Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
قنوت نازلہ شرعیت اسلامیہ اور فقہ حنفیہ کی نظر میں
س: اہل حدیث حضرات کے ہاں قنوتِ نازلہ کی جاتی ہے ۔ جہری نمازوں کے ساتھ ساتھ سری نمازوں یمیں بھی ۔ اس پر تفصیلاً اور دلائل کے ساتھ بحث فرمائیں ؟ کیا یہ طریقہ رسول اللہ سے ثابت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ قنوت کیوں کی اور کیسے کی ؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ اس پر عمل کیا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم اس پر عمل پیرا تھے ؟ اس کا طریقہ کار کیا ہے ۔ اگر ثابت ہے تو احناف کیوں نہیں کرتے ؟
ج: جب مسلمان کسی مصیبت میں گرفتار ہوں، دنیا کے کسی خطے میں مسلمانوں پر کفار و مشرکین او ریہود و نصاری ٰ ظلم و ستم ڈھا رہے ہوں۔ شب و روز انہیں پریشانیوں سے دچار کر رہے ہوں، انہیں قید و بند کی صعو بتوں میں مبتلا کر رہے ہوں تو ان حالات میں جہاں ان مسلمانوں کیلئے دیگر مادی اسباب کے تحت مدد کی جاتی ہے، اسی طرح ان کیلئے جو روستم اور ظلم و تشدد سے بچاؤ کیلئے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنا قنوتِ نازلہ ہے اور یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی صبح کی نماز میں ظہر اور عشاء میں اور کبھی پانچوں نمازوں میں، اپنے مومن ساتھیوں کے لئے عجز و انسکاری اور خشوع و خضوع کے ساتھ رکوع کے بعد ہاتھ اٹھاکر دعا فرماتے تھے ۔ یہی عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم ، فقہائ، محدثین، تابعین، تبع تابعین اور سلف صالحین رحمہ اللہ کرتے رہے۔ اسی مسئلہ کے متعلق چند ایک احادیث ملاحظہ فرمائیں ۔
(۱) ایک دفعہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے تلامذہ کو نماز پڑھ کر دکھائی اور فرمایا۔
'' اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یقینا میں نے تم سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے ساتھ مشابہ ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نماز دُنیا چھوڑنے تک اسی طرح رہی ۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دونوں شاگرد ابو بکر بن عبدالرحمن بن الحارث اور ابو سلمہ بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رکوع سے سر اُٹھاتے وقت سمع اللہ لمن حمد ہ و بنا ولک الحمد کہتے تو آدمیوں کے نام لے کر انکی لئے دُعا کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے اے اللہ ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام اور عیاش بن ابی ربیعہ اور کمزور مسلمانوں کو نجات دے اور کفار پر اپنی پکڑ سخت کر دے اور ان پر اس طرح قحط سالی فرما جیسے تو نے یوسف علیہ السلام کے دور میں کی تھی ''۔
