- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,751
- پوائنٹ
- 1,207
جب یہ الحادی نظریات اہل مغرب سے نکل کر مشرقی قوموں میں آئے تو اشرافیہ کے جس طبقے نے انہیں قبول کیا، بدقسمتی سے وہ اخلاقی اعتبار سے نہایت پست تھا۔جب یہ طبقہ اور اس کے زیر اثر عوام الناس عملی اعتبار سے الحاد کی طرف مائل ہوئے تو انہوں نے تمام اخلاقی حدود کو پھلانگ کر وحشت اور درندگی کی بدترین داستانیں رقم کیں۔ اگر ہم پاکستان بننے کے بعد ان مظالم کا جائزہ لیں جو خود مسلمانوں نے ہندوؤں اور سکھوں کے ظلم و ستم سے بچ کر آنے والے اپنے مسلمان بھائیوں پر کئے تو ہمیں صحیح معنوں میں الحاد کے اثرات کا اندازہ ہوگا۔ دور جدید میں اس کا اندازہ محض روزانہ اخبار پڑھنے ہی سے ہو جاتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مغربی ملحدین میں جو خرابیاں پائی جاتی ہیں، وہ تو مسلمانوں نے پوری طرح اختیار کرلیں لیکن ان کی خوبیوں کا عشر عشیر بھی ان کے حصے میں نہ آیا۔
الحاد کے معاشرتی اثرات میں ایک بڑا واضح اثر خاندانی نظام کا خاتمہ اور فری سیکس کا فروغ ہیں۔ جنسی زندگی سے متعلق آداب انسان کو انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام ہی نے بتائے ہیں اور اس ضمن میں ہر قسم کی بے راہ روی کا خاتمہ کیا ہے۔ جب ایک شخص انہی کا انکار کردے تو پھر اس کی راہ میں ایسی کونسی رکاوٹ ہے جو اسے دنیا کی کسی بھی عورت سے آزادانہ صنفی تعلقات سے روک سکے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ پھر ماں ، بہن اور بیٹی کا تقدس پامال کرنے بھی کیا حرج رہ جاتا ہے؟ اس کے بعد اگر نئی نئی لذتوں کی تلاش میں مرد مردوں کے پاس اور عورتیں عورتوں کے پاس جائیں تو اس میں کیا قباحت رہ جاتی ہے؟
الحاد کے معاشرتی اثرات میں ایک بڑا واضح اثر خاندانی نظام کا خاتمہ اور فری سیکس کا فروغ ہیں۔ جنسی زندگی سے متعلق آداب انسان کو انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام ہی نے بتائے ہیں اور اس ضمن میں ہر قسم کی بے راہ روی کا خاتمہ کیا ہے۔ جب ایک شخص انہی کا انکار کردے تو پھر اس کی راہ میں ایسی کونسی رکاوٹ ہے جو اسے دنیا کی کسی بھی عورت سے آزادانہ صنفی تعلقات سے روک سکے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ پھر ماں ، بہن اور بیٹی کا تقدس پامال کرنے بھی کیا حرج رہ جاتا ہے؟ اس کے بعد اگر نئی نئی لذتوں کی تلاش میں مرد مردوں کے پاس اور عورتیں عورتوں کے پاس جائیں تو اس میں کیا قباحت رہ جاتی ہے؟