• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

احادیث کی صحت درکار ہے

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
دوسری روایت میں ہے:۔إذا قال الإمام: {غير المغضوب عليهم ولا الضالين}فقولوا: آمينبخاری
آپ کا کیا خیال ہے اس روایت کے مطابق امام آمین نہیں کہے گا یا مقتدی اس کے آمین کہنے سے پہلے ہی آمین کہ دیں گے؟






دونوں روایتوں کو جمع کریں تو علم ہوتا ہے کہ مقتدیوں کی آمین کا اصل مقام ولاالضالین کے بعد ہے۔ اور یہی مقام امام کی آمین کا بھی ہے۔ اس لیے اس مقام پر مقتدی آمین کہیں گے چاہے امام کی آواز سنیں یا نہیں۔
مین نے ابھی اس حدیث کے بارے بات ہی نہیں کی ، لیکن اس حدیث سے بھی آمین بالجھر ہی ثابت ہوتا ہے، حافظ ابن حجرعسقلانی رقم طراز ہیں:
قال الزبیر بن المنیر مناسبة الحدیث للترجمة من جھة ان فی الحدیث الامر بقول امین و القول اذا وقع به الخطاب مطلقا حمل علی الجھر و متی ارید بہ الاسرار او حدیث النفس قید بذلک و قال ابن رشید تؤخذ المناسبة منه من جھات منھا انه قال اذا قال الامام فقولوا فقابل القول بالقول و الامام انما قال ذلک جھرا فکان الظاھر الاتفاق فی الصفة و نھا انه قال فقولوا و لم یقیدہ بجھر و لا غیر و ھو مطلق فی سیاق الاثبات و قد عمل به فی الجھر بدلیل ما تقدم یعنی فی مسئله الامام و المطلق اذا عمل به فی صورة لم یکن حجة فی غر ما بالاتفاق و منھا انه تقدم ان الماموم مامور بالاقتداء بالامام و قد تقدم ان الاممام یجھر فلزم جھرہ بجھرہ و ھذا الاخیر سبق الیه ابن بطال و تعقب بانه یستلزم ان یجھر الماموم بالقرأة لان الامام جھر بھا لکن یمکن ان ینفصل عنه بان الجھر باقرأة خلف الامام قد نھی عنه فبقی التامین و اخلا تحت عموم الامر باتباع الامام و یتوی ذلک بما تقدم عن عطاء ان من خلف ابن الزبیر کانوا یؤمنون جھرا و روی البیہقی من وجه ان عطاء قال ادرکت مائتین من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فی ھذا المسجد اذا قال الامام و لا الضالین سمعت لھم رجة بامین
زبیر بن منیر کہتے ہیں کہ حدیث سے ترجمہ باب کی مناسبت کئی طرح سے ہے، حدیث میں آمین کہنے کا حکم ہے اور قول کے ساتھ جب خطاب مطلق واقع ہو، تو اسے جہر پر محمول کیا جاتا ہے اور اگر اس سے سر مراد ہو، تو اسے مقید طور پر بیان کیا جاتا ہے، دوسرا یہ کہ آپ نے قال کے مقابلہ میں قولوا فرمایا ہے اور جب قول، قول کے مقابل ہو تو اس سے وہی کیفیت مراد ہوتی ہے۔ جو پہلے کی ہو، تو جب امام و لا الضالین بلند آواز سے کہے گا۔ تو آمین بھی بلند آواز سے ہو گی، تیسری یہ کہ قولوا کا لفظ مطلق واقع ہوا ہے اور اس پر جہر کی صورت میں عمل ہوا ہے تو مطلق پر جب ایک صورت میں عمل ہو جاوے تو وہ بالاتفاق دوسری صورت میں حجت نذہیں رہتا، چوتھی یہ کہ مقتدی کو امام کی اقتداء کا حکم ہے اور چوں کہ امام جہر سے قرأت کرتا ہے لہذا مقتدی بھی جہر سے آمین کہے گا۔ اس پر اعتراض یہ ہو سکتا ہے کہ امام قرأت جہر سے کرتا ہے اور مقتدی جہر سے نہی کرتا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ قرأت بلند آواز سے نص صریح سے بند ہو گئی، لیکن آمین چونکہ قرأت نہیں تھی۔ وہ اپنے حال پر باقی رہی اور اس سے پہلے سے گذر چکا ہے کہ ابن زبیر اور ان کے مقتدی بلند آواز سے آمین کہتے تھے عطاء کہتے ہیں کہ میں نے دو سو صحابہ کو اس مسجد میں بلند آواز سے آمین کہتے دیکھا ہے۔ مسجد کانپ جاتی تھی۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
حافظ بھائی آپ عینک لگاتے ہیں؟یہ آپ کو نظر نہیں آیا؟
ٌجناب ہمیں آپ نے کہاں دیکھ لیا ہے جو عینک طعنے برسنے شروع ہو گئے ہیں؟
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
آپ نے جو اس کی مثال دی وہ ممثل لہ کے مطابق نہیں ہے۔
اسپیکر تو موجودہ دور کی ایجاد ہے۔ اس سے پہلے مکبرین ربنا لک الحمد پکارتے تھے۔ آج کل بھی جہاں لائٹ نہ ہو وہاں یہی ہوتا ہے۔ اب ذرا سوچ کر بتائیے کہ وہ مقتدی جو امام سے دور کھڑا ہے اور اسے امام کی تسمیع سنائی نہیں دیتی اور وہ مکبر کی تحمید سنتا ہے صرف، کیا وہ ربنا لک الحمد نہیں کہے گا؟ اس نے تو تسمیع سنی ہی نہیں۔ مالکم کیف تحکمون؟
اصل میں یہاں بھی مقام مراد ہے جو تسمیع کے بعد کا ہے نہ کہ آواز سننا ورنہ اس دور کھڑے مقتدی پر تو ربنا لک الحمد کا حکم وارد ہی نہیں ہوا۔

