• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام میں مختلف فرقے بننے کے اسباب

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
فرقہ پرستوں ، فرقہ پسندوں سے دو بنیادی سوالات:
  1. قبر میں ”دین“ کے بارے میں پوچھا جائے گا یا فرقہ اور مسلک کے بارے میں ؟
  2. قبر و حشر میں ”انفرادی حساب“ لیا جائے گا یا ہر فرقہ و مسلک کا ”گروپ حساب“ لیا جائے گا۔ مثلاً فرقہ الف، فرقہ بے، فرقہ جیم (سمیت 72 فرقوں) والے باطل ہیں لہٰذا ان فرقوں کے جملہ افراد کو جہنم میں ڈال دیا جائے اور چونکہ ”فرقہ دال“ والے حق پر ہیں، لہٰذا فرقہ دال سے وابستہ تمام افراد کو جنت میں داخل کردیا جائے ؟؟؟
  1. قبر میں ”دین“ کے بارے میں پوچھا جائے گا یا فرقہ اور مسلک کے بارے میں ؟

کیا دین میں حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم شامل نہیں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
سوال تو میں پوسٹ (15 ) سے سمجھا ہوا ہوں ۔لیکن اس کا جواب چونکہ مخصوص نوعیت کا ہے ،
لہذا میں نے پہلے جواب بنیادی دلائل سے دیا ۔

قبر میں (ما دینک ) تیرا دین کیا تھا ’‘ کا سوال ہوگا ۔
لیکن اس کا صیح جواب (دینی الاسلام ۔میرا دین اسلام ہے ) وہی دے گا جو اصل اسلام کا اپنی زندگی میں قائل و فاعل رہا ہوگا ۔
اور بعد کی الحاقی چیزوں کو رد کرتا ہوگا ۔
دوسرا سوال ( مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيكُمْ۔جو شخص تم میں بھیجا گیا تھا ،اس کےبارے تم کیا عقیدرکھتے ہو )۔۔کا صحیح جواب بھی
اسی صورت دے گا ،جب زندگی میں غیر مشروط پیارے نبی ﷺ کے ہر قول و فعل کو حق ،اور واحد ذریعہ نجات سمجھتا ہو ۔
ورنہ بونگیاں مارے گا (ھا ھا لا ادری)
فيأتيه ملكان فَيُجْلِسَانِهِ فَيَقُولُونَ لَهُ: مَنْ رَبُّكَ؟ فَيَقُولُ: رَبِّيَ الله فَيَقُولُونَ لَهُ:
مَا دِينُكَ؟ فَيَقُولُ: دِينِيَ الْإِسْلَامُ فَيَقُولَانِ لَهُ: مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيكُمْ؟ فَيَقُول: هُوَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَقُولَانِ لَهُ: وَمَا عِلْمُكَ؟ فَيَقُولُ: قَرَأْتُ كِتَابَ اللَّهِ فَآمَنْتُ بِهِ وَصَدَّقْتُ فَيُنَادِي مُنَادٍ مِنَ السَّمَاء أَن قد صدق فَأَفْرِشُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ وَأَلْبِسُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى الْجَنَّةِ "
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
بعض جگہ مغرب کی نماز سے پہلے سنتیں ادا کی جاتی ہیں، براہ مہربانی اس کے بارے میں بتائیں۔
Sep 29,2014 Answer: 55450
Fatwa ID: 1377-1377/M=12/1435-U

چونکہ مغرب کی نماز جلدی پڑھنے کا حکم ہے، اس لیے حنفیہ کے نزدیک مغرب سے پہلے نفل پڑھنا مناسب نہیں، گو جائزہے، اس لیے خود تو نہ پڑھیں، مگر جو حضرات پڑھتے ہیں، انھیں منع نہ کریں۔ عن منصور عن أبیہ قال: ما صلّی أبوبکر ولا عمر ولا عثمان الرکعتین قبل المغرب․ (کنز العمال ۸/۵۰ باب المغرب وما یتعلق بہ ط: بیروت) (آپ کے مسائل اور ان کا حل)
واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

http://darulifta-deoband.org/showuserview.do?function=answerView&all=ur&id=55450&limit=7&idxpg=0&qry=<c>PAD</c><s>SAL</s><l>ur</l>

