• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آپ کے مسائل اور ان کا حل

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
قنوت نازلہ شرعیت اسلامیہ اور فقہ حنفیہ کی نظر میں
س: اہل حدیث حضرات کے ہاں قنوتِ نازلہ کی جاتی ہے ۔ جہری نمازوں کے ساتھ ساتھ سری نمازوں یمیں بھی ۔ اس پر تفصیلاً اور دلائل کے ساتھ بحث فرمائیں ؟ کیا یہ طریقہ رسول اللہ سے ثابت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ قنوت کیوں کی اور کیسے کی ؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ اس پر عمل کیا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم اس پر عمل پیرا تھے ؟ اس کا طریقہ کار کیا ہے ۔ اگر ثابت ہے تو احناف کیوں نہیں کرتے ؟

ج: جب مسلمان کسی مصیبت میں گرفتار ہوں، دنیا کے کسی خطے میں مسلمانوں پر کفار و مشرکین او ریہود و نصاری ٰ ظلم و ستم ڈھا رہے ہوں۔ شب و روز انہیں پریشانیوں سے دچار کر رہے ہوں، انہیں قید و بند کی صعو بتوں میں مبتلا کر رہے ہوں تو ان حالات میں جہاں ان مسلمانوں کیلئے دیگر مادی اسباب کے تحت مدد کی جاتی ہے، اسی طرح ان کیلئے جو روستم اور ظلم و تشدد سے بچاؤ کیلئے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنا قنوتِ نازلہ ہے اور یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی صبح کی نماز میں ظہر اور عشاء میں اور کبھی پانچوں نمازوں میں، اپنے مومن ساتھیوں کے لئے عجز و انسکاری اور خشوع و خضوع کے ساتھ رکوع کے بعد ہاتھ اٹھاکر دعا فرماتے تھے ۔ یہی عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم ، فقہائ، محدثین، تابعین، تبع تابعین اور سلف صالحین رحمہ اللہ کرتے رہے۔ اسی مسئلہ کے متعلق چند ایک احادیث ملاحظہ فرمائیں ۔
(۱) ایک دفعہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے تلامذہ کو نماز پڑھ کر دکھائی اور فرمایا۔
'' اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یقینا میں نے تم سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے ساتھ مشابہ ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نماز دُنیا چھوڑنے تک اسی طرح رہی ۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دونوں شاگرد ابو بکر بن عبدالرحمن بن الحارث اور ابو سلمہ بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رکوع سے سر اُٹھاتے وقت سمع اللہ لمن حمد ہ و بنا ولک الحمد کہتے تو آدمیوں کے نام لے کر انکی لئے دُعا کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے اے اللہ ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام اور عیاش بن ابی ربیعہ اور کمزور مسلمانوں کو نجات دے اور کفار پر اپنی پکڑ سخت کر دے اور ان پر اس طرح قحط سالی فرما جیسے تو نے یوسف علیہ السلام کے دور میں کی تھی ''۔

(۲) ''عاصم احول رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے قنوت کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا ! قنوت تو تھی ۔ میں نے کہا کیا رکوع سے پہلے یا بعد میں ؟ آپ نے کہا پہلے میں نے کہاں فلاں شخص نے مجھے آپ کی جانب خبر دی ہے کہ آپ نے فرمایا رکوع کے بعد ہے ۔ آپ نے فرمایا اُس نے غلط کہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کے بعد (صرف ) ایک مہینہ قنوت پڑھی تھی ۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ نے ستر کے قریب افراد کی ایک جماعت جنہیں قراء کہا جاتا تھا مشرکین کی طرف بھیجا تھا ۔ یہ مشرکین ان کے علاوہ تھے جن کیلئے آپ نے بد دعا کی تھی ان کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان معاہدہ تھا پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینے تک ( رکوع کے بعد ) قنوت کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مشرکین کیلئے بد دعا کرتے رہے ''۔

(۳) صحیح مسلم ۱/۲۳۷ یہ بھی ہے کہ آپ ولید بن ولید وغیرہ کے واپس آنے تک دعا کرتے رہے۔

(۴) سیدنا ابو ہریرہ نے فرمایا :
اللہ کی قسم میں تمہارے قریب وہ نماز ادا کروں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ہے۔ سو ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نماز ظہر، نماز عشا ء اور فجر میں رکوع کے بعد قنوت کرتے اور مومنین کیلئے دعا اور کفار کیلئے لعنت کرتے ۔

(۵) ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مہینہ مسلسل ظہر ، عصر ، مغرب عشاء اور فجر کی نمازوں میں سے ہر نمازمیں جب آخری رکعت میں سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو قنوت کرتے ۔ بنو سلیم کے چند قبائل رعل ، ذکوان اور عصیہ پر بد دعا کرتے رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے مقتدی آمین کہتے رہے ۔ (ابوداؤد ۲/۶۸(۱۴۴۳)
(۶) صحیح بخاری ۲/۶۵۵ ٦ میں یہ الفاظ بھی ہیں ۔ جب آپ سمع اللہ لمن حمدہ ربنا لک الحمد کہتے تو دعا کرتے اے اللہ ولید بن ولید وغیرہ کو نجات دے اور یہ دُعا اونچی کرتے۔

