• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

احناف عقائد میں تقلید کیوں نہیں کرتے؟ اس وسوسے کا جواب

شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
420
پوائنٹ
57
السلام علیکم
راجا صاحب مشارکت کا شکریہ اور مناسب نشاندہی فرمائی ، لیکن راجا صاحب ،پرجا کو کیوں لڑاتے ہو ہم تو آپ کی پرجا ہیں آپ ہی کچھ رہنمائی فرمادیتے تو اچھا تھا ( مذاق) جناب والا میرے مخاطب غیر مقلدین حضرات ہیں نہ کہ احناف ،بحیثیت انسان کے وہ بھی انسان اور میں بھی انسان جہاں تک ان کی تحقیق تھی انہوں نے بیان کردیا ،میری تحقیق آپ کے سامنے ہے ،اور اگر یہی بات ہے تو یہ بات آپ کے یہاں بھی پائی جاتی ہے ،نواب صدیق حسن کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ وہ اپنے ہی فرقے کو حدف تنقید بناتے ہیں،اور میں سمجھتا ہوں کہ یہی ٹرننگ پوائنٹ ہے ، آپ موضوع کو دوسرا رخ دینا چاہتے ہیں ،اور پھر بات الجھتی چلی جائےگی ،اور اخیر میں ٹھیکرا ہمارے سر پھوڑدیا جائےگا،اور فتویٰ لگادیا جائیگا کہ حنفی راہ حق سے فرار کرجاتے ہیں ، اس لئے میری گزارش ہے کہ موضوع کو دوسرا رخ نہ دیں ۔ فقط والسلام
عابد الرحمٰن بجنوری
میں مولانا عابد الرحمٰن صاحب بجنوری مد ظلہ العالی سےاس نکتے کی حد تک اتفاق کرتا ہوں کہ تمام احناف اورآئمہ ثلاثہ کے مقلدین عقائد میں امام ابوالحسن اشعری و امام ابو منصور الماتریدی رحمہم اللہ کے فروعی مسائل و اصولوں کی تبین و وضاحت میں تقلید (لغوی) کرتے ہیں۔ :):)
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
برادر مضمون ہی جواب ہے۔
ﺗﻮ ﺟﻮﺍﺏ ﺳﻤﺠﮫ ﻣﻴﮟ ﻧﮩﻴﮟ ﺁﻳﺎ۔ ﺍﺳﮯ ﻣﺨﺘﺼﺮ ﮐﺮ ﺩﻳﺠﻴﮯ۔ ﺑﮍﯼ ﻣﮩﺮﺑﺎﻧﯽ ﮨﻮﮔﯽ۔
 
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
420
پوائنٹ
57
ﺗﻮ ﺟﻮﺍﺏ ﺳﻤﺠﮫ ﻣﻴﮟ ﻧﮩﻴﮟ ﺁﻳﺎ۔ ﺍﺳﮯ ﻣﺨﺘﺼﺮ ﮐﺮ ﺩﻳﺠﻴﮯ۔ ﺑﮍﯼ ﻣﮩﺮﺑﺎﻧﯽ ﮨﻮﮔﯽ۔
تقلید جیسا کہ تعریف کی گئی ہے اس کے دو اساسی رکن ہیں
١۔ عمل
٢۔ عمل جس قول کی بنیاد پر ہو اسکا مجتھد فیہ ہونا
جبکہ عقائد میں عمل عنقا ہوتا ہے۔ عقائد تو پختہ نظریات ہوتے ہیں ۔جیسا کہ تعریف سے واضح ہے
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
ﻋﺎﺑﺪ ﺻﺎﺣﺐ ! ﺁﭖ ﺟﻮ ﺑﻮﻟﺘﮯ ﮨﻴﮟ ﻭﮦ ﺁﭖ ﺧﻮﺩ ﺳﻤﺠﮫ ﻟﻴﺘﮯ ﮨﻴﮟ؟
السلام علیکم
اگر میں بھی یہی کہوں کہ غیر مقلدین خود ہی کہہ لیتے اور خود ہی سمجھ لیتے ہیں ،اگر ہماری سمجھ میں آپ کی بات آجاتی تو ہم بھی غیر مقلد ہوجاتے ، اگر ہم فقہ اور عقائد میں بھی مقلد کہلائیں تو اس میں کون سا آسمان ٹوٹ گیا،استاذ جو درس دیتا ہے اس درس کی نسبت اسی استاذ کی طرف کی جاتی ہے ،خانہ کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی جاتی یا خانہ کعبہ کا طواف کیا جاتا ہے ،اگر اس کو حقیقی معنیٰ پر محمول کیا جائے تو کھلا شرک یا کفر ہے اور غیر مسلم بھی یہ اعتراض اٹھاتئے ہیں کہ مسلمان خانہ کعبہ کی پوجا کرتے ہیں اب کیا کہیں گے بظاہر تو ان کا اعترض قوی ہے، کوئی ڈاٹر دوا دیتا ہے دوا سے فائدہ بھی ہوتا ہے نقصان بھی تو کیا یہ نفع نقصان پہنچانا ڈاکٹر کے ھاتھ میں ہے یا دوا میں یہ تاثیر ہے کہ وہ نفع نقصان پہنچائے ،سب جانتے ہیں