• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام میں ٹائی کاحکم

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
ما الحكم في لبس ربطة العنق ؟.

الحمد لله
على الإنسان المسلم أن يكون متميزا بمظهره وملبسه عن غير المسلمين لأنّ الشريعة قد جاءت بذلك وأن لا يلبس المسلم أيّ لباس هو من خصائص الكفّار ، وأمّا بالنسبة لربطة العنق فإن استطاع أن يستغني عنها فهو أفضل ، وإذا احتاج إلى لبسها فلا حرج إن شاء الله ، ولينتبه ألا تكون من الحرير الطبيعي أو فيها تصاليب أو صور ذوات الأرواح .

والله أعلم .

الشيخ محمد صالح المنجد
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

بھائی میرے میں آپ کو اس پر بیسیوں فتوے دکھا سکتا ہوں، آپ فتوے پیش کریں لیکن اپنی رائے بھی ساتھ پیش فرمائیں، دیکھیں میں نے صاحب مراسل پر پوسٹ ڈالی تھی، آپ ان کی فیور میں ہیں تو پھر پوچھنے کی کیا ضرورت تھی انتظار فرماتے انہیں مزید کچھ کہنے کا یا انتظار فرماتے مجھے بھی اس پر لکھنے کا،

ایک فتوی یہاں بھی، مگر جب تک تقریر ساتھ نہیں ہو گی یہ فتوے تیرے میرے کہلائیں گے۔

سوال: کسی ملازمت میں ترقی کا معیار ٹائی باندھنے پر ہو تو ایسی صورت میں ٹائی باندھنا جائز ہے یا نہیں؟

الجواب حامداً و مصلیاً: ٹائی ایک وقت میں نصاریٰ کا شعار تھا، اس وقت اس کا حکم بھی سخت تھا، اب غیر نصاریٰ بھی بکثرت استعمال کرتے ہیں ، اب اس کے حکم میں تخفیف ہے، اس کو شرک یا حرام نہیں کہا جائے گا، کراہیت سے اب بھی خالی نہیں ، کہیں کراہیت شدید ہو گی، کہیں ہلکی، جہاں اس کا استعمال عام ہو جائے، وہاں اس کے منع پر زور نہیں دیا جائے گا۔

اس پر محشی صاحب لکھتے ہیں: کہ ٹائی کا استعمال اگرچہ مسلمانوں میں بھی عام ہو گیا ہے؛ مگر اس کے باوجود انگریزی لباس کا حصہ ہی ہے، اگر انگریزی لباس تصور نہ کیا جائے؛ لیکن فساق و فجار کا لباس تو بہر حال ہے، لہٰذا تشبہ بالفساق کی وجہ سے ممنوع قرار دیا جائے گا۔
دوسری بات یہ کہ اہلِ صلاح اس لباس کو پسند بھی نہیں کرتے ؛ کیوں کہ یہ علماء و صلحاء کے لباس کے خلاف ہے،
تیسری بات یہ کہ اس کے علاوہ ٹائی میں ایک اور خرابی یہ بھی ہے کہ عیسائی ا س سے اپنے عقیدہ ”صلیب عیسیٰ علیہ السلام “یعنی: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مصلوب کیے جانے کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جو کہ نص قرآنی کے خلاف ہے، لہٰذا تشبہ بالکفار کے ساتھ ساتھ عیسائیوں کی مذہبی یادگار اور مذہبی شعار ہونے کی وجہ سے بھی پہننا جائز نہیں:

”وعنہ (أي: عن ابن عمر رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہما) قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم: ”مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ“ أي: مَنْ شَبَّہَ نَفْسَہ بِالْکُفَّارِ، مثلاً: فِي اللِّبَاسِ وَغَیْرِہ، أو بِالْفُسَّاقِ أوْ بِالْفُجَّارِ، أوْ بِأہْلِ التَّصَوُّفِ وَالصُّلَحَاءِ الأبْرَارِ․”فَہُو مِنْہُمْ“، أي: في الاثْمِ وَالْخَیْرِ“․
(مرقاة المفاتیح، کتاب اللباس، الفصل الثاني، رقم الحدیث: ۴۳۴۷، ۸/۱۵۵، رشیدیة)

