• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الحاد

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سیکولر ازم کا فروغ
اسی الحاد کی بنیاد پر سیکولر ازم کا نظریہ وجود پذیر ہوا جو مذہب اور الحاد کے درمیان تطبیق (Reconciliation) کی حیثیت رکھتا تھا۔ فلسفیانہ اور ملحدانہ نظریات نے اہل یورپ کی اشرافیہ کو بری طرح متاثر کردیا تھا۔ ان کے ہاں تعلیم یافتہ ہونے کا مطلب ہی ملحد اور لادین ہونا تھا۔ دوسری طرف عوام الناس میں اہل مذہب کا اثر ورسوخ خاصی حد تک باقی تھا۔ اہل مذہب کا ایک اور مسئلہ یہ بھی تھا کہ وہ بہت سے فرقوں میں منقسم تھے اور ایک فرقے کے لئے یہ ناممکن تھا کہ وہ دوسرے کی بالادستی قبول کرسکے۔ ان حالات میں انہوں نے یہ طے کر لیا کہ ہر فرد کو اپنی ذات میں تو اپنے عقیدے پر قائم رہنے کی آزادی دی جائے لیکن اجتماعی اور ریاستی سطح پر مذہب سے بالکل لاتعلق ہو کر خالص عقل و دانش اور جمہوریت کی بنیادوں پر نظام حیات کو مرتب کر لیا جائے۔ اگر حکومت کا کوئی سرکاری مذہب ہو بھی تو اس کی حیثیت محض نمائشی ہو، اسے معاملات زندگی سے کوئی سروکار نہ ہو۔
سیکولر ازم کے اس نظریے کا فروغ دراصل مذہب کی بہت بڑی شکست اور الحاد کی بہت بڑی فتح تھی۔ اہل مغرب نے اپنے سیاسی، عمرانی اور معاشی نظاموں کو مذہب کی روشنی سے دور ہوکر خالصتاً ملحدانہ بنیادوں پر استوار کیا۔ مذہب کو چرچ تک محدود کر دیا گیا۔ تمام قوانین جمہوری بنیادوں پر بنائے جانے لگے۔ عیسائیت میں بھی فری سیکس گناہ کی حیثیت رکھتا ہے لیکن جمہوری اصولوں کے مطابق اکثریت کی خواہش پر اسے جائز قرار دیا گیا، حتیٰ کہ ہم جنس پرستی کو بھی قانونی مقام دیا گیا اور ایک ہی جنس میں شادی کو بھی قانونی ٹھہرا لیا گیا۔ سود ہمیشہ سے آسمانی مذاہب میں ممنوع رہا ہے، لیکن معیشت کا پورا نظام سود پر قائم کیا گیا۔
سیکولر ازم کے نتیجے میں الحاد اہل مغرب کے نظام حیات میں غالب قوت بن گیا ۔ان کی اکثریت اگرچہ اب بھی خدا کی منکر نہیں ہے لیکن عملی اعتبار سے وہ خدا، نبوت و رسالت اور آخرت کا انکار کر چکی ہے۔ اگر کوئی مذہب کو حق مانتا ہے تو پھر یہ لازم ہے کہ وہ اسے اپنی پرائیویٹ لائف کے ساتھ ساتھ پبلک لائف میں بھی اپنائے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو خدا کو ماننے کے باوجود وہ عملاً خدا ، نبوت اور آخرت کا انکار کرکے الحاد کو اختیار کرہی چکا ہے۔ اب اس کے بعد صرف انسانی اخلاقیات یا دین فطرت ہی باقی رہ جاتا ہے جسے ملحدین بھی مانتے ہیں۔ اہل مغرب اگرچہ ان میں سے بہت سے اصولوں کو چھوڑ چکے ہیں لیکن اب بھی وہ ان اخلاقی اصولوں کے بڑے حصے کو اپنائے ہوئے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مسلم معاشروں میں الحاد کا فروغ

پندرہویں اور سولہویں صدی میں اہل یورپ اپنے ممالک سے نکل کر مشرق و مغرب میں پھیلنا شروع ہوئے۔ انیسویں صدی کے آخر تک وہ دنیا کے بڑے حصے پر اپنی حکومت قائم کرچکے تھے۔ ان کی نوآبادیات میں مسلم ممالک کی اکثریت بھی شامل تھی۔ اہل یورپ نے ان ممالک پر صرف اپنا سیاسی اقتدار ہی قائم نہیں کیا بلکہ ان میں اپنے الحادی نظریات کو بھی فروغ دیا۔ مغربی ملحدین نے عیسائیت کی طرح اسلام کی اساسات پر بھی حملہ کیا۔ مسلم ممالک میں ان کے نظریات کے خلاف چار طرح کے رد عمل سامنے آئے:
· مغربی الحاد کی پیروی