(۲) ''عاصم احول رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے قنوت کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا ! قنوت تو تھی ۔ میں نے کہا کیا رکوع سے پہلے یا بعد میں ؟ آپ نے کہا پہلے میں نے کہاں فلاں شخص نے مجھے آپ کی جانب خبر دی ہے کہ آپ نے فرمایا رکوع کے بعد ہے ۔ آپ نے فرمایا اُس نے غلط کہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کے بعد (صرف ) ایک مہینہ قنوت پڑھی تھی ۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ نے ستر کے قریب افراد کی ایک جماعت جنہیں قراء کہا جاتا تھا مشرکین کی طرف بھیجا تھا ۔ یہ مشرکین ان کے علاوہ تھے جن کیلئے آپ نے بد دعا کی تھی ان کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان معاہدہ تھا پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینے تک ( رکوع کے بعد ) قنوت کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مشرکین کیلئے بد دعا کرتے رہے ''۔
(۳) صحیح مسلم ۱/۲۳۷ یہ بھی ہے کہ آپ ولید بن ولید وغیرہ کے واپس آنے تک دعا کرتے رہے۔
(۴) سیدنا ابو ہریرہ نے فرمایا :
اللہ کی قسم میں تمہارے قریب وہ نماز ادا کروں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ہے۔ سو ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نماز ظہر، نماز عشا ء اور فجر میں رکوع کے بعد قنوت کرتے اور مومنین کیلئے دعا اور کفار کیلئے لعنت کرتے ۔
(۵) ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مہینہ مسلسل ظہر ، عصر ، مغرب عشاء اور فجر کی نمازوں میں سے ہر نمازمیں جب آخری رکعت میں سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو قنوت کرتے ۔ بنو سلیم کے چند قبائل رعل ، ذکوان اور عصیہ پر بد دعا کرتے رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے مقتدی آمین کہتے رہے ۔ (ابوداؤد ۲/۶۸(۱۴۴۳)
(۶) صحیح بخاری ۲/۶۵۵ ٦ میں یہ الفاظ بھی ہیں ۔ جب آپ سمع اللہ لمن حمدہ ربنا لک الحمد کہتے تو دعا کرتے اے اللہ ولید بن ولید وغیرہ کو نجات دے اور یہ دُعا اونچی کرتے۔
مندرجہ بالا حدیث سے در ج ذیل امور حاصل ہوئے:
۱) جب بھی مسلمانوں پر مصائب و آلا، کفرکاجوروستم اور ظلم و تشدد ہو تو اس وقت فرض نمازوں میں دعا کرنا جسے قنوتِ نازلہ کہتے ہیں ، شروع و جائز ہے۔
۲) یہ دُعا مختلف حالات کے مطابق کبھی ایک نماز میں ، کبھی دو تین نمازوں میں اور کبھی پانچوں نمازوں میں کی جاتی ہے کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف نمازوں میں یہ دعا کی ہے ۔
۳) اس دعا کا مقصد مسلمانوں کیلئے مصائب سے نجات اور کافر کیلئے عذاب الٰہی کا مطالبہ ہوتا ہے۔
۴) یہ دعا اگر اپنے ان ساتھیوں کیلئے کی جائے جو کفار کے نرغے میں پھنسے ہوئے یا کسی مصیبت میں گرفتار ہیں تو ان کے نام لے کے بھی کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح کافر کے قبائل کے نام لے کر بھی بد دعا کی جا سکتی ہے۔
۵) اس دعا کیلئے ضروری نہیں کہ ہمیشہ کی جائے بلکہ مطلوبہ مصیبت کی دوری کے بعد ترک کر دی جائے ۔ یہ دُعا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنےساتھیوں کی رہائی تک کی ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ مر کز والے ان دنوں مسلسل قنوت کرتے ہیں ۔ حالانکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو قنوت چھوڑ دی تھی ۔ تو گزارش یہ ہے کہ ہم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح اس وقت تک دعا کرتے ہیں گے۔ جب تک ہمارے ساتھی جو کشمیر میں ہندو کی جیل میں رہائی نہیں پاتے ۔ جب رہائی پا لیں گے تو ترک کر دیں گے ۔