کہ یہ سب اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے لیکن معنوی طور پر ڈاکٹر یا دوا کا ہی نام لیا جا تا ہے،ایسے ہی دینی معلومات کے ذرائع ہیں تو جن ذریعوں یا واسطوں سے علم حاصل ہوا ان ہی کا نام لیا جائگا گو معلم حقیقی اللہ تعالیٰ ہے ،ایسے ہی جس ادارے یا کالج سے تعلیم حاصل کی جاتی ہے تو اس کے فارغین اسی ادارے کا نام اپنے ساتھ جوڑتے ہیں جس سے اخیر میں فراغت حاصل کی نہ کہ ابتدائی اسکول یا مدرسہ کا،اس طرح آپ بھی مقلد ہیں اور تمام محدثین مقلد ہیں نہیں تو کیا وجہ ہے کہ کہتے ہیں ’’حدثنی فلاں عن فلاں ‘‘ بس سیدھا یہ کہنا چاہیے قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔درمیان کے سب واسطوں ختم کردینا چاہئے ،اور یہ بھی ختم کردینا چا ہئے ’’رواہ البخاری ‘‘کیا امام بخاری احادیث اپنے گھر سے لائے تھے ،نہیں بلکہ انہوں نے فلاں فلاں سے اور فلاں نےنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تو تقلید کا یا روایت ایک طویل سلسلہ اوپر سے چلا آرہا ہے اور جو راوی ہوتا ہے اس کو استاذ ،علامہ یا امام اور موجودہ زمانہ میں دکتور کہا جاتا ہے،نیز جو نیک ہوتے ہیں ان کو فرشتوں سے نسبت دی جاتی ہے اور جو برے لوگ ہوتے ہیں ان کو شیطان کا مقلد کہا جاتا ہے، اور سنئے مقلد تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی تھے ،جی ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مقلد تھے اور وہ تھے قرآن پاک کے، سنئے وہ کیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’ وما ینطق عن الھویٰ ان ھو الا وحی یوحیٰ‘‘آپ جو کچھ بھی فرماتے وہ قرآن شریف سے فرماتے تھے اور قرآن شریف کیا ہے وہ وحی الٰہی ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف سے کچھ بھی بیان نہیں فرماتے تھے ، اگر ایسا ہو تا تو کفار مکہ کی تصدیق ہوجاتی ،اب بتائے آپ من چاہی کرتے ہیں یا رب چاہی اب یہ سوال میں آپ سے کرتا ہوں کہ آپ کون سے خانے میں ہیں ، مقلدین یا غیر مقلدین ،رب چاہی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام ،اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس لئے طعن تشنیع ہمیں نہ کرئے کیونکہ ہم دین کے تمام معاملات میں رب چاہی اور نبی چاہی کرتے ہیں ،ائمہ اربعہ ہوں یا کوئی اور عالم وہ بس عالم ہیں اور ہمارے استاذوں کے استاذ اس لئے محترم ہیں ہمارے اعمال اورایمان کا ان حضرات سے کوئی تعلق نہیں چاہے کوئی کس پایہ کا عالم ۔اب یوں نہ کہیے کہ بات سمجھ میں نہیں آئی ،اچھی بات سمجھ میں نہیں آتی بس جس کے مقدر میں ہوتی ہے،والحمد علیٰ ذالک ،اس مضمون کو لکھ کر اتنی خوشی ہے کہ میں بیان نہیں کرسکتا آج مجھے اپنے حق پر ہونے کا شرح صدر ہوگیا۔ ابن جوزی صاحب آپ فکر نہ کریں ۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
عابد الرحمٰن بجنوری
مدنی دارالافتاء
بجنور ئوپی انڈیا
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,656
پوائنٹ
186
ﻋﺎﺑﺪ ﺻﺎﺣﺐ ! ﺁﭖ ﺟﻮ ﺑﻮﻟﺘﮯ ﮨﻴﮟ ﻭﮦ ﺁﭖ ﺧﻮﺩ ﺳﻤﺠﮫ ﻟﻴﺘﮯ ﮨﻴﮟ؟
مجھے نہیں لگتا عابدالرحمٰن صاحب خود سمجھ لیتے ہونگے !!!
