• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آپ کے مسائل اور ان کا حل

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
قبر پر سورۃ بقرہ وغیرہ پڑھنا

س: اس مسئلہ کی کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں کہ حدیث میں آتا ہے ؟
اس حدیث کی وضاحت کریں کہ کیا یہ پڑھنا کسی صریح مرفوع حدیث سے ثابت ہے جبکہ دوسری طرف نبی کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبرپر قرآن پڑھنے سے منع کیا کہ قبروں کو عبادت گاہ نہ بنایا جائے اور ایک حدیث میں آتا ہے کہ گھروں میں سورة بقرة پڑھا کرو او رانہیں قبریں نہ بناؤں۔ برائے مہربانی اس کی وضاحت فرمائیں آپ کا شکریہ ۔

ج: آپ نے عبداللہ بن عمر کی جو روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا :'' جب تم میں سے کوئی شخص فوت ہو جائے تو اسے روک کر نہ رکھو اور اس کی قبر کی طرف جلدی لے جاؤ اور اس کے سر کے پاس سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات پڑھی جائیں اور اسکے پائوں کے پا س سورہ بقرہ کی آخیر آیات پڑھی جائیں۔ا س روایت کی وجہ سے یہ رواج عام پایا جاتا ہے کہ میت کی قبر پر آیات پڑھی جاتی ہیں۔ کئی اہل حدیث حضرات بھی ا س پر عمل کرتے ہیں حالانکہ روایت کے ساتھ لکھا ہے کہ اسے بیہقی نے شعیب الایمان میں رویات کیا ہے صحیح بات یہ ہے کہ عبداللہ بن عمر پر موقوف ہے یعنی ان کا اپنا قول ہے ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں ) ۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ روایت نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے نہ عبداللہ بن عمر سے ۔ شیخ ناصر الدین البانی نے مشکوة کی تعلیق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب روایت کے متعلق لکھا ہے کہ اسے بیہقی کے علاوہ طبرانی نے معجم کبیر (۳/۲۰۸/۲) میں اور خلال نے کتاب القرائت عندالقبور (ق۲۵/۲) میں بہت ہی ضعیف سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ا س میں ایک راوی یحیی بن عبداللہ بن ضحاک بابلتی ہے جو ضعیف ہے۔ اسے ایوب بن نہیک سے روایت کیا ہے جسے ابو خاتم وغیرہ نے ضعیف کہا ہے اور ازدی نے کہا کہ وہ متروک ہے ۔
مشکوة میں شعیب الا یمان سے بہیقی کا قول جو نقل کیا ہے کہ :'' صحیح بات یہ ہے کہ یہ ابن عمر پر موقوف ہے '' تو شعیب الایمان میں مجھے بیہقی کے یہ الفاظ نہیں ملے۔ انہوں نے مروع روایت نقل کرنے کے بعد فرمایا ہے :
'' دیکھئے شعیب الایمان حدیث۹۲۹۴ یعنی یہ مر فوع روایت میرے علم کے مطابق صرف اسی سند میں آتی ہے اور اس میں مذکور (سورہ بقرة کی آیات کی ) قرأت ہمیں عبداللہ بن عمر سے موقوفاً روایت کی گئی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ بیہقی نے ابن عمر کی موقوف روایت کو صحیح نہیں کہا بلکہ صر ف یہ ذکر کیا ہے کہ عبداللہ بن عمر سے موقوفاً یہ روایت آتی ہے ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
قبرستان میں قرآن پڑھنے کا حکم

قبرستان میں قرآن مجید پڑھنے کا سنت سے کوئی ثبوت نہیں ہے مثلاً سیدہ عائشہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں قبرستان والوں کیلئے کیا کہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم کہا کر و:
رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر صرف سلام اور دعا ہی سکھائی ہے۔ قرآن مجید کا کوئی حصہ پڑھنے کی تعلیم نہیں دی ۔ا گر وہاں قرآن پڑھنا جائز ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی نہ چھپاتے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو کچھ بتایا ہو تا تو ہم تک بھی ضرور پہنچ جاتا مگر یہ کسی صحیح سند سے ثابت نہیں ہے۔
اسکی مزید تاکیدر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے ہوتی ہے کہ :
'' آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے گھروں کو قبریں نہ بنائوں پس بیشک شیطان اس کے گھر سے بھاگتا ہے جس پر سورہ بقرہ پڑھی جائے''
معلوم ہوا کہ قبرستان سورہ بقرہ پڑھنے کی جگہ نہیں ہے۔ یہ حدیث اس طرح ہے جس طرح دوسری حدیث میں فرمایا :
'' اپنے گھروں میں نماز پڑھو اور انہیں قبریں نہ بنائو '' (صحیح مسلم ، کتاب صلاة المسافرین و قصر ھا باب استحباب صلاة النافلة فی بیتہ و جواز ھا فی المسجد )
اس سے معلوم ہو اکہ جس طرح قبرستان میں نماز پڑھنا جائز نہیں ۔ا سی طرح قبرستان میں قرآن مجید پڑھنا درست نہیں ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
قبروں پر مساجد تعمیر کرنا اور انہیں پختہ بنانا

س: قبروں پر مساجد، قبے، گنبد بنانا اور انہیں پختہ کرنے کے متعلق وضاحت کریں کہ قرآن و سنت میں اس کا کیا حکم ہے ؟

ج: قبروں پر مساجد تعمیر کرنا اور انہیں گنبد بنانا اور انہیں پخہ کرنا ازروائے شرعیت ممنوع و حرام ہے۔ قبروں کو مسجد بنانے کا معنی یہ ہے کہ قبروں کو سجدہ کرنا یا قبروں کی طرف منہ کر کے عبادت کرنا انہیں قبلہ سمجھنا ہے امام ابن حجر ہیثمی اپنی کتاب الزواجر عن اقتراف الکبائر۱/۲۴۶ پر لکھا ہے کہ قبر کو مسجد بنانے کا معنی یہ ہے کہ اس پر نما ز پڑھنا یا اس کو قبلہ بنا کر اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا ہے۔ اس معنی کی تائید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی کرتا ہے کہ طبرانی کبیر۳/۱۴۵/۲'' نہ قبر کو قبلہ بنا کر نماز پڑھو اور نہ قبر پر نماز پڑھو ''۔ یہود و نصاریٰ میں سے اگر کوئی نیک آمدی مر جاتا ہے تو وہ لوگ ا س کی قبر پر عمارتیں تعمیر کر کے ایک اور مساجد بنا کر عبادت کرتے تھے اور اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری ایام میں فرمایا کہ :
'' اللہ تعالیٰ یہودیوں اور عیسائیوں پر لعنت کرے کہ انہوں نے انبیاء کی قبروں کو مسجدیں بنایا۔ سیدہ عائشہ نے کہا کہ اس خطرہ سے کہیں آپ کی قبر کو مسجد کی شکل نہ دی جائے آپ کی قبر کھلی فضا میں نہ بنائی گئی ''۔ ( بخاری۳/۱۵۶،۱۹۸۔۸/۱۱۴، مسلم۲/۲۷، مسند احمد ،۶/۶۵۵،۱۲۱،۸۰)

