• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

احناف عقائد میں تقلید کیوں نہیں کرتے؟ اس وسوسے کا جواب

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
آپ کے صرف کہہ دینے سے بات نہیں بنے گی۔
اس لیے
پہلے امام صاحب کا وہ قول بسند صحیح امام صاحب سے ثابت کریں جس سے اصول اخذ کیا گیا ہے۔
پھر اگلا کام ہوگا۔
محترم جہاں سے آپ اصول اخذ کرتے ہیں وہیں سے وہ کرتے ہیں اب قرآن وحدیث کی تعلیم تو میں دینے سے رہا اگر آپ کو اپنے علم پر زیادہ ناز ہے اور دوسروں کو کم علم جاہل بد دین ثابت کرنا چاہیں تو اس کا میرے پاس کوئی علاج نہیں
آپ کے یہاں وہ صحیح ہے جو آپ کو چھا لگتا ہو آپ کسی عالم کو عالم ہی نہیں سمجھتے ہمیں اپنے بڑوں کے علم پر اعتما دہے۔آپ جو اصول بیان کرنا چاہتے ہیں وہ اصول میں نے پڑھ لئے ہیں ۔ایک طرف تو مقلدین کو برا بھلا کہتے ہیں اوردوسری اگر آپ کے مطلب کی بات ائمہ ثلاثہ سے مل جائےتووہی ائمہ ثلاثہ آپ کے محترم بن جاتے ہیں ۔ یہ بتادیں آپ نے اور اساتذہ نےاور انکے اوپر تک علم کہاں سے سیکھا ہے یہ سب دیوبند کی دین ہے ۔یہ ایسا ہی ہے احمد رضا خاں نے دیوبند سے تعلیم حاصل کی اور پھر ان ہی پر تلوار بھی چلائی ابھی حال ہی میں دیوبند کچھ طلبہ پکڑے گئے جو تعلیم تو دیوبند میں حاصل کرہے ہیں اور تبلیغ غیر مقلدیت کی کرہے تھے تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کسی مکتب خاص کے اجرت دار کارندے تھے
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
۱۔محترم جہاں سے آپ اصول اخذ کرتے ہیں وہیں سے وہ کرتے ہیں
۲۔اب قرآن وحدیث کی تعلیم تو میں دینے سے رہا
۳۔ اگر آپ کو اپنے علم پر زیادہ ناز ہے اور دوسروں کو کم علم جاہل بد دین ثابت کرنا چاہیں تو اس کا میرے پاس کوئی علاج نہیں
۴۔ آپ کے یہاں وہ صحیح ہے جو آپ کو چھا لگتا ہو آپ کسی عالم کو عالم ہی نہیں سمجھتے
۵۔ ہمیں اپنے بڑوں کے علم پر اعتما دہے۔
۶۔آپ جو اصول بیان کرنا چاہتے ہیں وہ اصول میں نے پڑھ لئے ہیں ۔
۷۔ ایک طرف تو مقلدین کو برا بھلا کہتے ہیں اوردوسری اگر آپ کے مطلب کی بات ائمہ ثلاثہ سے مل جائےتووہی ائمہ ثلاثہ آپ کے محترم بن جاتے ہیں ۔
۸۔ یہ بتادیں آپ نے اور اساتذہ نےاور انکے اوپر تک علم کہاں سے سیکھا ہے یہ سب دیوبند کی دین ہے ۔یہ ایسا ہی ہے احمد رضا خاں نے دیوبند سے تعلیم حاصل کی اور پھر ان ہی پر تلوار بھی چلائی ابھی حال ہی میں دیوبند کچھ طلبہ پکڑے گئے جو تعلیم تو دیوبند میں حاصل کرہے ہیں اور تبلیغ غیر مقلدیت کی کرہے تھے تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کسی مکتب خاص کے اجرت دار کارندے تھے
۱۔ آپکا یہ قول آپکے سابقہ قول کے منافی ہے ۔ کیونکہ آپ نے پہلے لکھا تھا کہ وہ "ابو حنیفہ کے اقوال سے اصول اخذ کرتے ہیں" جبکہ ہم "صرف کتاب وسنت سے اصول اخذ کرتے ہیں" ۔ فتدبر !
۲۔قرآن وحدیث کی تعلیم تو آپکے "منہ بولے امام صاحب نے نہیں دی " آپ یہ جرأت کیسے کر سکتے ہیں !؟
۳۔ یہ آپکا بہتان ہے جسکی آپکے پاس کوئی دلیل نہیں ۔ محض سوء ظن کا نتیجہ ہے ۔
۴۔ یہ بھی بہتان ہے کیونکہ میں آپکو "مفتی صاحب" کہہ کر پکارتا رہا ہوں ۔ میرے سابقہ مراسلات اس بات پر شاہد عدل ہیں !
۵۔ ہمیں بھی بڑوں پر اعتماد ہے لیکن یہ بھی یقین ہے کہ وہ انسان ہی ہیں اور ان سے غلطی کا صدور ممکن ہے ۔ لہذا ہم بڑوں کی بات بھی بلا دلیل نہیں مانتے ۔ تاکہ اصل مستند "بڑے " نہیں صرف "کتاب وسنت" ہی رہے ۔
۶۔ یہ تو بہت اچھی بات ہے ‘ اور اس سے آپکا علیم بذات الصدور ہونا بھی ثابت ہوگیا ! کیونکہ ابھی تک ہم نے ان اصولوں کو سینے سے نکال کر آپکے سامنے بیان ہی نہیں کیا جنہیں ہم بیان کرنا چاہتے ہیں ۔ ماشاء اللہ آپ تو بہت پہنچی ہوئی سرکار ہیں !!!!
۷۔ صرف ائمہ ثلاثہ سے نہیں ائمہ اربعہ بلکہ ان کے غیر سے بھی کوئی بات مل جائے تو ہم تسلیم کرلیتے ہیں صرف شرط یہ لگاتے ہیں کہ اسکی دلیل کتاب وسنت میں ہونی چاہیے ۔ وحی الہی کے مخالف بات کو ہم رد کر دیتے ہیں ۔ اور برا بھلا مقلدین کو صرف اس لی کہتے ہیں کہ وہ کتاب وسنت کے مخالف اقوال کو مانتے اور موافق کو نہیں مانتے ! خوب سمجھ لیں ۔
۸۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے اساتذہ کی فہرست طویل ہے اور ان میں سے کوئی بھی حنفی نہیں ہے چہ جائیکہ دیوبندی ہو ۔ ایک مختصر سی مثال کے طور پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی عشاریات کی سند بیان کر دیتا ہوں ۔ ملاحظہ فرمائیں :
نرويها
عن عبد الرحمن الحبشي
عن أبي النصر الخطيب
عن عمر الآمدي الديار بكري
عن المرتضى الزبيدي
عن المعمر أحمد سابق الزعبلي
عن شمس الدين البابلي
عن ابن أركماس
عن ابن حجر العسقلاني
وبهذا السند يكون بيننا وبين ابن حجر 7 وسائط
وبيننا وبين النبي صلى الله عليه وسلم 18 رجلا
وهذا علو يغتبط به
والحمد لله رب العالمين
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے اساتذہ کی فہرست طویل ہے اور ان میں سے کوئی بھی حنفی نہیں ہے چہ جائیکہ دیوبندی ہو ۔ ایک مختصر سی مثال کے طور پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی عشاریات کی سند بیان کر دیتا ہوں ۔ ملاحظہ فرمائیں :
عن المرتضى الزبيدي

اگریہ مرتضی زبیدی شارح قاموس واحیاء العلوم ہیں تویہ پکے حنفی ہیں ان کی کتاب
العقود الجواہرالمنیفہ مشہور کتاب ہے۔ جس میں انہوں نے امام ابوحنیفہ کے دلائل بھی جمع کئے ہیں۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
۱۔ آپکا یہ قول آپکے سابقہ قول کے منافی ہے ۔ کیونکہ آپ نے پہلے لکھا تھا کہ وہ "ابو حنیفہ کے اقوال سے اصول اخذ کرتے ہیں" جبکہ ہم "صرف کتاب وسنت سے اصول اخذ کرتے ہیں" ۔ فتدبر !