اس کے برعکس یہ دلیل آپ کے ایک دعوی کو رد کرتی ہے۔ آپ یہاں قولوا آمین سے آواز سے آمین کہنا مراد لیتے ہیں تو پھر آخر کیا وجہ ہے کہ قولوا ربنا لک الحمد میں آپ آواز سے تحمید کہنا مراد نہیں لیتے؟ جن الفاظ سے آپ یہاں استدلال کر رہے ہیں وہی الفاظ وہاں بھی تو ہیں؟
شاید آپ کو علم نہیں ہے کہ اہل حدیث تسمیع اور تحمید دونوں کے قائل ہیں، اور ایسے حالات میں امام کی آواز نہ سننے والا مقتدی مکبر کی آواز کو سن کر اگلے رکن میں داخل ہوتا ہے، یعنی پیچھے والے مقتدی مکبر کی آواز سنے بغیر کچھ نہیں کرتے، گویا مکبر ان کے لیے امام بن جاتا ہے، یہ تو تھا آپ کی اوپر والی بات کا جواب اور کچھ مزید ہماری بھی فرمائش ہے
میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ اس معاملے میں یہود اور احناف مشترک ہیں، مجھے بتاؤ کہ وہ کونسی آمین تھی جس سے یہود کو حسد تھا، کیا نماز والی آمین تھی یا کہ نماز کے علاوہ تھی
کیا احناف پاس کوئی ایسی دلیل موجود ہے جس میں آمین بغیر آواز کے کہنے کا ذکر ہو اور اس میں کسی قسم کا ضعف بھی نہ ہو صرف ایک حدیث دکھا دو
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
اس تعلیق کی سند بتائیں گے؟ پھر اس سے تو ایک بار کہنا ثابت ہوتا ہے صرف۔
اس کی سند درج ذیل ہے:عَنِ عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ , عَنْ عَطَاءٍ , قَالَ : قُلْتُ لَهُ : أَكَانَ ابْنُ الزُّبَيْرِ يُؤَمِّنُ عَلَى إِثْرِ أُمِّ الْقُرْآنِ ؟ , قَالَ : " نَعَمْ , وَيُؤَمِّنُ مَنْ وَرَاءَهُ حَتَّى أَنَّ لِلْمَسْجِدِ لَلَجَّةً , ثُمَّ قَالَ : إِنَّمَا آمِينَ دُعَاءٌ (مصنف عبد الرزاق : رقم الحدیث: 2552
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
یہود کو آمین اور سلام سےچڑ ہوتی ہے جب احناف سلام بلند آواز سے کرتے ہیں تو آمین کو دل میں کیوں کہتے ہیں اسے بھی ظاہری آواز سے کہنا چاہیے تاکہ یہود اس کو سن سکیں لیکن یہاں تو مسلمان بھی آمین کی آواز سے چڑ کھاتے نظر آتے ہیں اور لوگوں کو منع کرتے ہیں
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
عجیب بات ہے۔
اتنی بڑی غلطی کہ رفع یا مد کی جگہ خفض؟؟ بالکل مخالف؟؟
اس کے مقابل رفع صوت کی روایات اگر بتا دیں جن میں شعبہ کے علاوہ دیگر رواۃ یہی ہوں تو یہ بات میرے لیے واضح ہو جائے گی ان شاء اللہ۔
(میری اپنی اس بارے میں رائے یہ ہے کہ دونوں روایات مین تطبیق اس طرح ممکن ہے کہ نہ تو بہت زور سے آواز ہو اور نہ بہت پست۔ لیکن ما اراہ الا یعلمنا والی حدیث سے اس کا رد ہوتا ہے۔)
کسی حنفی بھائی کے پاس اگر کوئی ایسی سند ہے کہ جس میں کوئی مجروح راووی نہ ہو تو وہ پیش کرے،
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
سیدنا ابو ہریرہ اور جہری آمین