اس طرح ایک حدیث میں آتا ہے کہ :
'' جب ان ( یہودیوں اور عیسائیوں میں سے کوئی نیک آدمی فوت ہو جاتا ہے تویہ لوگ اس کی قبر پر مسجد بنا لیتے تھے اس کے بعد نیک لوگوں کی تصویریں بنا کر اس میں لٹکا دیتے تھے یہی وہ لوگ ہیں جو قیامت کے دن اللہ کے ہاں بد ترین مخلوق سمجھے جائیں گے ۔''
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ علماء ، صلحا، شہداء اور نیک لوگوں کی قبروں پر مسجدیں تعمیر کرنا یہود و نصاریٰ کا کام ہے ۔
اور جو لوگ بزرگوں کی قربوں پر مساجد تعمیر کر کے وہاں عبادت کرتے ہیں ان کے تقرب کے صحول کیلئے نذ رو نیاز تقسیم کرتے ہیں ۔ انہی مشکل کشا و حاجد روا سمجھتے ہیں یہ لوگ قیامت کے دن اللہ کے ہاں بد ترین مخلوق ٹھریں گے۔
قبروں کو پٹخہ بنانے اور ان پر گنبد تعمیر کے کے بار ے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث ہے جسے سیدنا جابر روایت کرتے ہیں کہ:
'' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کو پختہ کرنے اور اس پر بیٹھنے اور اس پر عمارت تعمیر کرنے سے منع فرمایا ہے ( مسلم۳/۶۲(۹۸۰) ترمذی۲/۱۵۵، مسند احمد ۳۳۹،۳/۳۳۹، شرح السنہ۵/۴۰۵، ابو دائود۳/۲۱۶)
مذکورہ بالا احادیث میں صراحتاً قبروں کو مساجد بنانے اور انہیں پختہ کرنے کی نہی و ممانعت مذکور ہے اور نہی اصلاً تحریم پر دلالت کرتی ہے لہٰذا قبروں پر گبند بنانا انہیں پختہ کرنا اور سجدہ گا بناناا زروئے شرعیت حرام و ممنوع ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
قبر کی اونچائی کی حد

س: میں نے ایک حدیث کافی مرتبہ پڑی ہے کہ قبر زمین کی برابر ہونی چاہئے جبکہ ہمارے پورے ملک میں تمام قبریں زمین کے اوپر بنی ہوئی ہیں۔ اس سلسلے میں میری ر ہنمائی فرمائیں ۔

ج: ہمارے علم میں کوئی ایسی حدیث نہیں جس میں یہ حکم ہوا کہ قبر زمین کے برابر ہونی چاہئے۔ شاید آپ کی مراد صحیح مسلم کی وہ حدیث ہو جس میں ابو الیہاج اسدی بیان فرماتے ہیں کہ مجھے علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا میں تمیں اس کام پر نہ بھیجوں جس پر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا وہ یہ ہے کہ جو تصویر دیکھو، اسے مٹا دو اور جو اونچھی قبر دیکھو اسے برابر کر دو '' مگر اس کامطلب یہ ہے کہ اونچی قبر کو دوسری قبروں کے برابر کر دو۔ یہ نہیں کہ زمین کے برابر کردو کیونکہ اگر قبر زمین کے برابر بنائی جائے تو ظاہر ہے قبر کا نشان باقی ہی نہیں رہے گا۔ پھر قبروں کی زیارت جس کی تلقین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے، کیسے کی جائے گی ؟ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر زمین سے تقریباً ایک بالش انوچی بنائی گئی ہے۔ چنانچہ صحیح ابن حبان میں ہے : جابر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے لحد ( جو ایک طرف بنائی گئی ہے) بنائی گئی اسپر کچھ کچھی اینٹیں نصب کی گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مزین سے تقریبا ً ایک بالش بلند کی گئی ۔ (حدیث ۲۱۶۰)
اس لئے مسنون طریقہ یہ ہے کہ قبر سے نکلنے والی ہی مٹی اوپر ڈلای جائے۔
اس کو ہان نما بنائی جائے اور مزید مٹی لا کر اسے اونچا نہ کیا جائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
میت کے لئے اظہار غم کی غیر شرعی شکلیں

س: زید اہلحدیث تھا وہ فوت ہوگیا ۔ اس کی اولاد نہ اہل حدیث ہے نہ ہی بریلوی۔ اس کے علاوہ دوسرے تمام رشتہ دار بریلوی ہیں جو کہ زید کی وفات پر تیسرے دن قل کرانا چاہتے تھے۔ چونکہ زید کے بیٹے کچھ نہ کچھ اہل حدیثوں والا ذہن رکتھے تھے۔ اسلئے وہ قل، ساتے ، چالیسویں وغیرہ کو نا جائز سمجھتے ہیں ۔ انہوں نے تیسرے دن بجاے قل کروانے کے ایک پروگرام بنایا جس میں ایک اہلحدٰث عالم دین کو بلا کر تقریباً ایک گھنٹہ تقریر کروائی اور بعد میں آنے والے مہمانوں کو کھانا کھلایا۔ جس پر کسی قسم کا ختم وغیرہ نہیں دیا گیا تھا ۔ کیا دعوت دین کی غرض سے ایسا کرنا عالم کیلئے یا ورثاء کیلئے جائز ہے؟ کیا ایسی ہی دعوت کی غرض سے کوئی پکا اہلحدیث یا غیر اہلحدیث اس قسم کا پروگرام کروا سکتا ہے ؟

ج: مرنے والے پر نوح خوانی جاہلیت کا عمل ہے۔ صحیح مسلم میں ابو مالک اشعری سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں چار چیزیں جاہلیت کے کاموں میں سے ہیں جنہیں وہ نہیں چھوڑیں گے۔ ان میں سے ایک چیز نیاحۃ ( بین کرنا ) شمار فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نوح کرنے والی موت سے پہلے توبہ نہ کرے تو قیامت کیا دن اس حال میں کھڑی کی جائے گی کہ اس پر گندھک کی قمیض اور خارش کا کرتہ وہ گا۔
نوحہ ایک شکل یہ بھی کہ میت کے دفن کے بعد میت کے گھر میں اجتماع کیا جائے اور کھانا تیار کیا جائے۔ مسند احمد میں جریر بن عبداللہ الجبلی سے روایت ہے فرماتے ہیں :
'' یعنی ہم ( صحابہ کرام ) میت کے گھر والوں کی طرف اکٹھ کرنا اور کھانا تیار کرنا نوحہ میں شمار کرتے تھے "(نیل الوطار ، ص۹۷، ج۴)

