• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آپ کے مسائل اور ان کا حل

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
محتلم کا مسجد میں جانا

س: کیا محتلم بغیر غسل کیے مسجد میں جا سکتا ہے ؟

ج: حالت جنابت میں مسجد میں گزرنا پڑے تو اضطراری طور میں گزر سکتے ہیں لیکن وہاں جناب تکی حلات میں ٹھہرنا نہیں چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا :
'' اے ایمان والو!جب تم نشہ کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ یا تک کہ جو بات تم منہ سے نکالتے تہو اس کو سمجھنے لگو۔ اسی طرح الت جناب میں مگر راہ چلتے ہوئے یہاں تک کہ تم غسل کر لو ''
اکثر سلف صالحین جیسا کہ عبداللہ بن مسعودرضی اللہ تعالی عنہ ، سعید بن مسیب، الضحاک، حنس بصری، عکرمہ، نحعی اور زہری رحمۃ اللہ وغیرہ کے نزدیک یہاں الصلوٰۃ سے مواضع صلوۃ یعنی مساجد مراد ہیں امام ابن جریر نے اسے راجح قرار دیا ہے تفسیر ابن جریر، معالم النتزیل ۱/۴۳۱ اوریہی جمہور علماء کا مسلک ہے کہ جنبی کیلئے مسجد سے گزرنا جائز ہے ٹھہرنا جائز نہیں ۔
مستند روایت میں آتا ہے ہے کہ بعض صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کے گھر مسجد کی طرف اس طرح کھلتے تھے کہ بغیر مسجد سے گزرے وہ مسجد سے باہر نہیں جاسکتے تھے اور گھروں میں غسل کیلئے پانی نہیں ہوتا تھا جنابت کی حالت میں مسجد سے گزرنا ان پر شاق گزرتا تھا اس پر یہ آیت نازل ہوئی جیسا کہ تفسیر ابن کثیر میں موجود ہے۔
جنازہ اٹھاتے وقت بلند آواز سے
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کلمہ شہادت پڑھنا اور ذکر کرنا

س: دور حاضر میں جب نماز جنازہ اٹھایا جاتا ہے تو لوگ بآواز بلند کلمہ شہادت پڑھتے ہیں ۔ بعض علاقوں میں جنازہ کے ساتھ بلند آواز سے نظمیں پرھتے ہیں ۔ کیا ایسا کرنا قرآن و حدیث سے ثابت ہے ؟

ج: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم سے ایسا کرنا کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں بلکہ جنازہ کے ساتھ آواز بلند کرنا ناجائز ہے اور اسکی کراہت منقول ہے۔ سیدنا قیس بن عباد سے مروی ہے کہ :
'' صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم جنازوں کے پاس آواز بلند کرنا نا پسند کرتے تھے '' (بیہقی۴/۷۴)

اسی طرح ایک مر فوع حدیث جو کہ اپنے مختلف شواہد کی بنا پر قوی ہے، میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
'' جنازے کے پیچھے آواز اور آگ کے ساتھ نہ آ'' (ابو داؤد ۲/۶۴، مسند احمد ۲/۴۲۷،۵۲۸،۵۳۲)

ان احادیث سے یہ بات بھی عیاں ہو جاتی ہے کہ جنازہ کے ساتھ آواز بلند کرنا منع ہے اوریہ جو ہمارے ہاں طریقہ رائج ہو چکا ہے کہ جنازہ کو کندھا دیتے وقت بآواز بلند کہاجاتا ہے '' کلمہ شہادت '' اس کا کوئی ثبوت نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، آپ کے اصحاب رضی اللہ تعالی عنہم اور شریعت اسلامیہ میں نہیں ملتا اور نہ ہی جنازے کے ساتھ نعت گوئی کا کہیں تذکرہ متلا ہے۔ امام نوووی ؒ کتاب الاذکار /۲۰۳ میں فرماتے ہیں کہ :
'' جان لیجئے کہ صحیح اور مختار بات اور جس پر سلف صالحین رحمۃ اللہ تھے وہ یہ ہے کہ جنازے کے ساتھ چلتے ہوئے خاموشی ہو ۔ جنازے کے ساتھ آواز نہ قرأ ت کے ذریعے بلند کی جائے اور نہ ہی ذکر وغیرہ کے ساتھ ''
اور آگے فر ماتے ہیں '' کثرت کے ساتھ جو لوگ اس بات کی مخالفت کرتے ہیں ۔ ان سے دھوکہ مت کھائیے۔ ابوعلی فضیل بن عیاض نے فرمایا : ہدایت کے راستوں کو لازم تھام سا لکین کی قلت تجھے نقصان نہیں دے گی اور گمراہی کےر استوں سے بچئے اور ہلاک ہونے والوں کی کثرت سے دھوکہ نہ کھائیے'' اور سنن کبری بیقہی سے ہم نے وہ روایت نقل کی ہے جو ہمارے قول کا تقاضہ کرتی ہے ( یعنی اوپر قیس بن عباد والی روایت جس میں با ۤواز بلند کرنے کی کراہت منقول ہے ) اور دمشق وغیرہ میں جنازے میں شامل جو جاہل لوگ قرأ ت کے ساتھ آواز سختی سے کھینچتے ہیں اور کلام کو اس کی جگہوں سے نکال دیتے ہیں ، وہ علماء کے اجماع کے ساتھ حرام ہے ۔ ''
امام نووی رحمۃ اللہ کی اس صراحت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جنازہ کے ساتھ ذکر اذکار یا قرأت وغیرہ کی آواز بلند کرنے کا ثبوت کتاب و سنت سے نہیں ملتا ۔ جو کام نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب رضی اللہ تعالی عنہم نے نہیں کیا ، نہ اسے جائز سمجھا نہ افضل تو ہم کیسے ایسے کام جائز افضل بنا سکتے ہیں ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
شہید کی نماز جنازہ

س: ہمارے کچھ ساتھی جو کشمیر میں شہید ہوئے ہیں ہم نے ان کی نماز جنازہ کیلئے اپنی مولوی صاحب سے کہا تو انہوں نے جواب دیا کہ جو شہید ہو جاتے ہیں ، ان کی نماز جانزہ نہیں پڑھنی چہائے۔ قرآن وسنت کیر و سے واضھ کہ شہید اگر جنازہ پڑھ لیا جائے تو کیا درست ہے یا نہیں ۔

ج: شہید کی نماز جنازہ نہ ضروری ہے اور نہ ناجائز۔ بلکہ اس کا پڑھنا بھی جائز ہے اور نہ پڑھنا بھی ۔ دونوں کی طرح کی روایات کتب احادیث میں موجود ہیں۔ شہداء کا جنازہ پڑھنے کے متعلق چند ایک احادیث کا ذکر کرتا ہوں :
'' سیدنا شداد بن الہاد سے روایت ہے کہ ایک بدوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آیا۔ پرھ وہ شخص جنگ میں شہید ہو گیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے جبہ میں کفن دیا اور اس کی نماز جنازہ ُڑھی '' ۔
یہ حدیث صحیح ہے اور امام نسائی کی السنن الکبری (۲۰۸۰)۱/۶۳۴۱اور امام طحاوی کیش رح معانی الاثار ۱/۲۹۱، مستدرک حاکم ۳/۵۹۵۔۵۹۶ اور بیہقی۴/۱۵۔۱۶ میں موجود ہے۔
'' سیدنا عبداللہ بن زیبر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دن سیدنا حمزہ کے متعلق حکم دیا ۔ پس انہیں ایک چادر میں چھپا دیا گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمزہ کی تو نکبیروں کے ساتھ نماز جنازہ ادا فرمائی ۔ پھر دوسرے شہداء باری باری لائے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بھی نماز جنازہ ادا فرمائی اور ان کے ساتھ ساتھ حمزہ کی نماز بھی ادا فرماتے رہے ''۔ (طحاوی۱/۲۹۰)