الله سبحانہ و تعالیٰ اعلم !!!
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
میں مولانا عابد الرحمٰن صاحب بجنوری مد ظلہ العالی سےاس نکتے کی حد تک اتفاق کرتا ہوں کہ تمام احناف اورآئمہ ثلاثہ کے مقلدین عقائد میں امام ابوالحسن اشعری و امام ابو منصور الماتریدی رحمہم اللہ کے فروعی مسائل و اصولوں کی تبین و وضاحت میں تقلید (لغوی) کرتے ہیں۔ :):)
محترم آپ پہلے دیوبندیت میں اپنی حیثیت کا تعین کردیں کہ آپ کا اور آپکے قول و فہم کا کتنا اعتبار ہے۔ کیونکہ آپکے تمام اکابرین اس پر متفق ہیں کہ مقلد عقیدہ میں بھی تقلید کرتا ہے۔ ہم آپکی بات مانیں یا آپ کے اکابرین کی؟

یا تو آپ اعلان کردیں کہ آپکو اس مسئلہ کی زیادہ سمجھ ہے اور آپکے اکابرین اس مسئلہ میں غلطی پر تھے۔ یا پھر شرافت سے مان لیں کہ آپ عقیدہ میں بھی مقلد ہیں۔ کیوں اپنے مذہب کو تماشہ بنا رہے ہیں؟

آپ جو اپنی تحقیق پر اتنا ناز کر رہے ہیں۔ آپ ہی کے عالم عابدالرحمن صاحب نے آپ کے مخالف موقف پیش کرکے آپکے تحقیقی مضمون پر پانی پھیر دیا ہے۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
اور سنئے مقلد تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی تھے ،جی ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مقلد تھے اور وہ تھے قرآن پاک کے، سنئے وہ کیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’ وما ینطق عن الھویٰ ان ھو الا وحی یوحیٰ‘‘آپ جو کچھ بھی فرماتے وہ قرآن شریف سے فرماتے تھے اور قرآن شریف کیا ہے وہ وحی الٰہی ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف سے کچھ بھی بیان نہیں فرماتے تھے ،
نعوذباللہ من ذالک!