مندرجہ بالا حدیث سے در ج ذیل امور حاصل ہوئے:
۱) جب بھی مسلمانوں پر مصائب و آلا، کفرکاجوروستم اور ظلم و تشدد ہو تو اس وقت فرض نمازوں میں دعا کرنا جسے قنوتِ نازلہ کہتے ہیں ، شروع و جائز ہے۔
۲) یہ دُعا مختلف حالات کے مطابق کبھی ایک نماز میں ، کبھی دو تین نمازوں میں اور کبھی پانچوں نمازوں میں کی جاتی ہے کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف نمازوں میں یہ دعا کی ہے ۔
۳) اس دعا کا مقصد مسلمانوں کیلئے مصائب سے نجات اور کافر کیلئے عذاب الٰہی کا مطالبہ ہوتا ہے۔
۴) یہ دعا اگر اپنے ان ساتھیوں کیلئے کی جائے جو کفار کے نرغے میں پھنسے ہوئے یا کسی مصیبت میں گرفتار ہیں تو ان کے نام لے کے بھی کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح کافر کے قبائل کے نام لے کر بھی بد دعا کی جا سکتی ہے۔
۵) اس دعا کیلئے ضروری نہیں کہ ہمیشہ کی جائے بلکہ مطلوبہ مصیبت کی دوری کے بعد ترک کر دی جائے ۔ یہ دُعا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنےساتھیوں کی رہائی تک کی ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ مر کز والے ان دنوں مسلسل قنوت کرتے ہیں ۔ حالانکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو قنوت چھوڑ دی تھی ۔ تو گزارش یہ ہے کہ ہم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح اس وقت تک دعا کرتے ہیں گے۔ جب تک ہمارے ساتھی جو کشمیر میں ہندو کی جیل میں رہائی نہیں پاتے ۔ جب رہائی پا لیں گے تو ترک کر دیں گے ۔
۶) دُعا کیلئے کوئی خاص الفاظ متعین نہیں ۔ ہر دوہ دعا کی جا سکتی ہے جو مطلوب ہو ۔ امام نوو ی رحمہ اللہ شرح مسلم میں لکھتے ہیں ۔ والصحیح انہ لا یتعین فی دعا مخصوص بل یحصل بکل دعاء فیہ وجہ انہ لا یحصل الا بالدعاء ( شرح مسلم للنوی ۱١/۲۳۷)
''صحیح بات یہ ہے کہا س بارے میں کوئی خاص دعا نہیں بلکہ ہراس دعا کو پڑھا جا سکتا ہے جس سے یہ مقصود حاصل ہوتا ہو ۔ البتہ بہتر اور اولیٰ یہی ہے کہ جو دعائیں قرآن مجید اور احادیث صحیحہ میں موجود ہیں وہ پڑھے۔ علاوہ ازیں اپنی اپنی حاجات کے لئے مختلف ادعیہ کی جا سکتی ہیں ''۔
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ اپنی صحیح میں یہ بات لائے ہیں :
'' سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ جب رمضان المبارک میں تراویح پڑھاتے تو ہنگامی حالات کے پیش نظر کفار و مشرکین کیلئے بد دعا کرتے۔ نصف رمضان میں کفار پر لعنت کرتے اورکہتے ، اے اللہ ان کافروں کو جو تیرے راستے سے روکتے ہیں، تیرسے رسولوں کو جھٹلاتے ہیں اور تیرے وعدے پر ایمان نہیں لاتے ، برباد کر دے اور ان کی باتوں کی مخالفت ڈال دے اور ان کے دلوں میں رعب ڈال دے اور ان پر اپنا عذاب و عتاب مسلط کر دے پھر رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے اور مسلمانوں کیلئے اپنی استطاعت کے مطابق بھلائی کی دعا کرتے۔ پھر مومنوں کیلئے استغفار کرتے ''۔(ابن خزیمہ ۱۵۶' ۱۵۵/۲ (۱۱۰۰)
۷٧) قتوتِ نازلہ رکوع کے بعد ہاتھ اٹھاکر کی جاتی ہے۔
۸٨) آپ صلی اللہ علیہ وسلم قنوت جہراً پڑھتے اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم پیچھے آمین کہتے۔
لہٰذا اہل حدیث حضرات کا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت پر عمل ہے۔ اسکے مطابق موجودہ زمانے میں وہ مسلمان جو کشمیر، بوسینیا، فلپائن، اریٹیریا ، الجزائروغیرہ ممالک میں یہود و نصاریٰ ، ہنود و اسرائیل کے ظلم وا ستبداد میں پس رہے ہیں ۔ جہاں ان کی جانی و مالی امداد کرتے ہیں وہاں ساتھ ہی اپنی نمازوں میں ان کی نصرت و مدد کیلئے اللہ کے حضور دُعا گو ہوتے ہیں ۔
علماء احناف میں سے جمہور علماء اس بات کے قائل ہیں کہ صبح کی نماز میں قنوتِ نازلہ کا پڑھنا درست ہے۔ موجودہ زمانے کے مشہور حنفی عالم صوفی عبدالحمید سواتی اپنی کتاب '' نماز مسنون کلاں '' کے صفحہ۲۵۱ پر رقم طراز ہیں:
'' جمہور فقہاء احناف کہتے ہیں کہ صبح کی نماز میں قنوت نازلہ پڑھنا درست ہے ۔ چاہئے التزام کےساتھ ہی کیوں نہ ہو اور جنتی احادیث اس بارے میں وار دہوئی ہیں، ان کا صحیح محل یہی ہے ۔مزید ص۲۵۲ پر لکھتے ہیں '' صبح کی نماز میں جب امام قنوت بالجہر پڑھ رہا ہو تو مقتدی کو اختیار ہے کہ وہ بھی قنوت پڑھے یا آمین کہے یا خاموش رہے ''۔ ( کبیری ص۲۳۳٣) پھر اسی صفحہ پر استاد حسین احمد مدنی کا عمل نقل کیا ہے۔اور وزیرستان و فلسطین کے مسلمانوں کیلئے دعا ذکر کی ہے۔ لہٰذا ہمارے حنفی بھائیوں کو بھی چاہئے کہ وہ موجودہ حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مسئلہ جہاد کو سمجھیں اور عقائد کی تطہیر کےساتھ اپنی نمازوں میں مظلوم و مقہور مسلمانوں کیلئے اللہ تعالیٰ سے قنوتِ نازلہ کریں تاکہ اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو عزت کی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے اعمال کی اصلاح کرے ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
دعائے قنوت ، رکوع سے پہلے یا بعد ؟

س: دُعائے قنوت وتر میں رکوع سے پہلے مانگی چاہیئے یا بعد میں ۔ بخاری شریف میں سید نا انس سے مروی ہے کہ رکوع کے بعد قونت کرنا غلط ہے کیا یہ درست ہے قرآن و سنت کی رو سے صحیح مسئلہ کی و ضاحت کریں۔