اس حدیث کی سند صحیح ہے اور اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک جلیل القدر صحابی سے صراحت آئی ہے کہ صحابہ کرام اس قسم کے اجتماع اور کھانا تیار کرنے کو نوحہ ( بین کرنا ) شمار کرتے تھے۔ کیونکہ یہ بھی اظہارِ غم کی ایک مذموم صورت ہے جس میں اہل میت پر بے جا بوجھ ڈالاجاتا ہے ۔ کھانا تیار کرنے کی ناروا مشقت ڈالی جاتی ہے اور بلا ضرورت تمام کام چھوڑ کر اکھٹے ہونے کا بے جا اہتمام کیا جاتا ہے۔ غیر مسلموں کو دیکھا دیکھی بر سی منانے کا سلسلہ بھی اظہار غم کی ایک ایسی ہی صورت ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں بلکہ صحابہ کرام بلکہ خالص کفار کی رسم ہے۔ کفار کی کئی اور رسمیں مثلا تیجا ، ساتواں، دسواں، چالیسواں بھی مسلمانوں میں داخل ہو گئی ہیں۔ نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ جو شخص ان رسوم میں حاضر نہ ہو اسے مطعون کیا جاتا ہے کہ اسے مرنے والے کا کوئی غم اور صدمہ نہیں ۔ چنانچہ ملامت کے خوف سے مجبوراً لوگ ان رسموں میں پہنچتے ہیں ۔
بعض لوگ نے تو میت کے گرھا س قسم کے اجتماعات مثلاً تیجے، ساتویں، دسویں، چالیسویں اور برسی کو دین ہی بنا لیا ہے۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ ان دنوں میں اس طریقے سے اکٹھ کرنا، کھانا پکانا، مولوی صاحب کا اس پر ختم پڑھنا، نوحہ کی ایک صورت ہونے کے علاوہ ہندؤن کی نقالی ہے۔ اور ان دنوں میں وہ بھی اکٹھ کرتے اور کھانا تیار کرتے ہیں جس پر ان کی پنڈت با قاعدہ اپنی کتاب پڑتھے ہیں ۔ ان حضرات کا علماء بھی ان کاموں کو کار ثواب قرار دینے کیلئے دلائل گھڑتے رہتے ہں کیونکہ عوامی دین اختیار کرلینے کی وجہ سے ان کا کام یہ نہیں کہ قرآن و سنت کے ساتھ لوگوں نے جو رسوم اختیار کر لی ہیں ، انہیں قرآن و سنت سے ثابت کریں۔ خواہ ان کا قرآن و سنت سے دور کا تعلق بھی نہ ہو ۔
یہ قبیح بدعت ہے ۔ اس مسئلہ پر ائمہ اربعہ اور اور دیگر محدثین کا اتفاق ہے جیسا کہ الفتاح الربانی۸/۹۰ میں مرقوم ہے۔

البتہ جو مہمان دور دراز سے تعزیت کیلئے آتے ہیں ان کیلئے کھانے کا بندوسبت کرنا درست ہے کیونکہ وہ اہل میت کے طعام کے ضمن میں ہی آتے ہیں ۔
اور ہمارے ہاں جو براردری سسٹم رائج ہے اس میں یہ خرابی ہے کہ یہ کھانا عوض و معاوضہ بن چکا ہے اور جتنی دیر تک اس کھانے کا عوض نہ دیا جائے اتنی دیر تک برادری والے اس کو قرض سمجھتے ہیں ۔ ہمیں یہ خرابی دور کر کے صحیح سنت کے مطابق کام کرنا چاہئے اللہ تعالیٰ توفیق دے۔ آمین
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
مرنے کے بعد میت کو کن کاموں سے اجر ملتا ہے ؟

س: مرنے کے بعد انسان کو کن چیزوں کا ثواب جاتا ہے ۔ جو آج کل رواج بن چکا ہے گھروں میں سپارے دئیے جاتے ہیں پڑھانے کیلئے اور پھر ان سپاروں کا ثواب مردے کو دیا جاتا ہے ۔ پھر روٹی بھی کپڑے بھی ۔ گویا مردے کے نام کے دئیے جاتے ہیں ثواب کیلئے ۔ میں ایک بات بتاؤں کہ جناب میری دادی بھی اہل حدیث ہے اس کا بڑا بیٹا فوت ہو چکا ہے اس کو فوت ہوئے۳سال ہو گئے ہیں لیکن آج تک اس کے نام کی روٹی اور کپڑے وغیرہ دیتی ہے اگر میں منع کروں تو میرے والد صاحب مجھے سختی سے سے ڈانٹتے ہیں بلکہ یہ کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد ہر چیز مردے کو جاتی ہے۔ اگر تم نے کسی کو کہا کہ کچھ نہیں جاتا تو میں تمہیں مار دوں گا۔ قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں ان سب چیزوں کا ثواب مردے کو جاتا ہے؟

ج: جواب پڑھنے سے پہلے یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ عبادات میں معتبر وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور صحابہ کے طریقہ کے مطابق ہو ۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبوں میں یہ پڑھا کرتے تھے :
'' یقینا بہترین حدیث اللہ کی کتاب ہے اور بہترین ہدایت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ہے اور معاملات میں سے برے ( دین میں ) نئے ایجاد کردہ ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے ''۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے :
'' میری امت میں سے بہتر زمانہ میرا ہے اور پھر جو ان کے بعد آئیں ا ور پھر جو ان کے بعد ہے ( یعنی صحابہ اور تابعین ) '' (متفق علیہ مشکوۃ باب مناقب الصحابہ)

ابن مسعود فرمایا کرتے تھے :
'' تم میں سے جو کوئی کسی طریقے کو اخیتار کرنے والا ہے وہ ان کے طریقے کو اختیار کرے جو فوت ہو چکے ہیں کیونکہ زندوں سے فتنہ کا خوف رہتا ہے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ تھے جو اس امت میں سب سے افضل۔۔۔۔۔ ان کی فضیلت کو پہچانو اور ان کے آثار کی پیروی کرو اور اپنی استطاعت کے مطابق ان کی سیرت اور اخلاق کو اپناؤ وہ بالکل سیدھے راستے پرتھے ''۔ (مشکوة ، کتاب الاعتصام۱/۳۲)

جو جچیز دلائل سے ثبا تہے اور ان قرون مفضلہ میں موجد تھی ویہ ہے کہ انان جب دنیا سے فوت ہو جاتا ہے تو ایس کیا عمال کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے جیسا کہ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
'' کہ جب آدمی فوت ہو جاتاہے توا سکے عملوں کا سلسلہ خمت ہوجاتا ہے ''

