• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

احکام حیض

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سوال29:
ایک خاتون سوال کرتی ہیں کہ تقریبا سال بھر پہلے تیسرے مہینے مین میرا حمل ساقط ہوگیا , پاک ہونے تک میں نے نماز نہیں پڑھی ’ مجھے بتایا گیا کہ مجھ پر نماز پڑھنی واجب ہے , اب میں کیا کروں جبکہ میں متعین طور پردنوں کی تعداد نہیں جانتی ؟
جواب :
اہل علم کے نزدیک معروف یہی ہے کہ عورت تین ماہ کا جنین ساقط کردے تو وہ نماز نہیں پڑھے گی, کیونکہ اگر وہ ایسا جنین ساقط کرتی ہے جس کے اندر انسانی شکل و صورت ظاہر ہوچکی ہو تو اس حالت میں آنے والا خون نفاس کا خون ہے جسکے ہوتے ہوئے عورت نماز نہیں پڑھے گی –
علماء کا کہنا ہے کہ جنین کی شکل وصورت (81) اکیاسی دن پورے ہونے پر ظاہر ہو سکتی ہے ,اوریہ مدت تین ماہ سے کم ہے , لہذا اگر عورت کو یقین ہو کہ ساقط ہونے والا جنین تین ماہ کا ہو چکا ہے تو آنے والا خون نفاس کا خون ہٍے,لیکن اگرجنین (80)اسّی دن سے پہلے ساقط ہوا ہے تو اس صورت میں آنے والا خون فا سد خون ہے جس کی وجہ سے وہ نماز ترک نہیں کرے گی اب مذکورہ عورت اپنے متعلق یاد داشت پر زور دے ,
اگر اسکا جنین80 دن پورے ہونے سے پہلے ساقط ہوا ہے تو وہ نمازوں کی قضا کرے , اگر اسے چھوڑی ہوئی نمازوں کی تعداد معلوم نہیں تو حتی الإمکان اندازہ لگا کر جو غالب گمان ہو اس کے مطابق نمازوں کی قضا کرے-
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سوال30:
ایک خاتون دریافت کرتی ہیں کہ جب سے ان پر روزہ واجب ہوا ہے وہ رمضان کے روزے رکھتی ہیں ,لیکن ان روزوں کی قضا نہیں کرتیں جو حیض کے دنوں میں چھوٹ جاتے تھے, اور چونکہ انہیں چھوڑے ہوئے روزوں کی تعداد معلوم نہیں , اس لئے چاہتی ہیں کہ انہیں اس چیز کی طرف رہنمائی کی جائے جو ان پر واجب ہے؟
جواب:
ہمیں افسوس ہے کہ مسلمان عورتوں سے اس طرح کی بات واقع ہو ,کیونکہ واجب روزوں کی قضا نہ کرنا یا تو نا واقفیت کی بنا پر ہے یا سستی وکاہلی کی بنا پر ,اور یہ دونوں ہی مصیبت ہیں , ناواقفیت کا علاج تو یہ ہے کہ علم سیکھا جائے اور جاننے والوں سے دریافت کیا جائے , لیکن سستی وکاہلی کا علاج یہ کہ اللہ عزوجل کا تقوى اختیار کیا جائے ,اس کے عذاب وعقاب سے ڈرا جائے اور اسکی مرضیات کی طرف سبقت کی جائے-
مذکورہ عورت پر ضروری ہے کہ اس سے جو غلطی ہو چکی ہے اس سے اللہ تعالى سے سچی توبہ اور استغفار کرے , اور جتنے روزے چھوڑے ہیں بقدر استطاعت ان کا اندازہ لگا کرقضا کرے , اس طرح وہ بری الذمہ ہو سکتی ہے , اور ہمیں امید ہےکہ اللہ تعالى اس کی توبہ قبول فرما لے گا –
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سوال 31 :
ایک خاتون سوال کرتی ہیں کہ نماز کا وقت ہو جانے کے بعد عورت کو حیض آجائے تو اسکا کیا حکم ہے ؟اور کیا پاک ہونے کے بعد اس عورت پر اس نماز کی قضا واجب ہے.؟ اور اسی طرح اگر وہ نماز کا وقت ختم ہونے سے پہلے پاک ہو جائے تو اسکا کیا حکم ہے؟
جواب:
اولاً :: نماز کا وقت ہوجانے کے بعد عورت کو حیض آجائے تو اگراس نے اب تک وہ نماز نہیں پڑھی تھی توپاک ہونے کے بعد اسے اس نماز کی قضا کرنی ہوگی جسکے وقت میں وہ حائضہ ہوئی تھی ,کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
"جس نے نماز کی ایک رکعت بھی پالی اس نے نماز پالی "لہذا اگرعورت کو کسی نماز کی ایک رکعت کا بھی وقت مل جائے اور اس نماز کے پڑھنے سے پہلے ہی وہ حائضہ ہو جائے تو پاک ہونے کے بعد اسے اس کی قضا کرنی ہوگی .