اللہ اس شدید گمراہی سے تمام مسلمانوں کو محفوظ رکھے۔ شاتم رسول کے سر پر سینگ تو نہیں ہوتے یہی لوگ ہیں اور ایسے ہی جملے ہیں جن کے ذریعے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر سب و شتم کیا جاتا ہے۔ عابد الرحمنٰ صاحب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مقلد کہنے سے پہلے اپنے علماء ہی کے اقوال پڑھ لیتے کہ ایک مقلد کو وہ کیا سمجھتے ہیں۔ لیجئے پڑھ لیجئے:
شرم تم کو مگر نہیں‌ آتی۔

دیوبندیوں کے نزدیک انکے امام ابوحنیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل ہیں کیونکہ یہ اپنے امام کو مقلد نہیں کہتے لیکن شرم و حیا کو بالائے طاق رکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مقلد کہہ دیتے ہیں۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
السلام علیکم
اگر میں بھی یہی کہوں کہ غیر مقلدین خود ہی کہہ لیتے اور خود ہی سمجھ لیتے ہیں ،اگر ہماری سمجھ میں آپ کی بات آجاتی تو ہم بھی غیر مقلد ہوجاتے ، اگر ہم فقہ اور عقائد میں بھی مقلد کہلائیں تو اس میں کون سا آسمان ٹوٹ گیا،استاذ جو درس دیتا ہے اس درس کی نسبت اسی استاذ کی طرف کی جاتی ہے ،خانہ کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی جاتی یا خانہ کعبہ کا طواف کیا جاتا ہے ،اگر اس کو حقیقی معنیٰ پر محمول کیا جائے تو کھلا شرک یا کفر ہے اور غیر مسلم بھی یہ اعتراض اٹھاتئے ہیں کہ مسلمان خانہ کعبہ کی پوجا کرتے ہیں اب کیا کہیں گے بظاہر تو ان کا اعترض قوی ہے، کوئی ڈاٹر دوا دیتا ہے دوا سے فائدہ بھی ہوتا ہے نقصان بھی تو کیا یہ نفع نقصان پہنچانا ڈاکٹر کے ھاتھ میں ہے یا دوا میں یہ تاثیر ہے کہ وہ نفع نقصان پہنچائے ،سب جانتے ہیں کہ یہ سب اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے لیکن معنوی طور پر ڈاکٹر یا دوا کا ہی نام لیا جا تا ہے،ایسے ہی دینی معلومات کے ذرائع ہیں تو جن ذریعوں یا واسطوں سے علم حاصل ہوا ان ہی کا نام لیا جائگا گو معلم حقیقی اللہ تعالیٰ ہے ،ایسے ہی جس ادارے یا کالج سے تعلیم حاصل کی جاتی ہے تو اس کے فارغین اسی ادارے کا نام اپنے ساتھ جوڑتے ہیں جس سے اخیر میں فراغت حاصل کی نہ کہ ابتدائی اسکول یا مدرسہ کا،اس طرح آپ بھی مقلد ہیں اور تمام محدثین مقلد ہیں نہیں تو کیا وجہ ہے کہ کہتے ہیں ’’حدثنی فلاں عن فلاں ‘‘ بس سیدھا یہ کہنا چاہیے قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔درمیان کے سب واسطوں ختم کردینا چاہئے ،اور یہ بھی ختم کردینا چا ہئے ’’رواہ البخاری ‘‘کیا امام بخاری احادیث اپنے گھر سے لائے تھے ،نہیں بلکہ انہوں نے فلاں فلاں سے اور فلاں نےنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تو تقلید کا یا روایت ایک طویل سلسلہ اوپر سے چلا آرہا ہے اور جو راوی ہوتا ہے اس کو استاذ ،علامہ یا امام اور موجودہ زمانہ میں دکتور کہا جاتا ہے،نیز جو نیک ہوتے ہیں ان کو فرشتوں سے نسبت دی جاتی ہے اور جو برے لوگ ہوتے ہیں ان کو شیطان کا مقلد کہا جاتا ہے، اور سنئے مقلد تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی تھے ،جی ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مقلد تھے اور وہ تھے قرآن پاک کے، سنئے وہ کیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’ وما ینطق عن الھویٰ ان ھو الا وحی یوحیٰ‘‘آپ جو کچھ بھی فرماتے وہ قرآن شریف سے فرماتے تھے اور قرآن شریف کیا ہے وہ وحی الٰہی ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف سے کچھ بھی بیان نہیں فرماتے تھے ، اگر ایسا ہو تا تو کفار مکہ کی تصدیق ہوجاتی ،اب بتائے آپ من چاہی کرتے ہیں یا رب چاہی اب یہ سوال میں آپ سے کرتا ہوں کہ آپ کون سے خانے میں ہیں ، مقلدین یا غیر مقلدین ،رب چاہی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام ،اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس لئے طعن تشنیع ہمیں نہ کرئے کیونکہ ہم دین کے تمام معاملات میں رب چاہی اور نبی چاہی کرتے ہیں ،ائمہ اربعہ ہوں یا کوئی اور عالم وہ بس عالم ہیں اور ہمارے استاذوں کے استاذ اس لئے محترم ہیں ہمارے اعمال اورایمان کا ان حضرات سے کوئی تعلق نہیں چاہے کوئی کس پایہ کا عالم ۔اب یوں نہ کہیے کہ بات سمجھ میں نہیں آئی ،اچھی بات سمجھ میں نہیں آتی بس جس کے مقدر میں ہوتی ہے،والحمد علیٰ ذالک ،اس مضمون کو لکھ کر اتنی خوشی ہے کہ میں بیان نہیں کرسکتا آج مجھے اپنے حق پر ہونے کا شرح صدر ہوگیا۔ ابن جوزی صاحب آپ فکر نہ کریں ۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
عابد الرحمٰن بجنوری
مدنی دارالافتاء
بجنور ئوپی انڈیا
مفتی صاحب کی اس گفتگو سے معلوم ہورہا ہے کہ مولانا صاحب تقلید کے ابجد سے بھی واقف نہیں۔ بہرحال میرا تو مفتی عابد الرحمن صاحب کو خوبصورت مشورہ یہ ہے کہ وہ اس مضمون کو تین، چار بار بغور پڑھ لیں۔ تاکہ تقلید کیا ہے؟ جس کی وجہ سے فریقین میں اختلاف رونما ہوا ہے مفتی صاحب کو سمجھ آجائے۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
نعوذباللہ من ذالک!
اللہ اس شدید گمراہی سے تمام مسلمانوں کو محفوظ رکھے۔ شاتم رسول کے سر پر سینگ تو نہیں ہوتے یہی لوگ ہیں اور ایسے ہی جملے ہیں جن کے ذریعے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر سب و شتم کیا جاتا ہے۔ عابد الرحمنٰ صاحب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مقلد کہنے سے پہلے اپنے علماء ہی کے اقوال پڑھ لیتے کہ ایک مقلد کو وہ کیا سمجھتے ہیں۔ لیجئے پڑھ لیجئے:
شرم تم کو مگر نہیں‌ آتی۔

دیوبندیوں کے نزدیک انکے امام ابوحنیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل ہیں کیونکہ یہ اپنے امام کو مقلد نہیں کہتے لیکن شرم و حیا کو بالائے طاق رکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مقلد کہہ دیتے ہیں۔
السلام علیکم
میں آئینہ ہوں دکھاتا ہوں داغ چہرے کے
جسے برا لگے سامنے سے ہٹ جائے​
ابھی تک تو میری بات کسی کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی اب کیسے آگئی پہلے تو یہ فیصلہ کرلیاجئے کہ کون بات سمجھتا ہے اور کون نہیں اور یہ فیصلہ آپ خود آپس میں کرلیں کہ کون سمجھ دار ہے۔ چلئے یہ تو آپ کا اندرونی معاملہ ہمیں اس سے کیا لینا دینا،ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ اچھی بات سمجھ میں نہیں آتی،بس اتنا اور کہد و’انک لمجنون‘‘بس بات ختم ،ارے بھائی میری عادت اختصار سے بات کرنے کی ہے اگر ہرہر بات کی وضاحت کروں تو ایک کتاب مرتب ہوجائے ،میں یہ سمجھتا تھا کہ میرے مخاطب اہل علم ہیں اس لئےبات کو سمجھ لیں گے،لیجئے، دوسرے طریقہ سے بات کرتا ہوں،بس کہنے کا اور سمجھنے کا فرق ہے،
اس تھریڈ کا موضوع ہے ’’احناف عقائد میں تقلید کیوں نہیں کرتے‘‘ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ میں موضوع کے برعکس بول رہا ہوں جبکہ ایسا نہیں ہے
ہر چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں اچھا بھی برا بھی،معنیٰ حقیقی بھی مراد ہو تے ہیں اور معنوی یا نسبتی بھی، کبھی کل بول کر جزو مراد لیا جاتا ہے اور کبھی جزو بول کر کل مراد لیا جاتا ہے
