• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آپ کے مسائل اور ان کا حل

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
ظہر کی سنتیں

س: کیا ظہر کی فرض نماز سے پہلے چار رکعات کی بجائے دو رکعت سنتیں پڑحی جا سکتی ہیں ؟ (وضاحت فرمائیں )

ج: ظہر کی نماز سے پہلے رسول اکرم چار رکعت پڑھتے اور کبھی دور کعت پڑھ لیتے۔ دونوں طرح رسول اللہ سے مروی ہے جیسا کہ صحیح بخاری باب الرکعتان قبل اظھر میں ہے۔
'' عبداللہ بن عمر سےمروی ہے کہ میں نے نبی اکرم سے دس رکعتیں یاد کی ہیں۔ دورکعات ظہر سے پہلے اور دو رکعات ظہر کے بعد اور دو رکعتیں مغرب کے بعد میں، اور دو رکعتیں عشاء کے بعد گھر میں اور دو رکعتیں صبح کی نماز سے پہلے '' (بخاری۲/۵۲، مسلم۷۲۹،١۱/۵۰۴)

سیدہ عائشہ سے مروی ہے : '' نبی اکرم ظہر سے پہلے چار رکعتیں نہیں چھوڑتے تھے '' (بخاری ۲/۵۲)

سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا رضی اللہ تعالی عنہا اور سیدنا ابن عرم رضی اللہ تعالی عنہ کی مذکورۃ الصدر دونوں احادیث میں کوئی تعارض نہیں ۔ حافظنا بن حجر عسلقانی ؒ فتح الباری میں فرماتے ہیں ۔
'' بہتر یہ ہے کہ ان احادیث کو دونوں حالتوں پر محول کیا جائے۔ آپ کبھی ظہر سے پہلے دور کعتیں پڑھتے تھے اور کبھی چار رعکات۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں چارر کعتیں پڑھا کرتے تھے اور مسجد میں دور کعتیں ''۔ (بحوالہ فقہ النسۃ ۱/۱۸۷، نیل الاطوار ۳/۱۸)

سیدناہ ابن عمر اور سیدنا ئشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے جیسا دیکھا ویسا بیان کر دیا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں چار رکعتیں پڑھنے کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے۔
'' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں ظہر سے پہلے چار رکعتیں ادا کرتے تھے ''۔ (مسلم ٧٣٠۵۰۴،۷۳۰۔ ابو داؤد۱۲۵۱)

مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص ظہر کی نماز سے قبل دو رکعتیں پڑحنا چاہئے تو وہ پڑھ سکتا ہے۔ اگر چار پڑھے تب بھی درست ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
نماز میں وسوسہ

س: میں جب نماز ادا کرنے کیلئے کھڑا ہوتا ہوں میرے ذہن میں مختلف قسم کے وسو پیدا ہوتے ہیں اور کئی امور جو مجھے بھولے ہوئے ہوتے ہیں، نماز میں یا دآتے ہیں۔ کیا ان وسوسوں پر اللہ کی طرف سے کوئی پکڑ تو نہیں ہو گی اور ان کو دور کرنے کا طریقہ شر یعت میں اگر کوئی ہے تو بتا دیں۔

ج: شیطان انسان کا ازلی دشمن ہےا ور اسے راہِ راست سے ہٹانے کیلئے مختلف اقسام کے وسوداس اور خطرات اس کے دل میں پیدا کرتا رہتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے :
'' اللہ تعالیٰ نے اس ( شیطان ) پر لعنت کی اور وہ کہنے لگا میں تیرے بندوں میں سے ایک معین حصہ ضرور لوں گا اور انہیں ضرور بہکاؤں گا اور امید دلاؤں گا اور ان کو یہ سکھلاؤں گا کہ جانور کے کان چیرا کریں اور انہیں حکم دو ں گا کہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کو بدل دیں اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر شیطان کو دوست بنائے وہ کھلے نقصان میں سر تا پا ڈوب گیا ''۔ (النساء ۱۱۸۔۱۱۹)