ثانیاً :: نماز کا وقت ختم ہونے سے پہلے اگرعورت حیض سے پاک ہو جائے تو اس پر نماز کی قضا واجب ہے , مثلاً: اگر طلوع آفتاب سے صرف اتنا پہلے وہ حیض سےپاک ہو کہ ایک رکعت پڑھ سکتی ہے تو اس پر نماز فجرکی قضا واجب ہے ,اسی طرح اگروہ غروب آفتاب سے صرف اتنا پہلے وہ حیض سے پاک ہو کہ ایک رکعت پڑھ سکتی ہے تو اس پر عصر کی قضا واجب ہے , اور اسی طرح اگر نصف رات مکمل ہونے سے صرف اتنا پہلے وہ حیض سے پاک ہو کہ ایک رکعت پڑھ سکتی ہے تو اس پر نماز عشاء کی قضا واجب ہے , اوراگر نصف رات کے بعد پاک ہو تو اس پر عشاءکی نماز واجب نہیں , البتہ وقت ہوجانے پر فجرکی نماز پڑھنا واجب ھے ,
اللہ سبحانہ وتعالى کا ارشاد ہے :(فإذا اطمأننتم فأقيمو الصلاة إن الصلوة كانت على المؤمنين كتاباً مو قُوتا)النساء: 103-
جب اطمینان پالو تو نماز قائم کرو ,یقیناً نماز مومنوں پرمقررہ وقتوں میں فرض ہے -
یعنی نماز, متعین اوقات میں فرض ہے , اورانسان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ نماز کو اس کے متعینہ وقت سے نکال دے , یا وقت ہونے سے پہلے پڑھ لے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سوال32:
(ایک خاتون سوال کرتی ہیں کہ ) مجھے نماز کے دوران ہی حیض آگیا ,میں کیا کروں ؟اورکیا مجھے ایام حیض کی چھوٹی ہوئی نمازوں کی قضا کرنا ہوگی ؟
جواب:
نماز کا وقت ہو جانے کے بعد عورت حائضہ ہوجائے, مثلاً زوال آفتاب کے آدھا گھنٹہ بعد اسے حیض آجائے , تو حیض سے پاک ہونے کے بعد اسے نماز کی قضا کرنی ہوگی جسکا وقت داخل ہوا اوروہ پاک تھی , کیونکہ اللہ تعالى کا ارشاد ہے :
(إن الصلاة كانت على المؤمنين كتاباً موقوتا)النساء 103-يقينا نماز مومنوں پر مقررہ وقتوں میں فرض ہے-
اور عورت پر حیض کے ایام میں چھوٹی ہوئی نمازوں کی قضا نہیں ,کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :"کیا ایسا نہیں کہ عورت جب حائضہ ہوتی ہے تونہ نماز پڑھتی ہےاورنہ روزہ رکھتی ہے "
نیز اہل علم کا اس پراتفاق ہے کہ عورت حیض کے ایام میں چھوٹی ہوئی نمازوں کی قضا نہیں کرے گی ,لیکن اگروہ حیض سے اسوقت پاک ہو کہ ایک رکعت یا اس سے زیادہ کا وقت باقی تھا ,توجس نماز کے وقت میں پاک ہوئی تھی اس کی قضا کرنی ہوگی ,
کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :"جس نے غروب آفتاب سے پہلے نماز عصر کی ایک رکعت پالی تواس نے عصرکی نماز (وقت) پرپالی "
لہذا اگرحائضہ عورت عصر کے وقت میں غروب آفتاب سے اتنا پہلے پاک ہوجائے کہ ایک رکعت پڑھ سکتی ہے ,یا طلوع آفتاب سے اتنا پہلے پاک ہوجائے کہ ایک رکعت پڑھ سکتی ہے , تو اسے پہلی صورت میں عصرکی نماز اوردوسری صورت میں فجر کی نماز پڑھنی ہو گی –