آمین کا معاملہ اتنا اہم ہے کہ مروان بن حکم اور سیدنا ابو ہریرہ آمین کی تاخیر و تقدیم میں ایک دوسرے کو تلقین کیا کرتے تھے:

أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ بِبَغْدَادَ حَدَّثَنَا أَبُو سَهْلِ بْنُ زِيَادٍ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِسْحَاقَ الْقَاضِى حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَبِى رَافِعٍ‏:‏ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ كَانَ يُؤَذِّنُ لِمَرَوَانَ بْنِ الْحَكَمِ، فَاشْتَرَطَ أَنْ لاَ يَسْبِقَهُ بِالضَّالِّينَ حَتَّى يَعْلَمَ أَنَّهُ قَدْ دَخَلَ الصَّفَ، فَكَانَ إِذَا قَالَ مَرْوَانُ ‏(‏وَلاَ الضَّالِّينَ‏)‏ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ‏:‏ آمِينَ‏.‏ يَمُدُّ بِهَا صَوْتَهُ وَقَالَ‏:‏ إِذَا وَافَقَ تَأْمِينُ أَهْلِ الأَرْضِ تَأْمِينَ أَهْلِ السَّمَاءِ غُفِرَ لَهُمْ‏.‏[/arb
مندرے ذیل اثر کے بارے جناب اشماریہ جی کا تبصرہ تھا کہ اس سے ایک بار آمین ثابت ہوتی ہے، حالاں کہ یہاں مضارع پر لفظ کنت داخل ہوا ہے:
وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ وَأَبُو سَعِيدِ بْنُ أَبِى عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ‏:‏ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ أَخْبَرَنَا الشَّافِعِىُّ أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ خَالِدٍ عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ عَطَاءِ قَالَ‏:‏ كُنْتُ أَسْمَعُ الأَئِمَّةَ ابْنَ الزُّبَيْرِ وَمَنْ بَعْدَهُ يَقُولُونَ آمِينَ وَمَنْ خَلْفَهُمْ آمِينَ حَتَّى إِنَّ لِلْمَسْجِدِ لَلَجَّةً‏.‏
احناف کے لیے امام کا قول ہی دلیل ہے اور امام کے قول کے سامنے حدیث صحیح کو سائیڈ سے لگا دیتے ہیں، اللہ ان کو ہدایت سے نوازے ،اگر یہ لوگ آہستہ آواز سے آمین اس لیے کہتے ہیں کہ امام صاحب نے اس طرح کہی ہے تو یہ بہت بڑی گمراہی ہے
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
اتنی ساری پوسٹس؟؟؟
پتا نہیں آپ کاپی کرتے ہیں یا تحریر لیکن میں تو اپنے وقت کے مطابق ہی جواب دے سکوں گا۔
آپ صبر کے ساتھ پڑھتے رہیئے گا۔