ان آیات کریمہ سے معلوم ہوا کہ شیطان انسان کو٣ ور غلانے کیلئے مختلف قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے اور انسان کو مختلف قسم کی آرزوئیں اور تمنائیں دلاتا ہے تاکہ انسان اپنے خالق و مالک اللہ وحدہ لا شریک کے بتلائے ہوئے صراط مستقیم سے اعراض کر بیٹھے۔ نماز ایک اہم ترین عبادت ہے۔ جب انسان نماز کی ادائیگی کیلئے کھڑا ہوتا ہے تو شیطان انسان کو مختلف اقسام کے وسوے ڈالتا ہے تاکہ یہ اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل ہو جائے۔ جب بھی انسان کو حالت نماز میں کوئی وسوسہ پیدا ہو تو اسے نماز ترک نہیں کرنی چاہئے بلکہ نماز جاری رکھنی چاہئے۔ انسان کے ذہن میں پیدا ہونے والے وسو سے اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دئیے ہیں ۔ اتنی دیر تک ان پر کوئی پکڑ اور مواخذہ نہیں جب تک کہ انسان ان وساوس پر عمل پیرا نہیں ہو جاتا یا ان وساوس کو زبان سے ادا نہیں کرتا۔
یعنی ذہن میں برے کلمات وغیرہ پیدا ہوئے اور انسان نے ان کلمات کو اپنی زبان پر جاری کر دیا تو مواخذہ ہوگا و گر نہ نہیں ۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
'' یقینا اللہ تعالیٰ نے میری امت سے وہ چیزیں معاف کر دی ہیں جن کے ذریعے ان کے سینوں میں وسوسہ پیدا ہوتا ہے جب تک ا ن پر عمل یا کلام نہیں کر لیا جاتا '' (متفق علیہ ِ مکشوۃ۱/۲۶، تحقیق الا لبانی رحمۃ اللہ )

لہٰذا جب نماز کی حالت میں وسوسہ پیدا ہو تو اس کی بناء پر نمازتوڑنی نہیں چاہئے بلکہ نماز جاری ر کھیں۔ ا س پر مواخذہ نہیں ہے بلکہ اس کے دور کرنے کا طریقہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے۔ سیدنا عثمان ابن ابی العاص رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا:
'' میں نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بے شک شیطان میے اور میری نماز و قرأ کے درمیان حائل ہو گای ہے اور وہ مجھ پر قرأ کو خلط ملط کرتا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ شیطان ہے جس کو خزب کہا جاتا ہے۔ جب توا س کو محسوس کر ے تو اس سے اللہ کی پناہ پکڑ ( یعنی اعوذب اللہ بڑھ ) میں نے اس پر عمل کیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے مجھ سے دور کر دیا '' (مسلم، مکشوۃ ۱/۲۹)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں اگر شیطان وسوسوں میں مبتلا کر دے تو اعوذباللہ پڑھ کر بائیں جانب تین بار پھوک ڈالیں ان شاء اللہ تعالیٰ وسوسہ دور ہو جائے گا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
نماز میں وسو سے

س: مجھے نماز ادا کرتے وقت اکثر خیالات اور وسو سے آتے رہتے ہیں ۔ کیا نماز کے اندر خیالات اور وسوسوں سے نماز باطل ہو جاتی ہے یا نہیں۔ ان خیالات کو دور کرنے کا مجھے کوئی وظیفہ بتائیں ۔

