• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آپ کے مسائل اور ان کا حل

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
غیر مسلموں سے سلام کا طریقہ
س: غیر مسلموں سے سلام لینا جائز ہے یا نہیں اور اگر وہ سلام کہیں تو جواب کیسے دینا ہے؟

ج: صحیح مسلم میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ''اہل کتاب (یہود و نصاریٰ ) کو سلام کرنے میں پہل نہ کرو اور جب تم میں سے کسی کو ان میں سے کوئی راستے میں ملے تو اس کو تنگ حصے کی طرف مجبور کرو۔'' صحیحین میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تمہیں اہل کتاب سلام کہیں تو انہیں جواب میں صرف وعلیکم کہنا چاہیے ، اس سے زیادہ جواب دینا درست نہیں اور یہ بات مسلم ہے کہ اہل کتاب دوسرے تمام کافروں سے بہتر ہیں۔ ان کی عورتوں سے نکاح بھی جائز ہے مشرکین اور دہریہ ان سے بہت بدتر ہیں۔ جب اہل کتاب کو سلام کی ابتداء نہیں کر سکتا تو دوسرے کافر کو سلام میں پہل کرنا بالا دلی درست نہ ہوگا اور جواب میں وعلیکم سے زیادہ کہنا صحیح نہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
عمامہ کا رنگ
س: کیا عمامہ کا سبز رنگ بھی ہے یا سیاہ رنگ؟ ایک مولوی صاحب نے کہا کہ پگڑی سبز بھی ہے اور سفید بھی اور سرخ بھی ، لہٰذا آپ صحیح احادیث کی رو سے وضاحت فرمائیں۔

ج: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفید لباس کو پسند فرمایا ہے اور اس کی ترغیب بھی دی ہے جیسا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
''تم سفید لباس لازم پکڑو اس کو تمہارے زندہ لوگ پہنیں اور اس میں اپنے مردوں کو کفن دو یقینا یہ تمہارے بہترین کپڑوں میں سے ہے۔''(ابو دائود۴۰۶۱، ابنِ ماجہ۵۶۶، ترمذی۵۴)
''سمرة بن جندب رضی اللہ عنہ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، سفید لباس پہنو یقینا یہ بہت زیادہ و عمدہ ہے اور اس میں اپنے مردوں کو کفن دو۔'' (ترمذی۲۳۸۱۱، ابنِ ماجہ۳۵۸۷، نسائی ، طیالسی۱۸۰۰)

مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ سفید لباس نہایت عمدہ اور پسندیدہ ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ترغیب دلائی اور آپ نے ایک صحابی کو سفید عمامہ بندھوایا (صحیح صغیر) اور عمامہ جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم باندھا کرتے تھے اس کا رنگ حدیث میں سیاہ مذکور ہوا ہے جیسا کہ جابر رضی اللہ عنہ نے کہا:
''نبی صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ والے دن مکہ میں داخل ہوئے تو آپ سیاہ پگڑی تھی۔ '' (مسلم، ابو دائود۴۷۶، ابنِ ماجہ۸۵۸۵، ترمذی۱۷۳۵، احمد۳۶۳/۳۔۳۸۷، دارمی۸۴/۲)
''عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ک سر پر سیاہ پگڑی تھی۔''
ابو دائود میں اس طرح ہے:
''عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میںنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر دیکھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر سیاہ پگڑی تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے شملہ کو اپنے کندھوں کے درمیان لٹکایا ہوا تھا۔'' (مسلم۱۳۵۹، ابنِ ماجہ۳۵۸۴، ابو دائود۴۰۷۷، شمائل ترمذی۹۳)

''ابنِ عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب پگڑی باندھتے تو اس کے شملہ کو اپنے کندھوں کے درمیان لٹکا دیتے۔ نافع نے کہا ابنِ عمر اسی طرح کرتے ھتے۔ عبیداللہ نے کہا میں نے قاسم بن محمد بن ابی بکر اور سالم بن عبداللہ بن عمر کو اسی طرح کرتے دیکھا۔'' (شمائل ترمذی ،۹۴، جامع ترمذی۱۷۳۶)

