یہ عالم تھا کہ ان کی قدم بوسی کر کے مدینہ سے رخصت ہوں۔ یہ بھی شوق تھا کہ سگ طیبہ کی آواز بھی ریکارڈ کر لوں۔ ٹیپ لے کر گھومتا رہا، کسی سگ نے مجھے اپنے قریب نہ پھٹکنے دیا۔ جوں ہی کسی سگ طیبہ کے قریب گیا اُس نے مجھ سے نفرت کی اور دور چلا گیا۔ سحری کے قریب ایک سگ طیبہ کو سویا ہوا پیا دور بیٹھ گیا کہ اس کی بیداری پر سلام عرض کروں گا۔ ایک کار کی آواز سے وہ بیدار ہو گیا۔ میں نے قریب جانے کی کوشش کی تو وہ نفرت سے بھاگ گیا۔ میں نے وہیں کھڑے منت و سماجت کی اور خدا کے لئے قدم بوسی کا موقع دے دو۔ صبح مدینہ چھوٹ رہا پھر قسمت کی بات ہے
ع بات بنتی ہے میری ، تیرا بگڑتا ہے کیا
مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے میری اس عاجزانہ درخواست پر وہ رک گیا۔ میں قریب ہوا تو ، قدم بوسی کی، اس کی آواز ٹیپ کی اور صبح کی اذان ہوتے ہی میں وہاں سے چلا تو کم وب بیش ٥٠ قدم سگ طیبہ میرے ساتھ آیا، سگ طیبہ کی اس نوازش کو کبھی بھی نہیں بھول سکتا کہ مجھے قریب جانے کا موقع دیا اور ٥٠ قدم میرے ساتھ چل کر مجھے شرف بخشا۔''
قارئین کرام !مذکورہ بالا واقعات با حوالہ آپ کے سامنے ذکر کئے ہیں۔ ان سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ جو انسان اللہ تعالیٰ کی توحید چھوڑ کر شرک کے دامن میں پناہ لے لیتا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح منہج کو ترک کر کے بدعات اور رسوم ورواج سے اپنے آپ کو وابستہ کر لیتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس سے اپنی رحمت اُٹھا لیتا ہے، پھر وہ در در کی ٹھوکریں کھاتا ہے حتیٰ کہ کتوں کو کلاوے میں لے کر روتا پھرتا ہے ، کبھی وہ کتوں کو بوسہ دیتا ہے اور کبھی گلیوں میں کتوں کی محبت سے گھومتا ہو راتیں گزارتا ہے اور کتے کی قدم بوسی اور آواز ریکارڈ کرنے کے لئے مارا مارا پھرتا ہے۔ کبھی کتوں سے عشق سے اپنے عشق کا اظہار کرتے ہوئے انہیں درویش بنا دیتا ہے اور کتوں کے دربار پر نذرانہ لے کر پیش ہوتا ہے۔ یہ گندے کام اپنے آپ کو انسانیت سے خارج کر کے کتاکہنے لگتا ہے۔ کتا خواہ بریلی شریف کا ہو یا دیوبند کا مدینے کا ہو یا مکے کا غرض کسی جگہ کا بھی کیوں نہ ہو۔ اس کے متعلق شریعت مطہرہ کا یہی حکم ہے کہ وہ جس برتن میں منہ ڈال دے ، وہ برتن پلید ہو جاتا ہے۔ جہاں موجود ہو، وہاں رحمت کا فرشتہ داخل نہیں ہوتا۔ وہ کتے مدینے منورہ کے ہی تھے جن کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ احکامات ارشاد فرمائے بلکہ بعض سگ مدینہ کو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شیطان کہا جیسا کہ صحیح مسلم ، ابو دائود، ترمذی، نسائی، ابنِ ماجہ اور مسند احمد وغیرہ میں حدیث ہے کہ:
''سیاہ کتا شیطان ہے۔''
بعض سگ مدینہ وہ ہیں جن کے قتل کا حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا فرمایا:
''وہ کالا کتا جس کی آنکھوں پر دو نقطے ہوں ، اسے قتل کر دو اس لئے کہ وہ شیطان ہے۔'' (مسلم ، کتاب البیوع)
اسی طرح سگ مکہ معظمہ کو بھی حالت ِ احرام میں قتل کرنا جائز ہے۔ (متفق علیہ )
اسی طرح ایک مقام پر فرمایا:
''جب تم رات کو کتے کی آواز سنو تو اعوذ باللہ پڑھو۔''(ابو دائود، احمد ، حاکم ، بلوغ الامانی۴۶۰/۱۴)