البتہ اگر ادارہ یا حکومت کی طرف سے پابندی ہو، نہ لگانے پر سزا دی جاتی ہو، یا کوئی اور رکاوٹ بنتا ہو تو اس صورت میں لگانے والے پر گناہ نہیں ہو گا؛ بلکہ اس ادارے یا حکومت کے ارکان پر گناہ عائد ہو گا، جس نے ایسا ضابطہ بنایا۔
(فتاویٰ محمودیہ، باب اللباس، ٹائی کا استعمال: ۱۹/۲۹۰، ادارة الفاروق)

والسلام
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
الجواب حامداً و مصلیاً: ٹائی ایک وقت میں نصاریٰ کا شعار تھا، اس وقت اس کا حکم بھی سخت تھا، اب غیر نصاریٰ بھی بکثرت استعمال کرتے ہیں
ویسے یہ کلیہ بھی بالکلیہ درست نہیں ہے ۔ کیونکہ اگر ہے تو پھر ایک شخص یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ سودوشراب یہودونصاریٰ میں عام سی بات تھی اب ہمارے مسلمان بھی کثرت سے کرتے ہیں ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
فتوى الشيخ ناصر الفهد في لبس " ربطة العنق "

(حكم ربطة العنق) ٹائی کا شرعی حکم

س / أسأل حول حكم لبس ربطة العنق مع التوضيح ولكم الأجر إنشاء الله۔۔۔۔ ٹائی کے بارے میرا سوال ہے کہ اس کا کیا حکم ہے ؟

ج/ لايجوز لبسها لأنها تشبه بالكفار وفي الحديث الصحيح (من تشبه بقوم فهو منهم) ، وفي حديث عبد الله بن عمرو بن العاص في الصحيح لما رأى عليه النبي صلى الله عليه وسلم ثوبين معصفرين قال له (إن هذه من ثياب الكفار فلا تلبسها) ، فعلل النهي عن لبسها بأنها من ثياب الكفار، وفي حديث أبي أمامة مرفوعا (تسرولوا واتزروا خالفوا أهل الكتاب) ، فمخالفتهم في اللبس مطلب للشارع،
وفي البخاري عن عمر بن الخطاب أنه كتب للمسلمين في خراسان (إياكم والتنعم وزي أهل الشرك) ، والأحاديث في ذلك كثيرة ،

جواب : ٹائی پہننا جائز نہیں ،کیونکہ اس میں کفار کی مشابہت پائی جاتی ہے ،
اور صحیح حدیث میں وارد ہے کہ (جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی ،وہ انہی میں شمار ہوگا )اور عبد اللہ بن عمرو سے مروی صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے انہیں عصفر سے رنگے کپڑے پہنے دیکھا تو فرمایا :یہ کفار کا لباس ہیں ، اس لئے تم یہ نہ پہنو ‘‘
یہاں نبی کریم ﷺ منع کی علت یہ بتائی کہ یہ کفار پہنتے ہیں ، تو واضح ہے کہ کفار کی مخالفت کرنا شرعاً مطلوب ہے ،،
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مجاہدین کو خط لکھ کر حکم دیا ،عیش وعشرت (luxury) سے اجتناب کرو ۔اور مشرکین کی چال ڈھال مت اپناو ۔
ولا عبرة بانتشار لبس الكفار بين المسلمين ليقال بأنه لم يعد خاصا بهم فلا يكون تشبها بهم لأربعة أمور :
لباس کفار کا مسلم معاشرے میں پھیلنا ،اس بات کا جواز نہیں بن سکتا کہ اب یہ کفار کے ساتھ خاص نہیں ،اور ان کی مشابہت نہیں ۔اس مشابہت کی چار وجہیں موجود است
أولا: إنه ما انتشر بين المسلمين إلا عن طريق الكفار ، ولو سألت أي مسلم يلبس لبسهم كيف كان لبس جده لقال إنه لبس المسلمين لا لبس الكفار ، ولهذا يسمون هذا -لبسا إفرنجيا وبدلة إفرنجية ونحو ذلك.
اولاً : یہ لباس کفار کے ذریعے ہی مسلمین میں رائج ہوا ،آپ کسی بھی مسلم سے پوچھیں گے ،کہ اس کے بزرگوں کا لباس کیا تھا تو وہ یہی کہے گا اس کے بزرگ اہل اسلام کا لباس زیب تن کیا کرتے تھے ،کفار کا نہیں ۔اسی لئیے وہ اسے انگریزی اور افرنگی لباس کہتے ہیں ۔