ج: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے عمل سے وتر میں دُعا قنوت رکوع سے قبل ثابت ہے اور اکثر روایات رکوع سے قبل ہی قنوت وتر پر دلالت رکتی ہیں۔ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے :
۱) رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم ( تین ) وتر ادا کرتے تو دعائے قنوت رکوع سے پہلے پڑھتے ۔ ( سنن ابن ماجہ (۱۱۸۶)۱/۳۷۴ ١، نسائی۳/۲۳۵، دارقطنی۲/۱۳)
یہ روایت بطریق سفیان از زبید الیامی مروی ہے اس کے علاوہ دار قطنی ۳/۳۱ اور بیہقی ۳/۴۰ میں بطریق فطر بن خلیفہ از زبیری مروی ہے ان دنوں نے بھی زبید سے یہ روایت بیان کرتے ہوئے دعائے قنوت قبل از رکوع ہی بیان کیا ہے۔

۲) سیدنا حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں :
'' یعنی مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلمات وتر میں قرأ ت سے فارغ ہو نے کے بعد پڑھنے کیلئے سکھائے '' ( کتاب التوحید لابن مندہ ۲/۹۱، ارواء الغلیل٢۲/۱۶۸)
یہ روایت اپنے مفہوم کے لحاظ سے بالکل واضح ہے کہ وتر میں دعائے قنوت قرأت سے فارغ ہونے کے بعد رکوع سے پہلے کرنی چاہئے۔

۳) علقمہ سے روایت ہے :
'' کہ ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ اور رسول اللہ کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم وترمیں رکوع سے قبل قنوت پڑھا کرتے تھے ''۔
علامہ ابن تر کماین نے الجوہر النقی میں اور علماہ البانی حفظہ اللہ نے ارواء الغلیل میں اس کی سند کو مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے لہٰذا صحابہ کے عمل سے بھی وتر میں قنوت رکوع سے قبل ہی ثابت ہوئی ۔ امام ابن ابی شیبہ آثار صحابہ کے بعد فرماتے ہیں ھذا القول عندنا ہمارا قول یہی ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ۲/۳۰۶)

۴) عاصم کہتے ہیں میں نے انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے قنوت کے بارے میں سوال کیاتو آپ نے فرمایا رکوع سے پہلے ہے پھر میں نے کہا فلاں شخص آپ کے حوالے سے بیان کرتا ہے کہ رکوع کے بعد ہے تو انس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا وہ غلط کہتا ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کے بعد صرف ایک ماہ قنوت کیا ۔ یہ اس وقت ہو اجب آپ نے ۷۰ قراء صحابہ کو مشرکوں کی ایک قوم (بنی عامر ) کی طرف تعلیم کیلئے بھیجا تھا ان کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان وعدہ تھا (انہوں نے وعدہ شکنی کرتے ہوئے ان قراء کو شہید کر ڈالا ) تو آپ نے ایک مہینہ تک رکوع کے بعد قنوت کیا اور ان پر بد دعا فرمائی ۔
(بخاری ۱/۱۹۷، ص ١٩٧ مطبوعہ مکتبہ دارالسلام)
اس روایت سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ جو دُعا ہنگامی حالات میں مسلمانوں کی خیر خواہی ، کفار و مشرکین اور دشمنان اسلام کیلئے بد دعا کے طور پر کی جاتی ہے وہ رکوع کے بعد ہے جسے قنوتِ نازلہ کہا جاتا ہے اور جو دعا رکوع سے قبل مانگی جاتی ہے وہ قنوت وتر ہے اور قنوت وتر میں ہاتھوں کا اٹھانا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی صحیح حدیث میں ثابت نہیں ۔ رکوع سے قبل قرأ ت سے فارغ ہونے کے بعد اسی طرح بغیر ہاتھ اٹھائے دعا مانگنی چاہئے جو لوگ قنوت وتر میں ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہیں ہو اسے قنوت نازلہ پر قیاس کرتے ہیں ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
قنوت نازلہ میں ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا

س: کیا قنوت نازلہ میں ہاتھ اٹھار کر دعا کرنا کسی صحیح حدیث سے ثابت ہے اکثر اہلحدیث مساجد میں دیکھا گیا ہے کہ لوگ رکوع کے بعد ہاتھ اٹھا کرعام نمازوں میں دعا مانگتے ہیں ۔ اس کی وضاحت مطلوب ہے۔

ج: مصیبت اور رنج و الم کی شدت اور ضعف کے وقت آپ نے کبھی بعض نمازوں میں اور کبھی پانچوں نمازوں میں رکوع کے بعد قنوت کیا جس کو قنوت نازلہ کہتے ہیں ۔ اس میں آپ رکوع کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے تھے۔ اور سیدنا انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مسند احمد ۳/۱۳۷ پر جو روایت قنوت نازلہ کے متعلق مروی ہے اس میں آتا ہے کہ:
'' میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صبح کی نماز میں دیکھا کہ آپ نے ہاتھ اٹھائے اور دشمنان اسلام پر بد دعا کی۔
یہ حدیث صحیح ہے علامہ البانی نے اس کو ارواء الغلیل میں مسند احمد کے علاوہ طبرانی کے حوالہ سے بھی بیان کیا ہے۔ یاد رہے کہ دُعا کے بعد چرے پر ہاتھ پھیرنے کے متعلق کوئی حدیث موجود نہیں اس بارے میں جتنی روایت مروی ہیں وہ سب کی سب ضعیف ہیں جو قابل حجت نہیں ۔ امام بہیقی نے السنن الصغریٰ میں لکھا ہے کہ فانھا من المحدثات یہ بد عات میں سے ایک بدعت ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
عورت اور مرد کی نماز میں کوئی فرق نہیں

س: قرآن و سنت کی روشنی میں عورت کی نماز کے بارے میں بتائیں کیونکہ عموماً کہا جاتا ہے کہ عورت کی نماز مرد کی نماز سے مختلف ہے۔ مثلاً عورت کو مرد کی طرح سجدہ نہیں کرنا چاہئے وغیرہ؟

ج: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نماز کی کیفیت و ہییت بیان فرمائی ہے اس کیا دائیگی میں مرد و عورت برابر ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ '' تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو ''۔
(بخاری مع فتح الباری۲/۱۱۱، مسند احمد۵/۵۲، ارواء الغلیل حدیث نمبر۲۱۳١٣)