ان تمام مفاسد کی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی مثال کو برا قرار دیاہے ، اللہ تعالیٰ نے برا کہا ہے لہٰذا جس کی مثال کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے برا قرار دیا ہو تو کسی انسان کو لائق نہیں کہ وہ ان احکامات کو جانتے اور سمجھتے ہوئے بھی اپنے آپ کو کتا کہے۔ اپنے آپ کو کتا کہنا عقل و نقل کے بھی خلاف اور ناجائز و غیر مشروع ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صرف ہاتھ یا پائوں کی تصویر کا مسئلہ
س: اکثر اوقات اسلامی اخبارات میں ہاتھوں ، ٹانگوں کی تصاویر چھپتی ہیں۔ مجھے اس بارے میں یا تو کسی عالم کا فتویٰ دکھا دیجئے یا قرآن و حدیث سے اس کی کوئی دلیل پیش کریں ورنہ اگر ہاتھ وغیرہ کو جائز قرار دیا جا سکتاتو آنکھوں اور جسم کے دوسرے ظاہری حصوں کی تصاویر بھی جائز قرار دی جا سکتی ہیں۔

ج: یہ بات درست ہے کہ شریعت اسلامیہ نے جاندار اشیاء کی تصاویر کو حرام قرار دیا ہے ۔ تصاویر کے مٹانے کے حکم کے ساتھ جاندار اشیاء کی تصاویر بنانے والے پر لعنت کی گئی ہے اور قیامت کے دن کے سخت ترین عذاب کی وعید سنائی گئی ہے لیکن غیر جاندار چیزوں کی تصاویر اور جس تصویر کا سر کاٹ دیا گیا ہو، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
صحیح مسلم شریف میں حدیث ہے ، ایک آدمی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آیا اور کہنے لگا میں یہ تصویریں بناتا ہوں ، مجھے ان کے بارے میں فتویٰ دیجئے۔ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کہنے لگے قریب آئو وہ قریب ہو گیا۔ انہوں نے کہا قریب آجائو وہ اور قریب آیا تو انہوںنے اپنا ہاتھ اس کے سر پر رکھا اور کہا:
''میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے ہر تصویر بنانے والا آگ میں جائے گا، اس کے لئے اس کی بنائی ہوئی تصویر کے بدلہ میں ایک نفس (شخص)مقرر کر دیا جائے گا جو اس کو جہنم میں عذاب دے گا اور کہا کہ اگر تو نے ضرور ہی بنانی ہے تو پھر درختوں کی بنا لو یا جس چیز میں جان نہیں۔'' (مسلم ، کتاب اللباس، باب تحریم تصویر الحیوان)
اس حدیث سے معلوم ہو گیا کہ جس چیز میں جان نہیں اس کی تصویر بنا لینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ دوسری دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں، میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے کہا میں گزشتہ رات بھی آیاتھا ۔ گھر میں اس لئے داخل نہ ہو اکہ دروازے پر تصویریں تھی۔ گھر میں ایک پردے پر بھی تصاویر تھیں اور کتا بھی گھر میں تھا پھر کہا:
''گھر والی تصاویر کے سر کے متعلق حکم دے دو کہ اسے کاٹ دیا جائے تو وہ درخت جیسی بن جائے گی اور پردے کو کاٹ کر اس کے دو گدے بنا لئے جائیں جو قدموں میں روندے جائیں اور کتے کو گھر سے نکال دیا جائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کر دیا۔''(صحیح سنن الترمذی ، کتاب الاستیذان ، باب ان الملائکہ لا تدخل بیتا فیہ صور)

اس حدیث کے پہلے جملہ سے یہ ثابت ہو گیا کہ ساری تصویر میں حرام صرف سر ہی ہے۔ اس کو اگر کاٹ دیا جائے تو وہ درخت کی صورت جیسی بن جاتی ہے۔ پھر یہ بھی ثابت ہوا کہ تصاویر والے پردے وغیرہ کو پھاڑ کر ایسی جگہ استعمال کر لیا جائے جو قدموں میں روندے جائیں یا جس سے ان کی خست ظاہر ہو تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ امام نووی فرماتے ہیں:
''درخت اور اس جیسی اورچیزیں جن میں روح نہیں ہے ان کی تصویر بنانا حرام نہیں اور نہ ہی ان سے کمائی کرنا حرام ہے ۔ یہ تمام علماء کا مذہب ہے۔(شرح مسلم نووی ج۱۴، ص۹۱)

اور ابنِ عثیمین لکھتے ہیں:
''اور جسم سر کے بغیر درخت کی طرح ہے اس کے جائز ہونے میں کوئی شک نہیں۔'' (المجموع الثمین ص۲۴۵، ج٢)
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
قوالی اور عرسوں کا کھانا
س: اسلام میں قوالی کی کیا اہمیت ہے ؟ آج کل لوگ اسے عبادت سمجھ کر سنتے ہیں بلکہ بڑے بڑے عرسوں اور میلوں پر اسپیشل قوال بلائے جاتے ہیں اور وہ سر ، ساز کے ساتھ قوالیاں گاتے ہیں۔ قرآن و سنت کی رو سے اس کی وضاحت فرمائیں۔ نیز یہ بھی بتائیں کہ ان میلوں پر جو دیگیں پکا کر تقسیم کی جاتی ہیں ، ان کا طعام و نذر کھانی جائز و درست ہے؟

ج: موجودہ دور میں قوالی کا سلسلہ بہت وسیع ہوتا جا رہا ہے اکثر گاڑیوں ، بسوں وغیرہ میں صبح ہوتے ہی ڈرائیور حضرات قوالی کا سماع کرتے ہیں۔ بعض دفعہ یوں بھی ہوا کہ اگر کوئی ڈرائیور گاڑی چلاتے وقت گانے لگا دے اور اس کو منع کیاء جائے تو وہ گانوں کی کیسٹ بند کر کے قوالی لگا دیتے ہیں۔ جب اس سے روکا جائے تو کہتے ہیں مولوی صاحب ہم نے گانے تو بند کر دیئے ہیں یہ تو قوالی ہے جو اسلام میں جائز ہے۔ حالانکہ قوالی گانے سے بھی بڑھ کر جرم ہے۔ اولاً اس لئے کہ قوالیوں میں شرکیہ باتیں بہت زیادہ ہوتی ہیں پیروں اور فقیروں کے متعلق ایسی ایسی لغو باتیں بیان کی جاتی ہیں جو سراسر شریعت اسلامیہ سے متصادم اور روح اسلام کے خلاف ہوتی ہیں اور اللہ وحدہ لا شریک کے ساتھ مخلوق کو برابر سمجھنا سب سے بڑا گناہ ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
''تمام کبیرہ گناہوں سے بڑا گناہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک ہے۔''(کتاب المریدین وغیرہ)
ثانیاً، ان تمام قوالیوں میں ڈھول ، سارنگی، مزامیر اور آلاتِ لہو و لعب وغیرہ بجائے جاتے ہیں جو شرعاً بالکل حرام ہیں۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو گانے بجانے کے آلات خریدتے ہیں۔ اس لئے کہ سمجھ بوجھ کے بغیر اللہ تعالیٰ کی راہ سے (لوگوں کو) بہکا دیں۔ اور اس کو ہنسی مذاق بنادیں۔ ایسے لوگوں کے لئے رسوا کرنے والا عذاب ہو گا۔ اور جب (ان لوگوں میں سے )کسی کو ہماری آیتیں سنائی جاتی ہیں تو وہ اکڑتا ہوا پیٹھ موڑ کر چل دیتا ہے ۔ گویا اس نے اس کو سناہی نہیں۔ گویا کہ اس کے دونوں کانوں میں بوجھ ہے ۔ ایسے شخص کو دردناک عذاب کی بشارت دے دیجئے۔''(لقمان ۶'۷)
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ اس آیت کریمہ میں (لھو الحدیث)سے کیا مراد ہے؟ تو انہوں نے فرمایا:
''اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اس سے مراد گانا ہے۔ آپ نے اس بات کو تین مرتبہ دہرایا۔'' (تفسیر ابنِ کثیر ۴۸۶/۳)
یہی تفسیر سیدنا عبداللہ بن عباس ، جابر ، عکرمہ رضی اللہ عنہم ، سعید بن جبیر ، مجاہد مکحول، عمرو بن شعیب اور علی بن ہذیمہ رحمة اللہ علیہم سے مروی ہے۔ (ملاحظہ ہو تفسیر ابنِ کثیر)

امام حسن بصری رحمة اللہ علیہ نے فرمایا:
''یہ آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ گانا بجانا اور اس کے آلات خریدنا بالکل ناجائز اور حرام ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی راہ سے گمراہی کا باعث ہے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ جو لوگ گانے بجانے اور ان کے آلات خریدتے ہیں اور سنتے ہین ، ان پر اگر اللہ تعالیٰ کا قرآن پڑھا جائے تو وہ اس سے اعراض کرتے اور منہ موڑتے ہیں اور ایسے کردار کا مظاہرہ کرتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن انہوں نے سنا ہی نہیں۔ بعینہ یہی کیفیت اکثر آج کل گاڑیوں کے ڈرائیوروں میں پائی جاتی ہے ۔ اگر انہوں نے تلاوت کی کیسٹ لگانے کے لئے کہا جائے تو طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں اور اگر گانے بجانے اور قوالی کی کیسٹ کے متعلق کہیں تو فوراً لگا لیتے ہیں۔ گویا کلام باری تعالیٰ سے چڑ اور شیطانی عمل سے محبت ہے۔ باجوں اور آلاتِ لہو و لعب کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
''ضرور میری اُمت میں ایسے لوگ ہوں گے جو عورتوں کی شرمگاہ ، ریشمی کپڑے اور شراب اور باجے حلال ٹھہرائیں گے۔'' (ملاحظہ ہو صحیح بخاری وغیرہ)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس طرح زنا و شراب حرام ہیں اسی طرح باجے گاجے بھی حرام ہیں ۔ اس مسئلہ کی تفصیل میں جائے بغیر بریلوی حضرات کے امام مولوی احمد رضا خان بریلوی کے ایک فتوے کے اقتبا سات پیش کرتا ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ اپنے امام کے فتوے کو پڑھ کر ہی راہِ راست پر آجائیں۔ احمد رضا خان کی کتاب احکام شریعت ص۶۰ حصہ اوّل پر ایک سائل کا سوال یوں درج ہے:
کہ آج میں جس وقت آپ سے رخصت ہوا اور واسطے نماز مغرب کے مسجد میں گیا، بعد نماز مغرب میرے ایک دوست نے کہا کہ چلو ایک جگہ عرس ہے، میں چلا گیا۔ وہاں جا کر کیا دیکھتا ہوں۔ بہت سے لوگ جمع ہیں اور قوالی اس طریقے سے ہو رہی ہے کہ ایک ڈھول دو سارنگی بج رہی ہیں اور چند قوال پیران پیر دستگیر کی شان میں اشعار کہہ رہے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت کے اشعار اور اولیاء اللہ کی شان میں اشعار گا رہے ہیں اور ڈھول سارنگیاں بج رہی ہیں ۔ یہ باجے شریعت میں قطعی حرام ہیں کیا اس فعل سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اولیاء اللہ خوش ہوتے ہوں گے؟ اور یہ حاضرین جلسہ گناہ گار ہوئے یا نہیں اور ایسی قوالی جائز ہے یا نہیں اور اگر جائز ہے تو کس طرح؟
احمد رضا خان اس سائل کا جواب یوں تحریر کرتے ہیں:
الجواب: ایسی قوالی حرام ہے ۔ حاضرین سب گناہگار ہیں اور ان سب کا گناہ ایسا عرس کرنے والوں اور قوالوں پر ہے اور قوالوں کا بھی گناہ اس عرس کرنے والے پر،بغیر اس کے کہ عرس کرنے والے کے ماتھے قوالوں کا گناہ جانے سے قوالوں پر گناہ کی کچھ کمی آئے یا اس کے اور قوالوں کے ذمہ حاضرین کا وبال پڑنے سے حاضرین کے گناہ میں کچھ کمی تخفیف ہو نہیں بلکہ حاضری میں ہر ایک پر اپنا پورا گناہ اور قوالوں پر اپنا گناہ الگ اور سب حاضرین کے برابر جدا اور ایسا عرس کرنے والے پر اپنا گناہ الگ اور قوالوں کے برابر جدا اور سب حاضرین کے برابر علیحدہ۔ وجہ یہ کہ حاضرین کو عرس کرنے والے نے بلایا ان کے لئے اس گناہ کا سامان پھیلایا اور قوالوں نے انہیں سنایا۔ اگر وہ سامان نہ کرتا، یہ ڈھول سارنگی نہ سناتے تو حاضرین اس گناہ میں کیوں پڑتے۔ اس لئے ان سب کا گناہ ان دونوں پر ہوا۔ پھر قوالوں کے اس گناہ کا باعث وہ عرس کرنے والا ہوا۔ وہ نہ کرتا نہ بلاتا تو یہ کیونکر آتے بجاتے۔ لہٰذا قوالوں کا بھی گناہ اس بلانے والے پر ہوا۔