اب کیا مرنے کے بعد کسی دوسرے کے عمل یا اپنے بعض کئے ہوئے عملوں کا ثواب اسے پہنچتا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ میت زندہ افراد کی کوشش اور محنت پر دو وجوہات سے مستفیدہوتی ہے۔ پہلی وجہ وہ ہے جس کا سبب یہ اپنی زندگی میں بن گیا تھا اور اہل سنت کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
'' کہ جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو اس کے اعمال اس سے منقطع ہو جاتے ہیں ( یعنی کسی کا ثواب اسے نہیں ملتا ) مگر تین چیزیں ہیں ( جن کا ثواب مرنے کے بعد بھی ملتا ہرتا ہے ) ایک صدقہ جاریہ ، دوسری نیک اولاد ہے جو اس کے لئے دعا کرتی رہیں اور تیسری چیز عمل ہے جس سے لوگ اس کے جانے کے بعد فائدہ اٹھا رہے ہیں ''۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے معلوم ہوتا ہے کہ مرنے والا اگر ان میں کوئی چیز چھوڑ جاتا ہے تو اسے مرنے کے بعد بھی فائدہ پہنچتا رہتا ہے ۔ جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں سلمان فارسی فرماتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے:
'' ایک دن اور ایک رات اللہ تعالیٰ کے راستے ( جہاد فی سبیل اللہ ) میں پہرہ دینا ایک مہینے کے روزے اور راتوں کو قیام کرنے سے افضل ہے اور اگر وہ شخص اسی حالت میں فوت ہو جاتا ہے تو اس کیلئے اس کے وہ سارے عمل جاری رکھے جائیں گے جو اس حال میں وہ کرتا تھا ۔ یعنی جتنے عمل وہ کرتا تھا سب کا اجر اور ثواب اس کے مرنے کے بعد بھی ا سی طرح اس کو ملتا رہے گا ''۔

ایک اور روایت میں یہ لفظ ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
'' مرنے کے بعد انسان سے ہر عمل کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کے راستے میں پہر ہ دینے والا ، اس کے عمل اس کیلئے قیامت تک بڑھائے جاتے ہں ( یعنی قیامت تک اسے ان اعمال کا اجر ملتا رہے گا )''

دوسری وجہ جس سے مرنے والے کو فائدہ پہنچتا ہے وہ ہے دوسرے مسلمان کا ان کیلئے دعا کرنا ان کی طرف حج اور صدقہ خیرات کرانا اسی طرح ان کیلئے استغفار کرنا ان چیزوں سے بھی میت مستفید ہوتی ہے کیونکہ ان سب چیزوں کے دلائل قرآن و حدیث میں موجود ہیں ۔ا ستغفار کی دلیل اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
'' اور وہ لوگ جو ان ( اہل ایمان) کے بعد آئے ( دنیا میں وہ ایمان کی حالت میں ) کہتے ہیں ( دعا کرتے ہوئے ) اے اللہ ! ہمیں بھی بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جوا یمان کی حالت میں ( تیرے پاس ) ہم سے پہلے پہنچ چکے ہیں ''۔(الحشر)
اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہے۔ ابو ہریرہ فرماتے ہیں ۔
'' کہ جس دن حبشہ کا حاکم نجاشی فوت ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس کی موت کی خبر سنائی اور کہا اپنے بھائی کیلئے بخشش طلب کرو''
اس آیت کریمہ اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم ہوا کہ استغفار سے میت مستفید ہوتی ہے۔ دعا کی دلیل نماز جنازہ کی عام احادیث اور اس طرح جو قبروں کی زیارت کی احادیث ہیں سب اس چیز پر دال ہیں ۔ عبداللہ ابن عباس فرماتے ہیں :
'' کوئی مسلمان آدمی فوت ہو جاتا ہے تو اس پر چالیس آدمی نماز جنازہ پڑھیں جو اللہ کے ساتھ شکر کرنے والے نہ ہوں تو اللہ ان کی سفارش ( دعا ) کو اس کے بارے میں قوبل کر لیتا ہے ''

اور جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب قبرستان جاتے تو یہ دعا پڑھتے :
'' ان گھروں ( قبروں ) میں رہنےو الے مومون! اور مسلمانوں ! تم پر سلامتی ہو اللہ تعالیٰ تمہارے پہلے آنے اور بعد میں آنے والوں پر رحم کرے ۔ یقیناً ہم بھی اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو تمہارے ساتھ ملنے والے ہیں ''۔

ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:
'' میں اللہ سے تمہارے لیے اور اپنے لیئے عافیت کا سوال کرتا ہوں ''۔
رحم کی دعا اور عافیت کا سوال کران اس بات کی دلیل ہے کہ میت اس لئے مستفید ہوتی ہے ۔
صدقے کی دلیل : صحیح بخاری میں سیدہ عاشہ کی حدیث ہے کہ
'' نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا کہ میری والدہ اچانک فوت ہو گئی اور اُس نے کوئی وصیت نہیں کی ۔ میرا خیال ہے اگر وہ مرتے وقت بات کرسکتی تو صدقہ ضرور کرتی ۔ کیا میں اس کی طرف سے صدقہ کرو ؟ اور کیاا اُسے اس پر اجر ملے گا ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں !'' (صحیح بخاری و مسلم )

اسی طرح صحیح بخاری میں ہے کہ سعد بن عبادہ کی والدہ وفات پا گئیں اور وہ وہاں موجود نہیں تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہنے لگے۔
'' کہ میری والد فوت ہو گئی اور میں وہاں موجود نہیں تھا۔ اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کر دوں تو اسے اس صدقہ کا نفع پہنچے گا ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں !''

فرض روزہ کا ثواب بھی میت کو پہنچتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
'' کہ جو شخص فوت ہو گا اور اس کے ذمے روزے تھے اس کا ولی اس کی طر ف سے روزے رکھے ''

حج کی لدیل : ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میری والدہ نے حج کی نذر مانی تھی لیکن حج رکنے سے پہلے فوت ہو گئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
'' کہ مجھے بتاؤ اگر تمہاری والدہ کا کسی پر قرض ہوتا تو اس قرض کو ادا کرتی ؟ اس نے کہاں ضرور کرتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر اللہ تعالیٰ زیادہ حق رکھتا ہے اس کا قرض ادا کیا جائے ''۔ (بخاری )