آپ حضرات بولتے ہیں حنفی ایسا کرتے ہیں تو گویا اس میں استاذ شاگرد سبھی شامل ہوگئے،جس کا مطلب یہ ہوا کہ مام ابو حنیفہ بھی ایسا ہی کرتے ہوں گے ،اب ظاہر ہے امام ابو حنیفہ بھی وہی کرتے ہوں گے جو صحابہ کرام کرتے ہوں گے ،اب صحابہ کرام کیا کرتے ہوں گے یہ وہی کرتے ہوں گے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے یا فرمایا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس کے تابع تھے وہ کہاں سے کرتے تھے ،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمان الٰہی کے مطابق کرتے تھے اور فرمان الٰہی کیا ہے وہ وحی یا جس کو ہم قرآن پاک کہتے ہیں ،یوں بھی کہہ سکتے ہیں وحی متلو اوروحی غیر متلو ،نتیجہ کلام یہ نکلا کہ احناف حقیقۃًقولاوفعلاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہیں اور معنوی طور پر امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی ۔اب کیونکہ امام ابوحنیفہ کے ذریعہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاقول و عمل ہم تک پہنچااس لئے وہ ہمارے متبع ہوئے، اور ایسا ہی آپ کے یہاں بھی ہے ،جیساکہ آپ لوگ فرماتے ہیں رواہ البخاری ،یا ابن تیمیہ نے ایسا کہا یا ابن قیم وغیرہ وغیرہ نے،جس کا نام ہے تقلید اتباع ،آپ لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں بیچ کے سب واسطوں کو نکالو اور سیدھا یہ کہو قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ،
عقائد ہوں یا اصول فقہ۔اتباع کرنا چونکہ اوپر سے چلا آرہا ہے جس کی مثال میں اپنے سابقہ مراسلہ میں پیش کر چکاہوں مزید اضافہ کے ساتھ دوبارہ ملاحظہ فرمالیں۔
تقلیدشخصی یا اتباع شخصی کی مثال
(۱)اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْم صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْہِمْ ہمیں سیدھی راہ دکھا ان لوگوں کی جن پر تونے انعام کیا
یہاں مرد واضح ہے یعنی نیک اشخاص،یہاں متعین نہیں ہے ،اگر متعین ہوتے تو اللہ تعالیٰ یوں فرماتے ’’صِرَاطَ اللہ ِ‘‘یا’’ صِرَاطَ الرسولِ‘‘
(۲)وَوَہَبْنَا لَہٗٓ اِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ۝۰ۭ كُلًّا ہَدَيْنَا۝۰ۚ وَنُوْحًا ہَدَيْنَا مِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّيَّتِہٖ دَاوٗدَ وَسُلَيْمٰنَ وَاَيُّوْبَ وَيُوْسُفَ وَمُوْسٰي وَہٰرُوْنَ۝۰ۭ الیٰ آیۃ ’’ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ ہَدَى اللہُ فَبِہُدٰىہُمُ اقْتَدِہْ۝۰ۭ‘‘ (پ ۷ سورہ انعام آیت ۸۰ تا ۹۰) ’’یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت دی تھی تو آپ بھی ان ہی کے طریق پر چلئے‘‘،
مذکورہ آیت شریفہ میں واضح طور پر اللہ تعالیٰ نے ہدایت یافتہ حضرات کا ذکر فرماکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت فرمائی کہ آپ بھی ان ہی کے طریقہ پر چلئے،(سمجھے شاہد نذیر صاحب) باقی میں اس سے پہلے مراسلہ میں عرض کر چکا ہوں ’’ والوالامر منکم‘‘ کے ذیل میں،اب سنئے جماعت کی اہمیت کہ تفریق یا آزاد روش کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا،
(۱) یداللہ علی الجماعۃ
(۲) من شَذ شُذفی النار(یعنی جو جماعت الگ ہوا وہ جہنم میں بھی تنہا ہوگا)
(۳) اتبعو سَواد الاعظم (امت کی بڑی جماعت کی اتباع کرو)اور بڑی جماعت کون سی ہے وہ احناف کی ہے۔