اس کے بعد آگے ص۶۴،۶۵ پر رقم طراز ہیں:
سید الاولیاء شریف میں ہے ایک آدمی نے سلطان المشائد کی خدمت میں عرض کیا کہ ان ایام میں بعض آستانہ دار درویشوں نے ایسے مجمع میں جہاں چنگ و رباب اور دیگر مزامیر تھے رقص کیا، فرمایا انہوں نے اچھا کام نہیں کیا۔ جو چیز شرع میں ناجائز ہے، ناپسندیدہ ہے، اس کے بعد ایک نے کہا جب یہ جماعت اس مقام سے باہر آئی لوگوں نے ان سے کہا، تم نے یہ کیا کیا۔ وہاں تو مزامیر تھے۔ تم نے سماع کس طرح سنا اور رقص کیا۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہم اس طرح سماع میں مستغرق تھے کہ ہمیں معلوم ہی نہیں ہوا کہ یہاں مزامیر ہیں یا نہیں۔ سلطان المشائخ نے فرمایایہ جواب کچھ نہیں۔ اس طرح تو تمام گناہوں کے متعلق کہہ سکتے ہیں۔

مسلمانوں!کیسا صاف ارشاد ہے کہ مزامیر ناجائز ہیں اور اس عذر کا کہ ہمیں استغراق کے باعث مزامیر کی خبر نہ ہوئی ، کیا مسکت جواب عطا فرمایا کہ ایسا حیلہ ہر گناہ میں چل سکتا ہے۔ شراب پئے اور کہہ دے شدت استغراق کے باعث ہمیں خبر نہ ہوئی کہ شراب ہے یا پانی، زنا کرے اور کہہ دے کہ غلبہ حال کے سبب ہمیں تمیز نہ ہوئی کہ جروا ہے یا بیگانی۔
مولوی احمد رضا خان کی مذکورہ بالا عبارت سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ قوالی سننا، سنانا، عرسوں اور میلوں پر اس کا انعقاد کروانا حرام و ناجائز ہے۔ کیونکہ اس میں گانے بجانے کے آلات ڈھول ، سارنگی وغیرہ بجائے جاتے ہیں جن کی شریعت اسلامیہ میں قطعاً کوئی گنجائش نہیں ۔
ہاں اگر ایسے اشعار ہوں جو کتاب و سنت کے مطابق ہوں اور مذکورہ خرابیوں سے پاک ہوں تو انہیں پڑھنا جائز و درست ہے جیسا کہ سیدنا احسان رضی اللہ عنہ شاعر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اشعار کہا کرتے تھے۔ باقی رہا اہل قبور کے لئے نذر و منت کی پکائی ہوئی دیگیں یا مردوں پر چرھائے ہوئے چڑھاوے تو یاد رہے کہ سنن ابو دائود میں حدیث ہے:
''ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، ایک شخص نے (زمانہ جاہلیت میں) نذر مانی تھی کہ بوانہ مقام میں اونٹ ذبح کروں گا۔ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا وہاں جاہلیت میں کسی بت کی پرستش ہوتی تھی؟ لوگوں نے جواب دیا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایاوہاں تہوار یا میلہ لگتا تھا؟ انہوں نے کہا نہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اپنی نذر پوری کر۔ بلاشبہ جو نذر اللہ جل و علا کی نافرمانی میں ہو، وہ پوری نہیں کی جائے گی اور نہ اس نذر کا پورا کرنا انسان پر واجب ہے جو اس کی وسعت سے باہر ہے۔''
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نذر و نیاز اللہ کے نام کی دینی چاہیے۔ دوسری بات کہ کسی ایسی جگہ پر اللہ کے نام کی نذر پورا کرنا جائز نہیں جہاں کسی صنم کی پوجا کی جاتی رہی ہو اگرچہ وہ اب باقی نہ رہا ہو۔''