یہ چند چیزیں ہیں جو شریعت سے ثابت ہیں کہ میت کے مرنے کے بعد ان سے فائدہ پہنچتا ہے ان کے علاوہ دوسری اشیاء لوگوں نے ایجا کر رکھیں ہے۔ قل ، تیجا، ساتواں ، چالیسواں وغیرہ ان کی شریعت میں کوئی دلیل نہیں اور یہ سب کام بدعت کے زمرہ میں ہیں۔ اگر ان چیزوں کا ثواب بھی میت کو پہنچتا ہوتا اور یہ میت کیلئے مفید ہوتیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بیان کر دیتے اور صحابہ کرام ضرور اس پر عمل کرتے لیکن یہ چیزیں نہ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں اور نہ صحابہ کرام سے کسی نے ان کو اخیتار کیاتھا بلکہ یہ چیزیں تو ہندو اور دوسری غیر مسلم قوموں سے مسلمانوں میں آگئی ہیں ۔
باقی رہا قرآن مجید پڑھ کر اس کا ثواب میت کو بخشا تو اس بارہ میں بعض علماء کی رائے ہے کہ اس یں کوئی حرج نہیں لیکن شرعاً کسی صریح اور مروع حدیث سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ قرآن پڑھنے کا ثواب میت کو پہنچتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہ چیزیں موجود نہیں تھیں اور نہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خیر القرون میں یعنی صحابہ اور تابعین میں میں اس کا کوئی رواج تھا۔ اگ ریہ اچھا کام ہوتا تو صحابہ کرام اسے ضرور بالضرور سر انجام د یتے اوریہ بات مسلم ہے کہ اللہ تعالیٰ کا تقرب صرف ان اعمال سے حاصل ہو سکتا ہے جو قرآن و سنت سے ثابت ہیں قیاس اور آراء کو اس جگہ دخل نہیں کیونکہ یہ تو قیقی امر ہے۔ علامہ عز بن عبدالسلام فرماتے ہیں :
'' کہ جس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا کوئی کام کیا پھر اس کا ثواب میت یا زندہ کو دے دیا اللہ کی اطاعت کا ثواب اسے ہر گز نہیں پہنچے گا کیونکہ قرآن میں ہے کہ انسان کیلئے صرف وہی چیز ہے جس کی اُس نے کوشش کی ۔ اگر کسی اطاعت کی ابتداء اس نیت پر کی کہ اس کا ثواب فلاں میت کو مل جائے تو یہ میت کی طرف سے واقع ہی نہیں ہوگی ۔ ہاں ہو چیز یں جن کو شریعت سے مستثنی قرار دیا ہے جیسے صدقہ ، روزہ، حج ، دعا، استغفار وغیرہ ( ان کا ثواب ) اور قرأت قرآن کو کہیں بھی متشنیٰ نہیں کیا '' ( احکام الجنائر ، ص ۱۷۴)
شیخ الاسلام ابن تیمہ فرماتے ہیں :

'' سلف کی یہ عاد تھی کہ وہ نفلی نماز پڑھنے روزہ رکھنے اور قرآن کی تلاوت کرنے کے بعد اس کا ثواب میت کو پہنچاتے ہو ں وہ تو ان کیلئے دعا کرتے اور بخشش مانگتے تھے لوگوں کے لائق نہیں کہ وہ سلف کا طریقہ چھوڑ دیں کیونکہ یہی طریقہ افضل اور زیادہ کامل ہے ۔''
بعض علم سے کورے لوگ قرآن خوانی کے جواز کیلئے ایک حدیث پیش کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
حالانکہ یہ حدیث سند کے اعتبار سے ثابت ہی نہیں ہے۔ اس کی سند میں ایک راوی ابو عثمان اپنے باپ سے بیان کرتا ہے اور یہ باپ بیٹادونوں ہی مجہول راوی ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ حدیث موقوف اور مضطرب بھی ہے۔ پھر آج کل لوگوں نے جو رواج بنایا ہو کہ قرآن خوانی کیلئے اجرت پر قراء اور دوسرے لوگوں کو بلایا جاتا ہے اس فعل کو تو اہل علم و دانش میں کسی نے بھی اچھا اور مستحسن قرار نہیں دیا۔ علامہ ناصر الدین البانی حفظہ اللہ فرماتے ہیں ۔
'' جو میت کی روح کیلئے قرآن خوانی یا ذکر و اذکار پر پڑھنے والے کو پیسے دئیے جاتے ہیں یہ بھی تعزیت کی بدعات میں سے ''۔
جو مرنے والا اپنی زندگی میں ا یسا عمل کر جاتا ہے جو صدقہ جاریہ کے زمرے میں آتا ہے تو اس کا ثواب بھی اسکو پہنچتا رہتا ہے، کسی کے نام پر صدقہ دینے والی اس میں کوئی بات نہیں ۔ واللہ تعالیٰ اعلم
اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو قرآن و سنت کو سمجھنے اور اس پر کاربند ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
میت کو دیکھ کر کھڑے ہونا ؟

س: کیا میت کو دیکھ کر کھڑے ہو جانا چاہئے یا بیٹھے رہنا چاہئے؟ قرآن و سنت کی رو سے واضح فرمائیں۔

ج: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ کی اسلامی ریاست کی جب بنیاد رکھی تو اس کے مستحکم ہونے کے ساتھ ساتھ کئی احکام نازل ہوئے۔ کئی ایسے تھے جن پر یہ عمل تھا لیکن بعد میں ان میں تغیر و تبدل ہوا ۔ مثال کے طور پر پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم کی دلی خواہش پر بیت اللہ کو قبلہ بنا دیا گیا ۔ اسطرح شروع شروع میں شراب کی کلی ممانعت نہ تھی لیکن بعد میں اس کو قطعی طور پر حرام کر دیا گیا ۔ اسی طرح پہلے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے دیکھ کر کھڑے ہو جاتے تھے ۔ یہاں تک کہ آپ یہودی اور یہویدیہ کی میت کیلئے بھی کھڑے ہوئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہودی کے جنازہ کیلئے کھڑے ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، کیا اس میں جان نہ تھی ۔
آپ نے صحابہ کرام سے فرمایا ، جب تم جنازہ دیکھو تو اس کیلئے کھڑے ہو جایا کرو۔ اور جو ساتھ چل رہا ہو، وہ اس وقت تک نہ بیٹھے جب تک اسے زمین پر نہ رکھ دیا جائے۔ (بخاری ومسلم)

لیکن اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے نہیں ہوتے تھے۔ جیسا کہ علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : اور ابو دائود میں یہ لفط ہیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنازے کیلئے کھڑے ہوئے تو ہم بھی کھڑے ہوئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے ہم بھی بیٹھ گئے۔ موطا اور ابو دائود کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنازوں کیلئے کھڑے ہوتے تھے پھر بعد میں بیٹھ گئے ۔
واقد بن عمرو بن سعد بن معاذنے کہا ، میں بنو سلمہ کے ایک جنازہ میں حاضر ہوا ۔ میں کھڑا ہو کر نافع بن جبیر نے کہا بیٹھ جائیے۔ میں تمہیں عنقریب اسکے متعلق حدیث بتاؤں گا ۔ پھر بیان کیا مجھے مسعود بن الحکم الزرقی نے باتای کہ انہوں نے سیدنا علی کو کوفہ میں کہتے ہوئے سنا، وہ فرما رہے تھے:
''آپ نے ہمیں جنازہ کیلئے کھڑے ہونے کا حکم د یا تھا اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے اور ہمیں بھی بیٹھنے کا حکم دیا ۔''(احمد۶۲۷،بیہقی۲۷/۴،کتاب الاعتبار للبخاری ۹۱)
ان احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے علامہ عبدالرحمن مبارک پوری کتاب الجنائز ص۷۷ اور علامہ البانی حفظہ اللہ احکام الجنائز ص۴۶پر لکھتے ہیں کہ قیام پہلے مشروع تھا بعد مں منسوخ ہو گیا ۔ اور علامہ شو کافی نے امام مالک ، امام شافع اور امام ابو حنیفہ کا مذہب، نسخ کا نقل کیا ہے۔ جبکہ امام احمد امام اسحاق بن راہویہ کا عدم نسخ کا۔ یعنی یہ لوگ نسخ کے قائل نہیں بلکہ یہ کہتے کہ جوا زکے طور پر ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
زکوٰة کے احکام