۶) دُعا کیلئے کوئی خاص الفاظ متعین نہیں ۔ ہر دوہ دعا کی جا سکتی ہے جو مطلوب ہو ۔ امام نوو ی رحمہ اللہ شرح مسلم میں لکھتے ہیں ۔ والصحیح انہ لا یتعین فی دعا مخصوص بل یحصل بکل دعاء فیہ وجہ انہ لا یحصل الا بالدعاء ( شرح مسلم للنوی ۱١/۲۳۷)
''صحیح بات یہ ہے کہا س بارے میں کوئی خاص دعا نہیں بلکہ ہراس دعا کو پڑھا جا سکتا ہے جس سے یہ مقصود حاصل ہوتا ہو ۔ البتہ بہتر اور اولیٰ یہی ہے کہ جو دعائیں قرآن مجید اور احادیث صحیحہ میں موجود ہیں وہ پڑھے۔ علاوہ ازیں اپنی اپنی حاجات کے لئے مختلف ادعیہ کی جا سکتی ہیں ''۔
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ اپنی صحیح میں یہ بات لائے ہیں :
'' سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ جب رمضان المبارک میں تراویح پڑھاتے تو ہنگامی حالات کے پیش نظر کفار و مشرکین کیلئے بد دعا کرتے۔ نصف رمضان میں کفار پر لعنت کرتے اورکہتے ، اے اللہ ان کافروں کو جو تیرے راستے سے روکتے ہیں، تیرسے رسولوں کو جھٹلاتے ہیں اور تیرے وعدے پر ایمان نہیں لاتے ، برباد کر دے اور ان کی باتوں کی مخالفت ڈال دے اور ان کے دلوں میں رعب ڈال دے اور ان پر اپنا عذاب و عتاب مسلط کر دے پھر رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے اور مسلمانوں کیلئے اپنی استطاعت کے مطابق بھلائی کی دعا کرتے۔ پھر مومنوں کیلئے استغفار کرتے ''۔(ابن خزیمہ ۱۵۶' ۱۵۵/۲ (۱۱۰۰)
۷٧) قتوتِ نازلہ رکوع کے بعد ہاتھ اٹھاکر کی جاتی ہے۔
۸٨) آپ صلی اللہ علیہ وسلم قنوت جہراً پڑھتے اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم پیچھے آمین کہتے۔
لہٰذا اہل حدیث حضرات کا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت پر عمل ہے۔ اسکے مطابق موجودہ زمانے میں وہ مسلمان جو کشمیر، بوسینیا، فلپائن، اریٹیریا ، الجزائروغیرہ ممالک میں یہود و نصاریٰ ، ہنود و اسرائیل کے ظلم وا ستبداد میں پس رہے ہیں ۔ جہاں ان کی جانی و مالی امداد کرتے ہیں وہاں ساتھ ہی اپنی نمازوں میں ان کی نصرت و مدد کیلئے اللہ کے حضور دُعا گو ہوتے ہیں ۔
علماء احناف میں سے جمہور علماء اس بات کے قائل ہیں کہ صبح کی نماز میں قنوتِ نازلہ کا پڑھنا درست ہے۔ موجودہ زمانے کے مشہور حنفی عالم صوفی عبدالحمید سواتی اپنی کتاب '' نماز مسنون کلاں '' کے صفحہ۲۵۱ پر رقم طراز ہیں:
'' جمہور فقہاء احناف کہتے ہیں کہ صبح کی نماز میں قنوت نازلہ پڑھنا درست ہے ۔ چاہئے التزام کےساتھ ہی کیوں نہ ہو اور جنتی احادیث اس بارے میں وار دہوئی ہیں، ان کا صحیح محل یہی ہے ۔مزید ص۲۵۲ پر لکھتے ہیں '' صبح کی نماز میں جب امام قنوت بالجہر پڑھ رہا ہو تو مقتدی کو اختیار ہے کہ وہ بھی قنوت پڑھے یا آمین کہے یا خاموش رہے ''۔ ( کبیری ص۲۳۳٣) پھر اسی صفحہ پر استاد حسین احمد مدنی کا عمل نقل کیا ہے۔اور وزیرستان و فلسطین کے مسلمانوں کیلئے دعا ذکر کی ہے۔ لہٰذا ہمارے حنفی بھائیوں کو بھی چاہئے کہ وہ موجودہ حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مسئلہ جہاد کو سمجھیں اور عقائد کی تطہیر کےساتھ اپنی نمازوں میں مظلوم و مقہور مسلمانوں کیلئے اللہ تعالیٰ سے قنوتِ نازلہ کریں تاکہ اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو عزت کی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے اعمال کی اصلاح کرے ۔