مذکورة الصدر احادیث سے معلوم ہوا کہ سیاہ عمامہ باندھنا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ رہا سبز عمامہ تو اس کا کسی صحیح احادیث میں ذکر نہیں۔ اگر کسی بھائی کے علم میں سبز پگڑی کی صحیح حدیث ہو تو وہ ہمیں لکھ کر بھیج دے۔ اسی طرح سرخ رنگ کا ذکر بھی ہمیں کسی صحیح حدیث سے نہیں ملا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
ٹوپی پر عمامہ
س: ماہنامہ ''البر'' لاہور فروری ۱۹۹۲ء ص۳۵ پر ایک روایت مروی ہے کہ ''ہم میں اور مشرکوں میں فرق ہے تو ٹوپیوں پر عمامے ہیں۔ کیا یہ روایت درست ہے؟ اگر یہ روایت درست ہے تو کچھ لوگ جو صرف اکیلی ٹوپی پہنتے ہیں یا صرف پگڑی باندھتے ہیں، صحیح کرتے ہیں اور اگر یہ روایت درست نہیں تو وضاحت فرمائیں؟

ج: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب یہ روایت انتہائی کمزور ہے کیونکہ اس روایت کی سنداس طرح ہے:
''نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رکانہ سے کشتی لڑی اور اسے پچھاڑ دیا۔ رکانہ نے کہا میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہمارے اور مشرکین کے درمیان فرق ٹوپیوں پر پگڑی باندھنا ہے۔'' (ابو دائود لباس۴۰۷۸، ترمذی۱۷۸۴،۱'۲۱۷/۴)
اس روایت کی سند میں تین مجمول راوی ہیں۔
۱) ابو الحسن عسقلانی ، مجہول تقریب ص٤٠١
۲) ابو جعفر بن محمد بن رکانہ ، مجہول تقریب ص٣٩٩
۳) محمد بن رکانہ ، مجہول تقریب ص٢٩٧
اس لئے امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرمایا (ترمذی مع تحفہ۷۰/۳) یہ روایت غریب ہے س کی سند درست نہیں اور ابو الحسن عسقلانی اور ابن رکانہ کو ہم نہیں پہچانتے۔''
علامہ مبارک پوری تحفة الاحوذی۷۰/۳ پر فرماتے ہیں:
''الجامع الصغیر میں ابنِ عمر سے روایت ہے جس کی سند کو علامہ عزیزی نے حسن قرار دیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سفید ٹوپی پہنتے تھے۔''
لیکن علامہ البانی حفظہ اللہ نے اسے ضعیف الجامع میں درج کیا ہے۔ (ص۶۶)
اس طرح کی کئی روایتیں امام ابو نعیم اصبہانی نے کتاب اخلاق النبی صلی اللہ علیہ وسلم و آدابہ میں نقل کی ہیں جن سے معلم ہوتا ہے کہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم ٹوپی عمامہ کے بغیر بھی پہنتے تھے۔
امام ابنِ قیم رحمۃ اللہ علیہ زاد المعاد ۱۳۵/۱پر رقم طراز ہیں:
''نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک پگڑی تھی جس کا نام سحاب تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو پہنائی۔ اسے آپ پہنتے اور کبھی اس کے نیچے ٹوپی ہوتی اور کبھی ٹوپی بغیر پگڑی کے اور پگڑی بغیر ٹوپی کے پہن لیتے۔''
امام ابنِ قیم رحمة اللہ علیہ کی اس تصریح سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف پگڑی باندھنا یا صرف ٹوپی لینا یا ٹوپی پر پگڑی باندھ لینا، تینوں طرح جائز و صواب ہے۔ کسی صحیح حدیث سے اس کی نفی یا ممانعت نہیں ہے۔ اہل بدعت کا اس طرح عمامے کے متعلق قیود و پابندیاں لگانا اس کے جعلی فضائل بیان کرنا جیسا کہ فیضانِ سنت میں سبز پگڑی والوں کے پیر الیاس قادری نے ذکر کیا ہے یا ماہنامہ البر میں مولوی شفیع اوکاڑوی کا اس بارے میں ذکر کرنا احادیثِ صحیحہ کے خلاف ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
نام رکھنا
س: کیا مندرجہ ذیل نام رکھنے درست ہیں: شکیل الرحمن ، جمیل الرحمن، عقیل الرحمن وغیرہ؟

ج: مندرجہ بالا نام رکھنا درست ہیں حدیث میں ذکر ہے کہ ''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ نام اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں جو اللہ اور رحمن کی طرف منسوب کئے جائیں۔'' (مشکوٰة ص۴۰۷)
''پاک نہ سمجھو اپنی جانوں کو وہی خوب جانتا ہے اس کو کہ کون پرہیز گار ہے۔''(النجم)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے برے نام کو تبدیل کر دیا جس کے معنی حسن سلوک کرنا کدمت کرنا کے ہیں۔ ایسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے نام اختیار کرنے سے منع فرمایا جن میں بڑائی پائی جائے۔ مثلاً شہنشاہ یا ملک الملوک وغیرہ (مشکوٰة ص٤٠٧) اور یا ایسے نام رکھنا کہ جن میں قباحت ہو بگاڑ ہو مثلاً شیطان، حرب، اصرم وغیرہ جیسے نام رکھنے سے منع فرمایا۔(مشکوٰة ص۴۰۸)
البتہ شکیل الرحمن بمعنی رحمان کا ہم شکل ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
''اللہ کی مثل کوئی چیز نہیں'' اس لئے یہ نام بدل دینا چاہیے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
مرد و زن کا بغیر نکاح کے اکھٹے رہنا
س: مرد وعورت بغیر شادی و نکاح کے رہتے ہیں اور ایک دوسرے سے ازدواجی تعلقات بھی استوار کئے ہوئے ہیں۔ شریعت اسلامیہ کا ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟ قرآن و سنت کی روشنی میں مسئلہ کا حل درکارہے؟