@یوسف ثانی بھائی اس فتویٰ کے بارے میں آپ کیا کہے گے -

چونکہ مغرب کی نماز جلدی پڑھنے کا حکم ہے، اس لیے حنفیہ کے نزدیک مغرب سے پہلے نفل پڑھنا مناسب نہیں، گو جائزہے، اس لیے خود تو نہ پڑھیں -

کیا اس فتویٰ میں مفتی صاحب جو کہ امام ابو حنیفہ کے مقلد ہے حنفی عوام کو اس سنت سے روک نہیں رہے ہیں کیا وہ عوام کو اندھی تقلید کی طرف دعوت نہیں دے رہے ہیں -

جب کہ حدیث رسول اس سلسلے میں کیا رہنمائی کرتی ہے

مغرب سے پہلے دو رکعت


مغرب کی اذان کے بعد دو رکعتیں پڑھنے کا حکم !!!
مغرب کی اذان کے بعد اور جماعت سے پہلے دو رکعتیں پڑھنے کی بہت بڑی اہمیت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا تاکیدی حکم دیا کرتے تھے۔ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بکثرت یہ رکعتیں ادا کرتے تھے۔

1

سیدنا عبد اللہ المزنی کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’مغرب سے پہلے نماز پڑھو،مغرب سے پہلے نماز پڑھو،مغرب سے پہلے نماز پڑھو،آخر میں فرمایا جو چاہے (ابو داؤد کتاب الصلوٰۃ باب الصلوۃ قبل المغرب ح:۱۲۸۱) کہیں لوگ اس کو فرض نہ سمجھ لیں.

(بخاری کتاب التہجد باب الصلوٰۃ قبل المغرب ح:۱۱۸۳)

2

مرثد بن عبد اللہ المزنی بیان کرتے ہیں کہ میں عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا میں نے کہا کیا میں آپ کو ابو تمیم سے عجیب چیز نہ دکھاؤں وہ مغرب کی نماز سے پہلے دو ر کعتیں پڑھتا ہے؟ عقبہ رضی اللہ عنہ نے کہا ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں پڑھاکرتے تھے۔ میں نے کہا اب آپ کو کس چیز نے روکا ہے؟ انہو ں نے کہا مصروفیت نے.

(بخاری ،کتاب التہجد، باب الصلوٰۃ قبل المغرب، ح : ۱۱۸۴)

3

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم مدینہ میں تھے جب مؤذن مغر ب کی اذان کہہ دیتا تو لوگ ستونوں کی طرف تیزی سے بڑھتے اور دو رکعتیں پڑھتے حتیٰ کہ کوئی اجنبی آدمی مسجد میں داخل ہوتا تو وہ لوگوں کو کثرت سے نوافل پڑھتے دیکھ کر سمجھتا کہ جماعت ہو چکی ہے.

(مسلم ، کتاب الصلوٰۃ المسافرین، باب استحباب رکعتین قبل صلوٰۃ المغرب ،ح: ۸۳۷)

ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ مغرب کی اذان کے بعد اور جماعت سے پہلے دو رکعتیں پڑھنا مسنون ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھنے کا حکم دیا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کثرت سے یہ دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ لیکن انتہائی افسوس کہ حنفی مساجد میں اس سنت کو بالکل ترک کر دیا گیا ہے۔

اللہ ہمیں ہر مساجد میں اس سنت کو زندہ کرنے کی توفیق دے۔

آمین یا رب العالمین
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
فجر کی سنتوں کے بارے میں ہے مجھ کو فجر کے فرضوں کی دوسری رکعت ملنے کی امید ہوتی ہے تو میں مسجد کی دوسری جانب سنتیں ادا کرلیتا ہوں تو بعض لوگ کہتے ہیں کہ تمہارے اندر فرضوں کی اہمیت نہیں تو کیا میں غلط کرتا ہوں؟
Mar 22,2014 Answer: 51909
Fatwa ID: 610-610/M=5/1435-U