س۔ زکوٰة کی شرعی حیثیت اور اس کی ادائیگی کا طریقہ کیا ہے ، کتنے مال پر زکوٰة فرض ہے اور مصارفِ زکوٰة کتنے ہیں؟ علاوہ ازیں صدقہ فطر کی وضاحت بھی کریں۔

ج۔ زکوٰة اسلام کا تیسرا بنیادی رکن ہے جس کی فرضیت قرآن مجید اور احادیث صحیحہ صریحہ سے ثابت ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
''نماز قائم کرو اور زکوٰة ادا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو''۔
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
''پس جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو مشرکین کو جہاں پائو قتل کرو، ان کو پکڑ لو اور ان کا محاصرہ کرو اور ہر مقام پر ان کی گھات میں بیٹھے رہو پس اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں، زکوٰة ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو (یعنی جنگ بند کر دو ) بے شک اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے ۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ کفار و مشرکین اگر ایمان کا دعویٰ کریں ۔ اسلام قبول کریں تب بھی ان سے جنگ بند نہیں ہوگی تاوقتیہ کہ وہ نماز پڑھیں اور زکوٰة ادا کریں۔ زکوٰة کی ادائیگی کے بعد ہی وہ مسلم برادری میں شامل ہوسکتے ہیں اور رشتہ اخوت میں منسلک رہ سکتے ہیں ۔ اگر کوئی شخص زکوٰة ادا نہیں کرتا تو وہ اس رشتہ سے محروم رہتا ہے ۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
''وہ کسی مومن کے بارے میں نہ قرابت کا لحاظ کرتے ہیں، نہ عہد کا اور یہی لوگ ہیں حد سے بڑھنے والے۔ پھر اگر یہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰة ادا کریں تو تمہارے دینی بھائی ہیں اور ان لوگوں کے لئے جو علم رکھتے ہیں ہم آیات کھول کھول کر بیان کرتے ہیں''۔
لفظ زکوٰة دو معنوں میں مستعمل ہے ۔ (۱) بڑھنا (۲) پاک و صاف ہونا ۔
سال گزارنے کے بعد جو حصہ بطور فرض ادا کیا جاتا ہے ان ہی دو معنوں کے پیش نظر اسے زکوٰة کہتے ہیں کیونکہ ادائیگی زکوٰة کرنے والے کی نیکیاں بڑھتی ہیں۔ درجات بلند ہوتے ہیں۔ مال کی طہارت ہوتی ہے اور اس میں اللہ کی طرف سے برکت پیدا ہوتی ہے اور زکوٰة دہندہ خود گناہ اور بخل سے بچ جاتا ہے اور اس کا مال غرباء فقراء و مساکین وغیرہ کا حق نکل جانے کی وجہ سے خبث و حرام سے پاک ہوجاتا ہے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
''اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) زکوٰۃ لے کر ان کے جان و مال کا تذکیہ کرو اور ان کو پاک و صاف بنا دو''۔
زکوٰة اللہ تعالیٰ کی حقیقتاً مالی عبادت ہے اور اسے اگر واقعاتی اعتبار سے دیکھا جائے تو اس کو اجتماعی زندگی میں معاشرے کے اندر ریڑھ کی حیثیت حاسل ہے ۔ یہ اسلام کے سیاسی و معاشی نظام کی بنیاد ہے ۔ شریعت اسلامی نے چار قسم کے مال پر زکوٰة فرض کی ہے :
١۔ بہائم۔ چار پائے جانور اونٹ گائے بکری وغیرہ
٢۔ سونا چاندی نقود اور زیورات وغیرہ
٣۔ ہر قسم کا وہ تجارتی مال جس میں تجارت شرعاً جائز ہے ۔
٤۔ زمین کی پیداوار ، اجناس، خوردنی پھل وغیرہ
چونکہ شریعت نے زکوٰة مالداروں پر فرض کی ہے تاکہ ان کے مال کا کچھ حصہ ہر سال غرباء و مساکین کی ضروریات پر صرف کیا جاسکے لہٰذا ہر قسم کے مال سے زکوٰة کا نصاب مقرر کیا گیا ۔ مذکورہ بالا چار قسم کے مال کا نصاب درج ذیل ہے :
١۱) بہائم: اونٹوں کا نصاب پانچ اونٹ ہے ۔ صحیح بخاری کتاب الزکوٰة میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''پانچ سے کم اونٹوں پر زکوٰة نہیں ہے ۔ پانچ تانو اونٹ پر ایک بکری زکوٰة ہے ۔ ۱۰ تا۱۴ پر۲بکریاں،۱۵ تا۱۹ پر تین بکریاں،۲۰ تا۲۴ پر۴ بکریاں،۲۵ تا۳۵ پر ایک سالہا اونٹنی ۔
گائیوں کا نصاب: گائیوں کا نصاب تیس گائیں ہیں جامع ترمذی۱/۱۹۵ اور مستدرک حاکم۱/۳۹۸ میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کویمن کی طرف بھیجا تو انہیں حکم دیا:
''کہ تیس گائیو ں پر ایک سال کا بچھڑا زکوٰة میں لے ''۔
یعنی۳۰سے کم گائیوں پر زکوٰة نہیں اور جب۳۰ گائیں ہوں ان پر ایک سالہ بچھڑا زکوٰة ہے اور۴۰ پر ایک گائے جس کے دو دانت نکل آئے ہوں اسی طرح ہر ۳۰ پر ایک سالہ بچھڑا اور ہر۴۰ پر ایک گائے دو دانت والی۔
۲) چاندی اور سونے کا نصاب:
''سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تمہارے پاس دو سو درہم ہوں اور ان پر سال گزر جائے تو ان پر زکوٰة پانچ درہم ہوگی اور جب تمہارے پاس بیس دینار سونا ہو اور اس پر ایک سال گزر جائے تو اس میں نصف دینار زکوٰة ادا کرنا ضروری ہے ''۔ (ابو دائو د ، کتاب الزکوٰة نیل الا وطار ۱۱۸)
اس کے علاوہ کتب احادیث میں بے شمار ایسی روایات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کے لئے ۲۰۰ درہم اور سونے کے لئے ٢٠ دینار نصاب متعین فرمایا ہے اور ان پر زکوٰة کے واجب ہونے کے لئے ایک سال کا عرصہ شر ط قرار دیا ہے ۔ اور اس بات پر عموماً اتفاق ہے کہ ہمارے ہاں رائج اوزان کے مطابق ۲۰۰ درہم چاندی کا وزن ساڑھے باون تولے ہے اور۲۰ دینار سونے کا وزن ساڑھے سات تولہ سونا ہے ۔
۳٣) زیورات پر زکوٰة: سونے اور چاندی کے زیورات پر بھی زکوٰة دینی چاہیے، جب وہ نصاب کو پہنچ جائیں، شریعت نے جب سونے اور چاندی پر زکوٰة فرض کی ہے اور سونے چاندی کے زیور بھی سونا چاندی ہیں ان کو کسی نص قطعی نے زکوٰةسے مستثنیٰ نہیں کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیورات پر زکوٰة نہ دینے پر بڑی وعید بیان کی ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی۔ اس کے ساتھ اس کی بیٹی بھی تھی اور اس کی بیٹی کے ہاتھ میں سونے کے دوموٹے موٹے کنگن تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:
''کیا تم ان کی زکوٰة بھی دیتی ہو ؟ اس نے کہا نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تمہیں پسند ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان کے بدلے میں تمہیں آگ کے کنگن پہنائے ''۔
اس عورت نے یہ بات سنتے ہی کنگن اتار کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھ دئیے اور کہا میں نے یہ دونوں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں دے دئیے ۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما نے کہا ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور ہاتھ میں چاندی کی چوڑیاں دیکھیں اور پوچھا ، عائشہ یہ کیا ہے ؟ میں نے کہا یہ (زیور) میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر حصولِ زینت کے لئے بنائے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''کیا ان کی زکوٰة ادا کرتی ہو؟ میں نے کہا نہیں یا ماشاء اللہ کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:پھر آگ کی سزا تجھے یہ کافی ہے''۔ (صحیح ابو دائود۱۵۶۵، دارقطنی)
امام حاکم نے بھی اس حدیث کو مستدرک میں بیان کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث شیخین کی شرط پر صحیح ہے۔