ثانيا : إننا لو قلنا بهذا لعطلنا أحاديث النهي عن التشبه بالكفار في لبسهم وأصبحت ملغاة وهذا ظاهر جدا لأن الناس الآن أصبحوا كلهم إلا من رحم الله يلبسون لبسة الأوربيين.
اور اگر ہم یہ کہیں کہ اب یہ کفار کے ساتھ خاص نہیں ،اور ان کی مشابہت نہیں ۔
تو کفار کی مشابہت سے روکنے والی احادیث معطل اور لغو ہو جائیں گی ۔یعنی بےکار اور بے معنی ۔۔کیونکہ اب اکثر اہل اسلام یورپی لباس ہی پہنتے ہیں ۔

ثالثا : أن مخالفة المسلمين للكفار في لبسهم وهيئتهم مطلب للشارع كما يعرفه من ينظر النصوص الواردة في الباب، فإن المشابهة في الظاهر تورد مشاكلة في الباطن كما ذكر شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله تعالى، والمسلم يتميز عن الكفار بهيئته لهذا كان الخلفاء الراشدون ومن بعدهم يلزمون أهل الذمة بأن يتميزوا ولا يتشبهوا بالمسلمين في لباسهم.

تیسرا نکتہ یہ کہ لباس اور ظاہری حلیہ میں کفار کی مخالفت کرنا شرعاً مطلوب ہے ،جیسا کہ نصوص شریعت کا اس باب میں مطالعہ کرنے کرنے والے جانتے ہیں،
کیونکہ ظاہر کی مشابہت ۔۔باطن کی مشابہت کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔جیساکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ نے بیان فرمایا ،اور ایک مسلم کو کافر سے حلیئے اور وضع میں بھی کافر سے متمیز اور جدا ہونا چاہیئے ،اسی لیئے خلفاء راشدین اور ان جانشین اس بات کا اہتمام رکھتے تھے کہ اہل ذمہ حلیئے اور وضع میں مسلمانوں سے جدا رہیں ،اور اہل اسلام کی مشابہ نہ ہوں ۔

رابعا : أن أهل الحق والخير والعلم والسنة في هذا الزمن على اختلاف بلدانهم لا يلبسون لباس الكفار بل يلبسون لبس المسلمين والعبرة بهم لا بالفساق.
چوتھی وجہ اس کے عدم جواز کی یہ ہے کہ۔مختلف ملکوں میں بسنے والےاہل حق اور اہل علم اور صالحین اس زمانے میں بھی ،کفار کا لباس نہیں پہنتے ،اور یہ حقیقت تو معلوم ہی ہے ،کہ اعمال کے جواز وعدم جواز میں اعتبار اہل حق کا ہوتا ہے نہ کہ فاسقوں ، فاجروں کا ۔۔
والله تعالى أعلم

المصدر


__________________________________________________


وكذلك الشيخ عبد الرحمن عبد الخالق سئل عنها :

ما حكم لبس ربطة العنق ؟

ربطة العنق من شعار ولباس الكفار، ولا يجوز للمسلم أن يلبسها لأن في هذا تشبه بهم.


-------------------------------------------
 
Last edited:

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
جس بھائی نے ٹائی کو مکروہ قرار دیا ہے میں ان سے دلیل کا طلب گار ہوں، اس لیے ان سے گزارش ہے کہ اس کو مکروہ قرار دینے سے کوئی چیز مکروہ نہیں ہو جاتی ہے اس کے شرعی دلیل کو ہونا لازمی امر ہے،کیا اگر یہود نصاری کسی جائز چیز کا کثرت سے استعمال کریں گے تو وہ مکروہ ہو جاتی ہے،یہ نہ تو اصل یہودی پہنتے ہیں میری مراد ان کے مذہبی لوگ ہیں ان کا لباس ہی اور ہے اور نہ ہی عیسائی پادری اور پوپ نے اس کو اپنے لباس کا لازمی جز قرار دیا ہے ، ٹائی تو صرف عوام الناس میں مستعمل ہے، اس لیے اس کو مکروہ کہنا شریعت سازی ہے جس کا ہمیں کوئی اختیار نہیں ہے،
السلام و علیکم و رحمت الله -