س: اہل حدیث حضرات کے ہاں قنوتِ نازلہ کی جاتی ہے ۔ جہری نمازوں کے ساتھ ساتھ سری نمازوں یمیں بھی ۔ اس پر تفصیلاً اور دلائل کے ساتھ بحث فرمائیں ؟ کیا یہ طریقہ رسول اللہ سے ثابت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ قنوت کیوں کی اور کیسے کی ؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ اس پر عمل کیا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم اس پر عمل پیرا تھے ؟ اس کا طریقہ کار کیا ہے ۔ اگر ثابت ہے تو احناف کیوں نہیں کرتے ؟
ج: جب مسلمان کسی مصیبت میں گرفتار ہوں، دنیا کے کسی خطے میں مسلمانوں پر کفار و مشرکین او ریہود و نصاری ٰ ظلم و ستم ڈھا رہے ہوں۔ شب و روز انہیں پریشانیوں سے دچار کر رہے ہوں، انہیں قید و بند کی صعو بتوں میں مبتلا کر رہے ہوں تو ان حالات میں جہاں ان مسلمانوں کیلئے دیگر مادی اسباب کے تحت مدد کی جاتی ہے، اسی طرح ان کیلئے جو روستم اور ظلم و تشدد سے بچاؤ کیلئے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنا قنوتِ نازلہ ہے اور یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی صبح کی نماز میں ظہر اور عشاء میں اور کبھی پانچوں نمازوں میں، اپنے مومن ساتھیوں کے لئے عجز و انسکاری اور خشوع و خضوع کے ساتھ رکوع کے بعد ہاتھ اٹھاکر دعا فرماتے تھے ۔ یہی عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم ، فقہائ، محدثین، تابعین، تبع تابعین اور سلف صالحین رحمہ اللہ کرتے رہے۔ اسی مسئلہ کے متعلق چند ایک احادیث ملاحظہ فرمائیں ۔
(۱) ایک دفعہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے تلامذہ کو نماز پڑھ کر دکھائی اور فرمایا۔
'' اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یقینا میں نے تم سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے ساتھ مشابہ ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نماز دُنیا چھوڑنے تک اسی طرح رہی ۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دونوں شاگرد ابو بکر بن عبدالرحمن بن الحارث اور ابو سلمہ بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رکوع سے سر اُٹھاتے وقت سمع اللہ لمن حمد ہ و بنا ولک الحمد کہتے تو آدمیوں کے نام لے کر انکی لئے دُعا کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے اے اللہ ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام اور عیاش بن ابی ربیعہ اور کمزور مسلمانوں کو نجات دے اور کفار پر اپنی پکڑ سخت کر دے اور ان پر اس طرح قحط سالی فرما جیسے تو نے یوسف علیہ السلام کے دور میں کی تھی ''۔
(۲) ''عاصم احول رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے قنوت کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا ! قنوت تو تھی ۔ میں نے کہا کیا رکوع سے پہلے یا بعد میں ؟ آپ نے کہا پہلے میں نے کہاں فلاں شخص نے مجھے آپ کی جانب خبر دی ہے کہ آپ نے فرمایا رکوع کے بعد ہے ۔ آپ نے فرمایا اُس نے غلط کہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کے بعد (صرف ) ایک مہینہ قنوت پڑھی تھی ۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ نے ستر کے قریب افراد کی ایک جماعت جنہیں قراء کہا جاتا تھا مشرکین کی طرف بھیجا تھا ۔ یہ مشرکین ان کے علاوہ تھے جن کیلئے آپ نے بد دعا کی تھی ان کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان معاہدہ تھا پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینے تک ( رکوع کے بعد ) قنوت کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مشرکین کیلئے بد دعا کرتے رہے ''۔