ج: نماز کے اند ر و٢سو سے اور خیالات کے آنے سے نماز باطل نہیں ہوتی جیسا کہ بخاری شریف میں باب من صلی بالناس فذکر جاجۃ فتخطاھم من عبقہ بن الحارث سے مروی ہے انہوں نے کہا :
'' میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے مدینہ میں عصر کی نماز ادا کی ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو جلدی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور لوگوں کی گر دنیں پھلانگتے ہوئے اپنی کسی بیوی کے حجرے کی طرف چلے گئے۔ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس جلدگی سے گھبرا گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے تو دیکھا کہ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم آپ کی جلدی پر متعجب ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے یا دآگیا کہ ہمارے گھر میں ایک سونے کی ایک ڈلی ہے۔ میں نے نا پسند کیا کہ وہ مجھ روک کر رکھے۔ میں نے اس کی تقسیم کا حکم دیا ہے۔
اس حدیث کے بعض طرق میں یہ الفاظ بھی ہیں ''۔ (بخاری ۱/۱۴۰)
'' مجھے نماز کی حالت میں یہ بات یاد آئی ''

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز کی حالت میں کسی چیز کی یاد آئے یا کوئی خیال آجائے توا س سے نماز باطل نہیں ہوتی ۔ اسی طرح مسند احمد صحیح مسلم میں سیدنا عثمان بن ابی العاص رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے :
'' سیدنا عثمان ابن ابی العاص نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، شیطان میرے اور میری نماز کے درمیان حائل ہو جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس شیطان کا نام خنزب ہے جب اس کا اکسانا محسوس کرو تو ( دوران نماز ) اعوذب اللہ پڑھو اور دائیوں طرف تین مرتبہ تھوکو۔ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ میں نے ایسا ہی کیا اور اللہ تعالیٰ نے شیطان کو مجھ سے دور کر دیا '' (مشکوۃ باب الوسوۃ١۱/۲۹، بتحقیق شیخ البانی رحمۃ اللہ)

سیدنا عمررضی اللہ تعالی عنہ نے کہا میں اپنا لشکر روانہ کرتا ہوں حالانکہ میں نماز میں ہوتا ہوں۔ ( نیل الا وطار ۲/۳۸۳)
یعنی بعض اوقات نماز کے دوران میرا خیال لشکر کی تیاری کی طرف پلٹ جاتاہے۔ اسی طرح ایک حدیث میں آتا ہے :
'' سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے میری امت سے وہ خیالات و ساوس جو ان کسے سینوں میں پیدا ہوتے ہیں ، معاف کر دئیے ہیں۔ جب تک ان خیالا ت کے ساتھ کلام نہ کر لیں یا انہیں عملی جامہ نہ پہنا لیں ''۔
(متفق علیہ مشکوٰۃ باب الوسوۃ ۱/۲۶)

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ شیطان نماز کے اندر وسو سے ڈالتا ہے اور جب کسی شخص کو نماز میں کوئی خیال آئے یا وسوسہ پیدا ہو تو وہ اعوذباللہ پڑھ کر بائیں جانب تین مرتبہ تھوکے۔ اللہ تعالیٰ اس سے یہ وسوسہ دور کر دے گا۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ وسوسہ اور خیال آجانے سے نماز باطل نہیں ہوتی ۔ انسان کو حالت نماز میں ان خیالات کو دور کر کے اپنی پوری توجہ نماز کی طرف مبذول کر دینی چاہئے تاکہ پورےا نہمک اور دھیان سے نماز ادا کی جائے اور اللہ تعالیٰ سے صحیح طور پر مناجات ہو البتہ جتنا دھیان نماز میں کم ہوتا ہے، اتنا ثوب کم ہو جاتا ہے جیسا کہ ابو داؤد اور نسائی اور ابن حبان میں عمار بن یاسررضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
نماز میں کپڑوں اور بالوں سے کھیلنا

س: کیا نماز کے اندر بالوں یا کپڑوں کا سنوارنا درست ہے ۔ بعض لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ نماز کی حالت میں کبھی اپنے سر کے بالوں کو چھیڑ رہے ہوتے ہیں اور کبھی ڈاڑھی کے بالوں کو ۔ کئی آستین چڑھاتے اور کئی اتار رہے ہوتے ہیں ۔ کیا نماز میں ایسے افعال کرنا درست ہے۔