محترم یہ بات زہن میں رکھیے کہ انسانی افعال لا محدود ہیں - اللہ تعالی نے بعض چیزوں کی حلت و حرمت کو قرآن میں بیان کر دیا ہے یا پھر نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کی واضح ممانعت سے وہ فعل ناجائز یا مکروہ قرار پاے- رہے بقیہ امورجو دور نبوت میں پیش نہیں آے بلکہ دور جدید کی ایجاد ہیں تو ان کا فیصلہ لوگوں کی عقل پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ اپنے علماء کی فطری رہنمائی کے مطابق ان کا فیصلہ کریں۔ قرآن و حدیث نے ہمیں ان افعال کی متعلق یہ حکم دیا ہے کہ جو چیز انسان کے لئے بے فائدہ ہے یا انسان کو بے جا تکلیف میں مبتلا کرتی ہے اس کا چھوڑ دینا ہی اس کے ایمان کا تقاضہ اور افضل عمل ہے-

قران الله پاک ارشاد ہے کہ:

قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ- الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ- وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ- سوره المومنون ١-٣
ٰبے شک ایمان والے کامیاب ہو گئے-جو اپنی نماز میں عاجزی کرنے والے ہیں- اور جو لغو باتو ں (چیزوں) سے منہ موڑنے والے ہیں-

ٹائی لباس کا ایک غیرضروری حصّہ ہے - اور اس کو پہن کر انسان تکلیف مبتلا نظرآتا ہے - اور اپنی اکثر عبادات اور دوسرے بہت سے امور سکون سے سر انجام نہیں دے پاتا - پھر یہ کہ اس میں یہود و نصاریٰ سے مشابہت کا عنصر بھی پایا جاتا ہے - جس کی بنا پر بعض علماء نے اس کے حرام ہونے کے بھی دلائل دیے ہیں- بہر حال مسلک اعتدال یہی ہے کہ ٹائی پہننے سے اجتناب کیا جائے -نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کا فرمان مبارک ہے - "حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور کچھ امور اس کے درمیان ہیں -یعنی حرام و حلال واضح نہیں- آدمی کے ایمان کا تقاضہ یہ ہے کہ ایسی چیزوں کو چھوڑ دے جس کا حرام و حلال واضح نہ ہو"- (متفق علیہ)-

الله ہم سب کو اپنی سیدھی راہ کی طرف گامزن کرے (آمین)-
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام علیکم

بھائی میرے میں آپ کو اس پر بیسیوں فتوے دکھا سکتا ہوں، آپ فتوے پیش کریں لیکن اپنی رائے بھی ساتھ پیش فرمائیں، دیکھیں میں نے صاحب مراسل پر پوسٹ ڈالی تھی، آپ ان کی فیور میں ہیں تو پھر پوچھنے کی کیا ضرورت تھی انتظار فرماتے انہیں مزید کچھ کہنے کا یا انتظار فرماتے مجھے بھی اس پر لکھنے کا،

ایک فتوی یہاں بھی، مگر جب تک تقریر ساتھ نہیں ہو گی یہ فتوے تیرے میرے کہلائیں گے۔

سوال: کسی ملازمت میں ترقی کا معیار ٹائی باندھنے پر ہو تو ایسی صورت میں ٹائی باندھنا جائز ہے یا نہیں؟

الجواب حامداً و مصلیاً: ٹائی ایک وقت میں نصاریٰ کا شعار تھا، اس وقت اس کا حکم بھی سخت تھا، اب غیر نصاریٰ بھی بکثرت استعمال کرتے ہیں ، اب اس کے حکم میں تخفیف ہے، اس کو شرک یا حرام نہیں کہا جائے گا، کراہیت سے اب بھی خالی نہیں ، کہیں کراہیت شدید ہو گی، کہیں ہلکی، جہاں اس کا استعمال عام ہو جائے، وہاں اس کے منع پر زور نہیں دیا جائے گا۔

