محترم شاہد نزیر صاحب : کمان سے نکلا ہوا تیر واپس نہیں آتا !
عامر یونس صاحب کی جب پوسٹ جھوٹی ثابت ہوگئی تو عامر یونس صاحب کا جھوٹا ہونا خود بخود ثابت ہو گیا بے جا تاویلات نہ کریں ۔
جناب نے لکھا ہے کہ " اگر آپ حدیث کے الفاظ پر غور کرتے تو وہاں اس شخص کو جھوٹا کہا گیا ہے جس کی عادت ہی یہ ہو کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو آگے بڑھاتا ہو"
میں نے حدیث کی معمولی سی تشریح اور وضاحت کی ہے وہ بھی اس لئے کہ مقلد قرآن و حدیث کو سمجھنے کا اہل نہیں ہوتا۔ اس تشریح کو بے جا تاویل کا نام دینا آپ کی دغا بازی ہے۔ تاویل و تشریح میں فرق ہوتا ہے قرآن و حدیث کو حنفی المشرب کرنے کے لئے فاسد اور باطل تاویلات کرنا تو حنفی فرقے کی پکی اور پرانی عادت ہے اہل حدیث اس لعنتی عادت سے کوسوں دور ہیں۔ والحمدللہ!
عن أبى هريرة ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم : " كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا ، أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ " (مسلم)
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کہ کافی ہے آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے یہ بات کہ جو سنے اسے آگے بیان کر دے۔(وحید الزمان)
حدیث کے اُن الفاظ کی نشاندہی کریں جسکا ترجمہ یہ ہوکہ "کافی ہے آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے یہ بات جس کی عادت ہی یہ ہوکہ وہ ہر سنی سنائی بات آگے بڑھاتا ہو"
اس حدیث کی نشاندہی فرمائیں ورنہ جناب اس حدیث مبارکہ کا مصداق بننے سے نہیں بچ سکیں گے ؟
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ»
"
ایک مرتبہ آپ نے پھر ثابت کردیا کہ مقلد جاہل ہوتا ہے جو قرآن وحدیث سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ حدیث کے ان الفاظ پر غور فرمائیے ’’
بِکل مَا سَمِعَ‘‘ عربی کا لفظ ’’کل‘‘ وہ لفظ ہے جو اردو میں بھی مستعمل ہے اور عام شخص بھی جانتا ہے کہ ’’کل‘‘ کے معنی تمام، سارا، پورا وغیرہ ہے۔ اس طرح ’’
بِکل مَا سَمِعَ‘‘ کے معنی ہوئے ہر سنی ہوئی بات، تمام سنی ہوئی باتیں، ساری سنی ہوئی باتیں، پوری کی پوری سنی ہوئی باتیں وغیرہ
پس ثابت ہوا کہ حدیث کا مخاطب اور مصداق وہ لوگ جو تمام سنی سنائی باتیں بغیر تحقیق کے آگے پہنچاتے ہیں۔ اور ظاہر ہے ایسا عمل وہی شخص کرتا ہے جو اس عادت میں مبتلا ہو۔
اگر حدیث کا مطلب وہ ہوتا جو آپ بیان کرنے کی کوشش کررہے ہیں تو حدیث کے الفاظ میں ’’کل‘‘ کے بجائے ’’کوئی بھی‘‘ یا ’’کوئی بھی ایک‘‘ وغیرہ کے الفاظ ہوتے یعنی حدیث یوں ہوتی:
کسی بھی شخص کے جھوٹا ہونے کے لئے اتنی بات کافی ہے کہ وہ کسی بھی سنی سنائی بات کو آگے پہنچا دے۔
یا
کسی بھی شخص کے جھوٹا ہونے کے لئے اتنی بات کافی ہے کہ وہ کوئی بھی سنی سنائی بات آگے پہنچا دے۔
پس اگر الفاظ حدیث یہ ہوتے تو اس سے ثابت ہوتا کہ ایک مرتبہ بھی سنی سنائی بات کو بنا تحقیق آگے بڑھانے والا شخص جھوٹا ہے۔لیکن بلاشبہ ایسا نہیں ہے بلکہ حدیث میں اس شخص کو جھوٹا کہا گیا ہے جو ہر سنی سنائی بات کو یا تمام سنی سنائی باتوں کو یا ساری سنی سنائی باتوں کو آگے پہنچاتا ہے اور کوئی تحقیق نہیں کرتا۔ ظاہر ہے ایک آدھ مرتبہ یہ حرکت کرنے والا خطاکار ہے جسے صرف تنبیہ کی جانی چاہیے کہ وہ اس عمل سے باز آجائے ورنہ وہ اس حدیث کا مصداق بن جائے گا اور باربار یہ حرکت کرنے والا گناہگار ہے جس پر اس حدیث کا اطلاق ہوتا ہے اور اسے جھوٹا کہا جاسکتا ہے۔
محترم عامر یونس بھائی سے یہاں ایک مرتبہ یہ غلطی ہوئی ہے جس کی وجہ سے انکی توجہ مبذول کروانے کی خاطر یہ حدیث بیان کی ہے لیکن صرف ایک آدھ غلطی کی بنا پر عامر یونس بھائی جھوٹا نہیں کہا جاسکتا اور نہ ہی وہ جھوٹے ہیں کیونکہ عامر یونس بھائی پر اس حدیث کا اطلاق نہیں ہوتا بلکہ اس حدیث کا اطلاق ان لوگوں پر ہوتا ہے جو اس فعل کے عادی ہیں۔
اسلام فطرت اور عقل کے عین مطابق ہے اور عقل میں بھی یہ بات نہیں آتی کہ غلطی سے ایک آدھ مرتبہ بلا تحقیق سنی سنائی بات آگے بڑھا دینے والے کو جھوٹا کہہ دیا جائے بلکہ عقل یہ کہتی ہے غلطی کرنے والے پر فرد جرم عائد کرنے سے پہلے اسے ایک موقع ضرور فراہم کیا جائے کیونکہ انسان سے غلطیاں ہوتی ہیں پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ خلاف عقل شریعت پہلی مرتبہ ہی غلطی کرنے والے کو مجرم کہہ دے؟ یزید حسین صاحب یہ آپکی عقل کی خرابی ہے جو اس حدیث کی رو سے غلطی کرنے والے شخص کو بھی مجرم کے کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہتے ہو حالانکہ حدیث تو اپنے الفاظ کی رو سے بھی صرف سنی سنائی باتیں بلا تفتیش آگے بڑھانے کے عادی شخص کو ہی جھوٹا کہتی ہے۔
باقی ادھر اُدھر نہ گھوما کریں اصل بات کی طرف رہیں لیکن یہ یاد رہے کہ ہم اہل سنت خیر القرون کے ایک مجتھد امام کی تقلید کرتے ہیں اور اہل حدیث ہر غیر مجتھد کی تقلید میں پھنسے ہوئے ہیں پسند اپنی اپنی !
میں نے اس بات پر اعتراض کب کیا کہ آپ ایک نااہل کی تقلید کرتے ہیں یا کئی نااہلوں کی تقلید میں مبتلا ہیں؟ میں نے تو صرف یہ کہا ہے کہ اس حدیث کا صحیح مصداق حنفی مقلدین ہیں کیونکہ انہیں اپنے امام کے اقوال کی تحقیق کئے بغیر ہی ان پر عمل کرنے اور آگے بڑھانے کا حکم ہے۔ آپ جواب دیں کہ کیا آپ کو بطور مقلد اپنے امام کے مسائل اور اقوال کی تحقیق کا حق حاصل ہے؟