اسی طرح وہاں بھی اللہ کے نام کی نذر پوری نہیں کی جائے گی جہاں اہل کفر و شرک کا کوئی میلہ یا تہوار منایا جاتا ہو۔ لہٰذا ایسے مقامات جہاں عرس و میلے لگائے جاتے ہیں۔ وہاں پر اللہ کے نام کی نذر و نیاز دینا یا کھانا بھی درست نہیں ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
عورت کا خوبصورتی کے لئے چہرے کے بال اکھیڑنا
س: کیا عورت خوبصورتی کے لئے اپنے چہرے کے بال اکھاڑ سکتی ہے؟ قرآن و حدیث کی رو سے واضح فرمائیں۔

ج: کسی عورت کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے چہرے کے بال اکھاڑے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی خلق کو بدلنا ہے اور شیطانی عمل ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کام کرنے والی عورت پر لعنت فرمائی جیسا کہ صحیح بخاری میں حدیث ہے:
''عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، انہوں نے کہا اللہ تعالیٰ نے گودنے والی اور گدوانے والی اور چہرے کے بال اکھیڑنے والی ، خوبصورتی کے لئے دانتوں پر سوہن کرنے والی، اللہ کی تخلیق میں تغیر کرنے والی عورتوں پر لعنت ہے۔ بنو اسد کی اُم یعقوب نامی عورت کو یہ بات پہنچی تو وہ آئی اور کہا: مجھے یہ خبر ملی ہے کہ آپ نے اس طرح لعنت کی ہے؟ تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میں اس پر لعنت کیوں نہ کروں جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہو اور وہ کتاب اللہ میں بھی موجود ہو۔ اُس نے کہا میں نے پورا قرآن پڑھا ہے مگر اس میں یہ چیز مجھے نہیںملی۔ تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر تم نے قرآن پڑھا ہوتا تو تمہیں یہ بات مل جاتی۔ کیا تو نے یہ نہیں پڑھا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو چیز تمیں دیں ، وہ لے لو اور جس سے منع کریں، اس سے باز آجائو تو اس نے کہا، کیوں نہیں؟ تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کام سے روکا ہے تو اس عورت نے کہا تمہاری بیوی میں بھی یہ بات موجود ہے انہوں نے کہا جائو اور دیکھو۔ وہ گئی اور اسے ان کی بیوی میں ایسی کوئی بات نظر نہ آئی پھر واپس آئی تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر اس میں ایسا عمل موجود ہوتا تو میں اس کے ساتھ مجامعت نہ کرتا۔'' (شرح السنة للبغوی و بخاری کتاب التفسیر سورة حشر۸/۴۷۴ و کتاب اللباس مسلم کتاب اللباس)

مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی مسلمان عورت کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے چہرے کے بال اکھیڑے یا دیگر فیشن کے لئے دانٹ رگڑ کر خوبصورت کرے چہرے اور باقی جسم پر نیل وغیرہ بھر کر پھول بنائے۔ کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے فعل پر لعنت کی ہے اور جس فعل پر لعنت مرتب ہوتی ہو وہ حرام ہوتا ہے۔ لہٰذا ایسا عمل اپنانا بالکل ناجائز و حرام ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
حدیث ِ معاذ رضی اللہ عنہ کی تحقیق
س: سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ والی حدیث جس میں ان کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا گیا اور ان کو کہا گیا کہ اگر کوئی مسئلہ پیش آ جائے تو کیا کرو گے تو انہوں نے کہا کہ پہلے کتاب اللہ میں دیکھوں گا اس کے بعد سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اور اگر وہاں نہ ملے تو خود فیصلہ کروں گا۔ یہ حدیث صحیح ہے یا ضعیف اور کس کتاب میں ہے؟ وضاحت سے لکھیں ۔