آپ کا عمل درست ہے، سنت فجر کی حدیث میں بڑی تاکید اور فضیلت آئی ہے، اس کو دنیا ومافیہا سے بہتر فرمایا گیا ہے اور یہ ترغیب آئی ہے کہ سنت فجر کو ادا کیا کرو چاہے تمھیں گھوڑے روند ڈالیں، اس کا تقاضا یہ ہے کہ اگر جماعت کی آخری رکعت بلکہ قعدہ اخیرہ بھی ملنے کی توقع ہو تو سنت فجر کو ادا کرلینا چاہیے تاکہ دونوں چیزیں حاصل ہوجائیں، اس سے یہ مطلب نکالنا کہ فرض کی اہمیت نہیں ہے، قطعا غلط ہے، فرض کی اہمیت نہ ہوتی تو یہ کیوں کہا جاتا کہ اگر فجر کی جماعت بالکلیہ فوت ہوجانے کا اندیشہ ہو تو سنت فجر کو چھوڑکر جماعت میں شامل ہوجائیں، جو لوگ اتنی اہم اور موٴکد سنت کو فوراً ترک کردیتے ہیں ان کے پاس اس محرومی کا کیا جواب ہے؟
واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

http://darulifta-deoband.org/showuserview.do?function=answerView&all=ur&id=51909&limit=15&idxpg=0&qry=<c>PAD</c><s>SAL</s><l>ur</l>

جب کے حدیث رسول اس سلسلے میں ھماری کیا رہنمائی کرتی ہے

جماعت ہوتے ہوئے سنت پڑھنا !!!

جب فجر کی نماز ہو رہی تو فجر کی سنت پڑھنا جائز ہے یا نہیں

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جب فجر کی جماعت ہو رہی ہو تو فجر کی سنت پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ اور جو شخص فجر جماعت میں شامل ہونے کی وجہ سے سنت نہ پڑھ سکے تو کیا بعد اداء فرض سنت پڑھ سکتا ہے یا نہیں؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس سوال کی دو شقیں ہیں ۔ شق اول یہ ہے کہ جب فجر کی جماعت ہو رہی ہو، سنت فجر پڑھنی جائز ہے یا نہیں… ؟ سو اس کے متعلق عرض ہے کہ جماعت کے ہوتے ہوئے سنت پڑھنا منع ہے ارشاد خداوندی ہے۔
﴿وَارْ‌كَعُوا مَعَ الرَّ‌اكِعِينَ (٤٣)﴾ (البقرة)
’’یعنی رکوع کرو، رکوع کرنے والوں کے ساتھ۔‘‘

اس آیت قرآنی سے اس بات کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ جماعت کے ہوتے ہوئے سنت پڑھنا منع ہے چنانچہ حدیث میں ہے۔

عن أبی ھریرة قال قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم: « إذا أقیمت الصلٰوة فلا صلوة إلا المکتوبة» (مسلم، ترمذی، ابو داؤد، احمد)

’’یعنی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب جماعت کھڑی ہو جائے (یعنی اقامت ہو جائے) پھر کوئی نماز نہیں سوائے نماز فرض کے یعنی وہی نماز جس کی تکبیر کہی جائے۔‘‘
حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے۔

فلا صلوة اِلَّا الَّتِیْ اقیمت

’’اس وقت اور کوئی نماز نہیں ہے سوائے اس نماز کے جس کی تکبیر کہی جائے۔‘‘
ابن احبان میں ایک حدیث ان الفاظ سے مروی ہے۔

إذا أخذ المؤذن بالإقامت إلا المکتوبة

’’جس وقت مؤذن تکبیر شروع کرے اس وقت سوائے نماز فرض کے اور کوئی نماز نہیں۔‘‘
حدیث إذا أقیمت الصلوة کی تشریح:

اذا عموم زمان کے لیے ہے اور فلا صلوٰۃ میں صلوٰۃ نکرہ ہے جو کہ عموم کا فائدہ دیتا ہے۔ حدیث شریف کا صاف مطلب یہ ہوا کہ جس وقت کسی نماز کے لیے اقامت کہی جائے تو بحز نماز مکتوبہ مقام لہا کے اور کوئی نماز نہیں پڑھنی چاہیے نہ فرض اور نہ غیر فرض بلکہ جماعت میں شریک ہو جانا چاہیے۔ یہ تمام حدیثیں عام ہیں جیسے اور نمازوں کو شامل ہیں، ویسے ہی نماز فجر کو شامل ہے۔ بلکہ ایک روایت ابن عدی میں تو خاص طور سے نماز فجر کی جماعت ہوتے ہوئے سنت فجر پڑھنے سے منع کیا گیا ہے۔ چنانچہ وہ روایت ان الفاظ سے مروی ہے۔

إذا أقیمت الصلوٰة فلا صلوة إلا المکتوبة قیل یا رسول اللّٰہ صلی اللہ علیه وسلم ولا رکعتی الفجر قال ولا رکحتی الفجر أخرجه ابن عدی وسندہ حسنً

’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب نماز جماعت کھڑی ہو جائے تو پھر کوئی نماز نہیں مگر وہی فرض نماز (جس کے لیے تکبیر کہی گئی) صحابہ رضی اللہ عنہ میں سے کسی نے عرض کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا نہ پڑھیں دو رکعت سنت فجر کی بھی، آپ نے فرمایا نہ پڑھو دو رکعت سنت فجر کی بھی ۔‘‘
ابو داؤد طیالسی میں ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔

قال کنت أصلی وأخذ الموذن فی الإقامة فجذ بنی النبی صلی اللہ علیه وسلم قال اتصلی اربعاً

’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ میں نماز پڑھ رہا تھا کہ مؤذن نے تکبیر کہنی شروع کر دی۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھینچ کر فرمایا کیا تو فجر کی چار رکعتیں پڑھتا ہے؟ ‘‘
Click to expand...​
Click to expand...​
آپ نے دیکھا کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے فجر کی جماعت کھڑی ہونے کے وقت سنتیں توڑ دیں۔

طبرانی میں ہے، حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔

أن رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم رأی رجلا یصلی رکعتی الغداة والمؤذن یقیم فأخذ منکبیه وقال إلا کان ھذا قبل ھٰذا

’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ دو رکعتیں سنت فجر کی پڑھتا ہے او رمؤذن تکبیر کہہ رہا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے دونوں کندھے پکڑے اور فرمایا:

إلا کان ھٰذ ا قبل ھٰذاً
’’خبردار اس نماز کا وقت اس سے پہلے تھا۔‘‘
یعنی سنت فجر پڑھنے کا وقت جماعت کے کھڑے ہونے سے پہلے ہوتا ہے جب جماعت کھڑی ہو جائے اس وقت نماز فرض کے سوائے کوئی نماز نہ پڑھے بلکہ جماعت میں شامل ہو جانا چاہیے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی خلافت کے زمانہ میں نماز فجر کی جماعت ہوتے ہوئے سنت فجر پڑھنے والوں کو بطور تعزیر مارا کرتے تھے۔

بیہقی میں ہے۔

إنه کان إذا رأی رجلاً یُصلّی وھو یسمع الاقامة ضرب

’’حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جب کسی آدمی کو دیکھتے کہ نماز پڑھتا ہے حالانکہ تکبیر سن چکا ہے تو آپ اس کو مارتے۔‘‘
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور شافعی کے نزدیک فجر کی جماعت کھڑی ہو جانے کے بعد سنت فجر پڑھنی منع ہے۔ ملاحظہ ہو جامع ترمذی… اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی مذہب ہے جیسا کہ محلی شرح مؤطا سے واضح ہوتا ہے … اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا صحیح مسلک اس مسئلہ میں معلوم نہ ہو سکا، البتہ فقہ کی مشہور ترین کتاب ہدایہ اور فتح القدیر میں ہے کہ تکبیر کے وقت مسجد میں سنت پڑھنی مکروہ ہے اور مسجد سے باہر پڑھنی جائز ہے بشرطیکہ دونوں رکعت فرض کے فوت نہ ہو جائیں ۔ آپ نے دیکھا کتب فقہ میں سنت فجر جس طرح ہمارے حنفی بھائی پڑھتے ہیں یعنی قرب صف کے… اور مسجد میں ممنوع لکھا ہے… ان حضرات کے دلائل جو جماعت ہوتے ہوئے سنت فجر پڑھنے کے قائل ہیں۔