امام بخاری نے بخاری کتاب لاجنائز باب الصلاة علی الشھید میں عقبہ بن عامر سے روایت کی ہے :
' ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہداء اُحد پر اس طرح نماز ادا کی جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم میت پر نماز ادا کرتے تھے ''۔
(بخاری۳/۱۶۴،۷/۲۷۹،۲۸۰،۳۰۲، مسلم۷/۲۷، احمد۴/۱۴۹،۱۵۳ طحاوی۱/۲۹۰، دارقطنی۱۹۷، السنن الکبری للنسائی ۱/۲۳۵(۲۰۸۱)

امام ابن حزم، امام احمد بن جنبل، امام ابن قیم اور لعماء اہلحدیث نے اس مسلک کو راجح قرار دیا ہے جس کی تفصیل تحفۃ الاحوذی۲/۱۴۸۹، نیل ۴/۴۸، المغنی ۳/۲۹۵ وغیرہ میں ہے۔ امام ابن قیم نے تہذیب السنن ۴/۲۹۵ میں فرمایا ہے۔
'' مذکورہ بالا مسئلہ میں درست بات یہی ہے کہ شہید کی نماز جناز پڑھنے اور ترک کرنے میں اختیار ہے ۔ اس لئے کہ ہر ایک کے متعلق آثار مری ہیں اور امام احمد سے بھی ایک روایہت اس طرح مروی ہے اور ان کے اصول و مذہب کے زیادہ مناسب ہے ''۔
دور حاضر کے محدث علماہ البانی حفظہ اللہ کی رائے اس مسئلہ میں یہ ہے کہ شہید کی نماز جنازہ نہ پڑھنے سے پڑھنا زیادہ بہتر ہے کیونکہ جنازہ دُعا اور عباد ت ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
شہید کا نماز جنازہ اور جنازۂ غائبانہ

س:۱) کیا شہید کی نماز جنازہ ُڑھی جا سکتی ہے ؟ میں نے سکی علماء سے سنا ہے کہ رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی شہید کا جنازہ نہیں پڑھا بلکہ ایک شیخ الحدیث نے تو مجمع عام میں فرمایا کہ میدانِ معرکہ کے شہید کا جنازہ جائز ہی نہیں ۔
۲٢) جو بھائی کشمیر میں شہید ہوتے ہیں ، آپ ان کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کرتے ہیں۔ اس کی دلیل کتاب وسنت سے واضح فرمائیں ؟


ج: شہید کی نماز جنازہ ضروری نہیں البتہ اگر پڑھے تو جائز ہے۔ مسنون اور باعث ثواب ہے جو لوگ شہید معرکہ کے جنازہ کو نا جائز قرار دیتے ہیں ان کے سمانے صحیح بخاری کی یہ حدیث ہے :
'' جابر بن عبداللہ ب فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اُحدکے مقتو لین میں سے دو دو آدمیوں کو ایک کپڑے میں جمع کرتے پھر فرماتے۔ ان میں قرآن کسے زیادہ یاد تھا ؟ جب ان میں سے کسی ایک کی طرف اشارہ کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتای جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے لحد میں آگے کر دیتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خونوں میں ہی دفن کر دینے کا حکم دیا نہ انہیں غسل دیا گیا اور نہ ان کا جنازہ پڑھا ''۔ (صحیح البخاری اصح المطابع ص۱۷۹' باب الصلوۃ علی الشھید)

ان علماء کا کہنا ہے کہ صحیح بخاری کی یہ حیدث اس بات کی صریح دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُھد کے شہداء کا جنازہ نہیں پڑھا ۔ یہ حضرات ان احادیث کو ضعیف قرار دیتے ہیں جن میں یہ ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُحد کے موقع پر شہیدوں کا جنازہ پڑھا ۔ کیونکہ وہ صحیح بخاری کی حدیث کے خلاف ہیں ،گر حقیقت یہ ہے کہ شہداء کا جنازہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح احادیث سے ثبات ہے ۔ یہ احادیث تین مختلف اوقات سے تعلق رکھتی ہیں۔ جن سے دو موقعوں کی احادیث کے صحیح ہونے میں کوئیا ختلاف نہیں اور اگر کسی نے اختلاف کیا تو معض وہم کی بناپر کیا ہے۔ پہلا موقعہ غزوہ احد کے عالوہ دوسرے موقع پر شہید ہونے والوں کا جنازہ ۔ امام نسائی فرماتے ہیں ۔

'' ہمیں سوید بن نصر نے خبر دی انہوں نے فرمایا ہمیں عبداللہ نے ابن جریج سے خبری دی ، انہوں نے فرمایا مجھے عکرمہ بن خالد نے خبر دکی کہ ابن ابی عمار نے انہیں شداد بن الہاد سے خبر دی کہ ابن ابی عمار نے انہیں شداد بن الہاد سے خبر دی کہ ایک اعرابی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا اور آپ کے تابع ہو گیا پھ رکہنے لگا میں آپ کے ساتھ ہجرت کرتا ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے بعض صحابہ کو تاکید فرمائی ۔ جب ایک جنگہ ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ غنیمت حاصل ہوئی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تسلیم کر دیا اور اس کا حصہ بھی نکالا اور اس کا حصہ اس کے ساتھیوں کو دے دیا ۔ یوہ ساتھیوں کی سواریاں چرایا کرتا تھا ۔ جب آی اتو انہو ں نے اس سے وہ دیا ۔ کہنے لگا یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا تمہارا حصہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے لئے نکالا ہے ۔ اُ س نے وہ لے لیا اور لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س آ گای ۔ کہنے لگا یہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا میں نے یہ تمہارا حصہ نکال اہے ۔ کہنے لگا میں اس کیلئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نہیں چلا بلکہ میں تو اس ( مقصد ) کیلئے آپ کے پیچھے چلا ہوں کہ مجھے ( خلق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) یہاں تیر لگے تو میں فوت ہو کر جنت میں داخل ہو جائوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم اللہ سے سچ کہو گے تو اللہ بھی تم سے سچ کا سلوک کرے گا ۔ اس کے بعد تھوڑی دیر گزری۔ پھر وہ دشمن سے لڑنے کیلئے اٹھاکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا اور اس کو وہیں تیر لگا جہاں اُ نے اشارہ کیا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا یہ وہی ہے؟ صحابہ نے کہا جی ہاں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے اللہ تعالیٰ سے سچ کہا تو اللہ نے اس سے سچ کا سلوک کیا ، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خود اپنے جبہ میں کفن دیا ۔ پھر اسے آگ رکھ کر اس کا جنازہ پڑھا ۔ تو جناے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو الفاظ ظاہر ہوئے ان میں سے چند الفاظ یہ تھے اے اللہ یہ تیرا بند ہے۔ ہجرت کر کے تیری راہ میں نکلا پس شہید ہو کر قتل ہوا۔ میں اس بات پر گواہ ہوں ''۔
یہ حدیث نسائی کے علاوہ طحاوی نے شرح معانی الاثار (۱/۲۹۱) میں حاکم (۳/۵۹۵۔۵۹۶) نے اور بیہقی (۴/۱۵۔۱۶) نے بھی روایت کی ہے۔