ج: اللہ تعالیٰ نے جرائم کے اختتام کے لئے قرآن مجید میں مختلف جرائم کے اعتبار سے مختلف سزائوں کا تذکرہ کیا ہے۔ اسی طرح جب دو مرد و عورت آپس میں برا فعل سرانجام دیتے ہیں اور زنا جیسے فحش و قبیح فعل کا ارتکاب کر لیتے ہیں تو شریعت نے ان کے لئے جو سزا تجویز کی ہے اس کی تفصیل درج ذیل ہے:
شادی شدہ مرد و عورت زنا کریں تو ان کو رجم کیا جائے اور اگر غیر شادی شدہ ہوں تو ان کو سو کوڑے لگائے جائیں اور ایک سال کے لئے جلاوطن کر دیا جائے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''زناکار عورت و مرد میں سے ہر ایک کو سو کوڑے لگائو ان پر اللہ تعالیٰ کی شریعت کی حد جاری کرتے ہوئے تمہیں ہر گز ترس نہیں کھانا چاہیے اگر تمہیں اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان ہے اور ان کی سزا کے وقت مومنوں کی ایک جماعت موجود ہونی چاہیے۔''(النور : ۲)

تمام مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ آیت عام مخصوص منہ البعض یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ حکم عام نہیں کہ ہر قسم کے زانی کو۱۰۰ کوڑے لگائے جائیں بلکہ یہ دیگر ادلہ شرعیہ کی بنا پر خاص ان لوگوں کے متعلق ہے جو کنوارے غیر شادی شدہ ہوں۔ حدیث پاک میں اس کی مزید تفصیل جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے اس میں ایک سال کے لئے جلا وطنی بھی ہے جیسا کہ عنقریب مذکور ہو گا۔ اور جو شادی شدہ ہوں ان کے لئے رحم ہے۔ اس طرح غلام یا باندی جرم کر بیٹھے تو اس کے لئے ٥٠ کوڑے ہیں یعنی ۱۰۰کوڑوں کا نصف جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''اگر باندیاں بے حیائی کا ارتکاب کریں تو ان پر آزاد عورتوں کی نسبت سے نصف سزا ہے۔''(النساء: ۲۵)

لہٰذا مذکورہ بالا سورۂ نور کی آیت کا حکم عام نہیں ہے بلکہ دیگر شرعی ودلہ کی بنا پر کنوارے کے لئے خاص ہے۔ شادی شدہ کے لئے جو رجم کی سزا ہے وہ یہ ہے کہ دو آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ایک نے کہا یا رسول اللہ !میرا بیٹا اس کے ہاں ملازم تھا وہ اس کی بیوی سے زنا کر بیٹھامیں نے اس کے بدلے ایک سو بکریاں اور ایک لونڈی دی ہے پھر میں نے علماء سے دریافت کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ میرے بیٹے پر شرعی سزا سو کوڑے اور ایک سال جلاوطنی ہے اور اس کی بیوی پر رجم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''میں تمہارے درمیان کتاب اللہ سے فیصلہ کر دوں گا۔ لونڈی اور سو بکریاں تجھے واپس دلوادی جائیں گی اور تیرے لڑکے پر۱۰۰ کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے اور اے انیس تو اس کی بیوی کے پاس جا اگر وہ اعتراف کر لے تو اس کو سنگسار کر دینا اس نے اعتراف کر لیا اور اسے رجم کر دیا گیا۔'' (موطا مالک۲/۸۲۲، بخاری۵/۵۰۱، ۱۳۶/۱۲،۱۸۵/۱۳، مسلم (۱۶۹۷)، ابو دائود(۴۴۴۰) نسائی۲۴۰/۸، ترمذی۱۴۳۳، ابنِ ماجہ۲۵۴۵، دارمی۹۸/۲، احمد۱۱۵/۴، عبدالرزاق۱۳۳۰۹، حمیدی۸۱۱، طیالسی۹۵۳، ابنِ حبان۴۴۲۰، بیہقی۲۱۲/۸،۲۲۲، شرح السنہ۲۷۱۰، المنتقٰی لابن جارود۸۱۱)