· مغرب کو مکمل طور پر رد کر دینا
· مغرب کی پیروی میں اسلام میں تبدیلیاں کرنا
· مغرب کے مثبت پہلو کو لے کر اسے اسلامی سانچے میں ڈھالنا
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مسلم اشرافیہ
پہلا رد عمل مسلمانوں کی اشرافیہ (Elite) کا تھا۔ ان کی اکثریت نے اہل مغرب اور ان کے الحاد کو کلی یا جزوی طور پر قبول کرلیا۔اگرچہ اپنے نام اور بنیادی عقائد کی حد تک وہ مسلمان ہی تھے لیکن اپنی اجتماعی زندگی میں وہ الحاد اور لادینیت کا نمونہ تھے۔ بیسویں صدی کے وسط میں آزادی کے بعد بھی ان کی یہ روش برقرار رہی۔ ان میں سے بعض تو اسلام کی تعلیمات کے کھلم کھلا مخالف تھے جن میں ترکی کے مصطفےٰ کمال پاشا، ایران کے رضا شاہ پہلوی، تیونس کے حبیب بورغبیہ اور پاکستان کے جنرل یحیٰی خان شامل ہیں۔ مسلم حکمرانوں کی اکثریت نے اگرچہ اسلام کا کھلم کھلا انکار نہیں کیا لیکن وہ عملی طور پر الحاد ہی سے وابستہ رہے۔ چونکہ مسلم عوام کی اکثریت کا سیاسی و معاشی مفاد انہی کی پیروی میں تھا، اس لئے عوام الناس میں الحاد پھیلتا چلا گیا۔ اس کی تفصیل ہم آگے بیان کریں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

روایتی مسلم علماء
دوسرا رد عمل روایتی مسلم علماء کا تھا۔ انہوں نے اہل مغرب کے نظریات کو یکسر مسترد کردیا۔ انہوں نے مغربی زبانوں کی تعلیم، مغربی علوم کے حصول، مغربی لباس کے پہننے، اور اہل مغرب کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلق کو حرام قرار دیا۔ انہوں نے اپنے مدارس کے ماحول کو قرون وسطیٰ کے ماحول میں ڈھالنے کی کوشش کی۔ انہوں نے دور جدید میں کسی مسئلے پر اجتہادی انداز میں سوچنے کی بجائے قدیم ائمہ کی حرف بہ حرف تقلید پر زور دیا۔ برصغیرمیں اس نقطہ نظر کو ماننے والے بڑے بڑے علماء میں قاسم نانوتوی، محمود الحسن اور احمد رضا خان بریلوی شامل تھے جن کے نقطہ نظر کو پورے ہندوستان کے دینی مدارس نے قبول کیا۔
اگرچہ ان علماء میں کچھ مسلکی اور فقہی اختلافات موجود تھے لیکن مغرب کے بارے میں ان کا نقطہ نظر بالکل یکساں تھا۔ اگرچہ ان میں سے بعض مغربی زبانیں سیکھنے اور مغربی علوم کے حصول کے مخالف نہ تھے لیکن عملاً ان کا رویہ اس سے دوری ہی کا رہا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ معاشرے میں ان کا اثر و نفوذکم سے کم تر ہوتا چلا گیا اور ان کے نقطہ نظر کو ماضی کی چیز سمجھ لیا گیا۔ جدید تعلیم یافتہ طبقہ ان سے بیزار ہونے لگا اور آہستہ آہستہ یا تو پہلے نقطہ نظر کو قبول کرکے الحاد کی طرف چلا گیا یا پھر اس نے تیسرے اور چوتھے نقطہ نظر کو قبول کیا۔
معاشرے میں اب ان اہل علم کا کردار یہی رہ گیا کہ وہ مسجد میں نماز پڑھا دیں، کسی کے گھر میں ختم قرآن کردیں یا پھر نکاح، بچے کی پیدائش اور جنازے کے وقت چند رسومات ادا کردیں۔ عملی زندگی میں ان کے کردار کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جمعہ کی نماز کے وقت لوگ اپنے گھروں میں بیٹھ یہ انتظار کر رہے ہوتے ہیں کہ کب مولوی صاحب وعظ ختم کریں اور وہ مسجد میں جا کر نماز جمعہ ادا کریں۔ جیسے ہی وعظ ختم ہونے کے قریب ہوتا ہے ، لوگ جوق در جوق مسجد کی طرف آنے لگتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے لوگوں کو ان کے وعظ اور تقاریر سے کوئی دلچسپی نہیں۔ انہی روایتی علماء میں سے بعض نے جدید دنیا کے علوم سے واقفیت حاصل کرکے عصر حاضر کے زندہ مسائل کو اپنا ہدف بنایا ہے۔ عام روایتی علماء کی نسبت ان کا اثر و نفوذ معاشرے میں بہت زیادہ ہے اور ان کی دعوت کو سننے والے افراد کی کوئی کمی نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