یاد رکھیں کہ تکبیر تحریمہ سے سلام تک مردوں اور عورتوں کی نماز ہیئت ایک جیسی ہے سب کیلئے تکبیر تحریمہ قیام، ہاتھوں کا باندھنا، دعاء استفتاح پڑھنا، سورہ فاتحہ، آمین، اس کے بعد کوئی اور سورت، پھر رفیع الیدین رکوع، قیام ثانی، رفع یدین، سجدہ ، جلسہ استراحت ، قعدہ اولیٰ ، تشہد، تحریک اصابع، قعدہ اخیرہ ، تورک، درود پاک اور اس کے بعد دعا، سلام اور ہر مقام پڑھی جانے والی مخصوص دعائیں سب ایک جیسی ہی ہیں عام طور پر حنفی علماء کی کتابوں میں جو مردوں اور عورتوں کی نماز کا فرق بیان کیا جاتا ہے کہ مرد کانوں تک ہاتھ اٹھائیں اور عورتیں صرف کندھوں تک ، مر دحال قیام میں زیر ناف ہاتھ باندھیں اور عورتیں سینہ پر ، حالت سجدہ میں مرد اپنی رانیں پیٹ سے دور رکھیں او ر عورتیں اپنی رانیں پیٹ سے چپکا لیں یہ کسی بھی صحیح و صریح حدیث میں مذکور نہیں ۔ چنانچہ امام شوکافی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
۱) '' اور جان لیجئے کہ یہ رفع یدین ایسی سنت ہے جس میں مرد اور عورتیں دونوں شریک ہیں اور ایسی کوئی حدیث وارد نہیں ہوئی جوان دونوں کے درمیان اس کے بارے میں فرق پر دلالت کرتی ہو ۔ اور نہ ہی کوئی ایسی حدیث وارد ہے جو مرد اور عورت کے درمیان ہاتھ اٹھانے کی مقتدار پر دلالت کرتی ہو اور احناف سے مروی ہے کہ مرد کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور عورت کندھوں تک کیونکہ یہ اس لئے زیادہ سا تر ہے لیکن اس کیلئے ان کے پاس کوئی دلیل شرعی موجود نہیں ''۔ ( نیل الا وطار ۲/۱۹۸)
شارح بخاری امام حافظ ابن حجر عسقلانی اور علامہ شمس الحق عظیم آابادی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں :
'' مرد اور عورت کے درمیان تکبیر کیلئے ہاتھ اٹھانے کے فرق کے بارے میں کوئی حدیث وارد نہیں ''۔ (فتح الباری۲٢/۲۲۲، عوں المعبود ۱/۲۶۳)

۲) مردوں اور عورتوں کے حال قیام میں یکساں طور پر حکم ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں کو سینے پر باندھیں خاص طور پر عورتوں کیلئے علیحدہ حکم دینا کہ وہ ہی صرف سینے پر ہاتھ باندھیں اور مرد ناف کے نیچے باندھیں اس لئے حنفیوں کے پاس کوئی صریح و صحیح حدیث موجود نہیں ۔ علامہ عبدالرحمن مبارکپوری ترمزی کی شرح میں فرماتے ہیں کہ :
'' پس جان لو کہ امام ابو حنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ مرد نماز میں ہاتھ ناف کے نیچے باندھے اور عورت سینہ پر امام بو حنیفہ اور آپ کے اصحاب سے اس کے خلاف کوئی اور قول مروی نہیں ہے ''۔
(تحفہ الا حوذی ۱/۲۱۳)
محدث عصر علامہ البانی حفظہ اللہ فرماتے ہیں :
'' اور سینہ پر ہاتھ باندھنا سنت سے ثابت ہے اور اس کے خلاف جو عمل ہے وہ یا تو ضعیف ہے یا پھر بے اصل ہے ''۔ (صفۃ صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم /۸۸)

۳) حالت سجدہ میں مردوں کا پانی رانوں کو پیٹ سے دور رکھنا اور عورتوں کا سمٹ کر سجدہ کرنا یہ حنفی علماء کے نزدیک ایک مرسل حدیث کی بنیاد پر ہے جس میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوعورتوں کے پاس گزر ے جو نماز پڑے رہی تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم سجدہ کر وتو اپنے جسم کا کچھ حصہ زمین سے ملا لیا کرو کیونکہ عورتوں کا حکم اس بارے میں مردوں جیسانہیں ۔ علامہ البانی حفظہ اللہ فرماتے ہیں :
'' روایت مرسل ہے جو قابل حجت نہیں امام ابو داؤد نےا سے مراسیل میں یزید بن ابی حبیبت سے روایت کیا ہے مگر یہ روایت منقطع ہے اور اس کی سند میں موجود ایک راوی سالم محدثین کے نزدیک متورک بھی علامہ ابن التر کمانی حنفی نے الجوھر النقی علی السنن الکبری للبیھقی ۲٢/۲۲۳پر تفصیل سے اس روایت کے بارے میں لکھا ہے ''۔

۴) اس بارے میں حنفی علماء ایک اور روایت پیش کرتے ہیں ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورت جب سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کو رانوں سے چپکا لے اس طرح کہ اس کیلئے زیادہ سے زیادہ پردہ کا موجب ہو ۔ یہ روایت السنن الکبری للبیہقی ٢۲/ ۲۲۲۔ ۲۲۳ میں موجود ہے لیکن اس روایت کے متعلق خود امام بیہقی نے صراحت کر دی ہے کہ اس جیسی ضعیف روایت سے استدلال کرنا صحیح نہیں۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ایک اثر یہ بھی پیش کیا جاتا ہے کہ :
قنوت نازلہ شرعیت اسلامیہ اور فقہ حنفیہ کی نظر میں
"وہ اپنی عورتوں کو حکم دیتے کہ وہ نماز میں چار زانوں بیٹھے"۔
مگر اس کی سند میں عبداللہ بن عمر العمری ضعیف راوی ہے۔(تقریب ۱۸۲)
پس معلوم ہوا کہ احناف کے ہاں عورتوں کے سجدہ کرنے کا مروج طریقہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں مگر اس طریقہ کے خلاف رسول اللہ کے متعد ارشاد مروی ہیں چند ایک یہاں نقل کیے جاتے ہیں ۔
'' تم سے کوئی بھی حالت سجدہ میں اپنے دونوں بازے کتے کی طرح نہ بچھائے''
'' سجدہ اطمینان سے کرو اور تم میں سے کوئی بھی حالت سجدہ میں اپنے بازہ کتے کی طرح نہ بچھائے ''۔
غرض نماز کے اند رایسے کاموں سے روکا گیا ہے جو جانوروں کی طرح ہوں۔ امام بن قیمہ فرماتے ہیں ـ:
'' نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں حیوانات سے مشابہت کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ چنانچہ اس طرح بیٹھنا جس طرح اونٹ بیٹھتا ہے یا لومڑ کی طرح اِ دھر اُدھر دیکھنا یا جنگلی جانوروں کی طرف افتراش یا کتے کی طرح اقعاء کو ے کی طرح ٹھونگیں مار نا یا سلام کے وقت شریر گھوڑوں کی دموں کی طرح ہاتھ اٹھانا یہ سب افعال منع نہیں ''۔
پس ثابت ہو اکہ سجدہ کا اصل مسنون طریقہ وہی ہے جو رسول اللہ کا اپنا تھا اور کتب احادیث میں یوں مروی ہے :
'' جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کرتے تو اپنے ہاتھوں کو زمین پر نہ بچھاتے اور نہ ہی اپنے پہلوؤں سے ملاتے تھے ''۔ بخاری مع فتح الباری ۲٢/ ۳۰۱، سنن ابو داؤد مع عون۱/۳۳۹، السنن الکبری للبیہقی۲/۱۱۶، شرح السنہ للبغوی (۵۵۷)