ج: نماز کے اندر اطمینان و سکون کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیئے اور نماز کے ارکان کی ادائیگی کی طرف متوجہ رہنا چاہئے ۔ عام لوگوں کی جو عادت ہے کہ کبھی سر کے بالوں سے کھیلتے ہیں اور کبھی ڈاڑٰ ھی کے بالوں سے۔ نماز کے اندر ایسے افعال سے پرہیز کرنا چاہئے جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے :
'' نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے ساتھ اعضاء پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے ( او ریہ بھی حکم دیا گیاہے ) کہ نماز میں کپڑوں اور بالوں کو نہ سمیٹوں ''۔ (بخاری ۱/۱۳۵)
اس حدیث سے عملوم ہوا کہ نماز میں کپڑوں اور ابلوں سے کھیلنا اور انہیں سمیٹنا یہ درست نہیں ہے اس سے اجتناب کرنا چاہئے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
حالتِ نماز میں سلام کا جواب دینے کا طریقہ

س: اگر مسجد میں جماعت ہو رہی ہو اور تمام نمازی با جماعت نماز ادا کر رہے ہوں اور باہرسے آنے والا بلند آواز سے السلام علیکم کہے تو نمازیوں کو اس کا جواب کس طرح دینا چاہئے ؟قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔

ج: صورت مسؤلہ میں باہر سے آنے والا شخص جب سلام کہے تو نمازی اس کا جواب الفاظ سے نہ دیں کیونکہ نماز کی حالت میں کلام کرنا منع ہے بلکہ نماز ہاتھ کے اشارے سے جواب دے ۔ سیدنا عبداللہ بن عمرضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ :
'' میں نے بلال رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا کہ نبی کریم کو نماز کی حالت میں جب لوگ سلام کرتے ہیں تو آپ ان لوگوں کو جواب دیتے ہوئے رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے دیکھا ؟ سیدنا بلال رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے کہتے تھے اور اپنی ہتھیلی کو پھیلاتا '' (بلوغ الامرام مع سبل السلام ۱/۱۴۰)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حالت نماز میں سلام کا جواب ہاتھ کے اشارے سے دیتے تھے۔ زبان سے کلام نہیں فرماتے تھے ۔ امام محمد بن اسماعیل الصنعانی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ :
'' یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جب بھی کوئی آدمی کسی کو حالتِ نماز میں سلام کہے تو اس کا جواب ہاتھ کے اشارہ سے دے نہ کہ زبان سے بول کر '' ( سبل السلام ۱/۱۴۰)
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
نمازیوں کو سلام کرنا

س: جب نماز کی جماعت ہو رہی ہو تو مسجد میں داخل ہونے والا نمازیوں کو السلام علیکم کہہ سکتا ہے یا نہیں ۔قرآن و سنت کی روشنی میں جواب دیں۔

ج: نماز کی حالت میں سلام کرنا جائز ہے ۔ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم جب مسجد میں آتے تو سلام کہتے۔ اللہ کے رسول نماز میں ہوتے تو ہاتھ کے ساتھ اشارہ کر دیتے تھے۔ اس کی دلیل عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث ہے۔ کہتے ہیں '' میں نے بلال رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھ رہے ہوتے اور کوئی سلام کہہ دیتا تو کیسے جواب دیتے تھے ؟ بلال رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ اپنے ہاتھ سے اشارہ کر دیتے تھے۔ (الترمذی وقال حسن صحیح )
علامہ ناصر الدین الا لبانی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط پر ہے ۔ (مشکوۃ جلد۱، صفحہ۳۱۴)

یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ باہر سے مسجد میں داخل ہونے والا سلام کہہ سکتا ہے ۔ خواہ جماعت بھی ہو رہی ہو ۔ اگر یہ درست نہ ہو تا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خود ہاتھ کے اشارے سے جواب ہی نہ دیتے ، بلکہ اسے سے روک دیتے۔ جیسا کہ منہ سے جواب دینے سے روک دیا تھا عبداللہ بن مسعودرضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ ہم حبشہ جانے سے پہلے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہتے تھے تو نبی کریم نماز کے دوران ہی ہمیں جواب دے دیتے تھے۔ جب ہم حبشہ سے واپس آئے تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں مشغول ہیں۔ میں نے سلام کیا آپ نے جواب نہ دیا نماز کے بعد فرمایا:
'' کہ اللہ تعالیٰ اپنا جو حکم نیا دینا چاہتا ہے، دے دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے جو ایک نیا حکم دیا ہے وہ یہ کہ نماز میں کلام نہ کرو ''۔

ان احادیث رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوا کہ مسجد میں داخل ہونے والا سلام کہے اور نماز میں مشغول آدمی ہاتھ کے اشارے سے جواب دے ۔ منہ سے جواب دینا اس حالت میں درست نہیں ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
فرض نماز گھر میں پڑھنا کیسا ہے ؟

س: تندرست آدمی بغیر کسی شرعی عذر کے فرض نماز گھر میں پڑھ سکتا ہے جبکہ مسجد بھی اس کے گھر سے زیادہ دور نہ ہو ؟ قرآن سنت کی روشنی میں وضاحت کریں۔

ج: تندرست اور غیر معذور آدمی پر فرض نماز با جماعت کرنا ادا کرنا ضروری ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ( وارکعو ا مع الراکعین ) رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ یعنی نماز با جامعت ادا کرو ۔ یہ امر ہے او ریہاں امر ( حکم ) وجوب کیلئے ہے ۔ دارقطنی میں حدیث ہے، اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
'' جس شخص نے اذان سنی، پھر وہ بغیر کسی عذر کے مسجد میں نہ آیا، اس کی نماز ہی نہیں ''( مشکوۃ۱/۳۳۸)
علامہ ناصر الدین البانی فرماتے ہیں '' اسناد صحیح '' اس حدیث کی سند صحیح ہے ۔

صحیح مسلم میں ہے ایک نا بینا شخص اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اُ سنے کہا کوئی مجھے مسجد میں لانے والا نہیں ۔ گھر میں نماز ادا کرنے کی رخصت دے دیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رخصت دے دی ۔ جب وہ واپس پلٹا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تو اذان سنتا ہے؟ اُس نے کہا جی ہاں ! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( فا جب ) تو پھر قبول کر یعنی تیرا مسجد میں آنا لازمی ہے۔ اندازہ لگائیے کہ رسو ل اللہ نے ایک نا بینا شخص کو اذان سننے کے بعد اپنے گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی تو بینائی والے شخص کو بغیر شرعی عذر کے بھلا گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت کس طرح ہوگی ۔ صحیحین میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، میں نے ارادہ کیا کہ لکڑیاں اکٹھی کرنے کا حکم دوں۔ پھر اذان کہلاؤں اور ایک شخص کو نماز با جماعت پڑھانے کیلئے کھڑا کر کے ایسے لوگوں کی طرف جاؤں جو نماز با جماعت کیلئے حاضر نہیں ہوتے اور ان کو ان کے گھر سمیت جلا ڈالوں۔
یہ سخت وعید اس بات کی دلیل ہے کہ مسلمانوں پر با جماعت نماز ادا کرنا فرض ہے ۔ لیکن افسوس ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس کی کوئی اہمیت یہیں اور اذان سننے کے بعد اپنے کاموں میں ہی مشغول رہتے ہیں اور بہت سے ایسے بھی ہیں جو اپنے اپنے مقام پر ہی نماز پڑھ لینا کافی سمجھتے ہیں جبکہ بغیر شرعی عذر کے ایسے لوگوں کی نماز ہوتی ہی نہیں جیسا کہ احادیث سے معلوم ہوا ۔ واللہ تعالیٰ اعلم
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
ننگے سر نماز