۲۔قرآن وحدیث کی تعلیم تو آپکے "منہ بولے امام صاحب نے نہیں دی " آپ یہ جرأت کیسے کر سکتے ہیں !؟
۳۔ یہ آپکا بہتان ہے جسکی آپکے پاس کوئی دلیل نہیں ۔ محض سوء ظن کا نتیجہ ہے ۔
۴۔ یہ بھی بہتان ہے کیونکہ میں آپکو "مفتی صاحب" کہہ کر پکارتا رہا ہوں ۔ میرے سابقہ مراسلات اس بات پر شاہد عدل ہیں !
۵۔ ہمیں بھی بڑوں پر اعتماد ہے لیکن یہ بھی یقین ہے کہ وہ انسان ہی ہیں اور ان سے غلطی کا صدور ممکن ہے ۔ لہذا ہم بڑوں کی بات بھی بلا دلیل نہیں مانتے ۔ تاکہ اصل مستند "بڑے " نہیں صرف "کتاب وسنت" ہی رہے ۔
۶۔ یہ تو بہت اچھی بات ہے ‘ اور اس سے آپکا علیم بذات الصدور ہونا بھی ثابت ہوگیا ! کیونکہ ابھی تک ہم نے ان اصولوں کو سینے سے نکال کر آپکے سامنے بیان ہی نہیں کیا جنہیں ہم بیان کرنا چاہتے ہیں ۔ ماشاء اللہ آپ تو بہت پہنچی ہوئی سرکار ہیں !!!!
۷۔ صرف ائمہ ثلاثہ سے نہیں ائمہ اربعہ بلکہ ان کے غیر سے بھی کوئی بات مل جائے تو ہم تسلیم کرلیتے ہیں صرف شرط یہ لگاتے ہیں کہ اسکی دلیل کتاب وسنت میں ہونی چاہیے ۔ وحی الہی کے مخالف بات کو ہم رد کر دیتے ہیں ۔ اور برا بھلا مقلدین کو صرف اس لی کہتے ہیں کہ وہ کتاب وسنت کے مخالف اقوال کو مانتے اور موافق کو نہیں مانتے ! خوب سمجھ لیں ۔
۸۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے اساتذہ کی فہرست طویل ہے اور ان میں سے کوئی بھی حنفی نہیں ہے چہ جائیکہ دیوبندی ہو ۔ ایک مختصر سی مثال کے طور پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی عشاریات کی سند بیان کر دیتا ہوں ۔ ملاحظہ فرمائیں :
نرويها
عن عبد الرحمن الحبشي
عن أبي النصر الخطيب
عن عمر الآمدي الديار بكري
عن المرتضى الزبيدي
عن المعمر أحمد سابق الزعبلي
عن شمس الدين البابلي
عن ابن أركماس
عن ابن حجر العسقلاني
وبهذا السند يكون بيننا وبين ابن حجر 7 وسائط
وبيننا وبين النبي صلى الله عليه وسلم 18 رجلا
وهذا علو يغتبط به
والحمد لله رب العالمين
لگتا ہے آپ عجلت پسند ہیں میں نے آپ حضرات کی وہ سائڈیں دیکھ لی ہیں جہاں سے آپ کی اکثر یت کاپی پیسٹ کرتی ہے وہیں پر اصول حدیث کاذکر ہےجو آپ لوگوں کا جو طریق ہے وہ وہاں لکھا ہوا ہے (جی سمجھے علیم بذات الصدور کا مطلب)
اور ہمارے یہاں سرکا رحضور ﷺ کو کہتے ہیں آپ اس خطاب سے مجھے نواز رہے ہیں یہ کون سا عقیدہ ہے آپ کا؟؟؟؟؟
اور علماء دیوبند سے مرادعلمائے احناف ہیں اور اگر بالکل ابتدا میں جایا جائے تو سب کے اوپر امام ابوحنیفہؒ بیٹھے ہوئے ہیں یہ پگڑی کیسے اتاریں گے اگر غلط ہے تو ثابت کردیں اور اسکی آپ کے پاس کوئی دلیل نہیں ہو سکتی نہیں تو ثابت کردیں
اور محترم یہ یاد رکھیں احناف کی بنیاد بہت پایئدار ہوتی ہے یہی وجہ کہ مسلک حنفی ابتداء میں بھی حنفی تھا اور اج بھی حنفی ہے نام بدلتے نہیں پھرتے نا م وہ ہی بدلتے ہیں جن کی مقبولیت نہیں ہوتی، بس کسی طرح سےنام مقبول ہوجائے اور نام رجسٹرڈ ہوجائے ہمارے ساتھ ایسا نہیں ہے جانے کتنے مسلک آئے اور چلے گئے کیونکہ بنیاد کمزور تھی ۔دوسری بات یہ ہے کہ احناف نے کبھی دفاعی پوزیشن اختیار نہیں کی ہم تو میدان مارنے والے آدمی ہیں، ایسا نہیں کبھی لکڑی کا سہارا لے لیا کبھی تنکے کا ۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ دوران گفتگو کبھی منہ دوسرے الفاظ بھی نکل جاتے ہیں ۔سب باتوں کو بھلا کر بس اسی لفظوں کے الٹ پھیر میں اپنی قابلیت جتانا مناسب نہیں ۔میں آپ سے کہہ چکا ہوں میں نے جو کہا ہے اس کا ثبوت ہے لیکن جن حضرات کے نام یا جن کتابوں کا میں نے حوالہ دیا ہے وہ آپ کے نزدیک معتبر نہیں تو آگے میں کیسے مان لوں کہ آپ دوسری کتابوں کو یا حوالوں کو رد نہیں کریں گے پہلے آپ یہ تسلیم کریں کہ وہ کتابیں اور اشخاص ٹھیک ہیں تبھی تو کوئی بات آگے بڑھے ۔مجھے آپ کا مطالبہ منظور ہے فرار نہیں وہ حنفی ہی نہیں جو فرار کرے۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
واہ شیخ رفیق طاہر صاحب کیا چھلانگ لگائی آپ نے اکابر محدثین کرام سے اپنا سلسلہ جوڑتے ہیں جب کہ حال یہ ہے کہ اس نام نہاد فرقہ کا جنم ھندوستان میں انگریز دور سے ہو ا اور کہاں جو ڑدیا، پوری تاریخ اسلام میں کسی بهی جگہ فرقہ نام نہاد اہل حدیث کا تذکره کہیں نہیں ملتا ، آپ تاریخ اسلام یا تاریخ پر کوئی بهی کتاب اٹهالیں کہیں بهی ان کا نام ونشان تک نہیں ملے گا ، ان کا سلسلہ انگریزی دور سے چلتا ہے ۔صرف ہندوستان کی تاریخ پڑھ لیں کہ سینکڑوں سال تک زمام اقتدار مسلمانوں کے ہاتھ میں رہا مثلا مسلمان حکمرانوں میں مغل ، غوری ، تغلق ، لودهی ، خلجی وغیره ایک طویل زمانہ تک هندوستان پرحکمرانی کرتے رہے لیکن ان سب ادوار میں فرقہ نام نہاد اہل حدیث بالکل نظرنہیں آتا ، اور جو حضرات اس فرقہ میں حدیث کی سند بهی رکهتے ہیں تو وه بهی میاں نذیرحسین دہلوی سے آگے صرف اورصرف فرقہ نام نہاد اهل حدیث اورغیرمقلدین کے واسطہ سے اصحاب صحاح ستہ تک نہیں پہنچتا ، بلکہ میاں نذیرحسین دہلوی کے بعد امام بخاری امام مسلم وغیره تک ان کا سلسلہ سند حنفی وشافعی مقلدین کے واسطہ سے پہنچتا ہے ،