اس پر محشی صاحب لکھتے ہیں: کہ ٹائی کا استعمال اگرچہ مسلمانوں میں بھی عام ہو گیا ہے؛ مگر اس کے باوجود انگریزی لباس کا حصہ ہی ہے، اگر انگریزی لباس تصور نہ کیا جائے؛ لیکن فساق و فجار کا لباس تو بہر حال ہے، لہٰذا تشبہ بالفساق کی وجہ سے ممنوع قرار دیا جائے گا۔
دوسری بات یہ کہ اہلِ صلاح اس لباس کو پسند بھی نہیں کرتے ؛ کیوں کہ یہ علماء و صلحاء کے لباس کے خلاف ہے،
تیسری بات یہ کہ اس کے علاوہ ٹائی میں ایک اور خرابی یہ بھی ہے کہ عیسائی ا س سے اپنے عقیدہ ”صلیب عیسیٰ علیہ السلام “یعنی: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مصلوب کیے جانے کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جو کہ نص قرآنی کے خلاف ہے، لہٰذا تشبہ بالکفار کے ساتھ ساتھ عیسائیوں کی مذہبی یادگار اور مذہبی شعار ہونے کی وجہ سے بھی پہننا جائز نہیں:

”وعنہ (أي: عن ابن عمر رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہما) قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم: ”مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ“ أي: مَنْ شَبَّہَ نَفْسَہ بِالْکُفَّارِ، مثلاً: فِي اللِّبَاسِ وَغَیْرِہ، أو بِالْفُسَّاقِ أوْ بِالْفُجَّارِ، أوْ بِأہْلِ التَّصَوُّفِ وَالصُّلَحَاءِ الأبْرَارِ․”فَہُو مِنْہُمْ“، أي: في الاثْمِ وَالْخَیْرِ“․
(مرقاة المفاتیح، کتاب اللباس، الفصل الثاني، رقم الحدیث: ۴۳۴۷، ۸/۱۵۵، رشیدیة)

البتہ اگر ادارہ یا حکومت کی طرف سے پابندی ہو، نہ لگانے پر سزا دی جاتی ہو، یا کوئی اور رکاوٹ بنتا ہو تو اس صورت میں لگانے والے پر گناہ نہیں ہو گا؛ بلکہ اس ادارے یا حکومت کے ارکان پر گناہ عائد ہو گا، جس نے ایسا ضابطہ بنایا۔
(فتاویٰ محمودیہ، باب اللباس، ٹائی کا استعمال: ۱۹/۲۹۰، ادارة الفاروق)

والسلام
متفق
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
فتوى الشيخ ناصر الفهد في لبس " ربطة العنق "

(حكم ربطة العنق) ٹائی کا شرعی حکم

س / أسأل حول حكم لبس ربطة العنق مع التوضيح ولكم الأجر إنشاء الله۔۔۔۔ ٹائی کے بارے میرا سوال ہے کہ اس کا کیا حکم ہے ؟

ج/ لايجوز لبسها لأنها تشبه بالكفار وفي الحديث الصحيح (من تشبه بقوم فهو منهم) ، وفي حديث عبد الله بن عمرو بن العاص في الصحيح لما رأى عليه النبي صلى الله عليه وسلم ثوبين معصفرين قال له (إن هذه من ثياب الكفار فلا تلبسها) ، فعلل النهي عن لبسها بأنها من ثياب الكفار، وفي حديث أبي أمامة مرفوعا (تسرولوا واتزروا خالفوا أهل الكتاب) ، فمخالفتهم في اللبس مطلب للشارع،
وفي البخاري عن عمر بن الخطاب أنه كتب للمسلمين في خراسان (إياكم والتنعم وزي أهل الشرك) ، والأحاديث في ذلك كثيرة ،