س: ننگے سر مرد کی نماز ہو جاتی ہے یا نہیں ۔ میں نے مسعود بی ایس سی کا ایک پمفلٹ پڑھا، اس میں لکھا ہے کہ نبی کریم ؑنے نے کبھی ننگے سر نماز نہیں پڑھی اور جابر والی روایت ثابت ہی نہیں۔ برائے مہربانی قرآن اور حدیث کے مکمل دلائل سے وضاحت کریں۔

ج: نماز میں ستر ڈھانپنا واجب ہے اور کندھوں پر بھی کسی چیز کا ہونا ضروری ہے ۔ اس کے علاوہ کپڑے شریعت میں ضروری طور پر ثابت نہیں ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک کپڑے میں بھی نماز پڑھی ہے جیسا کہ سیدنا جابر سے مروی ہے ۔ ایک دن ایک کپڑے کو جسم پر لپیٹے نماز پڑھ رہے تھے جبکہ دوسرا کپڑا قریب رکھا ہوا تھا ۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو کسی نے کہا، آپ ایک ہی کپڑے میں نماز ادا کر رہے ہیں جبکہ دوسرا کپڑا آپ کے پاس موجود ہے ۔ انہوں نے کہا ہاں میں چاہتا ہوں کہ تہمارے جیسے جاہل مجھے دیکھ لیں۔ (رایت النبی صلی اللہ علیہ وسلم یصلی ھکذا )میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ (بخاری شریف، کتاب الصلویٰۃ باب الصلوٰۃ بغیر رداء )

بخاری شریف میں ہی ایک دوسری روایت میں ایک کپڑے میں نماز کی کیفیت بیان کی گئی ہے ( قد عقدہ من قبل قفاہ ) کپڑے کو اپنی گدی پر باندھا ہوا تھا۔ ( یعنی سر پر کچھ نہ تھا )
دوسری دلیل ؛ عمر ابن سلم بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ( یصلی فی ثوب واحد مشتملا بہ بیت ام سلمۃ واضعا طریفہ علی عاتقیہ ) اورمسلم شریف کی روایت میں متوشعا کے الفاظ ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کپڑے میں نماز پڑھ رہے تھے اس کے دونوں کنارے اپنے کندھوں پر باندھے ہوئے تھے ۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر وہ کپڑا نہ تھا۔
ہاں ! عورت کی نماز ننگے سر نہیں ہوتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔
'' بالغ عورت کی نماز ڈوپٹہ ( اوڑھنی ) کے بغیر نہیں ہوتی "
یہ حدیث بھی اس کا بین ثبوت ہے کہ مرد کی ننگے سر نماز ہو جاتی ہے اس کیلئے ایسا کپڑا ضروری نہیں ورنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہہ دیتے مرد اور عورت کی نماز ننگے سر نہیں ہوتی ۔
اب دلائل سے کوئی یہ مت سمجھے کہ ایک کپڑے میں نماز اسو قت درست تھی جب مسلمانوں کے پاس کپڑے کم تھے اور جب اللہ تعالیٰ نے وسعت دے دی تو سر ڈھانپنا واجب ہوگا۔ اس بات کی حقیقت معلوم کرنے کیلئے ہم امیر المومنین ابن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھتے ہیں کیونکہ وہ یقیناً ہم سے بڑھ کر شریعت کو سمجنے والے تھے ایسے ہی حالات میں کسی شخص نے ان سے ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کے بارے میں پوچھا تو سیدنا عمررضی اللہ تعالی عنہ نے ایک سے زیادہ کپڑوں کو شمار کر لیا مگر ان میں سر ڈھانپنے والے کپڑے کا نام ہی نہیں ۔
امیر المومنین رضی اللہ تعالی عنہ کو تو فراحی وسعت کے وقت بھی یہی سمجھ آئی کہ سر ڈھانپنا واجب نہیں ۔ اب ان احادیث صحیحہ مر فوعہ اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے فہم کو ترک کرکے اپنی عقل کو سامنے رکھنا ہر گز انصاف نہیں ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
مسجد میں عورتوں کا پروگرام

