فتوى الشيخ ناصر الفهد في لبس " ربطة العنق "
(حكم ربطة العنق) ٹائی کا شرعی حکم
س / أسأل حول حكم لبس ربطة العنق مع التوضيح ولكم الأجر إنشاء الله۔۔۔۔ ٹائی کے بارے میرا سوال ہے کہ اس کا کیا حکم ہے ؟
ج/ لايجوز لبسها لأنها تشبه بالكفار وفي الحديث الصحيح (من تشبه بقوم فهو منهم) ، وفي حديث عبد الله بن عمرو بن العاص في الصحيح لما رأى عليه النبي صلى الله عليه وسلم ثوبين معصفرين قال له (إن هذه من ثياب الكفار فلا تلبسها) ، فعلل النهي عن لبسها بأنها من ثياب الكفار، وفي حديث أبي أمامة مرفوعا (تسرولوا واتزروا خالفوا أهل الكتاب) ، فمخالفتهم في اللبس مطلب للشارع،
وفي البخاري عن عمر بن الخطاب أنه كتب للمسلمين في خراسان (إياكم والتنعم وزي أهل الشرك) ، والأحاديث في ذلك كثيرة ،
جواب : ٹائی پہننا جائز نہیں ،کیونکہ اس میں کفار کی مشابہت پائی جاتی ہے ،
اور صحیح حدیث میں وارد ہے کہ (جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی ،وہ انہی میں شمار ہوگا )اور عبد اللہ بن عمرو سے مروی صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے انہیں عصفر سے رنگے کپڑے پہنے دیکھا تو فرمایا :یہ کفار کا لباس ہیں ، اس لئے تم یہ نہ پہنو ‘‘
یہاں نبی کریم ﷺ منع کی علت یہ بتائی کہ یہ کفار پہنتے ہیں ، تو واضح ہے کہ کفار کی مخالفت کرنا شرعاً مطلوب ہے ،،
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مجاہدین کو خط لکھ کر حکم دیا ،عیش وعشرت (luxury) سے اجتناب کرو ۔اور مشرکین کی چال ڈھال مت اپناو ۔
ولا عبرة بانتشار لبس الكفار بين المسلمين ليقال بأنه لم يعد خاصا بهم فلا يكون تشبها بهم لأربعة أمور :
لباس کفار کا مسلم معاشرے میں پھیلنا ،اس بات کا جواز نہیں بن سکتا کہ اب یہ کفار کے ساتھ خاص نہیں ،اور ان کی مشابہت نہیں ۔اس مشابہت کی چار وجہیں موجود است
أولا: إنه ما انتشر بين المسلمين إلا عن طريق الكفار ، ولو سألت أي مسلم يلبس لبسهم كيف كان لبس جده لقال إنه لبس المسلمين لا لبس الكفار ، ولهذا يسمون هذا -لبسا إفرنجيا وبدلة إفرنجية ونحو ذلك.
اولاً : یہ لباس کفار کے ذریعے ہی مسلمین میں رائج ہوا ،آپ کسی بھی مسلم سے پوچھیں گے ،کہ اس کے بزرگوں کا لباس کیا تھا تو وہ یہی کہے گا اس کے بزرگ اہل اسلام کا لباس زیب تن کیا کرتے تھے ،کفار کا نہیں ۔اسی لئیے وہ اسے انگریزی اور افرنگی لباس کہتے ہیں ۔
ثانيا : إننا لو قلنا بهذا لعطلنا أحاديث النهي عن التشبه بالكفار في لبسهم وأصبحت ملغاة وهذا ظاهر جدا لأن الناس الآن أصبحوا كلهم إلا من رحم الله يلبسون لبسة الأوربيين.
اور اگر ہم یہ کہیں کہ اب یہ کفار کے ساتھ خاص نہیں ،اور ان کی مشابہت نہیں ۔
تو کفار کی مشابہت سے روکنے والی احادیث معطل اور لغو ہو جائیں گی ۔یعنی بےکار اور بے معنی ۔۔کیونکہ اب اکثر اہل اسلام یورپی لباس ہی پہنتے ہیں ۔
ثالثا : أن مخالفة المسلمين للكفار في لبسهم وهيئتهم مطلب للشارع كما يعرفه من ينظر النصوص الواردة في الباب، فإن المشابهة في الظاهر تورد مشاكلة في الباطن كما ذكر شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله تعالى، والمسلم يتميز عن الكفار بهيئته لهذا كان الخلفاء الراشدون ومن بعدهم يلزمون أهل الذمة بأن يتميزوا ولا يتشبهوا بالمسلمين في لباسهم.
تیسرا نکتہ یہ کہ لباس اور ظاہری حلیہ میں کفار کی مخالفت کرنا شرعاً مطلوب ہے ،جیسا کہ نصوص شریعت کا اس باب میں مطالعہ کرنے کرنے والے جانتے ہیں،
کیونکہ ظاہر کی مشابہت ۔۔باطن کی مشابہت کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔جیساکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ نے بیان فرمایا ،اور ایک مسلم کو کافر سے حلیئے اور وضع میں بھی کافر سے متمیز اور جدا ہونا چاہیئے ،اسی لیئے خلفاء راشدین اور ان جانشین اس بات کا اہتمام رکھتے تھے کہ اہل ذمہ حلیئے اور وضع میں مسلمانوں سے جدا رہیں ،اور اہل اسلام کی مشابہ نہ ہوں ۔
رابعا : أن أهل الحق والخير والعلم والسنة في هذا الزمن على اختلاف بلدانهم لا يلبسون لباس الكفار بل يلبسون لبس المسلمين والعبرة بهم لا بالفساق.
چوتھی وجہ اس کے عدم جواز کی یہ ہے کہ۔مختلف ملکوں میں بسنے والےاہل حق اور اہل علم اور صالحین اس زمانے میں بھی ،کفار کا لباس نہیں پہنتے ،اور یہ حقیقت تو معلوم ہی ہے ،کہ اعمال کے جواز وعدم جواز میں اعتبار اہل حق کا ہوتا ہے نہ کہ فاسقوں ، فاجروں کا ۔۔
والله تعالى أعلم
المصدر
__________________________________________________
وكذلك الشيخ عبد الرحمن عبد الخالق سئل عنها :
ما حكم لبس ربطة العنق ؟
ربطة العنق من شعار ولباس الكفار، ولا يجوز للمسلم أن يلبسها لأن في هذا تشبه بهم.
-------------------------------------------