ج: سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے یہ روایت سنن ابی دائود کتاب القضاء باب اجتھاد الرای فی القضاء (۳۵۹۲)۱۸/۴ میں اور جامع ترمذی کتاب الاحکام باب ما جاء فی القاضی کیف یقضی (۱۲۳۸)۶۱۶/۳ میں مروی ہے ۔ ابو دائود میں بایں سند مروی ہے کہ:
''معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یمن کی طرف بھیجنے کا ارادہ کیا تو کہا اے معاذ جب تیرے پاس کوئی معاملہ آئے تو کیسے فیصلہ کرے گا تو انہوںنے کہا میں کتاب اللہ کے ذریعے فیصلہ کروں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تو کتاب اللہ میں نہ پائے تو انہوںن ے کہا سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فیصلہ کروں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نہ پائے تو؟ انہوں نے کہا میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور کوتاہی نہیں کروں گاتو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سینے پر ہاتھ رکھا اور کہا تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد کو اس چیز کی توفیق دی جس کے ذریعے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو راضی کرتا ہے۔''
یہ روایت انتہائی ضعیف ہے اور اس کے ضعف ہونے کے اسباب درج ذیل ہیں:
(۱) اس کی سند میں ابو عون محمد عبداللہ الثقفی حارث بن عمرو سے روایت بیان کرنے میں متفرد ہے۔
(۲) دوسرا راوی حارث بن عمرو مجہول ہے ۔ حافظ ابنِ حجر عسقلانی نے تقریب۲۰ پر لکھا ہے کہ مجھول من السادسۃ ۔
(۳) اس روایت میں تیسری کمزوری یہ ہے کہ اس کی سند میں سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے والے اصحابِ معاذ رضی اللہ عنہ غیر معروف ہیں پتہ نہیں وہ کون ہیں؟
لہٰذا مندرجہ بالا تین اسباب کی وجہ سے حدیث معاذ رضی اللہ عنہ ضعیف ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
''نصب'' کا معنی آستانے
س: کتاب''آسمانی جنت اور درباری جہنم'' پڑھی۔ اللہ تعالیٰ نے شرک و بدعت سے توبہ کی توفیق عنایت فرمائی۔ آپ سے سوال دریافت کرنا ہے کتاب میں سورۂ مائدہ کی آیت ٩ میں (انصاب) کا معنی ''آستانے '' کیا ہے اور جس قدر تراجم میں نے دیکھے ہیں ان میں اس کا معنی بت لکھا ہوا ہے۔ اس کی وضاحت مطلوب ہے۔ (ایک سائل)

ج: انصاب عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کا واحد نصب اور لغت میں اس سے مراد وہ تمام مقامات ہیں جو لوگوں نے غیر اللہ کی پرستش کے لئے مخصوص کئے ہوئے ہیں۔ عربی لغت کی معتبر کتاب القاموس المحیط۱۳۷/۱ میں لکھا ہے:
''وہ جس کو عَلَمْ جیسے کہ نصیبہ ہے اور ہر وہ چیز جس کی اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کی جائے اس کو نصب کہتے ہیں۔''
نصب کا یہی معنی محمد بن ابی بکر بن عبدالقادر الرازی نے مختار الصحاح ص ۶۶۱اور المعجم الوسیط میں ص۹۲۵ پر مذکور ہے اور اردوتراجم میں مولانا مودودی صاحب نے اپنی تفسیر تفہیم القرآن جلد۱ ص۵۰۱ اور ص۴۴۱ پر کئے ہیں بلکہ۴۴۱/۱ پر حاشیہ۱۲ میں رقم طراز ہیں : اصل میں لفظ ''نصب'' استعمال ہوا ہے۔ اس سے مراد وہ سب مقامات ہیں جن کو غیر اللہ کی نذرو نیاز چڑھانے کے لئے لوگوں نے مخصوص کر رکھا ہو خواہ وہاں کوئی پتھر یا لکڑی کی مورت ہو یا نہ ہو۔ ہماری زبان میں اس کا معنی لفظ آستانہ یا استھان ہے جو کسی بزرگ یا دیوتا یا کسی خاص مشرکانہ اعتقاد سے وابستہ ہو۔