جواب : ٹائی پہننا جائز نہیں ،کیونکہ اس میں کفار کی مشابہت پائی جاتی ہے ،
اور صحیح حدیث میں وارد ہے کہ (جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی ،وہ انہی میں شمار ہوگا )اور عبد اللہ بن عمرو سے مروی صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے انہیں عصفر سے رنگے کپڑے پہنے دیکھا تو فرمایا :یہ کفار کا لباس ہیں ، اس لئے تم یہ نہ پہنو ‘‘
یہاں نبی کریم ﷺ منع کی علت یہ بتائی کہ یہ کفار پہنتے ہیں ، تو واضح ہے کہ کفار کی مخالفت کرنا شرعاً مطلوب ہے ،،
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مجاہدین کو خط لکھ کر حکم دیا ،عیش وعشرت (luxury) سے اجتناب کرو ۔اور مشرکین کی چال ڈھال مت اپناو ۔
ولا عبرة بانتشار لبس الكفار بين المسلمين ليقال بأنه لم يعد خاصا بهم فلا يكون تشبها بهم لأربعة أمور :
لباس کفار کا مسلم معاشرے میں پھیلنا ،اس بات کا جواز نہیں بن سکتا کہ اب یہ کفار کے ساتھ خاص نہیں ،اور ان کی مشابہت نہیں ۔اس مشابہت کی چار وجہیں موجود است
أولا: إنه ما انتشر بين المسلمين إلا عن طريق الكفار ، ولو سألت أي مسلم يلبس لبسهم كيف كان لبس جده لقال إنه لبس المسلمين لا لبس الكفار ، ولهذا يسمون هذا -لبسا إفرنجيا وبدلة إفرنجية ونحو ذلك.
اولاً : یہ لباس کفار کے ذریعے ہی مسلمین میں رائج ہوا ،آپ کسی بھی مسلم سے پوچھیں گے ،کہ اس کے بزرگوں کا لباس کیا تھا تو وہ یہی کہے گا اس کے بزرگ اہل اسلام کا لباس زیب تن کیا کرتے تھے ،کفار کا نہیں ۔اسی لئیے وہ اسے انگریزی اور افرنگی لباس کہتے ہیں ۔

ثانيا : إننا لو قلنا بهذا لعطلنا أحاديث النهي عن التشبه بالكفار في لبسهم وأصبحت ملغاة وهذا ظاهر جدا لأن الناس الآن أصبحوا كلهم إلا من رحم الله يلبسون لبسة الأوربيين.
اور اگر ہم یہ کہیں کہ اب یہ کفار کے ساتھ خاص نہیں ،اور ان کی مشابہت نہیں ۔
تو کفار کی مشابہت سے روکنے والی احادیث معطل اور لغو ہو جائیں گی ۔یعنی بےکار اور بے معنی ۔۔کیونکہ اب اکثر اہل اسلام یورپی لباس ہی پہنتے ہیں ۔

ثالثا : أن مخالفة المسلمين للكفار في لبسهم وهيئتهم مطلب للشارع كما يعرفه من ينظر النصوص الواردة في الباب، فإن المشابهة في الظاهر تورد مشاكلة في الباطن كما ذكر شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله تعالى، والمسلم يتميز عن الكفار بهيئته لهذا كان الخلفاء الراشدون ومن بعدهم يلزمون أهل الذمة بأن يتميزوا ولا يتشبهوا بالمسلمين في لباسهم.

تیسرا نکتہ یہ کہ لباس اور ظاہری حلیہ میں کفار کی مخالفت کرنا شرعاً مطلوب ہے ،جیسا کہ نصوص شریعت کا اس باب میں مطالعہ کرنے کرنے والے جانتے ہیں،
کیونکہ ظاہر کی مشابہت ۔۔باطن کی مشابہت کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔جیساکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ نے بیان فرمایا ،اور ایک مسلم کو کافر سے حلیئے اور وضع میں بھی کافر سے متمیز اور جدا ہونا چاہیئے ،اسی لیئے خلفاء راشدین اور ان جانشین اس بات کا اہتمام رکھتے تھے کہ اہل ذمہ حلیئے اور وضع میں مسلمانوں سے جدا رہیں ،اور اہل اسلام کی مشابہ نہ ہوں ۔

