کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
سوال19:
مذکورہ عورت اگروا قعی مریض ہے اور روزوں کی قضا کی استطاعت نہیں رکھتی , تو چونکہ وہ معذور ہے اس لئے جب بھی اپنے اندر استطاعت پائے روزوں کی قضا کرے. اگرچہ دوسرا رمضان آجائے , لیکن اگر اسکے پاس کو ئی عذر نہیں ,بلکہ بہانہ بازی اور سستی کر رہی ہے , تو اسکے لئے یہ جائز نہیں کہ ایک رمضان کے چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا دوسرے رمضان تک موخر کرے , عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :" ميرے ذمہ روزے باقی ہوتے تھے,تو میں شعبان ہی میں ان کی قضا کر پاتی تھی"
جواب :ایک صاحب سوال کرتے ہیں کہ ایک عورت نے نفاس کیوجہ سےرمضان کے سات روزے نہیں رکھے , اور دوسرا رمضان آنے تک اس نے ان روزوں کی قضا بھی نہیں کی , پھر دوسرے رمضان کے بھی اس کے سات روزے رہ گئے کیونکہ وہ بچے کو دودہ پلا رہی تھی ,بیماری کا عذر ہونے کیوجہ سے اس نے ان روزوں کی بھی قضا نہیں کی , اب جبکہ تیسرا رمضان قریب ہے اس عورت کو کیا کرنا چاہئے ؟ جواب سے مستفید فرمائیں , اللہ تعالی آپ کو اجروثواب سے نوازے –
مذکورہ عورت اگروا قعی مریض ہے اور روزوں کی قضا کی استطاعت نہیں رکھتی , تو چونکہ وہ معذور ہے اس لئے جب بھی اپنے اندر استطاعت پائے روزوں کی قضا کرے. اگرچہ دوسرا رمضان آجائے , لیکن اگر اسکے پاس کو ئی عذر نہیں ,بلکہ بہانہ بازی اور سستی کر رہی ہے , تو اسکے لئے یہ جائز نہیں کہ ایک رمضان کے چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا دوسرے رمضان تک موخر کرے , عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :" ميرے ذمہ روزے باقی ہوتے تھے,تو میں شعبان ہی میں ان کی قضا کر پاتی تھی"
بنابریں اس عورت کو اپنے سلسلے میں غور کرنا چاہئے , اگراسکے پاس کوئی معقول عذر نہیں ہے تو وہ گنہگار ہے, اور اسکے ذمہ جو روزے باقی ہیں ان کی قضا کرنے میں جلدی کرے ,لیکن اگر وہ واقعی معذور ہے تو روزوں کی قضا میں سال دوسال کی بھی تاخیر ہو جائے تو اس مین کوئی حرج نہیں –