اور یہ معنی لغت کے اعتبار سے درست ہے اور کلّ ما عبد من دون اللّٰہ میں داخل ہے کیونکہ موجودہ دور میں تمام آستانوں پر غیر اللہ سے فریاد رسی، سجدہ ریزی اور نذرو نیاز چڑھاوے وغیرہ چڑھائے جاتے ہیں جو کام اللہ کے لئے مختص ہیں وہ بزرگوں کے آستانوں سے وابستہ کئے جاتے ہیں۔ لہٰذا نصب یا (انصاب) کا معنی آستانے کرنا درست ہے غلط نہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
توبہ کے بعد چوری کا مال نامعلوم مالکوں تک پہنچانے کا مسئلہ
س: ایک شخص بہت زیادہ چوری کرتا تھا۔ کئی لوگوں کا چارہ کاٹا اور کئی لوگوں کا پانی وغیرہ بھی توڑا، بہت سے دوکانداروں سے چیزیں لے کر ان کی قیمت بھی ادا نہ کی اس کے علاوہ کئی لوگوں کا مال ناحق غصب کیا۔ اب وہ توبہ کر چکا ہے کیا ایسے شخص پر کوئی کفارہ ہے؟ اگر اس کے پاس کچھ مال بھی ہے اور جن کی چوری ہوئی ہے، ان کا علم بھی نہیں، مالک تک پہنچنا ناممکن ہے تو اسے کہاں صرف کرے۔

ج: قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ بندے کے لئے توبہ کادروازہ مسلسل کھلا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قوبل کرتا ہے۔فرمایا:
''(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کہہ دو کہ اے میرے بندوں! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے ، اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جائو۔ یقینا اللہ تعالیٰ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے ۔ بے شک وہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔''(الزمر :۵۳)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''جس نے سورج کے مغرب سے طلوع ہونے سے پہلے توبہ کر لی ، اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے۔'' (رواہ مسلم)
دوسری حدیث میں ہے:
''اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتا ہے جب تک اس کی روح حلقوم تک نہیں پہنچ جاتی۔'' (الترمذی وقال حسن)
ان دلائل سے یہ واضح ہو گیا کہ توبہ کا دروازہ ہر شخص کے لئے کھلا ہے ایسا شخص اگر صدق دل سے توبہ کر لے اور حق داروں کو ان کا حق پہنچانا اس کے لئے ممکن نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے معاف فرما دے گا کیونکہ یہ اس کی طاقت میں ہی نہیں ''اللہ کسی کو اس کی استطاعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا'' اس کے علاوہ اس کی دلیل بخاری شریف کی حدیث بھی ہے:
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے سو قتل کرنے والے کو اللہ تعالیٰ نے حقوق العباد کے اتنے بڑے جرم کو صرف توبہ صادقہ کی وجہ سے معاف کر دیا ہے تو ایسا شخص جس کا جرم اس سے کم ہے، اللہ تعالیٰ اس کی بھی توبہ قبول کر سکتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نا امید نہیں ہونا چاہیے۔ ایسے شخص کو دنیا میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کر لینی چاہیں۔ خصوصاً صدقہ زیادہ کرنا چاہیے تا کہ گزشتہ گناہوں کی کچھ نہ کچھ تلافی ہو جائے ۔ واللہ اعلم
 
Top