اشماریہ بھائی کوئی حقیقت سے لگتی بات کریں مذکورہ حدیث سے محدثین آمین بالجہر ہی مراد لیا ہے، یہ تقلید کے کرشمے ہیں کہ حدیث میں معنوی تحریف کرتے ہوے آپ کو اللہ سے ڈر نہیں لگتا ، اس حدیث کا جو معنی محدیثین نے مراد لیا ہے، وہ یہی ہے کہ امام اور مقتدی بلند آواز سے آمین کہیں گے:
امام البخاری (باب جہر الامام بالتامین)
امام ابن خزیمہ (باب الجہر بآمین عند انقضاء فاتحہ الکتاب۔۔۔۔۔)
امام نسائی (جہر الامام بآمین)
امام ابن ماجہ (باب الجہر بآمین)
سنن الکبری للبیہقی: بَابُ جَهْرِ الْإِمَامِ بِالتَّأْمِينِ
السنن الصغیر للبیہقی:بَابُ الْإِمَامِ يَجْهَرُ بِالتَّأْمِينِ فِي صَلَاةِ الْجَهْرِ وَيَقْتَدِي بِهِ الْمَأْمُومُ
المسند المستخرج علی صحیح مسلم:بَابُ الْجَهْرِ بِآمِينَ
السنن الصغری للنسائی:بَابُ الْجَهْرِ بِآمِينَ
ناسخ الحدیث و منسوخہ لاثرم:باب الجهر بالتأمين
اس کے بعد شارحین حدیث بھی اس حدیث کا یہی معنی بیان کرتے ہیں، لیکن کیا کریں احناف کا جن کو تقلید کی عینک اندھا کیے جا رہی ہے، سنن ابو داود کی شرح معالم السنن میں امام الخطابي (المتوفى: 388هـ) نےلکھا ہے:قلت فيه دليل على أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يجهر بآمين ولولا جهره به لم يكن لمن يتحرى متابعته في التأمين على سبيل المداركة طريق إلى معرفته فدل أنه كان يجهر به جهرا يسمعه من وراءه
"مذکورہ حدیث آمین بالجہر کی دلیل ہے"
اسی طرح ابن بطال نے بخاری کی شرح میں لکھا ہے:وحجة من جهر بها قوله عليه السلام: (إذا أمن الإمام فأمنوا)
یہ حدیث آمین بالجہر والوں کی دلیل ہے"
اتنے واضح دلائل کے باوجود بھی یہی رٹ لگائے رکھنا کہ اس حدیث میں آمین بالجہر کا کہیں ذکر نہیں سوائے جہالت کے کچھ بھی نہیں ہے، اور دوسری طرف یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس حدیث کو جہر اور خفا دونوں ثابت ہو رہے ، میری اشماریہ بھائی سے گزارش ہے یہ دہرا مفہوم کہاں سے اخذ کیا گیا ہے؟ حدیث کے کس لفظ میں اس کی وضاحت موجود ہے؟
کیا آپ ان کا طرز استدلال بتا سکتے ہیں؟ آخر انہوں نے یہ استدلال کیوں کیا؟
ورنہ تو یہ ایسے ہی ہے جیسے احناف اس سے یہ استدلال نہیں کر رہے۔ اس حدیث کے الفاظ سے یہ بات ثابت نہیں ہو رہی جیسا کہ میں نے وضاحت سے عرض کیا ہے۔
اب اگر اس کے مقابلے میں آپ ان ائمہ کے استدلالات بغیر دلیل کے لگا دیتے ہیں تو پھر تقلید کس بلا کا نام ہے؟
میرے محترم بھائی انہوں نے اس سے یہ استدلال کیا ہے اپنے اجتہاد کی بنا پر یا اپنے مسلک کی موافقت میں۔ میں ان کے مسلک پر ہوں نہیں اور ان کے اجتہاد کے مقابلے میں احناف کا اجتہاد زیادہ قوی ہے کیوں کہ وہ حدیث کے الفاظ کے مطابق بھی ہے، تطبیق کے موافق بھی اور دیگر دلائل کے مطابق بھی۔ (جن کا ذکر شاید بعد میں آئے)۔
آپ کس وجہ سے قبول کر رہے ہیں؟؟؟