اب ہمارا سوال یہ ہے کہ رات دن یہ لوگ یہ تکرار کرتے رهتے ہیں کہ تقلید شرک وجہالت ہے اور مقلد مشرک وجاہل ہوتا ہے ، اگرتم اپنے اس قول میں سچے ہو تو امام بخاری یا کسی بهی امام حدیث تک اپنی ایک ضعیف سند بهی ایسی دکها دو جس میں اول تا آخر سب کے غیرمقلد اور تمہاری طرح نظریات کے حامل افراد شامل ہوں ؟؟
قیامت تک یہ لوگ ایسی سند نہیں دکها سکتے ، بس عوام الناس کودهوکہ دینے کے لیئے مختلف قسم کے حیلے بہانے تراشے ہوئے ہیں ، ھندوستان کے جوحقیقی اہل حدیث ہیں ان کے بارے میں
مشہور غیرمقلد عالم مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی نے اپنی کتاب ( تاریخ اہل حدیث ) حصہ سوم پریہ عنوان قائم کیا ہے
ہندوستان میں علم وعمل بالحدیث اور اس کے تحت یہ نام ذکرکئے ہیں
1 = شيخ رضی الدين لاہوری
2 = علامہ متقی جونبوری
3 = علامہ طاهر گجراتی
4 = شيخ عبدالحق محدث دہلوی
5 = شيخ احمد سرہندی
6 = شيخ نورالدين
7 = سيد مبارك بلگرامی
8 = شيخ نورالدين احمد آبادی
9 = ميرعبدالجليل بلگرامی
10 = حاجي محمد افضل سيالكو ٹی
11 = شيخ مرزا مظہر جان جاناں
12 = شيخ الشاه ولی الله
13 = شيخ الشاه عبدالعزيز
14 = شيخ الشاه رفيع الدين
15 = شيخ الشاه عبدالقادر
16 = شيخ الشاه اسماعيل الشہيد
17 = شيخ الشاه محمد اسحق
ص 387 تا 424 ، ملخصا
ذالك فضل الله يوتيه من يشاء
الحمدلله یہ سب کے سب حضرات حنفی المسلک تهے جن کی بدولت بقول مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی ہندوستان میں حدیث کا علم اور عمل پهیلا اور انہی حضرات محدثین کی اتباع سے لوگوں نے حدیث وسنت کا علم حاصل کیا ،
جیسا کہ میں نے اوپرعرض کیا کہ یہ لوگ عوام کے سامنے تو رات دن یہ راگ الاپتے رہتے ہیں کہ مقلد مشرک وجاہل ہوتا ہے لیکن حقیقت میں قیامت تک اس اصول و موقف کو اپنا نہیں سکتے کیونکہ دنیا میں کوئی ایسی حدیث کی سند ان کو نہیں مل سکتی جس میں سب کےسب ان کی طرح غیرمقلد ہوں ، بلکہ تمام اسناد اصحاب صحاح ستہ وغیرہم ائمہ تک مقلدین علماء کے واسطہ سے پہنچتی ہیں ، اور بقول ان کے مقلد مشرک وجاہل ہوتا ہے تو حدیث جو ہمارا دین ہے ، یہ لوگ مشرک وجاہل لوگوں کے واسطوں سے لیتے ہیں ،( معاذالله )
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
اور رفیق ظاہر صاحب ملاحظہ فرمائیں شیخ’’ عبد الرحمن الحبشي کی اسناد امام بخاری صاحبؒ ودیگر محدثین کبار کے ساتھ
اسناد امام بخاریؒ تک :
عبد الرحمن الحبشي [۱] عن أبي النصر الخطيب [۲] عن عمر الآمدي الديار بكري [۳] عن المرتضى الزبيدي [۴] عن المعمر أحمد سابق الزعبلي[۵] عن شمس الدين البابلي [۶] عن ابن أركماس [۷] عن ابن حجر العسقلاني [۸] عن البرهان إبراهيم بن أحمد التنوخي [۹] عن أبي العباس أحمد بن أبي طالب الحجار [۱۰] عن السراج الحسين بن مبارك الزبيدي [۱۱] عن أبي الوقت عبدالأول الهروي [۱۲] عن أبي الحسين الداوودي [۱۳] عن أبي محمد عبدالله السرخسي [۱۴] عن أبي عبدالله محمد بن يوسف الفربري [۱۵] عن الإمام أبي عبدالله محمد بن إسماعيل البخاريؒ .
اسناد امام مسلمؒ تک :
عبد الرحمن الحبشي [۱] عن أبي النصر الخطيب [۲] عن عمر الآمدي الديار بكري [۳] عن المرتضى الزبيدي [۴] عن المعمر أحمد سابق الزعبلي[۵] عن شمس الدين البابلي [۶] عن ابن أركماس [۷] عن ابن حجر العسقلاني [۸] عن البرهان إبراهيم بن أحمد التنوخي [۹] عن أبي العباس أحمد بن أبي طالب الحجار [۱۰] عن الأنجب بن أبي السعادات [۱۱] عن أبي الفرج مسعود بن الحسين الثقفي [۱۲] عن الحافظ أبي القاسم ابن منده [۱۳] عن الحافظ أبي بكر محمد بن عبد الله الجوزقي [۱۴] عن أبي الحسن مكي بن عبدان النيسابوري[۱۵] عن الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوريؒ
اسناد ابن تیمیہؒ تک :
عبد الرحمن الحبشي [۱] عن أبي النصر الخطيب [۲] عن عمر الآمدي الديار بكري [۳] عن المرتضى الزبيدي [۴] عن المعمر أحمد سابق الزعبلي[۵] عن شمس الدين البابلي [۶] عن ابن أركماس [۷] عن ابن حجر العسقلاني [۸] عن الصلاح بن أبي عمر [۹ ] عن شيخ الإسلام ابن تیمیہ
اسناد ابن حجر عسقلانیؒ تک :
عبد الرحمن الحبشي [۱] عن أبي النصر الخطيب [۲] عن عمر الآمدي الديار بكري [۳] عن المرتضى الزبيدي [۴] عن المعمر أحمد سابق الزعبلي[۵] عن شمس الدين البابلي [۶] عن ابن أركماس [۷] عن ابن حجر العسقلاني ،
اسناد جلال الدین سیوطیؒ تک

عبد الرحمن الحبشي [۱] عن أبي النصر الخطيب [۲] عن عبد الله التلي [ ۳] عن عبد الغني النابلسي[۴] عن النجم محمد بن البدر محمد بن رضي الدين الغزي [۵] عن والده [۶] عن جلال الدين السيوطي
اس کے بعد یہ تما م سلاسل اسناد مختلف طرق سے اوپر جاکر امام ابوحنیفہؒ سے بھی مل جاتے ہیں
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
مفتی صاحب !