رابعا : أن أهل الحق والخير والعلم والسنة في هذا الزمن على اختلاف بلدانهم لا يلبسون لباس الكفار بل يلبسون لبس المسلمين والعبرة بهم لا بالفساق.
چوتھی وجہ اس کے عدم جواز کی یہ ہے کہ۔مختلف ملکوں میں بسنے والےاہل حق اور اہل علم اور صالحین اس زمانے میں بھی ،کفار کا لباس نہیں پہنتے ،اور یہ حقیقت تو معلوم ہی ہے ،کہ اعمال کے جواز وعدم جواز میں اعتبار اہل حق کا ہوتا ہے نہ کہ فاسقوں ، فاجروں کا ۔۔
والله تعالى أعلم

المصدر


__________________________________________________


وكذلك الشيخ عبد الرحمن عبد الخالق سئل عنها :

ما حكم لبس ربطة العنق ؟

ربطة العنق من شعار ولباس الكفار، ولا يجوز للمسلم أن يلبسها لأن في هذا تشبه بهم.


-------------------------------------------
متفق
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
السلام علیکم

بھائی میرے میں آپ کو اس پر بیسیوں فتوے دکھا سکتا ہوں، آپ فتوے پیش کریں لیکن اپنی رائے بھی ساتھ پیش فرمائیں، دیکھیں میں نے صاحب مراسل پر پوسٹ ڈالی تھی، آپ ان کی فیور میں ہیں تو پھر پوچھنے کی کیا ضرورت تھی انتظار فرماتے انہیں مزید کچھ کہنے کا یا انتظار فرماتے مجھے بھی اس پر لکھنے کا،

ایک فتوی یہاں بھی، مگر جب تک تقریر ساتھ نہیں ہو گی یہ فتوے تیرے میرے کہلائیں گے۔

سوال: کسی ملازمت میں ترقی کا معیار ٹائی باندھنے پر ہو تو ایسی صورت میں ٹائی باندھنا جائز ہے یا نہیں؟

الجواب حامداً و مصلیاً: ٹائی ایک وقت میں نصاریٰ کا شعار تھا، اس وقت اس کا حکم بھی سخت تھا، اب غیر نصاریٰ بھی بکثرت استعمال کرتے ہیں ، اب اس کے حکم میں تخفیف ہے، اس کو شرک یا حرام نہیں کہا جائے گا، کراہیت سے اب بھی خالی نہیں ، کہیں کراہیت شدید ہو گی، کہیں ہلکی، جہاں اس کا استعمال عام ہو جائے، وہاں اس کے منع پر زور نہیں دیا جائے گا۔

اس پر محشی صاحب لکھتے ہیں: کہ ٹائی کا استعمال اگرچہ مسلمانوں میں بھی عام ہو گیا ہے؛ مگر اس کے باوجود انگریزی لباس کا حصہ ہی ہے، اگر انگریزی لباس تصور نہ کیا جائے؛ لیکن فساق و فجار کا لباس تو بہر حال ہے، لہٰذا تشبہ بالفساق کی وجہ سے ممنوع قرار دیا جائے گا۔
دوسری بات یہ کہ اہلِ صلاح اس لباس کو پسند بھی نہیں کرتے ؛ کیوں کہ یہ علماء و صلحاء کے لباس کے خلاف ہے،
تیسری بات یہ کہ اس کے علاوہ ٹائی میں ایک اور خرابی یہ بھی ہے کہ عیسائی ا س سے اپنے عقیدہ ”صلیب عیسیٰ علیہ السلام “یعنی: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مصلوب کیے جانے کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جو کہ نص قرآنی کے خلاف ہے، لہٰذا تشبہ بالکفار کے ساتھ ساتھ عیسائیوں کی مذہبی یادگار اور مذہبی شعار ہونے کی وجہ سے بھی پہننا جائز نہیں:

”وعنہ (أي: عن ابن عمر رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہما) قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم: ”مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ“ أي: مَنْ شَبَّہَ نَفْسَہ بِالْکُفَّارِ، مثلاً: فِي اللِّبَاسِ وَغَیْرِہ، أو بِالْفُسَّاقِ أوْ بِالْفُجَّارِ، أوْ بِأہْلِ التَّصَوُّفِ وَالصُّلَحَاءِ الأبْرَارِ․”فَہُو مِنْہُمْ“، أي: في الاثْمِ وَالْخَیْرِ“․
(مرقاة المفاتیح، کتاب اللباس، الفصل الثاني، رقم الحدیث: ۴۳۴۷، ۸/۱۵۵، رشیدیة)