(۳) صحیح مسلم ۱/۲۳۷ یہ بھی ہے کہ آپ ولید بن ولید وغیرہ کے واپس آنے تک دعا کرتے رہے۔
(۴) سیدنا ابو ہریرہ نے فرمایا :
اللہ کی قسم میں تمہارے قریب وہ نماز ادا کروں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ہے۔ سو ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نماز ظہر، نماز عشا ء اور فجر میں رکوع کے بعد قنوت کرتے اور مومنین کیلئے دعا اور کفار کیلئے لعنت کرتے ۔
(۵) ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مہینہ مسلسل ظہر ، عصر ، مغرب عشاء اور فجر کی نمازوں میں سے ہر نمازمیں جب آخری رکعت میں سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو قنوت کرتے ۔ بنو سلیم کے چند قبائل رعل ، ذکوان اور عصیہ پر بد دعا کرتے رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے مقتدی آمین کہتے رہے ۔ (ابوداؤد ۲/۶۸(۱۴۴۳)
(۶) صحیح بخاری ۲/۶۵۵ ٦ میں یہ الفاظ بھی ہیں ۔ جب آپ سمع اللہ لمن حمدہ ربنا لک الحمد کہتے تو دعا کرتے اے اللہ ولید بن ولید وغیرہ کو نجات دے اور یہ دُعا اونچی کرتے۔
مندرجہ بالا حدیث سے در ج ذیل امور حاصل ہوئے:
۱) جب بھی مسلمانوں پر مصائب و آلا، کفرکاجوروستم اور ظلم و تشدد ہو تو اس وقت فرض نمازوں میں دعا کرنا جسے قنوتِ نازلہ کہتے ہیں ، شروع و جائز ہے۔
۲) یہ دُعا مختلف حالات کے مطابق کبھی ایک نماز میں ، کبھی دو تین نمازوں میں اور کبھی پانچوں نمازوں میں کی جاتی ہے کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف نمازوں میں یہ دعا کی ہے ۔
۳) اس دعا کا مقصد مسلمانوں کیلئے مصائب سے نجات اور کافر کیلئے عذاب الٰہی کا مطالبہ ہوتا ہے۔
۴) یہ دعا اگر اپنے ان ساتھیوں کیلئے کی جائے جو کفار کے نرغے میں پھنسے ہوئے یا کسی مصیبت میں گرفتار ہیں تو ان کے نام لے کے بھی کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح کافر کے قبائل کے نام لے کر بھی بد دعا کی جا سکتی ہے۔
۵) اس دعا کیلئے ضروری نہیں کہ ہمیشہ کی جائے بلکہ مطلوبہ مصیبت کی دوری کے بعد ترک کر دی جائے ۔ یہ دُعا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنےساتھیوں کی رہائی تک کی ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ مر کز والے ان دنوں مسلسل قنوت کرتے ہیں ۔ حالانکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو قنوت چھوڑ دی تھی ۔ تو گزارش یہ ہے کہ ہم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح اس وقت تک دعا کرتے ہیں گے۔ جب تک ہمارے ساتھی جو کشمیر میں ہندو کی جیل میں رہائی نہیں پاتے ۔ جب رہائی پا لیں گے تو ترک کر دیں گے ۔