قرآن مجید میں جس مقام پر نماز کا حکم وار دہوا ہے اس میں سے کسی ایک مقام پر بھی اللہ تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں کے طریقہ نماز میں فرق بیان نہیں فرمایا۔ دوسری بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کسی صحیح حدیث سے ہیئت نماز کا مفرق مروی نہیں ۔ تیسری بات یہ ہے کہ نبی کریم کے عہدِ رسالت سے جملہ اُمہات المومنین ، صحابیات اور احادیث نبویہ پر عمل کرنے والی خواتین کا طریقہ نماز وہی رہا ہے جو رسول اللہ کا ہوتا تھا ۔ چنانچہ امام بخاری ل نے بسند صحیح اُم درداء رضی اللہ عنہا کے متعلق نقل کیا ہے :
'' وہ نما ز میں مردوں کی طرح بیٹھتی تھیں اور وہ فقیہ تھیں ''۔ ( تاریخ صغیر للبخاری ٩٠)

چوتھی بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم عام ہے :
'' تم اس طرح نماز پڑھو جس طرح مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو ۔''

ا س حکم کے عموم میں عورتیں بھی شامل ہیں ۔
پانچویں بات یہ ہے کہ سلف صالحین یعنی خلفائے راشدین، صحابہ کرام ، تابعین، تبع تابعین محدثین اور صلحائے اُمت میں سے کوئی بھی ایسامرد نہیں جو دلیل کے ساتھ یہ دعویٰ کرتا ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں اور عوتوں کی نماز میں فرق کیا ہو بلکہ امام ابو حنیفہؒ کے استاذ کے استاذ امام ابرہیم نحعی سے بسند صحیح مروی ہے کہ وہ فرماتے ہیں :
'' نماز میں عورت بھی بالکل ویسے ہی کرے جیسے مرد کرتا ہے ''۔ (مصنف ابن ابی شیبہ۱/۷۵/۲)

جن علماء نے عورتوں کا نماز میں تکبیر کیلئے کندھوں تک ہاتھ اٹھانا قیام میں ہاتھ سینہ پر باندھنا اور سجدہ میں زمین کے چاتھ چپک جانا موجب ستر بتایا ہے۔ وہ دراصل قیاس فاسد کی بناء پر ہے کیونکہ جب اس کے متعلق قرآن وسنت خاموش ہیں تو کسی عالم کو یہ حق کہاں پہنچتا ہے کہ وہ اپنی من مانی کر از خود دین میں اضافہ کرے۔ البتہ نماز کی کیفیت وہیئت کے علاوہ چند مرد و عورت کی نماز مختلف ہیں ۔
١) عورتوں کیلئے اوڑھنی او پر لے کر نماز پڑحنا حتی کہ اپنی ایڑیوں کو بھی ڈھکنا ضرویر ہے۔ اس کے بغیر بالغہ عورت کی نماز قبول نہیں ہوتی ۔ جیسا کہ حدیث پاک میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
'' اللہ تعالیٰ کسی بھی بالغہ عورت کی نماز بغیر اوڑھنی کے قبول نہیں کرتا''۔ (ابن ماجہ (۶۵۵)۱/۲۱۵، ابوداؤد (۶۴۱) ، مسند احمد۶/۱۵۰،۲۱۸،۲۵۹)
لیکن مردوں کیلئے کپڑا ٹخنوں سے اوپر ہونا چہائے کیونکہ بکاری شریف میں آتا ہے ہے کہ :
'' کپڑے کا ٹخنے سے نیچے ہونا باعث آگ ہے ''۔

٢) عورت جب عورتوں کی امامت کرائے تو اس کے ساتھ پہلی صف کے وسط میں کھڑی ہو جائے مردوں کی طرح آگے بڑھ کر کھڑی نہ ہو ۔ امام ابو بکر ابن ابی شیبہ نے مصنف میں اور اور امام حاکم نے سیدنا عطاء سے بیان کیا ہے کہ :
'' سیدہ عائشہ عورتوں کی امامت کراتی تھیں اور ان کے ساتھ صف میں کھڑی ہوتی تھیں ''۔
اور اُ م سلمہ کی روایت میں آتا ہے کہ :
'' انہوں نے عورتوں کی امامت کرائی اور ان کے درمیان میں کھڑی ہوئیں ''۔
( مزید تفصیل کیلئے عون المعبود۲/۲۱۲ ملاحظہ فرمائیں )

۳) امام جب نماز میں بھول جائے تو ا سے متنبہ کرنے کیلئے مرد سبحان اللہ کہے اور عورت تالی بجائے ۔ جیسا کہ حدیث پاک میں آتا ہے :
'' مردوں کیلئے سبحان اللہ اور عورتوں کیلئے تالی ہے '' (بخاری ٢۲/۶۰، مسلم۲/۲۷، ابو داؤد (۹۳۹) ، ابن ماجہ۱/۲۲۹، نسائی۳/۱۱، مسند احمد۲/۲۶۱١،۳۱۷،۳/۳۴۸)