البتہ اگر ادارہ یا حکومت کی طرف سے پابندی ہو، نہ لگانے پر سزا دی جاتی ہو، یا کوئی اور رکاوٹ بنتا ہو تو اس صورت میں لگانے والے پر گناہ نہیں ہو گا؛ بلکہ اس ادارے یا حکومت کے ارکان پر گناہ عائد ہو گا، جس نے ایسا ضابطہ بنایا۔
(فتاویٰ محمودیہ، باب اللباس، ٹائی کا استعمال: ۱۹/۲۹۰، ادارة الفاروق)

والسلام
جناب آپ بتائیں کہ وہ کون سا پادری اور یہودی عالم ہے جو ٹائی پہنتا ہے،میں پینٹ اور شرٹ کو بھی اسلامی لباس سمجھتا ہوں اگر وہ چست نہ ہو،بغیر دلیل کے فتوی دینا یہ کہاں کا اصول ہے؟ کیا اس فتوے کے لیے کوئی سلفی عالم نہیں ملا، میں نے آپ کو فتوی دیا ہے وہ مدلل بھی اور سعودی علما کا متفقہ فتوی ہے،جناب صرف کسی پوپ یا پادری کے بارے بتا دیں کہ جس نے اس کو اپنا مذہبی لباس قرار دیا ہو میں تسلیم کر لوں گا کہ یہ ان کا مذہبی لباس ہے،اور اس کتاب کا حوالہ بھی دے دیں جس میں لکھا ہے کہ عیسائی اس سے اپنا عقیدہ تثلیث ثابت کرتے ہیں،
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
WHY WERE NECKTIES INVENTED?
Post under invented, neckties
It is often questioned why such a seemingly useless item of apparel as the necktie was ever invented . It’s thought by some anthropologists that it might have been the first item of clothing ever worn, taking the form of a strip of fur around the necks of our ancestors .

However, the ear-liest evidence of the wearing of neckties was by the Chi-nese . China’s first emperor, Shih Huang Ti, was afrai

یہاں لکھا ہے کہ چائنا پہلا ملک ہے کہ جس کے باشندے ٹائی پہنا کرتے تھے،یعنی یہ ٹائی ان کی ایجاد ہے
ز​
d of death and commanded that replicas of his army person-nel be laid to rest with him for protection . He died in 210 BC, and when his tomb was rediscovered in 1974, the intricately detailed terracotta rep-licas preserved therein each wore neck cloths or ties .

Neckties were also present in Roman times . In AD 113, after one of his victories, the emperor Trajan erected a marble column bearing reliefs that feature thousands of soldiers, many of whom are wearing neckties . It’s thought by some that these soldiers wore neckties to guard against cold weather or to absorb sweat .

While neckties have been around in one form or another for millennia, it was because of the Croatians in the seven-teenth century that wearing them became a statement of fashion . After helping in a victory against the Hapsburg Empire, thousands of soldiers were presented to King Louis XIV in Paris, among them a regiment of Croatian marines, some of whom wore colorful cravats . These embellishments appealed to the French, who had never seen such an article of clothing and who were soon wearing similar cravats . Until the French Revolution in 1789, the French maintained an elite regiment known as the Cravate Royale, and the word “cravat” itself is from the French word cravate, meaning “Croatian ”.

It wasn’t long before the wearing of neckties spread . In 1660, Charles II returned to England from exile and re-claimed the throne that he lost during the English Civil War . He was followed by aristocrats who brought the cravat to England, whereupon it developed into the necktie, became popular and spread throughout Europe, then the U .S . and then the rest of the world .
اس انگریزی عبارت میں ٹائی کی تاریخ بیان ہوئی ہے، مورخ نے کسی جگہ بھی اس بات کا ذکر نہیں کیا ہے کہ ٹائی عیسایئت کی مذہبی علامت ہے، اگر کسی بھائی کے پاس ٹائی کے بارے ایسی کوئی بات موجود ہے تو وہ سامنے لائے،اگر دلیل نہیں ہے تو تسلیم کر لے کہ ٹائی میں کوئی قباحت نہیں ہے
 
Last edited:
Top