إذا أقیمت الصلٰوة فلا صلوة إلا المکتوبة إلا رکعتی الفجر (بیہقی)

’’فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نماز جماعت کھڑی ہو جائے تو سوائے نماز فرض کے اور کوئی نماز نہیں مگر دو رکعت سنت فجر…‘‘
امام بیہقی نے اس کے بارے میں فرمایا ہے۔

ھٰذہ الزیادة لا اصل لھا وفی إسنادہٖ الحجاج بن نصیر و عباد بن کثیر وھما ضعیفان (فوائد مجموعہ ص۲۴)

’’یعنی اس زیادتی کا کوئی ثبوت نہیں اور حدیث کی سند میں حجاج بن نصیر اور عباد بن کثیر ہیں اور دونوں ضعیف ہیں۔‘‘
اور اس حدیث کے متعلق حضرت مولانا سلام اللہ صاحب حنفی رحمۃ اللہ علیہ محلی شرح مؤطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ میں لکھتے ہیں ایک حدیث میں کسی شخص نے یہ لفظ زیادہ کر دیئے ہیں: اِلَّا رکعتی الصّبح یعنی تکبیر ہو جانے کے بعد دو رکعت سنت صبح کی پڑھ لے۔

اور حضرت مولانا انور شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ حنفی دیوبندی نے بھی اِلَّا رکعتی الفجر کی زیادتی کو حدیث اذا قیمت الصلوٰۃ فلا صلوٰۃ الا المکتوبتہ میں درج تسلیم کیا ہے ملاحظہ ہو، العرف الشندی ۱۹۳۔
اور حضرت مولانا عبد الحی صاحب حنفی لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ اس مسئلہ میں اپنی رائے یوں ظاہر فرماتے ہیں۔

لکن لا یخفی علی الطاھر ان ظاھر الاخبار المرفوعة ھو المنع
(تعلیق المسجد ص۸۸)

’’یعنی جو شخص حدیث میں مہارت رکھتا ہے، اس پر پوشیدہ نہیں ہے کہ احادیث مرفوعہ ظاہر طور سے وقت تکبیر ہونے کے سنت فجر پڑھنے کو منع کر رہی ہے۔‘‘

بعض آثار صحابہ رضی اللہ عنہ بھی جماعت ہوتے ہوئے سنت فجر پڑھنے کے جواز میں پیش کیے جاتے ہیں۔ جو کہ بوجہ صحیح حدیثوں کے مخالف ہونے کے ناقابل استدلال ہیں علاوہ ازیں وہی صحابہ اکرام رضی اللہ عنہ کہ جن سے جماعت ہوتے ہوئے سنت فجر پڑھنے کا جواز پیش کیا جاتا ہے انہیں سے بغیر سنت فجر پڑھے جماعت میں شامل ہونے کا اور پھر امام کے ساتھ سلام پھیرنے کے بعد سنت فجر ادا کرنے کا بھی ثبوت موجود ہے۔

سوال شق ثانی یہ ہے کہ جو شخص سنت فجر جماعت میں شامل ہونے کی وجہ سے نہ پڑھ سکا تو بعد نماز فرض پڑھ سکتا ہے…

چنانچہ ترمذی شریف میں ہے۔ حضرت قیس بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔

قال خرج رسول اللّٰہ صلی اللہ علیه وسلم فاقیمت الصلٰوة فصلیت معه الصبح ثم الصرف النبی صلی اللہ علیہ وسلم فوجدنی اصلّی فقال مھلا یاقیس اصلاتان معاً قلت یا رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم انی لم أکن رکعت رکعتی الفجر قال فلا اذن