متجددین
اس دور میں امت مسلمہ کی علمی و فکری قیادت برصغیر اور مصر کے اہل علم کے ہاتھ میں آچکی تھی۔ بعض مسلمان مفکرین نے اسلام کو جدید الحادی نظریات سے منطبق (Reconcile) کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے اس مقصد کے لئے اسلام کے بعض بنیادی عقائد و اعمال کا بھی انکار کردیا۔ اس نقطہ نظر کو ماننے اور پھیلانے والوں میں ہندوستان کے سرسید احمد خان ، اورمصر کے طٰہٰ حسین اور سعد زغلول شامل ہیں۔ اسی فکر کو بیسویں صدی میں غلام احمد پرویز اور ان کے شاگرد ڈاکٹر عبد الودود نے پیش کیا۔ روایتی اور جدید نقطہ نظر کے حامل علماء کے اثر و رسوخ کے پیش نظر اس فکر کو مسلم معاشروں میں عام مقبولیت حاصل نہ ہو سکی تاہم اس سے اشرافیہ کا ایک اہم حلقہ ضرور متاثر ہوا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
جدید مصلحین
چوتھا رد عمل ان اہل علم کا تھا جو روایتی علماء کے قدیم علمی ورثے کے ساتھ ساتھ جدید علوم سے بھی واقفیت رکھتے تھے۔ ان لوگوں نے مغرب کے الحادی افکار پر کڑی نکتہ چینی کی اور تیسرے نقطہ نظر کے حامل علماء کے برعکس اسلام کو معذرت خواہانہ انداز کی بجائے باوقار طریقے سے پیش کیا۔ انہوں نے روایتی علماء پر تنقید کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت تو ناقابل تغیر ہے لیکن قرون وسطیٰ کے علماء نے اپنے ادوار کے تقاضوں کے مطابق جو قانون سازی کی تھی، اس کی تشکیل نو (Reconstruction) کی ضرورت ہے۔ روایتی علماء کے برعکس انہوں نے جدید سائنس و ٹیکنالوجی کے حصول پر زور دیا۔
اس نقطہ نظر کے حاملین میں ہندوستان کے اہل علم میں سے محمد اقبال، ابوالکلام آزاد ، شبلی نعمانی، سید سلیمان ندوی، حمید الدین فراہی اور سید ابوالاعلیٰ مودودی اور مصر کے علماء میں رشید رضا، حسن البنا اور سید قطب شامل ہیں۔ ان کے علاوہ دوسرے ممالک کے جدید اہل علم نے انہی کی پیروی کی۔ اسی نقطہ نظر کے حاملین نے عالم اسلام میں بڑی بڑی تحریکیں برپا کیں جنہوں نے جدید طبقے کو اسلام سے متعارف کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔ روایتی علماء کی نسبت انہیں تعلیم یافتہ طبقے میں کافی زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی اور ان کے اثرات اپنے اپنے معاشروں پر نہایت گہرے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مغربی اور مسلم معاشروں پر الحاد کےاثرات
الحاد کے اس عروج نے مغربی اورمسلم معاشروں پر بڑے گہرے اثرات مرتب کئے۔ یہ کہنا مبالغہ نہیں ہو گا کہ انہوں نے قدیم ورثے کی جڑوں کو ہلا کر رکھ دیا اور عیسائیت اور اسلام کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج پیدا کر دیا۔ ہم الحاد کے اثرات کو نظریات، فلسفے، سیاست، معیشت ، معاشرت اور اخلاق ہر پہلو میں نمایاں طور پر محسوس کر سکتے ہیں:

عقائد، فلسفہ اور نظریات