مذکورہ بالا حدیث صحیح سے معلوم ہوا کہ کنوارہ زنا کرے تو ١٠٠ کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی شادی شدہ پر رجم یعنی سنگساری ہے۔
اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا لوگوں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی کتاب نازل فرمائی اور اس مین رجم کی آیت بھی تھی جس کو ہم نے پڑھا اور یاد رکھا اور عمل کیا۔ مجھے ڈر ہے کہ کچھ زمانہ گزرنے کے بعد کوئی یہ نہ کہے کہ ہم رجم کو کتاب اللہ میں نہیں پاتے کہیں ایسا نہ کہو کہ فریضہ خداوندی کے ترک کرنے کے باعث لوگ گمراہ ہو جائیں۔ فرمایا:
''آگاہ ہو جائو بے شک رجم اس آدمی پر جو شادی شدہ ہو اور زنا کا مرتکب ہو حق ہے جب اس پر دلیل قائم ہوجائے یا حمل ٹھہر جائے یا مجرم اعتراف کر لے متنبہ رہو بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا اور ہم نے بھی رجم کیا۔'' (بخاری۱۳۷/۱۲، مسلم۱۲۹۱، ابو دائود۴۴۱۸، احمد۲۹۱،۴۰،۴۷ وغیرہ)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رجم کی سزا شادی شدہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی نافذ تھی اور خلفاء کے دور میں یہی سزا نافذالعمل تھی۔
مذکورہ بالا آیت اور احادیث ِ صحیحہ مرفوعہ میں صراحتاً یہ بات موجود ہے کہ کنوارہ آدمی ١٠٠ کوڑوں اور ایک سال جلا وطنی اور شادی شدہ رجم کا مستحق ہے لہٰذا سوال میں مذکورہ دونوں افراد جو کہ کنوارے ہیں اور بغیر شادی کے میاں بیوی کے حقوق کی طرح رہ رہے ہیں اور اس پر چار گواہ بھی قائم ہیں یا وہ خود اس جرم کا اقرار کر لیتے ہیں یا عورت کو حمل ٹھہر جاتا ہے اور ہر سہ صورت میں حد قائم ہو گی اور انہیں ١٠٠کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی کی سزا دی جائے گی۔
اگر وہ یہ کہیں کہ ہم بہن بھائی کی طرح اکھٹے رہتے ہیں اور زنا کے مرتکب نہیں پھر بھی غلط ہے اور وہ فعل حرام کے مرتکب ہو رہے ہیں کیونکہ کوئی مرد اور عورت جو کہ غیر محرم ہیں ان کی خلوت صحیح نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''کوئی مرد کسی عورت سے خلوت نہیں کرتا مگر تیسرا ان کے ساتھ شیطان ہوتا ہے۔''
اسی طرح ایک حدیث میں عورت کے وہ تمام مرد رشتہ دار جو اس کے خاوند کی طرف سے بنتے ہیں ان کے ساتھ خلوت کو موت کہا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا الحمو الموت لہٰذاان کی فی الفور جدائی کرا دی جائے اور فعل حرام کے ارتکاب کی جوہ سے ان کو تعزیراً سزا دی جائے اور فعل زنا ثابت ہو تو مذکورہ بالا سزا جار ی کی جائے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
فعل قومِ لوط کے مرتکبین سے سلوک
س: قومِ لوط کے عمل جیسا عمل کرنے والے اور جس سے کیا گیا حدیث کے مطابق دونوں کو مار دینے کا حکم ہے کیا یہ عمل کئے جانے کے بعد کوئی بھی نیک عمل قبول نہیں ہوگا؟ کیونکہ اس حکم سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ س شخص کو جینے کا کوئی حق نہیں نیز یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ کام جاہلیت میں ہے۔