میں نے دہرا مفہوم نہیں اخذ کیا محترم میں نے عرض کیا ہے کہ دونوں چیزیں مراد ہو سکتی ہیں، حدیث میں صراحت نہیں ہے۔ اس کا مطلب دہرا مفہوم اخذ کرنا ہوتا ہے؟

یہ تو تھا اصولی جواب۔ اب ذرا آگے دیکھیئے۔ (یہ اضافی جواب ہے)
آپ نے آٹھ محدثین کا ذکر کیا جنہوں نے اس سے جہر پر استدلال کیا ہے۔ بیہقی کی دو کتابیں لکھی ہیں۔ خطابی اور ابن بطال نے شرح کی ہے اور وہ بھی اپنے مسلک اور فقہ کے مطابق۔ (ظاہر ہے مجھے ان کے اس فعل پر کوئی اعتراض نہیں)
میں نے صرف شاملہ میں سرچ کیا تو علم ہوا کہ اس حدیث کی تخریج ان محدثین نے بھی کی ہے اور انہوں نے اس سے جہر پر استدلال نہیں کیا۔ کسی نے فضل تامین کا باب باندھا ہے اور کسی نے صرف تامین خلف الامام کا۔
مسند الشافعی (محمد بن ادریس صاحب المسلک الفقہی)
موطا مالک (مالک بن انس صاحب المسلک الفقہی)
موطا مالک بروایۃ محمد (محمد بن الحسن الشیبانی احد صاحبی ابی حنیفۃ) (موطا محمد کو الگ سے کتاب کا درجہ دیا جاتا ہے اس لیے اس کا ذکر الگ سے کیا ہے)
سنن ابی داؤد (تامین وراء الامام)
منتقی لابن جارود (قراءۃ وراء الامام)
مستدرک حاکم (التامین)
سنن الترمذی (فضل التامین)
صحیح مسلم (باب فضل قول المأموم آمين)
شرح السنۃ للبغوی (محیی السنۃ حسین بن مسعود الفرا۔ باب فضل التامین)
علامہ بغوی نے اس سے پہلے جہر بالتامین کا باب بھی قائم کیا ہے لیکن اس میں اس حدیث کو ذکر ہی نہیں کیا۔
یہ نو ہو گئے۔
اب کیا کریں؟