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سوال33:
ایک صاحب دریافت کرتے ہیں کہ میری والدہ (65) پینسٹہ سا ل کی ہو چکی ہیں اورانیس (19) سال سے انہیں بچہ نہیں ہوا ہے , ادہرکوئی تین سال سے انہیں خون جاری رہنے کی شکایت ہے ,جو بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی مرض ہے جو انہیں اسوقت لاحق ہو گیا ہے ,اورچونکہ ادہررمضان المبارک کا مہینہ قریب ہے اسلئے براہ مہربانی انہیں کیا نصیحت فرماتے ہیں ؟ نیزازراہ کرم یہ واضح فرمائیں کہ اس طرح کی عورت کیا کرے؟
جواب:
اس قسم کی عورت ,جسے خون جاری رہنے کی شکایت ہے, اسکا حکم یہ ہے کہ مذکورہ شکایت لاحق ہونے سے پہلے اس کے حیض کی جومعروف مدت تھی اتنے دنوں کے لئے نمازاورروزہ ترک کردے ,اگراسکی عادت یہ تھی کہ ہرماہ کےشروع میں مثلاً 6 دن اسے حیض آتا تھا تو وہ ہر ماہ کے شروع میں6 دن تک وہ نماز اورروزہ چھوڑدے ,اورجب 6 دن کی مدت پوری ہوجائے تو غسل کرکے نماز پڑھے اورروزہ رکھے ,اوراس قسم کی عورتوں کیلئے نماز پڑھنے کی صورت یہ ھےکہ وہ اپنی شرمگاہ کو خوب اچھی طرح دہوکراس پر پٹی باندہ لے اورپھر وضوکرے , یہ کام وہ فرض نماز کا وقت ہوجانے کے بعد کرے ,اسی طرح اگر فرض نمازوں کے علاوہ اوقات میں وہ نوافل پڑھنا چاہے تو بھی اسے ایسا ہی کرنا ہوگا –
مذکورہ حالت میں مشقت وپریشانی کے سبب ایسی عورت کے لئے یہ بھی جائز ہے کہ وہ ظہر کو عصر کے ساتھ اورمغرب کو عشاء کے ساتہ ملا کر پڑھے ,تاکہ اسکا (وضواورطہارت کا ) ایک ہی عمل دونمازوں کے لئے کا فی ہوجائے ,یعنی ایک طہارت ظہراورعصر کے لئے , ایک طہارت مغرب اور عشاء کیلئے اور ایک طہارت فجرکیلئے ,اسطرح پانچ مرتبہ طہارت حاصل کرنے کے بجائے صرف تین مرتبہ طہارت حاصل کرنا کافی ہوگا .
اس مسئلہ کی میں پھرسے وضاحت کرتا ہوں , مذکورہ عورت جب طہارت حاصل کرنا چاہے تو اپنی شرمگاہ کو دہولے اوراس پرکپڑا وغیرہ کی پٹی باندہ لے تاکہ نکلنے والا خون ہلکا ہوجائے ,اورپھر وضو کرکے نمازپڑھے , چاررکعت ظہر پڑھے ,چار رکعت عصر , تین رکعت مغرب , چاررکعت عشاء اوردورکعت فجر, یعنی ان نمازوں میں وہ قصر نہیں کرے گی جیسا کہ بعض لوگ غلط فہمی میں مبتلا ہیں , البتہ اس کے لئے یہ جائز ہے کہ ظہر اورعصر ایک ساتہ پڑھ لے اورمغرب اور عشاء ایک ساتہ , یعنی ظہر کو عصر کے ساتہ ,یا عصرکو ظہر کے ساتہ ,اور اسی طرح مغرب کو عشاء کے ساتہ , یا عشاء کو مغرب کے ساتہ , چاہے جمع تاخیر کرے یا جمع تقدیم , اسی طرح اگر وہ اس وضو سے نوافل پڑھنا چاہے تو اس میں بھی کو ئی حرج نہیں ہے.