ج: گناہ کسی قسم کا بھی ہو اللہ تعالیٰ توبہ کرنے سے معاف کر سکتے ہیں۔ سورة الفرقان :۶۸،۶۹ میں اللہ تعالیٰ نے ناحق قتل زنا وغیرہ کے جرم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جو یہ کام کرے گا قیامت کے دن اسے دوگنا عذاب ملے گا اور وہ ہمیشہ س میں رہے گا آگے فرمایا:
''اور جس نے توبہ کر لی ، اور نیک اعمال سر انجام دیئے ، ان کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں میں تبدیل کر دیں گے اور اللہ تعالیٰ بخشش کرنے والا رحم والا ہے۔''
دوسری جگہ فرماتے ہیں:
''(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) میرے ان بندوں سے کہہ دو جنہوں نے اپنے نفسوں پر زیادتی کی ہوئی ہے کہ وہ اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہوں اللہ تعالیٰ (توبہ سے ) سارے گناہ معاف کر دیتا ہے۔''(التوبہ : ۵۳'۵۴)
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
''گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اُس نے گناہ کیا ہی نہیں۔'' (ابنِ ماجہ وقال اسنادہ صحیح) واللہ تعالیٰ اعلم
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
قسم کا کفارہ
س: کسی عورت نے قسم اٹھائی اور پھر اس قسم کو کچھ وجوہات کی بنا پر توڑ دیا اب انتہائی مصروف زندگی میں ساٹھ مسکینوں کو اکھٹا کرنا انتہائی مشکل ہے اور دو مہینے کے مسلسل روزے بھی نہیں رکھ سکتی تو کیا قسم کا کفارہ پیسوں کی شکل میں ادا کیا جا سکتا ہے اور وہ یہ پیسے جہاد فنڈ میں بھیج سکتی ہے؟ (ایک مسلمان بہن)

ج: آپ نے سوال میں جو ساٹھ مسکینوں کا کھانا اور دو مہینوں کے روزوں کا کفارہ قرار دیا ہے وہ قسم کا کفارہ نہیں بلکہ ظہار کا ہے اور روزہ کی حالت میں بیوی سے مجامعت کا کفارہ ہے۔ قسم کا کفارہ وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے سورة المائدہ کی آیت۸۹ میں ذکر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
''اللہ تعالیٰ تم کو تمہاری لغو قسموں پر نہیں پکڑے گا اور البتہ ان قسموں پر پکڑ ہو گی جو تم نے ارادةًکھائی ہوں گی تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو درمیانی قسم کا کھانا کھلا دے جو اپنے اہل و عیال کو کھلانا ہے یا دس مسکینوں کو کپڑے پہنا دے یا ایک غلام آزاد کر دے اور جو ان میں سے کسی بھی کی طاقت نہ رکھتا ہو وہ تین دن کے روزے رکھے یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم (قصدا) قسم کھائو (پھر اس کو توڑ دو)۔''
کفارہ میں صرف وہی اشیاء ادا کرنی چاہیے جو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں نصاً ذکر کی ہیں۔ پیسوں کا چونکہ اللہ تعالیٰ نے ذکر نہیں کیا اس لئے قیمت پیسوں کی صورت میں ادا کرنا درست نہ ہو گا۔ ابنِ قدامہ فرماتے ہیں:
''قسم کے کفارہ میں قیمت ادا کرنا امام احمد، مالک، شافعی رحمة اللہ علیہم کے نزدیک صحیح نہیں ہے۔'' (المغنی ج۱۱، ص۲۶۵)
بعض فقہاء نے جواز کا بھی فتویٰ دیا ہے لیکن ان کا استدلال انتہائی کمزور ہے۔ کفارہ کا مصرف قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے دس مساکین ذکر کئے ہیں کفارہ کا مصرف جہاد فنڈ نہیں ہے (کیونکہ نہ تو اللہ تعالیٰ نے اسے کفارہ کا مصرف قرار دیا ہے نہ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے )۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
بیوی کے ساتھ حالتِ حیض میں جماع کا کفارہ
س: حالتِ حیض میں بیوی سے جماع کرنے کی صورت میں آدمی اگر کچھ مال اللہ کی راہ میں خرچ کر دے تو یہ ہی کافی ہے؟ اگر کسی کو سونا ، چاندی دینا پڑے گا تب اس کی مقدار کتنی ہو گی؟