٤) مرد کو نماز کسی صورت میں بھی معاف نہیں لیکن عورت کو حالتِ حیض میں فوت شدہ نماز کی قضا نہیں ہوتی ۔ جیسا کہ بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، دارمی اور مسند احمد میں موجود ہے۔

۵) اسی طرح عورتوں کی سب سے آخری صف ان کی پہلی صف سے بہتر ہوئی ہے ۔ مسلم کتاب الصلوٰۃ ، ابو داؤد، ترمذی ، نسائی، ابن ماجہ اور مسند احمد۲/۴۸۵،۲۴۷،۳/۳،۱۶ میں حدیث موجو دہے ۔
یہ مسائل اپنی جگہ پر درست اور قطعی ہیں مگر ان میں تمام تصریفات منصوصہ کو مروجہ تصریفات غیر منصوصہ کیلئے ہر گز دلیل نہیں بنایا جاسکتا ۔ یہ تفریقات علماء احناف کی خودساختہ ہیں جن کا قرآن و سنت سے کوئی تعلق نہیں ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
عورت اور مرد کی نماز

س: عورت اور مرد کی نماز میں کیا فرق ہے عورت کو سجدہ کرتے وقت اپنا پیٹ رانوں سے لگانا چاہئے قرآن و سنت کی رو سے وضاحت کریں ۔

ج: نبی اکرم نے نماز کی جو کیفیت بیان فرمائی ہے، اس میں مرد عورت دونوں برابر ہیں ، آپ کا حکم ( صلو ا کمار ایتمونی اصلی ) '' نماز اس طرح پڑحو جس طرح نماز پڑھتے ہوئے مجھے دیکھتے ہو ''( بخاری )مردوں اور عورتوں سب کیلئے برابر ہے۔ آپ نے نماز کا جو طریقہ بیان فرمایااس کی ادائیگی میں مرد و زن کیلئے کوئی فرقی بیان نہیں فرمایا عورت کیلئے سجدہ کی جو کیفیت حنفی علماء بیان کرتے ہیں، اس کی بنیاد سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی اس روایت پر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عورب جب سجدہ کرتے تو اپنے پیٹ کو رانوں سے چپکا لے ۔ اس لئے کہ یہ س کیلئے زیادہ پردے کا موجب ہے۔ یہ روایت سنن کبری بیہقی ۲٢/۲۲۲،۲۲۳ میں موجو دہے لیکن امام بیہقی نے اس روایت کے بارے میں خود صراحت کر دی ہے کہ اس جیسی روایت سے استدلال کرنا صحیح نہیں ۔ یعنی یہ روایت اس قدر ضعیف ہے کہ قابل حجت ہی نہیں ۔ پس معلوم ہوا کہ احناف کے پاس اس کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
تین وتر ادا کرنے کی صورتیں

س: تین ر کعات ادا کرنے کی کیا صور ت ہے۔ کیا دو رکعت وتر پڑھ کر تشہد بیٹھنا درست ہے ؟ بعض حنفی کہتے ہیں کہ ابن مسعود سے مروی ہے کہ :
'' رات کے وقت وتر دن کے وتر یعنی مغرب کی نماز کی طرح ہیں ۔ اس کا کیا مطلب ؟''


ج: تین رکعت ا دا کرنے کی احادیث میں دو صورتیں موجو دہیں ۔ ایک صورت تو یہ ہے کہ تین وتر اس طرح ادا کیے جائیں کہ دو رکعت ا دا کر کے سلام پھیرا جائے او رپھر ایک رکعت اور پھر ایک رکعت علیحدہ پڑھی جائے ۔ جیسا کہ صحیح بخاری مع فتح البخاری۲/۵۵۷ پر ابن عمر سے مروی ہے کہ:
'' ایک آدمی نے رسول اللہ سے رات کی نماز کے متعلق سوال کیاتو آپ نے فرمایا رات کی نماز دو دو رکعتیں ہیں پھر کوئی تم میں سے صبح ہونے سے ڈرے تو وہ ایک رکعت پڑھ لے وہ ا س ساری نماز کو طاق بنا دے گی ''۔
اور اسی سند کے ساتھ نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر ووتر کی جب تین رکعتیں ادا کرتے تو دو رکعت پڑھ کر سلام پھیرتے یہاں تک کہ کسی ضرورت سے بات بھی کرتے ۔
مذکورہ بالا روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخض تین رکعت وتر ادا کرنا چاہئے تو وہ دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دے پھر ایک رکعت علیحدہ ادا کر لے جو اس کی نماز کو وتر کر دے گی یعنی تین رکعت وتر دو سلام کے ساتھ ادا کرے۔
اسی طرح امام طحاوی حنفی نے شرح معنای الآثار۱/۲۷۹ کرتے تھے اور ابن عمر نے کہا کہ : ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یفعل ذلک ۔ نبی کریم بھی ایسا ہی کرتے تھے۔
انور شاہ کاشمیری نے سیدہ عائشہ کی ایک حدیث درج کی ہے کہ رسول اللہ ایک رکعت وتر اس طرح ادا کرتے تکہ ( لا کان یتکلم بین الرکعتین والرکعۃ ) دو اور ایک رکعت کے درمیان کلام کرتے تھے۔ لیکن افسوس کہ اسے قوی قرار مان کرلکھا کہ میں چودہ سال تک اس حدیث کا جواب سوچتا رہا ہوں ملاحظہ ہو العدف الشذی۱/۲۲۱، معارف السنن ۴/۲۶۴ درس ترمذی۲/۲۲۴۔