شیخ ناصر البانی اس حدیث کے متعقل لکھتے ہیں اس کی اسناد صحیح ہے ۔ اس کے تمام راوی مسلم کی شرط پر ہیں سوائے شاد بن الہاد کے کہ مسلم نے ان کی کوئی حدیث روایت نہیں کی مگر اس کا کوئی نقصان نہیں کیونکہ وہ معروف صحابی ہیں اور شوکانی نے نیل الا وطار (۳/۳۷) میں نووی (المجموع۵٥/۵۶۵) کی اتباع میں جو کہا ہے کہ وہ تابعی ہیں تو یہ ان کا واضح وہم ہے اس سے دھوکا نہیں کھانا چاہئے ۔ ( احکام الجائز ص ٦١)
تقریب میں ہے : '' شداد بن الہاد صحابی ہیں جو خندق اور اس کے بعد کی جنگوں میں شریک ہوئے ''۔
اس صحیح اور صریح حدیث سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہید معرکہ کا جناہ خود پڑھایا ہے ا گر اُحد کے شہیدوں کا جنازہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پڑھا ہو تو یہ حدیث ہی جنازے کے سنت ہونے کی کافی دلیل ہے ۔
اگر کوئی شخص اعتراض برائے اعتراض کرنا چہائے تو کہہ سکتا ہے کہ فصلی علیہ کا معنی یہ ہے کہ اس کیلئے دعا کی ۔ لیکن اگر یہ بات تسلیم کی جائے تو نامز جنازہ سرے سے خمت ہو جاتی ہے کیونکہ میت سامنے رکھ کر صرف دعا نہیں کی جاتی بلکہ جنازہ پڑھا جاتا ہے اور اس کیلئے فصلی علیہ کا لفظ ہی استعمال کی اجتا ہے ۔

دوسرا موقعہ : آٹھ سال بعد شہدائے اُحد کا جنازہ ۔ امام بخاری باب الصلوٰة علی الشہید میں فرماتے ہیں : '' عقبہ بن عامر فرماتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن نکلے اور آپ اپنے اُحد والوں پر اس طرح جنازہ پڑھا جس طرح آپ میت پر جنازہ پڑھتے تھے ۔ پھر واپس آکر منبر کی طرف آئے اور فرمایا میں پہلے جا کر تمہاری ضروریات کا انتظام کرنے والا ہوں اور اللہ کی قسم اس وقت میں اپنا حوض دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں دی گئی ہیں اور اللہ کی قسم میں تمہارے متعلق اس بات سے نہیں ڈرتا کہ تم میرے بعد شرک کرو گے لیکن مجھ ڈرہے کہ تم ایک دوسرے کے مقابلے پر دنیا میں رغبت کرو گے''
مسند احمد ، بیہقی اور دار قطنی میں اسی روایت میں یہ لفظ بھی ہے کہ آپ نے شہداء اُحد کا یہ جنازہ آٹھ سال بعد پڑھا۔
اس حدیث سے شہید کا جنازہ ثابت ہوتا ہے۔ امام بخاری نے بھی اسے باب الصلویٰۃ علی الشھید میں نقل فرمایا ہے۔

بعض لوگ جنہوں نے طے کر رکھا ہے کہ شہید کا جنازہ تسلیم ہی نہیں کرنا ، اس حدیث کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبرستان میں جا کر شہداء اُحد کیلے دعا کی ۔ اس سے مراد یہ نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہداء کا جنازہ پڑھ کیونکہ صلوٰة کا معنی دعا ہے۔ مگر حدیث کے الفاظ میں اس تاویل کی گنجائش ہی نہیں ۔ الفاظ یہ ہیں (فصلی علی اھل احد صلاتہ علی امیت )یعنی آپ نے اُحد والوں پر اس طرح صلوٰة پڑھی جس طرح میت پر پڑھتے تھے اس سے معلوم ہوا کہ آپ نے با قاعدہ ان کا جنازہ پڑھا تھا ۔ امام شو کانی نے فرمایا کہ صلاتہ علی المیت کے الفاظ اس تاویل کی تردید کرتے ہیں کہ صلوٰة سے مراد دعا ہے(نیل الا وطار ص۴۴، ج۴٤)
علاوہ ازیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل صحیح بخاری سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میت کے دفن ہونے سے پہلے کسی وجہ سے جنازہ نہ پڑ ھ سکتے تو قبر پر جا کر صفیں بنا کر جنازہ پڑھتے تھے۔ امام بخاری باب الصلوۃ علی القبر بعد ما یدفن میں اس سلسلہ میں دو واقعات ذکر فرماتے ہیں۔ لکھتے ہیں :
'' ہمیں حجاج بن منہال نے حدیث بیان کی ۔ انہوں نے فرمایا کہ ہمیں شعبہ نے حدیث بیان کی ۔ انہو ں نے فرمایا مجھے سلیمان شیبانی نے حدیث بیان کی انہوں نے فرمایا میں نے شعبی سے سنا۔ انہوں نے فرمایا میں مجھے اُ س شخص نے خبر کی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک الگ تھلگ قبر کے پاس سے گزرا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی امامت کروائی اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے جنازہ پڑھا، سلیمان فرماتے ہیں میں نے شعبی سے کاہ کہ اے ابو عمرو آپ کو یہ حدیث کس نے بیان کی تو انہوں نے فرمایا ابن عباس نے '' (صحیح بخاری ۱ اصح المطاقع ص۱۷۸)
شارح صحیح بخاری حافظ ابن حجررحمۃ اللہ نے باب الاذان بالجنازہ میں اس حدٰث کی شرح میں لکھا ہے کہ یہ صحابی جن کی قبر پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازہ پڑھا طلحہ بن براء بن عمیر البلوی تھے۔ دوسری حدیث :
'' ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک سیاہ مرد یا عورت مسجد میں جھاڑو دیا کرتا تھا وہ فوت ہو گیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی وقت کا علم نہ وہ سکا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اسے یاد کیا اور فرمایا اس آدمی کا کیا ہو ا؟ لوگوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ فوت ہو گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو تم نے مجھ اطلاع کیو ں نہیں دی ۔ انہوں نے کہا اس کا واقع اس طرح ہوا۔ غرض انہوں نے اس معاملے کو معمولی قرا رد یا ۔آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ اس کی قبر بتاؤ ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ آپ اس کی قبر پر گئے اور اس کا جنازہ پڑھا ''۔ (صحیح بخاری ، ص۱۷۸)

حافظ ابن حجر باب الاذان بالجنازة میں فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے بارے میں صحیح بات یہی ہے کہ وہ عورت تھی اس کا نام اُم مجمن تھا ۔
صحیح بخاری میں شہدائےاحد کے آٹھ سال بعد جنازہ سے ثابت ہوتا ہے کےاگر پہلے فرصت نہ مل سکے تو کئی سال بعد بھی میت کا جانزہ پڑھا جا سکتا ہے جس میں شہید بھی شامل ہیں اور اگر وہ احادیث ثابت ہو جس میں ذکر ہے کہ رسول اللہ نے اُحد کے موقع پر بھی شہداء کا جنازہ پڑھا تو آٹھ سال بعد جنازہ سے ثابت ہوتا ہے کہ پہلے جناز ہ پڑھاہو تو کئی سال بعد دوبارہ قبر پر بھی جنازہ جائز ہے۔
تیسرا موقعہ جنگ احد کے موقع پر شہداء احد کا جنازہ ہے۔