ج: حالتِ حیض میں عورت سے جماع بہت بڑا گناہ ہے۔ اس کا اندازہ آپ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے لگائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''جوشخص حائضہ عورت کے ساتھ جماع یا اپنی بیوی کے ساتھ قومِ لوط والا عمل یا کسی نجومی کی باتوں کی تصدیق کرتا ہے اُس نے اس چیز کے ساتھ کفر کیا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پہ نازل کی گئی ہے۔'' (ابو دائود، نسائی، ترمذی و قال الالبانی صحیح)
کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس کے بارے میں فرمایا ہے کہ یہ اذیت ہے ان دنوں میں عورتوں سے علیحدہ رہو۔ ارشاد بار ی ہے:
''آپ سے وہ حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہو وہ گندگی ہے پس دُور رہو حیض میں عورتوں سے۔''(البقرہ : ۲۳)
اس سے معلوم ہوا کہ حائضہ سے حیض کی حالت میں جماع کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔ اتنے بڑے گناہ سے توبہ استغفار بھی ضروری ہے اور اس کا کفارہ بھی ادا کرے۔ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کے بارے میں کہا جو حیض کی حالت میں اپنی بیوی سے جماع کر تا ہے:
''وہ ایک دینار یا نصف دینار صدقہ کرے۔'' (ابو دائود ، نسائی، دارمی، ابنِ ماجہ، قال البانی صحیح و ھذا سند علی شرط البخاری)
کہ اس حدیث کی سند بکاری کی شرط کے مطابق ہے۔ اس حدیث کو امام حاکم، ذہبی، ابنِ القطان، ابنِ دقیق العید، ابنِ القیم، ابنِ حجر، ابنِ الرکمانی سب نے صحیح کہا ہے۔ (ارواء الغلیل ۷۱۸/۷۱۷/۱)
یاد رہے کہ ایک دینار ساڑھے چار ماشے سونے کے برابر ہوتا ہے۔ ابنِ عباس سے صحیح سند سے اس کی تفسیر منقول ہے۔ فرماتے ہیں:
''کہ اگر خون جاری ہونے کی ابتداء میں جماع کیا ہے تو ایک دینار، اور اگر آخر میں کیا ہے تو نصف دینار ادا کرے گا۔'' (ابو دائود، قال الالبانی صحیح موقوف)
ترمذی میں ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے یہ تفسیر بھی منقول ہے:

''اگر خون سرخ تھا تو ایک دینار ادا کرے اور اگر زرد تھا تو نصف دینار۔''
(ترمذی، قال الالبانی صحیح موقوف)
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
گانا بجانا
س: کیا گانا بجانا، گانا سننا وغیرہ جائز ہے۔ قرآن و سنت سے وضاحت کریں؟

ج: گانا بجانا سننا حرام ہے اور شیطانی افعال میں سے ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''اور لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں جو لہو الحدیث خریدتے ہیں تا کہ بگیر علم کے اللہ کی راہ سے لوگوں کو گمراہ کریں اور اس سے استہزاء کریں۔ یہی لوگ ہیں جن کے لئے رسوا کن عذاب ہے۔''ّ(لقمان)
اس آیت کی تفسیر میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے تفسیر طبری میں جز ۱ص٦١ پر مذکور ہے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے (ومن النّاس من یّشتری لھو الحدیث)کے بارے میں تین مرتبہ قسم کھا کر کہا کہ لو الحدیث سے مراد گانا بجانا ہے۔ اس طرح مفسر قرآن سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے لہو الحدیث کی تفسیر گانا بجانا اور گانا سننا منقول ہے۔
سیدنا جابر، مجاہد اور عکرمہ جیسے جلیل القدر مفسرین نے بھی لہو الحدیث سے گانا بجانا وغیرہ ہی مراد لیا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو مہلت دی تو اسے کہا:
''اور ان میں سے جس کو بھی تو بہکا سکتاہے اپنی آواز سے بہکاتا رہے۔''(بنی اسرائیل :۶۴)
اس آیت کی تفسیر میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اس آیت سے مراد:
''ہر وہ آدمی ہے جو اللہ کی نافرمانی کی طرف دعوت دیتا ہے۔''
سیدنا مجاہد نے اس آیت کی تفسیر یہ مروی ہے کہ اس سے مراد گانا بجانا اور لہو و لعب ہے۔ (تفسیر ابنِ کثیر ٣۳/۴۰٤٠) یعنی وہ تمام آوازیں (جیسا کہ گانا بجانا، عشقیہ اشعار وغیرہ) جو اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی کی طرف بلاتی ہیں، وہ اس آیت کا مصداق ہیں۔
بخاری شریف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''میری امت میں ایسی قومیں ہوں گی جو زنا ، ریشم، شراب اور باجے گاجے حلال سمجھیں گی۔'' (کتاب الاشربہ بخاری مع فتح الباری (۲)۵۳/۱۰)

