• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الحاد

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
حقیقت یہ ہے کہ کیپیٹل ازم اور کمیونزم دونوں نظام ہائے معیشت ہی استحصال پر مبنی نظام ہیں۔ ایک میں امیر غریب کا استحصال کرتا ہے اور دوسرے میں حکومت اپنے عوام کا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے اہل مغرب نے اعلیٰ ترین اخلاقی اصولوں کو اپنا کر کیپیٹل ازم کے استحصالی نقصانات کو کافی حد تک کم کر لیا ہے، لیکن تیسری دنیا جس کی اخلاقی حالت بہت کمزور ہے وہاں اس کے نقصانات کو واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔
چونکہ یہاں ہم الحاد کی تاریخ کا مطالعہ کر رہے ہیں اس لئے یہ کہنا مناسب ہو گا کہ پچھلی تین صدیوں میں معیشت کے میدان میں الحاد کو دنیا بھر میں واضح برتری حاصل رہی ہے اور دنیا نے الحاد پر قائم دو نظام ہائے معیشت یعنی کیپیٹل ازم اور کمیونزم کا تجربہ کیا ہے۔ کمیونزم تو اپنی عمر پوری کرکے تاریخ کا حصہ بن چکا ہے، اس لئے اس پر ہم زیادہ بحث نہیں کرتے لیکن کیپیٹل ازم کے چند اور پہلوؤں کا ایک مختصر جائزہ لینا ضروری ہے جو انسانیت کے لئے ایک خطرہ ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207

کیپیٹل ازم کے نظام کی بنیاد سود پر ہے۔ بڑی بڑی صنعتوں کے قیام اور بڑے بڑے پراجیکٹس کی تکمیل کے لئے وسیع پیمانے پر فنڈز کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک سرمایہ دار کے لئے اتنی بڑی رقم کا حصول بہت مشکل ہوتا ہے۔ اگر اس کے پاس اتنی رقم موجود بھی ہو تو اسے ایک ہی کاروبار میں لگا نے سے کاروباری خطرہ (Business Risk) بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے ۔ کیونکہ ایک کاروبار اگر ناکام ہوجائے تو پوری کی پوری رقم ڈوبنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اگر وہی رقم تھوڑی تھوڑی کرکے مختلف منصوبوں میں لگائی جائے تو ایک منصوبے کی ناکامی سے پوری رقم ڈوبنے کا خطرہ نہیں ہوتا اور تمام کے تمام منصوبوں کے ڈوبنے کا خطرہ بھی نہیں ہوتا۔ اسے علم مالیات (Finance) کی اصطلاح میں Diversification کہا جاتا ہے۔
ان بڑے بڑے پراجیکٹس کے لئے رقم کی فراہمی کے لئے دنیا نے Financial Intermediaries کا نظام وضع کیا ہے۔ اس درمیانی واسطے کا سب سے بڑا حصہ بینکوں پر مشتمل ہے۔ یہ بینک عوام الناس کی چھوٹی چھوٹی بچت کی رقوم کو اکٹھا کرنے کا کام کرتے ہیں جس پر بینک انہیں سود ادا کرتا ہے۔ پوری ملک کے لوگوں کی تھوڑی تھوڑی بچتوں کو ملا کر بہت بڑی تعداد میں فنڈ اکٹھا کر لیا جاتا ہے جو انہی سرمایہ داروں کو کچھ زیادہ شرح سود پر دیا جاتا ہے۔ مثلاً اگر بینک عوام کو 8% سود کی ادائیگی کر رہا ہے تو سرمایہ دار سے 10% سود وصول کررہا ہوگا۔ اس 2% میں بینک اپنے انتظامی اخراجات پورے کرکے بہت بڑا منافع بھی کما رہا ہوتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
سرمایہ دار عموماً اپنے سرمایے کو ایسے کاروبار میں لگاتے ہیں جو اس سرمایے پر بہت زیادہ منافع دے سکے۔ اگر ہم دنیا بھر کی مختلف کمپنیوں کی سالانہ رپورٹس (Annual Reports) کا جائزہ لیں تو ہمیں اس میں ایسے کاروبار بھی ملیں گے جن میں Return on Capital Employed کی شرح 50% سالانہ بلکہ اس سے بھی زیادہ ہوگی۔اس منافع کا ایک معمولی سا حصہ بطور سود ان غریب لوگوں کے حصے میں بھی آتا ہے جن کا سرمایہ دراصل اس کاروبار میں لگا ہوتا ہے۔