اس میں شبہ نہیں کہ صحیح بخاری میں سیدنا جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے یہی مروی ہے کہ شہداء اُحد کا جنازہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں پڑھایا۔سیدنا انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بھی اس مفہوم کی روایت مروی ہے مگر جب دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے صحیح سند سے ثابت ہو جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقعہ پر شہداء کا جنازہ پڑھا ہے توا سے تسلیم کرنا پڑے گا ۔کیونکہ یہ ثابت شدہ اصول ہے کہ ایک واقعہ کے متعلق جب ایک آدمی یہ بیان کرے کہ یہ واقعہ نہیں ہوا اور دوسرے بیان کریں کہ یہ واقعہ ہوا ہے اور دونوں سچے ہوں تو اس شخص کی بات تسلیم کی جائے گی جو واقعہ ثابت ہونے کا راوی ہے۔ دوسرے کے متعلق سمجھا جائے گا کہ اسے علم نہیں ہو سکا۔ امام شو کافی فرماتے ہیں :
'' یعنی شہداء اُحد پر جنازہ پڑھنے کی احادیث کو قوی قرار دینے والوں کو اس بات سے مزید قوت حاصل ہوتی ہے کہ یہ احادیث جنازہ کا اثبات کرتی ہیں اور اثبات نفی پر مقدم ہوتا ہے اور ترجیح کی یہ وجہ ایسی ہے کہ ماننی پڑتی ہے ''۔ ( نیل الا وطار ج۴٤، ص۴۴)
رہا یہ سوال کہ سیدنا جاب ر اور انس جلیل القدر صھابی سے یہ بات کسیے مخفی رہ گی تو یہ کوئی بعید بات نہیں ۔ جنگ اُحد میں مسلمانوں کو لاحق ہونے ولای پریشانی کی حالت میں تمام لوگ اگر جانچے پر نہ پہنچ سکے ہوں اور نہ انہیں اس بات کا علم ہوا ہو تو یہ ممکن ہے ۔ خصوصاً سیدنا جابر کو اس کا علم نہ ہوا اور جنازے پر پہنچ نہ سکنا تو عین ممکن ہے کیونکہ وہ اُحد کے معرکے میں شریک ہی نہیں ہو سکے جیسا کہ امام ذہبی رحمۃ اللہ نے لکھا ہے :
'' اور جابررضی اللہ تعالٰی عنہ نے اُحد کے دن اپنے والد کی اطاعت کی تھی اور اپنی بہنوں کی وجہ سے گھر میں رہ گئے تھے۔ پھر خندق اور بعیت شجرہ (بیعت رضوان) میں حاضر ہوئے '' ۔
خود ان کا بیان ہے کہ والد صاحب کے منع کرنے کی وجہ سے بد ر اور اُحد میں شریک نہیں ہوا ۔ جب وہ شہید ہو گئے تو میں کسی غزوہ سے پیچھے نہیں رہا ۔ (صحیح مسلم ، حدیث۱۸۱۳)
سیدنا انس بھی اس وقت صغیر النس تھے۔ اب دور حاضر کے معروف سلفی محدث شیخ ناصر الالبانی حفظہ اللہ کی کتاب احکام الجنائر میں سے دو احادیث ان پر شیخ صاحب کے کلام کا ترجمہ نقل کرتا ہوں :
'' عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُحد کے دن حمزہ کے متعلق حکم دیا تو انہیں ایک چادر کے ساتھ ڈھانپ دیا گیا پھر آپ نے ان پر جنازہ پڑھ ااور ان پر نو تکبیریں کہیں ۔ پھر دوسرے مقتول لائے گئے۔ وہ صفوں میں رکھے جاتے تھے اور آپ انکا جنازہ پڑھتے تھے اور ان کے ساتھ حمزہ کا جنازہ بھی پڑھتے تھے''۔
اسے طحاوی نے معانی الآثار (۱/۲۹۰) میں روایت کیا ہے اور اس کی اسناد حسن ہے ۔ اس ے تمام راوی معروف ثقہ ہیں اور ابن اسحق نے تحدیث کی تصریھ کی ہے اور اس کے بہت سے شواہ دہیں جن میں کچھ شواہد میں نے ( التعلیقات اجیاد ) میں مسئلہ (۵۷) میں ذکر کیے ہیں ۔
'' عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں جبر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمزہ پر(نماز جنازہ کیلئے) کھڑے ہوئے، انکے متعلق حکم دیا تو ان کی تایری کر کے انہیں قبلہ کی طر فرکھ دیا گیا پھر آپ نے ان پر نو تکبیرین کہیں پھر دوسرے شہداء کو انکے ساتھ اکٹھا کیاجب کوئی شہید لایا جاتا حمزہ کے ساتھ رکھ دیا جاتا ۔ آپ اس پر اور اس کے ساتھ دوسرے شہید پر جنازہ ُڑھتے یہاں تک کہ آپ نے اس پر اور دوسرے شہداء پر بہت دفعہ نماز جنازہ پڑھی ''۔
اسے طبرانی نے اپنی معجم کبیر (۳٣/۱۰۷،۱۰۸)میں محمد بن اسحق کی سند سے روایت کیا ہے ۔ وہ فرماتے ہیں مجھے محمد بن کعب قر طنی اور حکم بن عتیبہ سے مقسم اور مجاہد سے حدیث بیان کی ان دونوں نے ابن عباس سے بیان کیا ۔
میں کہتا ہوں : یہ جید سند ہے اس کے تمام راوی ثقہ ہیں اور اس میں محمد بن اسحاق کی تحدیث کی تصریح کی ہے تو اس کی تدریس کا شبہ دور ہو گای ۔ شیخ البانی کا کالم بقدر ضرورت ختم ہوا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ شہید معرکہ کا جنازہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی احادیث سے ثابت ہے ۔ اگر جنگ اةد کے موقع پر شہداء کے جنازہ والی احادیث کو صحیح تسلیم کیا جائے تو کوئی اشکال ہی نہیں رہتااور اگر ان کی صحت پر اطمینان نہ بھی ہو تو گلے مین تیر لگنے سے شہید ہونے والے صحابی کا جانزہ اور شہداء اُحد پر آٹھ سال بعد جنازہ والی احادیث کے بعد شہدائے معرکہ سے انکار کی کوئی گنجا ئش نہیں رہتی ۔
غائبانہ نماز جنازہ
کشمیر میں شہید ہونے والے بھائیوں کی غائبانہ نماز جنازہ درست ہے اس کی دلیل یہ حدیث ہے :
'' ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کی موت کی اطلاع اس دن دی جس دن وہ فوت وہا اور صحابہ کو لے کر جنازہ گاہ کی طرف نکلے ان کی صفیں بنائیں اور اس پر چار تکبیریں کہیں ''۔(صحیح البخاری اصح المطابع ص ۱۷۸)
اس سے غائبانہ نماز جنازہ کا ثبوت ملتا ہے اور جس شخص کا جنازہ میت حاضر ہونے کی صورت میں ہو سکتا ہے غائب ہونے کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے۔ شہید کے جنازہ کے مسنون ہونے کے دلائل اوپر گزر کچے ہیں ۔ بعض لوگ جنازہ غائبانہ کے سرے سے ہی منکر ہیں ۔ یہ صرف نجاشی کے ساتھ خاص تھا کیونکہ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے زمین کے تمام پردے ہٹا دئیے گئے اور نجاشی کی میت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے دیکھ رہے تھے۔ مگر یہ بات درست نہیں ۔ امام نودی نے المجموع ( ٥/ ٢٥٣) بحوالہ احکام النجائز ) میں اس کے متعلق فرمایا ہے کہ یہ روایت خیالا ت میں سے ہے یعنی اس کی حقیقت کچھ نہیں ۔
رہا نجاشی کیس اتھ خاص ہونا تو یہ بات اس لیے درست نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر فعل امت کیلئے نمونہ ہے ( لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة ) ہاں اگر کسی علم کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کود وضاحت فرما دی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خاص ہے تو الگ بات ہے اوریہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی صراحت نہیں فرمائی ۔
بعض حضرات فرماتے ہیں کہ صرف اس شخص کا غائبانہ جنازہ درست ہے جس کا جنازہ اس علاقہ میں نہ پڑھا گیا ہو جہاں وہ فوت ہواہے ۔ ان کا استدلال ان الفاظ سے ہے جو اسی حدیث کی بعض روایات میں آئے ہیں کہ ان اخالکم قد مات بغیر ار ضکم ، یعنی تمہارا ایک بھائی تمہارے علاقے سے باہر فوت ہو گیا ۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ نجاشی کا جنازہ وہاں نہیں پڑھا گیا تھا۔
ان حضرت کا علم و فضل مسلم ہونے کے باوجود حدیث کے الفاظ میں یہ صراحت کم از کم مجھے کہیں نہیں ملی کہ نجاشی کا جانزہ وہاں کسی نے نہیں پڑھا تھا۔ علاقے سے باہر فوت ہونے کی وجہ سے غائبانہ جنازہ پڑھنے کی یہ تو جیہ ہو سکتی ہے کہ ہمارے لئے وہاں پہنچنا مشکل ہے۔
بہر حال شہدائے کشمیر کا جنازہ غائبانہ اس لحاظ سے بھی درست ہے کہ وہ علاقہ ہندوئوں کے تسلط میں ہے اور شہداء کی میتیں بعض اوقات کشمیری مسلمانوں کو دے دی جاتی ہیں اور ان کا جنازہ پڑھتے ہیں ۔ بعض اوقات انہیں دی ہی ہنہیں جاتیں کہ ان کا جنازہ پڑھا جا سکے۔بعض اوقات عام آبادی کے مشتعل ہونے کے خوف سے انہیں شہادتوں کی خبر ہی نہیں ہونے دی جاتی ۔ خصوصاً بارڈر ایرا میں شہید ہونے والے بھائیوں کی میتیں تو ہندو آرمی حتی الوسع اٹھانے ہی نہیں دیتی ۔ نہ ان پر جنازہ ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں شہدائے کمشیر کا جنازہ ان حضرات کے قول کے مطابق نجاشی کے جنازے کے مطابق بھی مسنون ہے۔
اگر غور کیا جائے تو طلحہ بن رباء اور ام مججن رضی اللہ تعالٰی عنہ کے جنازے ادا ہو چکنے کے باوجود ان کی قبر پر آپ کا جنازہ ادا کرنا اور شہداء احد کا جنازہ پڑھنے کے باوجود آٹھ سال بعد ان کی قبروں پر نماز جنازہ ادا کرنا بھی جنازہ غائبانہ ہی ایک صورت ہے کیونکہ میت تو نگاہوں سے غائب ہے۔ اسے حاضر کا جنازہ کس طرح کہا جا سکتا ہے اور جب نگاہوں سے ہی غائب ہو گیا تو پھر فاصلے کی کمی یا زیادتی میں کیا فرق پڑتا ہے ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
شہید کا جنازہ