اگر آپ کو جہر امام پر دلیل نہیں پتا تو میں بتا دیتا ہوں محترم بھائی۔
حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ حُجْرًا أَبَا الْعَنْبَسِ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَلْقَمَةَ بْنَ وَائِلٍ يُحَدِّثُ ، عَنْ وَائِلٍ ، وَقَدْ سَمِعْتُهُ مِنْ وَائِلٍ ، أَنَّهُ " صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَلَمَّا قَرَأَ : غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ (سورة الفاتحة آية 7) ، قَالَ : آمِينَ ، خَفَضَ بِهَا صَوْتَهُ ، وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى يَدِهِ الْيُسْرَى ، وَسَلَّمَ عَنْ يَمِينِهِ ، وَعَنْ يَسَارِهِ ". مسند أبي داود الطيالسي
اس حدیث سے اس طرح استدلال کیا جا سکتا ہے اگر نبی ﷺ نے دل میں آمین فرمایا تھا تو انہوں نے کیسے سنا؟ تو پتا چلا کہ آپ نے زبان سے آمین فرمایا تھا۔
البتہ اس سے اتنی آواز نہیں ثابت ہوتی جتنی آپ لوگبیان کرتے ہیں کیوں کہ آگے خفض کا بھی ذکر ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
کیا خوب استدلال ہے کہ ایک بار ثابت ہوگا ، چلو یارو امام کے پیچھے ایک بار ایسی آمین کہہ کر تو دکھاؤ کہ جس سے مسجد گونج جائے، لیکن آپ کا کیا کر سکتے ہین تقلید کے سامنے بے بس ہیں
حرم مکی میں جاؤں گا تو ان شاء اللہ ایسے ہی آمین کہوں گا۔ ٹھیک ہے؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
مین نے ابھی اس حدیث کے بارے بات ہی نہیں کی ، لیکن اس حدیث سے بھی آمین بالجھر ہی ثابت ہوتا ہے، حافظ ابن حجرعسقلانی رقم طراز ہیں:
قال الزبیر بن المنیر مناسبة الحدیث للترجمة من جھة ان فی الحدیث الامر بقول امین و القول اذا وقع به الخطاب مطلقا حمل علی الجھر و متی ارید بہ الاسرار او حدیث النفس قید بذلک و قال ابن رشید تؤخذ المناسبة منه من جھات منھا انه قال اذا قال الامام فقولوا فقابل القول بالقول و الامام انما قال ذلک جھرا فکان الظاھر الاتفاق فی الصفة و نھا انه قال فقولوا و لم یقیدہ بجھر و لا غیر و ھو مطلق فی سیاق الاثبات و قد عمل به فی الجھر بدلیل ما تقدم یعنی فی مسئله الامام و المطلق اذا عمل به فی صورة لم یکن حجة فی غر ما بالاتفاق و منھا انه تقدم ان الماموم مامور بالاقتداء بالامام و قد تقدم ان الاممام یجھر فلزم جھرہ بجھرہ و ھذا الاخیر سبق الیه ابن بطال و تعقب بانه یستلزم ان یجھر الماموم بالقرأة لان الامام جھر بھا لکن یمکن ان ینفصل عنه بان الجھر باقرأة خلف الامام قد نھی عنه فبقی التامین و اخلا تحت عموم الامر باتباع الامام و یتوی ذلک بما تقدم عن عطاء ان من خلف ابن الزبیر کانوا یؤمنون جھرا و روی البیہقی من وجه ان عطاء قال ادرکت مائتین من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فی ھذا المسجد اذا قال الامام و لا الضالین سمعت لھم رجة بامین
زبیر بن منیر کہتے ہیں کہ حدیث سے ترجمہ باب کی مناسبت کئی طرح سے ہے، حدیث میں آمین کہنے کا حکم ہے اور قول کے ساتھ جب خطاب مطلق واقع ہو، تو اسے جہر پر محمول کیا جاتا ہے اور اگر اس سے سر مراد ہو، تو اسے مقید طور پر بیان کیا جاتا ہے، دوسرا یہ کہ آپ نے قال کے مقابلہ میں قولوا فرمایا ہے اور جب قول، قول کے مقابل ہو تو اس سے وہی کیفیت مراد ہوتی ہے۔ جو پہلے کی ہو، تو جب امام و لا الضالین بلند آواز سے کہے گا۔ تو آمین بھی بلند آواز سے ہو گی، تیسری یہ کہ قولوا کا لفظ مطلق واقع ہوا ہے اور اس پر جہر کی صورت میں عمل ہوا ہے تو مطلق پر جب ایک صورت میں عمل ہو جاوے تو وہ بالاتفاق دوسری صورت میں حجت نذہیں رہتا، چوتھی یہ کہ مقتدی کو امام کی اقتداء کا حکم ہے اور چوں کہ امام جہر سے قرأت کرتا ہے لہذا مقتدی بھی جہر سے آمین کہے گا۔ اس پر اعتراض یہ ہو سکتا ہے کہ امام قرأت جہر سے کرتا ہے اور مقتدی جہر سے نہی کرتا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ قرأت بلند آواز سے نص صریح سے بند ہو گئی، لیکن آمین چونکہ قرأت نہیں تھی۔ وہ اپنے حال پر باقی رہی اور اس سے پہلے سے گذر چکا ہے کہ ابن زبیر اور ان کے مقتدی بلند آواز سے آمین کہتے تھے عطاء کہتے ہیں کہ میں نے دو سو صحابہ کو اس مسجد میں بلند آواز سے آمین کہتے دیکھا ہے۔ مسجد کانپ جاتی تھی۔
اس میں چار استدلالات ہیں:۔
  1. قول کے ساتھ خطاب مطلق ہو تو جہر پر محمول کیا جاتا ہے۔
  2. قول، قول کے مقابلے میں ہو تو اس سے وہی کیفیت مراد ہوتی ہے۔
  3. قولوا کا لفظ مطلق واقع ہوا ہے اور اس پر جہر کی صورت میں عمل ہوا ہے۔
  4. امام جہر سے قراءت کرتا ہے تو مقتدی اقتدا میں جہر کرے گا۔
چوں کہ ہم فقہ اور اصول فقہ پڑھتے پڑھاتے رہتے ہیں اس لیے اس قسم کے استدلال کوئی نئی چیز نہیں ہیں۔ اسی کو فقہ کہتے ہیں۔ اب اسے ان کا اجتہاد یا مسلک کہیے تو بہت بہتر لیکن اگر مجھے رد کا کہیے تو دو طرح سے رد کروں گا۔
  1. ان تمام اصولوں کو ثابت بھی کرنا ہوگا۔
  2. یہ تمام اصول قولوا ربنا لک الحمد میں جاری ہو رہے ہیں لیکن وہاں جہر مراد نہیں ہے۔ کیوں؟ معلوم ہوا کہ یہ اصول درست نہیں ہیں۔