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سوال34:
وعظ وخطبہ سننے کے لئے حائضہ عورت کا مسجد حرام کے اندرٹھرنا کیسا ہے ؟
جواب :
حائضہ عورت کے لئے مسجد حرام یا اسکے علاوہ کسی بھی مسجد میں ٹھرنا جائز نہیں , البتہ مسجد سے گزرنا اور اس سے ضرورت کا کوئی سامان لینا جائز ہے, جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے جب مصلى طلب فرمایا تو انہوں نے جواب دیا کہ مصلى مسجد میں ہے اور وہ حائضہ ہیں ,تو آپﷺ نے فرمایا کہ تمہارا حیض تمہارے ہاتھ میں نہیں (لگا ہوا ) ہے –
لہذا اگر حائضہ کو یہ ڈر نہ ہو کہ مسجد میں خون ٹپک سکتا ہے تو اس کے لئے مسجد سے گزرنے میں کوئی حرج نہیں , لیکن بیٹھنے کے ارادہ سے اسکا مسجد میں داخل ہونا جائز نہیں ,
اوراسکی دلیل یہ ھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عید کے لئے عورتوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ کنواری ,پردہ نشین اور حائضہ عورتوں کو بھی عید گاہ لے جائیں , لیکن حائضہ عورتوں کو عید گاہ سے دوررہنےکا حکم دیا ہے , جو اس بات کی دلیل ہے کہ خطبہ سننےیا درس اور وعظ سننے کیلئے حائضہ عورت کا مسجد میں ٹھرنا جائز نہیں .
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نماز کیلئے طہا رت کے بعض احکام

سوال35:
عورت (کی شرمگاہ) سے جو سفید یا زرد رطوبت خارج ہوتی ہے وہ پاک ہے یا ناپاک ؟ اور اگروہ مسلسل خارج ہو تو کیا اس میں وضو واجب ہے ؟اور اگررک رک کر خارج ہو تو اس کا کیا حکم ہے ؟ خاص کر اکثر پڑھی لکھی عورتیں یہ سمجھتی ہیں کہ یہ فطری رطوبت ہے جس سے وضو ضروری نہیں ہوتا ؟
جواب:
بحث وتحقیق کے بعد میں اس نتیجہ پرپہنچا ہوں کہ عورت (کی شرمگاہ ) سے خارج ہونے والی رطوبت اگرمثانہ سے نہیں بلکہ رحم سے آرہی ہے تو وہ پاک ہے ,لیکن پاک ہونے کے باوجود وہ ناقض وضو ہے , کیونکہ ناقض وضوہونے کے لئےیہ شرط نہیں کہ خارج ہونے والی چیز ناپاک بھی ہو ,مثلاً ہوا دبر(پیخانہ کے راستہ ) سے خارج ہوتی ہے ,اورہوا کا کوئی جسم بھی نہیں ,اسکے باوجود ناقض وضو ہے , بنابریں اگر عورت وضو سے ہو اور اسکی شرمگاہ سے کوئی چیز خارج ہو جائے تو اس کا وضو ٹوٹ جائے گا اور اسے وضو کی تجدید کرنی ہوگی .
یہ رطوبت اگر مسلسل خارج ہو تو وہ ناقض وضو نہیں ’ لیکن اس صورت میں عورت یوں کرے کہ جب نماز کا وقت ہوجائے تو نماز کے لئےوضو کرے اوراس وضو سے فرائض ونوافل پڑھے, قرآن کریم کی تلاوت کرے اور اس کیلئے جو کام مباح ہیں ان میں سے جو چاہے کرے , جیسا کہ اہل علم نے سلسل البول (مسلسل پیشاب کے قطرے ٹپکنےکی بیماری)کے مریض کے متعلق اسی قسم کی بات کہی ہے, یہ ھے رحم سے خارج ہونے والی رطوبت کا حکم , یہ رطوبت پاک ہے ,لیکن رک رک کر آنے کی صورت میں ناقض وضو ہے , اوراگرمسلسل جاری ہو توناقض وضو نہیں , لیکن اس صورت میں عورت کے لئے ضروری ہے کہ وہ نماز کا وقت ہوجانے کے بعد وضو کرے اور اپنی شرمگاہ پر لنگوٹی باندہ لے .
اور اگر یہ رطوبت رک رک کرآرہی ہو اور عادتاً نماز کے اوقات میں بند رہتی ہو, تو عورت کو چاہئے کہ جس وقت یہ رطوبت آنا بند ہوجاتی ہو اس وقت تک کیلئے نماز کو مؤخر کردے ,بشرطیکہ نماز کا وقت نکل جانے کا خطرہ نہ ہو ,اور اگر وقت کے نکل جانے کا خطرہ ہو تو وضو کرکےلنگوٹی باندہ لے اورپھر نماز پڑھ لے .