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ زیورات کی زکوٰة ادا کرنی چاہیے اور یہ ضروری ہے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ،عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، سعید بن مسیب ، عطاء، سعید بن جبر، عبداللہ بن شداد، سیجون بن مہران، مجاہد، جابر بن زید، زہری، سفیان ثوری، ابن منذر، عبداللہ بن مبارک، ابو حنیفہ وغیرہ کا یہی موقف ہے اور امام شافعی سے بھی ایک قول اسی طرح مروی ہے ۔ اس کے برعکس امام مالک ، اسحٰق بن راہویہ، شعبی وغیرہ کا موقف ہے کہ ز یورات میں زکوٰة واجب نہیں۔ اور ان کا استدلال قیاس اور بعض آثار صحابہ رضی اللہ عنہ سے ہے لیکن صحیح اور راجع مسلک پہلا ہے اورصحیح و تصریح احادیث اس کی تائید کرتی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث کے مقابلے میں کسی کی بات حجت نہیں۔
مال تجارت پر زکوٰة : ارشاد باری تعالیٰ ہے :
''اے ایمان والو! اپنی کمائی میں سے بہترین چیز خرچ کرو''۔
امام مجاہد سے بسند صحیح تفسیر طبری۵/۵۵۶ میں مروی ہے کہ یہ آیت تجارت کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور امام بخاری نے بھی اس آیت سے اموال تجارت میں زکوٰة کے وجوب پر استدلال کیا ہے ۔
''سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اونٹوں پر زکوٰة، بکریوں پر زکوٰة، گائیوں پر زکوٰة اور تجارت کے کپڑے پر زکوٰة ہے ''۔
''ابو عمرو بن حماس رضی اللہ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں چمڑا اور تیر کے ترکش فروخت کرتا تھا۔ سید نا عمر رضی اللہ عنہ میرے پاس سے گزرے تو فرمایا اپنے مال کی زکوٰة ادا کرو ۔ میں نے عرض کیا اے امیر المومنین یہ تو فقط چمڑا ہے ۔ سید نا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس کی قیمت لگائو اور اس کی زکوٰة ادا کرو ''۔ (الشافعی۱/۲۳۶، عبدالرزاق (۹۹۔۷۰)، دارقطنی۲۱۳، کتاب الا موال لابی عبید۴۲۵، بیہقی۴/۱۴۷، المجوع۶/۴۴)
مندرجہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ مال تجارت سے بھی زکوٰة نکالنی چاہیے۔ مال تجارت کا نصاب شرح نقدی کا ہی نصاب ہے یعنی حاضر وقت میں ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت مال تجارت کا نصاب تصور کیا جائے گا جس آدمی کے پاس کاروبار کے لئے ساڑھے باون تولہ چاندی جس کی قیمت تقریباً۲۵۔۲۵۴۶ روپے تک مال تجارت موجود ہے وہ اپنے مال کی قیمت لگا کر اس پر اڑھائی فیصد کے حساب سے زکوٰة ادا کرے۔
۴٤) زمین کی پیداوار پر زکوٰة: زمین سے پیدا ہونے والے غلہ سے جو حصہ بطور زکوٰة ادا کیا جاتا ہے ۔ عشر کہلاتا ہے۔ عشرکا معنی ہے دسواں حصہ ، بعض حالات میں زمین کی پیداوار کا دسواں حصہ واجب الادا ہوتا ہے اس لئے اسے عشر کا نام دیا گیا ہے ۔ جو کھیتی یا باغ، چشمہ، بارش، نہری پانی یا قدرتی ذرائع سے سیراب ہو اور اسکوپانی دینے کے لئے کسی مصنوعی آلہ کی ضرورت نہیں پڑتی تو ایسی کھیتی یا باغات پر عشر واجب الادا ہوتا ہے اور جس کھیتی یا باغ کو پانی دینے کے لئے مصنوعی آلات مثلاً رہٹ، مشین وغیرہ کی ضرورت پڑے تو اس کی پیداوار پر نصف عشر یعنی بیسواں حصہ زکوٰة ہے۔
''عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کھیتی بارش اور چشموں سے سیراب ہوتی ہو یا وہ بارانی ہو اس میں عشر ہے اور جو زمین جانوروں یا کسی دوسرے ذریعہ سے پانی کھینچ کر لائے اس میں نصف عشر ہے ''۔ (صحیح بخاری ، کتاب الزکوٰة۲/۱۵۵٥)
دونوں حالتوں میں کاشتکار کی محنت کا لحاظ رکھا گیا ہے ، چونکہ اول الذکر صورت میں محنت کم ہوتی ہے اس لئے اس پر زکوٰة زیادہ ہے اور موخر الذکر صورت میں محنت زیادہ ہے ، اس لئے اس پر زکوٰة کم ہے ۔ زمین کی پیداوار کے لئے نصابِ زکوٰة ٥وسق ہے ۔
''ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تک غلہ اور کھجور کی مقدار پانچ وسق تک نہ ہوجائے اس پر زکوٰة نہیں ''۔ (نسائی )
اسی طرح صحیح بخاری کتاب الزکوٰة۲/۱۳۳ پر مروی ہے کہ:
''پانچ وسق سے کم پر زکوٰة واجب نہیں''۔
جب پیداوار پانچ وسق یا اس سے زیادہ ہو تو اس پر زکوٰة واجب ہوجاتی ہے ۔ پانچ وسق کا وزن۲۰ من یا۷۲۵ کلو گرام تک ہوتا ہے ۔
مصارفِ زکوٰة
مصارفِ زکوٰة کا مطلب ہے کہ وہ مدیں جہاں پر زکوٰة صرف کی جاتی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:
یعنی زکوٰة کا مال فقراء اور مساکین، زکوٰة وصول کرنے والے عاملین، نو مسلموں کی تالیف قلب، غلاموں، قرضداروں اور اللہ راہ میں جہاد کرنے والوں اور مسافروں کے لئے ہے ۔ یہ آٹھ مصارف زکوٰة ہیں۔ ان آٹھ مصارف کی مختصر وضاحت درج ذیل ہیے :
فقرہ و مساکین
فقیر سے مراد وہ ہے جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو اور مسکین جس کے پاس تھوڑا بہت خرچ موجود ہو یعنی اس کی آمدنی اس کی ضرورت سے بہت تھوڑی ہو۔
عاملین
وہ لوگ جو خلیفہ اسلام یا مسلمانوں کے امی کی طرف سے زکوٰة جمع کرنے کے لئے مقرر ہوتے ہیں۔ ان کی تنخواہوں وغیرہ پر زکوٰة کا مال صرف ہوسکتا ہے ۔
مُؤْ لَّفَۃالْقُلُوْب
اس سے وہ ضعیف الایمان مسلمان مراد ہیں جن کی دلجوئی یا مالی اعانت اگر نہ کی جائے تو ان کا اسلام سے منحرف ہونے کاخطرہ ہے ۔
غلام
یعنی اگر کوئی مسلمان آدمی غلامی کی زندگی بسر کررہا ہو تو مالِ زکوٰة سے اسے غلامی سے آزادی دلا دی جائے ۔
غارمین
ان سے مراد وہ مقروض ہیں جن پر اتنا قرض چڑھ گیا ہے کہ وہ اتارنے کی سکت نہیں رکھتے مگر یاد رہے کہ اگر کوئی آدمی خلاف شرع کاموں جیسے شراب جوا وغیرہ میں مال خرچ کرنے کی وجہ سے مقروض ہوگیا ہو تو اس پر زکوٰة کا مال صرف کرنے سے گریز کرنا چاہیے جب تک وہ توبہ نہ کرلے ۔
فی سبیل اللہ
اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو محاذ جنگ پر دشمنان اسلام سے نبرد آزما ہیں۔ یہ لوگ غنی بھی ہوں تب بھی ان کی اعانت مال زکوٰة سے کرنا جائز ہے تاکہ وہ سامان حرب جیسا کہ دور حاضر میں کلاشنکوف ، گرینوف، زیکویک وغیرہ گنیں خرید کر دشمن اسلام کامقابلہ کرسکیں۔
ابن السبیل
اس سے مراد وہ مسافر ہیں جو اپنے وطن سے دور ہیں اور ان کے پاس خرچ ختم ہوگیا ہے تو مالِ زکوٰة سے ان کی اعانت کرنا جائز ہے ۔
صدقة الفطر
صدقة الفطر فرض ہے ۔ صدقہ اس لئے ادا کیاجاتا ہے کہ رمضان المبارک میں اگر کسی فرد سے روزہ میں کوتاہی یا لغو بات وغیرہ ہوگئی ہو تو اس سے پاکیزمگی حاصل کی جائے ۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
''نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو روزہ دار کو بے ہودگی اور فحش کلامی سے پاک کرنے اور غرباء و مساکین کو خوراک مہیاکرنے کے لئے صدقہ فطر فرض کیا ہیے جو شخص عید کی نماز سے قبل یہ صدقہ ادا کرے تو اس کا صدقہ مقبول ہے اور جو شخص نماز کے بعد صدقہ ادا کرے تو یہ نفلی صدقات کی طرح ایک صدقہ ہے ''۔ (صحیح ابو دائود )
اس سے معلوم ہوا کہ صدقہ فطر کی ادائیگی عید کی نماز سے قبل ہونی چاہیے۔ اور یہ ہر مسلمان پر خواہ مرد یا عورت غلام ہو یا آزاد چھوٹا ہو یا بڑا، فرض ہے اور ہر فرد کی طرف سے ایک صاع طعام ادا کیا جاتا ہے ۔ صحیح بخاری الزکوٰة میں حدیث ہے کہ:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر ایک صاع کھجور سے ایک صاع جو سے غلام، آزاد، مذکر و مونث، چھوٹے اور بڑے مسلمان پر فرض کیا ہے ۔
طعام سے مراد ہر وہ چیز ہے جو کسی گھر میں عموماً کھائی جاتی ہے جیسا کہ چاول، جو، گندم وغیرہ ایک صاع کا وزن ٢۲۵٥.۲ سیر ہے ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
مسجد کے قاری کے لئے صدقہ فطر