اس کو ایک مثال سے اس طرح سمجھ لیجئے کہ بالفرض ایک سرمایہ دار کسی بینک سے ایک ارب روپے 10% سالانہ شرح سود پر لیتا ہے اور اس سرمائے سے پچاس کروڑ روپے سالانہ نفع کماتا ہے۔ اس میں سے وہ دس کروڑ بینک کو بطور سود ادا کرے گا اور بینک اس میں سے 8% سالانہ کے حساب سے آٹھ کروڑ روپے اپنے کھاتہ داروں (Deposit Holders) کو ادا کرے گا۔ چونکہ یہ کھاتہ دار بہت بڑی تعداد میں ہوں گے جنہوں نے اپنی تھوڑی تھوڑی بچت بینک میں جمع کروائی ہوگی اس لئے ان میں سے ہر ایک کے حصے میں چند ہزار یا چند سو روپے سے زیادہ نہیں آئے گا۔ اس طریقے سے سرمایہ دار ، عام لوگوں کو چند ہزار روپے پر ٹرخا کر ان کا پیسہ استعمال کرتا ہے اور اسی پیسے سے خود کروڑوں روپے بنا لیتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207

اس مثال سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جس طرح جاگیر دارانہ نظام میں جاگیر دار یا مہاجن غریبوں کو سود پر رقم دے کر ان کا استحصال کیا کرتا تھا، اسی طرح سرمایہ دارانہ نظام میں سرمایہ دار غریبوں سے سود پر رقم لے کر ان کا استحصال کرتا ہے۔اس کے علاوہ فیوڈل ازم کے مہاجنی سود کا سلسلہ بھی اس نظام میں پوری طرح جاری ہے جس میں کریڈٹ کارڈزکے ذریعے Micro-Financing کا سلسلہ جاری ہے۔ اس معاملے میں 36% سالانہ کے حساب سے سود بھی وصول کیا جارہا ہے۔ اس سود میں سے صرف8-10% اپنے کھاتہ داروں کو ادا کیا جارہا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کی ایک اور خصوصیت جوئے کا فروغ ہے۔ یہ لعنت فیوڈل ازم میں بھی اسی طرح پائی جاتی تھی۔ دنیا بھر میں جوا کھیلنے کے بڑے بڑے ادارے قائم کئے جاچکے ہیں۔ سٹاک ایکسچینج، فاریکس کمپنیز اور بڑی بڑی کیپیٹل اور منی مارکیٹس ان کیسینوز کے علاوہ ہیں جہاں بڑی بڑی رقوم کا سٹہ کھیلا جاتا ہے۔ کھربوں روپے سٹے میں برباد کر دیے جاتے ہیں مگر بھوک سے مرنے والے بچوں کا کسی کو خیال نہیں آتا۔ ان کیسینوز میں جوئے کے ساتھ ساتھ بے حیائی اور بدکاری کو بھی فروغ مل رہا ہے بلکہ دنیا بھر میں سیاحت کو فروغ دینے کے لئے جوئے اور بدکاری کے مراکز بھی قائم کئے جاچکے ہیں۔ سود اور جوا ایسی برائیاں ہیں جن کا تعلق الحاد کی اخلاقی بنیادوں سے قائم کیا سکتا ہے۔ اس کی مزید تفصیل آگے آرہی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اخلاق اور معاشرت
الحاد کے اثرات سے جو چیز سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے، وہ اخلاق انسانی اور نظام معاشرت ہے۔ اگر کوئی یہ مان لے کہ اس دنیا کا کوئی خدا نہیں ہے، موت کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے جہاں اسے اپنے کئے کا حساب دینا ہوگا تو پھر سوائے حکومتی قوانین یا معاشرتی دباؤ کے کوئی چیز دنیا میں اسے کسی برائی کو اختیار کرنے سے نہیں روک سکتی۔ پھر اس کی زندگی کا مقصد اس دنیا میں زیادہ سے زیادہ دولت اور اس سے لطف اندوز ہونا ہی رہ جاتا ہے۔