س: بعض لوگ کہتے ہیں کہ شہید ہونے والے کا نماز جنازہ پڑھنا بد عت ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ۔کیا یہ بات درست ہے قرآن و سنت کے دلائل سے وضاحت فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔

ج: شہید کی نماز جنازہ پڑھنا اور نہ پڑھنا دونوں رسولا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہیں جس کی دلیل یہ ہے کہ :
۱) شداد بن الہاد رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے ، کہتے ہیں ایک اعرابی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ مسلمان ہو کر کہنے لگا ، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجر ت کروں گا۔ اللہ کے ر سول نے اسے بعض صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم کے سپر د کر دیا ۔ وہ ان کی بکریاں چرایا کرتا تھا۔ غزوہ خیبر میں جو مال غنیمت حاصل ہوا، اس میں سے رسول اللہ نے اس کا حصہ بھی نکالا اور اس کے ساتھ ساتھیوں کو دے دیا۔ جب وہ بکریاں چرا کر واپس آیاتو انہوں نے کہا یہ حصہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال غنیمت میں سے تیرے لئے مقرر کی ہے۔ وہ اس حصہ کو لے کر رسول اللہ کے پاس آئے اور کہنے لگا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اس دنیاوی مال کیلئے نہیں کی تھی بلکہ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا تھا کہ میری شہ رگ میں تیر لگے اور میں شہید کر دیا جاؤں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تو سچ کہتا ہے توا للہ تجھے سچا کر دے گا۔ پھر وہ تھوڑی دیر ٹھہرے اور دشمن کے ساتھ قتال میں مشغول ہو گئے اور شہید ہوئے تو اسے اٹھا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا اسے وہیں تیر لگا جہاں اُس نے اشارہ کیا تھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، کیا یہ وہی ہے ۔ کہا گیا، ہاں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے اللہ کے ساتھ صدق سے معاملہ کیا تو اللہ نے بھی سچ کر دکھایا ۔
'' پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے جبہ میں کفن دیا اور اس نے نماز جناز ہ پڑھی تو آپ کی دعا سے جو الفاظ ظاہر ہوئے ، وہ یہ ہیں ۔ اے اللہ ! یہ تیرا بندہ تیرے راستے میں ہجرت کر کے نکلا اور شہادت کی موت سے مشرف ہو امیں اس پر گواہ ہوں ''۔ (صحیح سنن النسائی ، سنن الکبری ، بیہقی۴٤/۱۷۔۱۰٠، حاکم )
شیخ البانی صاحب حفظہ اللہ فرماتے ہیں اس کی سند صحیح ہے جس کی سب راوی مسلم کی شرط پر ہیں ۔ سوائے شداد بن الہاد کے اوریہ معروف صحابی رسول ہیں ۔

۲) عبداللہ بن زبیر کہتے ہیں ۔
'' رسول اللہ نے احد کے دن حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو چادر سے ڈھانپنے کا حکم دیا ۔ پھر رسول اللہ نے اسکی نماز جنازہ پڑی اور نو تکبیریں کہیں ۔ پھر دوسرے شہداء کو لایا جاتا ۔ آپ نے ان کی نماز جنازہ پڑھی اور ساتھ حمزہ کی بھی ''۔ (منافی الآثار طحاوی )
شیخ البانی فرماتے ہیں ،ا س کے سب راوی ثقہ اور معروف ہیں او رمحمد بن اسحق نے سماع کی تصریح کی ہے