یعنی زنا ، ریشم ، شراب اور باجے گاجے جن کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے، بعض لوگ انہیں حلال سمجھیں گے۔ اور آج وہ قومیں اکثر پائی جاتی ہیں جو گانا بجانا شراب وغیرہ کوئی عیب نہیں سمجھتیں بلکہ گانے بجانے کے آلات، ٹی وی ، وی سی آر اور گانوں کی کیسٹوں کی صورت میں ان کے گھروں میں موجود ہیں بلکہ شیطانیت اس قدر ترقی کر رہی ہے کہ ڈش انٹینا کی صورت میں اس برائی کو دن رات پھیلا یا جا رہا ہے اور مسلمانان عالم کی ذلت کے سبب بھی یہی ہے کہ انہوں نے اپنی اسلامی تہذیب ترک کر کے غیر مسلموں اور ہندوؤں وغیرہ کی تہذیب و تمدن کو اپنا لیا ہے اور ان کی پیروی میں گانا بجانا اور رقص وغیرہ کو اپنا لیا ۔ اللہ تعالیٰ حرام سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے:
حضرت ابی مالک اشعری کہتے ہیں:
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، البتہ میری اُمت میں سے لوگ ضرور شراب پئیں گے اور اس کے نام کے علاوہ کوئی اور نام رکھیںگے ۔ ان کے سروں پر باجے گاجے بجائے جائیں گے اور گانے والیاں (گانے گائیں گی) ۔ اللہ تعالیٰ انہیں زمین میں دھنسا دے گا ان میں سے بندر اور سور بنا دے گا۔'' (ابنِ ماجہ، کتاب الفن۱۳۳۳/۲)
امام ابنِ قیم نے اس حدیث کی سند کو صحیح قرار دیا ہے اس طرح علامہ البانی نے بھی اس سلسلہ صحیحہ میں شمار کیا ہے۔ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''اس اُمت میں زمین میں دھنسانا، صورتین بدلنا اور پتھروں کی بارش جیسا عذاب ہو گا تو مسلمانوں میں سے ایک مرد نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ کب ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب گانے والیاں اور باجے ظاہر ہوں گے اور شرابیں پی جائیں گی۔'' (سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ۱۶۰۴، کتاب الفتن، صحیح ترمذی۲۴۲/۲)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ گانا بجانا ، آلاتِ لہو مثلاً ٹی وی ، وی سی آر، وی سی پی، ویڈیو گیمز اور گانے وغیرہ کی کیسٹیں تمام شیطانی آلات سے ہیں ۔ ان کا بجانا اور سننا حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان تمام برائیوں سے محفوظ رکھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
ماتم اور شبیہوں کی شرعی حیثیت
س: کیا مصیبت کے وقت بے صبری کا مظاہرہ کرنا، گریبان چاک کرنا، اپنے سینے پر تھپڑ مارنا اور تعزیہ و شبیہہ لے کر بازاروں میں نکلنا قرآن و سنت اور ائمہ اہل بیت سے ثابت ہے؟

ج: اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں مصیبت کے وقت صبر کی تلقین کی ہے اور گریبان چاک کرنا ، سینہ کوبی کرنا وغیرہ صبر کے خلاف ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''اے ایمان والوں صبر اور نماز سے مدد لو۔ بے شک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔''(البقرہ : ۱۵۳)
انسان کو احکام شریعت پر عمل کرنے میںجو دشواریاں پیش آتی ہیں اور مصائب و آلام برداشت کرنے پڑتے ہیں ۔ صبر و صلوٰة ان مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لئے بہترین معاون ہیں جیسا کہ حدیث میں آتا ہے ''مومن کے لئے ہر حال میں بہتری ہے تکلیف کی حالت میں صبر کرتا ہے اور خوشحالی میں شکر گزار رہتا ہے۔'' (تفسیر ابنِ کثیر، قرطبی )
اس آیت کے بعد والی آیت میں اللہ تعالیٰ نے جہاد کے احکامات اور مومنین کی آزمائش کا ذکر کیا ہے کہ:
''جولوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید ہو جائیں انہیں مردہ مت کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم شعور نہیں رکھتے اور البتہ ہم آزمائیں گے تم کو کسی ایک چیز کے ساتھ ڈر سے اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی کے ساتھ اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجئے جب ان کی کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ (انّا للہ و انّا الیہ راجعون) کہتے ہیں۔''(البقرہ : ۱۰۴ تا ۱۰۶)
مندرجہ بالا آیات سے معلوم ہوا کہ مومن آدمی کو اللہ تعالیٰ مختلف طرق سے آزماتا ہے۔ کبھی خوف و ڈر کے ذریعے ، کبھی جانوں اور مالوں کی کمی کے ذریعے اور کبھی پھلوں کے نقصانات سے۔ ایمان دار آدمی کو جب ان تکالیف میں سے کوئی تکلیف پہنچے تو وہ بے صبری نہیں کرتا بلکہ صبر کے ساتھ ان مصائب کو برداشت کرتا ہے جو لوگ مصیبت یا پریشانی دیکھ کر بے صبری کریں اور واویلا برپا کردیں، گریبان چاک کریں، بال نوچیں وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق اُمت محمد سے نہیں ہیں۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''جس شخص نے رخسار پیٹے اور گریبان چاک کیا اور جاہلیت کے واویلے کی طرح واویلا کیا وہ ہم میں سے نہیں۔'' (بخاری مع فتح ۱۲۳/۳، مسلم۱۶۰، نسائی۱۹/۴، مستنقی لا بن جرود۵۱۶ ، ترمذی۹۹۹، ابنِ ماجہ۱۰۸۴، احمد۳۸۶/۱،۴۳۲، بیہقی۶۴/۴)
عشرہ محرم الحرام میں جو لوگ سیدنا علی ، سیدنا حسین اور سیدنا ھسن رضی اللہ عنہم کا نام لے کر گلی کوچوں میں نکلتے ہیں اور گریبان چاک کرتے ہیں ، سینہ کوبی کرتے ہیں، ان کا یہ عمل قرآن و سنت کے خلاف ہونے کے علاوہ ائمہ بیت اور مجتہدین فقہ جعفریہ کے فتاویٰ کے بھی خلاف ہے۔ ہماری معلومات کے مطابق یہ قبیح عمل۳۵۲ ھ دس محرم الحرام کو بغداد میں معزالدولہ شیعہ کے حکم سے جاری ہوا ہے۔ اس سے قبل اس عمل قبیح کا نام و نشان نہیں ملتا۔ تاریخ ابنِ اثیر ص ۱۹۷ پر مرقوم ہے:
''عشرہ محرم الحرام میں اس قبیح رسم کا رواج بغداد میں معزالدولہ شیعہ سے ہوا جس نے دس محرم ۳۵۲ھ کو حکم دیا کہ دو کانیں بند کر دی جائیں ، بازار اور خریدو فروخت کا کام روک دیا جائے اور لوگ نوحہ کریں ، مکمل کالا لباس پہنیں، عورتیں پراگندہ ہو کر گریبان چاک کریں، پیٹتی ہوئی شہر کا چکر لگائیں۔''