آپ ابو حنیفہ کو جعلی مدون اول ثابت کرنے کے لیے دلیل دیں اور ادھر ادھر کی باتیں چھوڑیں
اور شیخ عبد الرحمن الحبشی میرے شیخ ہیں میں ان سے روایت کرتا ہوں ۔ اور انکے واسطہ سے آپ نے خود ہی اقرار کر لیا ہے کہ تمام تر کتب اور ائمہ تک ہماری اسانید موجود ہیں ۔
اور صرف یہیں پر بس نہیں یہ تو صرف ایک شیخ کا تذکرہ کیا ہے وگرنہ میرے لیے ہمدۃ فی الروایۃ تو میرے شیخ استاذ حافظ عبد المنان نورپوری رحمہ اللہ ہیں جو کہ شیخ حافظ محمد گوندلوی اور اسماعیل سلفی سے روایت کرتے ہیں اور وہ دونوں حافظ عبد المنان وزیر آبادی سے اور وہ عبد الحق بنارسی سے اور وہ امام شوکانی رحمہ اللہ سے اور انکی اسانید انکی ثبت "اتحاف الاکابر باسناد الدفاتر" میں مذکور ہیں ۔
پھر اسی طرح میں شیخ عبد الوکیل الہاشمی سے روایت کرتا ہوں اور وہ اپنے والد عبد الحق ہاشمی سے روایت کرتے ہیں اور انکی اسانید انکی ثبت "الثبت الکبیر" میں مدون ہیں ۔
تذکرہ اسانید تو بہت طویل ہو جائے گا ۔ آپ گوگل میں عربی کی بورڈ سے میرا نام لکھ کر سرچ کریں تو آپ کو بہت کچھ مل جائے گا ۔

لہذا یہ آپ:ا ایک ۱منی سوال تھا کہ اپنی کوئی ایک سند بیان کردیں تو میں نے اسکا جواب دے دیا ہے ۔
اب آپ اپنے نام نہاد امام صاحب کو اصول حدیث کا " جعلی مدون اول" ثابت کرنے کے لیے دلیل دیں ۔
یا پھر مان جائیں کہ آپ کے امام صاحب تو جعلی مدون اول بھی نہ تھے ۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
مفتی صاحب !
آپ ابو حنیفہ کو جعلی مدون اول ثابت کرنے کے لیے دلیل دیں اور ادھر ادھر کی باتیں چھوڑیں
لہذا یہ آپ:ا ایک ۱منی سوال تھا کہ اپنی کوئی ایک سند بیان کردیں تو میں نے اسکا جواب دے دیا ہے ۔
اب آپ اپنے نام نہاد امام صاحب کو اصول حدیث کا " جعلی مدون اول" ثابت کرنے کے لیے دلیل دیں ۔
یا پھر مان جائیں کہ آپ کے امام صاحب تو جعلی مدون اول بھی نہ تھے ۔
السلام علیکم
شیخ محترم
میں نے آنجناب کی سند کی درخواست نہیں کی تھی میرا تو صرف آپ کو یہ دکھانا مقصود تھا کہ آپ نے جو اکابر کی جو فہرست ارسال کی ان میں سے ایک تو’’عن المرتضى الزبيدي‘‘ ہیں جو حنفی ہیں جیسا کہ جمشید صاحب نے بھی اشارہ فرمایا اور میں نے جو لسٹ روانا کی ان وہ بھی تقریباً تمام کے تمام حنفی ہیں ۔ اور دوسرا جو سلسلہ اسناد’’شیخ عبد الرحمن الحبشی‘‘ ہے وہ اوپر جا کر امام ابوحینفہؒ مختلف طرق مل جاتاہے۔ دیگر جو بھی طالب علم ہوتا ہے اس کی نسبت اس کے استاذ کی طرف ہوتی ہے اسی طرح سے یہ سلسلہ جا کر کبار سے مل جاتا ہے۔ وجہ اعتراض یہ تھا کہ نام نہاد فرقہ اہل حدیث یہ وہ سلسلہ محدثین کبار والا نہیں ہے ۔ بلکہ اس کا تعلق ھندوستان میں جنم ہوا فرقہ سے ہے جو مختلف ادوار سے گزرتا ہوا اہل حدیث بن گیا۔ بہر حال ہمیں اس پر بحث نہیں کرنی اب میں بات کو ختم کرنے کے موڈ میں ہوں ۔ذیل میں کچھ حوالے پیش کررہاہوں اگر یہ کتابیں اور حوالے مستند اور آپ کے نزدیک معتبر ہیں ۔ تو ان کتابوں میں وہ تمام اصول بیان کئے گئے ہیں جن کی نسبت سیدھی امام صاحبؒ کی طرف ہے جن کا ذکر نا جو عربی متن میں ہیں اور پھر ان کا ترجمہ کرنا اور پھر کمپوزنگ کرنا ایک طویل عمل ہے ۔اگر یہ سب بھی برداشت کرلیا جائے اور اخیر میں آپ کوئی نئی بات ارشاد فرمادیں تو میری ساری محنت پر پانی پھر جائیگا۔ آپ تو اپنے شاگردوں سے مدد لے سکتے ہیں مجھے خود ہی سارا کام کرنا پڑتاہے لیجئے پیش خدمت ہے ۔اللہ مالک ہےاور وہ ہی مدد کرنے والا ہے۔
المراجع والمصادر
1- أبو حنيفة حياته وعصره آراؤه وفقهه ، للشيخ محمد أبو زهرة ، دار الفكر العربي ، ط2 ، سنة 1955م .
2- أحكام الإحكام في أصول الأحكام ، للأمام أبي محمد علي بن أحمد بن حزم ، ت456هـ ، مطبعة الإمام بالقاهرة .
3- اختصار علوم الحديث ، للحافظ أبي الفداء إسماعيل بن كثير القرشي ، ت774 هـ ، مكتبة ومطبعة محمد علي صبيح بمصر ، ط3 .
4- إرشاد طلاب الحقائق إلى معرفة سنن خير الخلائق صلى الله عليه وسلم ، للإمام أبي زكريا يحيى بن شرف النووي ، ت676 هـ تحقيق : الدكتور / نور الدين عتر ، دار البشائر الإسلامية ، ببيروت ، ط2 سنة 1411هـ / 1991م .
5- أصول الحديث وعلوم ومصطلحه ، للدكتور محمد عجّاج الخطيب ، دار الفكر بيروت ، ط4 ، سنة 1401هـ / 1981م .