۳) انس بن مالک کہتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حمزہ کے پاس گزرے۔ اُن کا مثلہ ( ناک کان اور دوسرے ظاہری اعضاء کٹے ہوئے ) کیا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمزہ کے سوا شہدائے احد میں کسی کا جنازہ نہیں پڑھا ۔ (ابو دائود، ترمذی، احمد، حاکم )
شیخ البانی فرماتے ہیں کہ اس کی سندحسن ہے۔
یہ تین روایات اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ شہید کی نماز جنازہ پڑھی جا سکتی ہے۔ ٹھیک ہے بعض صحیح روایات میں یہ بھی موجود ہے کہ شہدائے احد کی نماز جنازہ نہیں پڑھی گئی لیکن ان روایات میں کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ جن میں ہے کہ حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سوا کسی کا نماز جنا زہ نہیں پڑھا گیا ۔ ان کے تطبیق اس طرح ہے کہ حمزہ کی طرح مستقلاً ایک ایک کا جنازہ نہیں پڑھا گیا۔ ان کی تطیق اس طرح ہے کہ حمزہ کی طرح مستقلاً ایک ایک کا جنازہ نہیں پڑھا گیا اورپھر یہ شریعت کا قاعدہ بھی ہے الائبات مقدم علی النفی ایک طرف کسی چیز کے ثبوت کی دلیل ہو اور دوسری طرف نفی والی پر مقدم ہوتی ہے ۔اب ہمارے اس مسئلہ میں بعض احادیث نماز جنازہ کے ثبوت پر دلالت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہداء اُحد کی نماز جنازہ پڑھی اور بعض اس کی نفی کرتی ہیں تو اس قاعدے کے مطابق ان احادیث کو ترجیح ہو گی جو نماز جنازہ کے پڑھنے پر دلالت کر رہی ہیں تو پھر جو احادیث شہرائے احد پر نماز جنازہ کی نفی کرتی ہیں وہ صرف دو صحابہ سے مروی ہیں ایک جابن بن عبداللہ اور دوسرے انس رضی اللہ تعالٰی عنہ جبکہ انس رضی اللہ تعالٰی عنہ اس واقع کے وقت کے چھوٹے بچے تھے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہی دونوں صحابی رسول ( انس اور جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ) اس واقعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز جنازہ پڑھنے کو بھی بیان کر رہے ہیں ۔ جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حدیث مستدرک حاکم میں ہے جبکہ انس رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حدیث ابو دائود میں بھی ہے۔
بخاری شریف میں عقبہ بن عامر کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن گھر سے نکلے اور شہداء اُحد کا جنازہ آٹھ سال بعد پڑھا۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شہید کی نماز جنازہ پڑھنی چاہئے اگر چہ لمبی مد ت گزرنے کے بعد پڑھی جائے ۔ خلاصہ یہی ہے کہ شہید کی نماز جنازہ دوسرے فوت ہونے والوں کی طرح فرض نہیں ۔ علامہ ابن القیم فرماتے ہیں :
'' اور اس مسئلہ میں درست بات یہ ہے کہ شہید کا نماز جنازہ پڑھنے اور نہ پڑھنے میں اختیار ہے کیونکہ دونوں طرح کے آثار موجود ہیں''۔ (تہذیب السنن )
حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں امام احمد بن جنبل سے دونوں امروں کا جواز نقل کیا ہے۔ علامہ ناصر الدین البانی فرماتے ہیں :
'' اس میں کوئی شک نہیں کہ شہداء کا نماز جناز ہ پڑھنانہ پڑھنے سے افضل ہے جب یہ میسر ہو کیونکہ یہ دعا اور عبادت ہے ''۔ (احکام الجائز ، ص ۱۰۸)
شوکافی نے بھی شہید کی نمازِ جنازہ پڑھنے کو زیادہ پسند کیا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
نماز جنازہ سری یا جہری ؟

س: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم لوگ جو نماز جنازہ اونچی قرأت سے پڑھتے ہیں اس کا اور آہستہ پڑھنے کا کیا ثبوت ہے ؟ اس سوال کا جواب قرآن و حدیث کی روشنی میں مفصل دہیں ۔

ج) نماز جنازہ میں قرات جہرا و سرا دونوں طرح درست ہے البتہ دلائل کی رو سے سرا پڑھنا زیادہ بہتر اور اولیٰ ہے۔ سری پڑھنے کے دلائل یہ ہیں۔
۱) سیدنا ابو امام سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا :
'' نماز جنازہ میں سنت طریقہ یہ ہے کہ پہلی تکبیر میں سورة فاتحہ آہستہ آواز میں پڑھے پھر تین تکبیریں کہے اور آخری تکبیر کے پاس سلام پھیرے ''
یعنی تکبیر اولیٰ کے بعد سورۂ فاتحہ آہستہ پڑھے پھر باقی تکبیرات میں جیسا کہ دیگر احادیث میں صراحت ہے کہ دوسری تکبیر کے بعد درود پڑھے پھر تیسری تکبیر کے بعد دُعا پڑھے اور چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھیر دے ۔ بعض صحیح روایات میں چار سے زائد تکبیرات کا بھی ثبوت موجود ہے ملاحظہ ہو ۔ احکام المنائر للشیخ البانی حفظہ اللہ، امامش افعی نے کتاب الام ۱/۲۳۹،۲۴۰ پر اور انہی کی سند سے امام بیہقی ۴/۳۹٣ پر اور امام ابن الجاوری المنتقی (۲۶۵) پر لائے ہیں کہ ابو امام کی مذکورہ حدیث میں ہے ۔
'' نماز جنازہ میں سنت یہ ہے کہ امام تکبیر کہے۔ پھر ( تکبیر کے بعد ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھے۔ پھر باقی تکبیروں میں میت کیلئے خلوص سے دعا کرے اور ان تکبیروں سے قرأ ت نہ کرے آہستہ آہستہ سلام پھیرے اور سنت یہ ہے کہ مقتدی بھی وہ عمل کرے جو اسکا امام کرے ''۔

'' یعنی اصحاب صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مسئلے کے بارے میں کہیں کہ یہ سنت اور حق ہے تو اس کا مطلب محض یہ ہوتا ہے کہ یہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔ ان شاء اللہ ''
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قرأت آہستہ کرنا مسنون ہے اور سرا فی نفسہ مخافتہ کے الفاظ اس مسئلہ پر صراحت سے دلالت کرتے ہیں ۔ا ور جہری قرأ ت کرنے کا استدلال اس حدیث سے ہے کہ سیدنا عوف بن مالک فرماتے ہیں :
'' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنازہ کی نماز پڑھائی میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے یاد کر لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ رہے تھے اے اللہ اس کو بخش دے اور اس پر رحم کر اور اس کو عافیت دے معافی سے نواز دے''۔ (الحدیث)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جنازہ پڑھناسے یہ دعا حفظ کی اوریہ تبھی ہو سکتا ہے جب آپ نے جہری پڑھی ہو ۔ بہر کیف سری پڑھنا حدیث سے صراحتاً اور جہری پڑھنا استدلالاً ثابت ہے، اس لئے آہستہ پڑھنازیادہ قوی و بہتر ہے ۔ تفصیل کیلئے علامہ البانی حفظہ اللہ کی کتاب احاکم الجنازء ملاحظہ کیجئے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
مردہ پیدا ہونے والے بچے کا نماز جنازہ؟

س: کیا بچہ مردہ نا تمام پیدا ہو تو اس کانماز جنازہ ہو جائیگا ؟ یا نہیں ۔ قرآن و حدیث کی روشنی سے واضح کریں ۔

ج: مردہ یا نا تمام بچے کا نماز جنازہ اداکرنا شرعاً مشروع و جائز ہے۔ حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ :
'' مغیرہ بن شعبہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سوار جنازہ کے پیچھے چلے اور پیدل آگے اور پیچھے اور دائیں اور بائیں ۔ اس کے قریب رہ کر چلیں اور نا تمام بچے پر بھی نماز پڑھی جائے اور اس کے ماں باپ کیلئے رحمت اور بخشش کی دعا کی جائے ''۔
(ابو دائود (۳۱۸۰)۳/۲۰۵، احمد (۷۷۱۶،۷۷۰۹) ،۵/۳۰۲،۳۰۴، حاکم۱/۳۶۳)

علامہ البانی حفظہ اللہ احکام الجنائز ص۸۱میں لکھتے ہیں :
'' او ریہ بات بھی ظاہر ہے کہ '' ناتمام '' سے مراد وہ بچہ ہے جس کے چار ماہ مکمل ہو چکے ہوں اور اس میں روح پھونکی گئی ہو۔ پھر وفات پا ئے۔ البتہ اس سے پہلے کی صور ت اگر ساقطہ ہو جائے تو ادا نہیں کی جائے گی ۔ اس لئے کہ وہ میت کہلاہی نہیں سکتی ۔ اس بات کی وضاحت ابن مسعود کی اس مرفوع رویات سے ہوتی ہے :
'' یقینا تمہاری تخلیق کا طریقہ کار یہ یہ ہے کہ چالیس دن تک وہ ماں کے پیٹ میں نطفے کی شکل میں پڑا رہتا ہے ۔ پھرا تنے ہی دن تک لو تھڑے کی شکل میں ، پھر اتنے ہی دن تک بوٹی کی طرح رہتا ہے ، پھر اللہ تعالیٰ اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجتا ہے جو اس میں روح پھونکتا ہے '' (متفق علیہ )