عطا کی دو سو صحابہ سے ملاقات کے بارے میں اوکاڑویؒ کہتے ہیں کہ ثابت ہی نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔ کیا آپ ثابت کر سکتے ہیں؟
ٌجناب ہمیں آپ نے کہاں دیکھ لیا ہے جو عینک طعنے برسنے شروع ہو گئے ہیں؟
یہ طعنہ ہے؟ یا للعجب
میں بھی عینک لگاتا ہوں۔ آپ مجھے یہ طعنہ واپس دے دیں۔

شاید آپ کو علم نہیں ہے کہ اہل حدیث تسمیع اور تحمید دونوں کے قائل ہیں، اور ایسے حالات میں امام کی آواز نہ سننے والا مقتدی مکبر کی آواز کو سن کر اگلے رکن میں داخل ہوتا ہے، یعنی پیچھے والے مقتدی مکبر کی آواز سنے بغیر کچھ نہیں کرتے، گویا مکبر ان کے لیے امام بن جاتا ہے، یہ تو تھا آپ کی اوپر والی بات کا جواب اور کچھ مزید ہماری بھی فرمائش ہے
میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ اس معاملے میں یہود اور احناف مشترک ہیں، مجھے بتاؤ کہ وہ کونسی آمین تھی جس سے یہود کو حسد تھا، کیا نماز والی آمین تھی یا کہ نماز کے علاوہ تھی
کیا احناف پاس کوئی ایسی دلیل موجود ہے جس میں آمین بغیر آواز کے کہنے کا ذکر ہو اور اس میں کسی قسم کا ضعف بھی نہ ہو صرف ایک حدیث دکھا دو
کیا ایک حدیث عنایت فرمائیں گے کہ اذا کبر المکبر فقولوا ربنا لک الحمد؟
یا مکبر مقتدیوں کا امام بن جاتا ہے اس پر کوئی حدیث؟
ورنہ یہ سمپل قیاس ہوگا اور پھر قیاس کے اصولوں کی روشنی میں اس کا "جائزہ" لیں گے۔
یہود اور احناف کا پہلے بھی جواب دے چکا ہوں۔ پھر دے دوں گا بحث کے آخر میں ان شاء اللہ۔
 
Top