اگر کسی کو یقین ہو کہ کوئی اسے نہیں پکڑ سکتا تو پھر کیا حرج ہے کہ اگر وہ اپنے کسی بوڑھے رشتے دار کی دولت کے حصول کے لئے اس کو زہر دے دے؟ اگر وہ اتنا ہوشیار ہو کہ پولیس اس کا سراغ نہیں لگا سکتی تو پھر لاکھوں روپے کے حصول کے لئے چند بم دھماکے کر کے دہشت گرد بننے میں کیا حرج ہے؟ قانون سے چھپ کر کسی کی عصمت دری سے اگر کسی کی درندگی کی تسکین ہوتی ہے تو اس میں کیا رکاوٹ ہے؟ اپنی خواہش کی تسکین کے لئے بچوں کو اغوا کرکے، ان سے زیادتی کرکے ، انہیں قتل کرکے تیزاب میں گلا سڑا دینے میں آخر کیا قباحت ہے؟ اپنے یتیم بھتیجے کامال ہڑپ کر جانے سے آخر کیا فرق پڑتا ہے؟ جھوٹا کلیم داخل کرکے اگر کسی کو اچھی خاصی جائیداد مل سکتی ہے تو کوئی ایسا کیوں نہ کرے؟ کسی کو اپنی گاڑی کے نیچے کچلنے کے بعد اسے ہسپتال تک پہنچا کر اپنا وقت برباد کرنے کی آخر کیا ضرورت ہے؟ جائیداد کو تقسیم ہونے سے بچانے کے لئے اگر کوئی اپنی بہن یا بیٹی پر کاروکاری کا الزام لگا کر اسے قتل کردے تو کیا قیامت برپا ہو جائے گی؟ اپنے دشمنوں کی بہو بیٹیوں کو ننگا کرکے بازاروں میں گھمانے پھرانے سے اگر کسی کے انتقامی جذبات سرد پڑتے ہیں تو ایسا کرنے میں کیا حرج ہے؟ اپنی لاگت (Cost) کو کم کرنے کے لئے اگر کوئی خوراک یا ادویات میں ملاوٹ بھی کردے اور خواہ چند لوگ مر بھی جائیں تو کیا ہے، اس کا منافع تو بڑھ جائے گا؟ ذخیرہ اندوزی کرکے اگر کسی کے مال کی قیمتیں چڑھ سکتی ہیں تو وہ ایسا کیوں نہ کرے؟ اگر تیز رفتاری میں کسی کو مزہ آتا ہے تو کیا فرق پڑتا ہے اگر اس سے کوئی ایک آدھ آدمی مر جائے یا ہمیشہ کے لئے معذور ہو جائے، اتنے مزے کے لئے ایک آدھ بندہ مارنا کونسا مسئلہ ہے؟ اگر کوئی کسی کے نظریات سے اختلاف کرے تو اسے گولی مارنے میں کیا قباحت ہے؟ یا پھر یہ سب نہ بھی ہو تو کوئی اپنا وقت معاشرے کی خدمت میں کیوں لگائے، وہ اپنے وقت کو زیادہ سے زیادہ enjoyment کے حصول میں ہی کیوں نہ خرچ کرے؟ اگر کوئی اپنے جرم کو چھپا سکتا ہو تو پھر سرکاری سودوں میں کمیشن کھا کر ملک و قوم کو نقصان پہنچانے میں کیا چیز مانع ہے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
یہ وہ مثالیں ہیں جو روزانہ ہمارے سامنے اخبارات میں آتی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم وحشی درندوں کے درمیان اپنی زندگی گزار رہے ہیں جن پر انسان اور مسلمان ہونے کا محض لیبل لگا ہوا ہے۔ کم وبیش اسی قسم کے واقعات تیسری دنیا کے دیگر ممالک میں بھی پیش آتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا کہ مسلم دنیا پر بھی الحاد غالب آچکا ہے۔ ایسا تو نہیں ہوا کہ مسلمان توحید، رسالت اور آخرت کا کھلم کھلا انکار کردیں لیکن عملی طور پر ہم ان حقیقتوں سے غافل ہو چکے ہیں۔ خدا ہے یا نہیں ہے، اس نے اپنے کسی رسول کو اس دنیا بھی بھیجا یا نہیں بھیجا ، آخرت ہو گی یا نہیں ہو گی ، اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں۔ ہمارا ہر عمل پکار پکار کر ہمارے ملحد ہونے کا اعلان دے رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں قانون کی طاقت سے صرف چند بدمعاشوں ہی کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور وہ بھی تب جب ان کے جرائم منظر عام پر آجائیں۔ معاشرہ دباؤ ڈال کر صرف ان لوگوں کی اصلاح کر سکتا ہے جن کے جرائم کا انہیں علم ہوجائے اور ان لوگوں کی تعداد معاشرے میں آٹے میں نمک کے برابر ہو۔ جو چیز جرائم کی شرح کو کم سے کم کرتی ہے وہ یہی انسانی اخلاقیا ت کا شعور ہی تو ہے۔ یہ شعور صرف ایک غالب قوت اور اس کے سامنے جواب دہی کے تصور ہی سے پیدا ہو سکتا ہے۔ ایک ملحدانہ معاشرے میں یہ تصور کیسے پیدا کیا جاسکتا ہے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