’’فرمایا قیس رضی اللہ عنہ صحابی نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور نماز فرض کی جماعت کھڑی ہوئی تو میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فجر کی نماز فرض پڑھی۔ بعد سلام پھیرنے کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا تو آپ نے فرمایا ٹھہر جائو قیس کیا تو دو نماز اکٹھی پڑھتا ہے؟ میں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے دو رکعت سنت فجر کی نہیں پڑھی تھیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا تو اب کوئی حرج نہیں یعنی ایسی حالت میں سنت فجر بعد سلام پھیرنے کے پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔‘‘
سنن ابو داؤد میں یہ حدیث ان الفاظ سے مروی ہے۔

عن قیس ابن عمرو قال رأی رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم رجلا یصلی بعد صلٰوة رکعتین فقال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم صلٰوة الصبح رکعتان فقال الرجل انی لم أکن صلیت الرکعتین اللتینج قبلھما فصلیت ھما الان فسکت رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم

’’روایت ہے حضرت قیس نے دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو بعد نماز صبح کے دو رکعت نماز پڑھ رہا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صبح کی نماز دو رکعت ہے تو اس شخص نے عرض کیا کہ میں نے دو رکعت سنت فجر نہیں پڑھی تھیں۔ سو اس وقت میں نے ان دونوں رکعتوں کو پڑھا ہے اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چپ رہے۔‘‘
مرقات شرح مشکوٰۃ میں اس حدیث کے بارے میں لکھا ہے۔

وقال ابن الملك سکوته یدل علی قضاء سنة الصبح بعد فرضه لمن لم یصلیھا قبله

’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاموش ہونا اس بات کی دلیل ہے
کہ جس شخص کی سنت فجر رہ گئی ہوں وہ بعد نماز فرض کے سنت فجر پڑھ لے اور سنت فجر کی قضاء بعد طلوع آفتاب کے بھی جائز ہے۔‘‘
غرض سنت فجر جو جماعت میں شریک ہونے کی وجہ سے رہ گئی ہوں دونوں طرح سے پڑھی جائز ہے قبل از طلوح آفتاب بھی اور بعد از طلوع آفتا ب بھی۔

(الاعتصام لاہور جلد ۹ شمارہ ۸)
فتاویٰ علمائے حدیث
کتاب الصلاۃجلد 1 ص 138۔141

محدث فتویٰ

 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
میرے محترم @
محمد عامر یونس
بھائی!
میں کسی فرقے، مسلک کا ترجمان نہیں ہوں۔ لہٰذا اس قسم کے سوالات مجھ سے نہ کیجئے کہ فلاں فلاں اور فلاں جو یہ کہتا ہے، اس پر میری رائے کیا ہے۔ مکالمہ اور بحث مباحثہ میں ”غیر متعلقہ“ باتوں اور ”غیر ضروری“ کاپی پیسٹ کی گنجائش نہیں ہوا کرتی۔ یا تو ٹو دی پوائنٹ گفتگو کیجئے یا پھر ”اپنی باتوں“ کو الگ سے پوسٹ کیجئے۔
اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو
والسلام
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
میرے محترم @
بھائی!
میں کسی فرقے، مسلک کا ترجمان نہیں ہوں۔ لہٰذا اس قسم کے سوالات مجھ سے نہ کیجئے کہ فلاں فلاں اور فلاں جو یہ کہتا ہے، اس پر میری رائے کیا ہے۔ مکالمہ اور بحث مباحثہ میں ”غیر متعلقہ“ باتوں اور ”غیر ضروری“ کاپی پیسٹ کی گنجائش نہیں ہوا کرتی۔ یا تو ٹو دی پوائنٹ گفتگو کیجئے یا پھر ”اپنی باتوں“ کو الگ سے پوسٹ کیجئے۔
اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو
والسلام
السلام علیکم

بھائی اگر آپ کو تکلیف پہنچی ہے تو میں اس پر آپ سے معافی مانگتا ہو -

میں تو یہ دکھانا چھا رہا تھا کہ کون لوگ ہے جو لوگوں کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث سے دور کرتے ہیں -

اللہ سبحان و تعالیٰ آپ کا بھی حامی و ناصر ہو

والسلام
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
میری رائے یہ ہے !!!