س: کیا مسجد میں عورتوں کا کوئی پروگرام یا جلسہ ہو سکتا ہے ؟ قرآن و حدیث کی رو سے جواب دیں ۔

ج: عورتیں اپنے پردے اور مسجد کے آداب شرعیہ کو ملحوظ رکھ کر مسجد میں آئیں تو ان کا روکنا درست نہیں ہے۔ اس کی دلیل عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
'' کہ جب تمہاری کوئی عورت مسجد میں جانے کی اجازت مانگے تو اسے مت روکو'' ( متفق علیہ )

دوسری دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
''اپنی عورتوں کو مسجد وں میں آنے سے نہ رکوکو اور ان کے گھر ان کیلئے بہترہیں '' ( راوہ ابو داؤد )

علامہ ناصر الدین البانی حفظہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ فرامین عام ہیں ۔ عورتیں خواہ نماز پڑھنے کیلئے آئیں یا تعلیم وتر بیت وعظ و نصیحت کیلئے ان کو روکنا درست نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ایسی کوئی دلیل نہیں ملتی کہ جس میں عورتیں نماز پڑھنے کیلئے تو مساجد میں آسکتی ہوں مگر وعظ نصیحت کیلئے انہیں آنے کی اجازت نہ ہو پھر یہ بات بھی یاد رہے کہ جو نص مردوں کے لئے مساجد میں اپنا جلسہ یا تبلیغی پروگرام کرنے کی دلیل ہے ، وہی عورتوں کی بھی دلیل ہے بشرطیکہ آداب مسجد کو ملحوظ رکھا جائے کوئی حائضہ یا نفاس والی عورت یا خوشبو لگا کر اور بے پردگی کے ساتھ عورتیں مسجد میں جائیں ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
قبروں والی مسجد میں نماز

س: وہ مساجد جن میں قربیں ہوں کیا ان مساجد میں نماز ہو جاتی ہے یا نہیں ؟ قرآن و سنت کی روشنی میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ دیتے ہوئے وضاحت کریں۔ ( اکرب علی ، رشیدہ پورہ لاہور )

ج: ایسی مساجد میں نماز نہیں پڑھنی چاہئے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر مساجد بنانے والوں کو معلون قرار دیا ہے اور قبروں پر مساجد بنانے سے قبروں پر اور قبروں کی طرف نماز ُڑھنے سےر وک دیا ہے ۔ جندن بن عبداللہ بھی کہتے ہیں میں نے اللہ کےر سول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پہلے ان سے سنا۔ انہوں نے کچھ باتیں ذکر کیں:
'' کہ جو تم سے پہلے تھے ( یہود و نصاری ٰ ) وہ اپنے ابنیاء اور ینک لوگوں کی قبروں کو مسجدیں بنا لیتے تھے خبر دار تم قبروں کو مسجد نہ بنانا میں تم کو اس سے منع کرتا ہوں ''۔ ( رواہ مسلم (۵۳۲) ابو داؤد )

ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا االلہ تعالیٰ یہودیوں اور عیسائیوں پر لعنت کرے انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا ۔ (بخاری (۳۹۰٠) مسلم (۵۲۹٩)