یہ سب سے نمایاں سوال ہے جو الحاد پر کیا گیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ دنیا بھر کے ملحد مفکرین اور فلسفی اس اخلاقی شعور سے بے بہرہ ہوں۔ بلکہ وہ خود کو اخلاق اور انسانی حقوق کے علمبردار کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے اس سوال کا پوری طرح جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ ان کے نزدیک فکر آخرت کا نعم البدل یہ ہے کہ ایک انسان دوسرے کے ساتھ اس وجہ سے زیادتی نہ کرے کہ جواب میں وہ بھی زیادتی کرسکتا ہے یعنی دوسرے شخص کے منفی رد عمل سے بچنے کے لئے اس سے زیادتی نہ کی جائے۔
اگر اس اخلاقی معیار کو درست مان لیا جائے تو ایسا صرف اور صرف اس صورت میں ممکن ہے جب دونوں فریق قوت و اقتدار کے اعتبار سے بالکل مساوی درجے پر ہوں۔ ایک طاقتور شخص اگر کسی سے زیادتی کرے تو اسے جوابی ردعمل کا کیا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے؟ اگر غور کیا جائے تو دنیا بھر کے مجرموں اور جرائم پیشہ افراد اسی اخلاقی ضابطے کی پیروی کرتے ہیں۔ چوری اور ڈاکے کے بعد لوٹ کا مال آپس میں بڑی دیانت داری سے تقسیم کرلیا جاتا ہے۔ جوئے میں ہاری ہوئی رقم کو بڑی شرافت سے ادا کردیا جاتا ہے۔ منشیات فروش اپنا اپنا حصہ بڑی دیانت داری سے ایک دوسرے کو ادا کرتے ہیں۔لیکن ایک دوسرے سے دیانت دار یہ جرائم پیشہ لوگ پورے معاشرے کو تباہی کی طرف لے جار ہے ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ میرا ساتھی تو کسی طرح مجھے نقصان پہنچا سکتا ہے لیکن ایک عام آدمی نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
الحاد کے اخلاقی اثرات بڑے واضح طور پر تیسری دنیا میں تو دیکھے جاسکتے ہیں لیکن دنیا کے ترقی یافتہ حصے میں یہ اثرات اتنے نمایاں نہیں۔حیرت کی بات یہ ہے کہ الحاد کی تحریک کو سب سے پہلے فروغ مغرب میں حاصل ہوا لیکن وہاں کے لوگوں کا اخلاقی معیار تیسری دنیا سے نسبتاً بہتر ہے۔
کوئی بھی فلسفہ یا نظام حیات سب سے پہلے معاشرے کے ذہین ترین لوگ تشکیل دیتے ہیں اور پھر اسے اپنی تقریر وتحریر کے ذریعے معاشرے کے ذہین طبقے میں پھیلاتے ہیں جسے عرف عام میں اشرافیہ (Elite) کہتے ہیں۔ یہی طبقہ معاشرے میں تعلیم و ابلاغ کے تمام ذرائع پر قابض ہوتا ہے ۔ اس فلسفے یا نظام حیات کو قبول کرنے کے بعد یہ اسے عوام الناس تک پہنچاتا ہے۔ عوام ہر معاملے میں اسی اشرافیہ کے تابع ہوتے ہیں، اسلئے وہ اسے دل وجان سے قبول کر لیتے ہیں۔اہل مغرب میں الحادی نظریات کے فروغ میں جن ذہین افراد نے حصہ لیا وہ اخلاقی اعتبار سے کوئی گرے پڑے لوگ نہ تھے۔ انہوں نے خود کو انسانی اخلاق کے علمبردار کی حیثیت سے پیش کیا۔ جدید دور میں الحاد کی تحریک نے اپنا نام انسانی تحریک (Humanist) رکھ لیا ہے اور وہ خود کو اخلاقیات کا چیمپئن سمجھتے ہیں۔ چنانچہ کونسل فار سیکولر ہیومن ازم کے بانی پال کرٹز اپنی حالیہ تحریر میں لکھتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
