حافظ عمران الہی
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 09، 2013
- پیغامات
- 2,100
- ری ایکشن اسکور
- 1,460
- پوائنٹ
- 344
مین نے ابھی اس حدیث کے بارے بات ہی نہیں کی ، لیکن اس حدیث سے بھی آمین بالجھر ہی ثابت ہوتا ہے، حافظ ابن حجرعسقلانی رقم طراز ہیں:دوسری روایت میں ہے:۔إذا قال الإمام: {غير المغضوب عليهم ولا الضالين}فقولوا: آمينبخاری
آپ کا کیا خیال ہے اس روایت کے مطابق امام آمین نہیں کہے گا یا مقتدی اس کے آمین کہنے سے پہلے ہی آمین کہ دیں گے؟
دونوں روایتوں کو جمع کریں تو علم ہوتا ہے کہ مقتدیوں کی آمین کا اصل مقام ولاالضالین کے بعد ہے۔ اور یہی مقام امام کی آمین کا بھی ہے۔ اس لیے اس مقام پر مقتدی آمین کہیں گے چاہے امام کی آواز سنیں یا نہیں۔
قال الزبیر بن المنیر مناسبة الحدیث للترجمة من جھة ان فی الحدیث الامر بقول امین و القول اذا وقع به الخطاب مطلقا حمل علی الجھر و متی ارید بہ الاسرار او حدیث النفس قید بذلک و قال ابن رشید تؤخذ المناسبة منه من جھات منھا انه قال اذا قال الامام فقولوا فقابل القول بالقول و الامام انما قال ذلک جھرا فکان الظاھر الاتفاق فی الصفة و نھا انه قال فقولوا و لم یقیدہ بجھر و لا غیر و ھو مطلق فی سیاق الاثبات و قد عمل به فی الجھر بدلیل ما تقدم یعنی فی مسئله الامام و المطلق اذا عمل به فی صورة لم یکن حجة فی غر ما بالاتفاق و منھا انه تقدم ان الماموم مامور بالاقتداء بالامام و قد تقدم ان الاممام یجھر فلزم جھرہ بجھرہ و ھذا الاخیر سبق الیه ابن بطال و تعقب بانه یستلزم ان یجھر الماموم بالقرأة لان الامام جھر بھا لکن یمکن ان ینفصل عنه بان الجھر باقرأة خلف الامام قد نھی عنه فبقی التامین و اخلا تحت عموم الامر باتباع الامام و یتوی ذلک بما تقدم عن عطاء ان من خلف ابن الزبیر کانوا یؤمنون جھرا و روی البیہقی من وجه ان عطاء قال ادرکت مائتین من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فی ھذا المسجد اذا قال الامام و لا الضالین سمعت لھم رجة بامین
زبیر بن منیر کہتے ہیں کہ حدیث سے ترجمہ باب کی مناسبت کئی طرح سے ہے، حدیث میں آمین کہنے کا حکم ہے اور قول کے ساتھ جب خطاب مطلق واقع ہو، تو اسے جہر پر محمول کیا جاتا ہے اور اگر اس سے سر مراد ہو، تو اسے مقید طور پر بیان کیا جاتا ہے، دوسرا یہ کہ آپ نے قال کے مقابلہ میں قولوا فرمایا ہے اور جب قول، قول کے مقابل ہو تو اس سے وہی کیفیت مراد ہوتی ہے۔ جو پہلے کی ہو، تو جب امام و لا الضالین بلند آواز سے کہے گا۔ تو آمین بھی بلند آواز سے ہو گی، تیسری یہ کہ قولوا کا لفظ مطلق واقع ہوا ہے اور اس پر جہر کی صورت میں عمل ہوا ہے تو مطلق پر جب ایک صورت میں عمل ہو جاوے تو وہ بالاتفاق دوسری صورت میں حجت نذہیں رہتا، چوتھی یہ کہ مقتدی کو امام کی اقتداء کا حکم ہے اور چوں کہ امام جہر سے قرأت کرتا ہے لہذا مقتدی بھی جہر سے آمین کہے گا۔ اس پر اعتراض یہ ہو سکتا ہے کہ امام قرأت جہر سے کرتا ہے اور مقتدی جہر سے نہی کرتا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ قرأت بلند آواز سے نص صریح سے بند ہو گئی، لیکن آمین چونکہ قرأت نہیں تھی۔ وہ اپنے حال پر باقی رہی اور اس سے پہلے سے گذر چکا ہے کہ ابن زبیر اور ان کے مقتدی بلند آواز سے آمین کہتے تھے عطاء کہتے ہیں کہ میں نے دو سو صحابہ کو اس مسجد میں بلند آواز سے آمین کہتے دیکھا ہے۔ مسجد کانپ جاتی تھی۔