اتنی وضاحت کے بعد بات سمجھ میں آجانی چاہئے ،سنئےعلم دو طرح کا ہے ایک کا تعلق مسئلہ مسائل یا فقہ سے ہے اور دوسرے کا تعلق عقائد سے یا ایمانیات سے ہے ،اب یہ ایمان کیا ہے یہ ایمان وہی ہے جس کا آدم علیہ السلام سے لیکر تمام انبیاء نے اقرار کیا اور یہ ایمان سب کا ایک ہی تھا ،شریعت میں البتہ فرق تھا ، جس میں حالات کے اعتبار سے تبدیلی ہوتی رہی ، ایمان میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ، وضا حت ضرور فرمائی گئی جیسا کہ حدیث جبریل(بَيْنَمَا نَحْنُ جُلُوسٌ عِنْدَ رَسُولِ الله ص ذَاتَ يَوْمٍ، إذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ، شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعْرِ، لا يُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ، وَلا يَعْرِفُهُ مِنَّا أحَدٌ، حَتَّى جَلَسَ إلَى النَّبِيِّ ص، فَأَسْنَدَ رُكْبَتَيْهِ إلَى رُكْبَتَيْهِ، وَوَضَعَ كَفَّيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ، وَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، أخْبِرْنِي عَنْ الإسْلاَمِ. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ص: الإِسْلاَمُ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لاَ إِلهَ إِلاَ اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللهِ، وَتُقِيمَ الصَّلاَةَ، وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ، وَتَصُومَ رَمَضَانَ، وَتَحُجَّ الْبَيتَ إِن اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيلاً. قَالَ: صَدَقْتَ، فَعَجِبْنَا لَهُ يَسْأَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ. قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الإِيْمَانِ، قَالَ: أَنْ تُؤْمِنَ بِاللهِ، وَمَلاَئِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْيَوْمِ الآخِرِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ. قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الإِحْسَانِ. قَالَ: أَنْ تَعْبُدَ اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ. قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ السَّاعَةِ، قَالَ: مَا الْمَسْؤُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ. قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنْ أَمَارَاتِهَا، قَالَ: أَنْ تَلِدَ الأَمَةُ رَبَّتَهَا، وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَاءَ الشَّاءِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ. ثُمَّ انْطَلَقَ فَلَبِثْتُ مَلِيًّا ثُمَّ قَالَ: يَا عُمَرُ أَتَدْرِي مَنِ السَّائِلُ؟ قُلْتُ: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَإِنَّهُ جِبْرِيْلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِيْنَكُمْ )(رَوَاهُ مُسْلِمٌ) سے ثابت ہے،اورایمان یا عقائد جیسا کہ اس حدیث مبارکہ میں وضاحت ہے یہ ایمان کی بنیاد ہےجس میں تبدیلی نہیں کی جا سکتی ،جن طرق سے یہ حدیث روایت کی گئی ہے اس راوی کی طرف نسبت کا نام اگر تقلید ہے تو یہ آپ بھی کرتے ہیں۔
تو حقیقی طور پر عقا ئد ہوں یا فقہ ہم اتباع کرتے ہیں قرآن پاک کی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اور بھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی،رہی مسائل کی بات تو موقعہ محل اور ضرورت کے اعتبار سے ا صول فقہ کی روشنی میں کل بھی حل ہوتے تھے اور آج بھی ،اوراصول فقہ کیا ہیں وہ قرآن و احادیث صلی اللہ علیہ وسلم اور آثار الصحابہ کی رہنمائی میں مقرر کردہ قوانین ہیں ، جن کی وجہ سے گمراہ ہونے کے امکانات ختم ہوجاتے ہیں۔
فرشتہ خود کو بتانے سے کچھ نہیں ہوتا
ندی میں روز نہانے سے کچھ نہیں ہوتا
یہ مشورہ ہے کہ سورج کی مان لو ورنہ
چراغ دن میں جلانے سے کچھ نہیں ہوتا​
 
Top