6- أصول الدين عند الإمام أبي حنيفة للدكتور محمد بن عبدالرحمن الخميّس ، دار الصميعي ، الرياض ، ط1 ، سنة 1416هـ / 1996 .
7- أصول الفقه الإسلامي ، للدكتور وهبة الزحيلي ، دار الفكر ، دمشق ، ط1 ، سنة 1406هـ / 1986م .
8- إعلام الموقعين عن رب العالمين ، للإمام أبي عبدالله محمد بن أبي بكر – المعروف بابن قيم الجوزية ، ت 751هـ ، تحقيق : طه عبدالرؤوف ، دار الجيل بيروت ، ط1 سنة 1973
الألماع في معرفة أصول الرواية وتقييد السماع، للقاضي عياض بن موسى اليحصبي، ت544هـ تحقيق: السيد أحمد صقر، دار التراث، القاهرة، ط1، سنة 1389هـ/ 1970 .
10- تاريخ بغداد ، للخطيب البغدادي أبي بكر أحمد بن علي بن ثابت ، ت 463هـ ، دار الكتاب العربي بيروت .
11- الإنتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء ، للحافظ أبي عمر يوسف بن عبدالبّر النمري القرطبي ، ت463هـ ، طبعة دار الكتب العلمية ، بيروت .
12- تاريخ التشريع الإسلامي ، للشيخ محمد الخضري بك ، المكتبة التجارية الكبرى ، القاهرة ، ط8 ، سنة 1387هـ .
13- تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي ، للحافظ عبدالرحمن بن أبي بكر السيوطي ، ت911هـ ، تحقيق : عبدالوهاب عبداللطيف ، المكتبة العلمية ، المدينة المنورة ، ط2 ، سنة 1392ه/1972م .
14- تذكرة الحفاظ، للإمام أبي عبدالله محمد بن أحمد الذهبي ت748هـ، دار الفكر العربي .
15- التقريب والتيسير لمعرفة سنن البشير النذير ، للإمام يحيى بن شرف النووي ، ت676هـ ، تحقيق : محمد عثمان الخشت ، دار الكتاب العربي ، ط1 ، سنة 1405هـ/1985م .
16- التقييد والإيضاح شرح مقدمة ابن الصلاح ، للحافظ عبدالرحيم بن الحسين العراقي، ت806هـ ، تحقيق : عبد الرحمن محمد عثمان ، دار الفكر ، بيروت ، ط سنة 1401هـ/1981م .
17- تنقيح الأنظار (متن توضيح الأفكار) ، للإمام محمد بن إبراهيم الصنعاني ، ت 840هـ ، تحقيق :محمد محي الدين عبدالحميد ، المكتبة السلفية ، المدينة المنورة .
18- تهذيب التهذيب للحافظ أحمد بن علي بن حجر العسقلاني ، ت852هـ ، مطبعة مجلس دائرة المعارف بالهند ، ط1 ، سنة 1327هـ .
19- تهذيب الكمال في أسماء الرجال ، للحافظ جمال الدين بن يوسف المزي ، ت742هـ ، تحقيق : الدكتور بشار عواد معروف ، مؤسسة الرسالة ، بيروت .
20- توضيح الأفكار لمعاني تنقيح الأنظار ، للأمير محمد بن إسماعيل الصنعاني ، ت1182هـ، تحقيق : محمد محي الدين عبدالحميد ، المكتبة السلفية، المدينة المنورة.
21- الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع ، للحافظ الخطيب البغدادي أبي بكر أحمد بن ثابت ، ت463هـ ، تحقيق : د. محمود الطحان ، مكتبة المعارف ، الرياض ، ط1 ، سنة 1403هـ/ 1983م .
22- جامع بيان العلم وفضله ، للإمام أبي عمر يوسف بن عبدالبر النمري ، ت463هـ، دار الكتب العلمية ، بيروت .
23- الجامع الصحيح (سنن الترمذي) ، للإمام أبي عيسى محمد بن عيسى بن سورة الترمذي ، ت279هـ ، تحقيق : أحمد محمد شاكر ، مطبعة مصطفى الحلبي ، القاهرة ، ط1 ، سنة 1356هـ / 1937 .
24- الحديث والمحدثون : للدكتور محمد محمد أبو زهو ، مطبعة مصر .
25- السنة ومكانتها في التشريع ، للدكتور مصطفى السباعي ، المكتب الإسلامي ، ط2، سنة 1398هـ/1978م .
26- سنن ابن ماجه ، للإمام أبي عبدالله محمد بن يزيد القزويني ، المعروف بابن ماجه، ت275هـ ، تحقيق : محمد فؤاد عبدالباقي ط1 دار الفكر .
27- سنن الدارقطني، للإمام علي بن عمر الدارقطني، ت306هـ، عالم الكتب، بيروت .
28- سنن أبي داود ، للإمام أبي داود سليمان بن الأشعت السجستاني ، ت275هـ، تحقيق : صدقي محمد جميل ، دار الفكر ، بيروت ، ط1
سنة 1414هـ/1994م .
29- السنن الكبرى ، للحافظ ابي بكر أحمد بن الحسين البيهقي ، ت458هـ ، تحقيق محمد عطا ، دار الكتب العلمية ، بيروت ، ط1 ، سنة 1414هـ/1994م .
30- سير أعلام النبلاء ، للإمام محمد بن أحمد بن عثمان الذهبي ، ت748هـ ، تحقيق : شعيب الأرناؤوط ، مؤسسة الرسالة ، بيروت ، ط3 .
31- شرح مسند أبي حنيفة للإمام علي القارى ت 1014هـ . دار الكتب العلمية بيروت ط1 سنة 1405هـ / 1985م .
32- شرح نخبة الفكر في مصطلح أهل الأثر ، للإمام علي بين سلطان القاري ، دار الكتب العلمية ، بيروت ، ط ، سنة 1398هـ/1978م .
33- ظفر الأماني بشرح مختصر السيد الشريف الجرجاني في مصطلح الحديث ، للإمام محمد بن عبدالحي اللكنوي ، ت1304هـ ، تحقيق : خليل المنصور ، دار الكتب العلمية ، بيروت . ط1 ، 1418هـ / 1998م .
34- طبقات الحفاظ ، للحافظ عبدالرحمن بن أبي بكر السيوطي ، ت911هـ ، تحقيق: علي محمد عمر ، مطبعة الاستقلال الكبرى ، القاهرة ، ط1 ، 1393هـ/1988م.
35- فتح الباقي على ألفية العراقي ، للحافظ زكريا بن محمد الأنصاري ، ت ، سنة 925هـ ، تصحيح محمد بن حسين العراقي ، دار الكتب العلمية ، بيروت .
36- فتح المغيث بشرح ألفية الحديث ، للحافظ أبي الفضل عبدالرحيم بن الحسين العراقي ت806هـ ، تحقيق : محمود ربيع ، عالم الكتب ، ط2 ، 1408هـ/1988م.
37- فتح المغيث شرح ألفية الحديث ، للإمام محمد بن عبدالرحمن السخاوي ، ت902هـ ، دار الكتب العلمية ، بيروت .