نماز وتر کی تین رکعت ادا کرنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس اسے ایک تشہد اور ایک سلام کے ساتھ ادا کیا جائے کیونکہ تشہد ادا کرنے سے نماز مغرب کے ساتھ مشابہت لازم آتی ہے جس سے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے۔ جیسا کہ سیدنا ابو ہرہر سے مروی ہے کہ :
'' رسول اللہ نے فرمایا تین وتر اس طرح ادا نہ کر وکہ وہ مغرب کی نماز ے مشابہ ہوں ''۔ (مستدرک حاکم۱/۳۰۴ ، بیہقی۳/۳۱، نصب ا لرایہ۲/۸۶، فتح الباری۲/۵۵۸، نیل الاوطار۳/۴۱، دارقطنی۱۷۱، شرح معانی الآثار۱/۲۹۲)
اگر دوسری رکعت میں تشہد بیٹھا جائے تو یہ مغرب کی نماز سے مشابہت ہوتی ہے جس کی ممانعت مذکورہ بالا حدیث میں موجو دہے۔ اس طرح اس کی تائید میں سیدہ عائشہ سے بھی مروی ہے کہ :
'' رسول اللہ تین وتر پڑھتے اور آخری رکعت کے علاوہ کسی میں بھی تشہدنہیں بیٹھتے تھے ''۔
اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے یہ روایت بھی مروی ہے کہ :
'' رسول اللہ کی نماز تیرہ رکعتیں ہوتی اور اس میں پانچ وتر اس طرح ادا کرتے کہ آخری رکعت کے علاوہ کسی رکعت میں تشہد نہیں بیٹھتے تھے ''۔ (ترمذی۲/۳۲۱، ابو داؤد۲/۸۶، مسلم۱/۵۰۸)

جب پانچ وتروں کے درمیان تشہد نہیں تو تین وتروں کے درمیان بھی نہیں ہو گا اور سوال میں مذکور ابن مسعود کی روایت ضعیف ہے۔ امام دارقطنی نےا پنی سنن میں اس روایت کے نقل کرنے کے بعد لکھاہے کہ لم یروہ عن الا عمش مرفوعا غیر یحی بن زکریا وھو ضعیف '' (دارقطنی۱۷۳)
اما اعمش سے یحیٰ بن زکریا کے علاوہ اس روایت کو کسی نے مر فوع بیان نہیں کیا اور یحییٰ بن زکریا ضعیف ہے ۔
لہٰذ اا س ضعیف رویات کو صحیح حدیث کے مقابلے میں تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
فجر کی جماعت کے دوران سنتیں

س: بعض لوگوں فجر کی جماعت کے دوران سنتیں پڑھتے رہتے ہیں ۔ منع کرنے پر کہتے ہیں کہ فجر کی سنتیں ہر صورت جماعت سے پہلے ادا کرنی چاہئیں۔قرآن و سنت کی رو سے اس کا کیا حکم ہے ؟

ج: جب جماعت کھڑی ہو جائے گی اس وقت سوائے فرض نما کے اور کوئی نماز نہیں ہوتی کیونکہ رسول اللہ نے فرمایا:
'' جب جماعت کی نماز کھڑی ہو جائے تو اس وقت سوائے فرض نماز کے اور کوئی نماز نہیں ہوتی ''
اس حدیث کو مسلم ، ترمذی ، ابو داؤد، نسائی احمد بن جنبل اور ابن حبان نے بیان کیا ہے اور امام بخاری اسے ترجمہ باب میں لائے ہیں ۔ امام ابن عدی سند حسن یہ روایت بھی لئے ہیں کہ کسی نے پوچھا یا رسول اللہ فجر کی سنت بھی ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب اقامت کہی جائے تو سنت فجر بھی نہ پڑھی جائے۔ عبداللہ بن سر جس سے صحیح مسلم، ابو داؤد، نسائی ، ابن ماجہ میں یوں مروی ہے کہ :
'' عبداللہ بن سر جس نے کہا کہ ایک آدمی مسجد میں اس وقت داخل ہوا جب رسول اللہ صبح کی نماز میں تھے۔ اس آدمی نے دو رکعت ( سنت فجر ) کی مسجد کے ایک کونے میں ادا کی پھر آپ کے ساتھ جماعت میں شامل ہو گیا جب آپ نے سلام پھیرا تو فرمایا اے فلان ان دو نمازوں میں سے کونسی نماز کو تونے فرض میں شمار کیا ۔ جو نماز تو نے تنہا ادا کی یا ہمارے ساتھ والی ''۔
اس حدیث سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ جب فجر کی جماعت کھڑی ہو جائے تو اس وقت فجر کی سنت پڑھنا مکروہ و ممنوع ہے اس پر رسول اللہ نے سر زنش فرمائی ہے۔
جب فجر کی جماعت کھڑی ہو جائے اور کسی آدمی نے فجر کی سنتیں ابھی تک نہ پڑھی ہو تو جماعت سے فارغ ہو نے کے بعد ادا کر لے جیسا کہ حدیث پاک میں آتا ہے : آپ نے صبح کی فرض نماز کے بعد ایک شخص کو رکعتیں پڑھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: (صلوۃ الصبح رکعتین رکعتین)صبح کی نماز ( فرض ) کی دو رکعت ہیں ۔ دو رکعت ہیں تو اس نے جواب دیا '' ان لم اکن صلیت ارکعتین اللتین فبلھما فصلیتھما الان'' میں نے دور کعتیں سنت جو فرض سے پہلے نہیں پڑھی تھیں ان کو اب پڑھتا ہے، فسکت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو اسکا جواب سن کر آپ خاموش ہو گئے۔ ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ، دارقطنی، ابن خزیمہ ، مستدرک حاکم، ابن حبان، بیہقی)
خاموشی آپ کی رضا مندی کی دلیل ہے جسے محدثین کی اصطلاح میں تقریری حدیث کہتے ہیں ۔ لہٰذا جب فجر کی جماعت کھڑی ہو اس وقت سنت پڑھنا ممنوع ہے انہیں فرض نماز کے بعد ادا کر لینا چاہئے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
نمازِ فجر کی جماعت کے دوران سنتیں پڑھنا؟
س: اگر فجر کی جماعت کھڑی ہو تو کیا مقتدی دو سنتیں ادا کر سکتا ہے اگر وہ نہیں ادا کر سکتا تو جماعت کے ساتھ نماز ادا کر نے کے فوراً بعد سنتیں پڑھ سکتا ہے ؟

ج: جب فرض نماز کی جماعت کھڑی ہو جائے تو اس وقت فرض کے علاوہ کوئی نماز ادا نہیں ہوتی ۔ر سول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
'' جب جماعت کیلئے اقامت کہہ دی جائے تو فرض نماز کے علاوہ کوئی نماز نہیں ہوتی '' ( مسلم وغیرہ )