اس پر روشنیاں تو بہت ڈالی گئی ہیں لیکن یہاں صرف ایک چھوٹی سی شعاع ہی کافی رہے گی ۔

جس طرح کافروں سے خود کو ممتاز کرنے کےلیے ’’ مسلم ‘‘ کہلانا ضروری ہے ۔ اسی طرح مسلمانوں کے اندر غلط عقائد و نظریات رکھنے والوں مسلمانوں سے فرق کے لیے ’’ اہل حدیث ‘‘ یا اس سے کوئی ملتا جلتا نام کہلوانے کی ضرورت ہے ۔

’’ ادیان ‘‘ اور ’’ فرق ‘‘ دو الگ الگ اصطلاحیں ہیں ۔

ادیان مثلا : اسلام ، عیسائیت ، یہودیت ، ہندو مت وغیرہ

فرقے : مثلا اہل حدیث ، دیوبندی ، بریلوی ، شیعہ وغیرہ وغیرہ ۔
بطور دین ہماری پہچان ’’ مسلمان ‘‘ ہے ۔

جبکہ بطور ’’ فرقہ ‘‘ ہماری پہچان ’’ اہل حدیث ‘‘ ہونا ہے ۔

بعض درد دل رکھنے والے حضرات لفظ ’’ فرقہ ‘‘ سے بہت ڈرتے ہیں جیساکہ اسی موضوع کے اندر یہ ملاحظہ کیاجاسکتا ہے ۔ حالانکہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’ حق پر ہونے والے ‘‘ بھی فرقوں میں سے ایک فرقہ ہوگا ۔

افترقت اليهود على إحدى وسبعين فرقة، وافترقت النصارى على اثنتين وسبعين فرقة، و ستفترق هذه الأمة على ثلاث وسبعين فرقة كلها في النار إلا واحدة، قيل: من هي يا رسول الله؟ قال: من كان على مثل ما أنا عليه وأصحابي. وفي بعض الروايات: هي الجماعة. رواه أبو داود والترمذي وابن ماجه والحاكم، وقال: صحيح على شرط مسلم.

اب اس حدیث میں غور کریں یا نہ کریں یہ بات بالکل واضح ہےکہ اس امت كے 73 فرقے ہوں گے اور انہیں 73 میں سے ایک فرقہ جنت میں جائے گا ۔

میرے خیال سے ’’ فرقے ‘‘ سے ڈرنے کی بجائے جنت میں جانے والے ’’ فرقے ‘‘ کی تلاش کرنی چاہیے اور پھر اس طرح کے اعمال کرنے چاہییں ۔

@خضر حیات بھائی کی کہی ہوئی بات یہاں پر شیئر کر رہا ہو

http://forum.mohaddis.com/threads/میرا-کوئی-فرقہ-نہیں۔۔۔لمحہ-فکریہ.18424/page-3#post-138535

http://forum.mohaddis.com/threads/میرا-کوئی-فرقہ-نہیں۔۔۔لمحہ-فکریہ.18424/page-3
 
Last edited:

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
گویا آپ کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں رہنے کے لئے فرقہ بنانا ضروری ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ پھر تو آپ کے نزدیک اللہ کے اس فرمان کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔
سُوۡرَةُ آل عِمرَان