38- قفو الأثر في صفو علوم الأثر ، للإمام محمد بن إبراهيم الحسيني – المشهور بابن الحنبلي – ت971 هـ ، تحقيق : الشيخ عبدالفتاح أبو غدة ، دار البشائر الإسلامية ، بيروت ، ط2 ، 1408هـ .
39- قواعد التحديث في فنون مصطلح الحديث ، للشيخ محمد جمال الدين القاسمي ، دار الكتب العلمية ، بيروت ، ط1 ، 1399 هـ/ 1979م .
40- قواعد في علوم الحديث ، للمحدث ظفر أحمد العثماني التهانوي ، ت1394هـ ، تحقيق : الشيخ عبدالفتاح أبو غدة ، شركة العبيكان ، الرياض ، ط5 ، 1404هـ/1984م.
41- الكشاف المبين عن مناهج المحدثين للدكتور ، أحمد يوسف أبو حلبية ، دار البشير ، غزة ، ط1 ، 1416هـ/1996م.
42- الكفاية في علم الراوية ، للإمام أبي بكر أحمد بن علي بن ثابت الخطيب البغدادي ، ت463هـ ، المكتبة العلمية ، المدينة المنورة .
43- مجموع فتاوي شيخ الإسلام ابن تيمية ، جمع وترتيب عبدالرحمن بن محمد العاصمي وابنه محمد ، ط2 ، 1398م.
44- محاسن الاصطلاح وتضمين كتاب ابن الصلاح ، للإمام عمر بن رسلان بن نصير البلقيني ، ت805هـ ، تحقيق : الدكتورة عائشة بن عبدالرحمن ، مطبعة دار الكتب ، طبعة سنة 1974م.
45- المحدث الفاصل بين الراوي والواعي ، للقاضي أبي محمد الحسن بن عبدالرحمن الرامهرمزي ، ت360هـ ، تحقيق : د. محمد عجاج الخطيب ، دار الفكر ، بيروت ، ط3 ، 1404هـ/1984م.
46- معرفة علوم الحديث ، للحاكم أبي عبدالله محمد بن عبدالله النيسابوري ، ت405هـ تصحيح السيد معظم حسين ، المكتبة
العلمية ، المدينة المنورة ، ط2 ، 1397هـ/1977م .
47- مقدمة ابن الصلاح ، للإمام أبي عمر عثمان بن عبدالرحمن ابن الصلاح الشهرزوري ، ت643هـ ، تحقيق : الدكتور / نور الدين عتر ، المكتبة العلمية ، بيروت .
48- ملخص إبطال القياس والرأي والاستحسان والتقليد والتعليل ، للإمام أبي محمد علي ابن أحمد بن حزم ، ت456هـ مطبعة جامعة دمشق ، ط1379هـ/1960م.
49- المنهاج الحديث في بيان علوم الحديث للدكتور / أحمد يوسف أبو حلبية . مطبعة الرنتيسي . ط3 ، سنة 1419هـ/1999م.
50- منهاج السنة النبوية ، للإمام أحمد بن عبدالحليم بين تيمية ، ت728هـ ، تحقيق : د. محمد رشاد سالم ، مكتبة الرياض الحديث ، الرياض ، ط1 1406هـ .
51- الميزان الكبرى ، للإمام أبي المواهب عبدالوهاب بن أحمد الأنصاري – المعروف بالشعراني – من أعيان علماء القرن العاشر الهجري . ط دار الفكر بيروت.
52- نزهة النظر شرح نخبة الفكر في مصطلح أهل الأثر ، للمحدث أحمد بن علي بن حجر العسقلاني ، ت852هـ ، مؤسسة الخافقين ، دمشق ، ط 1400هـ/1980م.

اگر آپ ان کتابوں سے مراجعت فرمالیں گے تو بہت مہربانی ہوگی میرا وقت ضائع ہونے سے بچ جائے گا فقط والسلام
عابدالرحمٰن بجنوری
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
میں نے آپ سے کتابوں کی فہرست نہیں مانگی
ان کتابوں میں سے اگر کوئی ایک بھی دلیل ہے تو آپ صرف وہ پیش کریں ۔
فورم پر میری اور آپکی تحریرات کئی لوگ پڑھتے ہیں جو کہ یہ کتابیں نہیں پڑھ سکتے۔
آپ اپنی دلیل عنایت فرمائیں ۔ اور اپنا اور میرا اور دوسروں کا وقت ضائع نہ کریں
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
میں نے آپ سے کتابوں کی فہرست نہیں مانگی
ان کتابوں میں سے اگر کوئی ایک بھی دلیل ہے تو آپ صرف وہ پیش کریں ۔
فورم پر میری اور آپکی تحریرات کئی لوگ پڑھتے ہیں جو کہ یہ کتابیں نہیں پڑھ سکتے۔
آپ اپنی دلیل عنایت فرمائیں ۔ اور اپنا اور میرا اور دوسروں کا وقت ضائع نہ کریں
لیجئے شیخ محترم
یہ ایک عربی مقالہ کی عبارت ہے جو میرے والد صاحب نے تیار کروائی تھی
جس کی وجہ سے میں نے دعویٰ کیا تھا
ترجمہ خود کرلینا یا کسی سے کروالینا میرے پاس بھی وقت نہیں یہ مضمون تقریباً پچاس صفحہ میں ہے اس کا ترجمہ بھی لکھوں میرے بس کی بات نہیں ۔کیونکہ مجھے معلوم ہے آپ پیچھے نہیں ہٹیں گے بس فورم والوں کی واہ واہ لوٹنا مقصد ہے
یاد رہے ہم حنفی ہیں اور ہمیں اس پر فخر ہے اور پکے اہل حدیث ہیں اور ہمارا سلسلہ نبی ﷺ تک جا ملتاہے اور آپ کا سلسلہ عبدالحق بنارسی سے جڑتا ہے جس کو ابھی آپ نے قبول کیا ہے۔ اور اگر عبدالحق بنارسی کی تاریخ معلوم کرنی ہو تو اس کا الگ سے تھریڈ کیا جا سکتاہے۔ فقط واللہ اعلم بالصوب میں نے ثا بت کردیا کی امام صاحبؒ نے فن حدیث کی نمایا ں خدمات انجام دی ہیں۔ اور ان کے شاگردوں کے شاگر د امام بخاریؒ وامام مسلمؒ جیسے جلیل القدر محدثین ہیں۔ شیخ صاحب اس کڑوی حقیقت کو کیسے نکاروگے ۔ اس بات سے بھی انکار کردو کہ محدثین کرام امام صاحب کے شاگردوں کے شاگرد نہیں تھے ۔ اب دیکھتا ہوں جزاک اللہ اور شکریہ کے کتنے بتن دبتے ہیں۔ کون اصلی کون نقلی یہ آپ کے کہنے سے تھوڑی ہوجائیگا۔ دنیا تسلیم کرتی ہے اور قیامت تک تسلیم کرتی رہے گی ان شاءاللہ ثم ان شاءاللہ ۔فقط والسلام
عابدالرحمٰن بجنوری
لیجئے ملاحظہ فرمائیں
كان الإمام الأعظم أبو حنيفة رحمه الله يحثّ على اتباع السنة وينفّر من القول في دين الله تعالى بالرأي وكان يحضّ على العمل بحديث رسول الله ﷺ.
" وكان الإمام أبو حنيفة رضي الله عنه يقول : إياكم والقول في دين الله تعالى بالرأي؛ وعليكم باتباع السنة؛ فمن خرج عنها ضلّ .