ہمیں تیسری طرف جو جنگ لڑنا ہے وہ انسانی اخلاقیات کی جنگ ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اخلاقی انقلاب ہی انسانیت کے مستقبل کی ضمانت دیتا ہے۔ یہی آخرت کی نجات یا جنت کے عقیدے کے بغیر انسانی زندگی کو بہتر بناتا ہے ۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم اخلاقی اقدار کو مشاہدے اور دلائل کی بنیاد پر پرکھیں اور نتائج کی روشنی میں اپنی اخلاقی اقدار میں تبدیلی کرنے پر تیار رہیں۔ ہمارا طریقہ عالمی (پلینیٹری) ہے ، جیسا کہ Humanist Manifesto 2000 میں زور دیا گیا ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس سیارے زمین پر ہر انسان بالکل برابر حیثیت رکھتا ہے۔ اخلاق کے ساتھ ہماری وابستگی یہ ہے کہ عالمی برادری میں ہر فرد کو اس کے حقوق ملیں اور ہم اپنے مشترکہ گھر یعنی اس زمین کی حفاظت کریں۔ انسانی اخلاقیات فرد کی آزادی، پرائیویسی کے حق، انسانی آزادی اور سماجی انصاف کی ضمانت دیتے ہیں۔ اس کا تعلق پوری نسل انسانیت کی فلاح و بہبود سے ہے۔
(Paul Kurtz, The Secular Humanist Prospect: In Historical Perspective, Free Inquiry Magazine, Vol. 23, No. 4, May 2003)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
ان فلسفیوں نے انسانی حقوق اور انسانی اخلاق کو اپنے فلسفے میں بہت اہمیت دی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان ممالک کے عوام میں اخلاقی شعور نسبتاً بہت بہتر ہے۔ وہ لوگ بالعموم جھوٹ کم بولتے ہیں ، اپنے کاروبارمیں بددیانتی سے اجتناب کرتے ہیں، ایک دوسرے کااستحصال کم کرتے ہیں، فرد کی آزادی کا احترام کرتے ہیں، جانوروں کے حقوق کا خیال رکھتے ہیں، یتیموں اور اپاہجوں کے لئے ان کے ہاں منظم ادارے ہیں، قانون کا احترام کرتے ہیں، ان کی سوچ عموماً معقولیت (Rationality) پر مبنی ہوتی ہے، وہ عقل و دانش کی بنیاد پر اپنے نظریات کو تبدیل کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں، ان کے ہاں ایک دوسرے کو مذہبی آزادی دی جاتی ہے، ایک دوسرے کا احترام کیا جاتا ہے، محض اختلاف رائے کی بنیاد پر کوئی کسی کو گولی نہیں مارتا، علم و دانش کا دور دورہ ہے، اشیا ء خالص ملتی ہیں اور ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھانے والے ادارے بہت موثر ہیں۔
ایسا بھی نہیں ہے کہ اخلاقی لحاظ سے یہ لوگ فرشتے بن گئے ہیں، بلکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان خوبیوں کے ساتھ ساتھ ان لوگوں میں بہت سی اخلاقی خرابیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ یہ لوگ اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے، ان کی خدمت نہیں کرتے، جنسی بے راہ روی ان کے ہاں عام ہے، ان کی اکثریت طرح طرح کے نشے میں سکون تلاش کرتی نظر آتی ہے، ان میں تشدد کا رجحان بڑھتا ہوا نظر آتا ہے، اور بالخصوص ان کے اخلاقی معیارات اپنی قوم کے افراد کے لئے کچھ اور ہیں اور باقی دنیا کے لئے کچھ اور۔ نیشنلزم کا جذبہ بہت طاقتور ہونے کی وجہ سے یہ اپنی قوم کے افراد کے لئے تو ابریشم کی طرح نرم ہیں اور ہر اخلاقی اصول کی پیروی کرتے ہیں لیکن جب معاملہ کسی دوسری قوم کے ساتھ ہو تو وہاں انسانی حقوق کے تمام سبق یہ بھول جاتے ہیں۔
 
Top