ان احادیث سے ثبات ہو اکہ قبروں پر مسجدیں بنانا حرام ہے کیونکہر سولا للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روک دیا ہے ۔ جب قربوں پر مسجدیں بنانے سے روک دیا گیا ہے تو ایسی مساجد میں نامز پڑھنی بالا ولی درست نہیں ہے کیونکہ یہ شریعت کا اول ہے کہ وسیلہ ( ذریعہ کی حرمت اس چیز کے حرام ہونے کاو ملتزم ہوتی ہے جو اس وسیلہ سے مقصود ہو مثلاً شریعت نے شراب کی خرید و فروخت کو حرام قرار دیا ہے اور اس حرمت کے اندرا س کے پینی کی حرمت بھی موجود ہے ۔ یہاں شراب کی خرید و فروخت وسیلہ ہے اور اس کامقصود شراب نوشی رکان ہے۔ اور یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ قربوں پر مساجد بنانا کا حرما ہونا یہ صرف مساجد کی ذات کی وجہ سے نہیں بلکہ امز کی وجہ سے ہے۔ جس طرح گھروں اور محلوں میں مساجد بنانے کا حکم صرف مساجد کی ذات کی وجہ سے نہیں بلکہ نماز کیلئے ہے۔ مساجد بنانے کا حکم کا مقصد صرف یہ نہیں کہ ہم مسجدیں بناتے جائیں اور ان میں کوئی بھی نماز پڑحنے کیلئے نہ آئے ۔ یہ بات آپ اس مثال سے سمجھیں کہ ایک شخص کسی غیر آباد جنگل میں مسجد بانتا ہے جہاں کوئی نہیں رہتا اور نہ کوئی نماز پڑھنے کیلئے آتا ہے تو ایسے شخص کو اس مسجد بنانے کا کوئی ثوا ب نہیں ہوگا بلکہ ممکن ہے وہ گنہگار ہو کیونکہ اُس نے مال کو ایسی جگہ پر صرف کیا ہے جہاں سے کوئی بھی فائدہ نہیں پہنچتا ۔اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ جس طرح شریعت نے مساجد بنانے کا حکم دیا ہے تو ضمناً ان میں نماز پڑھنے کا حکم بھی دیا ہے ( کیونکہ مسجد بنانے کا مقصد نماز ادا کرنا ہی تو ہوتا ہے ) اسی رح جب شرعیت نے قربوں پر مسجدیں بنانے سے روکا ہے تو ضمناً ایسی مسجدوں میں نماز پڑھنے سے بھی روک اہے اور یہ بات کسی بھی عقلمند آدمی سے مخفی نہیں ۔ اس لئے امام احمد بن جنبل رحمۃ اللہ نے ایسی مساجد میں ادا کی گئی نماز کو باطل قرار دیا ہے لیکن مسجد نبوی اس حکم سے متشنی ٰہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نا لے کر اس کی فضیلت بیان کی ہے جو دوسری قبروں پر بنی ہوئی مسجدوں میں نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں راس مسجد میں نماز دوسری مساجد کی ہزار نمازوں سے بہتر ہے سوائے مسجد الحرام اور مسجد نبوی میں روضۃ من ریاض الجنۃ بھی ہے ۔ جس طرح بیت اللہ ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کیا اس کی فضیلت اللہ تعالیٰ کی طرف سے معلوم تھی بعد میں مشرکین نے بت رکھ دئیے مگر رول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہواں نماز پڑھتے تھے اگر مسجد نبوی میں نامز کو فاسد اور اندر ست قرار دے دیں تو مسجد نبوی کی فضیلت کو ختم کر کے دوسری مساجد کے برابر قرار دینے کے مترادف ہو گا جو کسی لحاظ سے بھی جائز نہیں پھر یہ بھی یاد رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مسجد اپنے اور مسلمانوں کیلئے بنائی تھی جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی جبکہ قربیں ولید بن عبدالمالک کے دور میں داخل کی گئی ہیں اس وقت مدینہ رالرسول میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہرضی اللہ تعالی عنہ میں سے کوئی بھی موجود نہیں تھا ۔ پھر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پیچھے نماز پڑھنے سے بچنا چاہئے ( واللہ تعالیٰ اعلم)
 
Top