س۔ ہماری مسجد میں بچوں کی تعلیم کے لئے قاری صاحب رکھے ہوئے ہیں۔ جو صبح و شام انہیں قرآن کی تعلیم دیتے ہیں کیا صدقہ فطر انہیں دیا جاسکتا ہے ؟

ج۔ صدقہ فطر فقراء و مساکین کا حصہ ہے جیسا کہ حدیث میں آتا ہے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر فرض قرار دیا ہے جو روزہ دار کے لئے فضول و بے کار باتوں سے طہارت کا باعث ہے ۔ اور مساکین کے لئے کھانے کا۔ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ صدقہ فطر مساکین کا حق ہیے ۔ لہٰذا اس مال سے قاری صاحب کی تنخواہ ادا نہیں کی جاسکتی۔ ہاں اگر وہ مساکین کے زمرے میں داخل ہیں تو انہیں صدقہ فطر دیا جا سکتا ہے۔ (واللہ اعلم)
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
روزہ اور بیوی کے حقوق

س: روزہ کی حالت میں اپنی بیوی کے ساتھ سونے، بوسہ لینے وغیرہ کا کیا حکم ہے۔

ج: روزہ کی حالت میں بیوی کے جسم سے جسم ملانا یا بوسہ لینا جائز ہے البتہ جماع کرنا حرام ہے۔ اس لئے اگر کسی کو خطرہ ہو کہ وہ اپنے آپ کو قابو نہیں رکھ سکتا تو بوسہ وغیرہ سے بچے۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ کی حالت میں اپنی بیویوں کے جسم سے جسم ملا لیتے اور بوسہ لے لیتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تم سب سے زیادہ اپنی حاجت پر قابو رکھنے والے تھے۔(مشکوة باب تنزیہ الصوم)
 
Top