ودخـل عليـه مـرة رجل من أهل الكوفة والحديث يُقرأ عنده، فقال الرجل : دعونا من هذه الأحاديث، فزجره الإمام أشدّ الزجر، وقال له : لولا السُّنّة ما فهم أحد القرآن
وقيل له مرة : قد ترك الناس العمل بالحديث وأقبلوا على سماعه، فقال رضي الله عنه : نفس سماعهم للحديث عمل به .
وكان رضي الله عنه يقول : لم تزل الناس في صلاح ما دام فيهم من يطلب الحديث فإذا طلبوا العلم بلا حديث فسدوا .
وكـان يقول : لا ينبغي لأحـد أن يقـول قولاً حتى يعلـم أن شريعة رسول الله صلى الله عليه وسلم تقبله "
ولقد كان لأبي حنيفة مقولات في بيان آداب المحدث وطالب الحديث منها : قول الحافظ أبي عمر بن عبد البر في جامعه في مسألة جواز رفع المحدث والعالم صوته في المسجد بالعلم حيث قال : أجاز ذلك قوم منهم أبو حنيفة، ثم روى ابن عبد البر بسنده إلى سفيان بن عُيينة قال : مررت بأبي حنيفة وهو مع أصحابه في المسجد وقد ارتفعت أصواتهم فقلت : يا أبا حنيفة هذا في المسجد، والصوت
لا ينبغي أن يُرفع فيه ، فقال : دعهم فإنهم لا يفقهون إلاّ بهذا
وكـان أبـو حنيفـة يحث على طلب المعروف من الحديث وتجنب الغريب منه الذي لا يعرفه عامة الناس ، روى الخطيب البغدادي في جامعه بسنده إلى أبي حنيفة قال : من طلب المال بالكيمياء أفلس، ومن طلب الدين بالجدال تزندق ، ومن طلب غريب الحديث كُذّب
المطلب الثاني :
مقولاته في بعض أنواع الحديث.
من خلال بحثي في كتب علوم الحديث وقعت للإمام الأعظم أبي حنيفة على مقولات وآراء في بعض أنواع الحديث على النحو التالي :
أولاً : خبر الواحد :
وهو الحديث الفرد أو الغريب والحديث الغريز وهو الحديث الذي تفرّد بروايته راوٍ واحـد أو اثنـان دون أن يبلغ حد التواتر أو الشهرة، وقد يكون هذا التفرد في حلقة مـن حلقـات الإسنـاد أو في أكثـر من حلقة وقد يكون هذا التفرد في كل حلقة من حلقات الإسناد.
وكان أبو حنيفة كغيره من المتقدمين يحتجّ ويعمل بخبر الواحد . قال الخطيب البغدادي في كتابه الكفاية : " وعلى العمل بخبر الواحد كان كافة التابعين ومن بعدهم من الفقهاء الخالفين في سائر أمصار المسلمين إلى وقتنا هذا ، ولم يبلغنا عن أحد منهم إنكار لذلك ولا اعتراض عليه ، فثبت أن من دين جميعهم وجوبه إذ لو كان فيهم من كان لا يرى العمل به لنقل إلينا الخبر عنه بمذهبه
وقد ذكر الدكتور مصطفى السباعي رحمه الله وغيره أن لأبي حنيفة شروطاً دقيقة في قبول الأخبار حمله عليها فشوّ الكذب في الحديث في زمانه فأراد الاحتياط لدين الله تعالى ومن ثمّ وضع شروطه لقبول خبر الواحد وهي :
1- عدم معارضة خبر الواحد الأصول المجتمعة عنده بعد استقراء موارد الشرع ، فإذا خالف تركه وعدّ الخبر شاذاً .
2- عدم معارضته عمومات الكتاب وظواهره فإذا عارضها أخذ بظاهر الكتاب وترك الخبر، أما إذا كان بيانا لمجمل أو نصاً لحكم جديد فيأخذ به .
3- عدم مخالفته السّنّة المشهورة سواء كانت قولية أو فعلية، فإن خالفها لم يأخذ به .
4- عدم معارضته خبراً مثله فإذا تعارض رَجّح أحدهما بوجوه من الترجيح .
5- عدم عمل راوي خبر الواحد بخلاف حديثه وخبره .
6- عدم انفراد خبر الواحد بزيادة سواء كانت في المتن أوالسند ، وكان أبو حنيفة يعمل بالناقص منهما .
7- ألاّ يكون الخبر فيما تعمّ به البلوى وفي هذه الحالة لا بد من توافر الشهرة أوالتواتر في الحديث .
8- ألاّ يترك أحد المختلفين في الحكم من الصحابة الاحتجاج بالخبر الذي رواه أحدهم ، لأنه لو كان ثابتاً لاحتجّ به أحدهم .
9- ألاّ يسبق طعن أحد من السلف فيه .
10- الأخذ بالأخف فيما ورد في الحدود والعقوبات عند اختلاف الروايات .
11-أن يستمر حفظ الراوي لحديثه منذ التحمل إلى وقت الأداء للحديث من غير تخلل نسيان.
12- ألاّ يخالف العمل المتوارث بين الصحابة والتابعين دون تخصيص ببلده .
13- ألاّ يعوّل الراوي على خطه ما لم يذكر حديثه .
14- أن يكون راويه فقيهاً .
ثانياً : الأخذ بالحديث الصحيح :
ذكر جمال الدين القاسمي عن محمد عابدين الدمشقي أن الإمام أبا حنيفة رحمه الله تعالى من شدة احتياطه وورعه وعلمه كان يرى أن الاختلاف من آثار الرحمة وقد قال لأصحابه : إن توجّه لكم دليل فقولوا به ثم قال القاسمي : فقد صحّ عن أبي حنيفة أنه قال : إذا صحّ الحديث فهو مذهبي . ثم ذكر القاسمي قول أبي حنيفة : ليس لأحد أن يفتي بقولنا ما لم يعرف من أين قلنا
وقـد ذكـر السيوطي ضمـن الشروط المختلف فيها في صحة الحديث اشتراط فقه الراوي وذكر أن أبا حنيفة اشترط ذلك في صحةالحديث۔ ، وقد تقدم هذا الشرط أيضاً في قبوله لخبر الآحاد .
ثالثاً : العمل بالحديث الضعيف وتقديمه على القياس ورأى الرجال :
ذكر غير واحد من أهل الحديث ذلك عن أبي حنيفة ومن هؤلاء :
1- ابن حزم الظاهري الذي قال : " جميع أصحاب أبي حنيفة مجمعون على أن مذهب أبي حنيفة أن ضعيف الحديث أولى عنده من القياس والرأي " .
وقال في كتابه إحكام الإحكام : " قال أبو حنيفة : الخبر الضعيف عن رسول الله صلّى الله عليه وسلم أولي من القياس ، ولا يحلّ القياس مع وجوده " .