لہٰذا اگرکوئی شخص مسجد میں اس وقت آتا ہے جب فجر کی نماز کھڑی ہو جائے تو اسے سنتیں ادا کرنی چاہئیں بلکہ فرض کی جماعت میں شریک ہو جانا چاہئے اور سنتیں بعد میں ادا کرے۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ رسول اکرم نے ایک شخص کو فجر کی نماز کے بعد دو رکعتیں پڑھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا (صلوۃ الصبح رکعتین رکعتین)'' صبح کی نماز ( فرض دو رکعت ہے۔ دو رکعت ہے تو اُس شخص نے جواب دیا ۔ انی اکن صلیت الرکعتین اللتین قبلھما فصلیتھما الان میں نے دور کعت جو فرضوں سے پہلے ہوتی ہیں،نہیں پڑھی تھیں۔ ان کو اب پڑھا ہے تو رسول اللہ اس پر خاموش ہو گئے۔ (ابن خزیمہ (۱۱۶) ابنِ حبان (۶۲۴) بیہقی۲/۴۸۳، ابن ماجہ (۱۱۵۴٤) ابو داؤد (۱۲۶۷)، دارقطنی۱/۳۸۴ )اللہ کے رسول کا کسی امر پر خاموشی اختیار کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا مندی کی دلیل ہے۔ اسے محدثین کی اصطلاح میں تقریری حدیث کہتے ہیں ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فرضوں کے بعد سنتیں ادا کرنا درست ہے۔ لہٰذا اگر کسی کی فجر کی سنتیں رہ جائیں تو فرض ادا کرنے کے بعد انہیں ادا کرے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنا

س: فجر کی سنتوں کے بعد دائیں کروٹ لیٹنا کسی حدیث سے ثابت ہے یا نہیں ؟

ج: فجر کی سنتوں کے بعد دائیں کروٹ لیٹنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ صحیح بخاری میں امام بخاری نے باب '' باب الضجعۃ علی الشق قلایمن عبد رکعتی الفجر ''باندھا ہے۔ یعنی فجر کی دو رکعتوں کے بعد ائیں کروٹ لینے کا بیان اور اس کے تحت ییہ حدیث درج کی ہے :
'' سیدہ عائشہ سے مروی ہے کہ نبی کریم جب فجر کی دو رکعتیں پڑھتے تو دائیں کروٹ لیٹ جاتے تھے ''۔ (بخاری۲/۴۹)
رسول اللہ نے فرمایا: جو تم میں سے کوئی فجر کی دو رکعت ( سنت ) پڑھ لے تو اپنے دائیں پہلو پر لیٹ جائے۔
رسول ا للہ کی ان قولی اور فعلی احادیث سے معلوم ہوا کہ فجر کی دور کعت پڑھ کر دائیں پہلو لیٹنا آپ کا پسندیدہ فعل بھی تھا اور آپ اس کا حکم بھی دیا کرتے تھے ''۔ (ترمذی۱/۸۱، ابو داؤد )

لہٰذا ہر نمازی کیلئے دو رکعت کے بعد دائیں پہلو لیٹنا سنت ہے۔ اس پر عمل کرنا چاہئے۔ آپ کے متروکہ سنتوں میں سے یہ سنت بھی ہے جس پر بہت کم عمل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
جمعہ کے بعد کی سنتیں

س: ہمارے بعض اہل حدیث جمعہ کی نما ز ادا کرنے کے بعد صر ف دو سنتیں پڑھتے ہیں چار ادا نہیں کرتے۔ ہمارے ہاں یہ مسئلہ کافی دیر سے زیر بحث ہے۔ لہٰذا آپ ہمیں حقائق سے آگاہ کر کے عنداللہ ماجور ہوں ۔

ج: کتب حدیث کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جمعہ کی نماز کے بعد آپ نے دور کعتیں بھی ادا کی ہیں اور چار کی بھی اجازت ہے۔ صحیح مسلم میں سیدنا ابو ہریرہ سے مروی ہے :
'' اللہ کے رسول نے فرمایا جب تم میں سے کوئی آدمی جمعہ کی نماز پڑھے توا سکے بعد چار رکعتیں پڑھے ''۔ (ابو داؤد۱۱۳۱، ترمذی۵۲۳، نسائی۳/۱۱۳، ابن ماجہ۱۱۳۴)

ایک دوسری روایت میں ہے کہ جو جمعہ کے بعد نماز پڑھنا چاہئے وہ چار رکعت پڑھے۔ اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ چار رکعت پڑھنا واجب نہیں بلکہ مستحب ہے۔ بخاری شریف میں کتاب الجعمہ باب الصلوٰۃ بعد الجمعۃ و قبلھا میں عبداللہ بن عمر سے مروی ہے :
'' رسول اکرم ظہر سے پہلے اور ظہور کے بعد دور کعتیں پڑھتے۔ مغرب کے بعد دورکعتیں گھر میں ۔دور کعتیں عشاء کے بعد اور جمعہ کے بعد آپ دور کعتیں گھر میں پڑھتے ''۔ (بخاری مع فتح الباری۲/۴۹۳۔۹۳۷، مسلم۶/۱۶۹ ابو داؤد۱۲۵۲، ترمذی ۵۲۲، نسائی۲/۱۹۹)

ان دونوں احادیث سے معلوم ہوا کہ جمعہ کے بعد چار رکعتیں بھی پڑھنا درست ہے اور دو بھی ۔ لیکن یاد رہے کہ چار پڑھنا افضل ہے کیونکہ سیدنا ابو ہریرہ کی حدیث قولی ہے اور ابن عمر کی حدیث فعلی ہے اور قولی حدیث فعلی حدیث پر مقدم ہوتی ہے۔ اوریہ بھی یاد رہے کہ سنت خواہ چار رکعتیں پڑھی جائیں یا دو ان کا مسجد کی نسبت گھر میں پڑھنا زیادہ افضل ہے۔ کیونکہ حدیث صحیح میں آتا ہے:
'' آدمی کا فرض نماز کے علاوہ باقی نماز گھر میں پڑھنا افضل ہے '' (بخاری۷۳۱، مسلم۶/۶۹۔۷۰، ابو عوانہ۲/۲۹۴، ابو داؤد۱۴۴۷، ترمذی۴۵۰)

لہٰذ ااس طرح کے معاملات جن میں اختیار ہے فضلو بحث و تکرار درست نہیں ۔ جو چار پڑھنا چاہئے وہ چار ُڑھ لے وہ دو پڑھ لے جائز اور درست ہو گا۔
 
Top