۶) دُعا کیلئے کوئی خاص الفاظ متعین نہیں ۔ ہر دوہ دعا کی جا سکتی ہے جو مطلوب ہو ۔ امام نوو ی رحمہ اللہ شرح مسلم میں لکھتے ہیں ۔ والصحیح انہ لا یتعین فی دعا مخصوص بل یحصل بکل دعاء فیہ وجہ انہ لا یحصل الا بالدعاء ( شرح مسلم للنوی ۱١/۲۳۷)
''صحیح بات یہ ہے کہا س بارے میں کوئی خاص دعا نہیں بلکہ ہراس دعا کو پڑھا جا سکتا ہے جس سے یہ مقصود حاصل ہوتا ہو ۔ البتہ بہتر اور اولیٰ یہی ہے کہ جو دعائیں قرآن مجید اور احادیث صحیحہ میں موجود ہیں وہ پڑھے۔ علاوہ ازیں اپنی اپنی حاجات کے لئے مختلف ادعیہ کی جا سکتی ہیں ''۔
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ اپنی صحیح میں یہ بات لائے ہیں :
'' سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ جب رمضان المبارک میں تراویح پڑھاتے تو ہنگامی حالات کے پیش نظر کفار و مشرکین کیلئے بد دعا کرتے۔ نصف رمضان میں کفار پر لعنت کرتے اورکہتے ، اے اللہ ان کافروں کو جو تیرے راستے سے روکتے ہیں، تیرسے رسولوں کو جھٹلاتے ہیں اور تیرے وعدے پر ایمان نہیں لاتے ، برباد کر دے اور ان کی باتوں کی مخالفت ڈال دے اور ان کے دلوں میں رعب ڈال دے اور ان پر اپنا عذاب و عتاب مسلط کر دے پھر رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے اور مسلمانوں کیلئے اپنی استطاعت کے مطابق بھلائی کی دعا کرتے۔ پھر مومنوں کیلئے استغفار کرتے ''۔(ابن خزیمہ ۱۵۶' ۱۵۵/۲ (۱۱۰۰)
۷٧) قتوتِ نازلہ رکوع کے بعد ہاتھ اٹھاکر کی جاتی ہے۔
۸٨) آپ صلی اللہ علیہ وسلم قنوت جہراً پڑھتے اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم پیچھے آمین کہتے۔
لہٰذا اہل حدیث حضرات کا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت پر عمل ہے۔ اسکے مطابق موجودہ زمانے میں وہ مسلمان جو کشمیر، بوسینیا، فلپائن، اریٹیریا ، الجزائروغیرہ ممالک میں یہود و نصاریٰ ، ہنود و اسرائیل کے ظلم وا ستبداد میں پس رہے ہیں ۔ جہاں ان کی جانی و مالی امداد کرتے ہیں وہاں ساتھ ہی اپنی نمازوں میں ان کی نصرت و مدد کیلئے اللہ کے حضور دُعا گو ہوتے ہیں ۔
علماء احناف میں سے جمہور علماء اس بات کے قائل ہیں کہ صبح کی نماز میں قنوتِ نازلہ کا پڑھنا درست ہے۔ موجودہ زمانے کے مشہور حنفی عالم صوفی عبدالحمید سواتی اپنی کتاب '' نماز مسنون کلاں '' کے صفحہ۲۵۱ پر رقم طراز ہیں:
'' جمہور فقہاء احناف کہتے ہیں کہ صبح کی نماز میں قنوت نازلہ پڑھنا درست ہے ۔ چاہئے التزام کےساتھ ہی کیوں نہ ہو اور جنتی احادیث اس بارے میں وار دہوئی ہیں، ان کا صحیح محل یہی ہے ۔مزید ص۲۵۲ پر لکھتے ہیں '' صبح کی نماز میں جب امام قنوت بالجہر پڑھ رہا ہو تو مقتدی کو اختیار ہے کہ وہ بھی قنوت پڑھے یا آمین کہے یا خاموش رہے ''۔ ( کبیری ص۲۳۳٣) پھر اسی صفحہ پر استاد حسین احمد مدنی کا عمل نقل کیا ہے۔اور وزیرستان و فلسطین کے مسلمانوں کیلئے دعا ذکر کی ہے۔ لہٰذا ہمارے حنفی بھائیوں کو بھی چاہئے کہ وہ موجودہ حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مسئلہ جہاد کو سمجھیں اور عقائد کی تطہیر کےساتھ اپنی نمازوں میں مظلوم و مقہور مسلمانوں کیلئے اللہ تعالیٰ سے قنوتِ نازلہ کریں تاکہ اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو عزت کی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے اعمال کی اصلاح کرے ۔