لہٰذا جس بچے کے چار ماہ مکمل ہوں اورا س میں روح پھونکی گئی ہو ، وہ نا تمام پیدا ہوا ہو توا سکا نماز جنازہ ادا کیا جا سکتا ہے او ر روح پھونکے جانے سے قبل ہی سقط ہو جائے، اس کا نماز جنازہ ادا نہیں کیاجائیگا۔ کیونکہ اس کو میت نہیں کہا جا سکتا۔ بعض علماء نے یہ شرط لگائی ہے کہ بچہ زندہ پیدا ہو خواہ ایک دفعہ ہی اُس نے سانس لیا اور اس کی دلیل یہ روایت پیش کرتے ہیں :
'' جب بچے پیدا ہونے والا چیخنے تو اس کی نماز بھی پڑھائی جائے گی اور وہ وارث بھی ہوگا''۔
علاہ البانی حفظہ اللہ احکام الجنائز ص۸۱پر فرماتے ہیں یہ روایت ضعیف اور نا قابل حجت ہے۔ اس روایت کی تفصیل التلخیص الحبیر۶/۱۴۶۔ ۱۴۷ المجموع۵/۲۵۵ اور '' نقد التاج الجامع للاصول الخمسہ (۲۹۳) پر موجود ہے۔
ن
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
ماز جنازہ میں سلام ایک طرف پھیرا جائے یا دونوں طرف ؟

س: نماز جنازہ میں دونوں طرف سلام پھیرتے ہیں ۔ یہ عمل کیسا ہے ؟ اہل حدیث عامل ہیں جبکہ دار قطنی ، حاکم بیقہی نے ابو ہریرہ سے ایک طرف سلام پھیرنے کی روایت نقل کی ہے اور مسند شافعی میں سلام پھیرنے کا ذکر ہے مگر ایک یا دو کا ذکر نہیں وضاحت کریں ۔

ج: نماز جنازہ میں ایک طرف سلام پھیرنا بھی صحیح ہے اور دونوں طرف بھی ۔ ایک طرف سلام پھیرنے والی جس حدیث کی طرف سائل نے اشارہ کیا ہے ، وہ یہ ہے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے :
'' بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنازہ پڑھا اس پر چار تکبیریں کہیں اور ایک سلام پھیر ا'' ( دار قطنی۱۹۱، حاکم۱/۳۶۰)

امام حاکم نے اس حدیث کے بعد فرمایا :
'' سیدنا علی سیدنا عبداللہ بن عمر، سیدنا عبداللہ بن عباس، سیدنا جابر بن عبداللہ، سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہم سے صحیح روایت سے ثابت ہے کہ وہ نماز جنازہ پر ایک سلام پھیرا کرتے تھے ؟
رہا یہ مسئلہ کہ عموماً جو جنازوں پر سلام پھیرا جاتا ہے وہ دنوں طرف ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا:
'' تین کلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے ہیں جنہیں لوگوں نے ترک کر دیا ہے۔ ان میں سے ایک یہ کہ نماز جنازہ پر اس طرح سلام پھیرنا جس طرح نماز میں سلام پھیرا جاتا ہے ''۔ (بیہقی۴/۴۳)
اما نووی نے۵/۲۳۹ پر اس کی سند کو جید قرار دای ہے اور اما ہیثمی نے مجمع الزوائد۳/۳۴ پر فرمایا رواہ الطبرانی فی الکبیر ورجالہ ثقات اس حدیث کو اما م طبرانی نے معجم کبیر میں روایت کیا ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں ۔ ملاحظہ ہو احکام لجنائز ص۱۲۷ اور سیدنا عبداللہ بن مسعود سے صحیح مسلم وغیرہ میں روایت ہے کہ :
'' نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں دو سلام پھیرا کرتے تھے ''۔

سیدنا ابو مسعود کی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انہوں نے نماز جناز کے متعلق جو فرمایا کہ اس پر نماز کی طرح سلام پھیرتے تھے تو وہ سلام دونوں طرف پھیرتے ہیں بالکل جائز درست ہے اور ایک طرف سلام پھیرنا بھی روا اور مشروع ہے
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
نماز جنازہ کے بعد دعا کرنا

س: کیا نماز جنازہ کے بعد کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر دعا کرنا قرآن و حدیث سے ثابت ہے ہمارے علاقے میں بریلوی حضرات نماز جنازہ کے بعد بیٹھ کر دعا مانگتے ہیں اور اس پر دلیل یہ دیتے ہیں کہ سنن ابو دائود میں حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اذا صلیتم علی المیت فاخلصوا لہ الدعا ) جب تم میت پر نماز جنازہ پڑ ھ چکو توا س کیلئے خالص دعا کرو ''ْ اور مفتی احمد یار خان نے جاء الحق ٢٧٤ پر لکھا ہے کہ ف سے معلوم ہوتا ہے کہ فوراً دعا کی جائے اور اس میں صلیتم شرط ہے اور فاخلصوا جزا ہے اور شرط اور جزا میں تغایر چاہئے نہ کہ جزاء شرط میں داخل ہو ۔ پھرصلیتم ماضی ہے اور فاخلصوا امر ہے۔ لہٰذا نماز پڑھ چکنے کے بعد ہی دعا ہو گی ۔ اس کی وضاحت با لتفصیل فرمائیں ۔

ج: نماز جنازہ ادا کرنے کا جو طریقہ کتب احادیث میں وارد ہے اس میں میت کیلئے دعا کرنے کے دو مواقع کا ذکر ہے ایک دعا نماز جنازہ کے اندر اور دوسری دعا قبر میں میت کو دفن کرنے کے بعد ۔ نماز جنازہ کے بعد وہیں بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر دعا کرنے کا جو رواج بریلویوں یا دیو بندیوں میں پایاجاتا ہے ہے اس کا ثبوت نہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے اور نہ ہی صحابہ کرام اور تابعین عظام سے ہے۔ قرآن مجید سے اشارة میت کیلئے دعا کے دو مواقع معلوم ہوتے ہیں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی کا نماز جنازہ ادا کیا اورا سکے بعداللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی کہ :
'' اے پیغمبر ان میں سے کوئی مر جائے تو اس کی نماز جنازہ کبھی ادا نہ کرنا اور نہ ان کی قبر پر کھڑے ہونا ''

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ خیر القرون میں نماز جنازہ ادا کرنے اور دفن کرنے کے بعد قرب پر دعا کرنے کا طریقہ ضرور موجود تھا اور ان سے اللہ تعالیٰ نے منافقین کے حق میں آیت کے اندر صریحاً ممانعت کر دی ۔
اگر کسی تیسری دعا کا وجود ہوتا تو اللہ تعالیٰ اسے ضرورو روک دیتا نماز جنازہ کے بعد دعا کرنے سے تو فقہائے احناف نے بھی منع کیا ہے ۔ جیساکہ
۱)کشف الرمز علی الکنز ۱۳۱ پر سید الحموی رقم طراز ہیں :
'' نماز جنازہ کے بعد دُعا کو قائم نہ کرو اس لئے کہ یہ نماز جناز میں زیادتی کے مشابہ ہے ''

