اس کا مطلب یہی ہے کہ قول آمین دونوں طرح مراد ہو سکتا ہے۔ یہاں حدیث میں تصریح نہیں ہے۔
اشماریہ بھائی کوئی حقیقت سے لگتی بات کریں مذکورہ حدیث سے محدثین آمین بالجہر ہی مراد لیا ہے، یہ تقلید کے کرشمے ہیں کہ حدیث میں معنوی تحریف کرتے ہوے آپ کو اللہ سے ڈر نہیں لگتا ، اس حدیث کا جو معنی محدیثین نے مراد لیا ہے، وہ یہی ہے کہ امام اور مقتدی بلند آواز سے آمین کہیں گے:
امام البخاری (باب جہر الامام بالتامین)
امام ابن خزیمہ (باب الجہر بآمین عند انقضاء فاتحہ الکتاب۔۔۔۔۔)
امام نسائی (جہر الامام بآمین)
امام ابن ماجہ (باب الجہر بآمین)
سنن الکبری للبیہقی: بَابُ جَهْرِ الْإِمَامِ بِالتَّأْمِينِ
السنن الصغیر للبیہقی:بَابُ الْإِمَامِ يَجْهَرُ بِالتَّأْمِينِ فِي صَلَاةِ الْجَهْرِ وَيَقْتَدِي بِهِ الْمَأْمُومُ
المسند المستخرج علی صحیح مسلم:بَابُ الْجَهْرِ بِآمِينَ
السنن الصغری للنسائی:بَابُ الْجَهْرِ بِآمِينَ
ناسخ الحدیث و منسوخہ لاثرم:باب الجهر بالتأمين
اس کے بعد شارحین حدیث بھی اس حدیث کا یہی معنی بیان کرتے ہیں، لیکن کیا کریں احناف کا جن کو تقلید کی عینک اندھا کیے جا رہی ہے، سنن ابو داود کی شرح معالم السنن میں امام الخطابي (المتوفى: 388هـ) نےلکھا ہے:
قلت فيه دليل على أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يجهر بآمين ولولا جهره به لم يكن لمن يتحرى متابعته في التأمين على سبيل المداركة طريق إلى معرفته فدل أنه كان يجهر به جهرا يسمعه من وراءه
"مذکورہ حدیث آمین بالجہر کی دلیل ہے"
اسی طرح ابن بطال نے بخاری کی شرح میں لکھا ہے:
وحجة من جهر بها قوله عليه السلام: (إذا أمن الإمام فأمنوا)
یہ حدیث آمین بالجہر والوں کی دلیل ہے"
اتنے واضح دلائل کے باوجود بھی یہی رٹ لگائے رکھنا کہ اس حدیث میں آمین بالجہر کا کہیں ذکر نہیں سوائے جہالت کے کچھ بھی نہیں ہے، اور دوسری طرف یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس حدیث کو جہر اور خفا دونوں ثابت ہو رہے ، میری اشماریہ بھائی سے گزارش ہے یہ دہرا مفہوم کہاں سے اخذ کیا گیا ہے؟ حدیث کے کس لفظ میں اس کی وضاحت موجود ہے؟