ہم فقہ جعفریہ کی معتبر کتاب سے چند روایات درج کرتے ہیں:
''امام جعفر صادق سے مروی ہے کہ انہوںنے کہا کہ یقینا صبر اور آزمائش دونوں مومن پر آتے ہیں۔ مومن پر جب آزمائش آتی ہے تو وہ صبر کرنے والا ہوتا ہے اور بے صبری اور آزمائش دونوں کافر پر آتے ہیں جب س پر آزمائش آتی ہے تو وہ بے صبری کرتا ہے۔'' (فروع کافی، کتاب الجنائز۱۳۱/۱)
امام جعفر صادق کے س فتویٰ سے معلوم ہوا کہ صبر کرنے والا مومن ہے اور جو بے صبری کرتا ہے وہ مومن نہیں ہے۔
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمة الزہراء رضی اللہ عنھا سے فرمایا جب میں مر جائوں تو مجھ پر چہرہ نہ نوچنا اور نہ مجھ پر اپنے بال بکھیرنا اور نہ واویلا کرنا اور نہ مجھ پر نوحہ کرنا۔'' (فروع کافی ، کتاب النکاح ، ص۲۲۸)
''امام جعفر صادق نے فرمایا میت پر چیخ و پکار اور کپڑے پھاڑنا جائز نہیں۔'' (فروع کافی۱۸۸/۱)
''امام باقر نے فرمایا ، جس نے قبر کی تجدید کی یا کوئی شبیہ بنائی ، وہ اسلام سے خارج ہو گیا۔'' (من لا یحضر ة الفقیۃ باب النوادر)
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''رخسار ہر گز نہ پیٹنا اور نہ ہی چہرہ نوچنا اور نہ بال اکھیڑنا اور نہ گریبان چاک کرنا اور نہ کپڑے سیاہ کرنا اور نہ واویلا کرنا۔'' (فروع کافی، کتاب النکاح ص۲۲۸)
مندرجہ ذیل فقہ جعفریہ کی پانچ روایات سے معلوم ہوا کہ فقہ جعفریہ میں بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، امام باقر اور امام جعفر صادق وغیرہ سے روایات موجود ہیں جو اس بات پر صراحتاً دلالت کرتی ہیں کہ مصیبت کے وقت بال بکھیرنا ، چہرے پیٹنا ، سینہ کوبی کرنا، واویلا کرنا، مرثیے پڑھنا ، شبیہیں بنانا ، قبروں کی تجدید کرنا ناجائز اور حرام ہیں۔ لہٰذا پنج تن کا نعرہ لگانے والوں کو مذکورہ بالا فقہ جعفریہ کے پانچ دلائل کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے اور اس کی خلاف ورزی کرنے سے بار آجانا چاہیے۔
 
Top