تو اس طرح سے تو ہر وہ شخص کس کا اعتقاد چار میں سے کسی ایک امام پر ہو۔۔۔
اتباع میں تو وہ کافر ہوگیا۔۔۔
اب جو لوگ خود کو حنفی کہتے ہیں۔۔۔ حنبلی کہتے ہیں۔۔۔ یار مالکی وشافعی کہتے ہیں۔۔۔
وہ سب کافر ہوگئے؟؟؟۔۔۔
اسے کہتے ہیں احتیاط
لیکن یہ احتیاط صرف مقلدین کے لیے ہی بچا رکھی ہے۔کاش اتنی احتیاط حکمرانوں کے بارے بھی برتتے تو آج امت مسلمہ کے ہزاورں معصوم اپنی جانوں ہاتھ نہ دھو بیٹھتے۔
بہرحال۔
جناب اگر کوئی بھی اعتقاد رکھے۔۔یہ یعنی کہے کہ ایک طرف اللہ کی بات ہے اللہ کے رسول کی بات ہے۔تو دوسری طرف امام ابو حنیفہ ،شافعی،مالکی یا حنبلی کی بات ہے۔
تو میں اللہ اور اس کے رسول کی بات کو نہیں مانوں گا،بلکہ اپنے امام کی بات مانوں کا۔
تو جو بھی یہ اعتقاد رکھے گا وہ کافر ہوگا۔اور امام ابن تیمہ رحمہ اللہ کے فتوے کے مطابق اس سے توبہ کروائی جائے گی،اگر توبہ نہیں کرتا تو اس کو قتل کیا جائے گا۔
بعض حضرات یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ایسے غالی قسم کے مقلد تو امام ابن تیمہ رحمہ اللہ کے دور میں بھی تھے،حتی کہ قاضی بھی تھے لیکن انہوں نے تو کسی کو قتل نہیں کیا ۔
تو اعتراض کرنے والوں کو یہ وضاحت کر دوں کہ
امام ابن تیمہ رحمہ اللہ خارجی نہیں تھے۔جس وجہ سے انہوں نے ان کے خلاف قتال شروع نہیں کیا۔
علماء کاکام صرف حکم جاری کرنا۔اس پر عمل کرنا حاکم کا کام ہے۔
چونکہ یہ کام حاکم کا ہے،اور امام ابن تیمہ رحمہ اللہ حاکم نہیں تھے اس لیے ان پر عمل نہ ہو سکا۔
لیکن آج کو خارجیوں نے منہج سلف کی دھجیاں اڑا کر امت کو جذبات اور انتقام کی جنگ میں دکھیل دیا۔
اللہ ہماری حفاظت فرمائے۔
ایک مرتبہ پھر درخواست کروں گی کہ موضوع سے متعلقہ بات کریں۔تاکہ حق اور باطل میں فرق ہو سکتے۔
جزاک اللہ خیرا