۲)حاشیہ جو اہر النفیس ص۷۷ پر مرقوم ہے :
'' سلام کے بعد دعا نہ مانگنے یعنی امام نماز جنازہ کے بعد دعا کا قیام عمل میں نہ لائے۔ علمائے احناف کا اس پر فتویٰ ہے جیسا کہ مجموعۃ الفتاوی میں موجود ہے ''۔
مندرجہ بالا حوالہ جات سے معلوم ہوتا ہے کہ سابقہ حنفی علماء بھی اس دعا کو نا جائز اور مکروہ سمجھتے تھے۔ سوال میں مذکور حدیث کا جو ترجمہ پیش کیا گیا ۔ ساری خرابی اسی ترجمہ میں ہے۔
اس حدیث کا صحیح ترجمہ یہ ہے کہ :
جب تم نماز جنازہ پڑھو توا س کیلئے خالص دعا کرو۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ کہ جب تم نماز جنازہ پڑھ و لو تو اسکے لئے خالص دعا کرو ۔ یہ ترجمہ تو حدیث کی روح کے خلاف ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو یہ تعلیم دینا چاہتے ہیں کہ جب میت پر نماز جنازہ ادا کی جائے تو نہایت ہی اخلاص کے ساتھ میت کیلئے دعا مانگنی چاہئے۔ یہ مطلب ہر گز نہیں کہ جنازہ تو بغیر اخلاص کے ساتھ پڑھ لو اور بعد میں اخلاص کے ساتھ دعا کر لو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے یہ اخلاص ثابت کیا ہے۔ جیسا کہ حدیث پاک میں آتا ہے کہ ایک جنازہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا :( اللھم اغفرلہ وارحمہ ) الخ۔ اس رقت آمیز لہجہ میں کی کہ پیچھے کھڑے ہونے والے صحابہ کرام میں سے حضرت عوف بن مالک کہتے کہ فتمنیت ان اکون ھذاالمیت میں نے تمنا کی کہ یہ میری میت ہوتی اور اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم اس پر یہ دعا کرتے۔

اسی طرح ایک صحابی سے نماز جنازہ ادا کرنے کا جو طریقہ کتاب الام۱/۲۳۹، السنن الکبری۴/۱۳۹، المنتقی لابن جارود۲۶۵ میں موجود ہے، اس میں یہ بھی ہے کہ :
نماز جنازہ کا منسون طریقہ یہ ہے کہ امام تکبیر کہے پھر پہلی تکبیر کے بعد سورة فاتحہ پڑھے پھر ( دوسری تکبیر کے بعد ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے پھر ( تیسری تکبیر کے بعد ) و یخلص الدعا للجناة جنازہ کیلئے خالص دعا کرے پھر آہستہ سلام پھی ردے ۔
اس حدیث میں و یخلص الدعا للجنازة سے واضح ہوتا ہے کہ یہ دعا نماز جنازہ کے اند رہے نہ کہ فوراً وہاں بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر دعا مانگی جائے اور نہ محدثین نے اس حدیث کو ذکر کیا ہے ان میں سے امام ابن ماجہ نے اس حدیث پر یوں باب باندھا ہے کہ : باب ماجاء فی الدعا فی صلوۃ الجنازۃ(سنن ابن ماجہ ۱/۴۸۰)

اسی طرح امام بیہقی نے بھی السنن الکبری۲/۴ پر یوں ہی تبویب کی ہے ۔
مفتی احمد یار خان نے جاء الحق ف اور شرط و جزا کے متعلق جو تحریر کیا ہے وہ سراسر باطل ہے کیونکہ ف میں جس طرح تاخیر و تعقیب زمانی ہوتی ہے ایسے ہی مرتبی بھی ہوتی ہے اورشرط وجزا میں جو تغایر کا ذکر ہے وہ مسلم ہے مگر یہ تغایر مختلف مقامات پر مختلف ہوتا ہے۔ کبھی یہ تغایر دو الگ الگ ذاتوں کا ہوتا ہے جیسا کہ (اذا طعمتم فانشروا ) میں کھانا ایک الگ حقیقت ہے اور انتشار ایک الگ حقیقت ہے۔ کبھی یہ تغایر اطلاق و تقیید کا ہوتا ہے جیسا کہ اذا سئا لتمو ھن متاعا فاسلاھن من وراء حجاب میں پہلا سوال جو جملہ شریطہ میں مذکور ہے، مطلق اور جزاء میں جو سوال ہے وہ وراء حجاب سے مقید ہے۔ کبھی یہ تغایر جزو کل کا ہوتا ہے جیسا: ( واذا قرأت القرآن فاستعذ باللہ ) میں قرأ ت قرآن کل ہے اعوذباللہ ا ساکل کا جزو ہے ۔ ایسے ہی اذا صلیتم علی المیت فاخلصوالہ الدعا میں نماز جنازہ ادا کرنا کل ہے اور دعا اس کل کا جزو ہے جو نماز جنازہ کے اند رہی ہو سکتی ہے ۔ اس مسئلہ کی تفہیم کیلئے درج ذیل امثلہ پر غور کریں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ( واذا قرء القران فاستمعو الہ وانتصوا ) اور جب قرآن مجید پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور چپ ہو جائے۔ اس آیت میں (قرء ) فعل ماضی ہے اور شرط ہے ( فاستمعوا ) امر ہے۔ اور یہ جزا ہے اس پر ف بھی داخل ہے تو مفتی صاحب کے مفروضہ کے مطابق اس کا ترجمہ یوں ہو گا کہ جب قرآن مجید پڑھ لیا جائے تو تم غور سے سنوا ور چپ رہو یعنی تلاوت پہلے ہو جائے اور سنا اسے بعد میں جائے۔ اسی طرح ( واذا قرت القران فاستعذ باللہ من الشیطین الرجیم) (میں مذکورہ بالا تمام باتیں موجود ہیں ) اس کا ترجمہ یوں مناسب ہوگا:'' جب تم قرآن مجید پڑھ لو تو ( اعوذ باللہ من الشیطین الرجیم) پڑھو ۔یعنی قرأت قرآن پہلے اور اعوذ باللہ بعد میں پڑھی جائے۔ اسی طرح ایک حدیث میں یوں آتا ہے کہ : (واذا لبستم فابدا وا بمیامنکم)جب تم لباس پہنو تو دائیں جانب سے شروع کرو اس قسم کی قرآن مجید میں اور احادیث میں بے شمار امثلہ موجود ہیں جن سے یہ بات بخوبی سمجھی جا سکتی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
میت پر دعا مانگنے کا نبوی طریق

س: کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ میں جو واثلہ بن اسقع کی روایت میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میت پر پڑھا ( اللھم فالن بن فلان ) الخ نبوی طریقہ کیا ہے کہ میت پر یہی الفاظ پڑھے جائیں جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا ؟
یا میت کا نام لے کر یہ دعا پڑھنی چاہئے ؟ اگر سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نام لے کر پڑھنا ہے توا س کا ثبوت کس کتاب میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میت کے نام لے کر دعا کی یا راوی نے غلطی سے فلان بن فلان کہا ہے ؟ اگر نام نہ لیا جائے یہ الفاظ دہرائیے جائیں تو کوئی حرج ہے ؟


ج: واثلہ بن اسقع کی روایت میں رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو یہ الفاظ آئے ہیں کہ اللھم ان فلان بن فلان فی دمتک فقہ عذاب القبر۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جنازہ میں یہ دعا میت کے نام لے کر پڑھنی چاہئے کیونکہ فلان بن فلان سے مراد ہی خاص شخص ہوتا ہے۔ صرف لفظ فلاں بن فلاں دہرا دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔
 
Top