ہرایرے غیرے شخص کے ساتھ علمی گفتگو یا بحث و مناظرہ ، علم کو ذلیل کرنا ہے۔
امام مالک ؒ (المتوفى:١٧٩) نے کہا:
”من إهانة العلم أن تحدث كل من سألك“
”یہ علم کو ذلیل کرنا ہے کہ ہر شخص كے مطالبہ پر اس کے ساتھ علمی گفتگو شروع کردو“
[الجامع لأخلاق الراوي ١/ ٢٠٥ وإسناده صحيح]
امام مالک ؒ (المتوفى:١٧٩) نے مزید کہا:
”إن من إذالة العالم أن يجيب كل من كلمه , أو يجيب كل من سأل“
”یہ عالم کی توہین ہے کہ وہ ہر اس شخص کا جواب دے جو اس کے ساتھ بحث کرنا چاہے ، یا ہر اس شخص کو جواب دے جو اس سے کچھ بھی سوال کر بیٹھے“
[الفقيه والمتفقه ٢/ ٤١٨ وإسناده حسن ]
امام مالک ؒ کے شاگرد امام شافعي ؒ (المتوفى ٢٠٤)سے اسی سے ملتا جلتا قول منقول ہے:
”من إذالة العلم أن تناظر كل من ناظرك وتقاول كل من قاولك“
”یہ علم کو ذلیل کرنا ہے کہ ہروہ شخص جو آپ سے مناظرہ کرنا چاہئے اس سے مناظرہ کرنے بیٹھ جائیں، یا ہر وہ شخص جو آپ سے بحث کرنا چاہے اس کے ساتھ بحث شروع کردیں“
[مناقب الشافعي للبيهقي ٢/ ١٥١ وفي إسناده بعض من لم أجد لهم توثيقا]
امام شعبہ بن الحجاج ؒ (المتوفى ١٦٠) فرماتے ہیں:
”رآني الأعمش يوما وأنا أحدث قال: «ويحك أو ويلك يا شعبة، لا تعلق الدر في أعناق الخنازير“
”مجھے امام اعمش ؒ نے دیکھا میں کچھ لوگوں کو حدیث سنا رہا تھا تو امام اعمش نے کہا: شعبہ یہ کیا کررہے ہو ! سور کی گردن میں موتیاں نہ پہناؤ“
[مسند ابن الجعد ص: ١٢٩وإسناده صحيح]
امام احمد ؒ نے امام اعمش کے اس قول کی یہ تشریح کی ہے کہ: ”نا اہلوں کے ساتھ علمی گفتگو نہ مت کرو“
[الآداب الشرعية لابن مفلح ٢/ ١٠٨]
علامہ البانی ؒ فرماتے ہیں:
”فما ينبغي لطلاب العلم أن يهتموا بنعيق كل ناعق؛ لأن هذا باب لا يكاد ينتهي، كلما خطر في بال أحدهم خاطرة وهو أجهل من أبي جهل فنحن نعتد به، ونرفع كلامه من أرضه، ونقيم له وزنا ومناقشة ومحاضرة وإلى آخره“
”طلاب علم کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ ہر ایرے غیرے شخص کی چیخ وپکار پرکان دھریں، کیونکہ یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوسکتا، جاہلوں میں سے کسی کے دماغ میں جب بھی کوئی بات آئے اور وہ اسے بک دے جبکہ وہ خود ابو جہل سے بھی بڑا جاہل ہو، اور ہم اس کی بات پردھیان دیں، اسے نشر کریں، اسے اہمیت دیں، اس کا رد کریں اور اس پر بحث کریں، یہ بالکل مناسب نہیں“
[سلسلة الهدى والنور ٨٦٠]
دکتور الشريف حاتم بن عارف العوني حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
”كثيرا ما يجادلني شباب قليلو العلم ، وهم يظنون أن لديهم معارف كافية ليخالفوا ويناقشوا . فأحتمل ذلك منهم ، بل أفرح بهذه الروح التي لا تقبل العبودية الفكرية وترفض فرض الكهنوت على العقول .لكن هذا القبول والفرح ينتهي إذا تعالى الجاهلُ بجهله ، حتى ظنك دونه في العلم ، واستكثر على نفسه أن يستفيد منك“
”اکثر مجھ سے کم علم نوجوان بحث کرنا شروع کردیتے ہیں، اور یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ان کے پاس اتنا علم ہوگیا ہے کہ وہ اختلاف کرسکیں اور مناقشہ کرسکیں، میں ان کے اس طرزعمل کو برداشت کرلیتا ہوں، بلکہ اس جذبہ پر خوشی ہوتی ہے کہ وہ فکری غلامی کوقبول نہیں کرتے اور ذہنوں پر احبار ورھبان کے تسلط کے قائل نہیں، لیکن یہ برداشت اور خوشی اس وقت کافور ہوجاتی ہے جب جاہل اپنی جہالت کو لیکر تعلی پر اتارو ہوجاتا ہے حتی کہ آپ کو کم علم باورکرنے لگتا ہے اور خود کو اس سے کہیں بالاتر سمجھتاہے کہ آپ سے استفادہ کریں
[ فیس بک پوسٹ]
شیخ ثناء اللہ ساگر تیمی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
”جواب انہیں باتوں کا دیجیے جن کا جواب نہ دینا فتنے کا باعث ہو جائے ورنہ اکثر خاموشی اور تجاہل عارفانہ سے کام لیجیے،کچھ بد قماش اسی ادھیڑ بن میں لگے رہتے ہیں کہ وہ آپ کو جادہ مستقیم سے منحرف کر سکیں اور بے فائدہ قسم کے مباحثوں میں الجھا کر آپ کو انسانیت کے مقام رفعت سے حیوانیت کی پستی میں دھکیل دیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کا کوئی کام نہیں، نٹھلے ہیں، اپنا ضمیر اور قلم بیچ کر اپنے شیطان پیٹ کی بھوک مٹاتے ہیں"
[ فیس بک پوسٹ]
(شیخ کفایت اللہ حفظ اللہ کی وال سے)