خارج ہونے والی رطوبت تھوڑی ہو یا زیادہ , اس میں کوئی فرق نہیں , کیونکہ شرمگاہ سے خارج ہونے والی ہرچیزناقض وضو ہے خواہ وہ تھوڑی ہو یا زیادہ ,اس کے برخلاف جسم کے دیگر کسی حصہ سے خارج ہونے والی چیز مثلاً خون یا قے ناقض وضو نہیں , خواہ وہ تھوڑی ہو یازیادہ ہو .
رہا بعض عورتوں کا یہ خیال کہ مذکورہ رطوبت ایک فطری رطوبت ہے جوناقض وضو نہیں,تو میرے علم کے مطابق اس کی کوئی اصل نہیں , البتہ ابن حزم رحمہ اللہ کا ایک قول ہے کہ اس سے وضو نہیں ٹوٹتا,لیکن انہوں نے اس قول کی کوئی دلیل نہیں ذکر کی ہے ,اگر کتاب وسنت یااقوال صحابہ سے اس قول کی کوئی دلیل ہوتی تو وہ یقیناً حجت ہوتی.
عورت کیلئےضروری ہے کہ وہ اللہ تعالى کا تقوى اختیار کرے اور پاکی وطہارت کی حریص رہے , کیونکہ طہارت کے بغیر خواہ سو مرتبہ نماز پڑھی جائے وہ نا قابل قبول ہے ,بلکہ بعض علماء نے تو یہاں تک کہ دیا ہے کہ جو شخص طہارت کے بغیر نماز پڑھےوہ کافر ہے , کیونکہ یہ اللہ سبحانہ وتعالى کی آیات کے ساتھ مذاق کرنا ہے .
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سوال 36 :
جس عورت (کی شرمگاہ) سے یہ رطوبت مسلسل خارج ہو رہی ہو اگر وہ کسی فرض نماز کیلئے وضو کرے ,تو کیا اس وضو سے دوسری فرض نماز کا وقت آنے تک نوافل پڑھ سکتی اور قرآن کریم کی تلاوت کرسکتی ہے؟
جواب:
مذکورہ عورت کسی فرض نماز کیلئے اگراول وقت میں وضو کرلے تو دوسری فرض نماز کا وقت آنے تک وہ اس وضو سےجسقدر فرائض ونوافل پڑھنا چاہے پڑھ سکتی اورقرآن کریم کی تلاوت کرسکتی ہے .
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سوال 37:
کیا مذکورہ عورت کیلئے فجرکے وضو سے چاشت کی نماز پڑھنا درست ہے؟
جواب:
ایسا کرنا درست نہیں , کیونکہ چاشت کی نماز کا ایک متعین وقت ہے , اس لئے وقت ہو جانے کے بعد اس کے لئے وضو کرنا ضروری ہے ,
کیونکہ مذکورہ عورت مستحاضہ کےحکم میں ہے ,اور مستحاضہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرنماز کیلئے وضو کرنے کا حکم دیا ہے .اورظہرکا وقت زوال آفتاب کےبعد سے عصر کا وقت آنے تک ہے ,اورعصر کا وقت , عصرکےداخل ہوجانے کے بعد سے سورج میں زردی آنے تک اور بوقت ضرورت غروب آفتاب تک ہے , اور مغرب کا وقت ,غروب آفتاب کے بعد سے شفق احمر (آسمان کی سرخ روشنی ) کے ختم ہونے تک ہے , اورعشاء کا وقت شفق احمر کے ختم ہونے کے بعد سے آدھی رات تک ہے .
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سوال 38:
کیا مذکورہ عورت کیلئے عشاء کے وضو سے آدھی رات گزرجانے کے بعد تہجد کی نماز پڑھنا درست ہے ؟
جواب:
نہیں پڑھ سکتی , ایک قول کے مطا بق آ دھی رات گزرجانے کےبعد اس عورت پرتجدید وضو واجب ہے , اور ایک قول یہ ہے کہ تجدید وضو واجب نہیں ( اس لئے پڑھ سکتی ہےٍ ) اور یہی دوسرا قو ل ہی راجح ہے.
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top