سب سے پہلے ہم نظریاتی اور فلسفیانہ پہلو کو لیتے ہیں۔ الحاد نے عیسائیت اور اسلام کے بنیادی عقائد یعنی وجود باری تعالیٰ، رسالت اور آخرت پر حملہ کیا اور اس کے بارے میں شکوک و شبہات پھیلائے۔ خدا کے وجود سے انکار کردیا گیا، رسولوں کے تاریخی وجود کا ہی انکار کردیا گیا اور آخرت سے متعلق طرح طرح کے سوالات اٹھائے گئے۔ اس ضمن میں ملحدین کو کوئی خاص کامیابی حاصل نہ ہوسکی کیونکہ یہ تینوں عقائد مابعد الطبیعاتی حقائق سے تعلق رکھتے ہیں جسے اس دنیا کے مشاہداتی اور تجرباتی علم کی روشنی میں نہ تو ثابت کیاجاسکتا ہے اور نہ رد کیا جاسکتا ہے۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ان ملحدین نے عیسائیت پر ایک اور طرف سے بڑا حملہ کیا اور وہ یہ تھا کہ قرون وسطیٰ کے عیسائی علماء نے اپنے وقت کے کچھ سائنسی اور فلسفیانہ نظریات کو اپنے نظام عقائد (Theology) کا حصہ بنا لیا تھا جیسے زمین کائنات کا مرکز ہے اور سورج اس کے گر دگھومتا ہے۔ جب جدید سائنسی تحقیقات سے یہ نظریات غلط ثابت ہوئے تو بہت سے لوگوں کا پوری عیسائیت پر اعتماد اٹھ گیا اور انہوں نے فکری طور پر بھی الحاد کو اختیار کرلیا۔ اسلام میں چونکہ اس قسم کے کوئی عقائد نہیں، لہٰذا اسلام اس قسم کے حملوں سے محفوظ رہا۔ یہی وجہ ہے کہ الحاد کو مغرب میں تو بہت سے ایسے پیروکار مل گئے جو ہر قسم کے مذہب سے بیزاری کا اعلان کرکے خود کو فخریہ طور پر ملحد (Atheist) کہتے ہیں لیکن مسلمانوں میں انہیں ایسے پیروکار بہت کم مل سکے۔ مسلمانوں میں صرف ایسے چند لوگ ہی پیدا ہوئے جو زیادہ تر کمیونسٹ پارٹیوں میں شامل ہوئے۔ اگر ہم کمیونسٹ تحریک سے وابستہ نسلی مسلمانوں کا جائزہ لیں تو ان میں سے بھی بہت کم ایسے ملیں گے جو خود کو کھلم کھلا دہریہ یا ملحد کہلوانے پر تیار ہوں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
عیسائیت پر ملحدین کا ایک اور بڑا حملہ یہ تھا کہ انہوں نے انبیاء کرام بالخصوص عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کے وجود سے انکار کردیا۔ انہوں نے آسمانی صحیفوں بالخصوص بائبل کو قصے کہانیوں کی کتاب قرار دیا۔ اس الزام کا کامیاب دفاع کرتے ہوئے کچھ عیسائی ماہرین آثار قدیمہ نے اپنی زندگیاں وقف کرکے علمی طور پر یہ بات ثابت کردی کہ عیسیٰ علیہ السلام ایک تاریخی شخصیت ہیں اور بائبل محض قصے کہانیوں کی کتاب ہی نہیں بلکہ اس میں بیان کئے گئے واقعات تاریخی طور پر مسلم ہیں اور ان کا ثبوت آثار قدیمہ کے علم سے بھی ملتا ہے۔ یہ الحاد کے مقابلے میں عیسائیت کی بہت بڑی فتح تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اسلام کے معاملے میں ملحدین ایسا نہ کرسکے کیونکہ قرآن اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخی حیثیت کو چیلنج کرنا ان کے لئے علمی طور پر ممکن نہ تھا۔ انہوں نے اسلام پر حملہ کرنے کی دوسری راہ نکالی۔ ان میں سے بعض کوتاہ قامت اور علمی بددیانتی کے شکار افراد نے چند من گھڑت روایات کا سہارا لے کر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ذاتی کردار پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کی لیکن وہ اس میں بری طرح ناکام ہوئے کیونکہ ان من گھڑت روایات کی علمی و تاریخی حیثیت کو مسلم علماء نے احسن انداز میں واضح کر دیا جسے انصاف پسند ملحد محققین نے بھی تسلیم کیا۔ ان محققین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کی عظمت کاکھلے دل سے اعتراف کیا۔
 
Top