وَٱعۡتَصِمُواْ بِحَبۡلِ ٱللَّهِ جَمِيعً۬ا وَلَا تَفَرَّقُواْ‌ۚ وَٱذۡكُرُواْ نِعۡمَتَ ٱللَّهِ عَلَيۡكُمۡ إِذۡ كُنتُمۡ أَعۡدَآءً۬ فَأَلَّفَ بَيۡنَ قُلُوبِكُمۡ فَأَصۡبَحۡتُم بِنِعۡمَتِهِۦۤ إِخۡوَٲنً۬ا وَكُنتُمۡ عَلَىٰ شَفَا حُفۡرَةٍ۬ مِّنَ ٱلنَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنۡہَا‌ۗ كَذَٲلِكَ يُبَيِّنُ ٱللَّهُ لَكُمۡ ءَايَـٰتِهِۦ لَعَلَّكُمۡ تَہۡتَدُونَ (١٠٣)​
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
گویا آپ کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں رہنے کے لئے فرقہ بنانا ضروری ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ پھر تو آپ کے نزدیک اللہ کے اس فرمان کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔
سُوۡرَةُ آل عِمرَان

وَٱعۡتَصِمُواْ بِحَبۡلِ ٱللَّهِ جَمِيعً۬ا وَلَا تَفَرَّقُواْ‌ۚ وَٱذۡكُرُواْ نِعۡمَتَ ٱللَّهِ عَلَيۡكُمۡ إِذۡ كُنتُمۡ أَعۡدَآءً۬ فَأَلَّفَ بَيۡنَ قُلُوبِكُمۡ فَأَصۡبَحۡتُم بِنِعۡمَتِهِۦۤ إِخۡوَٲنً۬ا وَكُنتُمۡ عَلَىٰ شَفَا حُفۡرَةٍ۬ مِّنَ ٱلنَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنۡہَا‌ۗ كَذَٲلِكَ يُبَيِّنُ ٱللَّهُ لَكُمۡ ءَايَـٰتِهِۦ لَعَلَّكُمۡ تَہۡتَدُونَ (١٠٣)​
میرے بھائی اس پر فتن دور میں جب کے لوگ فرقوں میں بٹ چکے ہیں ان سے فرق کے لئے آپ اپنے آپ کو کیا کہلانا پسند کرے گے -

کیا ھم سب کے لئے لفظ مسلم اس دور میں کافی ہے ؟؟؟؟

میرے بھائی باطل فرقوں سے ممتاز کرنے کے لئے سلف نے لفظ اہل سنت و الجماعت اخیتار کیا کیا آپ ان کو غلط کہے گے -

آپ اس حدیث میں غور کریں یہ بات بالکل واضح ہےکہ اس امت كے 73 فرقے ہوں گے اور انہیں 73 میں سے ایک فرقہ جنت میں جائے گا ۔

اور اہل حدیث کی دعوت صرف اور صرف قرآن و سنت کی طرف ہے نہ کے کسی شخصیت کی طرف-

جب کے اس کے برعکس جن لوگوں نے شخصیت کی طرف دعوت دی کیا ان لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام اس شخصیت کو نہیں دے رکھا ہے ؟؟؟؟
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
گویا آپ کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں رہنے کے لئے فرقہ بنانا ضروری ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ پھر تو آپ کے نزدیک اللہ کے اس فرمان کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔
سُوۡرَةُ آل عِمرَان

وَٱعۡتَصِمُواْ بِحَبۡلِ ٱللَّهِ جَمِيعً۬ا وَلَا تَفَرَّقُواْ‌ۚ وَٱذۡكُرُواْ نِعۡمَتَ ٱللَّهِ عَلَيۡكُمۡ إِذۡ كُنتُمۡ أَعۡدَآءً۬ فَأَلَّفَ بَيۡنَ قُلُوبِكُمۡ فَأَصۡبَحۡتُم بِنِعۡمَتِهِۦۤ إِخۡوَٲنً۬ا وَكُنتُمۡ عَلَىٰ شَفَا حُفۡرَةٍ۬ مِّنَ ٱلنَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنۡہَا‌ۗ كَذَٲلِكَ يُبَيِّنُ ٱللَّهُ لَكُمۡ ءَايَـٰتِهِۦ لَعَلَّكُمۡ تَہۡتَدُونَ (١٠٣)




میرے بھائی اس ویڈیو کو ضرور سنیں تا کہ آپ کے بات سمجھ آ جائے


لنک




 
Top