2- وقال ابن تيمية في مجموع الفتاوى : " ومن ظنّ بأبي حنيفة أوغيره من أئمة المسلمين أنهم يتعمدون مخالفة الحديث الصحيح لقياس أو غيره فقد أخطأ عليهم ، وتكلّم إما بظنّ وإمـا بهـوى ، فهـذا أبو حنيفة يعمل بحديث التوضى بالنبيذ في السفر مع مخالفته للقياس ، وبحديث القهقهة في الصلاة مع مخالفته للقياس لاعتقاده صحتهما وإن كان أئمة الحديث لم يصححوهما "
3- وقال ابن القيم الجوزية في إعلام الموقعين : " وأصحاب أبي حنيفة رحمه الله مجمعـون علـى أن مذهـب أبـي حنيفـة أن ضعيـف الحديـث عنـده أولى من القياس والرأي ، وعلى ذلك بنى مذهبـه كمـا قـدّم حديـث القهقهـة مـع ضعفه على القياس والرأي ، وقـدّم حديث الوضوء بنبيذ التمر في السفر مع ضعفه على الرأي والقيـاس .... فتقديم الحديث الضعيف وآثار الصحابةعلى القياس والرأي قوله وقول الإمام أحمد ".
رابعـاً : الحديث الموقوف على الصحابة من أقوالهم وأفعالهم وتقريراتهم وحجتيه
وفي هذا الموضوع جزآن هما :
1- حجية قول الصحابي :
ذكر ابن القيم الجوزية أن مذهب أبي حنيفة وغيره من الأئمة الاحتجاج بقول الصحابي فقال في إعلام الموقعين : " وإن لم يخالف الصحابي صحابياً آخر ؛ فإما أن يشتهر قوله في الصحابة أو لا يشتهر ، فإن اشتهر فالذي عليه جماهير الطوائف من الفقهاء أنه إجماع وحجّة ، وإن لم يشتهر قوله أو لم يُعلَم هل اشتهر أم لا ؟ فاختلف الناس هل يكون حجة أم لا ؟ فالذي عليه جمهور الأمة أنه حجّة - هذا قول جمهور الحنفية صرّح به محمد بن الحسن وذُكر عن أبي حنيفة رحمه الله نصاً ، وهو مذهب مالك وأصحابه ... ".
وذكـر الشيخ الخضري بك قول أبي حنيفة عن نفسه في طريقة الاستنباط حيث قال : " إني آخذ بكتاب الله إن وجدته ، فما لم أجده فيه أخذت بسنّة رسول الله صلى الله عليه وسلم والآثار الصحاح عنه التي فشت في أيدي الثقات ، فإذا لم أجد في كتاب الله ولا سنّـة رسول الله صلى الله عليـه وسلم أخذت بقول أصحابـه إن شئت وأدع قول مـن شئت ، ثم لا أخرج عن قولهم إلى قول غيرهم ، فإذا انتهى الأمر إلى إبراهيم والشعبي والحسن وابـن سيرين وسعيد بن المسيّب - وعدّد رجالاً قد اجتهدوا - فلي أن أجتهد كما اجتهدوا " .
وعلّق الدكتور محمـد أبـو زهـو فـي الحديـث والمحدثون علـى هـذه الرواية فقـال : " ومـن ذلك نـرى أنـه - يعني أبـا حنيفـة - يأخـذ بقول الصحابـي إذا أعوزته السنّة الصحيحة عنده وتقدّمه على اجتهاده ، فكيف ينسب إليه أنه يقدّم الرأي على السنة !
2- حكم قول الصحابي فيما لا مجال للرأي فيه من حيث الرفع أو الوقف :
يرى الإمام أبـو حنيفـة أن قول الصحابي فيمـا لا مجال للاجتهاد والرأي فيه له حكم الحديث المرفوع إلى النبي صلى الله عليه وسلم . ذكر الحافظ السخاوي عن ابن العربي أنه قال في القبس : " إذا قال الصحابي قولاً يقتضيه القياس فإنه محمول على المسند إلى النبي صلى الله عليه وسلم ، ومذهب مالك وأبي حنيفة أنه كالمسند . وهو الظاهر من احتجاج الشافعي رحمه الله في الجديد بقول عائشة : فرضت الصلاة ركعتين ركعتين ، حيث أعطاه حكم المرفوع لكونه مما لا مجال للرأي فيه ، وإلاّ فقد نصّ على أن قول الصحابي ليس بحجة "
خامساً : حكم الحديث المرسل عند أبي حنيفة :
من الجدير بالذكر أن الحديث المرسل هو الحديث الذي يضيفه التابعي إلىالنبي صلى الله عليه وسلم مسقطاً الواسطة بينهما ، وقد اختلف العلماء في قول هذا المرسل أوعدم قبوله على أقوال عدة ، وكان أبو حنيفة النعمان يرى قبول الحديث المرسل والاحتجاج به بشرط أن يكون مرسِله ثقة عدلاً .
قال الخطيب البغدادي في الكفاية : " اختلف العلماء في وجوب العمل بما هذه حاله، فقال بعضهم : إنه مقبول ويجب العمل به إذا كان المرسِل ثقة عدلاً ، وهذا قول مالك وأهل المدينة وأبي حنيفة وأهل العراق وغيرهم " .
وقال ابن الصلاح وابن كثير : " والاحتجاج به مذهب مالك وأبي حنيفة وأصحابهما - رحمهم الله - في طائفة "
وقال العراقي في فتح المغيث : " فذهب مالك بن أنس وأبو حنيفة النعمان بن ثابت وأتباعهما في طائفة إلى الاحتجاج به " يعني بالمرسل .
وقال النووي في التقريب : " ثم المرسل حديث ضعيف عند جماهير المحدثين والشافعي وكثيـر من الفقهاء وأصحاب الأصول ، وقال مالك وأبو حنيفة في طائفة : صحيح
. وقال النووي في الارشاد : " وقال مالك وأبو حنيفة رضي الله عنهما وأصحابهما وطائفة من العلماء : يُحتجّ به "
وقـال السخـاوي فـي فتح المغيث : " واحتجّ به الإمام مالك بن أنس في المشهور عنه وكذا الإمام أبو حنيفة النعمان بن ثابت وتابعهما المقلدون لهما - والمراد الجمهور من الطائفتين بل وجماعة من المحدثين والإمام أحمد في رواية حكاها النووي وابن القيم وغيرهم بالمرسل ودانوا بمضمونه أي جعل كل واحد منهم ما هو عنده مرسل ديناً يدين به في الأحكام وغيرها "
وقال السيوطي : " وقال مالك في المشهور عنه وأبو حنيفة في طائفة منهم أحمد في المشهور عنه : صحيح "
سادساً : حكم الحديث المعنعن :
وهو الحديث المروي بلفظ عن فحكمه عند المحدثين هو القبول بشروط ومنهم أبو حنيفة . قال السخاوي في فتح المغيث : " أجمعوا - أي أهل الحديث - على قبول الإسناد المعنعن لا خلاف بينهم في ذلك إذا جمع شروطاً ثلاثة : العدالة واللقاء مجالسة ومشاهدة والبراءة من التدليس "
سابعـاً : زيادة الثقة :
وحكمها القبول عند أبي حنيفة . ذكر الصنعاني في توضيح الأفكار أن ابن حجر العسقلاني حكـى عـن الشافعي وأبي حنيفة قبول زيادة الثقة"
قلت : ولم أعثر على قول ابن حجر هذا . بل تقدمّ في شروط قبول أبي حنيفة لخبر الآحاد عدم قبوله للزيادة بل كان يأخذ بالحديث الناقص بدونها .
 
Top