جَواهرُ من اَقوال السلف
شیخ علی طنطاوی رحمہ الللہ کو جب عراق میں ادب پڑھانے پر مامور کیا گیا تو انھوں نے بغداد کا چکر لگایا اور خوب پیدل گھومے اور اسی پراگندہ حالی میں کلاس میں جا پہنچے۔
استاد نے دیکھا تو سمجھا کوئی طالب علم ہے۔
کہا: ابے او گدھے کہاں تھے، لکچر میں دیر سے کیوں پہنچے؟
شیخ نے معذرت کی اور طلبہ کے ساتھ جا کر بیٹھ گئے۔
استاد طلبہ سے کہنے لگا:
تمھیں پڑھانے کے لیے ادیب کبیر علی طنطاوی آ رہے ہیں،
دیکھنا ان کے سامنے مجھے بے عزت نہ کرا دینا۔
پھر ان سے ادب کے متعلق سوالات شروع کر دیے اور شیخ بھی ایک طالب علم کے مانند جواب دیتے رہے۔
استاد نے ان سے پوچھا:
کیا تم البحتری اور ابو تمام (دو عظیم شعرا) میں موازنہ کر سکتے ہو؟
شیخ نے اس پر بڑی زبردست تقریر کی ۔
استاد نے کہا: ویسے تم لائق طالب علم معلوم ہوتے ہو؛
نام کیا ہے تمھارا؟
شیخ نے کہا: علی طنطاوی!!
یہ سن کر استاد تو بے ہوش ہوتے ہوتے بچا۔
شیخ فرماتے ہیں:
*ہم آخر کب یہ سیکھیں گے کہ لوگوں کی ظاہری حالت دیکھ کر کوئی راے نہیں قائم کرنا چاہیے؟!*